بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ
أَمَّا بَعْدُ۔۔
اس سے پہلے کہ
“گھیرا” اور تنگ ہو جائے..
واقعات رو نما ہو جانے کے بعد جاگ اٹھنا سوئے رہنے
سے یقینا اچھا ہے، البتہ ”ہوش مندی“ کی تعریف میں نہیں آتا....
”ہوش مندی“ یہ ہے کہ آپ واقعات رونما ہونے
سے پہلے بیدار ہوں اور واقعات کے رخ کا نہ صرف پیشگی اندازہ رکھیں بلکہ اس کیلئے
پوری طرح چوکس اور تیار ہوں۔ بلکہ اصل ہوش مندی یہ ہے کہ واقعات کو وجود میں لانے
والے ہی آپ ہوں نہ کہ آپکا حریف۔ عمل کرنے میں آپ سابق pro-active ہوں نہ کہ لاحق re-active ۔
سب واقعات آپکا حریف برپا کر رہا ہو اور آپکا کام اُس پر ’رد عمل‘ سامنے لانا ہو
اور تن دہی کے ساتھ اُسکا ’جواب‘ دینا، درحقیقت یہ تن دہی اور ہوش مندی نہیں، بے
بسی ہے۔ وہ ”شاٹ“ لگائے اور آپ ’گیند‘ پکڑتے پھریں اور سانس پھولے، پسینے میں
شرابور، کسی وقت خوش ہوں کہ آپ نے اُسکا ’رن‘ بننے نہیں دیا، اِسکو ’جد وجہد‘ نہیں
کہا جائے گا۔ ’گیند‘ پکڑوانے کیلئے آپکے حریف کو لازماً کوئی ’مدمقابل‘ چاہیے؛
ورنہ اُسکا اپنا ”ٹیلنٹ“ بھی ظہور نہ کر پائے گا! یہ صورتحال اور بھی درد انگیز ہو
جاتی ہے جب آپ پر کھلتا ہے کہ وہ عمل جس میں آپ خوب تندہی کا مظاہرہ کر رہے تھے،
اُسکو ’کھیل‘ بھی صرف آپ سمجھ رہے تھے، کیونکہ ’کھیل‘ بھی ہو تو اُسکی بابت فریقین
کی کچھ توقعات ہوتی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہر کسی کو باری ملے، جبکہ بڑے
عشروں کی مشقت کے بعد یہاں آپ پر کھلتا ہے کہ حریف کی نظر میں وہ محض ’پریکٹس‘ تھی
جس میں گیند پکڑ کر لانے والا محض اِسی کام کیلئے مخصوص ہوتا ہے، اِسکے سوا پورے
کھیل میں اُسکا کوئی کام ہوتا ہی نہیں!
ہاں وہ خوش امید جو اَب بھی ’باری‘ کے انتظار میں
کھیلنے کا پورا پورا ارادہ اور پروگرام رکھتے ہیں.. وہ سب اصحابِ ہمت و دانش ہماری
اِس ’تند وترش‘ کے مخاطب نہیں۔ یوں بھی جہاں ایسی دلجمعی اور یکسوئی ہو، یہاں تک
کہ وہ قیامتیں جو ہمارے آس پاس برپا ہو رہی ہیں بے اثر جا رہی ہوں، وہاں ہماری
”تندوترش“ کر ہی کیا سکتی ہے؟! کوئی ایسی قیامت آنے سے رہ تو نہیں گئی ہے جو ہم
اِن لگے بندھے معمولات پر نظر ثانی کے اب بھی روادار نہ ہوں! صورتحال کو کسی نئے
زاویے سے دیکھ پانا ایسے ہی اصحاب سے متوقع ہو سکتا ہے جو اِس کھیل کی ’افادیت‘ کے
بارے میں اَب مزید کسی شک و شبہے میں نہیں رہ گئے ہیں۔ منہجِ مطلوب کا تعین اور
امکانات کی دنیا میں نظر دوڑانا ضرور مطلوب ہے، لیکن ’موجود‘ سے اب بھی بیزار نہ
ہونا ’خوش امیدی‘ کی ایک اندوہناک صورت ہے۔
کاش ہم اندازہ کر لیں، ہزاروں خوفناک بلائیں ہمیں
نگلنے کیلئے کس طرح منہ کھولے ہوئے ہیں، اور وقت ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ ہمارا
ساتھ چھوڑتا جا رہا ہے۔ درست ہے کہ اچھے اور برے حالات قوموں کی زندگی میں آتے اور
جاتے رہتے ہیں، مگر جو سوال اِس وقت حد سے بڑھ کر پریشان کر رہا ہے.... اور اگر
کسی کو آج یہ سوال پریشان نہیں کر رہا پھر تو ایک مرض کو لاعلاج مان لینے میں ہرگز
دیر نہ کرنی چاہئے اور مریض کے برو مند ہونے سے متعلق امیدوں کو خود فریبی سے
تعبیر کرنا چاہئے.... وہ پریشان کن سوال یہ ہے کہ: بہت کچھ پاس ہونے کے باوجود جس
طرح ہم اپنے اِس ماحول میں غیر متعلقہ irrelevant ہو کر رہ گئے ہیں (جی ہاں
’غیر موثر ہی نہیں بلکہ آخری حد تک ”غیر متعلقہ“) یہ صورتحال آخر ہمیں کہاں
پہنچانے والی ہے؟ حضرات! کیا اِس سے پہلے بھی کبھی ہم اِس حد تک غیر متعلقہ اور
زائد از ضرورت دیکھے گئے ہیں؟
٭٭٭٭٭
یہ ہرگز مت کہئے کہ یہ بے بسی اور کس مپرسی، جس کی
نظیر ہماری پوری تاریخ میں کہیں نہ ملے گی، اِس لئے ہے کہ اِس وقت ہم ”طاقت“ میں
نہیں یا یہ کہ اِس وقت ہم ”تھوڑے“ ہیں یا یہ کہ سب ”وسائل“ ہمارے حریف کے پاس ہیں،
اس لئے اُس کے کھلانے پر ہی ہمیں کھیلنا پڑ رہا ہے اور اگر حریف کا اپنا ہی موڈ
ہمیں کھلانے کا نہ ہو تو کوئی برائے نام کردار ادا کرنا بھی ہمارے بس میں نہیں
ہوتا۔ اور اگر ”یہ“ نہ کریں تو کیا کریں؟ بلکہ یہ بھی اگر کرنے کو مل جائے تو بسا
غنیمت ہے! (وہی ’متبادل‘ کا نصف صدی پرانا بوسیدہ چیلنج، جس کی تکرار اور اعادہ سے
ابھی تک ہمارا جی نہیں بھرا!)
اِس سے بڑھ کر خود فریبی کوئی نہیں ہو سکتی کہ اس
بے بسی اور لاچاری کا سبب ہم اپنی ’ناتوانی‘ اور ’قلتِ تعداد‘ میں تلاش کریں۔ امام
کی بجائے ماموم دیکھے جانے اور ”سابق“ (pro-active) کی بجائے ”لاحق“
(re-active) نظر آنے کا سبب اگر ہم اپنی ’غیر مقبولیت‘
یا اپنی ’نارسائی‘ میں تلاش کرتے ہیں یا اپنے اِس روگ کی علت ہم دشمن کو حاصل
کثرتِ وسائل میں ڈھونڈتے ہیں تو یہ اِس بات کی دلیل ہو گی کہ کشمکشِ حیات میں
ہماری رغبت اور دلچسپی آخری حد تک دم توڑ چکی ہے اور ایک منفعل تابع
a passive follower ہو رہنے کے سوا ہم دنیا میں کوئی اور
پوزیشن رکھنے سے واقف تک نہیں رہے۔ حق یہ ہے کہ ”عمل“ اور ”تاثیر“ کی پوزیشن میں آ
کر رہنا اور حریف کو ”ردِعمل“ اور ”تاثر“ کی پوزیشن میں آنے پر مجبور کر دینا نہ
کسی کثرتِ تعداد پر منحصر ہے اور نہ کسی قسم کے مادی تفوق پر۔ تحریکی دنیا میں اِس
کا کل انحصار جس بات پر ہے وہ ہے بطور ایک موحد جماعت:
1) آپ کا کیس جو آپ اپنے ماحول میں پیش
کرنے کیلئے پاس رکھتے ہیں، اور
2) اپنے اُس کیس کو پیش کرنے کی وہ صلاحیت
اور استعداد جو آپ نے اپنے یہاں بہم پہنچا رکھی ہے۔
ورنہ جو حالتِ استضعاف آج ہمیں درپیش ہے، وہ ہرگز
اُس حالتِ استضعاف سے بری نہیں جو مکہ کی نبوی جماعت کو عین اپنی ابتدا میں درپیش
رہی تھی۔ ظلم کے پہاڑ اُس جماعت پر بھی بے حد وحساب توڑے گئے تھے، بلکہ اُس جماعت
پر جو گزری وہ ہمارے تصور سے بڑھ کر ہے۔ مگر اِس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں جہاں تک
حالات اور واقعات کو جنم دینے اور جہت دے رکھنے کا تعلق ہے تو وہاں ”زمامِ کار“
پوری طرح اُس مٹھی بھر جماعت کے ہاتھ میں رہی تھی جبکہ فریق مخالف اُس کے ”عمل“ action کے سامنے ”رادِ عمل“ re-active ہونے
پر آخری حد تک مجبور تھا۔ ”شاٹ“ یہ جماعت لگا رہی تھی اور فریق مخالف ’گیند پکڑنے‘
کیلئے پورے میدان میں بھاگا پھر رہا تھا اور اِسی کردار کے رکھنے اور نبھانے پر
مجبور کر دیا گیا تھا۔ ”کھیل“ شروع کرنا بھی اِسی جماعتِ باصفا کا اختیار تھا اور
”کھیل“ ختم کرنا بھی۔ پس یہ واضح ہو جانا ضروری ہے، فریق مخالف کو اُس کی تمام تر
قوت اور شان و شوکت کے باوجود passive اور
re-active ہو جانے کی پوزیشن میں لے آنا اور اِس پوزیشن
سے باہر نہ آنے دینا آپ کی کثرتِ تعداد پر منحصر ہے اور نہ آپ کے مادی تفوق پر اور
نہ آپ کو حاصل وسائل کی بہتات پر۔
آپ اگر قیامِ حق کیلئے میدان میں اتری ہوئی ایک
جماعت ہیں اور آپ کے مقابلے پر ایک کھلی جاہلیت اور برہنہ باطل ہے، تو میدانِ عمل
کی ”زمام“ اپنے ہاتھ میں لے رکھنے کیلئے اور حریف کو ”دفاع“ اور ”ردعمل“ کی پوزیشن
میں محصور کر رکھنے کیلئے کسی چیز کی ضرورت نہیں سوائے اِس ایک بات کے کہ وہ حق جس
کیلئے آپ میدان میں اترے ہیں آپ کے اندر کس حد تک بول رہا ہے اور وہ باطل جس کو
مٹانے کیلئے آپ میدان میں اترے ہیں کتنی کامیابی کے ساتھ اُس حق کی زد میں لے آیا
گیا ہے۔
وہ عمل جس کے لئے انبیاءکے پیروکار میدان میں
اترتے ہیں، اُس کا کل انحصار اُنہی موضوعات کے اِحیاءپر ہے جو حق اور باطل کے آمنے
سامنے آنے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ ”فضائے بدر“ پیدا کرنا ہوتی ہے، باقی کام
آپ کے دین اور آپ کے عقیدہ کو خود کرنا ہوتا ہے۔ ساری قوت آپ کے دین اور عقیدے میں
ہے آپ کو صرف اُسے بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ اِس عمل کا پورا ایندھن آپ کو یہیں سے
فراہم کرنا ہوتا ہے۔ خدا نے حق اور باطل کے مابین تعلق ہی کچھ ایسا رکھ دیا ہے
(وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا) کہ
حق کے حصے میں ”پیش قدمی“ اور باطل کے حصے میں ”پسپائی“ کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔
روشنی کے مقابلے پر ٹکے رہنا اندھیروں کے بس میں ہی نہیں رکھا گیا۔ (یہی وجہ ہے کہ
قرآن میں بار بار حق کو ”روشنی“ اور سبیلِ طواغیت کو ”اندھیروں“ سے تعبیر کیا گیا
ہے)۔ ”اندھیروں“ کی سرشت ہی یہ رکھی گئی ہے کہ ”روشنی“ کے میدان میں آتے ہی وہ بے
حقیقت ہو کر رہ جائیں، جبکہ ”روشنی“ اندھیروں کو چھانٹ کر رکھ دینے کا ہی دوسرا
نام ہے۔ حق اور باطل کے مابین خدا نے ازل سے رشتہ ہی کچھ ایسا رکھ دیا ہے۔ شرط یہ
ہے کہ ”حق“ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آئے۔ ”حق“ اپنے اُسی اصیل چہرے کے ساتھ
برآمد ہو جس میں ”باطل“ کیلئے موت کا پیغام صاف پڑھا جاتا ہے اور جس کو آپ کا پورا
ماحول اور معاشرہ پڑھے بغیر کبھی رہ ہی نہیں سکتا۔ شرط یہ ہے کہ حق اپنے ”حق“ ہونے
کی قوت اور بل بوتے پر سامنے آئے نہ کہ باطل کی بیساکھیوں پر سہارا ٹیکتے ہوئے! حق
اپنی حقانیت کے ساتھ چھاتا ہوا آئے نہ کہ باطل کے فریم ورک میں فٹ کیا جانے کی عرضیاں
اور درخواستیں تھامے ہوئے! وہ حق جو باطل کی بیساکھیوں کا محتاج کر رکھا گیا ہو
اور اِن بیساکھیوں کے ’متبادل‘ کا سوال کسی عاجز کر دینے والے سوال کی مانند بار
بار اور مسلسل زبان پر لایا جا رہا ہو، وہ حق جس کے ہاتھ میں باطل کے فریم ورک میں
فٹ ہونے کیلئے عرضیاں اور درخواستیں دیکھی جا رہی ہوں، اُس کے ساتھ تو ہم خود ہی
وہ زیادتی کر چکے ہوتے ہیں جس کے بعد باطل کو اُس کے ساتھ کسی زیادتی کی ضرورت
نہیں رہتی! اُس پر تو کوئی ترس ہی کھائے تو کھائے، اُس کو ڈھانے اور گرانے کا طعنہ
کون لے؟! وہ حق جس کو ہم خود اپاہج کر چکے ہوں اُس کو کچھ کہنے کا پاپ کوئی کیوں
کرے؟! اُس کا لہو کسی اور کے ہاتھ پر تلاش کرتے پھرنا تو سراسر نادانی ہے، یا پھر
ظلمِ عظیم۔ ایسا ’حق‘ تو ہم سے بڑھ کر شاید باطل کی اپنی ضرورت ہے، وہ اس کو ختم
کرنے کا گناہ مول کیوں لے؟! اُس کو تو بھنک بھی پڑے کہ یہاں ایک ایسا ’حق‘ دستیاب
ہے جو باطل کے سایۂ عاطفت میں دن گزارنے کا خواہشمند ہے تو وہ اُس کیلئے اپنے سب
زیریں و بالا ایوانوں کے دروازے کھول دیتا ہے بلکہ کسی وقت اُس کے ضعف اور
لڑکھڑاہٹ کو دیکھتے ہوئے خود ہاتھ پکڑ کر ’نشست‘ پر رونق افروز کراتا ہے! البتہ
اپنی ہی ’لڑکھڑاہٹ‘ کسی وقت حد سے بڑھ جائے تو وہ بھی پھر کیا کرے؟! جس ضعیفی کی
جڑیں خود ہمارے ہی وجود کے اندر ہوں، جس ناتوانی کا سارا راز باطل کے ساتھ ہمارے
ہی قربت اپنا رکھنے میں پوشیدہ رہا ہو.. ہمارا تندرست و توانا وجود جو کبھی حق کے
خمیر سے اٹھایا گیا تھا، باطل کے ساتھ اپنائی جانے والی جس قربت کے باعث طویل
برسوں تک گھلتا چلا گیا ہو.. ہماری وہ ضعیفی کسی دن اپنی آخری حد کو پہنچ جائے تو
کوئی ہمارے لئے کیا کر سکتا ہے؟ جس کے سبب بیمار ہوئے، اگر اُسی کو تریاق جان کر
اُس کی بڑی بڑی خوراکیں حلق میں انڈیلی جاتی رہیں گی، تو ”صحت مندی“ کا یہ سفر تو
کسی دن ہمیں موت سے بھی ہمکنار کر سکتا ہے! باطل کے ساتھ ”قربتِ باہمی“ کی ایک
ایسی پر سکوت و پر عافیت فضا میں خیر سے اب یہ توقعات بھی رکھی جانے لگیں کہ یہ سب
”اندھیرے“ یکایک کسی دن ”روشنی“ کے آگے لگ کر عین اُسی خفت کے ساتھ بھاگتے پھریں
گے جوکہ ازل سے ”اندھیروں“ کا خاصہ ہے، اور یہ کہ اچانک کسی دن یہ خبر آئے گی کہ
”روشنی“ ان اندھیروں کے تعاقب میں عین اُسی زور اور بلا خیزی سے بڑھتی چلی جا رہی
ہے جوکہ ہمیشہ سے ”روشنی“ کا شیوہ ہے.. اور یہ کہ جس طرح دن کا سویرا شبِ ظلمت کو
تار تار کرتا ہے اور اُس کے مقابلے میں اپنے وجود اور اپنی حقیقت اور اپنی ماہیت
پر آپ اپنی دلیل ہوتا ہے ویسا ہی ایک روشن اور تابناک دن آپ کے ہاتھوں اِس قوم کو
دیکھنا نصیب ہو جائے گا، اور جس کو کہ ہمارے کچھ طبقوں کی اصطلاح میں ”اسلامی
انقلاب“ کہا جاتا ہے.. ”درمیانی راہوں“ کے اِس پُرنشیب سفر کے دوران.. اور باطل کے
ساتھ ”قربتِ باہمی“ کی اِس پُر سکوت و پُر عافیت فضا میں ایسے کسی خوش گوار حادثہ
