فہم قرآن
مابین منضبط قواعد.. و.. ہلاکت خیز منہج
ڈاکٹر رمضان خمیس زکی
اردو استفادہ: محمد زکریا خان
تمام آسمانی صحیفوں میں سے قرآن مجید وہ آسمانی کتاب ہے جس پر اس کی حامل امت نے سب سے زیادہ محنت اور عرق ریزی کی ہے؛ جوکہ اس کتاب کو سمجھنے کے لیے نہ صرف کافی ہے بلکہ دوسرے بہت سے جوانب کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے۔ صرف اُسی محنت اور دقت پسندی کو لے لیجئے جو اِس امت کے کچھ لوگوں نے بالکل ابتدائی زمانوں میں ہی قرآن مجید میں مندرج کلام کے ظاہری پہلو پر کی تھی تو آپ دنگ رہ جاتے ہیں: یعنی قرآن میں موجود سورتوں کی تعداد، آیات کی تعداد، لفظوں کی تعداد، حروف کی تعداد، سجدہ تلاوت کی تعداد اور (رموز) اوقاف وغیرہ پر باقاعدہ تصنیفات اور مراجع ہیں جو ایک نسل سے دوسری نسل کو متواتر منتقل ہوتے چلے آئے ہیں اور ان شاءاللہ قیامت تک ایک نسل اگلی نسل کو منتقل کرتی رہے گی۔ اس امت سے یہ خدمت لینا خدا کی منشا ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: 9)”بے شک یہ (کتاب)نصیحت ہم نے ہی اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔“
اس کتاب سے محبت رکھنے والوں کا یہ عالم تھا کہ درجنوں حضرات ایسے ہوئے جن کا کہنا ہوا کرتا کہ کتاب عزیز کے بارے میں مجھ سے تم جیسا چاہو اور جہاں سے چاہو سوال کر لو، کوئی آیت ایسی نہیں ہے کہ تم مجھ سے اُس کی بابت پوچھو اور میں یہ نہ بتا سکوں کہ یہ آیت کس کے لیے اُتری، کب اُتری اور کہاں اُتری تھی۔
یہ معاملہ قرآن کی کچھ پہلی نسل کے ساتھ خاص نہ تھا کہ جنہوں نے اس اہتمام کے ساتھ قرآن کی حفاظت کی تھی اور اُسے اپنے سینوں میں بٹھا لیا تھا بلکہ آنے والی نسلوں نے بھی نہ صرف کتاب عزیز کے کلام کو قلب و قرطاس میں محفوظ کیے رکھا بلکہ یہ نہایت بیدار مغز ہستیاں تھیں جنہوں نے الفاظ کے ساتھ اس پر ایمان، یقین بھی قائم رکھا۔ سورتوں اور آیات کے نزول کا موقع و محل، اُس سے برآمد ہونے والے معانی و مطالب کا بھی ساتھ کے ساتھ استیعاب کیا اور ایک کے بعد دوسری نسل اس سب ورثے کو سنبھالتی چلی آئی ہے۔ مکہ میں نازل ہونے والی کون سی سورتیں ہیں اور مدینہ میں نازل ہونے والی کون سی، قرآنی قصص، امثال، واقعات، تاریخی وقائع، قرآن کے فنی محاسن، الفاظ کی صرف و نحو، تراکیب، سبھی کا مفصل احوال کتاب کے متن کے ساتھ سیلِ رواں کی طرح امت کی نسلوں کو سیراب کرتا رہا ہے۔
امام مسلمؒ روایت لائے ہیں کہ جب سورت انعام کی یہ آیت نازل ہوئی کہ الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُوْلَـئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ”جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو(شرک کے ظلم)سے مخلوط نہیں کیا ان کے لیے امن (اور جمعیت خاطر)ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں“ تو صحابہ کرامؓ شتاب آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ پوچھتے ہیں کہ ہم تو کسی کو ایسا نہیں پاتے جس کا نفس ظلم کی آمیزش سے (کلی طور پر) محفوظ رہا ہو۔ آپ نے فرمایا: اس آیت میں لفظ ظلم اُس معنٰی میں نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔ یہاں لفظ ظلم اس معنٰی میں وارد ہوا جو اللہ کے ایک صالح بندے نے ا پنے فرزند سے کہا تھا: يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ” برخوردار اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا اس لیے کہ شرک ظلم عظیم ہے۔ “
ملاحظہ فرمائیں کہ نبی علیہ السلام اپنے اصحاب کی قرآن فہمی کی کس طرح اصلاح کرتے ہیں اور صحابہ کرام کو ان کے اپنے اخذ کردہ معانی پر نہیں رہنے دیتے۔
