عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, November 22,2024 | 1446, جُمادى الأولى 19
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2010-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
تعلیم کے شعبہ میں اسلام کے اِحیائی عمل کو درپیش چیلنج
:عنوان

قرآن“ اور ”کائنات“ ہر دو سے اگر آپ کو وہ ”علم“ نہیں ملتا جو ایک دوسرے کو مکمل کرے، تو وہ ”علم“ نہیں جہالت ہے

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف

تعلیم کے شعبہ میں اسلام کے اِحیائی عمل کو درپیش چیلنج

حامد کمال الدین

 

  

تعلیمپر ہم یہاں کوئی نظری یا فنی بحث نہیں کریں گے۔ ہمارا موضوع ”تعلیم“ کی اُن جہتوں تک محدود رہے گا جو فی الوقت اسلامی تحریکی عمل کی ضرورت ہیں۔

 

 

حکومتوںکو مشورے دینے والی اپروچ ہماری تحریروں کے اندر اختیار نہیں کی جاتی، اِس لئے کہ ”حکومتیں“ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ یہ سب گفتگو اِس چیز سے بحث کرتی ہے کہ ”اسلامی تحریکیں“ فی الوقت کیا کر سکتی ہیں، اِس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں، تحریکیں“ فی الوقت ہمارے پاس ہیں۔ ہماری کل ترجیح ”عمل“ کے میدان میں آگے بڑھنا ہے نہ کہ ’خیالات‘ کے کمال دکھانا۔

٭٭٭٭٭

علم“ ہی سے اِس امت کی ساخت ہوئی اور ہوگی

 

٭ وہ چیز جو ایک ’قوم‘ کو ”امت“ میں بدلتی ہے ایک خاص متعین حقیقت ہے جس کا آغاز ”علم“ سے ہوتا ہے۔ ایک ’قوم‘ اپنے بیشتر خصائص ایک نسل سے دوسری نسل کو ایک حیاتیاتی عمل کے ذریعے منتقل کر لیتی ہے مگر ایک ”امت“ کو یہ کام ہمیشہ ایک تعلیمی و تربیتی و شعوری عمل کے ذریعے ہی کرنا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یہ عمل سست ہوا، امت اپنی اصل ساخت کھونے لگے گی اور اپنا و ہ اصل وظیفہ ادا کرنے میں ناکام ہونے لگے گی جس کیلئے اُس کی پیدائش کروائی گئی۔

کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ جس انداز سے امت کے اندر یہ تعلیمی و تربیتی عمل رکا ہے، اور اِس کے اصیل خصائص نئی نسلوں کو منتقل کیے جانا موقوف ہوا ہے، یہ امت کب کی ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ تاہم دو باتیں ایسی ہیں جو اِس تصویر کو کسی اور انداز سے دیکھنے کا تقاضا کرتی ہیں:

1) یہ آخری آسمانی امت اللہ کے فضل سے رہنے کیلئے ہے نہ کہ ختم ہونے کیلئے۔ خدائی سنتوں کے اندر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک پہلے سے پائی جانے والی آسمانی امت ایک نئی آسمانی امت کے ذریعے تبدیل replace کروائی جاتی ہے۔ البتہ یہ کہ ایک امت پڑی پڑی ختم ہو جائے، ایسا نہیں ہوتا اور بے شمار اسباب ایسے میسر کرائے جاتے ہیں کہ اُس کے ہاں زندگی کا رشتہ بحال رہے۔ دوسری قومیں اُس پر چڑھ دوڑتی ہیں، تو وہ بھی ایک خدائی سنت کا ظہور کرانے کیلئے۔ ایک آسمانی امت کو ہر حال میں خدا کا دَر یاد رکھوایا جانا ہوتا ہے۔ بہت سے اسباب اُس کو بیدار کرنے اور ”اصل“ پر واپس لانے کیلئے ہوتے ہیں۔ بار ہا ایسا ہوا کہ اُس پر ٹوٹنے والے المیے اور سانحے اُس کو مالک کے کھونٹے کی طرف موڑ لائے اور اُس کی کھوئی ہوئی حیثیت بحال کردی گئی۔ اِس لحاظ سے، اس پر آنے والے مصائب اور آلام اس کو اپنے اصل پر واپس لانے کیلئے ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ بہت سے ”انتظامات“ جو اس کو مالک کے در پہ لے آنے کیلئے عمل میں لائے گئے ہوتے ہیں ناکام ثابت ہوں اور اس کا کالعدم ہوجانا ہی ٹھہر گیا ہو، تو اس کی جگہ ایک نئی آسمانی امت لے آئی گئی۔ چنانچہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ایک آسمانی امت کا خاتمہ ایک نئی آسمانی امت کے ظہور کی شکل میں کروایا گیا۔ اب یہ امت آخری آسمانی امت ہے۔ اِس کے بعد کسی اور امت کو نہیں آنا۔ لہٰذا بے شمار ایسے اسباب خود بخود رہیں گے کہ اِس امت کا استمرار ختم بہر حال نہ ہو کر رہ جائے۔ اِس امت کو ٹھیک ہی ہونا ہے اور مالک کے در پہ لوٹ آنے کے قدرتی انتظامات کو اِس کے ہاں سرگرمِ عمل ہی رہنا ہے، اِس کے سوا یہاں پر کسی اور بات کا امکان نہیں۔

2) اگر ہم غور کریں تو امت کے اندر تعلیمی و تربیتی و شعوری عمل کبھی معطل نہیں ہوا ہے، بلکہ سستی اور خرابی کا شکار ہوا ہے۔ یعنی یہ ایک حد درجہ ناکافی عمل ہے البتہ مکمل طور پر معدوم نہیں۔ فی الوقت یہ ایک ناقص و ناکارہ بندو بست سہی مگر اِس کو مسلمان رکھنے کا عمل اب بھی برقرار ہے۔ لاکھوں مساجد، مدارس، ادارے، داعی، واعظ، مبلغ آج بھی جیسا کیسا ”زندگی“ کی اِس رمق کو بحال رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ آج ”درد“بھی محسوس ہوتی ہے تو وہ اسی ”زندگی“ کی بدولت جس کو کسی نہ کسی طرح بحال رکھا گیا ہے۔

چنانچہ امت کے ختم ہو جانے کا تو سوال ہی نہیں۔ یہاں تک کہ جب اس کے خصائص کا ایک نسل سے دوسری کو منتقل ہونا کسی حیاتیاتی عمل کے ذریعے نہیں بلکہ ایک تعلیمی و تربیتی وشعوری عمل کے ذریعے ممکن ہے، تو پھر اِس بات کا بھی سوال نہیں کہ اِس کا یہ ”تعلیمی عمل“ وجود سے ختم ہو کر رہ جائے۔ امت کا وجود باقی رہنا ہے تو یہ ”انتقالِ خصائص“ کا عمل بھی کسی نہ کسی درجہ میں برقرار رہنا ہے۔

چنانچہ ”وجود“ کی تو سمجھئے ہمیں گارنٹی حاصل ہے۔ اِن شہروں اور ملکوں میں جہاں تا حد نظر پھیلے ہوئے مینار اللہ کے فضل سے اذانیں بلند کرتے ہیں، ”امت“ کے تسلسل و استمرار کا عمل ختم تو کبھی نہیں ہونے والا۔ سوال ہے تو ”معیار“ کا؟ پریشان اور فکرمند ہونے کی بات ہے تو البتہ یہ۔ وہ ”فرق“ جو لایا جانا ہے، دراصل یہاں پر پایا جاتا ہے.. یعنی ”معیار“ جس سے معاملہ کوئی مؤثر سمت اختیار کرے۔

پس جب بھی امت کا اِحیاءدرپیش ہوگا، یعنی امت کو ایک ”نئی زندگی“ یا ”نیا وجود“ دینے کا سوال اٹھے گا، معاملہ ”علم“ سے شروع ہو گا۔ کیونکہ اِس امت کی پیدائش صالح علم سے ہوئی تھی۔ وہ اصل مواد جس سے یہ امت وجود میں آتی ہے، ”علم“ ہی ہے۔

٭٭٭٭٭

علم“ و ”تعلیم“ کی سَلَفی تأصیل

 

٭ مگر وہ ”علم“ اس سے خاصا مختلف ہے، جو آج اِس لفظ سے ہمارے ہاں مراد لیا جاتا ہے....

سوال یہ ہے کہ یہ امت جس وقت وجود پا رہی تھی، اِس کے ابتدائی افراد کتنی قسم کے ”علوم“ حاصل کیا کرتے تھے؟ کتنے ”فنون“ کے ماہر بنتے تھے؟ یقینا صحابہ میں سے کچھ ہی لوگ آج کے معروف معنیٰ میں ”علماء“ تھے اور وہ بے شمار علوم“ جو ایک عالم کی ضرورت ہو سکتے ہیں، یہ ”علمائے صحابہ“ ضرور اُن میں چوٹی کے ماہر تھے۔ مگر وہ کونسا ”علم“ تھا جو اُن میں سے ہر شخص لیتا تھا؟ ہم کہیں ایسا نہیں پاتے کہ عام صحابہ کو ”دورۂ قرآن“ کروایا جاتا تھا۔ یا دورۂ تفسیر“ کروایا جاتا تھا۔ ”دورۂ حدیث“ تو اس سے بھی دور کی بات ہے۔ یہ ”نصابی اپروچ“ عام آدمی کو کبھی نہیں دی گئی۔ ”ترجمۂ قرآن“ کے کورس جس انداز سے اِس وقت رائج ہیں، یہ اپروچ ایک عام آدمی کو ”علم“ دینے کے حوالہ سے ایک نہایت غیر مانوس چیز ہے؛ اِس معنیٰ میں نہیں کہ صحابہ کی زبان عربی تھی لہٰذا ”ترجمۂ قرآن کورس“ ان کی ضرورت نہ تھی، بلکہ اِس معنیٰ میں کہ یہ اپروچ ہی جو ”مطالعۂ قرآن“ کے اِس منہج میں پائی جاتی ہے بھی ان کے ہاں نہ پائی گئی تھی۔ ”قرآن کورس“ قسم کا کوئی اسلوب ہی ہمیں عام صحابہ کے ہاں نہیں ملتا۔

ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہمارے حوصلہ مند باصلاحیت نوجوانوں کو اِس نظامِ تعلیم سے باہر آ جانا چاہئے۔ یہ آپشن تو ہمارے مذہبی‘ طبقے نے بڑی دیر سے آزما رکھا ہے اور جو کہ بے حد آسان ہے مگر یہاں پر ہماری شکست کا ایک یقینی نسخہ ثابت ہوا ہے۔ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ قصر پرویز“ میں جائیں مگر ساتھ ”تیشۂ فرہاد“ کا بندوبست کر کے جائیں۔ خالی ہاتھ“ جانااور پھر ڈھیروں ”بیگار“ دے کر لوٹنا البتہ گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ ”تیشۂ فرہاد“ جس کا اِس بار ہمیں بندوبست کرنا ہے، خود ہمارے عقیدہ“ ہی کے اندر پڑا ہے بشرطیکہ اِس کو پڑھنے پڑھانے کا ایک درست منہج سامنے لے آیا جائے۔ حق یہ ہے کہ باطل اور شرک کے بالمقابل یہ ”تیشہ“ اپنے اِس ”عقیدۂ سلف“ سے خود بخود نکل آتا ہے، محض اِس کی تعلیم اور ترسیخ کا ایک منہج متعارف کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اِس کام کو اتنا مشکل نہیں سمجھتے، محض ”عقیدہ“ کی اصیل اپروچ ذہنوں کے اندر بٹھانے پر محنت کرنا ہو گی۔ پھر یہی ادارے ان شاءاللہ یہاں پر کسی اور قسم کی کشمکش کا میدان بنیں گے۔ ابھی کسی بڑی سطح پر ہمیں اپنے ادارے بنانے کی کیا ضرورت ہے؟!یہ ادارے ہمارے لئے ہی تو ہیں!

 

 

عام صحابہؓ کا یہ حال تھا کہ اُن میں سے کسی نے ایک سورت سیکھی ہوتی، کسی نے دو، تو کسی نے چار۔ شاید کسی کو چند آیتیں آتیں۔ باوجوداِس کے کہ عرب نہایت کمال کے حافظے رکھنے والی قوم تھی اور معروف ہے کہ دیوان کے دیوان اُن کو زبانی یاد ہوتے۔ قرآن کے مزید حصوں کی جانب بڑھنے سے پہلے وہ یہ دیکھنا ضروری جانتے کہ قرآن کے وہ حصے جو انہوں نے حاصل کر رکھے ہیں ان کے اندر وہ کتنا گہرا گئے ہیں۔ قرآن کے اُن حصوں نے اُن کے اندر کیا تلاطم برپا کیا ہے۔ قرآن کے اُن اجزاءکے حوالے سے جو ”عمل“ مطلوب ہے، خصوصاًقلب کا جو عمل درکار ہے، وہ کہاں تک اُن سے ہو سکا ہے۔ یوں قرآن کی ایک ہی سورت پر وہ برسوں کے برس بھی لگا دیتے(1)۔ قلب کا عمل ایک ہی سورت کے معاملے میں اور بسا اوقات ایک ہی آیت کے معاملے میں اُن کی بس کروا دیتا اور وہ ”مزید“(2) کی طرف ہاتھ بڑھانے سے ڈرتے۔ قرآن کی یہ ہیبت(3) دلوں کے اندر رکھنا ”صحابی منہجِ تعلم“ کی نہایت معروف خصوصیت ہے۔ آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں، ایسا منہج رکھتے ہوئے ’دورے‘ کروا دینے اور ’کورس مکمل‘ کروا دینے کی اپروچ اُن کے مابین کہاں گنجائش پا سکتی تھی؟!

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

کان الرجل اِذا قرأ سورۃ البقرۃ، جدَّ فینا(4)

جو شخص سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران پڑھ چکا ہوتا وہ ہمارے مابین نہایت عظیم المرتبت ہو جاتا“!

قرآن پڑھا ہونا“ واقعتا اُس وقت ایک معنیٰ رکھتا تھا!!!

پورا قرآن پڑھا ہونا صحابہ کے مابین خاص ”علماء“ کی صفت تھی۔ بالعموم، صحابہ قرآن کے کچھ اجزاءپر کفایت کرتے۔ البتہ جو اجزاءان کے پاس ہوتے، ان کے اندر گہرا اترنے میں وہ کسی بات پر کفایت نہ کرتے۔ ہاں اِس باب میں اُن کی طلب کسی حد پرنہ رکتی۔ اِس معنیٰ میں اُن کا ”قرآن پڑھنا“ مسلسل جاری رہتا۔ قرآن کے وہی اجزاءجو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یا اپنے میں سے اہل علم اصحاب سے پڑھے ہوتے،اور ان کے اندر گہرے گئے ہوتے، وہی اُن کی خلوت کا مونس ہوتے، نوافل کے لمبے لمبے قیام کی زینت بنتے، تفکر اور تدبر کا موضوع رہتے، اور وہ انہی کی روشنی سے زندگی اور وجود کی پوری تصویر دیکھنے کی کوشش کرتے۔

٭ قرآن کی دنیا میں اِس خاص ادب اور سلیقے کے ساتھ اترنے کیلئے وہ رسول اللہ ﷺ سے یا اپنے میں سے اہل علم اصحابؓ سے ”قرآن سے پہلے ایمان کا سبق“ لیتے۔ ایمان کا یہ سبق جب وہ رسول اللہ ﷺ سے یا سابقون الاولونؓ سے لے کر قرآن کے اندر اترتے تو ان کو قرآن سے بھی پھر ”ایمان“ ہی ملتا۔ پیچیدہ فلسفوں، الجھے ہوئے نکتوں، اور بہت سارے ’صغریٰ و کبریٰ‘ کی بجائے قرآن سے ان کو ”ایمان“ کی ایسی ایسی جہتیں ملتیں اور ”ایمان“ کے ایسے ایسے لمس نصیب ہوتے کہ وہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے کسی اور ہی دنیا میں ہوتے اور ”یؤمنون بالغیب“ کی سب علمی اور وجدانی جہتوں سے بہرہ یاب ہوتے۔

صحابہ ایمان“ کے طالب علم تھے۔ ”ایمان“ پہلے وہ رسول اللہ ﷺ سے پڑھتے۔ پھر وہ قرآن سے پڑھتے۔ تب وہ ”ایمان“ میں اور بڑھتے۔(5) قرآن سے بھی تب وہ ”ایمانہی پڑھتے۔ ”ایمان“ کا ایک ایسا طالبعلم تب ہر بات، ہر خبر، ہر واقعے، ہر معاملے اور ہر ماحول سے ”ایمان“ پڑھ سکتا تھا۔ ہر واقعے، ہر معاملے، ہر ماحول اور ہر دل میں ”ایمان“ بھر سکتا تھا۔ ”ایمان“ اہل سنت کے نزدیک دو چیزوں کا مجموعہ ہے: علم اور عمل۔ ”ایمان“ کا وہ حصہ جو اُن کے اندر اترتا، اُس کا نام ”علم“ تھا۔ ”ایمان“ کا وہ حصہ جو اُن سے برآمد ہوتا، اُس کا نام ”عمل“ تھا۔

قرآن سے پہلے ایمان“ پڑھنا اور وہ بھی رسول اللہ ﷺ سے، یا آپ کے اعتماد یافتہ ائمہ واساتذہ سے، در اصل اِس پورے معاملے کو ایک جہت دے دینے والی چیز تھی۔ یہاں سے ”علم“ کا ایک خاص مفہوم اُن کے ہاں جنم لیتا۔ تب قرآن سے وہ حقیقی ”علم“ لیتے جو اپنی کیفیت و ماہیت میں ایمان“ ہی ہو۔ قرآن سے جب وہ ”علم“ لے کر نکلتے، تو کائنات اور پورا جہان ان کو ایک اور ہی چیز نظر آتی۔ چنانچہ یہ ”علم“ جو وہ رسول اللہ ﷺ سے اور آپ کے تیار کردہ معلموں سے لیتے، اور پھر یہی ”علم“ وہ ایک ہمہ وقتی بنیاد پر قرآن سے لیتے، تو یہ ان کو ماحول، گرد و پیش، اور پوری کائنات کو دیکھنے کیلئے ایک اور ہی روشنی فراہم کرتا۔ یہ ”علم“ پوری کائنات کو اُن کیلئے اب ایک اور ہی انداز میں روشن کر دیتا۔ اب پوری کائنات ان کیلئے ”علم“ اور ایمان“ کی ایک دستاویز ہوتی۔ قرآن سے ”علم“ اور ”ایمان“ کی ٹارچ لے کر وہ اِس کائنات پر، جو اس سے پہلے ان کیلئے اندھیری تھی، نگاہ ڈالتے تو یہ ایمان“ اور ”علم“ کی تحریروں سے بھری ہوئی ہوتی۔ یہ سورج، یہ چاند اور یہ تارے اپنی تمام تر ’روشنی‘ کے باوجود اندھیرے ہیں بلکہ حد سے زیادہ تاریک ہیں، جب تک یہ آپ کو ”قرآن“ کی روشنی میں نظر نہ آنے لگیں! سورج، چاند اور تاروں کا ”جگمگ“ جو اِس کے بعد آپ کو نظر آتا ہے، وہ تو ایک چیز ہی اور ہے! قرآن سے یہ نظر پا کر جس کو ہم نے ”علم“ اور ”ایمان“ کہا ہے، وہ جہان میں جس طرف نظر دوڑاتے، اُن کو ہر چیز خدا کی تسبیح کرتی ہوئی نظر آتی اور وہ اِس تسبیح کرتے ہوئے جہان کے ساتھ مل کر خدا کی تسبیح کرنے لگتے۔ خدا کی نوکری کرنے والے اِس جہان کے ساتھ مل خدا کی نوکری کرنے لگتے۔ تب اُن میں اپنی دنیا کے اندر خدا کے ارادہ اور غایت کی تعمیل کے لئے کمال بے چینی جنم لیتی اور خدا کی خوشنودی کے اُس مقام پر پہنچنے کیلئے، جو اِس فانی اور چھوٹی سی دنیا میں سمانے کی چیز نہیں، اپنی جان، مال اور راحت لٹا دینا ان کیلئے زندگی کی سب سے بڑی سعادت بن جاتا۔ آخر یہ ہوتا کہ یہ ”علم“ ایک مجسم جہاد“ میں ڈھل جاتا اور زمین اُن کے ہاتھوں ایک صالح ترین تبدیلی کی آماجگاہ بنتی۔