کے رو نما ہو جانے کی توقعات بھی مسلسل رکھتے چلے جانا.... یہ تو کسی اور کے ساتھ
نہیں اپنے ہی ساتھ زیادتی ہو گی۔
پس یہ آخری درجے کی خود فریبی ہو گی اگر اِس بے
بسی اور کس مپرسی کی اصل علت ہم اپنے وجود کے سوا کہیں اور تلاش کرنے لگتے ہیں۔
اِسکا طعنہ ہمارے کسی حریف کو جاتا ہے اور نہ کسی بدخواہ کو۔ ”قُلْ هُوَ مِنْ
عِندِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ“۔(1) ہماری طاقت اور
توانائی کا سرچشمہ ہمارا ”عقیدہ“ ہے جس کی ساری آب و تاب اس کے خالص پن اور اس کے
ٹھوس پن سے وابستہ ہے۔ ہماری سب جان اُس ”حق“ میں رکھ دی گئی ہے جو باطل سے ممیز
ہو کر ہی دوست و دشمن ہر دو کی پہچان میں آ سکتا ہے اور جب تک اس ”حق“ کو عین اِس
روپ کے ساتھ معاشرے میں لے کر نہ اترا جائے، اُس کا ”غلبہ“ تو کیا اُس کا ”وجود“
ہی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭
ہاں اگر آپ قیامِ حق کیلئے میدان میں اتری ہوئی
ایک جماعت نہیں، یا آپ کے مقابلے پر اگر ایک کھلی جاہلیت اور ایک برہنہ باطل
نہیں.. تو پھر بات اور ہے....!!! آپکے مقابلے پر جو چیز ہے وہ بھی کھینچ تان کر
اگر ”حق“ ہی قرار پاتی ہے(2) اور اسکو صاف صاف ”باطل“ ٹھہرانا اگر شدت پسندی کے
زمرے میں آتا ہے.. تو پھر آپکا اُسکے ”مقابلے“ پر آنا ہی غلط ہے اور بلکہ شدت
پسندی ہے۔ اُس کے بالمقابل آپکا ”انقلابِ نبوی“ کی بات اٹھانا ہی تب ایک نادرست
بات ہے۔ اُسکی ”اصلاح“ مقصود ہے تو اس کا طریقہ ہی پھر سراسر اور ہے۔ وہ چیز جو آپ
کے مقابلے پر ہے وہ بھی اگر ”حق“ ہی ہے یا کھینچ تان کر ”حق“ ہی بن جاتی ہے اور
اُس کو ”باطل“ کہنے کی کوئی دلیل ہماری شریعت میں نہیں پائی جاتی، تو پھر اُسکے
ساتھ تعامل کیلئے اسوہ اور نمونہ ہمارے وہ ائمۂ سنت ہیں جو اموی، عباسی اور
عثمانی ادوار کی طویل صدیاں اِس امت کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔
کوئی تیرہ سو سال کے لگ بھگ یہ عرصہ ہے کہ ائمۂ سنت کی جانب سے کبھی ”انقلاب“ کا
نعرہ نہیں لگایا گیا مگر ”اصلاح“ کا عمل تھا کہ مسلسل جاری رہا اور اپنے نہایت
اعلیٰ ثمرات دیتا رہا۔ اور آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے آج کے وہ ارجائی طبقے جو اِس
وقت کے ”اسٹیٹس کو“ کو ”اسلام“ کی سند دے رکھنا ضروری جانتے ہیں وہ اس کے مقابلے
میں ”انقلاب“ کے نعرے کو ایک بڑی بدعت اور وقت کا فتنۂ عظیم قرار دینا بھی اتنا
ہی ضروری جانتے ہیں۔(3) حق بھی یہی ہے کہ ”اسٹیٹس کو“ کو ”اسلام“ کی سند دے رکھنا
اگر واقعتا صحیح ہے تو اِس ”اسٹیٹس کو“ کے خلاف ”انقلاب“ کے نعرے بلند کرنے والوں
کو ”بدعت“ اور ”فتنہ“ کے داعی قرار دینا اصولاً قرینِ قیاس ہی ہے، کیونکہ تیرہ سو
سال کی تاریخ میں، خواہ فساد کسی وقت کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو جاتا رہا ہو، وہ
”انقلاب“ جو پچھلے کچھ عشروں سے ہمارے تحریکی موضوعات پر چھایا رہا ہے اُس کی کوئی
نظیر ہمیں اِن درمیانی صدیوں کے ائمۂ سنت کے ہاں ملتی ہی نہیں۔ پس یہ اگر ویسی ہی
یا اُس سے ملتی جلتی ہی کوئی صورتحال ہے جو تیرہ سو سال تک امت کے علماءوصلحاءکو
پورے تسلسل کے ساتھ پیش آئی رہی تھی تو پھر اِس کے خلاف ”منہجِ انقلاب“ کی نظیر
بھی ہمیں دوسری صدی ہجری تا چودھویں صدی ہجری کے اِن ائمۂ سنت کے ہاں ہی تلاش
کرنا پڑے گی، اور جوکہ واقعتا کہیں نہیں ملے گی۔(4)
پس یہ تسلیم کرنے سے مفر نہیں، بلکہ ہمارا آج کا
تحریکی عمل اپنے گرد وپیش کی یہ تصویر دیکھے اور دکھائے بغیر آگے بڑھنے کا ہی
نہیں، کہ آج ہمیں جس کفر اور جس باطل کا سامنا ہے وہ محض ’فسق و فجور‘ قسم کی چیز
نہیں جس سے کوئی تیرہ صدیوں کے لگ بھگ عرصہ ہمارے ائمۂ سنت کو پالا پڑتا رہا
تھا(5)۔ بلکہ یہ ایک ویسا ہی کفر اور باطل ہے جس کا سامنا اِس امت کو عین اِس کی
تاسیس کے وقت تھا اور جس سے ہمارے اولین سلف کو ابتداءکے اندر نبرد آزما ہونا پڑا
تھا۔ البتہ اب اَعدائے اسلام نے __ صدیوں کی اِس محنت کے بعد __ پانسہ پلٹ کر رکھ
دیا ہے۔ صدیوں کی محنت کے بعد، اور ہمارے ایک طویل خوابِ غفلت میں جا پڑنے کے
نتیجے میں، جب وہ ہم پر اپنے گھوڑے چڑھا لانے اور ہمیں پوری طرح گرا لینے میں
کامیاب ہو گئے(6) ، ہمارے نظریاتی وجود کو بڑی بے رحمی کے ساتھ کچلا اور آخر ہمارا
سب کچھ تہ و بالا کر ڈالا بلکہ ہمارے اجتماعی وجود کی تو کوئی ایک بھی اینٹ سلامت
نہ رہنے دی یہاں تک کہ قومی و سماجی سطح پر ہمیں بالکل ایک نئی صورت اور نئی شناخت
دے ڈالی.. غرض پورے ڈیڑھ سو سال وہ جی بھر کر ہمارے یہاں اودھم مچاتے رہے اور اپنی
فکری و ثقافتی یلغار سے، جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہ ملے گی، وہ ہمارے ذہین ترین
اور فعال ترین دماغوں میں اپنے عَلم پیوست کر گئے اور عقول پر اپنی مرضی کی تحریر
کندہ ہو جانے کی بابت پوری تسلی کر لینے کے بعد کہیں جا کر رخصت ہوئے.... تو اِس
کے بعد البتہ ایک بالکل نئی اور پرانے اَدوار سے یکسر مختلف صورتحال نے جنم لیا۔
یہ ایک دَور ہی نیا تھا، اور اِس پر حکم لگانے اور اِس کے ساتھ شرعی تعامل اختیار
کرنے کے معاملہ میں جو لوگ ابھی تک اپنے آپ کو ’اُموی و عباسی‘ دور میں دیکھ رہے
ہیں وہ تاریخ کے بے خبر ترین لوگ ہیں۔ یہ سر تا پیر تبدیلی جو ہمارے یہاں رونما ہو
چکی، کوئی معمولی واقعہ نہیں،بلکہ شاید تاریخ کا عظیم ترین سماجی فساد کہا جانے کے
لائق ہے۔ ڈیڑھ سو سال تک پوری آزادی کے ساتھ وہ ہمیں اپنے گھوڑوں اور اپنے ٹینکوں
تلے روندتے اور جی بھر کر ہمارے گھروں میں دندناتے اور ہمارے در و دیوار میں تصرف
کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ ہماری ’اسلامیات‘ (اور اگر آپ کہنا چاہیں تو قومی سطح پر
ہمارے فہمِ اسلام) کی ”مارکنگ“ بھی ڈیڑھ صدی تک اُنہی کا دستِ ہنر کرتا رہا ہے..
اور بالآخر اِس پورے عمل کو باقاعدہ ایک تسلسل کی شکل دے کر، اور ایک خودکار نظام
کی صورت، اپنی یہ ’امانت‘ وہ ہم میں سے اپنے سب سے قابل اعتماد شاگردوں کو سونپ
کر، اور ”ریموٹ سپروِژن“ کا ایک فعال ترین بندوبست اپنے پیچھے چھوڑ کر.. ’پوسٹ
کولونائزیشن‘ دور کا آغاز کرگئے۔ اب ہم ہیں اور اُن کا یہ ’پوسٹ کولونائزیشن‘
سسٹم، جو ہمارے خیال میں چند دستوری شقوں کی مار تھا اور چند کلمے بول دینے کے بعد
ہمیشہ کیلئے اس کو ’اسلامی‘ ہو جانے کی سند عطا ہو جانا تھی! جس کا آپ سے آپ یہ
نتیجہ ہوتا کہ اس کو ”باطل“ کہنے والوں کیلئے ’خارجی‘ اور ’تکفیری‘ ایسے القاب بھی
”ٹکسال“ سے کرنسی نوٹوں کی طرح ہی جاری ہونے لگتے!!!
٭٭٭٭٭
اِس ’پوسٹ کولونائزیشن‘ سسٹم کی یہ تصویر ذہنوں
میں واضح رہنا بے حد ضروری تھا۔ اِس کے بنانے پر استعمار کی بے حد و حساب محنت
ہوئی تھی اور اس کے پیچھے مستشرقین کے ناقابل شمار ادارے سرگرم رہے تھے۔ ہمارے
اجتماعی نظام کی اِس تصویرِ نو کے پیچھے محض کچھ ’غیر جانبدار‘ سوشل سائنٹسٹ اور
’تحقیق‘ کی بھوک سے بے چین فلسفی اور انٹلیکچُوَل نہیں تھے، اِس کے پیچھے ڈیڑھ
ہزار سال پرانا وہ یہودی بغض اور صلیبی کینہ پوری قوت کے ساتھ کارفرما تھا جس کے
سینے پر صحابہؓ و تابعینؒ کی چین تا سپین فتوحات نے کسی وقت مونگ دلے تھے اور جو
طویل صدیوں تک اُموی وعباسی و عثمانی خلافت کے پھریرے یورپ، ایشیا اور افریقہ پر
لہراتے دیکھ کر بے بسی کے ساتھ دانت پیستا رہا تھا اور جس کو ہمارے اَدوارِ خلافت
کے دوران بھی ہمیں خراب کرنے کا اگر کوئی لمحہ بھر موقعہ ملا تھا تو وہ اُسے ضائع
کرنے کا کبھی روادار نہ ہوا تھا.. صدیوں کے اِن بھوکوں کے آگے اب جب پورے ڈیڑھ سو
سال تک ہم ”کھانے کا تھال“ بن کر پڑے رہے تھے تو کیا وہ اپنی چودہ سو سالہ حسرتیں
جی بھر کر پوری کئے بغیر ہی ہمیں چھوڑ جاتے؟ یا پھر ڈیڑھ سو سال کا وہ عرصہ تاریخ
کے اُن مستعد ترین، فعال ترین اور منظم ترین اداروں کیلئے کوئی ناکافی مدت تھی؟!
ہمارے بھلے وقتوں میں یہ حال رہا ہے کہ کسی ایک دن کیلئے بھی ہماری خلافت کمزور
ہوئی تو اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے کیلئے وہ ہر کوشش کر گزرتے رہے، اور یہ بات کبھی
کسی پر اوجھل نہیں رہی۔ صدیوں کا یہ انتظار، صدیوں کی یہ محنت، صدیوں کا یہ کینہ
جس کو باہر آنے کا کوئی راستہ نہ ملا تھا تو وہ برابر سینوں کے اندر تعفن کرتا رہا
تھا، صدیوں کی یہ نارسائیاں، صدیوں کی یہ حسرتیں.. اِس ”شکار“ کے بالآخر قابو آنے
پر یونہی اس کو چھوڑ جاتیں اور محض ہماری ”تعلیم و ترقی“ کیلئے پریشان بھاگی
پھرتیں اور اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہمارے بچوں کے ناز نخرے
اٹھاتیں....؟؟؟!
پس یہ ایک نہایت محکم و دُوررَس بندوبست تھا اور
باقاعدہ نگرانی کے تحت کام کرتا تھا۔ وقت آ چکا تھا کہ مستشرقین کے قائم کردہ اُس
ثقافتی وسماجی انتظام کو اب ایک نئی شکل دی جائے جو یہاں کے ’مقامی ایلی منٹ‘ پر
زیادہ سے زیادہ انحصار کرے۔ یقینا اِس کا تولیدی نظام reproductive system اب اِس قابل ہو گیا
تھا کہ اِس پر یہ بھروسہ کر لیا جائے اور بلاشبہ یہ اس اعتماد پر اُن کی توقعات سے
بڑھ کر پورا اترا۔ انگریز بہادر کی رعایا ہونے پر صبح شام خدا کا شکر کرنے کی
تلقین اور اُس کے خلاف ”جہاد“ کا خیال آجانے کو ’شیطان کا وسوسہ‘ اور ’وہابیوں کی
گمراہی‘ اور ’عقیدے کا فساد‘ قرار دینے والے فتاویٰ تو اِس سے پہلے بھی کچھ ایسے
ناپید نہ رہے تھے اور اِس پر ’قرآن و سنت سے دلائل‘ لے آنا بھی کبھی ناممکنات میں
نہ گنا گیا تھا، اب اگر عین وہی ثقافتی و سماجی عمل کرسمس منانے والوں کی بجائے
عید اور میلاد منانے والوں کے ہاتھوں چلنا شروع ہو جاتا ہے، تو اِس پرناشکری کیسا
کیسا کفر نہ ہوتی؟؟! اور کیا اِس پر ’فتاویٰ‘ کے ڈھیر لگنے سے رہ جاتے؟؟! چنانچہ،
اِس ’پوسٹ کولونائزیشن‘ کے اسٹیج سے پردہ ہٹتے ہی.. لازم تھا کہ جہاں ’آزادی‘ کے
ترانے ہر طرف سنے جائیں وہاں ’مذہب‘ کا اہتمام کرنے والوں کیلئے ’فتاویٰ‘ بھی وافر
طور پر میسر ہوں۔ بلکہ ’مسالک‘ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے یہ سہولت تک ہو کہ اِس
نظام سے وفاداری کے وجوب پر آدمی کو خاص اپنے ہی مسلک کا جاری کردہ فتویٰ دست یاب
ہو اور کم از کم اِس ضرورت کیلئے کسی کو ’دوسرے‘ مسلک پر انحصار کی احتیاج نہ رہے۔
ہوتا بھی کیوں نہ، یہاں سب راستے ”روم“ ہی کو جا رہے تھے، چاہے جس طرف سے بھی ہو
کر جائیں!
اِس ’پوسٹ کولونائزیشن‘ انتظام کی فسوں کاری سے
دھوکہ کھا لینا ہمارے تحریکی عمل کا ایک نہایت بڑا سانحہ تھا۔ ’لیبل‘ کی اِس برائے
نام تبدیلی سے، جس نے باقاعدہ ”اسلام“ ہی کے نام پر اب ہم پر اپنے حقوق جتانا شروع
کر دیے تھے، فریب کھا جانا کم از کم اسلامی تحریکوں کے حق میں روا نہ تھا(7)....
ایک بڑی واردات ہمارے ساتھ یہیں سے ہو گئی تھی، جسکا ہم آج تک خمیازہ بھگت رہے
ہیں۔ واقعہ محض اِتنا تھا کہ وہی باطل، جو یہاں کے قومی وسماجی و ثقافتی عمل کی
تشکیل کر رہا تھا اور مستشرقین کی محنتوں کا باقاعدہ ایک تسلسل تھا، اُسی کہنہ
باطل پر ’اسلام‘ کا ایک باریک شفاف لیبل چسپاں کر دینا مقصود تھا۔ باریک شفاف اِس
لئے کہ جہاں ایک طرف کچھ طبقے ایسے تھے جنہیں اِس ”لیبل“ سے دلچسپی ہو سکتی تھی
اور جو کہ بالعموم ہمارے اسلام پسند تھے، وہاں دوسری طرف ایسے طبقے بھی کم نہ تھے
جن کی کل دلچسپی اُس ”باطل“ سے تھی جو اس لیبل کے پس پردہ کام کر رہا تھا۔ فریقین
کو ایک ساتھ چلانے کی یہی صورت ہو سکتی تھی کہ ہر دو کو یہاں سے وہی چیز وافر طور
پر ملے یا ملتی ہوئی محسوس ہو جو اُس کی اپنی طلب ہو! باطل کے چہرے پر ایک ایسا see through پردہ تان دینے میں کئی ایک طریقوں سے کامیابی حاصل کر لی گئی۔
لیکن ہم نے دیکھا، اِس اتنے سے واقعے کی تاب لے آنا یہاں بڑوں بڑوں کیلئے مشکل ہو
گیا۔ بہت سوں کیلئے ممکن نہ رہا کہ وہ اِس کو گلے لگانے میں ذرا تاخیر ہی کر لیں
اور اِسکو ہمیشہ کیلئے ”اسلام“ کا سرٹیفکیٹ دے ڈالنے سے پہلے حقائق اور وقائع کی
دنیا میں معاملہ کی کوئی چھان پھٹک ہی کر لیں کہ آیا اِس میں کوئی صداقت بھی ہے؟!