قرآن فہمی کا یہ ٹھیٹ منہج جب تک اس امت نے سنبھالے رکھا تب تک زمین کی وراثت ان کے حصّے میں دے دی گئی تھی۔ بعد کے زمانوں میں قرآن فہمی کے لیے جو درسی نصاب مدون ہو گیا تھا تو سچی بات یہ ہے کہ قرآن فہمی کا منہج صحابہؓ کے ہاں اس سے کہیں وسیع تر اور کشادہ تھا کہ اس سے صرف فقہی مطالب نکالنے کے قواعد تک محدود رہا جاتا۔ چناچہ بعض صحابہؓ کہاکرتے تھے، بخدا میں تو اپنے اونٹ کی کھوئی مہار بھی قرآن میں تلاش کرتا ہوں کیونکہ ہمارا رب فرماتا ہے: مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ”ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کوتاہی نہیں کی۔“ بعد کے زمانوں میں قرآن کے نور سے پوری طرح مستفید ہونے کے لیے وہ استعداد کار نہ پائی گئی کہ جس نے معاشروں کو بدل کر رکھ دیا تھا بلکہ اس کی بجائے کچھ جامد قواعد تک محدود رہنے نے ذہنوں پر قفل لگا دیے اور قرآن فہمی کا وہ ملکہ جو صحابہ کرامؓ کو حاصل تھا بتدریج کم ہوتا گیا۔
دشمنانِ اسلام: دشمنانِ اسلام کو کچھ ہی دیر بعد سراغ مل گیا کہ مسلمانوں کے عروج کی قوت کا سر چشمہ قرآن مجید ہے۔ جب تک وہ اس سر چشمے سے درست اور ٹھیٹ فہم لینا ترک نہیں کر دیتے انہیں شکست سے دو چار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مستشرق نے بے بس ہو کر یہ کہا تھا کہ مسلمانوں کا شیرازہ اس وقت تک نہیں بکھر سکتا جب تک ان کے ہاں قرآن مجید، کعبہ اور جامعہ ازہر باقی ہے۔ اس کانفرنس میں ایک جوشیلا نوجوان تھا جس نے قرآن کے اوراق کی بے حرمتی کرتے ہوئے نکتے کی بات بتلائی کہ کتاب میں موجود قرطاس کے پھاڑنے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا ہاں اس کتاب نے دلوں میں جو معانی راسخ کر دیے ہیں ان میں کسی بگاڑ کی صورت نکل آئے تو بات ہے۔
استشراق کا شعبہ عرصہ دراز سے اسی مشن پر کام کر رہا ہے کہ قرآن مجید کے معانی اور مفاہیم کا ٹھیٹ منہج بدل کر نیا منہج انہیں تھما دیا جائے جسے نافذ العمل کرنے کے لیے عالمِ اسلام میں بہتیرے’ مفسرِقرآن‘ پڑے ہیں۔ استشراق کے ذریعے جو مختلف وارداتیں ہو چکی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ قرآن مجید کے معانی اور مفہوم کی گہرائی میں کسی کو نہ اُترنے دیا جائے اور اس کے ظاہری الفاظ اور قرآن کی خوش الحانی سے تلاوت تک مسلمانوں کو محدود کر دیا جائے۔ اگلی سطور میں ہم ایسے قواعد و ضوابط کو اختصار سے زیرِبحث لائیں گے جس سے ایک طرف قرآن کا اصل مقصد اور معانی کا ادراک پانے کے لیے ایک اسٹینڈرڈ سامنے آ جائے گااور دوسرا اس ٹکسالی اسٹینڈر سے ان تمام جوانب کو الگ چھانٹ کر رکھ دیا جائے جو ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں۔
قرآن کا اصل مقصود اس کا فہم ہے:قرآن مجید سے فہم اخذ کرنا ہی قرآن کے نزول کی اصل غایت ہے۔ دنیا و آخرت کی فلاح کا انحصار بھی اُس فہم کے راسخ ہونے پر ہے جس کے لیے قرآن نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پرقفل لگ رہے ہیں۔“ اس معنی کو اور بھی بہت سے آیات ہیں۔
زمین کا حسن اور قبح انسان کے تصرف پر انحصار کرتا ہے۔ اگر انسان میں ’صلاح‘ پیدا ہو جائے تو دھرتی امن کا گہوارہ بن جائے مگر انسان میں ’صلاح‘ قرآن مجید کے علاوہ کسی طرح بھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ قرآن سے صحیح فہم حاصل کرکے انسان صدیوں کی تاریخ سے اور زمین و آسمان کی غرض و غایت بہت ہی مختصر وقت میں حاصل کر لیتا ہے۔ عرب قوم کی مثال سب کے سامنے ہے۔ قرآن پر ایمان لانے اور اُس سے ہی صحیح فہم اخذ کرنے کے بعد وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے! قرآن مجید کے ذریعے قوت کے اصل سر چشمے تک انسان کی رسائی ہو جاتی ہے اور قوموں میں ضعف کے اسباب سے بھی وہ بہت جلد آگاہ ہو جاتا ہے۔ خوش حالی، بد حالی، عزت و ذلت کے اسباب سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کی وجہ سے اس امت نے پیشہ ور صلاحیت اور صنعت و حرفت میں کمال حاصل کر لیا تھا۔ مغرب کے معاشرتی علوم کے ماہرین میں سے ایک مصنف کہتا ہے کہ عرب کی واحد قوم ایسی ہے جس کی ایک ہی نسل نے ترقی کا آغاز کیا اور اسی نسل نے اپنی زندگی زندگی میں ثمرات بھی حاصل کیے۔ دنیا میں ایسی اور کوئی مثال نہیں ہے کہ ایک ہی نسل اتنی جلد عروج پر پہنچ پائی ہو۔ اس کا سبب وحی سے ناواقف حضرات نہیں پا سکتے۔ ایسا اس لیے ہے کہ وحی اللہ کا نور ہے اور بدن میں جو زندگی مچل رہی ہے وہ اس روح کی مرہونِ منت ہے جو اللہ کے نفخ (پھونک) سے جسم میں داخل ہوئی۔ وحی بھی حیاۃ ہے اور انسان میں خدا کی طرف سے روح بھی حیاۃ ہے۔ پہلی نسل کی شتاب ترقی ان دونوں کے حسین امتزاج کی مرہونِ منت تھی۔ پس جب اصلاح یافتہ انسان دنیا کی قیادت پر فائز ہوتا ہے تو سب چیزیں ہی صحیح ہو جاتی ہیں۔ اگر انسان قرآن کے فہم سے ہی تہی دست ہو جائے تو مفسد فی الارض بن جاتا ہے۔ پھر قوت کے سر چشمے انسان اور زمین کی تباہی کا سبب بنتے ہیں نہ کہ اصلاح اور ترقی کا۔
قرآن سے پہلے زمین میں فساد ہی فساد تھا، اصلاح کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی پھر کس طرح مسلمانوں نے بغیر کسی دوسری قوم کی نقالی کے زمیں کو سنوار دیا تھا؟
قرآن سے فہمِ سلیم حاصل کرنے کے قواعد:
1) شانِ نزول قرآن فہمی کا سب سے اہم قاعدہ ہے: اللہ تعالیٰ کی مراد تک پہنچنے کے لیے پہلا قاعدہ شانِ نزول ہے۔ مثال کے طور پر ظِہار کی آیات اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت اوس بن صامتؓ نے اپنی اہلیہ سے ظِہار کیا تھا۔ اس واقعہ کو سامنے رکھ کر ہی قاری آیت ظِہا ر سے درست فہم لے سکتا ہے۔
اہل علم نے اس موضوع پر خاصا علمی ذخیرہ چھوڑا ہے جیسے امام بخاریؒ کے شیخ علی بن مدینیؒ، واحدی نیسا پوریؒ، ابن جوزیؒ، ابن حجرؒ اور سیوطیؒ کے اس سلسلے میں تالیفات ہیں جو خاص شانِ نزول پر لکھی گئی ہیں۔ ان ائمہ کرام سے پہلے مفسرین قرآن نے بھی شانِ نزول پر سیر حاصل مباحث چھوڑے ہیں۔ ہم امام زرکشی کے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کر سکتے کہ شانِ نزول علمِ تاریخ کا موضوع ہے۔
2) کون سی سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں اور کون سی مدینہ میں: تمام مسلمان اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن مجید کا ایک حصّہ مکہ مکرمہ میں آپ کی ہجرت سے پہلے نازل ہوا۔ ایسی سورتوں اور آیات کا مکہ کے ماحول سے گہرا تعلق ہے۔ اس وقت کے حالات سامنے نہ ہوں تو قرآن کی مراد تک پہنچنے میں بڑی دشواری پیش آئے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم نے مکی اور مدنی سورتوں کے معرفت پر بھی الگ سے تالیفات چھوڑی ہیں۔ علوم القرآن پر جو بھی آپ تصنیف اُٹھائیں گے اُس میں مکّی اور مدنی سورتوں کی بحث ضرور ہو گی۔ جیسے امام زرکشی کی ’برھان‘ اور امام سیوطی کی ’اتقان‘۔
مکّی اور مدنی سورتوں کی تعریف کی بابت مفسرین کے ہاں متعدد آراءپائی جاتی ہیں لیکن سب سے درست تعریف یہ ہے کہ مکّی سورتیں وہ ہیں جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھیں اور مدنی سورتیں وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی تھیں۔ اکثر مشائخ کا یہ قول ہے کہ صحیح فتوی یا فیصلہ کرنے یا صحیح مراد تک پہنچنے کے لیے سورت کے مکّی یا مدنی ہونے پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اس قاعدے پر ناسخ و منسوخ کا انحصار ہے۔ شریعت کی ترتیبِ زمانی کا علم ہوتا ہے۔ اور راویوں پر اعتماد پختہ ہوتا ہے اور یقین اور ایمان کی دولت ملتی ہے کہ کس طرح راویوں نے قرآن کے متعلق اور اس کی حفاظت کے لیے ہر پہلو کا احاطہ کر رکھا تھا۔ اسی طرح علمِ بلاغت کے دقیق مطالب بھی سمجھ آتے ہیں۔
