تُو اور مجھ سے معرکہ۔؟!
خیام قادری
تہذیبِ ناسپاس کے اے سرکشیدہ شاہ
ہتھیار جوہری ترے ، برقی تری سپاہ
جتنا جدید ہے ترا سامانِ جنگ لا
جو ڈھونڈ لے نشانہ وہ تیرو تفنگ لا
یہ بھی درست تیرا فضاؤں پہ راج ہے
نمرود کی خدائی، رعونت کا تاج ہے
لیکن نہ ہوگاکل وہ جو معمول آج ہے
ممکن ہو جتنی آگ تو برسا زمین پر
آتش میں کود جانابھی میرا مزاج ہے
میں نے بھڑکتی آگ کو گلزار کردیا
خوں سے زمین سےنچی ہے، فصلوں کوسَردیا
تاریخ کو بھی اپنے لہو سے کےا رقم
اسباب روشنی کے بھی میں نے کیے بہم
بچ کر نہ جا سکے گا تو اللہ کی قسم
اسپین و شام و قیصر و کسریٰ بھی ہیں گواہ
پائی کہیں نہ دشمنِ اسلام نے پناہ
میں نے لگائی خرمنِ بو جہل میں بھی آگ
قائم ہے میرے دم سے ہی تہذیب کا سہاگ
آئینِ نو کا راگ ترا بے سُرا ہے راگ
تواورمجھ سےمعرکہ؟کچھ ہوش کر۔تو جاگ
ہرکارہ ظلمتوں کا تو ، میں آفتاب ہوں
صدیوں سے تیرے واسطے پا بہ رکاب ہوں
آیا ہوں میں نیا درِ خیبر اکھاڑنے
تیرا سیاہ قصرِ ابیض اجاڑنے
اجداد کی صفات کا میں بھی امین ہوں
ایماں مرا قبیلہ ہے، ابنِ یقین ہوں