استشراقی اداروں نے کچی گولیاں نہیں کھیل رکھی تھیں اور حق تو یہ ہے کہ ابھی پیر
پیر پر یہاں ہمیں ایسے مکر و دجل اور ایسی تلبیسات سے واسطہ پڑنا تھا اور یقینا
ایسی سب تلبیسات کو قوم پر بے اثر کرتے چلے جانے کی ذمہ داری بھی ہم اسلامی
تحریکوں ہی کے کاندھے پر تھی، مگر خود ہمارے ساتھ یہ واردات ہوئی کہ اِس پہلے ہی
ہلے میں ہم نے اپنا آپ ہار دیا.... اور تب سے آج تک ہمارے حصے میں یہاں صرف ”مشقت“
آ رہی ہے!!! ’محنت‘ اور ’جدوجہد‘ اب ہماری خوب ہو رہی ہے مگر کمال صفائی کے ساتھ
وہ ہم سے زیادہ ہمارے حریف کے کام آ رہی ہے.. صرف ایک سیاسی میدان میں نہیں بلکہ
قریب قریب ہر میدان میں ہی!!! اِس کی وجہ بے حد واضح ہے؛ ہمارا حریف اپنے اصل پر
کھڑا ہے جبکہ ہماری گرفت اپنے اصل پر باقی نہیں رہی ہے۔ اب جب ہماری محنت بھی
دوسروں کے اصل پر ہورہی ہے، تو ہماری محنت کے ثمرات بھی اُنہی کی جھولی میں کیوں
نہ گریں؟؟!
ایک ”اسلام“ ہی تھا جو اُن کے ساتھ ہمارے اِس
معرکہ میں ہمارا سب سے بڑا سہارا اور سب سے بڑا ہتھیار تھا، بلکہ ”اسلام“ ہی تھا
جو ہمارے اِس معرکہ کی بنیاد اور اساس تھا، اور جس کی خاطر ہم میدان میں تھے، مگر
دیکھ لیجئے، ”اسلام“ ہی کے قریب قریب ”جملہ حقوق“ اب اُن کے تصرف میں ہیں....!!!
کہیے تو یہ سب یونیورسٹیاں، یہ سب کالج، یہ سب
اسکول جو ہمارے بچوں کو ”اسلامیات لازمی وغیر لازمی“ کی تعلیم دینے کیلئے یہاں
”مسخر“ کر رکھے گئے ہیں اور حق اور باطل کا عجیب و غریب ملغوبہ پیش کرتے ہیں..
مسلم عقل کی تشکیل کے یہ سب فرمے کس کے تاسیس کردہ ہیں؟ یہاں تک کہ ”اسلامیات“ کے
موضوع پر ”کہاں“ کی ڈگری ان کے یہاں آج بھی سب سے معتبر مانی جاتی ہے اور ”کہاں“
کا گریجویٹ اِس ”قومی اسلامیات“ کی تشکیل میں آج بھی سب سے بڑھ کر اثر رکھتا ہے؟
سب سے پہلے تو یہی پوچھئے کہ اسلام کے ’مطالعہ‘ اور ’تحقیق‘ کا یہ سارا سلسلہ اور
یہ پورا منہج ہی کس کا ایجاد کردہ ہے؟ کہیے تو یہ سب چینل، یہ سب فورم جو یہاں
انسانی ذہن کی تشکیل کرتے ہیں اور یہاں کے ایک عام انسان کو زندگی اور وجود کی
بابت سب راہنمائی دینے کا قریب قریب واحد ذریعہ رہ گئے ہیں، یہ ہمیں دنیا کی ہی
نہیں بلکہ ”اسلام“ کی بھی جو تصویر دکھاتے ہیں اپنی حقیقت اور اساس میں وہ ”کہاں“
سے بن کر آئی ہوتی ہے؟ یہاں اگر آپ کہیں کہ ”اسلام“ کی اِس تصویر کے بنانے اور
دکھانے میں یہاں کی ’مقامی صنعت‘ کا بھی ایک بڑا حصہ ہے اور یہ کہ اِس تصویر کے سب
پرنٹ اب باہر سے بن کر نہیں آتے، تو آپ ہماری اِس بات ہی کو ثابت کریں گے کہ
استشراقی اداروں کا تاسیس کردہ یہ سلسلہ اب کامیابی کی اُس سطح کو چھو رہا ہے جہاں
اس کا تولیدی عمل reproductive process اپنی اِس ناقابل
یقین کارکردگی سے سب کو حیران کر دینے لگا ہے۔ بلکہ اِس کی اصل کارکردگی یہی تو ہے
کہ یہ آپ کو ”یہیں“ کی چیز نظر آئے!
٭٭٭٭٭
نتیجہ کیا نکلا....؟ ہمارا ”انقلاب“ تو اب بہت
پیچھے رہ گیا، خود ”اسلام“ ہی کو ہمارے ہاتھ سے لے لیا گیا!!! ”اسلام“ کے ”جملہ
حقوق“ بھی قریب قریب اب اِس نظام ہی کے پاس ہیں، یہاں تک کہ خود ہمیں اُس سے بے
دخل کرنا.. خود ہمیں اُس کی رُو سے ”منحرف“ اور ”شدت پسند“ ٹھہرانا بھی اب وہ خاص
اپنا ہی منصب جانتا ہے! ”اسلام“ پر اتھارٹی بھی اب وہ خود ہے!!! اور آج بڑی
کامیابی کے ساتھ وہ اِس جنگ کا نقشہ کچھ یوں بنا چکا ہے کہ: جہاں اسلام کو صفحۂ
ہستی سے مٹا دینے کیلئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے اور زمین کے چپے چپے پر
وہ اس کے ساتھ برسر جنگ ہے، وہاں اسلام کی ”درست“ اور ”معتدل“ تعبیر کرنے کا حق
بھی وہ خالصتاً اپنے ہی ہاتھ میں رکھے ہوئے ہے!!! یوں سمجھئے ہمارا سب کچھ ہمارے
ہاتھ سے لیا جا چکا ہے۔ ہمیں کونے میں لگانے کا جو کوئی آخری ترین تصور کیا جا
سکتا تھا وہ واقعہ رونما ہو چکا ہے اور ہم ہیں کہ انہی شروط پر کھیلنے کے آخری حد
تک متمنی ہیں! اب بھی، کوئی اِس نظام کو عین بنیاد سے ہاتھ ڈالنے کی بات کرتا ہے،
کوئی اِس باطل کو جملۃ و تفصیلاً رد کرنے کی صدا بلند کرتا ہے، جس کا سب سے پہلا
مرحلہ یہی ہو سکتا ہے کہ اِس کے ہاتھ سے ”اسلام“ کا وہ لائسنس واپس لیا جائے جو
ہماری ایک سنگین غلطی اور ایک طویل خاموشی اور کوتاہی کے باعث اس کے ہاتھ میں چلا
گیا ہے.. غرض اب بھی اگر کوئی شخص قوم کو اِس باطل سے برگشتہ کرانے کی بات کرتا ہے
تو اِس سے پہلے کہ ایسے شخص پر یہاں کے دین بیزار طبقوں کی گولہ باری شروع ہو، بہت
امکان یہ ہے کہ اسلام کی فتح ونصرت کیلئے سرگرم طبقوں کی جانب سے ہی اُس پر توپوں
کے دھانے کھول دیے جائیں!
ہمارا دشمن ہمیں مار رہا ہوتا تو کیا پروا تھی، یہ
دنیا بنی ہی اِس نقشے پر ہے کہ یہاں پر حق اور باطل کے مابین ایک معرکہ ہو، بے شک
کبھی ہم جیتیں اور کبھی وہ۔ کفر کا اسلام کے مقابلے پر آنا کونسی عجیب بات ہے؛
تعجب ہو تو خود اُن تعجب کرنے والوں پر جو تاریخ کے اِس موڑ پر جب ”گلوب“ پر حاوی
ہونے کیلئے نظریات کے مابین ایڑی چوٹی کا زور لگ چکا ہے، قوموں کے اِس گھمسان کو
یوں حیران ہو ہو کر دیکھ رہے ہیں گویا پہلی بار تاریخ پڑھنے لگے ہیں! پس یہ واقعہ
کہ دشمن ہمارے ساتھ برسر جنگ ہے، اس میں کوئی بھی بات انہونی نہیں۔ اور ہم قرآن
پڑھنے والوں اور انبیاءکے پیروکاروں کیلئے تو کچھ بھی اِس میں نیا نہیں۔ یہاں تک
کہ دشمن کو ہمارے یہاں سے ڈھیروں کے حساب سے اگر ایسے ابن الوقت اور مفاد پرست مل
جاتے ہیں جو ہمارے مابین اُس کے منصوبوں کو لے کر چلیں اور اُس کا حق نمک ادا
کریں، اِس پر بھی کچھ تعجب نہیں، خصوصاً جبکہ وہ بھاری بھر کم تعلیمی و ثقافتی
میکنزم ہمارے سامنے ہو اور سیاسی و معاشی جکڑبندیوں کا وہ پورا ایک جال ہماری نظر
میں ہو جو دشمن نے ڈیڑھ صدی کی محنت سے ہمارے ہاں بچھایا ہے اور جوکہ اُس کے
منصوبوں کیلئے انفراسٹرکچر کا کام دے رہا ہے اور شاید اُس کو یہ کام دینا ہی
چاہیے۔ یہ سب باتیں ہمارے لئے تعجب کا باعث تھیں اور نہ ہونی چاہئیں۔ اِسکے برعکس،
یہ سب باتیں ہمارے لئے اس بات کا زوردار داعیہ ہونی چاہئیں کہ ہم پر اِس معرکہ کی
اصل حقیقت واضح ہو اور ہم اپنے حریف کے ہاں پائے جانے والے سب امکانات کو سامنے
رکھتے ہوئے اُس کے ساتھ اِس معرکہ میں پورا اترنے کیلئے مطلوبہ تیاری سامنے لائیں۔
البتہ یہ کہ ”اسلام“ ہی کے جملہ حقوق وہ اپنے نام کرا لے اور ہمیں ویسے ہی میدان
سے باہر کر دے؛ جس کے بعد ہمارا کوئی کام ہی یہاں باقی نہ رہے، ہماری پریشانی اصل
میں یہ ہے۔ حضرات! یہی وہ واضح ترین وجہ ہے جو روز بروز ہم اِس معرکہ میں غیر متعلقہ irrelevant ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ہم بولیں تو سمجھ نہیں آتی کہ کیا بولیں۔
کریں تو واضح نہیں ہے کہ کیا کریں۔ الجھیں تو کس سے جا کر الجھیں اور مقابلہ کریں
تو کس کا کریں۔ ملیں تو کس سے ملیں، اور ٹکرائیں تو کس سے ٹکرا کر آئیں۔ کوئی بھی
تو کام اُس نے یہاں ہمارے لئے نہیں چھوڑا!!! نہ کوئی چیلنج رہ گیا ہے اور نہ
مزاحمت۔ نہ حلیف میں کوئی بڑا فرق رہ گیا ہے اور نہ حریف میں۔ نہ دوستی میں کوئی
رنگ رہ گیا ہے اور نہ دشمنی میں۔ یہاں سب سمتیں ایک سی ہو گئی ہیں۔ ایک دشت ہے؛
خواہ جس طرف کو بھی چل لیں!!! ایسی سرگردانی کا وقت بھی ہم پر شاید ہی کبھی آیا
ہو؛ چلنا چاہتے ہیں مگر کہیں پیر نہیں لگ پا رہے! آخر کون ہے جس نے ہمارے راستے
میں ایسی چکنی پھسلن کر رکھی ہے؟ یہاں اِس سوال کے جواب میں ہرگز ہرگز ہم اُن گھاگ
”استشراقی اداروں“ کا نام نہیں لیں گے جو اگرچہ ہمیں چلانے کیلئے ہزار ہزار سالہ
منصوبے اپنے ڈیسک میں رکھ کر بیٹھے ہیں(8) اور جوکہ اگرچہ عالم اسلام کو اپنی
غلامی میں جکڑ رکھنے اور اسلامی قوتوں کو یہاں بے اثر کر دینے کے لئے مکر اور
تدبیر کی وہ حیرت انگیز استعداد رکھتے ہیں کہ جس سے پہاڑ ہل کر رہ جائیں۔ ”وَإِن
كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ“(9).. البتہ ہمیں بتا رکھا گیا ہے
کہ اگر ہم اپنے دین کی حقیقت پر قائم و ثابت رہ کر دکھاتے ہیں اور ہمارے دین نے جن
باتوں سے ہمیں پیشگی خبردار کر رکھا ہے اُن سے بچ بچ کر رہتے ہیں تو اُن کے مکر کا
پانسہ درحقیقت خود اُنہی پر پلٹ جانے کیلئے ہے اور یہ کہ اُن کے اِس مکر اور تدبیر
کو خود اپنے مکر اور تدبیر سے بے اثر کر دینے کا ذمہ تب اللہ رب العزت نے خود اٹھا
رکھا ہے (وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لاَ يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا
إِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ)(10) ۔ پس ہماری اِس صورتحال کی ذمہ داری
واقعتا جس چیز پر پڑتی ہے وہ ہے ہمارا اپنے دین کے بنیادی ترین مطالب پر قائم نہ
رہ پانا، اور ہمارے دین نے ہمیں پیشگی جس چیز سے نہایت خبردار کر رکھا تھا ہمارے
یہاں اُس سے بچ بچ کر رہنے کی صداؤں کا دھیما پڑ جانا بلکہ ایسی صداؤں کا سنا ہی
نہ جانا، بلکہ ایسی صداؤں کو سمع خراشی کا باعث جانتے ہوئے خاموش کروا دینے کی
ضرورت محسوس ہونا۔
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ
وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ۔ وَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى
الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ
أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ۔ (ہود: 112، 113)
”پس جم کر رہو، عین جس طرح تم کو حکم ہوا
ہے، تم بھی اور تمہارے وہ ساتھی بھی جو (باطل کی راہ سے) تائب ہو آئے ہیں۔ اور
مقرر حد سے تجاوز نہ کرنا۔ وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ اورہرگز اُن لوگوں کی طرف
جو ظلم کرنے والے ہیں، جھکاؤ اختیار نہ کر لینا، نہیں تو تمہیں آگ چھو لے گی، نہ
اللہ کے سوا تمہارے کوئی پشت پناہ (اولیائ) ہوں گے اور نہ تم کو کہیں سے مدد مل
سکے گی“۔
٭٭٭٭٭
آج ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں سوائے ایک ایسی
مضبوط سرزمین کے جس پر ہم پیر گاڑ کر چل سکیں ۔ ہمارے پاس چلنے کا جذبہ بھی ہے اور
چلنے والے بھی، صرف ”راستہ“ نہیں!
”راستہ“ آج ہمارا سب سے بڑا بحران ہے۔ دشمن
ہمیں کسی بھی چیز سے محروم کر دے، پروا نہیں۔ مگر ہمارے پاؤں تلے کی زمین ہی وہ ہم
سے کھینچ لے اور ہمارے چلنے کیلئے ہمارے پاس راستہ ہی باقی نہ رہنے دے، یہاں تک کہ
”راستے“ کے ایک ایک چپے کیلئے ہم اُس کے محتاج ہو جائیں (اور جو کہ ہرگز کوئی
”راستہ“ نہیں)، اور وہ روز بروز اِس پر اپنا ”موصولِ راہداری“ بڑھاتا چلا جائے جس
پر اُس کی ممنونیت پھر بھی ہم پر ادھار رہے، اور اُس کے ’دیے ہوئے‘ راستے کا
”متبادل“ ملنے کا امکان تو خیر ہم خود ہی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ ہوں.. دشمن کو
ہم پر اِس انداز کی برتری پا لینے کی طاقت نہیں دی گئی، جب تک یہ زیادتی ہم خود
اپنے ساتھ نہ کر چکے ہوں۔ دشمن اِس پوزیشن میں آ ضرور جاتا ہے مگر اُس کو اِس
پوزیشن میں آجانے کی ساری بنیاد ہم اپنے ہاتھ سے فراہم کرتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر
یہ کہ عقیدہ پر استقامت سے دستبردار ہو جانے کے نتیجے میں خدائی سرپرستی ہم پر سے
اٹھ چکی ہوتی ہے اور ہمیں ہماری اپنی ہی تدبیروں کے سپرد کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے
جن کے مقابلے میں ہمارے دشمن کی تدبیریں پھر کہیں بڑھ کر ہوتی ہیں۔ پس یا تو یہ
جنگ ”عقیدے کی جنگ“ ہو، جس میں خدا بھی ہمارے ساتھ ہوتا ہے، قرآن بھی، ہمارا دین
بھی اور ہمارا عقیدہ بھی، اور ہماری تاریخ بھی، اور ہمیں سننے والوں کے یہاں پائی
جانے والی فطرتِ سلیمہ بھی اور کائنات کی سب صالح قوتیں بھی؛ اور جس میں ہم ذرا ڈٹ
جائیں تو ہمارے دشمن کا ہمارے ہاتھوں مار کھانا یقینی بات ہوتی ہے۔ کم از کم بھی
یہ کہ ہمارا راستہ ہمارے ہی اختیار میں ہوتا ہے۔.... اور یا پھر یہ جنگ ”تدبیروں“
اور ”حکمت عملیوں“ کی جنگ ہو، جس میں ہمارا اپنے دشمن کے ہاتھوں مار کھانا یقینی
بات ہے۔ ایک جنگ میں ہمارا پلڑا بھاری ہے اور اُس میں ہمارا سامنا کرنے سے ہمارے
کائیاں دشمن کی جان جاتی ہے۔ اور دوسری جنگ میں ہمارے دشمن کا پلڑا بھاری ہے اور
وہ شدید بے تاب رہتا ہے کہ کسی طرح ہم اُس میدان کا انتخاب کر لیں، اور جس سے
اصولاً ہماری جان جانی چاہیے، گو ہم اب تک بے پروائی سے اس کا ’متبادل‘ ہی دریافت
کرتے دیکھے گئے ہیں!