٭ پس یہ ”علم“ ایک روشنی تھی جو آدمی کے باطن کو روشن کرتی تو اردگرد کے پورے جہان کی حقیقت بھی اُس کیلئے روشن ہو جاتی۔ یہ مؤخر الذکر بات اِس ”علم“ کی تعریف کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ یہ نہیں تووہ علم“ نہیں بلکہ ”معلومات“ ہیں۔ اس کو آپ ”فنون“ کہہ لیں۔ یہ ”حفظ“ کہلا سکتی ہے۔ ”منقول“ کہلا سکتی ہے اور ”پڑھنے پڑھانے“ میں آ سکتی ہے۔ ”علمالبتہ وہی ہے جو اشیاءکو ان کی حقیقت کے ساتھ دکھائے۔ غرض پوری کائنات ان کیلئے ”آیات“ یعنی خدا کی نشانیاں بن جاتی اور روشنی کا منبع۔ اب یہ دیکھنے والے پر تھا کہ وہ کائنات کو کس حد تک دیکھ سکتا ہے۔ البتہ اِس ”علم“ کا، جسے اُس نے رسول اللہ سے اور قرآن سے لیا ہوتا، باقاعدہ حصہ تھا کہ کائنات جس قدر اُس کو نظر آ سکے، ”آیات“ دکھائی دے۔ یہاں سے ”علم“ ایک اکائی بنتی، جو کہ اسلامی عقیدہ کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ ”وحدتِ علم“ اسلامی تصورِ حقیقت کا ایک نہایت معروف مسلمہ ہے۔ ”دینی“ اور ”دنیاوی“ علم کی تقسیم بہت بعد کے کسی دور کی بدعت ہے، اور ایک بے حد بڑا انحراف۔ ”قرآن“ اور ”کائناتہر دو سے اگر آپ کو وہ ”علم“ نہیں ملتا جو ایک دوسرے کو مکمل کرے، تو وہ علم“نہیں جہالت ہے۔ اسلامی عقیدہ ہمیں ”علم“ کا جو تصور دیتا ہے وہ وہی ہے جو آپ کو دنیوی اور اخروی حقائق بیک وقت دکھا سکے اور وجود کی اِس کہانی کو ایک ہی کہانی بنا کر دکھائے اور اِس کو ”دولخت“ نہ ہونے دے، کیونکہ دنیا اور آخرت فی الواقع ایک ہی کہانی ہے اور سب سے بڑی جہالت ہے ہی یہ کہ آپ کی نظر اِس کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنے سے قاصر ہو۔ پس ”کائنات“ کو پڑھنا اور اِس ”دنیا“ کو دیکھنا اِس ”علم“ کا باقاعدہ حصہ ہے۔ ”کائنات“ کو پڑھ کر ”قرآن“ سمجھ آنا، اور ”قرآن“ کو پڑھ کر ”کائنات“ سمجھ آنا، اور ہر دو کے اندر ”تخلیق“ کا یہ پورا منصوبہ لکھا ہوا نظر آنا، کہ جو خدا کی تسبیح اور تنزیہ پر منتج ہو، اور جو زمین پر انسانی وجود اور انسانی سرگرمی کو صالح ترین جہت دے سکے، اصل ”علم“ یہ ہے!

علم“: یعنی حقیقت کا سراغ پانا، اُس تک پہنچانے والے درست ترین راستوں پہ چلتے ہوئے اور اُس کے درست ترین مقدمات کو اختیار کرتے ہوئے۔

امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں(6): ”آیات“ کا لفظ، قرآن کے اندر اُن ”پڑھی جانے والی“ آیات کیلئے بولا گیا ہے جو وحی کی صورت میں نازل کی گئیں۔ اور ”آیات“ ہی کا لفظ قرآن کے اندر اُن آیات کے لئے بھی بولا گیا ہے(7) جو کائنات کے اندر ”دیکھی“ جاتی ہیں، مثل اَجرام، طبعی قوانین، آفاق و اَنفس اور اِن کے دنگ کر دینے والے احوال اور خصائص۔ اول الذکر: ”آیاتِ مسموعۃ“ ہیں، یعنی تلاوت میں سنی جانے والی نشانیاں۔ ثانی الذکر: ”آیاتِ مشہودۃ“ ہیں، یعنی مشاہدہ کی جانے والی نشانیاں۔ یہ دونوں مل کر آدمی کو خدا تک پہنچاتی ہیں۔ دونوں مل کر انسان کو وہ ”علم“ دیتی ہیں جو اس کے اندرخدا کی تکبیر و تعظیم اور تسبیح و تقدیس ایسے جذبات کو جنم دے سکے اور اس کے اندر سے ”عبادت“ کو برآمد کر سکے۔ دونوں قسم کی ”آیات“ پڑھی جانا مطلوب ہے۔ بلکہ ایک قسم، دوسری قسم کو پڑھے بغیر، بے فائدہ ہے:

- شرعی آیات ہیں تو وہ کائناتی آیات کو پڑھنے اور اُن کے ساتھ تعامل اختیار کرنے کی جانب انسان کی راہنمائی کرنے آتی ہیں۔ یہ کائناتی آیات ہی نہ پڑھی جائیں تو شرعی آیات (یعنی قرآن) سے آدمی نے پڑھا ہی کیا ہے؟

- دوسری طرف، کائناتی آیات پڑھنے کیلئے شرعی آیات کی راہنمائی درکار ہے، بلکہ پہلے شرعی آیات سے ”نظر“ لینا درکار ہے۔ قدرت کی اِن نشانیوں کو آدمی جتنا بھی پڑھے، ان کو ”قرآن“ سے نظر پا کر نہیں پڑھا تو پڑھا ہی کیا ہے؟

آیات“ کا لفظ عجب دلالت کا حامل ہے۔ یعنی ”نشانیاں“، ”علامتیں“۔ خود ”علامت“ کا لفظ ”علم“ سے ہے۔ ”علامتدراَصل اپنے پیچھے کسی چیز کی خبر دینے کیلئے ہوتی ہے۔ اپنے پیچھے کسی حقیقت“ کی جانب ”اِشارہ“ کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ یعنی ”اصل حقیقت“ پیچھے رہتی ہے، البتہ اُس کی جانب ”اشارہ“ کرنے کیلئے ”علامتوں“ کو سامنے لایا جاتا ہے۔ خدا کی یہ کائنات ”آیات“ ہے۔ یعنی یہ اُس ”اصل حقیقت“ کی جانب محض اشارہ“ کرتی ہیں، اصل حقیقت پیچھے ہے۔ کائنات کے یہ ”اشارے“ پانا یہاں تک کہ اِن اشاروں سے پورا پیغام سمجھ آ جائے، یہ البتہ وحی کی مدد کے بغیر انسان کے بس میں نہیں اور بسا اوقات تو ایسا ہو جاتا رہا ہے کہ یہ اَجرام اور یہ طبعی قوانین اور یہ آفاق و اَنفس ”اشارے“ نہیں بلکہ مقصود بالذات غایت“ کے طور پر دیکھے گئے۔ (وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ )(8) تب یہ ہوا کہ کائنات کے یہ ”اشارے“ پانے میں مدد دینے کیلئے کچھ نہایت خاص ”اشارے“ دیے گئے اور اِس کو ”وحی“ کہا گیا، یعنی ”پڑھی جانے والی آیات“۔ اور اُن کو ہر انسان تک پہنچانے کا بندوبست کرایا گیا۔

آیاتِ مشہودہ“.. اور پھر ان کو پڑھنے کا صحیح منہج پانے کیلئے اور ان کے پیغام کو آخری حد تک جلی کر دینے کیلئے ”آیاتِ مقروءۃ“.. یہاں پر ”علم“ مکمل ہوا اور خدا اکی حجت سب عاقل مخلوقات پر تمام ہوئی۔ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا (الانعام: 104) ”اب جو دیکھ لے، سو وہ اپنے (فائدہ) کیلئے۔ جو اندھا رہے، سو وہ اپنی بربادی کیلئے“۔

٭ وحدتِ علم“ ہمارے اُس تصورِ حقیقت میں جو ہمیں صحابہؓ و سلف سے ملا، نہایت اہم چیز ہے۔ قرآن سے ہمیں جو ”علم“ ملتا ہے وہ ”دنیا“کو جاننے اور سمجھنے کیلئے ہی ہے۔ قرآن سے ہمیں جو راہنمائی ملتی ہے وہ ”دنیا“ کو چلانے کیلئے ہی ہے۔ ”روحانی“ اور ”مادی“ علوم کی مشہورِ زمانہ تقسیم ہم کو ہمارے اسلاف نے کر کے نہیں دی، بلکہ اُن لوگوں نے کر کے دی ہے جو ”روشنی“ سے اندھے اور ”علم“ سے کورے ہیں، اور جن کا کل زور اِس بات پر ہے کہ ہم بھی علم“ کے اُس تصور سے برگشتہ ہو جائیں جو ہمیں اپنے اسلاف سے ملتا ہے اور جس کو اسلاف نے معلم انسانیت سے لیا تھا اور جس کی بنیاد پر انہوں نے ہزار سال تک انسانیت کی قیادت کر کے دکھائی تھی اور نہایت بلند قدروں کی بنا پر دنیا کی تعمیر کی تھی۔ بخدا، مغرب زور بھی لگا لے تو وہ اس نعمت کا ادراک نہ کر سکے جو ہمیں حاصل ہے، یعنی خدائی تنزیل کا ”خالص و مستند“ حالت میں ہمارے ہاں پایا جانا جس سے دنیا اپنی اصل حقیقت کے ساتھ نظر آتی ہے اور منفعت کا ذریعہ اور آخرت کی کھیتی بنتی ہے۔

وہ تعارض جو ”وحی“ revelation اور ”علمی حقائق“ scientific facts کے مابین سامنے آ جاتاہے، تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے یورپ کا المیہ رہا ہے جس کو دریادلی کے ساتھ اب وہ ہم سے ’شیئر‘ کرنے لگا ہے، یہ بلادِ اسلام کا اپنا ورثہ بہر حال نہیں۔ اندھیرے کی یہ کہانی بائبل پڑھنے والی اقوام کی آپ بیتی رہی ہے نہ کہ قرآن پڑھنے والی ملت کا فسانہ۔ اس لئے کہ ”وحی“ کے حوالے سے خدا پر جھوٹ بولا گیا،اور صدیوں بولا جاتا رہا، تو یورپ کی ’عقل‘ نے اِس کو برداشت کر لیا تھا۔ تب خدا نے اِس ’عقل‘ کو یہ سزا دی کہ ”کائناتی حقائق“ اُس ’وحی‘ کا منہ چڑائیں جس کو یہ ’خدا کی تنزیل‘ مانتی رہی تھی۔ در اصل یہ ’وحی‘ کا نہیں بلکہ اِس ’عقل‘ ہی کا منہ چڑانا تھاجس کو ”عقل“ ہوتی تو اُس وقت چیختی جب اِس ’وحی‘ میں انسانی ملاوٹ ہو رہی تھی اور اِس کو ”مِن عِند اللہ“ کے روپ میں لوگوں کی ”ہدایت“ کیلئے پیش کیا جا رہا تھا، لیکن تب یہ ’عقل‘ گھاس چرنے چلی گئی تھی اور اِس پر چوں تک نہ کر سکی تھی۔ اِس ’عقل‘ نے دوسری بار گھاس چری جب یہ رائے قائم کی، بلکہ اِس کو باقاعدہ ”علم“ کی بنیاد ٹھہرایا کہ ”علمی حقائق“ ”خدا کی وحی“ کے ساتھ متصادم نظر آ رہے ہیں! لہٰذا یہ ”وحی“ کسی درجہ میں درخورِ اعتنا ہے بھی تو وہاں جہاں یہ کسی اَن دیکھے جہان کی بات کرے! البتہ اپنے اِس جہان کی بابت اور اِس کے مسائلِ گوناگوں کی بابت خدا جو بھی کہے، درخورِ اعتنانہیں! اپنی اِس دنیا اور اِس کائنات سے متعلق انسان اپنی عقل سے جو رائے قائم کرے گا حرفِ آخر وہ ہے، یہ خدا کو بہرحال بیچ میں نہ آنے دے گی! یہ ’عقل‘، بجائے اِس کے کہ اپنا ماتم کرتی کہ یہ ایک تحریف زدہ وحی کو ’تنزیل خداوندی‘ کہے جانے پر تو بڑی صدیوں تک معترض نہ ہوئی تھی، یوں بڑی دیر تک یہ انسانی حماقتوں کو ’خدا کی وحی‘ کے نام پر مانتی رہی تھی، اب خدائی تنزیل کو ”ناقابل اعتماد“ قرار دے کر ”علماور ”آگہی“ کی تعریف سے ہی خارج کر رہی تھی! جہالت کی یہ وہ حد ہے جس کو بیان کرنا الفاظ کے بس میں نہیں۔ خدا کی کائنات البتہ خدا کی ہی وفادار رہی اور اِس کو بہرحال خدا ہی کا وفادار رہنا تھا۔ ’وحی‘ کے حوالے سے خدا پر جھوٹ بولا گیا اور اِس ’عقل‘ نے جو اوندھی ہو چکی تھی اس کو تسلیم کر لیا، تو خدا کی کائنات نے اِس کو قبول کر کے نہ دیا۔ پس اِس کائنات نے جو تصادم“ کیا وہ اُس جھوٹ کے ساتھ تھا جو خدا کے نام پر بولا گیا تھانہ کہ اُس وحی کے ساتھ جو خدا کے ہاں سے اتری تھی! یہ ہو ہی کیسے سکتا تھا کہ خدا کی تخلیق خدا کی تنزیل کے سر آئے؟!

پس اِس ’عقل‘ نے دو جھوٹ بولے: ایک خدا کے نام پر، پھر دوسرا کائنات کے نام پر۔ حالانکہ جھوٹی صرف یہ تھی؛ یہ اپنا تعارف ’عقل‘ کے نام سے کرواتی پھر رہی تھی، جبکہ یہ ”عقلہی نہیں تھی!

٭ پس ”علم“ وہی جو آدمی کو اللہ کی طرف لے کر چلے، وجود“ کو اُس کے اصل کی جانب لوٹائے ، اِس کے ”دنیوی“ مرحلے کو ”اخرویمرحلے کے ساتھ جوڑ کر ”پڑھ“ سکے۔ جو آدمی کو ”مقصدِ وجود“ سے آشنا کرے اور انسانی دنیا کے اندر اس سے صالح ترین و نفع بخش ترین اعمال اور رویوں کو جنم دلوائے۔

وہ علم جو اسلام کے عہدِ اول میں ”علم“ مانا جاتا تھا، وہی تھا جو ”آسمانی“ روشنی میں اپنی دنیا کو دیکھنے کے کام آئے۔ جس سے آدمی اپنے دور اور زمانے کو دیکھ اور جانچ سکے۔ جس سے مدد پا کر وہ اپنے دور اور زمانے کو خطاب کر سکے۔ دوسرے لفظوں میں، وہ اپنے دور اور زمانے کو آسمان سے اتری ہوئی اِس روشنی کی زد میں لا سکے۔ اِس کی روشنی میں وہ اپنے دور اور زمانے اور ماحول کا محاکمہ کر سکے۔ اس کی روشنی میں وہ اپنے دور اور زمانے اور ماحول میں ”تبدیلی“ کا ایک اصیل و جامع تصور رکھے، بلکہ عملاً اس کو بدل دینے کی راہ پر گامزن ہو۔

آسمان کی اِس روشنی نے مومن کو اپنے اردگرد کی دنیا پر نگاہ ڈالنے کی استعداد نہیں بخشی، تو اُس نے آسمان کی اِس روشنی میں دیکھا کیا؟ آسمان سے اتری ہوئی اِس روشنی کا اُس نے مصرف ہی کیا کیا؟ وہ ”علم“ کیا ہوا جو آدمی کو اُس کی یہ دنیا روشن کر کے نہ دے؟!!

