ذاکر نائک
مغرب کی ایک مقدس گائے کی توہین کے مرتکب!
ابو زید
پہلے خبر آئی کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ پھر خبر آئی ڈاکٹر موصرف کے کینڈا میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ پھر خبر آئی کہ شیخ ابو امینہ بلال فلپ کو برطانیہ کے ایر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے 2008 ڈاکٹر یوسف قرضاوی کو بھی برطانیہ کا ویزا دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔ ادھر کچھ عرصے سے یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک میں برقعے پر پابندی کی ایک ہوا چل نکلی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بنی اکرم ﷺ کے توہین آمیز خاکے بنانے کا بھی ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ زیر نظر مضمون انہی واقعات کے تناظر میں مغرب کے اسلام کے ساتھ رویہ کو ایک مخصوص انداز میں تجزیہ کرتا ہے(1)
.... مسلمان دہشت گرد ہے۔
.... مسلمان حقوق انسانی کی خلاف ورزی کرتا ہے
.... مسلمان تنگ نظر ہے۔ نظریات کا مقابلہ تشدد سے کرتاہے۔
.... مسلمان آزادی کے خلاف ہے
.... اسلام انسانوں کی سوچوں تک پر پابندی ڈالتا ہے
.... مسلمان لکیر کا فقیر ہے
.... مسلمان مساوات کے خلاف ہے
یہ اور اس طرح کے الزامات مسلمان کئی دہائیوں سے تحمل اور ثابت قدمی سے جھیل رہا ہے۔ بے چارہ بہت کچھ بولنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن یاتو ٹھیک سے کہہ نہیں پارہا ہے یا سننے والا سن کرنہیں دے رہا ہے۔ یا یہ کہ اسکے پاس کوئی ٹھیک پلیٹ فارم ہی نہیں جہاں سے وہ ان الزامات کا دفاع کرے۔ اور اگر کہیں بول بھی رہا ہے تو صرف اپنوں میں۔ یہ بے چارہ خاموش اور بے زبان مسلمان، کتنی دہائیاں گذر گئیں برداشت کئے جارہا ہے۔
وہ الفاظ جو ذاکر نائک کا ’جرم‘ قرار پائے:
لفظ "Terrorist" (دہشت گرد ) مغرب کا ایک مخصوص برانڈ تھا جو اس نے مسلمانوں کے لئے خاص کیا ہوا تھا۔ وہ کیا ’چھیڑ چھاڑ‘ تھی جو ڈاکٹر نائک نے مغرب کی اس ’مستند‘ اصطلاح کے ساتھ کر لی تھی اور جس پر مغرب نے اِس قدر برا مان لیا، آئیے دیکھتے ہیں:
دہشت گردی اور اسامہ بن لادن کے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ:
دہشت گرد اس کو کہتے ہیں جو دوسروں کو دہشت زدہ کرتا ہے۔ جب ایک لٹیرا پولیس کو دیکھتا ہے تو وہ دہشت زدہ ہوجاتاہے، تو ایک لٹیرے کے لئے پولیس دہشت گرد ہے۔ تو ان معنوں میں ہر مسلمان کو لٹیرے کے لئے دہشت گرد ہونا چاہیئے۔ اور اسی طرح ہر مسلمان کو تمام سماج دشمن عناصر کے لئے دہشت گرد ہونا چاہیئے۔ میرے علم میں یہ بات ہے کہ عام طور پر دہشت گرد اس کو کہتے ہیں جو عام اور بے گناہ شہریوں کو دہشت زدہ کرتا ہے۔ اس تناظر میں کسی بھی مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی انسان کو دہشت زدہ کرے۔
جہاں تک اسامہ بن لادن کا تعلق ہے مجھے اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ،میں اس سے ملا نہیں ہوں، نہ میں اس کا دوست ہوں نہ دشمن۔ میں سی این این اور بی بی سی کی نیوز رپورٹ کی بنیاد پر اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ اگر آپ کو بی بی سی یا سی این این کی رپورٹ کی بنیاد پر جواب دینا ہے تو ہمارے پاس اس کو دہشت گرد قرار دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ۔ مگر قرآن پاک ، سورہ حجرات آیت 6 میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی خبر کو آگے پھیلانے سے پہلے ہمیں اس کی تحقیق کر لینی چاہیئے۔ اس لئے اسامہ بن لادن کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ دہشت گرد ہے یا نہیں۔ مگر ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ ہزاروں افغان اور عراقی معصوم شہریوں کو قتل کیا گیا ہے۔یہ خبر ہمیں اس میڈیا کے ذریعے سے ملی ہے جو اُنہی کے کنٹرول میں ہے۔ تو اسامہ بن لادن کے بارے میں ہم پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے لیکن جارج بش کے بارے میں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک نمبر کا دہشت گر د ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پتہ نہیں کب سے مغرب نے اپنے بارے میں یہ گمان کر رکھا ہے کہ اس نے اسلام کو سیاسی ہی نہیں بلکہ نظریاتی شکست بھی دی ہوئی ہے۔ لیکن اب کیا دیکھتا ہے کہ ایک طرف اپنے جدید ترین کیمیائی اور نیوکلیائی ہتھیاروں کے باوجود میدان جنگ میں پسپائی کا سامناہے تو دوسری طرف نئے سرے سے ایک نظریاتی بحث چھیڑی جارہی ہے۔ میڈیا کی جنگ میں ہمیشہ سے مغرب کی اجارہ داری رہی تھی، بلکہ اسلام کی طرف سے بھی جو بات کر رہا ہوتا تھا وہ بھی کسی نہ کسی حد تک مغرب سے متأثر ذہن ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ میڈیا میں بھی ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی مغربی اصطلاحات کے فریب کا پردہ چاک ہونا شروع بھی نہیں ہوا ہے کہ مغرب کی بد حواسی قابل دید ہے۔پابندی سے پہلے ہی یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ برطانیہ میں داخلہ کسی کا حق نہیں بلکہ رعایت ہے۔ بالفاظ دیگر یہ بات واضح کی جارہی ہے کہ اس معاملے میں ہم کسی ڈائیلاگ کے قائل نہیں ہیں اورنہ ہی کسی اخلاقی اصول کو خاطر میں لانے والے ہیں۔ بلکہ یہ صرف ہماری مرضی پر منحصر ہے کہ کس کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت ملے گی اور کس کو نہیں۔
یہ وہی مغرب تھا جس نے مسلم دنیا پر آزادی رائے کے نام پر ایک صدی سے زیادہ ایک اخلاقی اور سیاسی دباؤ بنائے رکھا۔ یہ وہی مغرب ہے جس نے اسلام کو تنگ نظر اور اپنے آپ کو روشن خیال ثابت کرنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر دکھائے! یہ و ہی مغرب ہے جس نے اپنے نظریات کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے بھر پور استعمال کےا۔ یہ وہی مغرب ہے جس نے اسلام کے ہر ہر نظریے کو دقیانوسی اور ناقبل عمل ثابت کیا۔ یہ وہی مغرب ہے جس نے اسلام کی نظریاتی قوت کو جہاد کے پردے میں چھپانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ وہی مغرب ہے جس نے سلمان رشدی کو آزادی رائے کا چیمپین قرار دیکر اپنی عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی سے اس خبیث کی حفاظت پر خطیر رقم خرچ کی۔ یہ وہی مغرب ہے جس نے سلمان رشدی کو اپنے خبث باطن کے اظہار پر "سر" کے خطاب سے نوازا۔یہ آزادی کا علمبردار مغرب، یہ اپنے نظریات کے ہتھوڑے برسا برسا کر مسلم امّت کی افرادی قوت بلکہ جوہر کو اپنا ہمنوابنانے والا مغرب، یہ مسلم نوجوانوں کی سوچوں کو اغوا کرنے والا مغرب۔یہ اپنی نیوکلیر قوت اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے اپنی اخلاقی قوت منوانے والا مغرب۔ کوئی زمانہ تھا کہ یہ کسی طرح اپنے آپ کو ایک ”نظریاتی قوت“ کے طور پر منوانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