حریف کو عین اُس کی مرضی کا میدان دے دیا جائے تو
وہ کب کوئی کسر رہنے دیتا ہے؟! اور وہ مواقع تو جو آج ہم اُسے اپنے یہاں دے رہے
ہیں، روز روز اُسے کب ملنے والے ہیں....؟!!
چنانچہ ہمارے اپنے اصل پہ قائم نہ رہ سکنے کے
باعث، معاملہ بری طرح ہمارے ہاتھ سے نکلتا چلا گیا ہے، اور آج.. اِستشراقی اداروں
کی کارکردگی دیدنی ہے....:
یعنی، اِس اسلام کو جی بھر کر مارو اور اِس کی
صورت کو جی بھر کر مسخ کرو؛ پھر بھی اگر کوئی رمق یہاں پر باقی دیکھو تو عالم
اسلام کے اُن صالح طبقوں کو جو امت کو حقیقی اسلام سے روشناس کرا سکیں، ”اسلام“ سے
ہی منحرف اور بے دخل ٹھہرا دو! اور ہاں، ان کو اسلام سے منحرف ٹھہرانے کا یہ کام
باقاعدہ طور پر عالم اسلام کی بڑی بڑی گدیوں کی وساطت ہونا چاہئے! یعنی عالم اسلام
کی یہ بڑی بڑی مذہبی گدیاں ہی یہاں پر استشرق کے زیر عتاب موحدین کو انتہاپسند اور
شدت پسند اور ’معتدل اسلام‘ کیلئے ایک بڑا خطرہ اور ’صراطِ مستقیم‘ سے ہٹا ہوا ایک
ٹولہ قرار دے رہی ہوں! اُدھر سے بم اور اِدھر سے ”فتاویٰ“ کہ ہاں بالکل صحیح مرے!
اتنا ہی نہیں، اُن بیچ کے طبقوں کو بھی ساتھ میں
لپیٹ دو جن کی ’اعتدال پسندی‘ مستشرقین کی نظر میں تاحال محل نظر ہے، اور جن کے
فکر میں ابھی وہ چنگاریاں بجھی بہرحال نہیں ہیں جن سے یہ خرمنِ بو جہل کسی وقت آگ
پکڑ سکتا ہے! اِن ”بیچ کے طبقوں“ کو جو نہ تو اسلام کا دامن چھوڑنے پر تیار ہیں
اور نہ استشراق کے قائم کردہ اِس نظامِ باطل میں اپنے لئے ’گنجائش‘ سے نا امید
ہوتے ہیں.. اِن ”بیچ کے طبقوں“ کو مسلسل اِس پوزیشن میں رکھو کہ اِس ”قومی دھارے“
کے گرداب میں گھومتے ہوئے اور اِس ”دانائے کل“ میڈیا کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر، یہ
مسلسل اپنی ’صفائی‘ دیں مگر ان پر یقین پھر بھی کسی کو نہ آتا ہو!!! اِن ”بیچ کے
طبقوں“ پر مشتمل اسلام پسندوں کو وقتاً فوقتاً اشارے دیتے رہو کہ یہ جب تک وہ سب
’چنگاریاں‘ آپ اپنے ہاتھوں مسل کر نہیں آتے جو اِن کے (عشروں پرانے) فکر میں اور
اِن کے (کبھی کبھی پڑھے جانے والے) لٹریچر میں جا بجا پائی جاتی ہیں اور جب تک یہ
اپنی اُن ’بھولی ہوئی‘ باتوں سے علی الاعلان اور علی وجہ البصیرت دستبردار ہو کر
نہیں آتے، تب تک اِن کی اِس ’صفائی‘ اور اِس ’سادہ لوحی‘ پر نہ تو یہ گھاگ میڈیا
کبھی یقین کرنے والا ہے اور نہ اِس میڈیا کی پشت پر پائے جانے والے زیرک باخبر
عالمی ادارے! بے شک ایک بڑی سطح پر اِن اسلام پسندوں کے یہاں میڈیا کو اِس وقت
’راکھ‘ ہی دیکھنے کو ملتی ہے مگر یہ جان کر کہ اُن اِکا دُکا ”چنگاریوں“ کو ’راکھ‘
کے اِس ڈھیر تلے کس صفائی سے ڈھک دیا جاتا ہے، میڈیا زیرِلب مسکراتا ہے، کہ وہ
ادارہ جو پوری دنیا کو بے وقوف بنانے کیلئے رکھا گیا ہے کوئی اُس کو بے وقوف بنانے
آیا ہے! مگر اِس پر اِن سے تعرض نہ کرو اور ہو سکے تو حوصلہ افزائی کرو؛ استشراقی
نظام کا اپنا تو کوئی کام رکا ہوا نہیں ہے، لہٰذا یہ ”بیچ کی راہ“ چلنے والی
اسلامی جماعتیں جتنی دیر اِس گرداب میں گھومنا چاہیں اور جب تک تکان محسوس نہ کریں
ان کو اِس کی اجازت دو۔ بلکہ کوشش تو یہ کرو کہ جب تک اِن میں کچھ دم خم ہے، یہ
اِس سے مایوس بھی نہ ہونے پائیں، کیونکہ ایسی صورت میں یہ پیچھے ہٹتے ہٹتے میدان
کے دوسری طرف چلی جائیں گی، جہاں کھڑے ہو کر اِس طاغوت کے ساتھ ”مقابلہ“ ہوتا ہے
اور سیدھا سیدھا ایک معرکہ ہو جاتا ہے؛ اور جوکہ استشراقی اداروں کے وارے کا نہیں!
لہٰذا جتنی دیر یہ اِس گرداب میں اپنا وقت برباد کرنا چاہیں، اِن کو اِس کی
’اجازت‘ دو اور کسی کسی وقت تو اِن کو اقتدار کی کسی ایک آدھ راہداری میں بھی
تھوڑی دیر گھوم پھر لینے دو، کیونکہ اِن کو بے جان اور بے راہ رکھنے کے معاملہ میں
خاص اِس عمل کے جو حیرت انگیز نتائج دیکھے گئے ہیں وہ ناقابل یقین ہیں!
اِس ’سرگرمیِ بیکار‘ سے اگر وقت برباد ہوتا ہے تو
استشراقی اداروں کا نہیں بلکہ اِن اسلام پسندوں کا ہوتا ہے؛ اور جوکہ (دشمن کی نظر
میں) کمال کی بات ہے؛ یعنی یہ ’بیچ کی راہ‘ چلنے والے اسلام پسند اگر اپنے افکار
سے مکمل دستبردار ہو کر باطل کی غیر مشروط خدمت کیلئے نہیں آتے تو کیا اِس سے بہتر
بھی کوئی بات ہو سکتی ہے کہ پھر اِن کا وقت برباد ہی ہوتا رہے؟! باطل کے کام کے
نہیں ہیں تو اسلام کے کام کے بھی تو نہ رہیں!!! پس جب یہ تمہارے سامنے باطل کی
آدھی پونی بولی بولنے کی کوشش کریں، عالمی طاغوت کی جاری کردہ اصطلاحات باقاعدہ
رغبت کے ساتھ جپیں اور اُس کے دیے ہوئے لہجوں کو قدرے ناپختہ انداز میں ’فالو‘
کرنے کی کوشش کریں، تو اِن پر ہنسا مت کرو؛ نہایت سنجیدہ رہو، پوری حوصلہ افزائی
کرو، بار بار پیٹھ تھپکو، امید دلاؤ، اور اِس مشق کے بار بار اعادہ کی ترغیب دو!
نیتوں کا معاملہ نیتوں کے ساتھ ہے مگر ”مشق“ کی اپنی ایک افادیت ہے!!!
ہم جانتے ہیں، استشراقی اداروں کا کوئی کام یہاں
رکا ہوا نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے سب کے سب کام رکے ہوئے ہیں، نہ صرف رکے ہوئے ہیں،
بلکہ دن بدن پیچھے جا رہے ہیں۔ یہ ’سرگرمیِ بیکار‘ جو یہاں اسلامی جماعتوں کا وقت
برباد کرانے کیلئے میسر کرا رکھی گئی ہے.. حق یہ ہے کہ یہ استشراقی اداروں کو
عالمِ اسلام میں وقت دلانے کا بھی ایک بہترین اور موثر ترین ذریعہ ہے! یعنی وہی
چیز جو ہمارا وقت ضائع کر رہی ہے کمال خوبصورتی کے ساتھ اُن کو وقت دلوا رہی ہے!
آئیے ذرا دیکھیں کہ کیسے....:
ہم جانتے ہیں، استشراق کا اصل میدان سیاست نہیں (البتہ سیاست کو oversee کرنا ضرور
ہے، اور یہ بات نہایت اہم ہے)۔ اُس کا اصل میدان
یہ ہے کہ فکری اور ثقافتی پہلوؤں سے وہ مسلم معاشروں کی چولیں ہلا دے، بلکہ اب تو
یہ چولیں توڑ کر رکھ دے۔ حق یہ ہے کہ جس جارحانہ انداز میں یہاں پر مسلم عقائد اور
مسلمات کا قلع قمع کرنے وہ اب چل پڑا ہے، وہ بڑے بڑے باخبر لوگوں کیلئے حیران کن
ہے۔ استشراق کو نہایت خوب پہچاننے والے ہمارے مفکرین بھی اُس کی حالیہ پیش قدمی کو
ہکا بکا ہو کر دیکھ رہے ہیں۔ اُس کی اِس حالیہ تیز رفتاری کو بھانپتے ہوئے، اب تو
وہ آئندہ عشروں میں نہیں بلکہ آئندہ برسوں میں یہاں جن قیامت خیز تبدیلیوں کو
رونما ہوتا دیکھ رہے ہیں، اُن کا کہنا ہے پچھلی دہائیوں میں اُس کا سوچا تک نہ جا
سکتا تھا!!! صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ لکڑیوں کے وہ بڑے بڑے گٹھے جو کچھ عشرے پیشتر
استشراق سے توڑے نہ جا رہے تھے، اپنی تعلیمی و ابلاغی مشینری کو کام میں لا کر اور
ایک نہایت دور مار محنت کے نتیجے میں، کہ جس دوران ہم سڑکوں پر اپنے گلے خشک کر
رہے تھے.. لکڑیوں کے وہ بڑے بڑے گٹھے بکھیر کر اور وہ بڑے بڑے شہتیر کھوکھلے کر
دینے کے بعد گویا اب وہ ماچس کی تیلیوں سے باریک کر چکا ہے۔ اور یہ بات اب ہرگز
کوئی راز نہیں رہ گئی ہے۔ عقائدی اور ثقافتی حوالوں سے، ہمارے معاشروں کا وہ فیبرک
جو صدیوں سے چلا آرہا تھا، ادارۂ استشراق اپنے آپ کو یقینا آج اِس پوزیشن میں دیکھ
رہا ہے کہ وہ ہمارے اِس فیبرک کو ریزہ ریزہ کر دے۔ اِس لکڑی کو اب وہ اتنا گھن لگا
چکا ہے کہ اب یہ کسی پھوس کا نام ہے، یہاں تک کہ اب یہ چھت کسی بھی دن گر سکتی ہے۔
(یہ ہم مسلم اقتدار کی بات نہیں کر رہے، جسے وہ دو سو سال پہلے گرا چکا ہے۔ ہم بات
کر رہے ہیں مسلم معاشروں کی اسلام کے چند ایک عقائد اور مسلمات سے ایک برائے نام
وابستگی کی، جو کہ پچھلے کچھ عشروں میں بہرحال پائی گئی تھی اور حق یہ ہے کہ ایک
بڑی نعمت اور بسا غنیمت تھی مگر __ خاکم بدہن __ عنقریب قصۂ پارینہ ہونے جا رہی
ہے، آنے والے سالوں میں اب آپ یہاں اللہ اور رسول کا __ معاذ اللہ __ نام لے لے کر
مذاق ہوتا دیکھیں یا گلیوں محلوں میں ’کنڈوم‘ عام بانٹے جاتے اور ’محفوظ حرام
کاری‘ کے ٹوٹکے سر عام نشر ہوتے دیکھیں تو حیران مت ہوئیے گا، اور یہ تو آپ پر
اوجھل نہ ہو گا کہ یہاں کی کچھ این جی اوز نے حرام کے بچوں کے ’وصول خانہ‘ کے طور
پر جگہ جگہ ’کریڈل‘ نصب کرنا اِس سے پہلے ہی شروع کر رکھے ہیں)۔ تصور کیجئے، مسلم
معاشروں کی اسلامی عقیدہ کے پورے پیراڈائم سے نہیں، صرف چند عقائد سے، اور وہ بھی
ایک واضح ”تمسک“ کی صورت میں نہیں بلکہ برائے نام وابستگی، یہ بھی اب عنقریب آپ کو
ماضی کا فسانہ نظر آئے گی، اور اس کو یاد کر کر کے حسرت کے ساتھ کہا جا رہا ہو گا
کہ ’بڑی غنیمت تھی‘!(11) تہذیبی، معاشرتی اور عقائدی سطح پر وہ ہمارے معاشروں
کیلئے ایک اتنی بڑی قیامت برپا کرنے کی تیاری عمل میں لا چکا ہے کہ شاید یہاں کچھ
بچے ہی نہ جس پر بیٹھ کے رویا جائے۔ (پاکستان میں ’میڈیا انقلاب‘ اور اس کے نتیجے
میں ’عوامی سوچ‘ میں آنے والی یہ ناگہانی افزودگی جو ہمارے کچھ اسلام پسندوں کو
بھی فریفتہ کر رہی ہے اور شاید کچھ نئی ’امیدیں‘ بھی دلا رہی ہے، آپ اس کی
کارستانیوں کے عملی مظاہر گلی محلوں کی سطح پر عنقریب دیکھنے لگیں گے)۔ دیکھنے
والے، افق پر اِس وقت جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے کافی ہے۔
(لبرلائزیشن کا اِس سے زوردار ایجنڈا اور اِس سے مؤثر تر انداز میں ہماری پوری
تاریخ میں کبھی لانچ نہیں ہوا، یقین نہیں ہے تو چند برس کے اندر اپنی سڑکوں اور
بازاروں میں اِس کے ’نتائج‘ ملاحظہ فرما لیجئے گا، بشرطیکہ اِس کو دیکھنے کے
اسلامی پیمانے تب تلک خود آپ کے ہاں سلامت رہ گئے ہوں!)۔ ہماری تباہی کے اِس ”سافٹ
ویئر“ کو یہاں پر نہایت خوش اسلوبی سے لانچ کرنے کیلئے، اور اُس لمحہ کو قریب لانے
کیلئے جب اُس کا یہ نیا ’تہذیبی سافٹ ویئر‘ پوری طرح چالو حالت میں آ جائے اور
ہمارے معاشرے کے اندر ’فل فلیج‘ کام کرنے لگے.. یہ مرحلہ کامیابی کے ساتھ سر کرنے
کیلئے اُسے شاید اب بہت تھوڑا وقت درکار ہے، جو کہ ہماری جماعتیں اُس کو پوری فراخ
دلی کے ساتھ بلکہ اُس کی طلب اور توقع سے بڑھ کر دے رہی ہیں! ’حقیقی جمہوریت‘،
’سول سوسائٹی‘ اور ’عوامی بیداری‘ پر مبنی ایک متوقع زوردار ’مبارک‘ ریلے کا
انتظار کرنے والی ہماری یہ جماعتیں کاش یہ ادراک کر لیں کہ جو آ رہا ہے وہ درحقیقت
”کیا“ ہے؟! ایک کھلا ننگا کفر ہے جو ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے!!! (نظامِ
حکومت کی بات اب بہت پیچھے رہ گئی، یہاں کا ایک عام فرد اب براہِ راست ارتداد کی
زد میں ہے)۔ ایک بدترین آندھی ہے جو ہمارا سب کچھ ملیامیٹ کر دینے والی ہے، کاش ہم
اس کا اندازہ کر لیں۔ استشراق اِس قدر تیزی کے ساتھ ہمارے پاؤں تلے سے زمین کھینچ
رہا ہے کہ ہم ہر آنے والے لمحے کے ساتھ اپنے معاشروں میں برپا ہونے والی ایک
ناقابلِ تصور قیامت سے قریب تر ہو رہے ہیں۔ عشروں کے حساب سے نہیں، اور شاید سالوں
کے حساب سے بھی نہیں، مہینوں اور ہفتوں کے حساب سے تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں۔
٭٭٭٭٭
لیکن ابھی بات یہاں ختم نہیں ہوتی....
ہماری اِن جماعتوں کا ایک بڑا رخنہ استشراق کی نظر
میں ہے، اور وہ پر اُمید ہے کہ اِس رخنے سے وہ یقینا ہم پر قیامت ڈھا سکتا ہے۔ خود
ہمارا خیال ہے اُس کی یہ پر اعتمادی کچھ ایسی بے بنیاد نہیں...
