ابن عربی تا سر سید
ابن خلیل
1868ء میں برطانوی راج نے ایک تصویری سلسلہ جاری کیا جن کا نام تھا ”The People of India“یعنی ”ہندوستان کے لوگ“۔ ان تصاویر میں ہندوستان میں مختلف اقوام کا تعارف پیش کیا گیا تھا۔ ہندو اور ان کی مختلف ذاتیں، سکھ، پارسی وغیرہ۔ ان لوگوں میں شیر علی سید نامی ایک مسلمان کا تعارف کچھ ان الفاظ سے کیا گیا:
”اسکے خدوخال مخصوص ’محمڈن ‘ہیں،وسطی ایشیاوالے۔ جہاں وہ اسکے خالص النسب ہونے کی تصدیق کرتے ہیں وہیں اسکی نسل کے اکھڑ پن،شہوت پرستی،جہالت اورتعصب کے مثالی نقوش ہیں۔نا ممکن ہی ہے کہ اس سے زیادہ کراہت آمیز نقوش کہیں ہوں۔ “
پاک و ہند میں سیدوں کی جس طرح عزت کی جاتی ہے، اس سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ مگر جب برصغیر کے ان سب سے معزز مسلمانوں کی مدح کچھ اس انداز میں کی جا رہی ہو توسمجھ میں آتاہے کہ برطانوی راج کے دوران مسلمان کس حد تک پستی میں چلے گئے تھے۔پھر وہ ’لاچارانہ‘ ردعمل بھی سمجھ میں آتا ہے جو سر سیّداحمد خان صاحب اور ان کی علی گڑھ تحریک سے شروع ہوا۔ یاد رہے کہ ہم نے سر سید کے ردعمل کو قابل فہم کہا ہے، قابل جواز نہیں۔
یہ یاد رہے کہ ہم سر سید کی نیت پر شک نہیں کر رہے۔ اس تمام تر ٹیڑھ اور الحادی اپروچ کے باوجود سر سیّدکی مسلمانوں اور اسلام کے لئے ہمدردی پرشک نہیں کیا جا سکتا۔ مشہور تو یہ بھی ہے کہ انہوں نے مولانا نذیر حسین سے رفع یدین کرایاجبکہ وہ حنفی مسلمانوں کی امامت کرتے ہوئے ایسا نہ کرتے تھے! اس بات کا خاص اہتمام کروایا کہ علی گڑھ میں تمام مذہبی مضامین علماءکرام کے ہاتھ میں رہیں ۔ یہ علمائے کرام عام طور سے دیوبند اور ندوہ کے فارغ التحصیل ہوا کرتے تھے۔جس طرح سے وہ اپنی زوجہ کے پرد ے کا خیال کرتے تھے اس پر چٹکلے افسانوی حثییت رکھتے ہیں۔تاہم یہ سب کچھ ان کو ایمان کے کئی ارکان کی تکذیب سے نہ بچا سکا اور نہ ہی ایک نئے گمراہانہ علم کلام سے متعلق ان کے اس جنون سے جس نے ایک گمراہ اور شکست خوردہ نسل کو جنم دیا۔ سر سیّد ایک ایسا طبقہ تخلیق کرتے ہوئے جو ہمیشہ ہی انگریزوں سے مرعوبیت کا شکار رہا، بلا شبہ ملحدانہ جہت کی طرف بھٹک پڑے تھے ۔
ابن عربی کی روحانیت سے ابھی ہماری جان نہیں چھوٹی تھی کہ سر سیّد کی عقل پرستی سے واسطہ آن پڑا! ابن عربی اور سر سیّدکی ضروریات مختلف تھیں۔ ابن عربی کو تصوف کے ذریعے سپر مین تیارکرنا تھا۔اس کا ذریعہ ان کی نظر میں نئی ایجاد شدہ ریاضتیں اور عبادات تھیں اور کچھ نئے منکشف شدہ افکار، کہ جن کے ذریعے آدمی آسمانوں کی طرف روحانی سفر کرتے ہوئے’مافوق الفطرت‘قسم کی کوئی چیز بن سکتاتھا۔ جبکہ سر سیّد تب کے نئے نئے سامنے آئے ڈارون کے فکری کاٹھ کباڑکی چکاچوندسے چندھیائے ہوئے فرشتوں اور شیطان کو اندر ہی کی کوئی چیز ثابت کرنے تل بیٹھےنتیجتاً، دونوں کا حملہ ”غیب“ پر تھا، ایک کا کسی طرح تو دوسرے کا کسی طرح!