3) ناسخ و منسوخ: قرآنِ مجید کے معانی سمجھنے میں علم’ ناسخ و منسوخ ‘بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ نامور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کلام اللہ کی تفسیر کرے اور اُسے ناسخ و منسوخ کا علم نہ ہو۔ علی بن ابی طالبؓ نے کسی قاضی سے پوچھا کہ آپ کو ناسخ و منسوخ کا علم ہے۔ اُس نے کہا نہیں فرمایا ہلاک ہوئے اور ہلاک کر دیا۔
ناسخ و منسوخ کے ذریعے ہی ان تمام مواقع کو سمجھا جا سکتا ہے جو ایک دوسرے کے بظاہر متضاد ہیں۔ ناسخ و منسوخ کا انحصار اس پر ہے کہ کون سی آیت پہلے نازل ہوئی تھی اور کون سی بعد میں۔
4) محکم اور متشابہ: محکم اور متشابہ ؛ معرفت قرآن میں ایک بے حد اہم قاعدہ ہے۔ مغالطے سے بچنے کے لیے محکم اور متشابہ کا علم کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک طالب علم اس آیت پر غور کرے گا کہ الَر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
”الف لام را۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کر دی گئی ہیں۔“ تو اس کے ذہن میں یہ تصور آئے گا کہ پورا قرآن محکم آیات پر مشتمل ہے۔ لیکن جب وہ اس آیت سے گزرے گا اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا ”خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں۔کتاب ہے متشابہ۔“ تو اس کے ذہن میں ایک متضاد تصور آئے گا کہ پورا قرآن متشابہ ہے۔ لیکن جب وہ ایک تیسرے مقام پر پہنچے گا تو وہاں یہ آیت اس کے سامنے آئے گی هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ”وہی تو ہے جس نے تم پرکتاب نازل کی جس کی بعض آیاتیں محکم ہیں۔وہی اصل کتاب ہیں۔اور بعض متشابہ ہیں“ تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ قرآن کی بعضے آیات محکم ہیں اور بعضے متشابہ۔
اہل علم نے ان آیات کریمہ کی تفسیر میں متعدد آراءپیش کی ہیں جن میں ایک تفسیر یہ ہے کہ محکم آیات سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام محکم اور مستحکم ہیں ۔انسان ایسے احکام اور قوانین بنانے سے عاجز ہے۔ متشابہ آیات سے مراد ہے کہ اللہ کا کلام ایسا ہے کہ مختلف آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہوئی ایک جیسے اعلیٰ و ارفع اسلوب کی حامل ہیں۔ جہاں تک محکم آیات اور بعضے متشابہ آیات والی آیت کا تعلق ہے تو اس کی تفسیر میں اہلِ علم فرماتے ہیں کہ محکم آیات وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد پر واضح دلالت کرنے والی ہیں اور متشابہ اس کے برعکس ہیں۔
پورا قرآن محکم اس طرح ہے کہ اہلِ علم نے جن باتوں پر اتفاق کیا ہے وہ ان میں اختلاف کرنے والے نہیں ہیں اور پورا قرآن متشابہ اس طرح ہے کہ قرآن کے مختلف اسالیب میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا آلِ عمران کی آیت میں صحابہؓ کے ہاں بھی متعدد آراءپائی جاتی تھیں۔
