جنگ پاکستان کے دروازے پر
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
اخبار وآراء
جنگ پاکستان کے دروازے پر ابو زید
جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تبھی پاکستان کے باشعور طبقے نے یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ پاکستان پرقبضے کی تمہید ہے۔اسی شعور کی بنا پر پاکستان نے افغانستان کے دفاع میں بھرپور کوشش کی۔ چونکہ مسئلہ دو سپر طاقتوں کا تھا تو پاکستان کے لئے ایک مضبوط مؤقف اختیار کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ لیکن جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا تو پاکستان نے پرویز مشرف کی قیادت میں امریکہ کے مؤقف کے آگے سرجھکادیا۔ اس مؤقف کو اختیار کرنے میں پاکستانی معاشرے کا با اثر طبقہ مشرف کے ساتھ تھا۔ اگرچہ عوام کی اکثریت امریکہ کا ساتھ دینے کے خلاف تھی۔میڈیا کے "دانشور " طبقے نے یہ دلیل دی کہ افغانستان کی خاطر پاکستان کو پتھر کے دور میں نہیں پہنچایا جاسکتا۔ مشرف صاحب نے کچھ مخصوص معنوں میں"سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ بھی لگایا۔کچھ مخلص طبقوں نے اس کے عواقب کے بارے میں بہت کچھ سمجھایا لیکن پاکستان کی اشرافیہ ایسے کسی مؤقف کو اختیار کرنے کے موڈ میں نہیں تھی جس سے ان کو اپنے عیش و آرام کی قربانی دینی پڑے۔ بلکہ اس مؤقف کو اختیار کرنے کی ایک وجہ" طالبان کے اسلام" سے بغض بھی تھا۔ اب بات واضح سے واضح تر ہوتی جارہی ہے۔ پہلے پاکستان کو رسد کے لئے اپنی زمین دینی پڑی، پھر ہوائی اڈے دینے پڑے، پھر ڈرون کے حملوں کو بلا مزاحمت برداشت کرنا پڑا اوراب براہ راست پاکستان کی سرحد کے اندر امریکی حملے بھی ہورہے ہیں۔بلکہ بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے، اب پاکستان کے اندر پاکستانی چوکی پر حملہ کر کے تین پاکستانی فوجیوں کو مارا بھی جاچکا ہے۔ ایسے ہر واقعے کے بعد سننے میں یہی آتا رہا کہ پاکستانی حکومت نے سخت مؤقف اختیار کیا ہوا ہے۔ پھر وہی بات جس پر پاکستانی حکومت کا مؤقف ’سخت‘ ہوتاتھا روز کا معمول بن جاتی ہے۔ خبر یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو "سوری "کہہ دیا ہے۔ پاکستانی حکومت میں اتنا دم خم تو ہے نہیں کہ قصور واروں کو سزا دینے کا مطالبہ کرے۔ خدا نہ کرے کچھ دنوں کے بعد یہ بھی عام واقعہ ہوجائے اور "سوری " کہنے کی ضرورت بھی نہ رہے۔ بہرحال اپنے پڑوسی مسلم ملک کا سودا کر لینے کے نتیجے میں،خدانخواستہ، یہ جنگ اب پاکستان کے در پر دستک دے رہی ہے۔ ’ضیاءالحق کی غلطیاں‘ صبح شام نکالنے والے پاکستان کے حکمران طبقہ اور فکری اشرافیہ نے تو بڑی دیر سے ٹھان رکھی ہے کہ یہ تب تک اپنی پالیسی بدلنے والے نہیں جب تک یہ آگ ان کے اپنے دروازے تک نہ پہونچ جائے اور اصل میں یہ ہے کہ جب تک ان کا اپنا مفاد خطرے میں نہ آ جائے۔ جو نابغے اِس وقت میڈیا پر بیٹھ کر اِس وقت ٹرا رہے ہیں کہ اَسی کی دہائی میں افغان جہاد کی مدد کر کے پاکستان نے ایک بڑی غلطی کی تھی اور وہ ابھی تک مصر ہیں کہ حالیہ دہائی میں افغان جہاد کی مدد سے دستکش ہو کر بلکہ اس کے خلاف جنگ کا حصہ بن کر انہوں نے بہت بڑی عقلمندی کی ہے.. مجاہدین نہ ہوتے تو وہ مینڈک خور سانپ ان کو کب کا نگل چکا ہوتا! یہاں بھی دعا ہے، اللہ تعالیٰ ہی اپنی مہربانی سے طالبان کو وہ نصرت دے دے کہ امریکہ کے ٹخنوں میں اِس قدر جان ہی باقی ہی نہ رہے کہ وہ پاکستان کو نگلنے کا سوچے۔ ورنہ پاکستان کو لینا اور اس کے اندر پائے جانے والے ’اسلامی خطرے‘ کو بڑا ہونے سے پہلے کچل دینا اِس سپر پاور کا بھی ایک بڑا ہدف ہے۔ بڑی دیر سے ایسا ہو چکا ہے کہ ہمارے اِن مسلم ملکوں کے ”قومی مفادات“ بھی اب مجاہدین کی کامیابیوں کے ساتھ ہی منسلک ہو چکے ہیں۔ ہاں محض کسی کے ”ذاتی مفادات“ ہوں تو اور بات ہے، اور اس کیلئے تو واقعتا امریکہ اور بھارت ہی ایک بہتر ’آپشن‘ ہے! اور اب تو شاید اسرائیل کی بھی ضرورت ہے! اللہ تعالیٰ ہمارے سب مسلم خطوں کو اِس عفریت سے محفوظ رکھے۔ حوالہ
|
|
|
|
|
|