مگر اب یہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک نظریاتی صف بندی دوبارہ ہو رہی ہے۔ اسلام ، جس کے بارے انہوں نے یہ گمان کر رکھا تھاکہ اس کو کانٹ چھانٹ کر اب ایک رسمی مذہب بنادیا گیا ہے بلکہ وہ نظریاتی اسلام کے تابوت میں کئی بار کیلیں ٹھونک ٹھونک کر چین کی بانسری بجا چکا ہے۔ وہ اسلام نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ افکار کی دنیا میں بھی اپنی پوری اخلاقی اور نظریاتی قوت کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ مغرب کے نظریات جو کہ اپنے تناظر میں بامعنی لگ رہے تھے اس کے معنی دوبارہ پوچھے جارہے ہیں۔ ذاکر نائیک کا کیا قصور تھا ؟ انہوں نے مغرب کو کوئی چیلینج نہیں دیا۔ انہوں نے مغرب کو نہیں للکارا۔ انہوں نے کیا کیا؟ یہی نا کہ انہوں نے مغربی میڈیا کی اصطلاح"دہشت گردی "کو ان معنوں میں استعمال کرنے سے انکار کردیا جن معنوں میں ان کا میڈیا استعمال کررہا ہے۔ ان کا قصور یہی ہے کہ انہوں لفظ "دہشت" (Terror) کو اپنے لغوی معنوں میں استعمال کیا ، اور وہ بھی الیکٹرانک میڈیا میں استعمال کیا ،اور وہ بھی ایسے انداز میں استعمال کیا کہ مسلم نوجوان اس سے متأثر ہوتے نظرآئے اور غیر مسلم اس پر سوچنے پر مجبور ہوئے۔ ابھی ایک اصطلاح کاذرا سے معروضی انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ مغرب بد حواس ہو گیا! کیا مغرب اتنا نازک(Vulnerable) ہے؟ مغرب ایسی ہی کارگہ شیشہ گری ہے، دلیل اور منطق کی ایک بھی ضرب کی تاب نہیں لاتا؟! مغرب نے کب سے اپنی دانست میں نظریاتی اسلام کا کفن دفن کا انتظام کیا ہوا ہے۔ وہ کب سے اس فریب میں مبتلا ہے کہ اسلام مغرب کے نظریا ت کا مقابلہ نہیں کرسکتا اس لئے وہ اس کا مقابلہ طاقت اور تشدد سے کر رہا ہے۔ اور اب پتہ چلا کہ اسلام اپنے نظریات میں جوں کا توں محفوظ ہے۔ اس کو تو یہ خوف کھائے جارہا ہے کہ اگر مغرب کی ایک اصطلاح جو کہ اپنے مخصوص معنوں میں دو دہائی سے مسلمانوں کے خلاف مؤثر طور پر استعمال ہو رہی تھی اسی کو چیلنج کیا گیا تو پھر اور بھی سوالات آئیں گے ۔مغرب کو اب پتہ چلا کہ اس نے اب تک بلامقابلہ میدان جیتا ہے ۔ اس کے مقابل کوئی تھا ہی نہیں۔ اب جب اسلام ابھر رہا ہے اور ایک نظریاتی چیلنج بن کر ابھر رہا ہے تو اس کی بد حواسی قابل دید ہے۔ یہ مقابلے کا خوف پتہ دے رہا ہے کہ جھولی بالکل خالی ہے۔
خدایااب پھر مقابلہ ہو گا؟ جس چیز کو ہم نے مقابلہ سمجھا وہ تو مقابلہ تھا ہی نہیں۔ فریق مخالف بڑی کس مپرسی کی حالت میں رہا تھا۔ پھر اس بے چارے کو ٹھیک سے سوچنے کا موقعہ ہی نہ ملا تھا اور اس کو بولنے تو دیا ہی نہ گیا۔جس نے سوچا اور بولنے کی کوشش کی، ان کو نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے ذریعے دار و رسن کے حوالے کیا گیا۔ ان کو بدترین قسم کی جسمانی اور ذہنی اذیت دے کر خاموش کردیا گیاکہ عوامی سطح پر کوئی مقدمہ نظر بھی آئے تو وہ نظریات کی شکل میں نہیں بلکہ تشدد کی صورت میں نظر آئے۔ایسے میں اس مسلمان کی کون سنتا۔ وہ بے چارہ اب تک رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ہی پڑ رہا تھا۔لیکن اب جب ید بیضاءاور عصائے موسی کی ہلکی سی جھلک کیا نظر آئی ساحران مصر کی بدحواسی قابل دید ہے۔ وہ ساحران مصر جنہوں نے اپنی لاٹھیوں اور رسیوں کے تمام حربے استعمال کر لئے بلکہ حق کی شہادت دینے والی قوم کے بچوں کو تھوڑا بہت متأثر بھی کردیا اور اپنے دانست میں میدان جیت بھی لیا۔ اب کیا دیکھتے ہیں کہ نظر بندی کا پردہ فاش ہونے والا ہے!