پس ایک بہت بڑا حصہ اِس ”علم“ کا یہی تھا، اور جس پر آدمی کو پوری تندہی کے ساتھ کام کرنا تھا، کہ وہ اِس وحی کا انطباق اپنی سب ”معلومات“ پر کرے۔ جو جو کچھ اُس کو ’معلوم‘ ہے یا وہ سمجھتا ہے کہ اُس کو ’معلوم‘ ہے، وہ اُس کو ”وحیِ خداوندی“ پر پیش کرے۔ ہر ہر چیز جس کو وہ جانتا‘ ہے یا اُس کا خیال ہے کہ وہ ’جانتا‘ ہے، اُس کو وحی کے چراغ تلے لائے اور اِس کی ”روشنی“ میں دیکھے کہ وہ کیسی نظر آتی ہے۔ یوں وہ اپنی بہترین انسانی استعداد سے کام لے کر اور اپنی بساط کی حد تک ’زمین‘ کی ہر چیز کی توثیق ”آسمان“ سے کروائے۔ اِس سفر میں وہ اپنی ہر رسائی اور کامیابی کو اُس مقصد کے تابع کرے جو خود اِس کائنات ہی کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہے تاکہ یہاں پر انسان کی سرگرمی باقی ماندہ کائنات کی تسبیح اور عبادت کے ساتھ ہم آہنگ ہو، نہ کہ کائنات کی اِس مجموعی حرکت و جہت کے ساتھ متصادم۔

پس اِس ”علم“ کا بڑا حصہ یہی تھا کہ انسان اپنے فکر وعمل کی صحت اُس علیم اور خبیر ذات کی تنزیل میں چیک کرے اور اُسی کے میزان اور معیار سے ماپ کر اِس کی تصویب اور تصحیح کرتا چلا جائے۔ ہاں اِس کا یہ مطلب بہرحال نہیں کہ وہ سب کچھ وحی پر چھوڑدے؛ یعنی اپنے انسانی قویٰ کو معطل ہی کر لے اور کہے کہ سب کچھ تو وحی سے لیا جانا ہے! حق یہ ہے کہ یہ محض اُن عقل پرستوں کی جانب سے وارد کیا جانے والا سوال نہیں جو کائنات کے اکتشاف اور مسائلِ زندگی کے بحث و مطالعہ کے معاملہ میں محض اپنے زورِ بازو پر انحصار کرنے کے روادار ہیں اور اِس باب میں وحی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ ’وحی پر انحصار‘ کا مطلب عملاً یہ لینا کہ انسانی قویٰ معطل ہوں، واقعتا آج کثیر دینداروں کا مائنڈ سیٹ ہے۔ پورا ’مذہبی‘ سیکٹر نہیں تو اس کا بڑا حصہ آج اِسی روش پر ہے۔ البتہ یہ واضح ہونا ضروری ہے، اور ”علم“ کی تعریف کے باب میں تو بے حد اہم ہے، کہ وحی پر انحصار کا مطلب انسانی قویٰ کو معطل کر لینا نہیں بلکہ انسانی قویٰ کو ایک زوردار جنبش اور تحریک دینا ہے۔ کیونکہ انسان اگر اپنے عقلی و فکری قویٰ کو معطل کر لیتا ہے تو وحی کا عمل بھی ساتھ ہی معطل ہو جاتا ہے۔ چلنا انسان کو خود ہے؛ وحی کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اُس کو راستہ دکھائے۔ یہ انسان اگر بیٹھ گیا ہے، جیسا کہ آج مسلمان کا حال ہے، تو یہ وحی راستہ“ کس کو دکھائے؟! بیٹھے ہوئے لوگ خواہ اپنے تئیں ”وحی“ سے ہی راستہ پوچھنے والے کیوں نہ ہوں، پہنچیں گے کہیں نہیں۔ خصوصاً جبکہ صورتحال یہ ہو کہ وحی اِس عقل کو جو راستہ دکھا سکتی ہے، اور خود اِس راستے ہی کے جس قدر پیچیدہ موڑ ہیں، اُس کی پوری تفصیل ایک ہی بار وحی سے نہیں لی جا سکتی۔ یہاں تو آپ چلیں گے، تو تب ہی اِس راستے کے ہر ہر موڑ پر وحی آپ کو راستہ دکھائے گی۔ ”وحی“ کو آپ حفظ کر سکتے ہیں البتہ ”راستہ“ آپ چلیں گے تو ہی سامنے آئے گا۔ اب مسلمان اگر زمین میں پیش قدمی ہی نہیں کرتا، اور کائناتی حقائق کے کھوج میں اور خیر کے مقاصد کیلئے کائنات کو مسخر کرنے کی راہ میں آگے نہیں بڑھتا اور مسائلِ زندگی کو ہاتھ ہی نہیں ڈالتا.. اپنے زمانے کی نبض پر ہاتھ ہی نہیں رکھتا.. تو وحی اِس کی ہادی و رہبر کیسے ہو؟! جس انسان کو چلنا ہی نہیں، وحی اُس کو کہاں پہنچائے؟ اور کیونکر اُس کی یہ خدمت انجام دے؟! إِنَّ هَـذَا الْقُرْآنَ يِهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ۔ (بنی اسرائیل: 9) ”یقینا یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے اُس راستے کی جو قویم ترین ہے“۔ یقینا یہ ایسا راستہ ہوتا ہے کہ جس میں چل کر انسانی عقل و نشاط اپنی بہترین کارکردگی دکھا سکے اور ہر قسم کے شر اور انحراف اور ضیاع سے دامن بچا رکھتے ہوئے اپنا بہترین جوہر اپنے زمانے اور ماحول کی مناسبت سے سامنے لا سکے۔ جس کے نتیجہ میں اِس کی دنیا بھی بنے اور آخرت بھی۔ ہاں مگر ”چلنافکر انسانی کو ہے۔ ”وحی“ کا کام ”عقل“ اپنے ہاتھ میں لینے کی مجاز نہیں تو اپنا کام ”وحی“ پر چھوڑ دینے کی مجاز بھی تو نہیں!!! ”عقل“ کا کام ”وحیکو بہرحال نہیں کرنا!!! اِس تن آسانی کو ’وحی پر انحصار‘ کا نام دینا اور عقل“ کی سرگرمی کا سارا میدان کافروں کیلئے چھوڑ رکھنا حد سے بڑھ کر زیادتی ہے۔ ”وحی“ کی اِس سے بڑھ کر ناقدری کبھی نہیں ہو سکتی۔

٭ پس ”علم“ کی تعریف انسان پر تب صادق آئے گی جب وہ اپنے عقل و فکر کو __ وحی کی راہنمائی میں دیتے ہوئے __ خود اپنے دور اور زمانے کے اندر حرکت اور فاعلیت پر آمادہ کرے گا....

پیچھے ہم صحابہؓ کے ”منہجِ علم“ کے حوالہ سے کہہ آئیں ہیں کہ وہ قرآن کے اندر گہرا ترتے اور ان کے قرآن کے اندر گہرا اترنے میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ قرآن کی روشنی سے ہی زندگی اور وجود کی پوری تصویر دیکھنے کی کوشش کرتے۔

علم“ کا یہ پہلو نہایت اہم ہے۔ جہاں جہاں تک فکر انسانی کی رسائی ہے، مسلمان کا فرض ہو گا کہ وہاں وہاں تک شریعت کی رسائی کرائے۔ زندگی اور وجود کی جتنی تصویر آدمی کے اپنے دور میں دیکھی جا چکی ہے اُس کو قرآنی نظر کے ساتھ ہم آہنگ کرے، تاکہ یہ ”علم“ بنے۔ یقینی بات ہے کہ زندگی اور وجود کے جو حصے صحابہؓ کیلئے عیاں ہوئے صحابہؓ ان کو قرآن کی روشنی میں دیکھ سکتے تھے۔”علم“ کی یہ جہت صحابہؓ سے ہرگز ہرگز چھوٹی ہوئی نہیں تھی۔ یقینی بات ہے کہ زندگی اور وجود کو دیکھنے اور منکشف کرنے کا انسانی عمل پوری تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ آج کا مسلمان زندگی اور وجود کے اُن جوانب کو جو خود اِس کے دور نے منکشف کر کے دیے ہیں، شریعت کی روشنی میں دیکھنے سے آخری حد تک قاصر ہے۔ اِس کو قرآن حفظ‘ تو ضرور ہے، یہ اِس کا ’ترجمہ‘ بھی ضرور کر سکتا ہے، ’تفسیر‘ بھی کر سکتا ہے، اِس کے ’دورے‘ بھی کرتا اور کرواتا ہے، لیکن قرآن کا ”علم“ بڑی حد تک اِس کے ہاں مفقود ہے۔ صحابہؓ کا وہ منہج سامنے لانا آج بے حد ضروری ہے جس کی رو سے: وہ قرآن کی دس آیات لے لیتے، تو تب تک اگلی دس آیات پر نہ جاتے جب تک کہ وہ ان کے اندر گہرا نہ چلے جاتے۔ جب تک وہ اس میں غوطہ زن ہو کر فہم و فکر، وجدان و نظر، اور سیرت و عمل کے جو جو موتی مل سکتے وہ چن کر نہ لاتے۔ وہ اگلے سبق پر اُس وقت تک نہ جاتے جب تک پہلے سبق سے ”علماور ”عمل“ کے جو جو پہلو مل سکتے تھے اُن کو لے نہ لیں۔

٭ یہی وجہ ہے جو ہم نے کہا: وہ ”علم“ اس سے خاصا مختلف ہے، جو آج اِس لفظ سے ہمارے ہاں مراد لیا جاتا ہے۔ اِس لئے ہماری درخواست ہو گی کہ اِس مسئلہ کو الجھنے نہ دیا جائے۔ دین کی روح کو پانا کسی طویل و عریض نصابی عمل کا متقاضی نہیں۔ دین کی روح کو پانا اور اسلامی مشن کی حقیقت کو جاننا ہی دراصل ”ایمان“ کا وہ ابتدائی سبق ہے جو قرآن پڑھنے اور پڑھانے کے عمل کی بنیاد میں ڈالا جائے گا، جبکہ قرآن پڑھنے اور پڑھانے کا عمل آج بڑی حد تک اِس کے بغیر ہو رہا ہے۔ آج ہمیں کسی بھی ”تعلیمی“ سلسلے کو سامنے لانے سے پہلے، مسلم عقل اور مسلم جذبے کو ایک نیا رخ دینے کیلئے کچھ بنیادی ترین کام کرنا ہوگا۔ دیگر سب ”اسلامی مضامین“ کی افادیت کا انحصار سمجھئے اِسی پر ہے۔ یہ چیز ہو گی تو ہی قرآن پڑھنے اور پڑھانے کا عمل یہاں پر ایک جہت پکڑے گا۔ ایک دار الارقم بن ابی الارقم ایسی سادہ فضا ہزاروں مدرسوں اور نصابوں سے کفایت کر سکتی ہے۔ قرآن سے علم اور عمل کے خزانے برآمد کرنا ہر انسان کی اپنی ہمت اور صلاحیت پر ہے اور یہ کام آپ سے آپ ہو گا۔ مسئلہ اِس عمل کو بنیاد سے ایک رخ دینے کا ہے، جو کہ ”ایمان“ کا ایک مقدمہ سامنے لانے سے ہی ممکن ہو گا۔ قرآن پڑھنے اور پڑھانے سے برگزیدہ تر کوئی عمل نہیں، مگر وہ بھی اِس کے بعد ہی ثمر آور ہو سکتا ہے جب آپ لوگوں کو ”ایمانپڑھائیں یعنی ”قرآن کے اصل موضوع“ کو ہی اُن کا موضوع بنا دیں تاکہ قرآن سے بھی پھر وہ اُس کا ”اصل موضوع“ ہی پڑھیں ۔ وہ تحریکی عمل جو اِس وقت مفقود ہے، اُس کو اپنا ظہور اِسی محاذ پر کروانا ہے۔ یہاں پر ہی اصل محنت ہو گی۔ تعلیمی عمل کے اگلے کچھ مراحل پر بھی کام کرنے کی بے حد ضرورت ہے، مگر اِس گھاٹی سے گزر لینے کے بعد۔

تعلیمی“ شعبے میں بے شمار اشیاءضروری ہیں، مگر سب سے بڑی اور سب سے پہلی ضرورت یہی ہے، یعنی ”ایمانکا مضمون سامنے لایا جانا۔ قرآن کا اصل مضمون کیا ہے، قرآنی صرف و نحو اور ترجمہ وتفسیر اور شرح و توضیح سے پہلے ”رسالت“ کا یہ اصل لب لباب اور حقیقت اسلام“ کا یہ اساسی بیان ہی یہاں کے تعلیمی عمل کا مرکزی مضمون ہونا چاہیے۔ باقی سب مضامین کو پھر اِسی اساسی مضمون سے برآمد کراناہو گا۔

تعلیمِ عقیدہ“ کی اِن متروکہ جہتوں کو انقلابی بنیادوں پر سامنے لانا ہو گا۔ ایسے انتظامات آج معاشرے کی ہر سطح پر مطلوب ہیں۔ اِس سادہ و بے ساختہ تعلیمی عمل کو بچوں کی سطح پر بھی، نوجوانوں کی سطح پر بھی، بڑوں کی سطح پر بھی.. مساجد کی سطح پر بھی اور مکاتب کی سطح پر بھی.. گلی گلی، محلہ محلہ.. ہر جگہ سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہرگز کسی لمبے چوڑے ’نصابی‘ یا ’تعمیراتیمنصوبہ جات کا ضروت مند نہیں، بلکہ تعلیم اور تعلم کے ایک سادہ مگر ہمہ گیر عمل کا متقاضی ہے۔ معاشرے میں جگہ جگہ اگر یہ عمل پھوٹ پڑتا ہے تو ایک بنیادی کام شروع ہو جاتاہے۔ اِس مقصد کیلئے ”رجال“ کی تیاری پر اصل محنت ہو گی، تاکہ ایسے حلقاتِ علم نہایت سادہ انداز میں یہاں کے تمام اطراف و اکناف میں پھیلا دیے جائیں، جو عوام سے لے کر خواص اور انٹیلکچولز تک مسلم ذہن کی تشکیل نو کرے۔ اِس سے مسلم ذہن کی سطح بلند ہونے اور اُس کے اندر علوم“ پر ایک نئے انداز میں گرفت کرنے کی آپ سے آپ جو ایک صلاحیت سامنے آنے لگے گی، ان شاءاللہ وہ ایک بے حد بڑی پیشرفت ہو گی۔

وہ لہجے جو بعد کی تمام تر مسلم ترقی کو باقاعدہ ایک فکری، نظریاتی اور نفسیاتی بنیاد فراہم کریں اور قوموں کی دوڑ میں ”مسلمان“ کو ہر قوم سے آگے نکل جانے کیلئے جنونی کر دیں، اِس عمل کے اپنے ہی اندر پڑے ہوتے ہیں۔ دنیا و آخرت کے جملہ مسائل کی بابت ایک نہایت گہری اور سنجیدہ نظر اِس کے اپنے ہی اندر پوشیدہ ہے۔ تخلیق ومقصد تخلیق کا ادراک ہو یا خالق کی پہچان، باطل کے ساتھ کشمکش کھڑی کرنے کی بات ہو یا اپنے زمانے سے مخاطب ہونے اور زمانے پر اثرانداز ہونے کی استعداد پیدا کرانے ایسے اہداف.. فکر، عمل اور فاعلیت کے یہ سب محور خود بخود اِن لہجوں کے اندر سے پھوٹیں گے۔

قرآن سے پہلے ایمان“ پڑھنے کا منہج .. تاکہ قرآن سے بھی پھرآپ ”ایمان“ ہی پڑھیں اور آپ کے فہم و فکر اور سعی و عمل کے اندر بھی دین کی بنیادیں ہی بولیں.. یہ دراصل مسلم جذبے اور مسلم عقل کی ایک ”پروگرامنگ“ ہو گی۔ یہ ناگزیر ہے۔ اِس پروگرامنگ“ سے پہلے پڑھائے گئے ”شرعی علوم“ یا ”دینی مضامین“، خواہ وہ کتنے ہی اعلیٰ معیار کے ساتھ پڑھائے جائیں، محض ایک ’نصابی کارروائی‘ ہو گی۔ ”نصابی کارروائی“ کی افادیت سے ہمیں انکار نہیں، مگر جس وقت امت کو از سر نو وجود دینے کا چیلنج درپیش ہو، اُس وقت نہیں۔ اُس وقت جس چیز کی سب سے بڑھ کر ضرورت ہو گی وہ ہے اِس امت کا اصل کیس سامنے لے کر آنا۔ اِس دین اور اِس مشن کے بنیادی ترین اوصاف کو متعلمین کی گھٹی میں اتارنا۔ اِس کے اصل الاصول پر ہی اِس کے بچوں اور نوجوانوں کا ہاتھ رکھوا دینا۔ جب بھی ایک عمارت کو نئے سرے سے اٹھانا مقصود ہو گا، مسئلے کو ”اساس“ سے ہی اٹھایا جائے گا۔ یقینا آج ہمیں ایسا ہی ایک مرحلہ درپیش ہے۔ یقینا آج ہمیں اپنے اِس معاشرے اور ماحول کو چیر کر اندر سے ایک نیا معاشرہ برآمد کرنا ہو گا۔ اِس لئے ہمارا کہنا ہے کہ اپنا کل زور آج ہمیں ”اسلام کے بنیادی ترین سبقپر دینا ہو گا۔ اِس حد تک زور دینا ہو گا کہ دیکھنے والا کہے، اِس کے علاوہ ان لوگوں کو شاید کوئی کام ہی نہیں۔ بچوں کی تعلیم ہو یا بڑوں کی، خواتین کی یا مردوں کی، مساجد میں ہونے والا تعلیمی عمل ہو یا مکاتب میں، ہر جگہ اساسِ دین“ ہی کی گونج سنائی دینی چاہیے۔

باقی بہت سارے منصوبے اور اونچی سے اونچی سطح کے پروگرام بھی ہم لازماً بنائیں گے __ کیونکہ دورِ ابتدائے نبوت کے برعکس، آج مسلم معاشرے بہر حال وجود رکھتے ہیں اور یقینا یہ ایک بھاری بھر کم وجود ہے __ لیکن اصل زور اور توجہ فکر و عمل کی اس بنیادی جہت پر دیں گے۔ کیونکہ ”علم“ کی اصل حقیقت تو یہی ہے، باقی سب کچھ اِس ”علم“کی تفصیلات ہیں۔

یہ ایسا ہی ہے کہ ایک پہلے سے بنی ہوئی عمارت کو آپ نے گرنے بھی نہیں دیا، مگر اُس کی بنیادوں کو از سر نو پختہ بھی کر دیا۔ بالیقین آج ہمیں ایک ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔

حوالہ کی سہولت کیلئے اِس عمل کو اپنے اِس مضمون میں ہم ”تعلیمی عمل کی پہلی و اساسی ضرورت“ کا نام دیں گے۔

٭٭٭٭٭

اسلام میں ایسی نسلوں کا پروان چڑھنا جو جاہلیت سے آگاہ نہیں !

