سوانح
خلیل اللہؑ نے سفر اور مہمات تو بہت کیں، مگر اس سفر سے بڑھ کر یادگار اور خوشگوار سفر کوئی نہ ہوگا جو منجنیق سے جلتی چتا تک ایک ہی لمحے میں طے ہوا! جبریل نے ’خرقِ عادت‘ کی سرحد شروع ہوتے دیکھی تو اپنی خدمات پیش کیں کہ مبادا توکل کے پیر ڈگمگا جائیں۔ مگر خلیل اللہؑ یہ موقعہ کیوں ضائع کریں، فرمایا: مدد چاہیے مگر تم سے نہیں! تب ابراہیمؑ کیلئے آسمان سے وہ خلعت اتر آئی جو انہی کیلئے تھی: وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى!!!
ابراہیمؑ نے واقعی وفا کی حد کر دی!
٭٭٭٭٭٭
صالحین پر وقتِ فراق طرح طرح کا معاملہ گزرتا دیکھا گیا۔ کسی کو پریشانی ’خدا نے مجھے نہیں بخشا تو میرا ستیاناس!‘، کسی کو فکر ’اب آگ ہے یا پھر خدا کی مغفرت‘، اور کسی پر امید طاری ہے، جیسے بلالؓ!
موت کے وقت بلالؓ کی جورُو بے قابو ہوکر بین کرتی ہے: واحزناہ! ’وائے افسوس!‘، اور بلالؓ کہہ رہے ہیں: واطرباہ، غدا ألقی الأحبۃ محمدا وصحبہ! ’واہ ری خوشی! صبح دوستوں سے ملاقات ہے، محمد اور سب اصحابؓ سے!‘
واہ رے بلالؓ! پتہ جو ہے امام اپنے موذن کو نہیں بھولنے کا!!!
٭٭٭٭٭٭
ذو البجادینؓ ایک یتیم لڑکا تھا۔ چچا نے پال کر جوان کیا۔ رسول اللہﷺ کا سنا تو بیٹھا نہ رہا گیا۔ مگر بیمار تھا اٹھا بھی نہ جاتا تھا۔ شفا سے بڑھ کر اب کوئی چیز عزیر نہ رہ گئی تھی، کہ جسم میں دم ہو تو نبی تک پہنچیں! صحت یاب ہوا تو چچا کا انتظار ہونے لگا۔ آخر کہنے لگا: چچا! یوں ہی دن گزارو گے؟ چلو اسلام لاتے ہیں! مگر چچا کسی اور دنیا کا ہے، بولتا ہے: بچے! مسلمان ہوگیا تو اپنی ایک ایک چیز واپس لے لوں گا۔ تیرے تن پہ اپنا کپڑا نہ رہنے دوں گا۔ زبانِ شوق بولی: محمد کو ایک نظر دیکھ لینا تیری ہزار دنیا سے بڑھ کر ہے!
کسی نے قیس سے پوچھا ہوتا کہ لیلیٰ کا وصل چاہیے یا دنیا تیرے قدموں میں ڈھیر کر دی جائے؟ تو وہ برا مان جاتا اور کہتا: وصلِ لیلیٰ کی تو بات ہی مت کرو، اس کے پیروں کی دھول کے بدلے میں بھی یہ دنیا جچنے کی نہیں!
یہ نوجوان محمد کے پاس جا پہنچنے پر ہی مصر ہے، یہ دیکھ کر چچا اس کے کپڑے اتروا لیتا ہے۔ ہر ہر چیز واپس لے لیتا ہے۔ بیوہ ماں اس کو ایک اونی ٹاٹ دے دیتی ہے، جس کو عربی میں بجاد کہتے ہیں۔ یہ اسی ٹاٹ کو دو ٹکڑے کر، آدھا تہ بند بناتا ہے اور آدھا اوپر پہن لیتا ہے۔ اتنی دولت سے مالامال، ذو البجادَین اب منزلِ شوق کی جانب روانہ ہو پڑتا ہے!!!
کیا خوبصورت سفر ہے۔ من کانت ہجرتہ اِلی اللہ ورسولہ فہجرتہ اِلی اللہ ورسولہ!!! جس کا ترکِ وطن اللہ اور اس کے رسول کو اپنی منزل بنا کر ہوا، اس کی قسمت کے کیا کہنے!!! اس سے بہتر وطن بھلا کس کو ملے گا؟!
جلد ہی جہاد کی منادی ہو جاتی ہے۔ خدا تک پہنچنے کا اس سے مختصر راستہ بھلا کہاں ملے گا؟! محبت کو راستہ کبھی طویل لگتا ہی نہیں۔ مقصود نگاہ سے ہٹے تو راستہ لمبا لگنے کی نوبت آئے!!!
کہاں ہجرت کے لئے بے چینی تھی، آج ذو البجادین کو شہادت مل گئی ہے! واہ ری قسمت! کوئی تو بات ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ خود اِس نوجوان کی قبر میں اترتے ہیں اور اپنے دستِ مبارک سے اس کی لحد تیار کرتے ہیں اور ساتھ کہہ رہے ہیں: اے اللہ میں اس سے راضی ہوا، تو بھی اس سے راضی ہوجا! ابن مسعودؓ رشک سے گریہ کرتے ہیں: کاش اس قبر میں میں ہوتا!!!
(استفادہ از: الفوائد، مؤلفہ ابن القیم)