5) علمِ وقف اور آغازِ کلام: اس علم پر بھی مستقل کتابیں قدماءاور معاصرین علماءنے قلم بند کی ہیں۔ مثال کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے دو خواتین کے ریوڑ کو کنویں سے پانی پلانے میں مدد کی تو پھر ایک خاتون اجرت دینے کے لیے دوبارہ کنویں پر تشریف لائیں جس کا نقشہ قرآن یوں کھینچتا ہے فَجَاءتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاء اب جن حضرات نے استحیاءپر وقف کیا تو اس سے مراد ہے کہ بی بی صاحبہ کی چال میں ہی بلا کا حیاءتھا جبکہ دوسرے حضرات علی استحیائٍ سے اگلے فقرے کا ربط جوڑتے ہیں تو معنی بنتا ہے کہ جب بی بی صاحبہ موسٰی علیہ السلام سے ہم کلام ہوئیں تو نہایت حیاءسے کلام کیا۔ قرآن مجید میں ایسے مواقع بے شمار ہیں۔
وقف اور ابتدائے کلام پر تالیفات کا اہتمام نزولِ وحی کے کچھ عشرے بعد شروع ہوا تھا۔حضرات صحابہ کرامؓ اور پہلے کے سلف صالحین وقف اور ابتداءسے واقف تھے۔ اہلِ علم برابر اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ قرآنِ مجید میں وقف اور ابتداءسے کوئی کھیل تو نہیں رہا؛ یا مغالطہ میں پڑ رہا ہو۔ اس طرح اہلِ علم مسلمانوں کی برابر اصلاح کا فریضہ انجا م دیتے رہے ہیں۔ ابن انباری، ابو جعفر نحاس، عمرو بن علاء، نافع لیثی اور ابن جوزی وغیرھم نے اس موضوع پر تصنیفات چھوڑی ہیں۔
6) عرب قوم کے رسم و رواج: عرب قوم کے رسم و رواج انہیں دوسری قوموں سے منفرد کرتے تھے۔ قرآن کی مراد تک پہنچنے کے لیے عرب رسم و رواج کا علم رکھنا علومِ قرآن میں ایک مستقل قاعدہ ہے۔ مثال کے طور پر عرب بیٹیوں کی پیدائش پر کبیدہ خاطر ہوتے تھے۔ اس کا نقشہ قرآن نے ان لفظوں میں کھینچا ہے۔ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ”اس آیتِ کریمہ سے قاری پر واضح ہو جاتا ہے کہ عرب عمومی طور پر بیٹیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہوتے تھے۔ حج کے مہینوں میں عربوں کے ہاں یہ عادت تھی کہ وہ اپنے گھروں میں پچھواڑے سے داخل ہوتے تھے۔ اس کا تذکرہ بھی قرآن نے سورت بقرۃ میں کیا ہے۔ اہلِ علم فرماتے ہیں احرام کی حالت میں عرب چھت کے نیچے بھی نہیں جاتے تھے اور گارے اینٹ کے بنے مکانوں میں پچھلی طرف سے رخنہ بنا لیتے تھے یا اگر خیموں میں ہوتے تو پچھلی طرف سے داخل ہوتے تھے۔ اسی طرح عرب قربانی کے جانوروں کے مختلف خصائص کے لحاظ سے مختلف نام رکھتے تھے جیسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام۔ اس کیٹگری میں اعتقاد کی جو خرابیاں تھی قرآن نے ان کی اصلاح فرمائی۔ اب جو مفسر ان رسم و رواج سے نا واقف ہو گا تو وہ ایسی آیات کی تفسیر نہیں کر پائے گا۔
عرب کے رسم و رواج کا احاطہ کرنے پر بہت ساری تصنیفات لکھی گئی ہیں۔ تیسری صدی میں ابو محمد عبداللہ بن مسلم نے المیسر و القداح کے عنوان سے کتاب لکھی، ابو اسحاق ابراھیم کی اَیمان العرب، اسی طرح کتاب ادیان العرب وغیرہ۔ ابن ندیم نے الفہرست میں ایسی متعدد تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے۔
آج کل عرب کی اُس زمانے کی رسم و رواج کی بابت ایک مفسر قرآن کے لیے معرفت حاصل کرنا بے حد ضروری ہو گیا ہے کیونکہ مستشرقین عرب کی قدیم رسم و رواج کو سامنے رکھ کر قرآن کی غلط تفسیر کر کے اہل ایمان کے عوام مسلمانوں میں گمراہی پھیلانے کی کوششیں عرصہ دراز سے کر رہے ہیں۔
7) انسانی نفسیات کی معرفت: مفسرین کے نزدیک انسانی نفسیات کی معرفت سے مراد ہے انسان کے عمومی خصائص کی معرفت۔ انسانی طبائع کا اختلاف اور ایک نسل جو دوسری نسل کو اپنے خصائص منتقل کرتی رہی اُس کی معرفت۔ جس طرح عرب کی ثقافت اور رسم و رواج کا علم مفسر کے لیے ضروری ہے اُسی طرح قرآن مجید میں سابقہ قوموں کا بھی ذکر ہے۔ عرب سے پہلے والی اقوام کے بہت سے آثار بھی اللہ تعالیٰ نے باقی رکھے ہیں تاکہ قرآن مجید کو سمجھنے میں قاری کے سامنے پچھلی اقوام کی ثقافت اور رہن سہن کا طریقہ بھی سامنے ہو۔ عربوں نے اپنے پہلوں سے بہت کچھ حاصل کیا تھا۔ اس لیے پہلی اقوام کے آثار سے انسان کی عمومی نفسیات کو سمجھنے میں رہنمائی ملتی ہے۔ علامہ محمد عبدہ نے تفسیر کے اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کے لیے انسانی نفسیات کی معرفت کو ضروری قرار دیا ہے۔