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہماری اِن جماعتوں
نے بڑی دیر سے اپنا دستِ بیعت یہاں کی ”رائے عامہ“ کے ہاتھ میں دے رکھا ہے۔ اِن کے
اکثر و بیشتر مواقف ”رائے عامہ“ کا رخ بھانپ کر اپنائے گئے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ
اِن کے کئی ایک مواقف جو اِن کے اسلامی فکر کا براہِ راست اقتضا ہوتے ہیں اور محض
”رائے عامہ“ کے لحاظ میں اُن کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ایسے مواقف ترک نہیں کر
لئے جاتے تو رائے عامہ کے لحاظ میں ”غیر نمایاں“ تو بہر حال کر لئے جاتے ہیں، یہاں
تک کہ رفتہ رفتہ وہ بھی ”غیر موجود“ کے حکم میں ہی چلے جاتے ہیں! یعنی ہمارے حریف
کے اہداف اِس راہ سے عملاً پورے ہو رہے ہیں! قصہ کوتاہ، نظری طور پر صورتحال خواہ
جو بھی ہو، عملاً معاملہ یہی ہے کہ اپنا جو بھی ”موقف“ ہو گا وہ ”رائے عامہ“ کے
تیور بھانپ کر اختیار کیا جائے گا۔
استشراق کے اداروں نے بڑی دیر سے یہ بندوبست کر
رکھا ہے کہ ”رائے عامہ“ کی صورت میں وہ ہمارے لئے یہاں باقاعدہ ایک بت کھڑا کر کے
رکھے اور زیادہ تر اِس کی تراش خراش اور اِس کی صورت گری بھی وہ اپنے خاص انتظام
سے کرے(12)۔ ہمارے دشمن کو خوب معلوم ہے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہماری یہ دینی
جماعتیں جذبۂ ایمانی سے مجبور ہو کر کسی وقت حکمرانوں کے ساتھ ٹکر لینے تک چلی
جائیں، مگر ”رائے عامہ“ وہ بت ہے جس کے ساتھ الجھنے اور ٹکر لینے کا ان کے ہاں
کبھی سوچا تک نہیں گیا۔ اِس کی جانب تحاکم(13) کرنا بہرحال اِن کی مجبوری ہے۔ اِس
کی ناراضی مول لینے کا خیال تک ذہن میں نہیں لایا جا سکتا۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب
کا پاؤں؛ استشراق اِس ”رائے عامہ“ کو ہی اپنے گھر کی باندی کیوں نہ بنا کر رکھے؟
اُس کو کیا ضرورت، کہ ہر ہر معاملہ میں وہ اسلامی جماعتوں کو آ کر ’اپروچ‘ کرے اور
ان کو رجھانے منانے پر اپنا وقت برباد کیا کرے؟! وہ وہی بات ”رائے عامہ“ کے اسپیکر
میں کیوں نہ پھونک دیا کرے، جو کچھ ہی دیر بعد ”زبانِ خلق“ بن جائے اور آخر ہم بھی
اُسے ”نقارۂ خدا“ مان کر خوشی خوشی اُس کا تتبع کریں!
جو شخص صورتحال کو تھوڑا سا بھی قریب سے جانتا ہے
اُسے خوب معلوم ہے، اِسی رائے عامہ کے ”احترام“ میں، اور یا پھر اِس ”انتظار“ میں
کہ کبھی نہ کبھی وہ وقت آئے گا کہ یہ رائے عامہ ہماری بات ”اپری شئیٹ“ کرنے کے
قابل ہو گی، دین کے کیسے کیسے بنیادی مفہومات اور تقاضے ہیں جو ”گول“ کر جانا پڑے
ہیں۔ کیسی کیسی بنیادی چیزیں ہیں جن کو سامنے لانے کا وقت ”یہ“ نہیں بلکہ ”پھر
کبھی“ ہے! اور اگر آپ خوامخواہ کے تکلفات کو برطرف رکھ کر سیدھی سیدھی ایک کیفیت
بیان کرنا چاہیں، تو ان باتوں کو سامنے لانے کا وقت نہ اب ہے اور نہ ایک غیر معینہ
مدت تک کبھی آنے والا ہے، تاہم اپنے دلاسے کیلئے شرح صدر رہنا چاہئے کہ یہ باتیں
ہمارے ’ذہن‘ میں ضرور ہیں اور بلکہ یہ باتیں تو ہماری ’دعوت‘ میں شامل ہیں!
(’دعوت‘ کی اب ایک ایسی قسم بھی تیزی کے ساتھ سامنے آ رہی ہے جس کے بہت سے موضوعات
کو ”رائے عامہ“ سے پردہ کرا رکھا جانا ضروری ہے اور جن کا محلِ استقرار زیادہ تر
ہمارے اپنے ’ذہنوں‘ کے نہاں خانے ہیں، کیونکہ یہی وہ واحد جگہ ہے جہاں ’دعوت‘ ہر
قسم کی ’مخالفت‘ اور ’نقصانات‘ سے محفوظ رہتی ہے!)(14)۔ اِس کے نتیجے میں استشراق
بڑی دیر سے ہمیں اِس پوزیشن میں لا رکھے ہوئے ہے، کہ اپنی دعوت کیلئے اُس کی مرضی
کے اکثر و بیشتر ’فلٹر‘ ہم خود ہی تیار اور چالو حالت میں رکھا کریں؛ ہماری دعوت
میں کیسی بھی اچھی اچھی باتیں ہوں، باہر البتہ وہی چیز آئے جس کا ابھی ’وقت‘ ہے،
اور جس کا تعین ہمیں معلوم ہے کون کرتا ہے! عوامی فورموں اور چینلوں پر ہم بھی
اُنہی موضوعات کو اٹھانے اور اُنہی تعبیرات کو کھل کر سامنے لانے اور اُنہی نعروں
میں جان ڈالنے کی افادیت محسوس کریں جن کا ’موقعہ بھی ہے، دستور بھی ہے‘! ’رسمِ دنیا‘
سے ہٹ کر موضوعات اٹھائے جائیں تو کیا شک ہے کہ یہاں ہم کوئی سماں باندھ ہی نہیں
پائیں گے! آپ کو معلوم ہی تو ہے میڈیا ہمیں یہاں کس قدر 'low profile' میں رکھنا چاہتا ہے، خدا
خدا کر کے تھوڑا سا موقعہ اگر کبھی ہمیں اِن چینلوں پر مل جاتا ہے تو اُس کو وہ
باتیں کر کے تو ضائع نہیں کر سکتے جن کیلئے ایک ’عام فرد‘ کا ذہن ’پہلے سے تیار‘
نہیں۔ (’عام فرد‘ اور ’پہلے سے تیار‘.. دونوں اِس میڈیا کی اپنی تیار کردہ مصنوعات
ہیں!) پس یہ چند منٹ ہم اُن موضوعات پر تو صرف نہیں کر سکتے جن کا یہاں کے ایک
’عام فرد‘ کے روزمرہ مسائل سے ’براہِ راست‘ تعلق نہیں! اِن حکمران طبقوں کو ڈِس
کریڈٹ کروانا ہے تو وہی باتیں کیوں نہ کی جائیں جو ’سب کی سمجھ میں آتی ہیں‘ یعنی
جن باتوں کو عوام کے ذہن نشین کرانے کیلئے میڈیا اپنے چوبیس میں سے تیئیس گھنٹے
صرف کرتا ہے! لہٰذا ’جاگیرداری‘ اور ’وڈیرہ شاہی‘ اور ’لوٹ کھسوٹ‘ اور ’غبن‘ اور
’کرپشن‘ اور ’عدلیہ کے ساتھ بدسلوکی‘ کو واضح کرنا ہی اِن حکمرانوں کو مسترد
کروانے کیلئے ایک کہیں بڑھ کر ’کامیاب‘ اور ’عملی‘ طریق کار ہے بہ نسبت اِس بات کے
کہ آپ یہاں پر ”شریعت کی پائمالی“ کی بحثیں لے کر بیٹھیں جو عرصہ ہوا اب نہ کہیں
دیکھنے میں اور نہ سننے میں، اور جن کی اول تو اِس میڈیا کی تخلیق کردہ دنیا میں
لوگوں کو سمجھ آنا ہی مشکل ہے، اور ثانیاً اِن موضوعات کی بنیاد پر قوم کو یک آواز
اور متحرک کر لینا تو اِس وقت اور بھی انہونی بات ہے! ایک کام جو ہونے والا ہی
نہیں اُس پر زور لگانے کا فائدہ؟! کم از کم ایسے کام میں تو حصہ ڈالو جو ہونے والا
ہو، ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ کام جس میں یہ خوبی بدرجۂ اتم ہے کہ وہ ’ہونے والا‘ ہے،
وہ ہمارا نہیں کسی اور کا ہے!
المیہ اگر صرف یہی ہوتا کہ ہمارا اپنا گھر نہیں آ
رہا تو بھی ایک بات تھی۔ حضرات! یہاں ہماری تمام تر تیزی اِس بات میں ممد ہو رہی
ہے کہ ہم کسی اور کے گھر پہنچ رہے ہیں، جتنی ہمت کر لیں ”منزل“ اُتنی جلدی آ سکتی
ہے....!
اور اِس بات کا تو شاید یہاں بہت کم لوگوں کو
اندازہ ہو کہ ”میڈیا“ کا یہ نیا اُڑن کھٹولہ ہمیں ”کہاں“ لے کر جا رہا ہے! حضرات!
اب تو کوئی ایسی منزل آنے والی ہے جس کی بابت آپ سوچ لیں تو اوسان خطا ہو جائیں!
کاش ہمیں اندازہ ہوتا، ”رائے عامہ“ کی یہ شاہراہیں
جن کی اب کچھ نئے زور و شور کے ساتھ توسیع ہونے لگی ہے، ہماری ”اسلامی پیش قدمی“
کیلئے تعمیر نہیں کر رکھی گئیں!
غرض یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ایک طویل عرصے سے
”رائے عامہ“ نامی یہ مخلوق ہمارے دعوتی موضوعات تک کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ بنا
رکھی گئی ہے۔ نتیجتاً.. یہ ایک نہایت تلخ حقیقت ہے کہ اپنے عوامی کردار کو سامنے
لانے، حتیٰ کہ اپنے عوامی کردار کا تعین تک کرنے کے معاملہ میں، بہت بڑی حد تک ہم
اسی ”رائے عامہ“ کے رحم و کرم پر ہیں.. اور جس کی نکیل، ہمیں معلوم ہے، مکمل طور
پر ہمارے حریف کے ہاتھ میں ہے!
اپنی اِس قابل ترس پوزیشن سے جس قدر ہم واقف ہیں
اس سے بڑھ کر ہمارا دشمن اِس سے واقف ہے....!!!
اِس تدبیر سے کام لے کر وہ پچھلے کئی عشروں سے
ہمیں ہمارے سب اسلامی تحریکی موضوعات سمیت پوری قوت کے ساتھ پیچھے دھکیل رہا ہے،
بلکہ دیوار کے ساتھ لگا چکا ہے۔ ہر تھوڑی دیر بعد وہ ہمارے اِس شکنجے پر اپنا دباؤ
کچھ اور بڑھا دیتا ہے اور ہمیں اپنے ”دعوتی موضوعات“ کا بار کچھ اور ہلکا کر دینا
پڑتا ہے.... غور کرنے کی بات اب یہ رہ جاتی ہے کہ ”رائے عامہ“ کے ہاتھوں، یا اُس
کے ذریعہ سے عمل میں لائی جانے والی، ہماری یہ مسلسل پسپائی آخر کہاں جا کر دم لے
گی....؟
اب پیچھے ہم جو بات کر آئے ہیں کہ ہماری اسلامی
جماعتوں کا وقت تھوک کے حساب سے برباد کر کے استشراق ہمارے یہاں تھوک ہی کے حساب سے
وقت حاصل کر رہا ہے.. اور یہ کہ مسلم معاشروں کے عقائدی و ثقافتی فیبرک میں موجود
اسلامی بقایا جات کو ملیامیٹ کرا دینے کے محاذ پر جو دیوہیکل منصوبے وہ اِس وقت
ہمارے یہاں بے شمار سطحوں پر لانچ کئے ہوئے ہے اور اِن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے
کیلئے اُس کو جو وقت اور یکسوئی درکار ہے، ہماری جانب سے ”زیرو“ مزاحمت پائے جانے
کے باعث وہ وقت اور یکسوئی اُس کی توقع سے بڑھ کر اُس کو حاصل ہے، اور اِس وجہ سے
اُس کو امید ہے کہ وہ بہت جلد یہاں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دے گا.... اِس پورے
سیناریو میں اُس کے سامنے منزل در اصل یہ ہے؛ یعنی جب وہ تہذیبی و عقائدی مسخ کا
یہ مرحلہ عالم اسلام میں کامیابی کے ساتھ سر کر لے گا، اور جوکہ اُس کے خیال میں
اب زیادہ دور نہیں۔ بے شک آپ سمجھتے ہوں کہ اُس نے یہاں کی اسلامی جماعتوں کو
پیچھے دھکیلتے دھکیلتے بالکل اؤٹ کر دیا ہے۔ لیکن اُس کی اصل منزل یوں سمجھئے کہ
ابھی کچھ دیر بعد آنے والی ہے۔ (اِس کا کچھ اندازہ آپ کرنا چاہیں تو آپ کو بنگلہ
دیش کے حالات سے ہو سکتا ہے، البتہ اِس کو ’کچھ‘ ہی اندازہ کہیں؛ کیونکہ جو آ رہا
ہے، اور سب اسلامی ملک یکے بعد دیگرے جس کی پوری پوری زد میں ہیں، اُس کی خوفناکی
تو اندازے سے ہی باہر ہے اور وہ تو اپنے وقت پر ہی ملاحظہ کی جا سکے گی!)
استشراق ہماری اِن سب جماعتوں کو اؤٹ کرنے کے جس
پروگرام کی طرف نہایت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے وہ بے حد بھیانک ہے۔ حضرات! یہاں
’پانچ وقتہ‘ نماز کے علاوہ شاید کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے گی۔ بلکہ بڑی بات ہے اگر
یہ بھی رہ جائے۔ استشراق کے عالم اسلام میں حالیہ پروگرام ذرا سرے لگ لیں
(خدانخواستہ)، پھر اِس کے بعد وہ یہاں کی ہر اسلامی و نیم اسلامی چیز کے ساتھ آہنی
ہاتھ برتنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ سمجھنا کہ استعمار یہاں صرف ’جہادیوں‘ کی
گوشمالی کر کے چلا جائے گا، آخری درجے کی خام خیالی ہے۔ ابھی ایک لمبے پروگرام کے
تحت اُس کا استشراقی شعبہ ہماری اسلامی تحریکوں کے ہاتھ سے سب کچھ لے لینا چاہتا
ہے (جس کے اکثر مراحل وہ بڑی کامیابی کے ساتھ طے کر چکا ہے)۔ ”اشتراکِ عمل“ کے
دروازے اُس کی جانب سے ابھی تک کھلے رہے ہیں یا تھوڑا بہت اب بھی کھلے ہیں تو وہ
اِسی لئے۔ بہرحال اُس کا یہ مرحلہ ہمارے ہاں بے حد کامیاب جا رہا ہے اور اُس کی
ضرورت کی ایک ایک چیز ہماری جانب سے پوری محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اُسے دی جا
رہی ہے۔ قومی سطح پر اسلام کے ”لائسنس“ سمیت بہت کچھ ہماری تحریکوں کے ہاتھوں اُس
کو پہلے ہی دیا جا چکا ہے۔ ہماری یہ تحریکیں قریب قریب اپنے سب ہتھیار اُس کے
قدموں میں دھر چکی ہیں اور اچھی خاصی ”ہلکی“ ہو چکی ہیں۔ خود اِن تحریکوں کو
اندازہ ہونے لگا ہے کہ اِن کے پاس دینے کیلئے جو کچھ تھا بڑی دیر پہلے یہ اپنے
ہاتھ سے دے چکی ہیں۔ البتہ دشمن کے تیور بتا رہے ہیں، ابھی ہمیں اِس سے بھی بہت
پیچھے جانا ہے۔ شاید اُس کے خیال میں ابھی ’ہینڈز اَپ‘ والا معاملہ نہیں بنا ہے،
یا یہ کہ اُتنا نہیں بنا ہے جتنا اُس کے ذہن میں ہے۔ ”رائے عامہ“ کی چکی میں ہمارا
ہاتھ دلوا کر پہلے وہ ہمیں ایک خاص پوائنٹ پر پہنچانا چاہتا ہے۔ اور شاید اِس
کیلئے وہ کئی سارے گڑھے پہلے سے کھود کر بیٹھا ہے۔ اِسی دوران وہ یہ بھی چاہتا ہے
کہ عالم اسلام میں وہ اپنے تہذیبی و عقائدی منصوبے مکمل کرلے، جس کے نتیجے میں
”رائے عامہ“ خود بخود ارتداد کی راہ پر چڑھ چکی ہو گی۔ اِس ہاتھی کے پاؤں سے کسی
کا پاؤں، اِس دوران، ظاہر ہے، وہ نکلنے تو نہیں دے گا.. بلکہ نظر یہ آتا ہے ہم خود
ہی ایسا ’گناہ‘ کر لینے کے روادار نہیں ہوں گے! یہ وہ پوائنٹ ہے جہاں وہ ہمیں آخری
حد تک دیوار سے لگا چکا ہو گا۔ جو کچھ ہم اُس کی نذر کر سکتے تھے، وہ ہم سے لے چکا
ہو گا اور ہمیں آخری حد تک تہی دست کر چکا ہو گا__ لا قدَّر اللہ۔ اتنا کچھ ہو
جانے کے بعد ہم میں اگر کچھ لوگ ایسے بچتے ہیں جنہوں نے اِس دوران سرنڈر نہیں کر
لیا، تو اُن کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے گا وہ اُس سے بہت مختلف نہیں جو اِس وقت
’جہادیوں‘ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ (اُن کے تھنک ٹینک بڑی دیر سے گھنٹیاں
بجا رہے ہیں کہ اِس جنگ کا محور clash of civilizations سے بھی آگے بڑھ کر اب war of ideas پر
جایا چاہتا ہے۔) اللہ نہ کرے کہ وہ دن آئے، ’پلان‘
البتہ یہی ہے کہ یہاں ایک ایسی صورتحال وجود میں لائی جائے گی کہ شریعت کا محض نام
لینا ایک ویسا ہی ’کیپٹل سینٹنس‘ کا موجب جرم ہو گا جیسا کہ فی الوقت سامراج کے
خلاف بندوق اٹھانا۔ اِس ’جرم‘ کے مرتکب لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے سب
سے بڑھ کر بے چینی تب جس مخلوق کی جانب سے ظاہر کی جائے گی، اغلباً اُس کا نام
”رائے عامہ“ ہو گا!