 

٭ امام ابن قیمؒ اپنی تالیفات میں جا بجا حضرت عمرؓ کا ایک مشہور قول نقل کرتے ہیں:

اِنَّمَا تُنقَضُ عُرَی الاِسلَامِ عُروَۃ عُروَۃ، اِذَا نَشَأَ فِی ال ´ اِسلَامِ مَن لَا یَعرِفُ الجَاہِلِیَّۃ (9)

اسلام کی کڑیاں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں گی، جب اسلام میں ایسی نسلیں پروان چڑھنے لگیں جن کو جاہلیت سے آگاہی نہ ہو“۔

یعنی جب اسلام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہو، اور اسلامی ایمپائر آدھی دنیا میں اپنا وجود پھیلا کر کھڑی ہو، تب بھی یہ ضروری ہو گا کہ اس کے بچے جہاں اسلام کی حقیقت کا سبق لیں وہاں جاہلیت کی حقیقت سے بھی آگاہی پائیں۔ بصورتِ دیگر، اسلام کی وہ اصل حقیقت قلوب کے اندر اور معاشرے کے اندر پژمردہ ہونے لگے گی، جس کے نتیجے میں مسلم معاشرے بے جان ہونے لگیں گے۔ یعنی جب اسلامی ایمپائر آدھی دنیا میں اپنی جڑیں گاڑ کر کھڑی ہو،تب بھی یہ خطرہ ہوگا کہ یہ عمارت اندر سے کھوکھلی نہ ہونے لگے کیونکہ یہاں ایسی نسلیں جوان ہونے لگی ہیں جنہیں اُس جاہلیت کی حقیقت سے آگاہی نہیں جسے منہدم کر دینے کے بعد ہی اسلام کی یہ عمارت قائم ہوئی تھی۔

ظاہر ہے اسلامی ایمپائر کسی قوم کی ایمپائر نہیں تھی کہ اِس بات سے ڈرا جائے کہ جس قوم کی طاقت ختم کر کے اِس قوم کی سلطنت قائم کی گئی تھی وہ ’قوم‘ کہیں پھر اٹھ کھڑی نہ ہو۔ اسلامی ایمپائر ایک عقیدے کی ایمپائر تھی، پس اِس کی بابت ڈرنے کی کوئی بات ہو سکتی ہے تو یہی کہ جس عقیدے اور نظریے کو خاک میں ملا کر اِن بستیوں اور شہروں کے اندر اِس آسمانی عقیدہ کی مملکت قائم کرائی گئی، کہیں وہی ”نظریاتی و عقائدی صورتحال“ یہاں پھر سے سر نہ اٹھا لے۔

قوموں کے معاملہ میں واقعتا ایسا ہے کہ ایک مرے ہوئے کو مارنا کوئی بہادری نہیں۔ البتہ عقائد اور نظریات کی دنیا کا معاملہ سراسر اور ہے۔ ایک باطل عقیدہ اور نظریہ جس کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے اور کامیابی کے ساتھ اُس کی جگہ معاشرے میں ایک نیا عقیدہ قائم کرا دیا گیا ہے.... اب اِس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ معاشرہ اِسی نئے عقیدہ پر قائم و دائم رہے، ضروری ہوتا ہے کہ وہ عقیدہ جو اُس کے ہاں سے ختم کرا دیا گیا تھا، مسلسل اُس کے ہاں تلف کیا جاتا رہے۔ وہ عقیدہ وہاں صدیوں پہلے دفن ہو چکا تھا تو بھی ضروری ہے کہ اُس کی ہر آنے والی نسل اُس پر پتھر برسائے۔ بصورتِ دیگر، ایک نظریاتی معاشرے کا اپنا وجود درہم برہم ہوجاتا ہے۔ دراصل یہ معاشرے کے اپنے عقیدہ کو زندہ رکھنے کا ہی ایک انتظام ہوتا ہے اور کوئی بھی معاشرہ اپنی اِس بنیادی ترین ضرورت سے مستغنی نہیں ہوتا۔ جدید یورپ جن نظریات کو موت کی نیند سلا کر معرضِ وجود میں آیا ہے اُن نظریات کی ’قبر‘ پر وہاں آج بھی پتھر برسائے جاتے ہیں، یورپی تعلیم کار کا مقصد اِس سے یہی ہوتا ہے کہ اُس کی نئی نسلیں اپنے اِن ”جدید نظریات“ پر پختہ رہیں۔ کمیونسٹ معاشروں میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں، نئی آنے والی نسلوں کو سبق ہی ’سرمایہ داری‘ کی بابت پڑھایا جاتا تھا اور ہر نسل میں ’سرمایہ داری‘ کی نظریاتی موت کروائی جاتی تھی، کیونکہ کمیونزم کا کسی معاشرے میں باقاعدہ نظریاتی طور پر قائم رہنا اِسی بات کا مرہونِ منت ہو سکتا تھا کہ ’سرمایہ داری‘ وہاں مسلسل سنگسار ہوتی رہے۔ اِس میں تعجب کی کوئی بھی بات نہیں۔ نہ یہ مسئلہ شدت پسندی کا ہے۔ نظریوں اور تہذیبوں کی دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے اور دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا نظریہ اِس سے مستثنیٰ نہیں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اسلامی تاریخ کی یہ عبقری شخصیت، خلیفۂ دوئم امیر المؤمنین عمر بن الخطابؓ، اِس بات پر پریشان ہیں کہ اسلامی عمارت کی بنیادیں اُس دن ہلنے لگیں گی جس دن مسلم معاشروں کے اندر ایسی نسلیں پروان چڑھنے لگیں جو جاہلیت کی حقیقت سے ناواقف ہوں۔ جنہیں اِس امر کی سنگینی معلوم نہ ہو کہ وہ کونسی چیز تھی جس کو زمیں بوس کر دینے کے بعد اسلام کی یہ عمارت اٹھائی گئی تھی۔ اندازہ کر لیجئے، ”اسلام“ معاشرے کے اندر ابھی قائم ہے، لیکن نئی نسلیں اگر جاہلیت سے ناواقف رہنے لگتی ہیں تو عمر بن الخطابؓ اِس کے اندر اسلام کیلئے اتنا سنگین خطرہ محسوس کرتے ہیں، کہ جب بھی خطرہ آیا یہیں سے آئے گا۔ حضرات! تو پھرآج کی صورت حال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جہاں ”اسلاممعاشرے کے اندر سرے سے قائم نہ ہو اور اِس حال میں بھی ہماری نئی نسلوں کو جاہلیت سے واقف کرانے کا کوئی انتظام نہ ہو؟؟؟! جاہلیت سے آگہی بلکہ ہم کہیں گے جاہلیت سے جنگ اب بھی ہمارے ”اسلامی تعلیمی عمل“ کا حصہ نہ ہو؟؟؟! اور ہم محض ”اخلاقِ فاضلہ“ اور ”اعمالِ صالحہ“ کی تعلیم دے کر یہ امید رکھیں کہ ما شاءاللہ ایک اسلامی معاشرے کی راہ ہموار ہو رہی ہے!!!

ہمارے بیشتر اسلامی اداروں کا جائزہ لے کر فرمائیے، کیا ہمارے ہاں ”اسلامی تعلیم“ کا کچھ ایسا ہی تصور نہیں؟؟؟

 

کچھ فلسفوں کا نام آج ’تعلیم کی اسلامائزیشن‘ ہے!

 

یہ ہم ’غیر اسلامی‘ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بات نہیں کر رہے، خود اسلامی“ اداروں میں جو ”دینیات“ پڑھائی جاتی ہے، یہاں نو نہالوں کی جو شرعی“ و ”اسلامی“ ذہن سازی کی جاتی ہے، اُس میں ”جاہلیت“ کی پہنچان کرانے سے متعلقہ کوئی چیز بھی کیا شامل ہے؟ (ابھی ہم جاہلیت کی اُن باتوں کی طرف نہیں آتے جو خود اِن اسلامی اداروں و جماعتوں کے جاہلیت سے متاثر ہونے بلکہ جاہلی عقائد و افکار و روایات کو اختیار کر رکھنے پر دلالت کرتی ہیں!)۔ عمر بن الخطابؓ ”اسلام“ کی تمام تر جاہ و حشمت کے ہوتے ہوئے اپنی آئندہ نسلوں کیلئے پریشان ہیں کہ جس دن ان کے ہاتھوں میں جاہلیت کے خلاف پکڑے ہوئے تیشے نظر نہ آئے اُس دن اسلام کی کڑیاں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں گی۔ ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ اسلام کی کوئی ایک بھی کڑی شاید سلامت نہ رہی ہو اور جاہلیت عملاً ہماری اپنی دنیا کے اندر عود کر آئی ہو بلکہ عملاً اُسی کا راج ہو، مگر پھر بھی ہمارے ہاں ”اسلامی تعلیم“ کا تصور کچھ روایتی افکار و عقائد کے ایک بے ضرر مجموعہ اور کچھ ’نیک اعمال‘ اور ’اچھے اخلاق‘ کے دائرہ سے باہر نہ جاتا ہو، اور زیادہ ہی ہوا تو ہم ان کو اسلام کے معاشی و سیاسی نظام کی بحثیں پڑھانے لگ جائیں گے یا علوم شرعیہ کے کچھ ایسے ابواب پڑھانے لگ جائیں گے جن کی __ عمل کی دنیا میں __ شاید ضرورت بھی نہ پڑے جب تک جاہلیت ہمارے یہاں اپنے اِس طمطراق کے ساتھ قائم ہے۔

حضرات! یہاں جاہلیت سے زمین خالی کروائی جائے گی تو اسلام کے قدم جم سکیں گے!

یہاں سے اسلامی تعلیم یا اسلامی راہنمائی کی ایک اور اہم جہت سامنے آتی ہے، جو یہاں پر اسلامی احیائی عمل کا بیڑہ اٹھانے والے طبقوں کے پیش نظر رہنی چاہیے....

اسلام در اصل عزت اور غلبے کا دین ہے۔ کسی دوسرے دین، نظریے یا نظام کی بالاتری قبول کر لینا اِس کی سرشت میں ہی شامل نہیں۔ ہو بھی کیسے، یہ جہانوں کے مالک کا نازل کردہ دین ہے! مگر یقینی طور پر اِس کے حاملین پر ایسے اَدوار آ سکتے ہیں جب کسی اور دین یا نظریے یا نظام کو طاقت و پزیرائی حاصل ہو۔ جبکہ یقینی طور پر اسلام ہر زمانے، ہر وقت اور صورتحال کیلئے ہے، حتیٰ کہ اُس وقت کیلئے بھی جب مسلمان محکوم اور مغلوب ہو رہیں۔ پس اصل سوال یہ ہو گا کہ مسلمان جس وقت محکوم اور مغلوب ہو جائیں، اُس وقت وہ کونسے لہجے اور اسلوب ہیں جو ان کو اختیار کرنے چاہئیں؟ مگر اِس سوال پر ہم اتنا پریشان کیوں ہوں، کیا اسلام کی عین ابتدا میں مسلمانوں پر ایسا ہی وقت نہیں تھا؟ تو پھر وہ کونسے اسلوب اور لہجے تھے جو اُس وقت سامنے لائے گئے تھے؟ یہاں پر ’نمازوں‘ کی تلقین، ’اللہ کے ساتھ تعلق‘ کے شیریں مباحث، ’اخلاق‘ کی پرزور تاکیدیں، ’نیک اعمال‘ سے متعلقہ مواعظ، اسلام کا معاشی نظام‘، ’اسلام کا سیاسی نظام‘، ’اسلام کا معاشرتی نظاموغیرہ وغیرہ.. سب پیچھے چلے جاتے ہیں۔ دین کے یہ سب امور ہیں ضرور، مگر سب سے آگے جو بات آ جاتی ہے وہ باطل کا انکار ہے۔ جاہلیت سے برأت ہے۔ شرک سے اور شرک کی جملہ اقسام سے عداوت ہے۔ اہل زیغ و ضلال کے خلاف فکری و نظریاتی محاذ آرائی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کفر کا غلبہ ہے اور جاہلیت کا راج ہے، مسلمان بچے بچے کی زبان پر جاہلیت کا رَد سنا جانا چاہیے۔ کفر کا انکار ایک گونج کی صورت ہونا چاہئے۔ اپنے دور کے باطل کے خلاف ہر ہاتھ میں تیشے نظر آنے چاہئیں۔ غیر اللہ کی عبادت کے خلاف ایک آخری درجے کی دشمنی اور صف آرائی، مسلم ذہن کی ساخت کا حصہ ہونی چاہئے۔ یہ شدت پسندی نہیں۔ اسلام کا آغاز اِسی طرح ہوا تھا۔ اسلام کا احیاءبھی اِسی طرح ہو گا۔ اسلام کی برگزیدہ حقیقت کو معاشرے میں واپس لانے کیلئے جاہلیت سے جگہ خالی کرانا پڑے گی اور سب سے پہلے یہ عمل ذہنوں کی دنیا میں ہو گا۔ معاشرے سے پہلے، ذہنوں کے اندر اِس کو موت کے گھاٹ اتارا جائے گا۔ اِس کو ’شدت‘آپ اُسی صورت میں قرار دیں گے جب ”توحید“ کے اسباق آپ نے انبیاءسے نہ پڑھے ہوں اور جب آپ اِس بات سے لا علم ہوں کہ ”اسلام“ نے اول اول معاشرے میں اپنے لئے راستہ کیونکر بنایا تھا۔

یہ ایک نہایت زبردست حقیقت ہے کہ وہی فرض جو کفر کے غلبہ اور جاہلیت کی شان و شوکت کے بالمقابل اہل اسلام پر عائد ہوتا ہے، یعنی جاہلیت کے خلاف نہایت تیز اور تیکھے لہجے سامنے لے کر آنا اور انہی لہجوں کو اپنے دعوتی اور تعلیمی عمل میں اہم ترین جگہ دے کر رکھنا.... اسلام کا یہی فرض اِس بات کی ضمانت بنتا ہے کہ اِس پر عملدرآمد کی صورت میں یہاں پر جاہلیت کے پیر اکھڑنے لگیں اور معاشرے کی سرزمین جاہلیت سے واگزار ہونے لگے.. اور اس کے نتیجے میں اسلامی ایجنڈا اور اسلامی قوتوں کے پیر معاشرے میں مضبوط ہوتے چلے جائیں۔

ہمارا مطلوبہ تعلیمی عمل جاہلیت کا فریم توڑنے کیلئے، نہ کہ اُسکے اندر فٹ ہونے کیلئے!!!

٭ چند کلمات یہاں اُس اپروچ کے حوالہ سے کہہ دیے جائیں جو یہاں کے جاہلی تعلیمی اداروں میں تو بڑے عرصے سے رائج رہی ہے، مگر رفتہ رفتہ اب دینی ادارے بھی اسی کو اختیار کرنے لگے ہیں۔ یہ ہے جاہلی نظام کے زیر سایہ اسلامی نظام“ کی تفصیلات کو زیر غور لانا۔ جاہلی سیٹ اپ کے اندر ”اسلامکی بعض جزئیات کو incorporate کرنا۔ جاہلی لبادہ کی خدمت میں کچھ اسلامی پیوند پیش کرنا اور اِس سے اِس پورے سیٹ اپ کو ”اسلامی“ کر دینے کی امید رکھنا۔

یہ ایک عمومی اپروچ ہے، مگر ”تعلیم“ کے میدان میں بھی اِسی پر عمل ہو رہا ہے....

اسلام کے معاشی، یا سیاسی یا تعلیمی نظام وغیرہ کو زیر مطالعہ لانا یقینا آج بھی موقوف نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ جس چیز کو ہم مسترد کر رہے ہیں وہ یہ کہ یہاں کے جاہلی فریم میں ہی اسلامی نظام کی کچھ جزئیات جڑ دینے کی اپروچ کے ساتھ شریعت کی کچھ تفصیلات کو ”تحقیق“ اور ”مطالعہ“ کے عمل سے گزارا جائے، بغیر اِس کے کہ اِس پورے فریم ہی کو رد کردینا یہاں کا اہم ترین موضوع بنا رکھا جائے۔

اسلامی نظام کو زیر بحث لانا ہمارے تعلیمی عمل میں ضرور آج بھی جاری رہنا چاہئے، مگر اِس تصور کے ساتھ نہیں کہ اِس سے ہم یہاں پر رائج جاہلی نظام کیلئے کچھ کارآمد پرزے حاصل کریں گے۔ جبکہ آج کے بیشتر دینی طبقے (جن کو ’مذہبی طبقے‘ کہنا شاید مناسب تر ہو) اسلامی شریعت کے تطبیقی پہلوؤں کی تدریس کو اِسی تصور کے ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔

اِسی خبط کے باعث جو یہاں کے بیشتر دینی طبقوں کے اپنے ہی رویوں کا پیدا کردہ ہے، یہاں کی فکری صورتحال آخری حد تک گڈ مڈ ہو چکی ہے۔ اِسی کا نتیجہ ہے کہ طاغوت کے منصب پر براجمان حکمران اپنی مثالیں کسی وقت عمر بن الخطابؓ تو کسی وقت عثمان بن عفانؓ تو کسی وقت عمر بن عبد العزیزؒ سے دینے لگتے ہیں اور اِس میں کوئی شرم محسوس تک نہیں کرتے۔ کوئی پوچھتاتک نہیں کہ تمہیں اُن سے کیا نسبت؟ تمہارے اِس نظام میں اور اُن کے اُس نظام میں تعلق ہی کیا ہے؟ یہ اِس نئے طرزِ مطالعہ کا ہی شاخسانہ ہے ، جس میں اسلامی مفہومات کو جاہلی فریم ورک کے اندر رکھ کر پڑھا جاتا ہے، کہ اتنی بڑی خلیج اب یہ بڑے آرام سے پاٹ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی وقت یہ ہارون الرشیدؒ، اور نور الدینؒ و صلاح الدینؒ ایسے حکمرانوں کی نسبت اپنا رشتہ ”کرسی“ کے ساتھ کچھ زیادہ ’شرعی‘ باور کراتے ہیں، کیونکہ (ایک اسلامی نظام کے تحت) وہ ’منتخبنہیں تھے جبکہ (ایک جاہلی نظام کے تحت) یہ ”منتخب“ ہو کر آئے ہیں! اِسی ذہنیت کے باعث یہاں ایک ایسا خلط پایا جاتا ہے کہ اجتماعی مسائل میں اسلام کے بے شمار مفہومات کہیں پر جاہلی مفہومات کے اندر مدغم کئے جا رہے ہوتے ہیں تو کہیں پر جاہلی مفہومات یکایک اسلامی مفہومات کے اندر جلوہ نما ہونے لگتے ہیں۔ اِس تکلیف دہ صورتحال پر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے، ویسے ویسے ”اسلام“ اور ”جاہلیت“ کو الگ الگ کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ اِس سے اب یہاں پر ایک ایسا ملغوبہ تیار کیا جا چکا ہے کہ اسلام کے نام پر جاہلیت کی جتنی خوراکیں چاہیں ذہنوں کے اندر اتارتے جائیں، نہ کسی کو تعجب ہو گا اور نہ کسی کو شکایت۔ بلکہ کثیر طبقے اِس کو اسلام کی قدر افزائی باور کریں گے!

اسلامی نظام“ کی اِن بحثوں کے دوران جو ’قومی صورتحال‘ کے پس منظر میں یہاں خاصی گرمجوشی کے ساتھ فرمائی جا رہی ہوتی ہیں، جو بات اذہان سے سب سے زیادہ اوجھل رہتی ہے، وہ یہی کہ ہم موحدین کو چیلنج کرنے کیلئے یہاں ایک ایسا جاہلی نظام ایستادہ ہے جس کو اساس سے ہٹایا جانا ہے۔ حالانکہ آج کے اسلامی مطالعہ نگاروں پر یہ حقیقت سب سے زیادہ واضح رہنی چاہئے تھی۔ شاید جاہلیت کا مقصود بھی یہی ہے کہ شریعت کو __ معاذ اللہ __ کچھ ”جزئیات“ پر ہی راضی کر لیا جائے! اتنی سی ’ڈیل‘ کیلئے، ظاہر ہے، اُس کے دوروازے ہر دم کھلے ہیں! کہ جانتی ہے، ’ڈیل‘ کا راستہ جدھر سے بھی جائے اُسی کے گھر پہنچتا ہے!