یہ ذہن میں رہے کہ تصوف کی تمام اقسام مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں پر کامیابی سے آزمائی گئی ہیں۔ چاہے یہ نصرت فتح علی خان اور عابدہ پروین کا قوالیانہ تصوف ہو، یا رومی کے ’بیسٹ سیلرز‘، جسکی دھن پر رقص کے ترکی طائفے ہر جگہ پھرتے ہیں، یا حمزہ یوسف کا یہودی ہیکل میں لگایا گیا وحدت ادیان کا نعرۂ مستانہ۔اسلئے بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ ورثائے ابن عربی و سر سیّد کے مابین اِس چولی دامن کے ساتھ کو ذرا بغور سمجھا جائے۔
نوے کی دہائی میں تصوف کو غیر متوقع نصرت جدت پسندوں کی صورت میں ملی جب انہوں نے آہستہ آہستہ اس فکر میں آڑلینی شروع کردی۔ 11/9 کے بعد تو پورا جلوس ہی نکل گیا۔ یہ ایک ایسا موڑ ثابت ہوا جس نے ابن عربی اور سر سید کے روحانی وارثوں یعنی صوفیوں اور جدت پسندوں کو نظریاتی طور پرنہ صرف متحد کر دیا بلکہ یہ حضرات نیو کونز Neo-Consکی صفوں میں سر گوشیاں کرتے پائے گئے۔ پلک جھپکتے میں شیرل برنارڈ Cheryl Bernard نے ، کہ جس کا شوہر ایک افغان مرتد ہے اور امریکہ کے لئے بہت ہی اہم عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکا ہے، سول ڈیموکریٹک اسلام Civil Democratic Islam جو کہ ”رینڈ رپورٹ“ کے نام سے مشہور ہے تیار کرڈالی۔ شیرل برنارڈ ایک ذہین و فطین خاتون ہے اور بات سیدھی کرنے کی قائل۔ وہ کرنے کا اصل کام سمجھ گئی کہ سامراجی تسلط برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ”صوفی ازم کی جڑوں کو مضبوط کیا جائے“، ”صوفیانہ روش رکھنے والے ممالک کی حوصلہ افزا ئی کی جائے “، اس بات پر زور دیا جائے کہ مسلمان اپنی تاریخ کے تصوف زدہ حصے پر زیادہ زور دیں اور اس کو اپنے سکولوں کے نصاب تعلیم میں شامل کریں۔ ‘ ‘اور یہ کہ ’ ’صوفی اسلام“پر ”زیادہ توجہ‘ ‘دی جائے۔
اسی رپورٹ میں شیرل برنارڈ صوفیوں کے بارے میں لکھتی ہے:
”ہم انہیں ماڈرن ازم ہی کی ایک شکل جانیں گے۔تصوف اک کھلے ڈلے، دانشورانہ اسلام کی نمائندگی کرتا ہے۔ان ممالک میں جن میں صوفی روایتیں رہی ہیں،جیسے افغانستان یا عراق، وہاں پر صوفی اثر ورسوخ کو سکولوں کے نصابوں،معمول کی زندگی اورثقافت کا حصہ بنانے کیلئے خوب حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔اپنی شاعری،موسیقی اور فلاسفی کے ذریعے تصوف دینی وابستگیوں سے باہر ایک مضبوط پل کا کام کرتی ہے۔ “
حال ہی میں ولیم ڈیلرمپلWilliam Dalrymple ،جو مغل ہندوستان (کے موضوع پر)دسترس رکھنے کی وجہ سے مشہور ہیں،نے بھی اپنے پر اِخلاص تجزیے میں یہی محسوس کیاہے۔لکھتے ہیں”تصوف اسلام کاسب سے تکثیری نمونہ ہے۔ چنانچہ یہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک انوکھا اور اہم پل ہے۔“ یاد رہے کہ ڈیلرمپل بنیادی طور پر ایک شریف اور امن پسند عیسائی مورخ ہیں۔ انہوں نے یہ بات اسی جذبے سے کہی ہے کہ جس نے ایک مخلص ہندو رہنما کو تقسیم ہند سے قبل قبوری تصوف کے ایک جلوس کو دیکھ کو ایک ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں پرامید کر دیا تھا۔
ابن عربی اور سر سیّد کے ان روحانی خلفاءکی قدر یقینا بھانپ لی گئی ہے۔ حال ہی میں پینٹاگون میں پاکستانی سجادہ نشینوں کی پہلی ٹریننگ بھی کروا دی گئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگلی ٹریننگ حمزہ یوسف کے زیتونہ کالج Zaytuna Collegeمیں ہو۔ بہت ضروری ہے کہ اس خطرے کو سنجیدگی سے سمجھا جائے اور اس کا تریاق کیا جائے۔ آج تک ہمارے بہت سے مخلص داعی شرک کے چند مظاہر اور چند مخصوص بدعات ہی کو تصوف سمجھتے رہے ہیں۔ بعض کے نزدیک رد تصوف تزکیہ نفس سے متعلق کوئی چیز ہے! یہ حضرات اگر اب بھی نہ جاگے تو ایک اور بازی ہار جائیں گے اور یہ جان بھی نہ پائیں گے میدان کونسا تھا اور کھلاڑی کون۔ اس کی سب سے بڑی مثال لاہور میں متحرک ایک انتہائی جدید متصوفانہ مہم ہے کہ جس سے ہمارے بہت سے علمائے کرام شاید واقف ہی نہیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ مغرب کا تصوف کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا واحد مقصدامت کو کچھ عرصے کے لیے مزید ’ٹن‘ رکھنا ہے۔ جہاں اس نشہ کی ضرورت نہیں، وہاں مغرب بھی خوامخواہ اپنی جان عذاب میں نہیں ڈالے گا۔ اس کی مثال موحد طبقے سے منسلک خواتین کی دینی تعلیم کی ایک انتہائی اہم تحریک ہے جس نے جہاں بہت سے اچھے کام کیے ہیں، وہیں جنون تفرد کی اسقدر شکار ہے کہ عملی اور فکری ہدایت کے لیے وحید الدین خان کو چن رکھا ہے۔
رہا وہ فرقہ وارانہ اور پسماندہ رویہ جو کہ آج تک غالی تصوف کے خلاف اپنایا گیا ہے، تو یہ جدید تعلیم یافتہ نسل کو کبھی متاثر نہ کر پائے گا اور اس نسل میں پائے جانے والے اسلا م کے شیدائی کہ جن کی ہمارے روایتی طبقوں کی نظر میں کوئی وقعت نہیں، اپنے بے قابو جذبات کواس کے زہر سے کبھی بھی نہ بچا پائیں گے ۔ اور پھر سر سید کی طرح حجاب اور داڑھیاں کفر اور الحادکو مٹانے کیلئے کافی نہ ہونگی۔