٭٭٭٭٭
آگے بڑھنے کیلئے حقیقت کا صحیح صحیح اِدراک ضروری
ہے، اِس لئے حالات کی یہ تصویر دکھانا ناگزیر تھا۔ تاہم ایسا نہیں کہ افق پر صرف
وہ خطرات ہی ہیں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔ افق پر، اللہ کے فضل سے، ہم عقیدہ کی
بنیاد پر اٹھتی ہوئی تحریک کے آثار بھی صاف دیکھ رہے ہیں۔ بادل کی بہت سی چھوٹی
چھوٹی ٹکڑیاں فی الوقت تشکیل پا رہی ہیں۔ البتہ موسموں کی یہ حرارت جس کے باعث
”سمندر“ کھول رہا ہے، عنقریب کچھ اور بھی بڑی بڑی گھٹائیں اٹھا نے کا باعث بننے
والی ہے۔ یہ امت بلاشبہ وہ سمندر ہے جو ایسی ہزاروں گھٹائیں اٹھانے کی امکانی
صلاحیت رکھتا ہے۔ ”سمندر“ کی یہ حیرت انگیز استعداد اور فاعلیت، ایسے بے شمار کٹھن
موسموں میں، کامیابی کے ساتھ اپنا ظہور کر چکی ہے اور تاریخ کو مسلسل حیرت میں ڈال
کر رکھے ہوئے ہے۔ اَبر اُٹھنے میں جس قدر دیر ہوتی ہے اتنا ہی زور کے باران کا
امکان بڑھتا ہے۔ اور بالآخر جب ”باران“ اترتا ہے تو وہ اُس ”حرارت“ کا بھی خاتمہ
کرتا ہے اور ایک نئے سرے سے زمین پر ”منفعت“ اور ”ہریالی“ لے آنے کا بھی ذریعہ
بنتا ہے!
سب سے پہلے ہمارے اِس مطلوبہ تحریکی عمل کی اپنی
ہی ضرورت ہے کہ وہ صورتحال کی ایک بالکل صحیح تصویر دیکھنے اور دِکھانے پر قدرت
رکھتا ہو۔ یہ تصویر اگر کسی ”حرارت“ کا موجب بنتی ہے تو وہ بھی اِس عمل کی ایک
باقاعدہ ضرورت ہے!
٭٭٭٭٭
اِس معرکہ کی نیچر کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے یہ
سامنے رکھنا ضروری تھا کہ ہمارے یہاں سے استعمار گیا ہے نہ کہ استشراق۔بلکہ یہ کہ
استعمار ہمارے یہاں استشراق کی نہایت کامیاب کاشت کر کے گیا ہے اور اِس فصل کو ایک
خاص مرحلہ تک پہنچا دینے کے بعد ہی یہاں سے رخصت ہوا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ وہ اپنا
سب کچھ یہاں استشراق ہی پر سہارا کرتے ہوئے چھوڑ گیا ہے۔ اِس ’پوسٹ کولونائزیشن
ایرا‘ کا بیشتر معاملہ ہمارے یہاں استشراق کی عقائدی وثقافتی استعداد پر ہی انحصار
کر رہا تھا۔ یہاں ہماری تمام تر توجہ ایوانوں میں بیٹھی ہوئی کچھ فضول قسم کی
مخلوقات ہی کی طرف چلی جانا، جو کہ بڑی حد تک دکھاوے کی چیز تھیں(15)، اور اپنی سب
امیدیں اُنہی کو ہٹا دینے پر مرکوز کر دینا __ یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ سسٹم ٹھیک ہے
بلکہ ’اسلامی‘ بھی ہے، خرابی محض اِن ’اوپر بیٹھے ہوؤں‘ میں ہے! __ معاملے کی پوری
تصویر نہیں تھی۔ ہمارا اصل معرکہ اِس استشراق کے ساتھ تھا اور ہے۔ یہاں ایک
نظریاتی جنگ کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ ایک نظریاتی (ہماری اصطلاح میں ”عقائدی“) اور
ثقافتی جنگ کو حرارت کی ایک خاص سطح پر پہنچائے بغیر یہاں وہ ہلچل ممکن نہیں تھی
جو یہاں واقعتا کسی تبدیلی کا پیش خیمہ بنتی۔ یہاں کی برف اس خاص عمل کے ذریعے ہی
پگھلائی جا سکتی تھی۔ ”آنچ“ مسلسل بڑھاتے چلے جانا اور اس کے علاوہ فی الحال کسی
بات کی جلدی نہ کرنا ایک مناسب ترین حکمت عملی ہو سکتی تھی۔ یہاں پر کھڑی کی گئی
ایک بھاری بھر کم عمارت کو جب تک نیچے سے اچھا خاصا کھوکھلا نہ کر دیا جاتا اور
اِس کے بہت سے جوڑ ہلا نہ دیے جاتے، اِس کو اوپر سے ہلانے جلانے کی کوشش جذبوں اور
قوتوں کا کوئی صحیح مصرف نہ تھا۔ (خواہ یہ ماضی میں ہونے والی کوئی ”سیاسی جدوجہد“
ہو یا حالیہ عشرے میں بعض دینی حلقوں کی جانب سے تجویز کردہ ”مسلح تصادم“)۔ اِس کی
بنیادوں کو پوری طرح کھوکھلا کر دیے بغیر ہی اِس کو ’گرتے ہوئے ایوان‘ باور کر
بیٹھنا اور ہر بار اِس کو کسی ’ایک آدھ‘ دھکے کا ضرورت مند جانتے ہوئے اِس کی
”بالائی سطح“ پر ہی زور لگانا.... بلکہ سیاسی عمل میں شریک ہمارے بعض طبقوں کا اِس
عمارت کو گرانے کی غرض سے اِس کی ”بالائی منزل“ پر جا پہنچنے کی کوشش کرنا.. بلکہ
اِس ”بالائی منزل“ کی چند اینٹیں اکھاڑنے کی کوشش بھی کر آنا.. اور کسی وقت تو اِس
اکھاڑ پچھاڑ میں کامیابی پانے کیلئے خود بھی کسی جوڑ توڑ کا حصہ جا بننا!.. یہ
یہاں کے کسی بھی مسئلہ کا حل نہ تھا۔ نہ صرف کسی بھی مسئلہ کا حل نہ تھا، بلکہ
بذات خود بحران تھا اور سچ پوچھیں تو پچھلے ایک عرصہ سے یہاں کا سب سے بڑا بحران
ہی شاید یہ رہا ہے۔ یہ واقعتا ایک آشوب ناک صورت ہے۔
یہ رخنہ درحقیقت اُس وقت سے ہمارے یہاں بنیاد پا
گیا تھا جب ہم نے اِس استعمار کو عام ’بیرونی حملہ آوروں‘ پر قیاس کرتے ہوئے اپنا
لائحۂ عمل ترتیب دینا شروع کیا تھا، چاہے اِس لائحۂ عمل کو ترتیب دینے میں آگے
چل کر جو بھی سکول آف تھاٹ پائے گئے ہوں۔ اِن سبھی اسلامی طبقوں کے یہاں اِس
عقائدی اور ثقافتی فنامنا، جس کا نام استشراق تھا، کے مقابلے پر پورا اترنے اور اس
کے خلاف قوم کو سب تیشے اور نیزے بھالے اٹھوا دینے کی جانب کوئی خاص توجہ اور
اہتمام نہیں پایا گیا۔ حالانکہ اب وقت آ گیا تھا کہ ہمارا ”عقیدہ“ ایک بار پھر
دنیا کو اپنی قوت کے عجوبے دکھائے، اور دنیا صاف صاف باطل کے پرخچے اڑتے دیکھے،
چاہے استعمار اِس کرسیِ اقتدار پر کوئی چار دن اور رہے یا پھر اُس کے تربیت یافتہ
شاگردوں کا کوئی باصلاحیت ٹولہ اُس کی جگہ سنبھال لے۔ مگر جیسا ہم نے کہا، استعمار
کے خلاف سرگرم ہمارے بیشتر دینی طبقے اِس کو ’بیرونی حملہ آوروں‘ قسم کی کوئی چیز
سمجھ کر ہی برسر عمل رہے تھے، اور شاید اِس فتنۂ عظیم کو اِس کے صحیح حجم کے ساتھ
دیکھنے والی پہلی تحریک سید ابو الاعلی مودودیؒ کی جماعت اسلامی تھی جس کو یہاں
کام کرنے کیلئے چند سال ہی مل پائے تھے۔ صاف بات ہے، استعمار ہمارے ہاں سے گیا تو
وہ ہمارے ”عقیدہ“ سے مات کھا کر نہیں گیا، الٹا ہمیں اپنا ”عقیدہ“ دے کر گیا۔ بلکہ
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ’استعمار‘ سے یہ جنگ جیت کر دینے والے وہ طبقے تھے
جو استعمار کے عقیدہ کے __ ممکنہ حد تک __ بہترین نمائندہ تھے!!! پس یہ ایک عقیدہ
کی ہار کب تھی؟! دوسری جنگِ عظیم میں کمر ٹوٹ جانے کے باعث، نہ کہ ہماری کسی سورما
قیادت کے ہاتھوں مجبور ہو جانے کے باعث، وہ ہمارے یہاں سے رخصت ضرور ہوا تھا مگر
اُس کا عقیدہ تو پھر بھی جیت ہی رہا تھا! مگر اِس کو اپنی ایک ایسی جیت مان کر جو
”صدیوں میں ہمیں کبھی نہ ملی ہو“، اور اِس کی ہر سالگرہ پر شادیانوں کا شور اٹھا
کر ہم نے اپنی نسلوں کو ایک نہایت گمراہ کن سمت میں جھونک ڈالا۔ یہ اگر کوئی جیت
تھی تو پھر اِسی سمت میں بڑھتے چلے جانا ’کامیابی‘ کہلائے گا، اور یہی وجہ ہے کہ
سمت اور جہت کا مسئلہ ہی اِس قوم کو برباد کئے دے رہا ہے۔ پوری قوم سرگرداں ہے کہ
اِس مسئلہ کا سرا ہے کہاں پر؟! کوئی ایک بھی طبقہ یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ سمت
کا یہ ٹیڑھ بہت پیچھے سے چلا آ رہا ہے!
غرض استعمار کے دیے ہوئے عقیدہ کے خلاف یہاں پر
تیشے اٹھوائے ہی نہیں گئے اور سمجھ یہ لیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ سیاست کے اکھاڑے
میں اتر کر ہم اِس کو چاروں شانے چت کر کے آ سکتے ہیں! حالانکہ استعمار کے جاری
کردہ باطل کے انتہائی مقبولیت پانے کا خطرہ تو ابھی جا کر پیدا ہوا تھا، جس کے
متعدد وجوہ تھے۔ یوں سمجھئے، ڈیڑھ صدی تک تو ایک برتن زہر سے بھرا جا رہا تھا۔ اِس
تک رسائی زیادہ تر اِس کے خاص طلبگاروں کو ہی ملتی رہی تھی، جن کو برتن کے اندر سے
ہی اپنی ضرورت پوری کروانا ہوتی تھی۔ مگر اب یہ برتن لبالب بھر گیا تھا اور بڑی
تیزی کے ساتھ اپنے اردگرد بہنے لگا تھا۔ ماحول اِس کی زد میں صحیح طرح تو اب آیا
تھا، اور اِس کو ’زندگی کا حصہ‘ تو اب بننا تھا۔ پھر اِس کا ’مقامی روپ‘ دھار لینا
لوگوں کی زندگی کا بے ساختہ حصہ بن جانے کے سلسلہ میں ایک نیا طاقتور فیکٹر تھا۔
رہی سہی کسر پھر اُس ”لائسنس“ نے نکال دی جو اسلام کے نام پر ہمارے کچھ مولانا
حضرات کی جانب سے اِس کی نذر کیا گیا، اور یہ کام بھی خاصا ’بر وقت‘ ہوا تھا۔ اب
یہ ہماری زندگی کا جزوِ لاینفک ہے اور گویا رگ رگ میں سرایت کر گیا ہے۔ اِس طاغوت
کے ساتھ کفر کروانے کیلئے اب جن قیادتوں کی ضرورت ہے اُن کو عقیدہ کے اندر دلجمعی
اور یکسوئی کی ایک خاص سطح درکار ہے اور معاملہ فہمی سے بھی حظ پایا ہونا ضروری
ہے۔ ان قیادتوں کا سب سے بڑا امتیاز ہو گا تو وہ یہی قرآنی الفاظ: وَلاَ
يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ۔(16) یعنی.... اللہ کے حق کے معاملہ میں، جو کہ اُس کی
توحید ہے اور اُس کا زمین پر بلا شرکت غیرے پوجا جانا، بعد اِس کے کہ اُس کے ماسوا
یہاں پائے جانے والے سب معبودوں اور خالص اُس کی شریعت کے سوا یہاں چلنے والے سب
دستوروں کا کھلا کفر کر دیا گیا ہو.. اللہ کے حق کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے
والے کی ملامت کا لحاظ پاس کرنا اُن کی لغت سے خارج ہو گا۔
شرک کے ہزاروں نظریات پر قائم یہ جو ایک منظم
فنامنا ہے، اور جس کو ہم نے ”استشراق“ کے برگ و بار کہا ہے.... اِسکی بابت یہ
اندازِ فکر کہ اپنے تعلیمی، ابلاغی اور انتظامی امکانات کے بل بوتے پر یہ تو اب وہ
باقاعدہ نظام ہے جسکو ہلانے جلانے کا سوچا ہی نہیں جا سکتا جب تک کہ کسی معجزے کے
نتیجے میں خود ہمارے پاس ہی اِس نظام کی باگ ڈور نہ آ جائے! ( وَإِنَّا لَن
نَّدْخُلَهَا حَتَّىَ يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِنَّا
دَاخِلُونَ۔)(17)! اور یہ کہ ”اقتدار“ کے بغیر تو، جسکا ہما کچھ معلوم نہیں کس طرح
ہمارے سر پر آ کر بیٹھے گا، اِسکو لرزانا اور اِسکے خلاف میدان سجانا ’خواب است
وخیال است ومحال‘!.... یہ اندازِ فکر ہماری نظر میں نہایت غلط ہے اور ایک شدید
نفسیاتی ہزیمت کا شاخسانہ۔ گویا دنیا میں باطل کو برسراقتدار دیکھ کر حق نظریات تو
کبھی پنپے ہی نہیں ہیں اور یا پھر اگر کبھی پنپ پائے ہیں تو ہمیشہ باطل کی منت
سماجت کر کے اور اُس کے دیے ہوئے ’فارم‘ بھر کر اور اُس کے ٹھہرائے ہوئے پروسیجرز
میں کولہو کا بیل بن کر ہی دنیا کے اندر اپنا ظہور کر پائے ہیں!
بلاشبہ یہ درست ہے کہ ایک بڑی اکثریت اب جس طریقے
سے اِس نظامِ مشقت کے اندر جوت دی گئی ہے، اُس کو اِس سے رہائی دلوانا اپنی
انتہائی حالت میں کسی اقتدار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مگر ہم نے یہ کب کہا ہے کہ اِس
عمل کا پہلا مرحلہ ہی یہ ہے کہ یہاں کی تعلیمی وابلاغی وثقافتی دنیا میں باطل کی
بچھائی ہوئی لائنیں اکھاڑ کر دھڑا دھڑ ہم اپنی لائنیں بچھانا شروع کر دیں گے؟!
دنیا میں ہمیشہ اقلیت ہی اکثریت کو اپنے طریقے اور دستور پر چلاتی رہی ہے، اور بے
شک ڈیموکریسی اور عوام پرستی کے نام پر جتنی بھی دھول آنکھوں میں جھونک لی گئی ہو،
آج بھی اقلیت ہی اکثریت کو چلا رہی ہے اور ہمیشہ ایسا ہی ہو گا۔ پس کسی بھی تبدیلی
کا پہلا مرحلہ یہی ہو سکتا ہے کہ یہاں وہ ”اقلیت“ سامنے لائی جائے جس کے سامنے
اکثریت بے اثر اور بے حقیقت ہو کر رہ جایا کرتی ہے۔ اکثریت کے نصیب میں تو ہمیشہ
یہی آیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی اقلیت کے دیے ہوئے فلک میں گردش کرے، سوال صرف یہ ہے
کہ کیا آج ہم وہ ”اقلیت“ اپنے پاس رکھتے ہیں جس کے سامنے اکثریت بے وقعت ہو جایا
کرتی ہے اور جس کو اپنے نظریات پر جما ہوا دیکھ کر اور اُس کی قوتِ تاثیر کے
ہاتھوں بے بس ہو کر اکثریت اپنے ہتھیار پھینک دیا کرتی ہے؟ ظاہر ہے جس چیز کا ہم
رونا رو رہے ہیں، یہ وہ اقلیت نہیں ہو گی جو بھاگ بھاگ کر اکثریت کے پیچھے جا رہی
ہو اور اُس کی ملت میں گم ہونا اور اُس کی ”رائے عامہ“ کے حلقۂ اِرادت منداں میں
شامل رہنا اُس اقلیت کی ایک بے حد بڑی ترجیح ہو! ایسی اقلیت جو یہاں چلنے والے
دستوروں کے اندر اپنے لئے ’گنجائش‘ ڈھونڈتی پھر رہی ہو اور یہاں چلنے والے لہجوں
اور یہاں کے مقبولِ عام موضوعات کو reproduce کرنے کی ہی مہارت پیدا کر کے
رکھے، ہرگز یہاں مطلوبہ اسلامی تحریکی عمل کی ضرورت نہیں۔ حضرات! ہمیں تو ایسی
”اکثریت“ وارے کی نہیں جو ”پیچھے چلنے والی“ (یعنی follower) ہو، پھر ایسی ”اقلیت“ ہمارے
کس کام کی؟؟؟!