شریعت اللہ کی توفیق سے یہاں ضرور آئے گی، مگر جاہلیت کا یہ فریم توڑ کر نہ کہ اُس کے اندر فٹ ہو کر۔ تعلیم کی اسلامی جہتیں یہاں پر ضرور لائی جائیں گی، اور ممکنہ حد تک آج ہی لائی جائیں گی، مگر وہ جہتیں نہیں جو جاہلی نظامِ تعلیم میں 'incorporate' ہو سکیں، بلکہ وہ جہتیں جو اِس جاہلی نظامِ تعلیم کے محیط میں دراڑیں ڈال سکیں اور آج ہی ڈال سکیں نہ کہ اُس دن جب یہاں ’انقلاب‘ لایا جا چکا ہو گا!

چنانچہ اسلامی جزئیات کو جاہلی فریم کے اندر جڑ کر زیر مطالعہ لانے کی یہ اپروچ آج خاصی عام ہو چکی ہے، خصوصاً ’مذہبی‘ طبقوں کے ہاں۔ اِس کا اثر اب یہاں ہونے والی تالیفات و تصنیفات سے لے کر یہاں پڑھائے جانے والے تعلیمی نصابوں اور تحقیقی پروگراموں تک بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ حق یہ ہے کہ اِس سے مہلک تر کوئی چیز ہمارے نونہالوں کے حق میں نہ ہو گی۔ اِس موضوع پر ہم یہاں زیادہ تفصیل میں نہ جا سکیں گے۔ اِس پر ایک نہایت وقیع گفتگو شہید اسلام (نحسبہ کذٰلک)سید قطبؒ نے اپنی ”فی ظلالِ القرآن“، مقدمہ سورۃ الانعام کے اندر کر رکھی ہے۔ اِسی تحریر کے بیشتر حصے معمولی رد و بدل کے ساتھ ان کی کتاب ”معالم فی الطریق“ میں فصل دوئم ”منہج القرآن المکی“ کے اندر آگئے ہیں(10)۔ جو حضرات اِس مسئلہ کی تفصیل جاننا چاہیں، وہ وہیں سے رجو ع فرما سکتے ہیں۔ ان حضرات پر یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ ہم کوئی پہلے فرد نہیں جو یہاں کے تحریکی و تعلیمی عمل کو یہ سوچ دینے جا رہے ہیں؛ سید قطبؒ ایسے لوگ بھی اسلامی تحقیق کاروں کو یہی بات سمجھاتے گئے ہیں کہ وہ اِس ”سرابکا تعاقب کرنے سے خبردار رہیں۔

مختصر یہ کہ: جاہلیت کی پہچان اور جاہلیت کے ساتھ عداوت ہمارے تعلیمی عمل کا ایک نہایت اہم حصہ ہونا چاہیے، خصوصاً آج جب جاہلیت ہی ہمارے اِن ملکوں اورمعاشروں کے اَندر راج کر رہی ہے اور یہاں کے تعلیمی و تہذیبی رجحانات کے اندر بول رہی ہے۔ عقائدی، فکری، نظریاتی، اور تہذیبی میدانوں میں جاہلیت کا انکار کروانے اور جاہلیت کا ایک بنیادی، اصولی اور واقعاتی رد کرنے بلکہ اُس پر حملہ آور ہونے کا ایک پورا منہج یہاں کے تعلیمی عمل کا حصہ بنایا جانا ہے۔ پرائمری سطح پر اِس کو سادہ انداز میں لانا ہو گا، اور پھر جیسے جیسے تعلیمی سطح بلند ہوتی جائے ویسے ویسے ضروری ہو گا کہ اِس کے اندر علمی و فکری گہرائی آتی چلی جائے۔ یقین کیجئے، بیشتر انقلابی لہجے جو یہاں اب مفقود ہیں، نہایت زرودار انداز میں سامنے آنے لگیں گے۔ معاشرے میں جاہلیت کا راستہ تنگ ہونے لگے گا۔ اور نسلیں اپنی اسلامی اساس کے ساتھ جڑنے میں ایک خاص بصیرت کا مظاہرہ کرنے لگیں گی۔

بلا شبہ یہاں کے جاہلی تعلیمی اداروں میں اسلامی جذبوں سے بھرے نوجوانوں کا کردار حد سے زیادہ قابل ستائش ہے، جو یہاں پر فسق و فجور کے بعض مظاہر کے خلاف مزاحمت سامنے لانے کی کئی ایک ممکنہ صورتیں اختیار کرتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں اِسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جذبہ ابھی جوان ہے اور بلا شبہ اِس کو اور بھی مہمیز دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ”جاہلیت“ کے موضوع پر وہ مطلوبہ فکری گہرائی سامنے لے آئی جائے جو فی الوقت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ اِن نو جوانوں کی ایک نہایت بڑی ضرورت یہ ہے کہ جاہلیت کو ’فسق وفجور‘ سے وسیع تر سیاق میں لینے کا رجحان ہی پہلے اِن کے ہاں پرورش پائے، اور جاہلیت کے فکری و عقائدی پہلو تو خاص طور پر مسلم جذبات کی اِن ضربوں تلے لے آئے جائیں۔ نیز جاہلیت کو فکری و علمی میدانوں میں شکست دینے کے ہتھیاروں سے ہی امت کے اِن پڑھے لکھے نوجوانوں کو لیس کر دیا جائے۔ اِس کے نتیجے میں یقینی ہے کہ یہ ایک باقاعدہ نظریاتی جنگ میں بدل جائے۔ ایساہو جاتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے جاہلیت یہاں پر اپنی تمام تر قوت اور شوکت کے باوجود __ نظریاتی سطح پر __ پسپائی اختیار کرتی دیکھی جائے گی۔ (بفضلہ؛ تعالیٰ) اسلام کی نظریاتی قوت ایک ایسی چیز ہے کہ بیشتر لوگوں کو تا حال اِس کا اندازہ نہیں۔ اس کے اندر خدا نے کوئی ایسی چیز رکھ دی ہے کہ حالتِ مغلوبیت کے وقت تو اِس کی کچھ ایسی زوردار جہتیں سامنے آتی ہیں کہ یہ پورے ماحول کو دنگ کر دیتی ہے۔ اِس قوت کو سامنے لانے کا وقت آج ہی ہے، اور ”تعلیم“ سے بہتر اِس کے لئے کوئی میدان نہیں۔

٭٭٭٭٭

مستشرقین کی بد روح برابر بولتی ہے!

 

٭ دَر اصل جاہلیت کی یہ بہت بڑی چال ہے کہ ”اسلام“ کے حوالے سے یہاں پر کچھ دقیق علمی موضوعات پر تو کمال انداز کے ’مذاکرے‘ اور ’تحقیقات‘ ہوں البتہ اسلام کی پائمالی کے چیختے دھاڑتے مظاہر کمال صفائی کے ساتھ ’اوجھل‘ کروا رکھے جائیں! ”قتلِ حسینؓ“ کا کہیں ذکر نہیں مگر ”مچھر کے کفارہ“ پر تھیسس آنے چاہئیں! اسلام کے اساسیات اور اسلام کے وہ موٹے موٹے حلال و حرام جس سے ہر کس و ناکس واقف ہے، اُن کو تو پوری دیدہ دلیری کے ساتھ دیس نکالا دے رکھا جائے گویا یہ موٹے موٹے مسائل اور واضح واضح حدود تو اسلام میں ہیں ہی نہیں، یہاں تک کہ شرک اور توحید کا فرق ملیامیٹ کر دیا جائے.. البتہ کچھ تحقیق طلب‘ امور کیلئے اِس طرح بے چین ہو کر دکھایا جائے گویا ”شریعت“ کا سب معاملہ اِسی سبب سے رکا ہوا ہے! بلکہ اِس ’درد‘ کو عام کیا جائے کہ اسلام کے اصل مسائل تو ابھی بحث و تحقیق کے ضرورت مند ہیں، لہٰذا اسلام کے جتنے دردمند ہیں ان کو چاہئے سب کام دھندے چھوڑ کر اسلام کی ’تحقیقی ضرورتیں‘ پوری کرنے کی ہی کوئی سبیل نکالیں (اور ’بین السطور‘ : جاہلیت کو اکیلی اِس بات کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں کہ ’اسلامائزیشن‘ کا عمل کامیابی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہا!)۔ ظاہر ہے جب تک ’اسلامی تحقیق‘ کو جاہلیت کے فریم کے اندر اور اُسی کے سایۂ عاطفت میں رکھ کر پروان چڑھانے کی کوششیں ہوتی رہیں گی، تب تک یہ ’تحقیقی عمل‘ کسی کنارے لگنے والا نہیں؛ کیونکہ فی الواقع اِس کا کوئی کنارہ نہیں؛ بلکہ یہ آپ کو گھمانے پھرانے کا ہی ایک کامیاب بندوبست ہے۔ ہاں اِس میں ایک کے بعد ایک بھنور آتے رہیں گے اور ہر بھنور سے گزرتے ہوئے کامرانی achievement کا ایک پرفریب احساس ضرور آپ کا انعام ہو گا، جس کی بدولت آپ اِس کو ایک ’پیش قدمی‘ بھی جانیں گے!

نتیجہ یہ کہ یہاں کے ایک اچھے خاصے مخلص ذہین طبقے کو ’تحقیق‘ کی مصروفیت دے لی گئی ہے! اِس میں یہ جتنا وقت گزارنا چاہے گزار لے! اور ’باقی ماندہ‘ کام کیلئے عمر نوح کی تمنا کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہو! ہر مخلص ’ریسرچر‘ اِس جذبے کے ساتھ کام کرتا ہے (اور گو اسلام کے لئے اُس کا جذبہ اپنی جگہ لائق تحسین ہے) گویااُس کا یہ ’ورک‘ یہاں نہ جانے کون کونسی رکی ہوئی راہیں کھول دے گا!

یہ ہم مبالغہ نہیں کر رہے، آج سے بارہ پندرہ برس پہلے ہمیں ملک کی ایک معروف یونیورسٹی کے شعبہ علومِ اسلامیہ کے چیئرمین کے ساتھ ان کے دفتر میں ملنے کا اتفاق ہوا، تو اُن کو اِس بات کا شدید شکوہ کرتے ہوئے پایا کہ طالبعلم اپنے ریسرچ ورک کیلئے پرانے موضوعات کا ہی انتخاب کرتے ہیں جبکہ، ان کے بقول، ضرورت اِس بات کی ہے کہ وہ اپنی ریسرچ کے ذریعے اِس وقت کے قومی اور ملکی مسائل کا حل پیش کریں۔ یہ کہتے ہوئے بار بار پروفیسر صاحب کی زبان پر یہ شعر جاری ہونے لگتا:

ابن مریم ہوا کرے کوئی         میرے دکھ کی دوا کرے کوئی!

ایک باطل نظام کے اندر، جہاں اسلام کو امورِ مملکت سے اصولاً بے دخل کر رکھا گیا ہو بلکہ اسلام کو بے دخل رکھنے پر ہی اصرار ہو بلکہ ”جنگ“ ہی اس کو بے دخل کر رکھنے پر ہو.. باطل کے ایک ایسے فریم ورک کے اند رہتے ہوئے، اور باطل نظام کے اپنے پیدا کردہ مسائل کو سلجھانے کیلئے.. ”اسلام“ سے حل دریافت کرنے کی اپروچ! اور وہ بھی ایک ایسا حل جو نظامِ رائج میں کوئی بڑی تبدیلی کئے بغیر ہی نہ صرف ”قابل عمل“ ہو بلکہ وہ نظامِ رائج کو ”پسند“ بھی آ سکتا ہو!.... کیا اِس دکھ کی کوئی دوا ہے؟!!!

اور پھر جبکہ یہ ’دکھ‘ ”جزئیات“ سے باہر بھی نہیں جاتا!

غور کریں تو اِسلام کی تعلیم و مطالعہ کا یہ مظہر آپ کو اچھا خاصا ترقی کرتا ہوا دکھائی دے گا، خصوصاً ’ہائر ایجوکیشن‘ کی سطح پر۔ جس کی نقل کرنے کی آوازیں اب ’دینی مدارس‘ میں بھی پڑنے لگی ہیں، تاکہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل بھی اُس ’نظر‘ سے محروم نہ رہ جائیں جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے گریجو ایٹوں نے بڑے عرصے سے پیدا کر رکھی ہے!

بلا شبہ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ اسلامی ریسرچ نہیں ہونی چاہیے۔ مگر وہ اپروچ جو اِس کے پیچھے بالعموم کارفرما ہوتی ہے یقینا بدل جانی چاہیے۔ محض یہی تصور کر لیجئے، کہ ایک کیپٹل اسٹ نظامِ تعلیم میں کچھ ہونہار کمیونسٹ طالبعلموں کو اپنی ریسرچ کے جوہر سامنے لانے کا موقعہ ملے تو کچھ ہی دیر میں کس قسم کے تھیسس سامنے آنے لگیں گے اور ان کی ”ریسرچ“ وہاں پر کیونکر کیپٹل ازم کی چولیں ہلانے لگے گی؟ ہمارے نوجوان آخر وہ جہتیں کیوں اختیار نہیں کر سکتے جو یہاں جاہلیت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں اور اس کے بالمقابل ”اسلام“ کے rationale کو اظہر من الشمس کر دیں؟

اسلام کا وہ rationale جو جاہلیت کو بنیاد سے ختم کرکے یہاں پر ایک صالح زندگی کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔

کم از کم یہ تو طے ہو کہ یہاں دو نظریوں کی جنگ ہے اور ایک نظریہ دوسرے کے اندر فٹ ہونے کیلئے نہیں ہے....!!!!!!! تاکہ لوگ اِس سعی لا حاصل سے تو سب سے پہلے خلاصی پائیں! اسلام کی بابت ایک انتہائی گمراہ کن تصور سے تو باہر نکل آئیں! اس کے بعد ہی یہ ہو سکے گا کہ وہ اپنی اپنی ہمت کے بقدر ایک بامقصد سعی کا بھی رخ کرنے لگیں!

ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہمارے حوصلہ مند باصلاحیت نوجوانوں کو اِس نظامِ تعلیم سے باہر آ جانا چاہئے۔ یہ آپشن تو ہمارے ’مذہبی‘ طبقے نے بڑی دیر سے آزما رکھا ہے اور جو کہ بے حد آسان ہے مگر یہاں پر ہماری شکست کا ایک یقینی نسخہ ثابت ہوا ہے۔ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ ”قصر پرویز“ میں جائیں مگر ساتھ ”تیشۂ فرہاد“ کا بندوبست کر کے جائیں۔ ”خالی ہاتھ“ جانااور پھر ڈھیروں ”بیگار“ دے کر لوٹنا البتہ گھاٹے کا سودا ہے۔

یہ ”تیشۂ فرہاد“ جس کا اِس بار ہمیں بندوبست کرنا ہے، خود ہمارے ”عقیدہ“ ہی کے اندر پڑا ہے بشرطیکہ اِس کو پڑھنے پڑھانے کا ایک درست منہج سامنے لے آیا جائے۔ حق یہ ہے کہ باطل اور شرک کے بالمقابل یہ تیشہ“ اپنے اِس ”عقیدۂ سلف“ سے خود بخود نکل آتا ہے، محض اِس کی تعلیم اور ترسیخ کا ایک منہج متعارف کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اِس کام کو اتنا مشکل نہیں سمجھتے، محض ”عقیدہ“ کی اصیل اپروچ ذہنوں کے اندر بٹھانے پر محنت کرنا ہو گی۔ پھر یہی ادارے ان شاءاللہ یہاں پر کسی اور قسم کی کشمکش کا میدان بنیں گے۔ ابھی کسی بڑی سطح پر ہمیں اپنے ادارے بنانے کی کیا ضرورت ہے؟!یہ ادارے ہمارے لئے ہی تو ہیں!

٭٭٭٭٭

اسلامی نظر“ کا فقدان

 

وہ اصل چیلنج، جس پر ہمارے نوجوان کی ڈھیروں محنت ہو گی

٭ انسانی عقل و نشاط سے معاشرے کو جو ثمرات حاصل ہوتے ہیں وہ اسلام کی نگاہ میں نہایت قابل قدر ہیں۔ یہاں تک کہ جاہلیت کے زیر انتظام انسانی فکر و نشاط کا جو جوہر سامنے آیا، وہ بھی سب کا سب ایسا نہیں کہ رد کر دیا جائے۔ انسانی فکر و نشاط کے پیدا کردہ جوہر سے ہماری مراد محض ’ٹیکنالوجی‘ نہیں (جس کیلئے ہمارے ’مذہبی‘ طبقوں نے اب جا کر کچھ وسیع الصدری پیدا کر لی ہے!) بلکہ اِس میں علم و تحقیق اور فکر و ادب کے بے شمار میدان آتے ہیں جن میں آپ کے دور کے انسان نے کوئی چیز تخلیق کی ہو، اور جس میں سب برا نہیں بلکہ بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جس کو اسلام نہ صرف سراہتا ہے بلکہ اپنے زیر استعمال بھی لاتا ہے۔ چنانچہ یہاں سے اِس مسئلہ کی کچھ ایسی جہتیں سامنے آتی ہیں جو ہمارے اُن مذہبی طبقوں سے اوجھل ہیں جو ’فرنگی دنیا‘ سے آنے والی ہر چیز کے ساتھ ایک سا معاملہ کرنا ضروری جانتے ہیں! یہ معاملہ اتنا سادہ ہوتا تو ہمارے جمود پسند مذہبی طبقوں کی وہ بے تحاشا سرد مہری اور منفیت جو اِس تعلیمی و تہذیبی عمل کے بالمقابل برتی گئی، ہمیں کب کا سرخرو کر چکی ہوتی!