قوت اور ضعف کے انسانی نفسیات پر اثرات، عزت اور ذلت میں ان کا رویہ اور علم اور جہالت سے انسانی رویے میں فرق کا مطالعہ۔
محمد عبدہ ایک جگہ لکھتے ہیں: کان النّاس امۃ واحدۃ کی تفسیر کیسے ہو سکتی ہے جب تک کوئی شخص یہ نہ جانتا ہو کہ لوگ کیسے اکٹھے تھے اور کیونکر متفرق ہو گئے۔ ان کی وحدت کی بنیاد کیا تھی۔ وحدت ان کے لیے فائدہ مند رہی یا تفریق۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تفصیلات سے مطلع نہیں کرتا حالانکہ وہ عالم الغیب و الشھادۃ ہے۔ اِن احوال سے مطلع ہونے کو قرآن قاری پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے مختلف مظاہر سے کیا نتائج اپنے مشاہدے اور عقل سے حاصل کر پاتا ہے۔
8) عربوں میں رائج اسالیب: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اُسی اسلوب میں نازل فرمایا ہے جس سے عرب بہت اچھی طرح واقف تھے۔ ایک مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ کلام میں ربط اور تراکیب کا تتبع کرے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قرآن میں کأس(جام)کا لفظ خمر کے لیے آیا ہے۔ ابن عیینہ فرماتے ہیں کہ قرآن میں لفظ مَطَر (طوفانی بارش) عذاب کی بارش کے لیے آیا ہے۔ ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں یأ یہا النّاس کا صیغہ آیا ہے تو اُس سے مراد اہل مکّہ اور مشرکین ہیں۔ صاحب کشاف اور رازی کہتے ہیں کہ قرآن میں بیشتر مقامات پر وعید کے بعد وعدے کا ذکر آیا ہے۔ اور اسی طرح ڈرانے کے بعد خوش بختی کا ذکر آیا ہے جو کہ ایک نہایت پر اثر ادبی اسلوب ہے۔ ابن عاشور فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں لفظ ھؤلاءکے بعد اگر عطف بیان نہ آئے تو ایسے مقامات سے مراد مکّہ کے مشرکین ہیں۔
9) عربی زبان کے قواعد کی معرفت: ہر زبان کا اپنا ایک اسلوب ہوتا ہے۔ اللہ کا کلام عربی زبان میں ہے جس کا اپنا ایک منفرد انداز ہے۔ ابنِ جریر طبریؒ کہتے ہیں کہ عربی زبان کا علم حاصل کرنا قرآن فہمی کے لیے شرط ہے۔ عربی زبان کے قواعد کو منضبط کرنے پر اہلِ علم نے بے شمار تصنیفات چھوڑی ہیں۔ ان قواعد سے ہماری مراد صرف علم نحو اور علم صرف ہی نہیں ہیں بلکہ علم بیان، ضرب المثال، روزمرہ، تراکیب اور عربی مفردات کے متعدد معانی کا علم ہے۔
10) قرآن کا موضوع اور مقصود: جب تک کسی قاری کے ذہن میں قرآن کا اصل موضوع نہیں ہو گا وہ قرآن فہمی میں ہمیشہ غلطی کرے گا۔ کسی شخص نے گرائمر کے قواعد پڑھنے ہوں تو وہ گرائمر کی کتابیں پڑھے گااور وہ یہ بھی جانتا ہو گا کہ گرائمر کس چیز سے بحث کرتی ہے۔قرآن کا موضوع انسان اور اس کی ساری زندگی ہے۔ انسان کی زندگی دنیا و آخرت میں سنوارنا قرآن کا اصل موضوع ہے۔ انسانی وجود کا اس کے خالق سے کیا رشتہ ہونا چاہیے اور اگر یہ صحیح طور پر قائم نہیں ہوتا تو اس کا کتنا بڑا خسارہ ہے۔ اسی طرح جس مقصد کے لیے قرآن نازل ہوا ہے اُس سے قاری لا تعلق ہو کر محض حروف اور تراکیب کے حسن کو ہی اصل مقصود سمجھ لے تو وہ قرآن کا فہم حاصل نہیں کر سکے گا۔ موضوع اور مقصود کی سلامتی سے انسانی عقل قرآن فہمی میں ٹھوکر کھانے سے بچ جائے گی۔ ابن عاشور کہتے ہیں کہ قرآن کا مقصد فرد اور معاشرے کی اصلاح ہے۔ پہلے قرآن فرد کے اعتقاد کی اصلاح کرتا ہے جس کے لیے قرآن نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور عقل کو خالق تک رسائی پانے کے لیے تفکیر پر ابھارتا ہے۔ عبادات کے ذریعے اس رشتے کو مستحکم کرتا ہے۔ اور باطن کی اصلاح کے لیے دل کی بیماریاں از قسم حسد، بغض، تکبر وغیرہ سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کا انحصار فرد کی اصلاح پر ہے۔ اُس کے بعد معاشرہ ہے۔معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو اس کے لیے قرآن باہمی معاملات کے آداب اور شریعت کی پابندی کرواتا ہے۔
