برہمنیت۔۔اب ’اسلامی‘ دستور میں
لو أنَّ فاطمةَ بنتَ محمدٍ سرقت لَقطعتُ یدَہا
چور کو تحفظ دینے والے دستور پر ہی
انگلی کیوں نہیں اٹھائی جا سکتی؟؟؟
حذیفہ عبد الرحمن
وہ شانِ بے نیازی کا مالک کسی وقت عجب سزا دیتا ہے! ’چور‘ سے تو وہ نمٹ لے گا، کہ وہ اپنی رسی دراز رکھتا ہے، مگر فی الوقت باری اُن ”اصول پسندوں“ اور ”روشن خیال“ و انصاف پسند“ دانشوروں کی ہے جو عدل و احتساب کی تمام تر تلاش اُس کی شریعت کے ما سوا کہیں کرتے ہیں!
کوئی کبھی اِن کو دیکھے، چینلوں پر کس طرح مل کر گریہ کرتے ہیں! ’کورَس‘ میں زار و قطار روتے ہیں! صبح چڑھتے ہی ’ڈیوٹی‘ پر آ جاتے ہیں اور رات دیر گئے جا کر قومی خزانے میں ہونے والی اِس خرد برد پر ’مجلسِ عزا‘ برخاست کرتے ہیں!
ظالم دُور دُور کی کوڑی لے آئیں گے، مگر مجال ہے مالک الملک کی شریعت کی عظمت اور تقدس کی طرف ایک بار بھی کبھی ان کی نظر چلی جائے! ’دستور‘ کی پامالی کا رونا بہ آوازِ بلند روئیں گے، مگر حرام ہے جو ایک بار بھی آسمان سے اتری ہوئی شریعت کی پامالی پر درد بھرا کوئی جملہ سرزد ہو جائے! آئینِ محمدی کے صبح شام پامال ہونے پر کسی چشم میں نم کا کوئی شائبہ ہو! یا اِس پہ اپنائی جانے والی اِس سوچی سمجھی اجتماعی خاموشی پر لہجے میں کوئی ندامت تک ہو! ایسی ”دانش“ کے جام بھر بھر کو قوم کو پلانے والے ظالموں کا اُس سزا پر شاید زیادہ حق ہے جس کو یہ ایک ایسے شخص کو دلوانے کیلئے بے چین ہیں جس پر زیادہ سے زیادہ یہ کچھ کروڑ یا کچھ ارب کا غبن ہی ثابت کر سکیں گے! اُس شانِ بے نیازی کے مالک کی تدبیر دیکھو، وہ سزا جو یہ ایک ایسے مبینہ چور کو دلوانا چاہتے جسے حادثاتِ زمانہ نے مسند اقتدار پر جا پہنچایا ہے، مگر اِن کی تجویز کردہ اِس سزا یا اِس محاکمہ کے راستے میں اِن کا وہ ”مقدس دستور“ حائل ہے (جسکا یہ شریعت کی جگہ پر صبح شام نام جپتے ہیں) اُسی سزا کو اِن ’اصلاح کنندگان‘ کی طرف پھیر دیا جاتا ہے جو قوم کے شریعتِ خدواندی کی طرف آنے کی راہ میں حائل ہیں.. کہ یہ سزا اِن ”راہ دکھانے والوں“ کیلئے بھی ہے اور اِنکی دکھائی ہوئی راہ ”چلنے والوں“ کیلئے بھی۔ رہ گیا ’حکمران طبقہ‘ تو اسکا حساب بعد میں!
وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ....!!!
تصور کیجئے، سنگین الزامات کی گٹھڑی اٹھا کر پھرنے والے ایک شخص کو اقتدار میں دیکھ کر پوری قوم دانت پیستی ہے۔ تکلیف اِس قدر ہے کہ یہ سب دیکھ کر بیٹھا نہیں جاتا؛ دانشور بار بار پہلو بدلتے اور کسمساتے ہیں۔ ’ہزاروں سال کی بے نوری‘ کے بعد خدا نے ”انصاف“ کا حق ادا کرنے والی عدالتیں بھی دے رکھی ہیں۔ احتساب ہونے میں پھر کمی کس کی ہے؟ اِس کو کہتے ہیں خدا کی قدرت! ایسے وقت میں اِس احتساب کے اندر کوئی ’ظالم‘ رکاوٹ بنتا تو آپ دیکھتے کس طرح آسمان سر پر اٹھایا جاتا ہے۔ تصور تو کریں، دانشوروں کے ’اجماع‘ کی رو سے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ احتساب۔ اور اِس احتساب میں رکاوٹ کون؟ دستور!