خوب اشیاءکو پیدا کرنے کی صلاحیت انسان کے اندر خدا کی جانب سے بے حد و حساب ودیعت کی گئی ہے۔ یہ خدا داد صلاحیت اُس وقت بھی پوری طرح معطل نہیں ہو جاتی جب اِس انسان کو جاہلیت چلا رہی ہوتی ہے۔ انسانی منفعت کا بہت سا سامان جاہلی تسلط کے دور میں بھی برابر سامنے آ رہا ہوتا ہے۔ انسانی فکر و عمل کی بہت سی صلاحیتیں جاہلیت کے زیر سایہ بھی بہرحال پرورش پا رہی ہوتی ہیں۔ خود رسول اللہ ﷺ ہمیں اِس چیز کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ جاہلیت کے اندر جو انسانی ہیرے ترش کر سامنے آئیں وہ اسلام کے اندر بھی بہت کام کے ثابت ہوں گے۔ فرمایا:

تَجِدٔونَ النَّاسَ مَعَادِنَ، فَخِیَارُہُم ´ فِی الجَاہِلِیَّۃ خِیَارُہُم فِی الاِسلَامِ، اِذَا فَقُہُوا“ (البخاری: 3304، مسلم: 6615، واللفظ لمسلم)

تم، لوگوں کو دھاتوں (کی مانند) پاؤ گے۔ چنانچہ اُن میں سے جاہلیت میں جو چنیدہ ترین ہوں گے وہی اسلام کے اندر بھی چنیدہ ترین (ثابت) ہوں گے، بشرطیکہ اسلام کی حقیقت کے اندر گہرے چلے گئے ہوں“۔

چنانچہ جاہلیت“ کو ہمیں محض ”رد“ ہی نہیں کرنا۔ اس کے ہاتھ سے وہ ہیرے بھی چھیننے ہیں جو اس نے انسانی سرمائے کو کام میں لا کر بے حد و حساب حاصل کر رکھے ہیں۔ یہ ”ہیرے“ انسانوں کی صورت میں بھی ہیں، انسانی صلاحیتوں کی صورت میں بھی اور انسانی فکر و نشاط سے پیدا ہونے والے علمی، فکری اور سماجی نتائج کی صورت میں بھی۔ جن کو کھنگالنا اور دھونا مانجھنا ہی ایک جاہلی ماحول کے اندر اسلام کے تعلیمی و تربیتی عمل کا اصل ہدف ہوا کرتا ہے۔ اِسی وجہ سے فرمایا: اِذا فقہوا یعنی جب اس کے اندر اسلامی نظر پیدا کر دی جائے۔ چنانچہ اسلام کا تعلیمی وتربیتی عمل ایک چھلنی کی حیثیت رکھتا ہے اور اِس چھلنی کو نہایت مؤثر و مستعد حالت میں رکھا جانا ہوتا ہے، جس سے کام لے کر جاہلی اداروں کی بہت سی محنت کو اور اس کے پیدا کردہ بہت سے انسانی سرمائے کو اسلام کے قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔ ”دعوت“ اِس انسانی سرمائے کو کھینچ کر لاتی ہے اور پھر ”تعلیم و تربیت“ اِس کیلئے ”چھلنی“ اور ”پراسیسر“‘ کا کام دیتی ہے۔ یوں، یہ سرمایہ کندن بنتا چلا جاتا ہے۔ (جبکہ اِس وقت ہمارا دعوتی عمل“ بھی قریب قریب معطل ہے اور ”تعلیمی و تربیتی عمل“ بھی)۔ انسان کے فکری و سماجی قویٰ کسی دور میں اپنی سرگرمی کے جو بہترین جوہر دکھا رہے ہوں، انہی کو اپنے ڈھب پر لے آنا ”اسلامی تبدیلی“ کیلئے اصل چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، نہ کہ انسان کے فکری و سماجی قویٰ کو پیدا کرنے بیٹھ جانا، خصوصاً ایک ایسے ماحول میں جس کو جاہلیت چلا رہی ہے۔ چنانچہ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ”تعلیم“ اِس ”تبدیلی“ کا کیسا زبردست آلہ ہے جو کہ آخری حد تک ہمارے ہاں معطل ہوا پڑا ہے۔

آپ غور فرمائیں تو ”تعلیم“ سے جو مراد اب یہاں سامنے آتی ہے وہ ایک خاص مفہوم ہے، جو کہ محولہ بالا حدیث میں اِذَا فَقُہُوا“ کے الفاظ سے تعبیر ہوا ہے۔ یہ وہ ”تعلیم“ ہے جو جاہلیت ہی کے اندر صلاحیتیں نکھار کر سامنے آنے والے انسانی سرمائے کو ”حقیقتِ اسلام“ سے آراستہ کرنے اور ”اسلامی حقیقت“ کے اندر گہرا اتارنے کی صورت میں رو بہ عمل لائی جاتی ہے۔ جاہلی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے انسانی جوہر کو ہی ایک ایسے عمل سے گزارا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے فکری و تہذیبی عمل کو روپزیر کرانے کا ذریعہ بنتا ہے اور سماج میں اسلام کی پیش قدمی کیلئے ایک نہایت مؤثر بنیاد فراہم کرتا ہے۔ جاہلیت کا رَد دراصل وہ لوگ کریں گے جو جاہلیت کی رمزوں کو جانیں۔ یہ چیز بدرجۂ اتم اُس طبقے کے ذریعے سے حاصل کی جاتی ہے جو جاہلیت کے اپنے ہی پراسیس سے نکل کر آیا ہو اور پھر اسلام کی حقیقت کو اپنے اندر گہرا اتارنے میں کامیاب ہو چکا ہو۔ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ ہر جاہلیت کے مقابلے میں اُسی جاہلیت میں survive کرنے کی قابلیت رکھنے والا انسان کام دے گا بشرطیکہ وہ اسلام کا کیس سمجھ چکا ہو اور اس کو دل سے گلے لگا چکا ہو۔ ہماری یہ بات جسارت پر محمول نہ ہو تو.. روایتی ”مذہبی طبقہ“ یہاں کے ماحول میں ”آؤٹ سائڈر“ ہے جو کبھی بھی اِس پر ”اثر اندازنہیں ہو سکتا(11)۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ (12) ”ہم نے نہیں کوئی رسول بھیجا، مگر اُس کو اُس کی اپنی ہی قوم کی زبان دے کر“۔ حقیقت یہ ہے کہ ”زبان“ ایک نہایت وسیع مفہوم رکھتی ہے جس کے اندر کسی دور اور معاشرے میں پائی جانے والی بے شمار فکری اور سماجی جہتیں بول رہی ہوتی ہیں، جبکہ اُس دور اور اُس معاشرے پر ”اثر انداز“ ہونے والے کو اُن سب پر دسترس حاصل کرنا ہوتی ہے۔ یہ عمل ایک معاشرے کے فکری و سماجی منجدھار میں رہ کر ہوتا ہے نہ کہ اُس سے باہر آ کر۔ اِس کے بغیر اسلام“ کی حقیقت بھی اُس ماحول پر واضح نہیں ہو سکتی۔ خدا کا مطالبہ اور تقاضا جو اُس خاص ماحول میں اُس وقت کے انسان سے ہوتا ہے وہ بھی اُس پر واضح نہیں کیا جا سکتا۔ (لِيُبَيِّنَ لَهُمْ)۔(13) ایسا داعی ”اسلام“ کی بابت غلط فہمیاں زیادہ پیدا کرے گا اور ”اسلام“ کی بابت clarity کم لے کر آئے گا، یہ بھی تب جب خود اُس کو وہ clarity حاصل ہو، جو کہ اپنے زمانے کو نہ جاننے کے باعث داعی کو خود ”اسلام“ کی بابت نہیں ہوتی۔

اسلامی حقیقت“ ایک عجب حقیقت ہے۔ یہ انسان پر اُسی قدر آشکار ہوتی ہے جس قدر اُس کی اپنی دنیا اُس پر آشکار ہو۔ اُس کی اپنی دنیا کے جو حصے اُس پر اوجھل ہوں گے اُن کے حوالے سے ”اسلامی حقیقت“ بھی اُس پر اوجھل رہے گی۔ کیونکہ یہ انسانی دنیا کو ہی روشن کرنے آئی ہے؛ اُس کا جو حصہ آپ کے سامنے ہو گا اِس سے روشن ہو جائے گا؛ جو حصہ سامنے نہیں ہو گا تاریک رہے گا۔ ”اسلامی حقیقت“ کا یہ پہلو جو آپ کے اپنے دور اور زمانے سے واقف ہونے کے ساتھ متعلق ہے، نہایت اہم ہے۔ اِس کا یہ پہلو اگر روپوش رہتا ہے تو پھر یہ ”حفظ“ کی کوئی چیز ہے نہ کہ ”تبدیلی“ و ”تاثیر“ کا کوئی نسخہ!

انسان جتنا اپنی دنیا سے ناواقف ہوتا ہے اتنے ہی اُس کے اور قرآن کے مابین پردے حائل رہتے ہیں! جیسے جیسے وہ اپنی دنیا سے واقف ہوتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے قرآن اُس پر اپنے حقائق منکشف کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ دو آمنے سامنے کے صفحات ہیں اور ایک دوسرے کے 'referrence' سے ہی درست طور پر سمجھ آتے ہیں!

٭ پس ایک جاہلی ماحول میں ”اپنے“ ادارے کھڑے کرنا اسلامی تحریکی عمل کا اصل ہدف نہیں ہو گا۔ بلکہ جاہلی اداروں میں گھس کر اُس انسانی سرمائے کو جس پر جاہلیت کی ڈھیروں محنت ہوئی ہے ”جاہلیت“ سے برگشتہ کرنا اور ”اسلام“ کے ڈھب پر لانا ہوتا ہے۔ اِس مرحلہ میں ”تعلیم“ کی ایک بہت بڑی جہت تو درحقیقت یہی ہے۔

٭جبکہ ہمارے ہاں اِس وقت جو ”اسلامی ادارے“ بن رہے ہیں، ان کا حال یہ ہے کہ یہ اُس اسلامی سرمائے کی ”پراسیسنگ“ کر رہے ہوتے ہیں جس کی کھپت آگے چل کر جاہلیت کے ہاں ہونے والی ہے! اِس کا نام بالعموم اسلامک ایجوکیشن“ اور ”اسلامی نصاب سازی“ ہے، اور اِس کیلئے اِس وقت دھڑا دھڑ ادارے کھل رہے ہیں جبکہ کون نہیں جانتا کہ اِن چھوٹے چھوٹے ندی نالوں کو کونسے ”دریا“ میں اور پھر ان دریاؤں کو کونسے ”سمندر“ میں جا کر گرنا ہے!)

٭ چنانچہ ”جاہلیت کا رد“ اپنی جگہ ضروری ہے، مگر دراصل یہاں وہ ”نظر“ درکار ہے جو ایک جاہلی ماحول میں سامنے آنے والے انسانی نشاط کے خبیث و طیب کے مابین ایک دقیق تمیز کر سکے۔ انسانی ذہن کے اچھے ثمرات کو نہ صرف لے سکے بلکہ اُن کو باقاعدہ اپنے کام میں لانے کا سلیقہ اور اُن کو اپنے ڈھب پر لے آنے کا شعور رکھے، جبکہ اُس کے برے ثمرات کو پوری قوت کے ساتھ دفع کرنے کی اہلیت سے بھی بہرہ ور ہو۔ بے شک اِس چیز کی بدرجۂ اتم ضرورت آپ کو اُس وقت پڑے گی جب معاشرے کی زمامِ کار آپ کے اپنے ہاتھ میں ہو گی اور اس کی باقاعدہ تعمیر کا مرحلہ درپیش ہو گا، کیونکہ تب بہت سی جاہلیتوں کا ملبہ آپ کے کام آ رہا ہو گا۔ مگر یہ اپروچ آپ کو آج ہی حاصل کرنا ہو گی۔ یہ بصیرت لازم ہے کہ اِس عمل کی عین اساس ہی میں پڑی ہو۔ اِس کی ضرورت ویسے اِب بھی کچھ کم نہیں۔

پس یہ ”نظر“ آپ کو اپنے نوجوان میں آج ہی پیدا کرنی ہے۔ محض ’مغرب کی تہذیب‘ کی مذمت پر گفتگو کی قدرت حاصل کر رکھنا.. محض فسق و فجور کے خلاف سرگرم عمل ہونا.. محض نیکی کے کچھ اعمال کرنا اور کروانا.... وہ کل کردار نہیں جو ہمیں اپنے نوجوان کے اندر پیدا کرنا ہے۔ بے شک یہ تہذیب ایک جاہلی تہذیب ہے، مگر اِس کے مقابل ہمارے نوجوان کے پاس محض ’برأت نامے‘ ہی پائے جائیں اور وہ اِس کے خلاف دھواں دھار تقریریں ہی کر سکتا ہو.. یہ بھی بند ذہنی اور جمود ہی کی ایک صورت ہو گی اگرچہ وہ کتنا ہی سمجھے کہ وہ تو ’مغربی تہذیب‘ کا رد کرتا پھر رہا ہے۔ مغربی تہذیب کا ’رد‘ کرنا کوئی علمیت نہیں۔ مغربی تہذیب کا محاکمہ“ کرنا اصل علمی اپروچ ہے۔ اِس کیلئے ”نظر“ مطلوب ہے۔ انسانی نشاط کے خبیث و طیب کے مابین تمیز کی قدرت درکار ہے، چاہے وہ انسانی نشاط جاہلیت ہی کے زیر سرپرستی کیوں نہ عمل میں آیا ہو، کیونکہ انسان میں خوب اشیاءکو پیدا کرنے کی صلاحیت کسی بھی وقت معطل نہیں ہوتی، جبکہ خوب اشیاءکو رد کرنا یا خوب اشیاءکو دیکھ ہی نہ پانا ”اسلامی نظر“ کے منافی ہے۔ محض اِس وجہ سے کہ کچھ خوب اشیاءایک ناخوب تہذیب کے دامن میں دیکھی جا رہی ہیں، ان کو حساب سے خارج نہیں کر دیا جاتا۔ ”اسلامی نظر“ اِس سے کہیں بڑھ کر دلیر اور حوصلہ مند ہوتی ہے۔ دوسری طرف، کسی تہذیب میں خوب اشیاءکو پا کر اُس کے کفر اور شرک سے آدمی کی نظر ہٹ جانا اور رب العالمین کے ساتھ اُس کا جو باغیانہ تعامل ہے اُس کا پس منظر میں چلا جانا، یہ بھی ”اسلامی نظر“ کے منافی ہے۔ البتہ اِن دونوں پر بیک وقت آدمی کی نظر ہونا، دونوں کا بیک وقت سامنے رہنا، اور اِن ہر دو کے ساتھ عین وہ تعامل کرنا جو کہ ہر دو کا حق ہے اور جو کہ مومن کے شایانِ شان ہے، ”اسلامی نظر“ رکھنا در اصل یہ ہے۔

مومن ہی زمین پر تہذیب کا اصل معمار ہے۔ اوپر جو چیز بیان ہوئی.. اس کو یہ نظر“ حاصل نہیں تو یہ تہذیب کی تعمیر کر ہی نہیں سکتا۔ اِس کا تو کسی تہذیب کو گرانا بھی در حقیقت کسی صالح تہذیب کے قیام کیلئے ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے آدمی کا کسی تہذیب کو گرانا جو دراصل کسی اور تہذیب کو کھڑا کرنے کی قدرت رکھتا ہو ایک نہایت مختلف اور اعلیٰ اپروچ کا متقاضی ہوتا ہے، بہ نسبت اُس ’دھواں دھار‘ اپروچ کے جو ہمارے بہت سے دینی طبقوں کے ’مغربی تہذیب‘ پر برسنے کے دوران ملاحظہ کی جا سکتی ہے اور جس کو دیکھ کر لگتا ہے یہ ایک ’مزدور‘ ہے جس کو کہیں سے پتہ چل گیا ہے کہ اِس ’دیوار‘ کو گرانا ہے نہ کہ وہ ماہر تعمیرات جو اِس کے سب ما لہ و ما علیہ سے واقف ہوتا ہے۔

 

میدان سامنے ہے!

 

٭ تعلیم“ کی یہ جہت ہم پر واضح ہو جاتی ہے تو یہاں کے جاہلی ادارے اپنی اِسی موجودہ حالت میں ہمارے لئے عمل کا ایک بہت بڑا میدان سامنے لے کر آتے ہیں۔ بطورِ اسلامی تحریک، تب ہمارا کام اتنا مشکل بھی نہیں رہ جاتا جتنا کہ سمجھا جاتا ہے۔ جاہلیت کے زیر سایہ، علوم کی مکمل اسلامائزیشن نہ تو آج ممکن ہے اور نہ ابھی اس کا مرحلہ ہے۔ اِس پر ابھی ہمیں پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہاں ہمیں ایک ایسا ”تعلیمی عمل“ سامنے لانا ہو گا کہ ہماری مسلم نسلوں کو جس جس مرحلے پر جاہلیت کے جن جن مفہومات اور تصورات سے واسطہ پڑتا ہے اُن اُن مفہومات و تصورات کی بابت ان کو ”عقیدہ“ کی روشنی فراہم کی جاتی رہے اور اُس کے فاسد پہلوؤں کے بالمقابل ”عقیدہ“ کے ہتھیاروں سے اُن کو مسلح کیا جاتا رہے۔ کچھ چیزیں ہر ہر تعلیمی مرحلے کی مناسبت سے عمومی تعلیم و تعلم کیلئے سامنے لائی جائیں گی۔ اور کچھ چیزیں ہر ہر شعبے کو سامنے رکھتے ہوئے خاص اُس شعبے کی ضرورتوں کے مطابق دی جائیں گی۔ ابھی جو ہدف ہمیں درپیش ہے وہ ایک اسلامی سیٹ اپ کھڑا کرنے سے بڑھ کر ایک جاہلی سیٹ اپ کو فکری، نظریاتی، عقائدی اور تہذیبی سطحوں پر دیوالیہ کرنا ہے اور اس کے بالمقابل اپنے بچوں اور جوانوں کو ایک نہایت اعلیٰ قسم کی فکری و نظریاتی برتری سے لیس کرنا ہے۔ نیز اِس جاہلی سیٹ اپ کے مقابل جو ہم پر دو صدی سے مسلط کر رکھا گیا ہے، اپنے تاریخی اسلامی سیٹ اپ کی بحالی کی اصولی ضرورتوں اور جہتوں کو نمایاں کرنا ہے (بغیر اِس کے کہ اِس کی تفصیلی جہتوں کو فی الحال طالبعلموں کا موضوع بننے دیا جائے)۔ علوم کی مکمل اسلامائزیشن کی نوبت اسلامی سیٹ اپ قائم کرنے کے وقت ہی آئے گی نہ کہ جاہلی سیٹ اپ کو بے جان کرنے کے اِس مرحلہ پر۔ جو چیز اِس وقت پائی جاتی ہے اور ہٹائے جانے کے قابل ہے، یعنی جاہلی نظامِ حیات، اُس کی بابت اگر ایک گہری اسلامی نظر پیدا کرا دی جاتی ہے تو اِس وقت کا ایک بہت بڑا محاذ سر ہو جاتا ہے۔ البتہ جو چیز اِس وقت نہیں اور اُس کو قائم کرایا جانا ہے، یعنی ”اسلامی نظام، اُس کی ”تفصیلات“ کو موضوع بنانا آج ہماری ضرورت نہیں۔ حالیہ مرحلہ میں اُس کی بابت ایک اجمالی آگاہی پیدا کرنا ہی اور اس کے اصول و مبادی پر طالبعلموں کی گرفت مضبوط سے مضبوط کروا دینا ہی ایک عملی اور صائب طریق کار ہو سکتا ہے۔ لہٰذا فی الوقت اِن طبعی و سماجی علوم کو ایک خاص حد تک ہی اور خاص تحریکی اسلوب کے ساتھ ہی ”اسلامائز“ کیا جائے گا۔ حالیہ صورتحال میں، کہ جب تک جاہلیت یہاں برسر اقتدار ہے، باطل کا ایک ایسا علمی و فکری و عقائدی رد نہایت کافی ہے جس سے ہر ہر طالبعلم اپنے اپنے فیلڈ میں جاہلیت کو نہ صرف پہچان سکے بلکہ نظریاتی طور پر اس کا سر کچل دینے کی صلاحیت سے لیس ہو، جبکہ وہ اپنے اُس شعبہ میں اپلائی ہونے والے اسلامی اصول و مبادی سے بھی اجمالی حد تک بہرہ ور کروا دیا گیا ہو۔ اِس سے وہ مقصد حاصل ہونے لگے گا جو جاہلیت کے خلاف ایک ہمہ گیر صف آرائی کے سلسلہ میں اور اسلامی حیات کی بحالی کی جانب بڑھنے کے سلسلہ میں یہاں پر مطلوب ہے۔