برادرانِ ملت! ”اِمامت“ ایک خاص منصب ہے اور کچھ
نہایت خاص اوصاف کا متقاضی ہے۔ یہ اوصاف سامنے لے آئے جائیں تو ”اِمامت“ آپ سے آپ
آتی ہے۔ یقین کیجئے، مسئلہ ”اِمامت“ سامنے لانے کا ہے نہ کہ ”اقتدار“ لے کر دکھانے
کا۔ اپنے اِس بحران کا صحیح تعین ہماری سب سے پہلی ضرورت ہے!
اب جہاں تک اِس ”اِمامت“ کا تعلق ہے تو ہمیں معلوم
ہے ہمارے تحریکی حلقوں کے یہاں اِس کے ”انفرادی اوصاف“ بتانے میں کوئی خاص کمی
نہیں رہنے دی جاتی۔ مگر جو بات عموماً نظر سے اوجھل ہے وہ یہ کہ ”اِمامت“ کے
انفرادی اوصاف جتنے بھی اہم ہوں ان کی نوبت بعد میں آتی ہے، سب سے پہلے دیکھنا یہ
ہوتا ہے کہ آپ کی وہ دعوت جو آپ کے تحریکی وجود سے پھوٹ پھوٹ کر برآمد ہو رہی ہے
اُس کا بنیادی مضمون کیا ہے اور خود اُس کے اندر ”اِمامت“ کا جوہر کس حد تک بول
رہا ہے اور کیا خود اُس میں تو زمانے کے پیچھے چلنے کا داعیہ بول بول کر اپنا آپ
نہیں بتا رہا؟! زمانے کو اپنے پیچھے چلانا یا زمانے کے پیچھے چلنا، اِسکا فیصلہ سب
سے پہلے آپ کے مضمونِ دعوت سے ہو گا اور اُن لہجوں سے ہو گا جو جاہلیت کے دیے ہوئے
لہجوں کے مد مقابل آپ کے تحریکی وجود سے نشر ہو رہے ہوں گے۔ ”اِمامت“ کا مطلب ہی
یہ ہے کہ آپ دوسرے کو اپنے پیچھے لگا سکیں، نہ یہ کہ آپ اپنے آپ کو اُسکا ایک اچھا
اور نمایاں اور کامیاب follower ثابت کر کے دکھائیں!
شخصی اوصاف کی اہمیت اپنی جگہ، مگر ”اِمامت“ کا سب
سے پہلا تقاضا یہ ہو گا کہ آپ جاہلیت کی اقتداءسے نکل آئیں اور اُس کی امامت کو
اور اُس کی اقتداءمیں اختیار کئے جانے والے ایک ایک لہجے کو صاف چیلنج کریں اور
اُس کے مقابلے میں اپنے وہ جداگانہ لہجے لے کر آئیں جن میں آپ کا اپنا عقیدہ بول
رہا ہو اور جن میں آپ کے اِس آسمانی عقیدے کے سوا بڑی دیر تک زمانے کو اور کچھ
سنائی نہ دے۔ اِس کا دوسرا تقاضا یہ ہوگا کہ ماحول اور گرد و پیش میں آپ اپنی
اقتداءکروانے پر ہی اصرار کر کے دکھائیں (ایک نظریاتی معنیٰ میں نہ کہ کسی شخصی یا
تنظیمی معنیٰ میں) اور کسی صورت اپنے اِس مطالبہ سے دستبردار نہ ہوں۔ آپ کے ”شخصی
اوصاف“ جوکہ بے حد اعلیٰ ہونے چاہئیں، اِس عمل میں محض آپ کے ”ممد“ ہوں گے، البتہ
خود اِس ”عمل“ کو وجود دینا جس چیز کے بس میں ہے وہ آپ کی دعوت کا مضمون content ہے، یعنی دوسرے لفظوں میں یہ آپ کا ”عقیدہ“ ہے اور اس ”عقیدہ
پر آپ کا اصرار“۔
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ
بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (السجدۃ: 24
)
”اور ہم نے اُن میں سے امام پیدا کئے اپنے
حکم سے، جب انہوں نے جم کر دکھایا؛ اور تھے وہ ہماری آیتوں پر وثوق رکھنے والے“
پس اِس ”اِمامت“ کا پہلا زینہ یہی ”حنِیفیت“ ہے۔
باطل سے منہ موڑنا خدا کی جانب قبلہ رُو ہونے کی شرطِ اول ہے۔ ”صفیں“ بننے کی نوبت
ہمیشہ اِس کے بعد آیا کرتی ہے! وہ لطف جو ایک موحد کو جاہلیت کے نشر کردہ لہجوں
اور اصطلاحوں اور ”حوالوں“ کو رد کرنے میں ملتا ہے اور خالصتاً اپنے دین کے دیے
ہوئے ہوئے لہجوں اور اصطلاحوں اور ”حوالوں“ پر اصرار کرنے میں نصیب ہوتا ہے، دنیا
میں اُس جیسا کوئی لطف ہے اور نہ راحتِ جاں(18)۔ جاہلیت پر یہ واضح کرنے میں کہ وہ
ایک موحد کو دینے کیلئے کوئی ایک بھی چیز اپنے پاس نہیں رکھتی، اور جو کچھ رکھتی
ہے وہ آسمان سے اتری ہوئی اُس نعمت کے مقابلے میں جو موحد اپنے پاس رکھتا ہے نرا
کاٹھ کباڑ ہے.. جاہلیت کو کھول کھول کر یہ پیغام دینے میں جو لطف اور رعنائی رکھی
گئی ہے، اُس کے جوڑ کی کوئی چیز دنیا میں نہیں۔ ”قوت“ کا یہ وہ خزانہ ہے جو
”تملکون بہا العرب وتدین لکم العجم“ کا موجب بنتا ہے! اِس کے بغیر دنیا کی کامیابی
اور نہ آخرت کی سرخ روئی!
تحریکی سطح پر.... سب سے پہلے یہاں وہ ”امتیاز“
اگر آپ سامنے لے آتے ہیں جو کسی معاشرے پر اثرانداز ہونے کیلئے خشت اول کی حیثیت
رکھتا ہے اور ایک باطل ”اسٹیٹس کو“ کا پردہ چیر کر اپنا ظہور کرتا ہے تو یبوست کے
مارے ہوئے اِس دور اور ماحول میں جتنی گنجائش آپ کی دعوت کیلئے آج ہے اُتنی شاید
اِس سے پہلے کبھی نہ رہی ہو۔ یہاں پر پائے جانے والے سماجی ظلم، خیانت اور
بدعنوانی وغیرہ، کہ جس کا کوئی علاج اِس جاہلیت کے پاس ہے ہی نہیں، واقعتا آپ کے
حق میں ایک اتنا بڑا خلا پیدا کر چکی ہے کہ آپ کی پیش قدمی کیلئے یہ اضافی طور پر
ایک ممد ومعاون فیکٹر ہو سکتا ہے، بشرطیکہ آپ اِس کو ایک ”اضافی فیکٹر“ کے طور پر
ہی لیں اور آپ کا اصل اختلاف اور نزاع تاریخ کے اِس بدترین شرک کے خلاف وہ تمام
لہجے لئے ہوئے ہو جو انبیاءکی دعوت کا خاصہ رہا ہے.. اور یہی لہجے آپ کی پریزنٹیشن
میں نمایاں ترین ہوں۔
(مدیر ایقاظ کو درپیش کچھ ناگزیر مصروفیات
کے باعث، یہ موضوع اِس مجلس میں پورا نہیں ہو سکا۔ امیدوار ہیں کہ آئندہ مجلس میں
اِسی موضوع کو آگے بڑھایا جا سکے گا، اِن شاءاللہ)
(1) (آل عمران 165) ”اِن سے کہو،
یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے“
(2) بھلا ہو ٹی وی میلادوں، نعتوں اور
دستوری ترامیم ایسی کچھ ”نادر و قیمتی“ اشیاءکا، جن کے دم سے یہ سب کرشمے ممکن
ہوئے اور برابر جاری ہیں!
(3)حالیہ عشرے میں ہمارے یہاں ”حاکمیت“ کے
موضوع پر خاصا کچھ لٹریچر سامنے آیا ہے، جس نے یہاں کے تحریکی حلقوں میں، جن میں
سے کئی ایک اس کیلئے شاید تیار نہیں تھے، کچھ نئی فکری بحثوں کو جنم دیا ہے۔
انقلاب کے داعی بعض حلقے جو اپنے منہج کی فقہی تأصیل ابھی تک نہیں کر پائے تھے،
اِس ’ناگہانی‘ صورتحال کے ساتھ پورا اترنے کیلئے مختلف اپروچ اختیار کرنے لگے۔ ان
میں سے کچھ ایسے طبقے جن کی اصل پریشانی شاید یہ تھی کہ وہ کسی بھی نئی چیز کو
اپنے فکر کے احاطہ میں پیر نہ دھرنے دیں تاکہ ان کے نوجوانوں کو یہ تاثر نہ ملے کہ
ان کے ہاں کسی چیز کی کمی تھی جسے اب اِس نئے لٹریچر نے آ کر پورا کرنا شروع کر
دیا ہے!.. اِن کی فوری ضرورت یہی ہو سکتی تھی کہ یہ حکم بغیر ما انزل اللہ کو ایک
غیر کفریہ فعل ثابت کرنے کیلئے کہیں نہ کہیں سے کچھ نہ کچھ مواد اپنے کارکنوں کو
فراہم کریں۔ اِس پریشانی میں، کچھ نے اؤ دیکھا نہ تاؤ، عرب میں پائے جانے والے اُس
فکری اپروچ کو جا اختیار کیا جو حکم بغیر ما انزل اللہ کو کفریہ فعل قرار دینے کو
سیدھا سیدھا ’خارجیت‘ سے تعبیر کرتا رہا ہے! اِس جلدی میں ہمارے یہ انقلابی حلقے
اِس بات کو نظر انداز کر بیٹھے کہ عرب میں پایا جانے والا یہ فکری گروہ اپنا یہ
سارا مقدمہ تو لایا ہی اس لئے تھا کہ وہ عالم اسلام میں پائی جانے والی ”انقلاب“
کی دعوتوں اور تحریکوں کو ’فتنہ اور فساد‘ کی تحریکیں ثابت کرے اور موجودہ
حکمرانوں کو ہی ”شرعی اولی الامر“ اور ”الجماعۃ“ ثابت کر کے اور مسلمانوں کو سیدھا
سیدھا ان کی بیعت اور اطاعت میں لا کر ان کے ذہنوں سے اُن سب تصورات کو کھرچ دے جو
سقوطِ خلافت کے متصل بعد (بقول اس کے، ”کچھ شرپسندوں“ کے ذریعے!) یہاں پرورش پانے
لگے تھے اور جو کہ عین اُس ”انقلاب“ کی طرز پر جو رسول اللہ ﷺ نے ”وقت کے باطل
نظام کو گرا کر اور اس کی جگہ آسمانی نظام قائم کرنے“ کی صورت میں برپا کیا تھا،
”موجودہ نظاموں کو ہٹا کر ان کی جگہ اسلامی نظام قائم کرنے“ کو وقت کا ایک اہم
ترین فریضہ باور کرتے ہیں!
ہماری دانست میں، اِن انقلابی حلقوں کے اِس ارجائی
تعبیر کو اپنے یہاں راستہ دلانے کے پیچھے جو سوچ کارفرما تھی وہ یہی کہ حکم بغیر
ما انزل اللہ کو سیدھا سیدھا کفر کہہ ڈالنا اِن کو ”شدت پسندی“ نظر آتا تھا اور
اِس ”شدت پسندی“ کی جانب دھڑا دھڑ رخ کرتے اپنے نوجوانوں کو روکنے کیلئے ’دلائل‘
کا ایک حاضر و تیار (ready made) ذخیرہ کہیں سے اِن کو فوری
دستیاب ہو سکتا تھا تو وہ عرب میں پایا جانے والا وہی فکری گروہ تھا جو وقت کے
نظاموں کو اِسلام کی سند دے رکھنے کو اپنی دعوت کا مرکزی ترین نقطہ بنا کر بیٹھا
تھا اور اس پر کچھ نہ کچھ مواد بھی اپنے پاس رکھتا تھا۔ اِس سے ہمارے اِن انقلابی
حلقوں کو حکم بغیر ما انزل اللہ کو کفریہ فعل قرار نہ دینے کے حوالے سے تو جیسے
کیسے کچھ ’دلائل‘ ہاتھ لگے، اور اِن ’دلائل‘ کی علمی وقعت ثابت کرنے کیلئے اِن کو
اپنے اس عرب مصدر کی فکری پختگی کی بھی کچھ نہ کچھ داد دینا پڑی.... مگر وہ بات جس
کا شاید ابھی تک ہمارے ان انقلابی حلقوں کو ادراک نہیں یہ ہے کہ عرب کا یہ طبقہ جس
نے حکم بغیر ما انزل اللہ کو مطلق طور پر ایک غیر کفریہ فعل قرار دلوانے کیلئے یہ
سب ’علمی‘ محنت کر رکھی ہے، اُس نے یہ سب پاپڑ اِس لئے ہی تو بیلے ہیں کہ وہ وقت
کے حکمرانوں کو اسلام کی سند دلا کر ”انقلاب“ کے داعیوں کو ’ضلالت کے سرغنے‘ ثابت
کرے اور جوکہ وہ کھل کر اور نام لے لے کر کہتے ہیں، اور جو کہ اُن کے ویب سائٹوں
پر بآسانی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے!
الدین النصیحۃ.. ہمارے انقلابی حلقے اگر اِس
ارجائی فکر کو باقاعدہ ’علمی بنیادوں‘ پر اپنے یہاں در آنے کیلئے راستہ دے دیتے
ہیں، تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ اُن نوجوانوں کے روبرو جو اَب بہرحال ”حاکمیت“ کے
موضوع کو سنجیدگی سے لینے لگے ہیں، وقتی طور پر ’دلائل‘ کی کچھ خانہ پری کر لی
جائے اور ’جواب‘ دے ڈالنے کی ایک روایتی کارروائی سے بھی عہدہ برآئی ہو جائے، گو
ہمارا خیال ہے نوجوانوں کو اِن ’دلائل‘ سے متاثر کرنے اور واپس اُسی پرانی ڈگر پر
لے آنے میں یہ چیز پھر بھی کامیاب نہ ہو گی، تاہم اِرجائی فکر کے دیے ہوئے اِن
’دلائل‘ کو بقلم خود عام کرنے کا مطلب یہی ہو گا کہ یہاں کے انقلابی لہجوں میں جو
تھوڑی بہت جان رہ گئی ہے، اُس کا اب باقاعدہ گلا گھونٹ دیا جائے اور ان انقلابی
جماعتوں نے ”جگر کا خون دے دے کر“ جو بوٹے آج تک پالے ہیں اور جن کی سب زندگی اور
ہریالی انہی انقلابی لہجوں کو زوردار بنا رکھنے میں ہے، ”امیدوں کا یہ چمن“ پھلا
پھولا رہنے کی بجائے مضمحل ہوتا چلا جائے۔
ہمارے یہ بھائی اگر بغور دیکھ لیں کہ ”اسٹیٹس کو“
کی بیعت کے داعی اِن ارجائی افکار کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے اور یہ کہ سب سے پہلے
اور سب سے بڑھ کر ہمارے اِن بھائیوں کی اپنی ”انقلابی جدوجہد“ ہی اُن ”پرو- اسٹیٹس
کو“ افکار کا اصل نشانہ ہے، تو یہ اُنکی ’فکری پختگی‘ کی داد کم از کم نہ دیں!