11) الفاظ (مفردات) سے حقیقی مراد: قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ عربی زبان ایک زندہ اور ترقی یافتہ زبان ہے۔ وہی زبان کامیاب ہے جو اپنے زمانے کے ساتھ چل سکے۔ اس سے بلاشبہ زبان اور اس کے الفاظ کی دلالت میں وسعت آتی رہتی ہے۔ قرآن میں مستعمل مفردات سے صحیح مراد لینا قاری کے لیے ایک بنیادی قاعدہ ہے۔ نزولِ وحی کے وقت الفاظ کی دلالت کی معرفت ہونا اس کا پہلا زینہ ہے۔ معاصر ماہرین لغت میں ڈاکٹر عائشہ بنت شاطی اور ڈاکٹر شکری عیاد نے قرآن فہمی کے لیے ایک منہج وضع کیا ہے۔ اس طریقہ تدریس میں قرآن مجید کے الفاظ کی دلالت کو سمجھنے کے لیے کورس کو مرحلہ وار پڑھایا جاتا ہے۔ جس وقت قرآن نازل ہوا اُس وقت کسی لفظ کا کیا معنی تھا۔ دوسرے مرحلے میں وہ لفظ پورے قرآن میں جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس کا مطالعہ کرنا۔ اور تیسرے مرحلے میں مفرد لفظ جملے کی ترکیب میں آ کر کیا معنی دے رہا ہے اس کا مطالعہ کرنا۔
بہترین طریقہ یہ ہے کہ لفظ کا معنی خود پہلے قرآن کے دوسرے کسی مقام میں دیکھا جائے جہاں اس کی وضاحت ملتی ہو کیونکہ قرآن کی آیات ایک دوسرے کی تفسیر بھی ہیں۔
قرآن فہمی میں انحراف کی پیش بندی
سابقہ سطور میں ہم نے اُن جوانب کا ذکر کیا تھا جو قرآن کی صحیح مرادتک پہنچنے کے لیے بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ اگلی سطور میں ہم اُن جوانب کو بھی اختصار سے بیان کرنا چاہیں گے جو نہ صرف صحیح مفہوم تک پہنچانے میں رکاوٹ ہیں بلکہ ہلاکت میں ڈالنے والے ہیں۔
1) عدم تدبر، تعصب اور جانب داری: جو شخص قرآن غیر جانب داری سے نہیں پڑھتا اور حقیقی معانی تک پہنچنے کے لیے تدبر کرنا اس کا مقصد ہی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں وہ اس کتاب سے وہی کچھ برآمد کرے گا جس طرف اُس کے نفس کا میلان ہے۔
2) جزوی مطالعہ: قرآن مجید کا فہم جزوی مطالعے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ کلام اپنا پورا مفہوم اجزاءکے مربوط اور مستقیم منہج کو اپنائے بغیر نہیں دے گا۔ آیات، سورتوں اور تراکیب کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ قرآن کا ایک بڑا حصہ انسان کی روح سے خطاب کرتا ہے۔ جس طرح بدن کی غذائی ضرورت ایک قسم کے کھاجے سے پوری نہیں ہوتی اُسی طرح روح کو بھی انواع و اقسام کی غذا چاہیے۔
مثال کے طور پرآیت وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ”اور اللہ نے تم کو پیدا کیا اور اُسے بھی جو تم کرتے ہو“ سے قدیم زمانے سے بے شمار لوگوں نے مفہوم لیا ہے کہ انسان کے جملہ اعمال کا خالق بھی خود خدا ہے (جبکہ قرآن کے وہ مقامات جہاں انسان کے تمام افعال کو اُس کا اپنا ”کسب“ کہ گیا ہے، یہاں تک کہ بعض جگہوں پر اِس مفہوم کی آیات بیان ہوئیں کہ: یہ تمہارے اپنے کرتوت ہیں، اللہ تو کسی جان پر ظلم کرنے والا نہیں)۔ چنانچہ اگر اس مفہوم کو اِسی جزوی مطالعہ کا اسلوب اختیار کرتے ہوئے تسلیم کر لیا جائے تو پھر بتوں کی عبادت کرنے والوں کا بھی کوئی مواخذہ نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے تمام اعمال اُن سے صادر نہیں ہوئے!