ہم یقینا اُس تصور سے غافل نہیں جو ایک ”جامع تعلیمی نظام“ سے متعلق ہے اور جس پر ہمارے بہت سے مخلص لوگوں، بشمول امام ابو الاعلیٰ مودودیؒ، نے قلم اٹھایا ہے۔ لیکن ہم حقیقت پسندی کو تخیلاتی طرزِ تفکیر پر ترجیح دیں گے۔ ہم اپنے اِن الفاظ پر معذرت خواہ ہیں، مگر بھینس کے آگے بین بجانا ہمارے نزدیک کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں۔ اور بلا شبہ بھینس کے آگے ہی اب تک بین بجائی گئی ہے۔ ورنہ یہ گلہ ہی کیوں ہو کہ ساٹھ سال سے بات ”سنی“ نہیں گئی اور اِس وجہ سے اب تک ”کچھ“ نہیں ہو سکا!؟ جن برسر اقتدار طبقوں کے سامنے یہ خوبصورت ”وژن“ رکھے گئے ہیں ہم اُن کے ساتھ توقعات باندھنے کو ہی صائب طریق نہیں مانتے۔ یہ طریق، عملی بھی ہرگز نہیں۔ ”کام“ وہی جو بطور ایک اسلامی تحریک آپ خود کریں گے چاہے وہ کام بہت چھوٹا کیوں نہ ہو۔ ”وژن“ وہی جسے، بطور ایک تبدیلی کی داعی تحریک، آپ خود عملی جامہ پہنائیں گے چاہے اُس وژن کی بابت یہ کیوں نہ کہا جاتا ہو کہ یہ ایک ”جامع تعلیمی نظام“ کا وژن تو نہیں۔ ہمیں تو اِس پر حیرانی ہے کہ جاہلی اقتدار کے ہوتے ہوئے ایک ”جامع تعلیمی نظام“ کا سوال یہاں اٹھنے ہی کیوں لگ گیا ہے۔ ایک ”جامع تعلیمی نظام“ کی نوبت تبھی آ سکتی ہے جب آپ اپنی مرضی کا معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ جبکہ ابھی آپ کو اُس نظام کے پیچ ڈھیلے کرنے ہیں جو آپ کی مرضی کا نہیں ہے۔ ابھی پہلے جاہلیت کے ساتھ جو کہ یہاں سر چڑھ کر بول رہی ہے، آپ کو علمی، فکری اور نظریاتی میدانوں میں ایک مڈ بھیڑ کرنی ہے۔ ایک ”جامع تعلیمی نظامکی پروپوزل ابھی آپ لے بھی آئیں، سوال یہی ہوگا کہ آپ وہ پیش کس کو کر رہے ہیں؟ ہم نہایت زور اور شدت کے ساتھ جس بات کی دعوت دینے جا رہے ہیں وہ یہی کہ: عمل کے میدان میں اسلامی تحریکوں کا اترنا بے حد ضروری ہے اور آج ہی ضروری ہے، البتہ ”سرکار“ کو منصوبے اور سفارشات پیش کرنے کی اپروچ کے ساتھ نہیں۔ اُن ”با اختیار“ طبقوں کی خدمت میں جو یہاں جاہلی نظاموں کو چلانے کیلئے رکھے گئے ہیں اور اس کے سوا ان کا یہاں کوئی مصرف نہیں، اسلامائزیشن سے متعلقہ ”اسٹڈیز“ پیش کرنے کا طریق کار ’دل کو خوش رکھنے‘ کی ایک صورت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ عملی سطح پر اُسی چیز کی پروپوزل سامنے لائیے جس کی بابت یہ طے ہو کہ اِس کو کرنے کون جا رہا ہے۔ اب بھی اگر آپ اِسی غلط فہمی میں رہنا چاہتے ہیں کہ اِس نظام کی خدمت میں آپ کو ”تجاویز“ اور ”سفارشات“ پیش کرنی ہیں اور پھر ان کے رو بہ عمل آنے کا ”انتظار“ کرنا ہے، جس کے دوران اِس کو اُن ”تجاویز و سفارشات“ پر عمل درآمد نہ کرنے پر کوسنے سنانا ہیں، یا پھر مزید ”پروپوزلز“ اور ”اسٹڈیز“ پیش کرتے چلے جانا ہے.. اور بہت سے برس اور عشرے آپ کو ابھی اور یہی گلہ و گریہ کرتے ہوئے گزارنا ہیں.... تو ضرور اسلام کی یہ ’خدمت‘ جاری رکھئے! البتہ اگر صحیح سمت میں چلنے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو آپ کا پہلا قدم یہی ہو گا کہ آپ __ بطور ایک اسلامی تحریک __ اُس عمل کا تعین کریں جو یہاں خود آپ کو انجام دینا ہے، جبکہ وہ عمل اپنی افتاد میں یہاں جاہلیت کے پیر اکھاڑنے والا ہو نہ کہ جاہلیت کا پانی بھرنے والا۔ وہ عمل یہاں کی فکری و سماجی زمین کو جاہلیت سے واگزار کرا کے دینے والا ہو، جس پر آپ جاہلیت کے ساتھ اپنی اِس جنگ میں پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں، نہ کہ آپ کو اور آپ کی نسلوں کو جاہلیت کی دلدل میں دھنسانے والا عمل۔

یہ جملہ کہ: ”دراصل ہمارے حکمران طبقے اسلام کیلئے مخلص نہیں، لہٰذا ساٹھ برس گزر جانے کے باوجود انہوں نے اسلام اور اسلام کے تعلیمی نظام کیلئے کچھ نہیں کیا“.... یہ جملہ خدا را اب ہماری لغت سے خارج ہو جانا چاہئے۔ ابھی چند برس میں یہ ”ساٹھ“ کا ہندسہ ”ستر“ سے بدل جائے گا اور پھر کچھ ہی دیر بعد آپ ”صدی“ کا لفظ بولنا شروع کر دیں گے، مگر باقی کا جملہ جوں کا توں رہے گا۔ کیا ہمیشہ ہمیشہ تک آپ یہ جملہ اسی گرمجوشی کے ساتھ بولتے چلے جائیں گے؟! ”شکوہ“ اور ”انتظار“ کی اِس مہلک اپروچ نے خود آپ کا جس قدر نقصان کر دیا ہے، ذرا اپنے آگے اور پیچھے نگاہ دوڑا کر دیکھئے تو آپ کو اندازہ ہو وہ کیسا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ یہ انتظار“ کی اپروچ اختیار کر رکھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ شاید آج ہم ”چلنا“ تک بھولنے لگے ہیں! حضرات کیا یہ تعجب کی بات نہیں: ایک طرف ”انقلاب“ کی دعوت، اور دوسری طرف رائج نظام سے ”مطالبات“ اور ”توقعات“!!! بلکہ رائج نظام کے ہاتھوں ’درست‘ اور ’بنیادی ترین‘ اقدامات کا ”انتظار“!!! اور ایسا نہ ہونے پر باقاعدہ ”گلے اور شکوے“!!!

ٹیپ کا یہ مصرعہ کہ: ’ساٹھ سالوں میں حکمران طبقوں نے ”اسلامی تعلیم“ کیلئے کچھ نہیں کیا‘.... کب تک دہرایا جاتا رہے گا؟ اور کب تک اِس اصل سوال کو سامنے لانے سے پہلو تہی برت رکھی جائے گی کہ: ”ان ساٹھ سالوں میں اسلامی قیادتوں نے امت کی اِس بنیادی ترین ضرورت کے سلسلہ میں کیا کیا ہے اور یہ کہ آنے والے سالوں میں وہ امت کو دینے کیلئے کیا پروگرام اپنے پاس رکھتی ہیں“؟

٭٭٭٭٭

مذکورہ بالا توضیحات کی روشنی میں:

 

1) اصل چیلنج ایک ”جامع تعلیمی نظام“ کو وضع کرنا نہیں۔ کیونکہ اِس کی نوبت تب آتی ہے جب زمامِ کار آپ کے اپنے ہاتھ میں ہو گی۔ رہ گیا بر سر اقتدار طبقوں سے یہ توقع رکھنا کہ آپ کے اسلامی وژن کو وہ رو بہ عمل لے آئیں گے، اِس کو تو سادگی کی کوئی آخری قسم کہنا چاہئے۔

2) یہ ممکن نہیں کہ اِس وقت آپ کوئی متوازی نظامِ تعلیم سامنے لے کر آئیں۔ کم از کسی بڑی سطح پر یہ ممکن نہیں۔ بلکہ شاید کسی بھی سطح پر ممکن نہیں۔ پس یہ سمجھنا یا تاثر دینا یا تاثر لینا واقعیت پسندی نہیں کہ آپ یہاں ایسی یونیورسٹیاں یا کالج یا سکول سامنے لے آئیں گے جن میں آپ کوئی الگ تھلگ سسٹم پیش کر کے دکھا دیں گے۔ سچ یہ ہے کہ جاہلیت کے زیر اقتدار اِس کی گنجائش ہی نہیں۔

ہماری یہ گفتگو اُس سیاق میں ہے جو تعلیم کی اصیل بنیادوں سے متعلق ہے اور جوکہ ہمارے اِس مضمون میں جا بجا بیان ہوئیں۔ البتہ جہاں تک اُن بہت سے ”اسلامی اداروں“ کا تعلق ہے جو اِس وقت سامنے آ رہے ہیں، تو ہماری نگاہ میں وہ ایک بہت سطحی فنامنا ہے اور حق یہ ہے کہ بڑی حد تک یہ اِس حالیہ سسٹم ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ افسوسناک ہے، مگر حقیقت ہے۔ (ان کے کمرشلزم پر فی الوقت بات نہ کی جائے، تو بھی) ان کا یہ تاثر دینا کہ وہ یہاں کے جاہلی اداروں کا باقاعدہ اسلامی متبادل ہیں، بوجوہ غیر صحیح ہے۔ ’مظاہر‘ پر کچھ دیر نہ بھی جائیں (مثلاً ”قومی ترانے“ کیلئے ”حالتِ قومہ“ میں چلے جانے ایسے ’شعائراِن اسلامی اداروں میں بھی ”چلتے“ ہیں، اور اِس کو کوئی مذموم بات تو یہاں پر ہرگز باور نہیں کرایا جاتا۔ قومی شخصیات کے بتوں کی تعظیم اپنے اِن اسلامی اداروں“ میں بھی ہو جاتی ہے، کم از کم اِس کو ”برا فعل“ تو بہر حال نہیں گردانا جاتا۔ یہ کسی کے خیال میں کوئی برائی ہے بھی تو معاشرے میں پائی جانے والی اُن برائیوں میں سے ہے جن پر ”خاموش“ رہنا ہی ”اسلامی تعلیم“ اور ”بیانِ حق“کی روح کے قریب تر ہے! وغیرہ وغیرہ۔ جدید شرکیات کے بہت سے مظاہر سے یوں صرفِ نظر کر کے رکھا جاتا ہے گویا وہ اِس دنیا میں کہیں پائے ہی نہیں جاتے۔ ان کو مٹانے کی بات تو خیر آج تک کبھی ان کے ہاں نہیں اٹھائی گئی۔ یوں ”اسلام“ کے حوالے سے کچھ ”روایتی اعمال“ ہی بچتے ہیں جو کہ بچوں میں ”اسلامی کردار“ پیدا کرنے کے باب میں ہمارے اِن اسلامی اداروں کا منتہائے تخیل ٹھہرتاہے۔ یہ بالعموم ”اسلامی سکولوں“ کا معاملہ ہے۔ رہ گیا معاملہ ایسی ”یونیورسٹیوں“ کا جو ”اسلامی“ محرکات کے تحت وجود میں لائی گئیں، تو اُن پر ایک نظر ڈالنے کے بعد(14) آپ ہر بات پر یقین کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں سوائے اِس ایک بات کے کہ اِس ادارے کی تاسیس کچھ اسلامی مقاصد کیلئے عمل میں لائی گئی ہے! الا ما شاءاللہ).... غرض ’مظاہرپر نہ بھی جائیں، ”اسلامی متبادل“ فراہم کرنے کا دعویٰ رکھنے والے یہ ادارے تدریس“ سے متعلق ہوں یا ”نصاب سازی“ سے.. اُس پورے تصورِ فکر وعمل کو اِن میں اجمالی حد تک بھی طالبعلموں کے ذہن نشین نہیں کرایا جاتا جسے اپنے اِس دور کے شرک اور جاہلیت کے بالمقابل ہمیں اپنے بچوں اور جوانوں کی گھٹی میں اتارنا تھا۔ جی ہاں، اسلام کے اُس تصورِ فکر و عمل کو اجمالی حد تک بھی بچوں کے قلب و ذہن میں نہیں بٹھایا جاتا، تفصیلی طور پر تو خیر دور کی بات ہے۔

پس یہ واضح ہو جانا چاہئے کہ ہماری اِس گفتگو کا سیاق وہ بنیادی مفہومات ہیں جو ہمارے اِس مضمون میں پیچھے بیان ہوئے۔ رہ گیا اسلامی اداروں“ کا وہ فنامنا(15) جو اِس وقت ہمارے سامنے ہے تو وہ ہماری اِس گفتگو کے سیاق میں سرے سے نہیں آتا (الا ما شاءاللہ)۔ یہ بڑی حد تک اسٹیٹس کو“ کا حصہ ہیں نہ کہ ”اسٹیٹس کو“ کے خاتمہ کیلئے سرگرم کوئی ادارے۔ لہٰذا واضح رہے، جب ہم کہتے ہیں کہ ”جاہلیت کے زیر اقتدار، تعلیم کے شعبے میں مسلمانوں کو ایک جامع اور مثالی نظام دینا یا حتیٰ کہ اس کی بابت سوچنا ممکن نہیں، لہٰذا ایک ”جامع و محیط“ full fledge قسم کے تعلیمی نظام کا خیال چھوڑ کر فی الحال ہمیں وہ اسکیم سامنے لانی ہے جو جاہلی اقتدار کے اِس حالیہ مرحلہ میں ہماری ضرورت ہے“.... تو ایسی کسی اسکیم سے ہماری مراد وہ ’کچھ نہ کچھ‘ نہیں جو اِس وقت کے ”اسلامی اسکولوں اور یونیورسٹیوں“ کے ہاں سے دستیاب ہوتا ہے!

یہ سیاق واضح کر دینے کے بعد ہم اپنی یہ بات دہرائیں گے کہ: یہ ممکن نہیں کہ اِس وقت آپ کوئی متوازی نظامِ تعلیم سامنے لے کر آئیں۔جاہلیت کے زیر اقتدار، اِس بات کی گنجائش ہی نہیں کہ یہاں ایسی یونیورسٹیاں یا کالج یا سکول سامنے لے آئے جائیں جن میں آپ کوئی الگ تھلگ سسٹم پیش کر کے دکھا دیں گے۔

3) جب کوئی متوازی نظام سامنے لانا فی الوقت ہماری ترجیح نہیں (اور نہ ہونی چاہئے) تو ہمیں اِن جاہلی اداروں ہی میں علمی، فکری، ثقافتی اور ادبی میدانوں میں جاہلیت کے ساتھ ایک دست بدست جنگ لڑنی ہے۔ یہ بات باعث تعجب بھی نہیں ہونی چاہئے۔ اسلام کے عہد اول میں بھی جاہلیت کے ساتھ جو فکری اور نظریاتی جنگ لڑی گئی تھی وہ معاشرے کے گھمسان میں رہ کر لڑی گئی تھی نہ کہ معاشرے سے الگ تھلگ حلئے اختیار کر کے اور معاشرے سے ’نکل آنے‘ کا اسلوب اختیار کر کے۔ دار الارقم بن ابی الارقم سے اِس نظریاتی و عقائدی جنگ کیلئے صرف ”ایندھن“ حاصل کیا جاتا تھا البتہ لڑی یہ معاشرتی فورموں پر ہی جا رہی تھی اور اِس کے اندر سب علمی و فکری ہتھیار برتے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ چند ہی سالوں کے اندر فریق مقابل پر اپنی علمی، فکری اور اَخلاقی برتری ثابت کر کے دکھا دی گئی۔ بلکہ فریق مقابل کو آخری درجے کا ہٹ دھرم، جاہل، گنوار، غیر مہذب، نظریاتی طور پر دیوالیہ، گم گشتہ، آباءکا مقلد، جاگیردار پرست، اپنی عقل و خرد کو کسی دوسرے کے ہاں گروی رکھنے والا، گمراہ، خدا ناآشناس، بلکہ خود اپنی حقیقت سے ناآشناس، مشرک، ظالم، سرکش اور معاند کی شکل میں پیش کر کے دکھا دیا گیا تھا۔ دوسری جانب، اِس نئی دعوت (اسلام) کے حاملین کو علم، حکمت، خرد، ایمان، احسان، عدل، توحید، خدا خوفی، رحمدلی، انسان دوستی، عقل، فہم، جستجو، تحقیق، خود شناسی، خدا شناسی، صبر، استقامت، عفت، پاکیزگی اور مکارمِ اخلاق کے حامل اور اعلیٰ تہذیبی قدروں اور بلند خیال رویوں کے خالق طور پر پیش کرنے میں آخری حد تک کامیابی حاصل کر لی گئی تھی۔ یہ وہ اصل محاذ تھا جو مکہ میں فتح کر کے دکھا دیا گیا تھا۔ یہ وہ فکری و نظریاتی انوسٹمنٹ تھی جو مابعد مرحلوں میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ کام دیتی رہی۔

ایسا ہی ایک معرکہ آج بھی ہمارا منتظر ہے۔ جس ”تعلیمی عمل“ کے ہم داعی ہیں وہ بنیادی طور پر ایسے ہی ایک فکری و تہذیبی عمل کا ”سافٹ ویئر“ ہو گا نہ کہ کوئی ایسا باقاعدہ ”تعلیمی نظام“ جس کو سامنے لانے کی نوبت ہی اُس وقت آتی ہے جب معاشرہ مکمل طور پر آپ کے اپنے ہاتھ میں آ چکا ہوتا ہے۔