مگر مجال ہے جو ایک کلمہ تو کیا اشارۂ ابرو سے بھی کبھی ”دستور“ کی گستاخی ہوتی ہو! کوئی ”اُف“ بھی تو ہوئی ہو!
اندازہ کیجئے، ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لایا کون؟ جمہوریت! ایک ایسے شخص کا احتساب کرنے سے آپ کے ہاتھ باندھ کس نے رکھے ہیں؟ دستور نے!
اِس کو کہتے ہیں ”الجزاءمن جنس العمل“!
خدا کا انصاف آخرت میں ہی نہیں، دنیا میں بھی زبردست ہے!
وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ ....!
سوئس کیس اور ہمار ی عدالتیں..ایک شور برپا ہے۔ سیاست کے کھلاڑیوں کے متعلق مشہور ہے کہ عموماً وہ دور کی کوڑی لانے میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں، مگر کیا کیجئے کہ یہاں معاملہ ’دستور‘ کا ہے۔آئین نے ’استثناء‘ دے دیا، اب کسی کی کیا مجال کہ زبان کھولنے کی جرأت کرے!!!دستور ایسا ’مسکت‘ حوالہ ہے کہ اچھے اچھوں کے لبوں پر مہر لگا دیتا ہے۔ سیاسی نقاد اور تجزیہ نگارویسے تو بلا کے ذہین ہوتے ہیں۔ کوئی کچھ کہے یہ مان کر نہیں دیتے۔ میڈیا کی طاقت بھی اپنا ایک الگ وزن رکھتی ہے۔ مگر دستور کا نام آتے ہی سب کی زبانوں پر تالے پڑ جاتے ہیں۔ کیا میڈیا اور کیا عقابی نگاہیں رکھنے والے مبصرین، کیا دیندار اور کیا بے دین سب ہی کی نگاہیں عقیدت اور تعظیم سے جھک جاتی ہیں۔
اس دستور کی اپنی حیثیت کسی ’مقدس صحیفہ‘ سے کم تھوڑی ہے کہ اس پر کوئی’ ٹیڑھی نظر‘ ڈالی جاسکے !!!
یہاں ہر چیز پر ہی بات کی جا سکتی ہے۔ ہر بال کی کھال نکالی جا سکتی ہے۔ ہر ہندی کی چندی کی جا سکتی ہے۔ سوائے ایک چیز کے: یہاں کے انسانوں کا اپنا گھڑا ہوا دستور اور آئین!!!
سو، یہ ایک نہایت ناقابل انکار، ناقابل تردید بلکہ ناقابل تنقید شے ہے! یہاں آسمانی صحائف تک پر بات ہو سکتی ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول تک پر ناپاک زبانیں دراز ہو سکتی ہیں۔ آسمان سے نازل ہونے والے مقدس و پاکیزہ دین کی ’نئے دور‘ میں ضرورت پر سوال بھی اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ البتہ کسی چیز کو یہاں اگر ’چھونے‘ اور چھیڑنے کی بھی اجازت نہیں ہے تو وہ یہاں کا قانون ہے!!!