سابقہ قومیں جن کے ہاں وحی پائی جاتی تھی وہ جزوی مطالعے کی وجہ سے گمراہ ہو گئی تھیں۔اس کا تذکرہ قرآن یوں کرتا ہے۔ كَمَا أَنزَلْنَا عَلَى المُقْتَسِمِينَ ہر طائفہ اپنے مطلب کا حصہ لے لیتا۔ اُسی میں تدبر کرتا اور اُسی سے وہ معانی اور مراد نکال لینے کا ملکہ پیدا کر لیتا جو اُس نے اپنی نفس پرستی کی و جہ سے نکالے ہوئے تھے۔
3) خوش الحانی سے تلاوت پر اکتفاءکرنا: قرآن مجید کو ترتیل اور خوش الحانی سے پڑھنا قرآن کے آداب میں شامل ہے۔ قدیم زمانے سے لے کرآج تک البتہ اس مسئلے میں غلو کرنے والے بہت پائے گئے ہیں۔ معانی اور صحیح مفہوم کو نظر انداز کرکے تلاوت کے زیر و بم پر ہی محنت کرتے چلے جانا غلط منہج ہے۔
4) قرآن کی کسی نص کا اطلاق غلط جگہ پر کرنا: قرآن مجید کے کسی حکم کا اطلاق ایسی جگہ کرنا جس کے لیے وہ حکم نازل نہیں ہوا سنگین نتائج کا موجب ہے۔ کبھی تو نفس کا ٹیڑھ اس کا سبب ہوتا ہے اور کبھی فکری مغالطے۔ تاریخ اسلامی میں یہ انحراف سب سے پہلے خوارج کے ہاں پایا گیا۔ خوارج وہ نصوص جو اصلی کفار کے لیے نازل ہوئی تھیں ان کا اطلاق ایسے مسلمانوں پر کرتے تھے جو اُن کے خیال میں منحرف ہو گئے تھے۔
5) انکساری میں غلو: بعض مسلمانوں کے دلوں میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال رکھا ہے کہ قرآن کے معانی اور مفہوم میں پڑنا خاص الخواص کا کام ہے۔ قرآن مجید بہت گہرا اور عمیق کلام ہے۔ اگر تم نے اس پر تدبر کیا تو معلوم نہیں پھسل کر کہاں چلے جاؤ۔ یہ شیطان کی تلبیس ہے۔ حسنِ نیت اور عدم تعصب کے ساتھ مذکورہ بالا منہج کے مطابق قرآن مجید سے مفہوم لینا قرآن کا اصل منشاءو مقصود ہے۔ قاری کے ذہن میں اگر الجھاؤ پیدا ہوتا ہے تو قرآن نے صرف الفاظ ہی نہیں چھوڑے ہیں ایک لازوال امت بھی چھوڑی ہے جس کی سب سے ممتاز ہستیاں مفسرین قرآن ہیں۔ عجز و انکسار قرآن مجید کے مفہوم سے بھاگنے میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ پانے میں ہونا چاہیے تاکہ اللہ کی مراد کے مطابق ہم اپنی زندگی سنوار سکیں۔
6) سابقین نے قرآن فہمی کے جو خطوط بنا دیے ہیں انہیں کو حتمی سمجھ لینا: بلاشبہ ہر نسل کا پہلی نسل سے ربط ایک طبعی امر ہے۔ امت کے سابقین نے قرآن کی بہت خدمت کی ہے اور بے شمار علوم چھوڑے ہیں اور عمومی خطوط کھینچ دیے ہیں لیکن یہ قرآن کی آخری خدمت نہیں ہے۔ ہر دور کے اپنے ہی تقاضے ہوتے ہیں۔ لہٰذا محولہ بالا خطوط ایک وسیع دائرہ ہے اور اس میں وسعت اور کشادگی کی پوری گنجائش ہے۔ ہمارے زمانے میں قرآن مجید کا بالکل ایک نیا موضوع’ اعجاز القرآن‘سائنسی حوالے سے سامنے آیا ہے جس نے جدید انسان کو بے حد متاثر کیا ہے۔
7) قاری کے لیے مبہم مقامات: ہر قاری کے لیے پورا قرآن محکم آیات کی طرح ہو ایک ناممکن امر ہے۔ کوئی مفسر ہو یا قاری، ضرور ایسے مقامات پائے گا جہاں اُسے تشفی نہیں ہو گی۔ قرآن مجید خود بہت سارے مقامات میں تفصیلی پہلو چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً تعداد، شخصیت کا قد کاٹھ اور ڈیل ڈول، اسی طرح پس منظر کا نقشہ وغیرہ۔
ان مقامات کو چھوڑنے میں بہت سے فوائد ہیں۔ قرآن مجید کو بہر الحال مسلمانوں نے حفظ کرنا ہے۔ اس میں وہ باتیں ثبت ہیں جو راستے کی رہنمائی کرنے والی ہیں۔ تفصیلات اور جانچ پڑتال کے لیے اللہ نے انسانی عقل کو پورا موقع دیا ہے کہ وہ کھوج لگائے۔ کوئی شخص اسی کو ہی اپنی الجھن بنا لے کہ یہ تفصیلات خود قرآن میں کیوں نہیں ہیں تو یقیناً وہ غلط منہج پر ہو گا۔
8) تفسیر کے تمام جملہ قواعد استعمال نہ کرنا: علماءتفسیر نے جو اصول و ضوابط مدون کر دیے ہیں ان سب ہی کو ایک ساتھ استعمال نہ کرنا۔ ایسا منہج غلط ہو گا کہ صرف مفردات کے مفہوم میں تو ملکہ پیدا کر لیا جائے اور تراکیب، اسلوب، نظم آیات، قرآن کا اصل موضوع وغیرہ سامنے نہ رکھے جائیں۔ آپ پورا قرآن اگر کسی ایک علم کو سامنے رکھ کر پڑھ لیتے ہیں تو بہت ہی غلط نتائج پر پہنچےں گے۔