آزادیِ اظہار کی جدت
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
اخبار وآراء
آزادیِ اظہار کی جدت مریم عزیز واقعہ کچھ پرانا ہو چلاہے۔ یکم مارچ کی بی بی سی رپورٹ کے مطابق امریکن آرٹسٹ سپنسر ٹیونک نے حسب سابق ایک اور وسیع پیمانے کی بے لباس تصویرکشی کا اہتمام کیا۔مالی امدادسڈنی کے ہم جنس پرستوں کی تنظیم نے کی۔مقصد دنیا کو ایک اور ’پیغام‘ دینا تھا۔پیغام کی نوعیت بھی ویسی ہی اخلاق باختہ تھی جیسا کہ طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا۔کہا یہ گیا کہ” ہم نے ہم جنس پرستوں کے ساتھ غیر ہم جنس پرستوں کی (اتنے بڑے پیمانے پر)عریاں عکس بندی کرکے دنیا کو ایک زبردست پیغام دیا ہے“۔یعنی مغرب عریانی کو ہی ’آزادی‘کی معراج سمجھتا ہے۔قارئین کرام، فریڈم یا آزادی بذات خود کوئی برا لفظ نہیں۔ اور بلند مقصد لوگوں نے اس لفظ کے بہت بہت اعلیٰ معانی لئے ہیں۔ مگر مغرب کے نزدیک اس کا بالکل اور ہی مفہوم ہے ۔ کیا شبہ ہے کہ تفکر اور اندھی تقلید کے مابین ہونے والی جنگ میں عظیم مفکرین نے ہمیشہ آزادی کے حق میں جنگ لڑی تاکہ وہ روایتی سوچ کی اندھا دھند پیروی کی بجائے اپنی عقل سے سوچیں اور خرد پر مبنی افکار کو اختیار کریں، نیز اپنے اُن افکار اور نظریات کا کھل کراظہار کریں کہ جس کے پاس جو کچھ ہوگا وہ اس کے اظہار کےلئے آزادی استعمال کرے گا۔ مگر اِس کا کیا کیا جائے کہ مغرب کے پاس دنیا کو دینے کیلئے ہے ہی یہ کاٹھ کباڑاور اِسی کیلئے اُس کے ہاں ’آزادی‘ کا یہ استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ ہر قوم کو آزادی کا صحیح استعمال کرکے عملاً اپنی آزادی کا جواز بھی پیش کرنا ہوتا ہے۔ اخلاق کا جنازہ نکالنا مغرب کا بدترین جرم ہے، اِس پر ’آزادی‘ کا عنوان جڑنا جس قدر قبیح ہے وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ کیا مغرب کے بس میں ہے کہ وہ ادراک رکھے، کہ جس طرح قومیں آزادی کو اپنا حق سمجھتی ہے اسی طرح آزادی کا بھی اپنا حق ہوتا ہے ۔ حوالہ
|
|
|
|
|
|