کوئی تو بتائے کہ یہ ’برہمنیت‘ یہاں کب سے پرورش پانے لگی ہے ؟؟؟ یہ پاپائیت اپنی نئی شکل (انسان پرستی) میں یہاں کس طرح بار پا گئی ہے؟؟؟ یہ آسمانی صحیفوں کو ہٹا کر زمینی صحیفوں کو رواج دینے کا زمانہ اسلام کی سرزمینوں پر کیونکر آ گیا ہے؟؟؟
سو، کوئی چیز یہاں کتنی ہی قابلِ اعتراض ہو، مساوات، حقوق اور انصاف کے اس سے چیتھڑے ہوجاتے ہوں،اسلام ہی کیا بے دینوں کو بھی اس سے سخت تکلیف ہوتی ہو، ایک بار اس کو کوئی یہاں کے دستور میں کسی طرح شامل کردے، پھر دیکھیے کہ لوگوں کی زبانیں کس طرح گنگ ہوتی ہیں! کوئی ’اُس چیز‘ پر لاکھ اعتراض کرتا رہے بالآخر یہی حوالہ اُس کی زبان بند کرتا ہے کہ میاں، یہ آئین کا حصہ ہے!!! عدل و انصاف کے تمام آفاقی و سنہرے اصول کسی اور کے سامنے تو کیا خود عدلیہ کے ہاں اپنی سب حیثیت کھو بیٹھتے ہیں جب آئین کی ’خدائی‘ دفعات اور شقیں اُن کے آگے لائی جاتی ہیں۔ ”تکلیف محسوس کرنے والوں“ کی نگاہیں کسی قابل اعتراض ترمیم سے زیادہ کچھ دیکھ ہی نہیں پاتیں۔ نگاہیں ہیں کہ اس سے اوپر اُٹھنے کا یارا ہی نہیں رکھتیں۔
کوئی خدا کا بندہ یہاں یہ سوال نہیں اُٹھاتاکہ آخر وہ کیا چیز ہے جو اِس قسم کی غیر منصفانہ ترمیمات کو جواز دیتی ہے ؟! کوئی عاقل و ہوشمند اِس بات پر غور نہیں کرتا کہ ظالمانہ قوانین آخر کس چیز کی بدولت لوگوں کے سروں پر مسلط کر دیے جاتے ہیں؟ ! کسی کی بالغ نظری اور دانشوری اُس کو یہ نہیں سُجھاتی کہ کہاں سے چند لوگوں کو یہ لامحدود اختیار مِل جاتا ہے کہ وہ تمام قوم کو جس چیز کا چاہیں پابند کردیں اور جس کو چاہیں اُس پابندی سے ماوراءقرار دے ڈالیں؟؟!! عجیب لوگ ہیں کہ اپنے ہی لگائے ہوئے جھاڑ جھنکاڑ میں اگنے والے کانٹوں سے تو ساری زندگی اُلجھتے ہیں، البتہ اُن کی نظر اُس کی جڑ تلاش کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہی رہتی ہے۔ یہاں تو لوگ اِن کانٹوں کا توڑ کچھ نئے کانٹوں سے کرتے ہیں۔ اِس سے زیادہ ان کی نگاہ کام بھی نہیں کرتی۔ یوں ایک ترمیم کے بعد دوسری ترمیم اور دوسری کے بعد تیسری ترمیم کی صورت میں ”ناسخ و منسوخ“ کی ایک نئی زمینی شریعت رہنما یانِ قوم کی طلب پورا کرنے کے لیے بہت کافی ہوتی ہے!
مانا کہ دستور سے انحراف پر ’حب الوطنی‘ تک مشکوک ٹھہر سکتی ہے لیکن ذرا پوچھا جائے کہ نہتے مسلمانوں پر ہونے والی آگ وخون کی بارش اور ملکی سرحدوں میں دراندازی جیسے معاملات پر دستور نے کہاں FREE HANDدے رکھاہے؟؟ آئین کا تقدس ان معاملات میں کیا اپنی موت آپ مر جاتا ہے؟؟؟
کوئی سر پھرا اگر شریعت کے’ حوالے‘ دینا شروع کرے تب یہی دستور جائے پناہ کا کام دے۔ کچھ برس قبل ہی ان کی پریشانی دیدنی تھی، جب مذہبی طبقہ ایک بڑی تعداد میں یہاں کی اسمبلیوں میں نظر آنے لگا تھا، اور ان کو ’ٹھکانے‘ لگانے کے لئے کافی پر تولے جارہے تھے۔ کہیں دستور کی پیروی اور کہیں اس سے اس قدر بے رخی!!! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور؟؟!!
دستور بس قابل بحث بھی ہو گا تو اُسی صورت میں جب اسلام کا تھوڑا بھلا ہوتا نظر آتا ہو!!
اسلامی تاریخ میں ایک وہ ’ناقابل ترمیم و تنسیخ ‘آئین تھا کہ جس کے نافذ کرنے والے نے اﷲ تعالیٰ کے اذن کے مطابق وضاحت کے ساتھ فرما دیا تھا :
لوأن فاطمة بنت محمد ﷺ سرقت لقطعت یدہا۔
اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرتیں تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا ۔
اور ایک ہمار ا دستور ہے جو اسلام کا کچا سا ایک ’ٹانکہ‘ لگا ہونے کے باوجود انسانوں کے خدائی اختیارات کا ایک لامحدود سلسلہ ہے، جس کے بارے میں لب کشائی تو کیا سوچنا بھی منع ہے۔ ترمیمات کا البتہ آپ کو حق ہے! لیکن اُس کا اپنا ”آئینی پروسیجر“ ہے!!! کیا خبر یہ بھی ایک خدائی انتقام ہو۔ لا دین طبقوں کی بہرحال یہ ایک ضرورت توہے ۔