ہاں! عصائے موسی ظاہر ہو رہا ہے!
ید بیضاءسب اندھیروں کو تار تار کر دینے والا ہے!
اب کیا ہوگا؟ وقت کے فرعونوں کی پریشانی دیدنی ہے ۔یہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں ساحران مصر ہی سجدے میں گر نہ پڑیں۔
ابھی تو ایک اصطلاح کے فریب کا پردہ چاک کرنے کی صرف کوشش ہوئی ہے جو کہ برقی میڈیاکے بحر بیکراں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ لیکن اب خوف یہ ہے کہ مغرب کے طلسم کدہ سے آئی ہوئی ایک ایک اصطلاح کی جانچ ہوگی۔ اسلام آرہا ہے اور اس باربولتا ہواآرہا ہے۔مغرب کے بعض دانشوروں کے بد ترین خدشات صحیح ثابت ہورہے ہیں۔ ابھی تو مغرب سے ”آزادیِ رائے“، ”مساوات“، ”جمہوریت“ ، ”سیکولرزم“ کا بھی حساب ہوگا! یہ شہادت حق کا علمبردار، یہ ”کلیم خداوندی“، یہ اللہ کا کلام پڑھنے اور سننے والا، یہ دعاؤں کے ذریعے اللہ کے ساتھ محو گفتگو رہنے والا اب فرعون کے ایوانوں میں بولے گا۔اور جب بولے گا تو کفر کو تو مبہوت تو ہونا ہی ہے، بس زبان کے تالے ڈھیلے ہونے کی دیر ہے۔
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي
اب جبکہ ان کا اپنا نظریاتی امتیاز انہی کے گلے پڑ رہا ہے ، تو اب صرف طاقت اور سیاسی اختیار کا استعمال رہ جائے گا۔ جب نظریات کی قوت کے خلاف طاقت استعمال ہوتی ہے تو وہ نظریات مزید پھیل جاتے ہیں۔ باطل اپنا اخلاقی جواز کھو دیتا۔
مغرب کتنا روشن خیا ل تھا اور اسلام کتنا تنگ نظر!مغرب کتنا آزادی پسند تھااور اسلام کتنا بندش پسند(restrcitive)۔
جب تک وہ دینے کی پوزیشن میں تھا اور ہم لینے کی پوزیشن میں تھے تومغرب بہت ہی بھلا لگ رہا تھا! جب وہ بول رہا تھا اور ہم سن رہے تھے تو امن کی فاختائیں اڑ رہی تھیں! آزادی اور مساوات کی باتیں ہورہی تھی! وسعت نظر ی تو مغرب ہی کی خاصیت ہوا کرتی تھی! مسلمان کتنا تنگ نظر تھا!!!
اور اب جب مسلمان کسی طرح گرتے پڑتے کچھ سوچنے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي پڑھتے پڑھتے اس کی بھی سن لی گئی ہے اور اب کچھ کہنا چاہ رہا ہے.... تو مغرب کتنا تنگ نظر ہو گیا ہے؟ کسی طرح سے مسلمان کی بات سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔لیکن کب تک یہ اپنے سیاسی قوت کے بل بوتے پر اسلام کو بولنے سے روک سکے گا؟مغرب کی یہ پر شکوہ تہذیب، وہ معاشی قوت، وہ سیاسی دبدبہ اور نظریاتی اور اخلاقی برتری کا فریب، کون سوچ سکتا تھا کہ یہ اتنی تیزی کے ساتھ اور بہ یک وقت اتناکمزور ہوجائے گا۔ کبھی سوچا تھا اِس تن پر یہ بڑھاپا بھی آئے گا! آہ یہ نظریاتی تنگ دستی! آہ یہ فکری مفلسی! اب اس چودہ صدیوں پرانے اور تنگ نظر اسلام کامقابلہ کارٹونوں، سیاسی پابندیوں اور برقعے کی بندشوں کے ذریعے ہو گا!
رہے نام اللہ کا!!!
(1) اس سلسلے میں اپریل2010 کے ایقاظ کے شمارے میں ہمارے مضمون "مغرب کے ساتھ نظریاتی کشمکش اور اسلام کا مقدمہ" کا مطالعہ مفید ہوگا بلکہ اس مضمون کو مکمل طور پر سمجھنے میں مدد دے گا۔