(4) ہمارے اِس دعویٰ کو غلط ٹھہرانے کیلئے
احمد بن نصر خزاعیؒ (مقتول 231 ھ) کے معتزلی خلیفہ واثق باللہ کے خلاف ”خروج“ یا
اس سے ملتے جلتے کسی واقعہ کا حوالہ لے آنا موضوعِ گفتگو سے سراسر غیر متعلقہ ہو
گا۔ ایسے واقعات سے ”خروج“ کی بحثیں ہی ثابت ہو سکتی ہیں، نہ کہ ”انقلاب“ کی بحثیں
جو کہ ”خروج“ کی نسبت بے حد وسیع تر ایک چیز ہے۔ ہمیں بھی اِس سے اختلاف نہیں کہ
ائمۂ سنت کی ایک بڑی تعداد خاص کڑی شروط کے ساتھ ایک فاسق حکمران کے خلاف ”خروج“
کو اصولاً جائز قرار دیتی ہے، اور جوکہ ہماری نظر میں فقہِ اسلامی کے اندر پایا جانے
والا راجح تر قول ہے۔ البتہ وہ پوری ایک فکر اور جدوجہد جو سقوطِ خلافت کے بعد
یہاں ”انقلاب“ کے حوالے سے سامنے آئی ہے، وہ اس سے کہیں وسیع تر اور عمیق تر مفہوم
رکھتی ہے جو ”خروج“ کے تحت پچھلی صدیوں میں ہمارے ائمۂ فقہاءکے ہاں زیر بحث آتا
رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”انقلاب“ کے داعی طبقے اپنی اِس پاکیزہ جدوجہد کیلئے سب
”انسپائریشن“ رسول اللہ ﷺ اور جماعتِ صحابہؓ کی اُس جدوجہد سے لیتے ہیں جس کو یہ
”انقلابِ نبوی“ سے تعبیر کرتے ہیں (نہ کہ اموی اور عباسی دور میں ائمۂ سنت کے دست
پر رونما ہونے والے ”خروج“ ایسے کسی اکا دکا واقعہ سے!) اور جو کہ ان کے نزدیک
”ایک کھلے باطل کے خلاف پیغمبرانہ اقدام“ سے عبارت ہے نہ کہ ’خلیفۂ وقت کے فسق
وفجور کے خلاف خروج“ پر قیاس ہونے والی کوئی بے جان فقہی بحث۔ بے شک ایقاظ میں ہم
لفظ ”انقلاب“ کو ایک منہجی تعبیر کے طور پر نہیں چلاتے، مگر اِس عنوان کے تحت آنے
والے کئی ایک معانی ہماری نظر میں یقینا صالح ہیں اور وہ دَور اور واقعہ جس کا آج
ہمیں سامنا ہے اُس کے رُوبرُو بلا شبہ یہ ہماری ایک بے حد بڑی ضرورت ہیں۔ وہ باطل
اور وہ کفر جس کا اِس دور میں ہمیں سامنا ہے، فکری موشگافیوں سے قطع نظر، اس کا
کفر اور باطل ہونا اِس قدر واضح ہے اور یہاں کے ایک غیور دیندار پر اس کا کفر اور
باطل ہونا اس قدر عیاں ہے کہ وہ ”انقلاب“ کا لفظ استعمال کرے یا نہ کرے وہ اس کو
ویسی ہی ایک چیز دیکھتا ہے جس کو خاتم المرسلین نے آ کر جزیرۂ عرب کے اندر مٹایا
تھا اور جس کو آپ کی تربیت یافتہ اُس پاک طینت جماعتؓ نے آپ کی رحلت کے بعد کرۂ
ارض کے ایک بڑے حصے کے اندر مٹایا تھا۔ چنانچہ جب وہ رسول اللہﷺ اور صحابہؓ کے
ہاتھوں رونما ہونے والے اِس عمل کو ”انقلاب“ سے تعبیر کرتا ہے تو اپنے دَور میں
بھی ویسے ہی ایک ”انقلاب“ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اُن سب مباحث کو سامنے لانے کی
کوشش کرتا ہے جو جماعتِ رسول اللہﷺ کے عمل سے سامنے آئے تھے۔یہ مسئلہ واقعتا اتنا
ہی صریح ہے اور اتنا ہی واضح۔ اور اس کی اس دوٹو ک حیثیت کو قائم رکھنے کیلئے
ضروری ہے کہ ان مباحث کو اموی و عباسی دور میں ہونے والی ”خروج“ کی بحثوں کے ساتھ
ہرگز الجھنے نہ دیا جائے۔ ایسا ہونے دینا خود اپنے ہاتھوں اِس مسئلہ کی جان نکال
دینے کے مترادف ہوگا اور ہمیں ڈر ہے جو ”انقلابی“ حلقہ اپنے یہاں ایسا ہونے دے گا،
کچھ دیر بعد اُس کو ”انقلاب“ کے نام پر ایک بوجھل بے جان جثہ اپنے کاندھوں پر اٹھا
کر پھرنا ہو گا اور بعید نہیں کسی وقت اس سے جان ہی چھڑا لینا پڑے۔
(5) وہ باطل جس سے آج ہمیں سابقہ پیش آیا
ہے، اس کا موازنہ اُموی اور عباسی ادوار سے کرانا اور اس سے تعامل کے معاملہ میں
اُموی و عباسی دور کے ائمۂ سنت کے اختیار کردہ طریقِ کار ہی کو بار بار حوالہ
ٹھہرانا __ جوکہ ہمیں اِن حالیہ بحثوں کے اندر نظر آ رہا ہے __ اِس کے پیچھے کئی
ایک فریق ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی مار پر نظر آتا ہے۔ ایک طرف وہ
ارجائی افکار ہیں جو وقت کے اِس باطل کو ’اموی‘ اور ’عباسی‘ پر قیاس کروا کر ہمیں
اِس کی ”بیعت“ کا راستہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں ”ائمۂ سنت“ کا بھاری
بھر کم حوالہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ کام کر دے گا! دوسری طرف مستشرقین کے کچھ
محنتی و لائق شاگرد ہیں جو ”اموی“ و ”عباسی“ اَدوار کا وہ احترام اور وہ ہیبت
ہمارے بچوں کے دلوں پر سے ختم کروا دینا چاہتے ہیں جوکہ ”اَدوارِ خلافت“ کے حوالے
سے بہرحال ہمارے ائمہ نے امت کے اندر قائم کروا رکھی تھی اور جس کا دلوں پر قائم
رہنا مطالعۂ تاریخ کے دوران آج بھی اُتنا ہی ضروری ہے، بلکہ اُس سے کہیں زیادہ
ضروری۔ اول الذکر، موجودہ باطل کا درجہ بلند کر کے اِس کو ہمارے ادوارِ خلافت کے
ساتھ ملانا چاہتے ہیں.. اور ثانی الذکر، ہمارے اَدوارِ خلافت کو نیچے لا کر ہماری
آج کی اِس باطل صورتحال کی سطح پر لانا چاہتے ہیں۔ خدا ہمیں اِن دونوں کے شر سے
محفوظ رکھے۔
(6) ہم پر ”گھوڑے چڑھا لانے“ میں یقینا اِس
سے پہلے تاتاری بھی کامیاب ہوئے تھے۔ مگر وہ تصرف جو ہمارے معاشروں کے اندر
استعماری طاقتوں نے کیا یہاں تک کہ ہمارے سماجی و اجتماعی وجود کے حوالے سے اپنی
مرضی کی ایک تصویر بنائی، تاتاری فتوحات اور اس کے مابعد احوال کا اِس سے کوئی
موازنہ ہے ہی نہیں۔
(7) ہمیں تو اِس سے بھی اختلاف ہے کہ
’لیبل‘ کی تبدیلی سے پہلے معاملہ یہاں ”سب“ پر واضح تھا۔ ہمارے علم کی حد تک....
جس وقت باقاعدہ ’آفیشل‘ طریقے سے یہ ایک کالونی تھی تب بھی حق اور باطل کی بنیاد
پر یہاں کی قومی و اجتماعی صورتحال کو صاف مسترد کرنا __ سوائے ایک سید ابو
الاعلیٰ مودودیؒ کی تحریک اسلامی کے یا تحریک مجاہدین ایسے کچھ چھپتے پھرتے موحد
طبقوں کے __یہاں کی معروف جماعتوں، مسلکوں اور شخصیات کے حوالے سے کہیں ریکارڈ پر
نہیں۔ وہ بیشتر سرگرمیاں جو یہ مسلکی و اصلاحی جماعتیں یا یہ مذہبی شخصیات آج جاری
رکھے ہوئے ہیں، اُس وقت بھی قریب قریب اِسی طرح جاری رکھے ہوئے تھیں اور بعید نہیں
کئی ایک کے معمولات میں سر مو کوئی فرق نہ آیا ہو! پس جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے،
اسٹیٹس کو کا ’اسلامی‘ ہونا یا نہ ہونا اِن عام مذہبی طبقوں کے حوالے سے ایک غیر
متعلقہ سوال کا درجہ رکھتا ہے۔ خدانخواستہ کوئی اِس سے بھیانک تر تبدیلی آ جائے،
تو بھی اِن کے منہج اور اسلوب میں شاید کوئی فرق نہ آئے، ’دنیا‘ جیسی تھی ویسی ہی
رہے گی!
(8) ہمارے ایک دوست جو علاقہ مردان میں کسی
مغربی این جی او کے ساتھ کام کرتے تھے، ایک بار ہمیں بتا رہے تھے کہ ان کی این جی
او پورے ضلع مردان میں پائے جانے والے ”لائیو اسٹاک“ کی بابت دقیق شماریاتی
معلومات رکھتی ہے اور ان معلومات کو اپ ڈیٹ کرنے کا انتظام بھی۔ کہہ رہے تھے،
مردان کے کسی ایک گاؤں میں بھیڑوں اور بکریوں کی کتنی تعداد پائی جاتی ہے اور
گزشتہ برس کی نسبت اب کتنی کم یا زیادہ ہو گئی ہے، یہ معلومات آپ کو ہمارے آفس سے
مل سکتی ہیں، گو وہ یہ معلومات آپ کو دے گا نہیں۔ اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ جس قوم
کو ہماری بھیڑ بکریوں کی بابت دقیق معلومات تیار کرنے اور اپ ڈیٹ رکھنے کا اِس قدر
خیال ہے،وہ ہمارے سماجی، معاشی، سیاسی، فکری اور تحریکی شعبوں سے متعلق معلومات و
تجزیہ کاری کے اندر کیا کمی چھوڑتی ہو گی؟ اور ”یہاں“ پر منصوبہ بندی کیلئے اُس کے
ہاں کیا کیا محنت نہ ہوتی ہو گی؟!
(9) وَقَدْ مَكَرُواْ مَكْرَهُمْ وَعِندَ
اللّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ (
اِبراہیم: 46)
”اور بے شک وہ (رسولوں کے حریف) اپنی چالیں
چلے، اور اُن کی چالیں اللہ کے سامنے تھیں۔ اور اُن کی چالیں ایسی تھیں کہ ان سے
پہاڑ ٹل جائیں“
(10) إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ
وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُواْ بِهَا وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لاَ
يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (آل
عمران: 120)
”اگر تم لوگوں کو آسودگی ملے تو اُن کو
تکلیف ہوتی ہے اور اگر تمہیں رنج پہنچے تو وہ اس پر خوش ہوتے ہیں۔ اگر تم صابر رہو
اور بچ بچ کر رہو (تقویٰ اختیار کرو) تو تمہیں ان کی چالیں کوئی گزند نہ پہنچا
سکیں گی، یقینا اللہ وہ سب کچھ جو وہ کرتے ہیں اُس پر حاوی ہے“
یہاں لفظ شیئاً پر غور فرمائیے، لا یضرکم کیدہم
شیئاً، یعنی اُن کے ماکرانہ منصوبے تمہارا کچھ بھی تو بگاڑ نہیں سکتے! پس ہمارے
پریشان ہونے کی اصل چیز وہ ہے جو ہمیں اِس منجانب خداوندی ضمانت کا مستحق بنا دے،
اور جوکہ Êن تصبرو وتتقوا میں بیان ہوئی یعنی دین
کی حقیقت پر قائم وثابت قدم رہ کر دکھانا اور ہمارے اصولِ دین نے جن باتوں سے
متنبہ کر رکھا ہے اُن سے بچ بچ کر رہنا۔
(11) آج سے نصف صدی پیشتر (جب استعمار ہمیں
چھوڑ کر گیا) بطورِ قوم ہم جس جگہ کھڑے تھے، معاشرتی حوالے سے دیکھا جائے، تو وہ
آج کی نسبت خاصی بہتر صورتحال تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ”اسلامی تحریکوں“ کے اِس نئے نئے
ابھرتے فنامنا کا نہایت گرمجوشی کے ساتھ خیر مقدم بھی ہوا تھا۔ امام مودودیؒ اُس
وقت کی تصویر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مغربی مستعمرین اپنی پوری مدتِ استعمار
میں کسی جگہ بھی اس بات پر قادر نہیں ہوسکے کہ عام مسلمانوں کو اسلام سے منحرف
کرسکیں۔ انھوں نے جہالت ضرور پھیلائی اور عوام کے اخلاق بھی بہت کچھ بگاڑے، اور
اسلامی قوانین کی جگہ اپنے قوانین رائج کر کے مسلمانوں کو غیرمسلمانہ زندگی بسر
کرنے کا خوگر بھی بنا دیا، لیکن اس کے باوجوددنیا کی کوئی مسلمان قوم بھی من حیث
القوم ان کے زیراثر رہ کر اسلام سے باغی نہ ہوسکی۔ آج دنیا کے ہر ملک میں عام لوگ
اسلام کے ویسے ہی معتقد ہیں جیسے تھے۔ وہ چاہے اسلام کو جانتے نہ ہوں مگر اسے
مانتے ہیں اور اس کے ساتھ گہرا عشق رکھتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر راضی
نہیں ہیں۔ اُن کے اخلاق بری طرح بگڑ چکے ہیں اور ان کی عادتیں بہت خراب ہوچکی ہیں
لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں اور ان کے معیار جوں کے توں قائم ہیں۔ وہ سود اور زنا
اور شراب نوشی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ہو رہے ہیں، مگر چھوٹی سی فرنگیت زدہ
اقلیت کو چھوڑ کر عام مسلمانوں میں آپ کو ایسا کوئی شخص نہ ملے گا جو ان چیزوں کو
حرام نہ مانتا ہو۔ وہ رقص و سرود اور دوسرے فواحش کی لذتوں کو چاہے چھوڑ نہ سکتے
ہوں، مگر چھوٹی سی مغرب زدہ اقلیت کے سوا عامۃ المسلمین کسی طرح بھی یہ ماننے کے
لیے تیار نہیں ہیں کہ یہی اصل ثقافت ہے۔ اسی طرح مغربی قوانین کے تحت زندگی
بسرکرتے ہوئے ان کی پشتیں گزر چکی ہیں، مگر ان کے دماغ میں آج تک یہ بات نہیں اُتر
سکی ہے کہ یہی قوانین برحق ہیں اور اسلام کا قانون فرسودہ ہوچکا ہے۔ مغرب زدہ
اقلیت ان مغربی قوانین پر چاہے کتناہی ایمان لاچکی ہو، عام مسلمان اکثریت ہمیشہ کی
طرح آج بھی اسلام ہی کے قانون کو برحق مانتی ہے اور اس کا نفاذ چاہتی ہے“۔ (از
مضمون ”اسلامی تحریکات کیلئے طریق کار“۔ ترجمان القرآن اکتوبر 2010ء)
استعمار کے نکلتے وقت ہمارا جو کچھ بچا رہ گیا
تھا، کاش کہ ہمارا تحریکی عمل اُسی کا ہی خاطر خواہ استعمال کر پاتا۔
(12) خاص اِس ”رائے عامہ“ یا ”قومی دھارے“
والے رخنے سے نقب لگا کر ہماری عمارت کس طرح منہدم کی جا رہی ہے، اِس پر ہم نے
اپنے گزشتہ سے پیوستہ اداریہ (اپریل تا جون 2010 ء) صفحہ 30 تا 37 پر قدرے وضاحت
سے بات کی ہے
(13) کسی کی جانب ”تحاکم“ کرنا یعنی اُس سے
اپنے فیصلے کرا کر لانا۔
(14) کہیں پر ایک جرمن کہاوت پڑھنے کو ملی
تھی: ”جو راستے کہیں نہیں جاتے، نہایت پُر امن ہوتے ہیں“!
(15) ہمارے انقلابی حلقوں کے بعض اصحاب کو
وقتاً فوقتاً اقتدار میں ہونے یا بعض اہم ریاستی عہدوں اور ذمہ داریوں کو انجام دینے
کے دوران اِس بات کا تجربہ ضرور ہوا ہو گا کہ اِس طاقتور سسٹم کی جان کہاں ہے اور
اِس کے دھارے کو چھیڑنا کیسا جان جوکھوں کا کام ہے اور یہ کہ کچھ ’غیر مرئی‘ عوامل
اِس پورے معاملہ میں کس انداز سے دخیل ہیں! ہم یہ بات ’اوپر بیٹھے ہوؤں‘ کا عذر
بیان کرنے کیلئے نہیں کہہ رہے۔ مقصود یہ ہے کہ ہم اِس مغالطہ سے نکل آئیں کہ اِس
سسٹم کی سب دہلیزوں سے گزر کر اور اِس کی دی ہوئی سب سیڑھیاں چڑھ کر ’اوپر‘ جا
بیٹھنا ہی یہاں تبدیلی کی ضامن اصل چیز ہے جس کے ساتھ امت کی امیدیں لگوا رکھی
جائیں اور عشروں کے عشرے امت کو ذہنی طور پر اِسی ہدف کے ساتھ وابستہ کرا رکھا
جائے.... اور آخر میں پتہ چلے کہ اِس ’پوسٹ کولونائزیشن‘ دنیا میں نرا ’اقتدار‘ تو
کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں!
(16) (المائدۃ: 54) ”اور وہ اللہ کے
معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ رکھیں گے۔
(17) بنی اسرائیل کے الفاظ جو انہوں نے
موسیٰ علیہ السلام کے روبرو اُس وقت کہے تھے جب موسیٰ علیہ السلام نے ان کو
عمالیقیوں کا شہر فتح کرنے کیلئے کہا تھا: ”ہم ہرگز اُس شہر میں جانے والے نہیں جب
تک وہ خود ہی (کسی طرح) اُس سے نکل نہ جائیں، ہاں اگر (کسی طرح) وہ اُس سے نکل
جائیں تو یقینا ہم اُس میں داخل ہونے والے ہیں“!
(18) اِس مضمون کو قدرے تفصیل سے دیکھنے
کیلئے ملاحظہ فرمائیے ایقاظ میں شائع شدہ مضامین ”رواداری کی حدود“، ”رواداری و
خود داری“ اور ”تاثرات کی مار“ جو کہ ہماری تالیف ”موحد تحریک“ میں شامل ہیں۔