4) اِس کیلئے جو ”تعلیمی عمل“ سامنے لایا جائے گا، وہ اُس عمل سے بڑی حد تک مشابہ ہے جو ”دار الارقم بن ابی الارقم“ یا نبوی راہنمائی میں چلنے والے ایسے ہی دیگر ”تعلیمی اداروں“ سے دستیاب رہا تھا۔ جس کا لب لباب یہی ہے کہ ہمارے نوجوان، معاشرے کے گھمسان کے اندر بھی رہیں اور زندگی کی سب سرگرمیوں کا حصہ بن کر رہیں، البتہ اپنی دنیا کو اور دنیا کے ایک ایک فکری، فلسفی، نظریاتی اور سماجی مسئلے کو دیکھنے کیلئے روشنی ”آسمانی عقیدہ“ سے حاصل کریں۔ علاوہ ازیں جو نظریاتی معرکہ وہ معاشرے میں اور معاشروں کے سب فکری و ثقافتی فورموں پر لڑ رہے ہوں گے اُس کیلئے تمام تر ”ایندھن“ اور ایمونیشن“ وہ یہاں سے حاصل کریں۔ اور سب سے بڑھ کر.. وہ ”ایمان“ کی ایک ایسی فضا پائیں جو ایک جاہلی ماحول میں سرگرم رہنے کیلئے اُن کی ایک بنیادی ترین ضرورت ہے۔

5) تعلیمی عمل کا یہ ماڈل چھوٹے بچوں کی نسبت نوجوانوں کی سطح پر سامنے لایا جانا، بوجوہ، اہم تر و مفید تر ہو گا۔ نوجوان کیلئے یہ مشکل نہیں کہ وہ اپنی یونیورسٹی میں ایک چیز کسی جاہلی مصدر سے اور جاہلی اپروچ کے ساتھ پڑھے اور پھر ”آسمان کی روشنی“ میں اُس کو بالکل ایک اور جہت سے دیکھنے پر بھی قدرت پائے، یہاں تک کہ اُس مسئلہ میں وہ جاہلیت کا ایک اچھا ناقد بنے اور اس کے بطلان کی ایک اچھی استعداد سامنے لائے.. تا آنکہ ایسے نوجوانوں کے وجود سے، اور ان کی ہمت، استقامت اور قوتِ تاثیر سے، یہاں کا تاریک ماحول آہستہ آہستہ جگمگانا شروع کرے۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر میں معاشرے کے اندر پائے جانے والے ”اندھیرے“ چھٹنے کی بھی نوبت آئے۔ اور بالآخر ”ظلمات“ کے باقاعدہ خاتمہ کا سوال ہی اٹھ کھڑا ہو۔ ایسے نوجوان جونہی عملی زندگی میں معاشرے کے اندر اتریں گے، یہاں پر جاری بہت سے سماجی منصوبوں میں یکایک جان پڑنے لگے گی اور معاشرے کے اندر اسلامی عمل کے بے شمار مظاہر آپ سے آپ سامنے آنے لگیں گے۔ جیسے جیسے معاشرتی فورموں پر جاہلیت سے برسر پیکار اسلامی ایجنڈا میںجان پڑے گی ویسے ویسے جاہلیت کا جسم یہاں بے جان ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ ایک سوکھے درخت کی صورت پیش کرے گا، جس کو ایک خاص نقطہ تک پہنچا دینے کے بعد ایک آدھ جھٹکا بہت کافی رہتا ہے۔

6) چونکہ اِس ”تعلیمی عمل“ کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ نوجوان کو اُس کی اُس جگہ سے جہاں پر وہ زیر تعلیم ہے، ہٹائے بغیر اُس علمی، فکری، نظریاتی اور سماجی استعداد سے لیس کیا جائے جس سے وہ اپنی علمی و فکری دنیا کو اسلام کی روشنی میں دیکھنے اور دکھانے کے قابل ہو اور وقت کی جاہلیت کے روبرو اپنا مطلوبہ اسلامی کردار اور امت کو لے کر چلنے کی صلاحیت پیدا کرے، جبکہ اپنی بقیہ غذا فی الحال وہ اسی زمین اور اسی فضا سے حاصل کرے جس میں وہ ہے، اگرچہ وہ زمین اور وہ فضا جاہلیت کے زیر قبضہ کیوں نہ ہو۔ (یہ ”تفقُّہ“ اپنے نوجوان کے اندر حالیہ مرحلہ میں ہر حال میں پیدا کرنا ہو گا (” اِذا فقہوا“(16) ).... لہٰذا یہ چیز محنت طلب تو ضرور ہے، البتہ یہ ایک ”کم خرچ، بالا نشین“ قسم کا منصوبہ ہے۔ بہت لمبے چوڑے وسائل سے بننے اور چلنے والے اداروں کی سرے سے اِس کو ضرورت نہیں۔ اصل محنت اِس ”سافٹ ویئر“ کی تیاری پر ہو گی۔ ”انسٹال“ کرنے کیلئے تو بھرے شہر میں کسی ایک آدھ کمرے پر مشتمل کائنات ہی شاید اِس کیلئے کافی ہو۔ البتہ اِس کو لانچ کروانے کیلئے یہاں کی بھاری بھرکم تحریکوں کی مدد حاصل ہو تو نتائج میں اچھی خاصی تیزی لائی جا سکتی ہے۔

7) اِس عمل کی اساس تو وہی ہے جس کو پیچھے ہم ”تعلیمی عمل کی پہلی و اساسی ضرورت“ کہہ آئے ہیں (دیکھئے صفحہ 44 تا 59) پھر اس کے ساتھ، جاہلیت کی بابت ایک بصیرت پیدا کرائی جانا (دیکھئے صفحہ 59 تا 76)۔ جس کے کچھ عمومی کورسز ہوں گے (ہر ہر تعلیمی لیول کیلئے)۔ اور کچھ خصوصی کورسز ہوں گے الگ الگ شعبوں کیلئے، ہر ہر شعبے کی مناسبت سے۔

تاہم اِس ”سافٹ ویئر“ پر جو محنت ہو گی وہ اندازے سے باہر ہے۔ اس ”سافٹ ویئر“ سے ہماری مراد ہے:

الف: وہ علمی وفکری مواد جو اِس پورے عمل کیلئے ضروری ہو گا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپ ڈیٹ ہوتا رہے گا۔ اور جس کو سامنے لانا کسی جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو گا۔

ب: اُن ”رجال“ کی تیاری جو اِس عمل کو لے کر میدان میں اتریں گے۔ بعد میں بے شک یہ معاملہ چل نکلے گا، مگر ابتدا میں ایسے رجال کو سامنے لانا جو اِس بھاری بھر کم عمل کا بوجھ اٹھائیں (جس کیلئے ایک نہایت اعلیٰ درجے کی فکری و نظریاتی استعداد کی ضرورت ہو گی، اور اِس سے پہلے ان کو ”ایمان“ کا معلم بھی ثابت ہونا ہو گا)۔ ایسے معلمین جو پھر اپنے جیسے معلمین پیدا کر کر کے پورے ملک میں ان کا جال بچھا دیں.. ان کی تیاری تو وہ مشکل گھاٹی ہے کہ اِس کیلئے ”جوئے شیر لانے“ سے بھی بڑھ کر کوئی تعبیر درکار ہو گی۔ یہی اِس سلسلہ کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور کسی ”چارہ گرکو اِسی نقطہ پر سب سے زیادہ زور صرف کرنا ہو گا۔

8) اوپر (الف) اور (ب) کے تحت جو اہداف مذکور ہوئے، ا ور جن کے حصول پر ہی اِس پورے منصوبے کا دار و مدار ہے، دو نہایت اہم گھاٹیاں ہیں جن سے گزرے بغیر مابعد مراحل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ فکرمندوں کو اِسی چیز پر سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ تاہم اِس مسئلہ کا جو حل ہماری نظر میں ہے، وہ درج ذیل ہے:

عالم اسلام میں یقینا ایسی شخصیات پائی جاتی ہیں جنہوں نے ”عقیدہ“ کی اُن جہتوں پر کام کر رکھا ہے جو ہمارے دور کے سماجی علوم و نظریات کی بابت نوجوانوں کے اندر ایک گہری نظر اور بصیرت پیدا کرنے کیلئے مطلوب ہیں۔ یہ وہ اہل علم ہیں جو ایک طرف ”عقیدۂ سلف“ پر کمال کی دسترس رکھتے ہیں اور ”ٹھیٹ اسلامپر اتھارٹی مانے جاتے ہیں تو دوسری طرف دورِ جدید کی حقیقتوں اور اِس میں سامنے آنے والے نظریات و افکار پر بھی کمال کی نظر رکھتے ہیں، بلکہ کچھ عشروں سے اپنے اپنے حلقوں میں امت کے نوجوانوں کو اِس سلسلہ میں راہنمائی دینے کا بھی ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ خود ہم نے اگر اِس بات کا کچھ شعور پایا ہے کہ ”عقیدہ“ کے اُسس و مبادی کو اپنے دور کی حقیقتوں کے ساتھ کیونکر جوڑا جائے __ اور جس کو ہم ”اصالت“ (originality of aqeedah)اور ”معاصرت“ (dealing with the contemporary world)ایسی دو عظیم خوبیوں کا سنگم کہتے ہیں __ تو وہ انہی شخصیات کے علمی دسترخوان سے استفادہ کا نتیجہ ہے۔

یقینا یہ ایک rare combination ہے۔

یہ گوہر نایاب ’پیدا‘ کرنے بیٹھیں تو بھلا کب حاصل ہوتا ہے! اِس کو تو ایسے لوگوں کے ہاں ہی ڈھونڈا جائے گا جن کو خدا نے یہ نعمت دے رکھی ہے۔ ایسے ہیرے کم ہیں مگر امت کا دامن ان سے خالی بہرحال نہیں۔

یہ اہل علم کسی ایک ہی جگہ پر جڑ کر نہیں بیٹھے، مگر عالم اسلام کے مختلف خطوں میں پائے ضرور جاتے ہیں۔ ہمارے پیش نظر اگر کوئی ایسا تعلیمی منصوبہ ہے جو یہاں پر ایک بنیادی ترین تبدیلی کا نقطۂ اساس بنے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کے ان اہل علم کی جانب رجوع کے سوا چارہ نہیں۔ ان سے مدد لے کر ہم یہاں پر مطلوب تعلیمی عمل کی اساس میں پڑنے والا وہ علمی وفکری مواد بھی سامنے لا سکتے ہیں جس کا اوپر (”الف“ کے تحت) ذکر ہوا، اور انہی کی مدد اور نگرانی میں ہم وہ رجال بھی پیدا کر سکتے ہیں جو ہمارے اِس ماحول میں اِس عمل کا بیڑا اٹھائیں (جس کا اوپر ”ب“ کے تحت ذکر ہوا)۔

9) ہمارا یہ مسئلہ اگر حل ہو جاتا ہے، اور ہمیں وثوق ہے کہ اوپر بیان کردہ ذریعہ کو اپنا کر، اور خود ہماری شبانہ روز محنت کے نتیجے میں، ہمارا یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے.. تو سمجھئے تعلیمی شعبے میں ہمارے سامنے پیش قدمی کی عظیم شاہراہیں کھل جاتی ہیں۔ دین کیلئے اتنا جذبہ جو ہمارے اِس ملک میں پایا جاتا ہے، شاید ہی کہیں پایا جاتا ہو۔ اور پھر عمل پسند مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد بھی شاید ہی کہیں پائی جاتی ہو۔ اِس عمل سے آپ پوری قوم کیلئے اِس قدر شاندار اسلامی لہجے سامنے لے کر آ سکتے ہیں کہ چند ہی سالوں میں جمود اور پسماندگی کی سب گرد جھاڑی جا سکتی ہے اور اسلام کی داعی تحریکیں اِس معاشرے کی سب سے مؤثر، سب سے بڑھ کر نگاہوں کی مرکز، سب سے زیادہ ڈائنامک، اور پڑھے لکھوں میں سب سے بڑھ کر مقبول فنامنا بن سکتی ہیں۔ بلکہ اِس عمل کے نتیجے میں اسلامی تحریکیں ہی سب سے بڑی modern reality کی صورت میں دیکھی جائیں گی۔

10) ہمارا اصل میدان تو بڑی دیر تک یہی رہے گا۔ یعنی یہاں کے مین اسٹریم ادارے۔ ہمارا تعلیمی عمل بڑی دیر تک یہیں پر فوکس کر کے رہے گا۔ آہستہ آہستہ، اِس عمل کو یونیورسٹیوں اور کالجوں سے نیچے تک لایا جائے گا۔ اِس تعلیمی پروگرام کے تحت لوگوں کو اِس بات کی ترغیب دلائی جائے گی کہ وہ اپنے بچوں اور نوجوانوں کو جس چوٹی کے تعلیمی ادارے میں پڑھا سکتے ہیں پڑھائیں البتہ اُن کو مسلمان بنانے اور مسلمان رکھنے کیلئے اسلام کی جو روشنی درکار ہے، اس کیلئے وہ انہیں ہمارے اِس تعلیمی عمل کا حصہ بنائیں۔ جاہلیت کو تو انہیں ویسے بھی پڑھنا اور جاننا ہے، جیسا کہ پیچھے ہم بیان کر آئے ہیں (دیکھئے صفحہ 71 تا 77)۔ نبوی دعوت سے ہمیں جو راہنمائی ملتی ہے وہ یہی کہ جب تک معاشرہ آپ کے اپنے زیر اقتدار نہیں آ جاتا، لوگوں کو اُن کے ماحول اور معاشرے سے نکالے بغیر، اُن کی اُس جگہ پر ہی جہاں وہ کوئی معاشرتی کردار رکھتے ہیں، اُن تک عقیدہ کی روشنی پہنچائی جائے اور اُن کے ذریعے معاشرے کے عین وسط میں ایک ہلچل پیدا کی جائے۔ پس جاہلیت کو تو انہیں ویسے بھی پڑھنا اور جاننا ہے، لہٰذا اگر وہ عقیدہ“ کی روشنی لے کر اِن جاہلی اداروں میں جاتے ہیں تو یہ عین وہ عمل ہے جو ”عقیدہ“ کی پیش قدمی کو معاشرہ کی ایک جیتی جاگتی حقیقت بنائے گا۔

مزید برآں، یہ وہ چیز ہو گی جو ”تبدیلی“ کے اِس عمل کو کسی ’ندی نالے‘ یا دریا‘ کے کنارے پر ہوتا رہنے کی بجائے، عقیدہ کی اِس کشمکش کو اٹھا کر عین سمندروں“ تک لے جائے گا۔

ہاں جس وقت ”سمندروں“ کے اندر ہماری تگ و تاز ہونے لگے گی، اور ایک ایسی جاندار حقیقت کے طور پر سامنے آئے گی جس کی مزاحمت کسی کے بس میں نہیں، تو ”دریاؤں“ اور ”ندی نالوں“ کے اندر اپنی نقل و حرکت بڑھا دینا بھی تب ہمارے حق میں بے فائدہ نہیں رہے گا۔ تب ایک نہایت اہم پراجیکٹ کے طور پر ”اسلامک اسکولنگ“ پر توجہ دے دینا نہایت فائدہ مند ہو گا۔ بچوں کیلئے اسلامی ادارے سامنے لانا ویسے ہی بے حد اہم ہے، اور جس وقت آپ یہ تسلی کر چکے ہوں گے کہ آپ ان کے عمل اور سرگرمی کیلئے تعلیمی دنیا کے اندر بہت آگے تک ان کا راستہ صاف کر چکے ہیں، تب تو ان کو تعلیم دینے کے اسلامی ادارے سامنے لانا اور بھی اہم ہو جائے گا۔ خصوصاً اِس لئے کہ ”نوجوان“ کے برعکس، ”بچہ“ کسی دوطرفہ کھینچ کی تاب نہیں لا سکتا۔ دو طرفہ کھینچ“ سے ہماری مراد ہے کہ: جاہلی نصابوں اور اداروں سے بچہ ایک چیز پڑھے اور پھر اپنے ”عقیدہ“ کی روشنی میں اُس کو غلط کہنا یا اُس کی تصحیح کرنا سیکھے۔ دوسرے لفظوں میں جاہلی مصدرِ علم اُس کو ایک طرف کو کھینچے تو اسلامی مصدرِ علم اس کو کسی دوسری طرف کو کھینچے۔ ایک بالغ نوجوان“ کو یہ چیز جہاں ایک بصیرت clarity دے سکتی ہے وہاں معصوم ”بچے“ کو یہی چیز کچھ پیچیدگیوں اور عقدوں کا شکار کر سکتی ہے۔ ہمارا بچہ بہرحال اِس چیز کا متحمل نہیں۔ لہٰذا، اِس پہلو سے، ”بچوں“ کیلئے الگ اسلامی ادارے بنانے کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ کام ہمارے خیال میں آج اِس وقت بھی ہونا چاہئے، مگر جس وقت ہم ”ہائر ایجوکیشن“ تک ان کیلئے راستہ بنا چکے ہوں گے پھر تو یہ بات نہایت ضروری اور فائدہ مند ہو گی کہ: ہمارا بچہ ہوش اور بلوغت سے ماقبل مرحلہ میں اس چیز سے بچا رکھا جائے کہ وہ دو مناہج تعلیم (جاہلی و اسلامی) کے مابین کھینچا تانی (17) کی نذر ہو، بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ یکسوئی کے ساتھ (جہاں تک ممکن ہو) وہ اسلامی ماحول کے اندر ہی پروان چڑھے اور پھر ایک مناسب قوت پرواز حاصل کر لینے کے بعد بلند تر فضاؤں کی جانب روانہ ہو، جہاں اُس کی پلٹ جھپٹ کو ممکن بنانے کے متعدد انتظامات پہلے سے اُس کے منتظر ہوں۔

11) اِس عمل میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر لینے کے بعد، کوئی حرج کی بات نہیں کہ ”ہائر ایجوکیشن“ کی سطح پر بھی کچھ اسلامی ادارے سامنے لائے جائیں۔ البتہ ان اداروں کو جو معیار excellence لے کر آنا ہے وہ کمال کا ہونا چاہئے جو یہاں کی تمام جامعات پر فوقیت لے جائے۔ اِس چیز کے مکمل انتظامات میسر نہیں تو ایسے کسی پروگرام کی بابت سوچنا بھی ضیاعِ وقت ہو گا۔ یوں کہئے، یہ یہاں کی تعلیمی دنیا میں صحیح معنوں کے اندر ایک انقلاب ہو گا۔ تاہم یہ کام اُسی مرحلہ پر جا کر ہونا چاہئے جب یہاں کے مین اسٹریم اداروں میں یہ مجوزہ تعلیمی عمل کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر دکھا چکا ہو۔ ظاہر ہے یہ چیز ابھی بے حد قبل از وقت ہے، لہٰذا اِس پر گفتگو کی ابھی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔

٭٭٭٭٭

آخر میں ہم یہ کہیں گے کہ ”تعلیم“ کے شعبے میں اسلامی پیش قدمی کیلئے یہ ایک وِژن ہے جو ہم نے یہاں کے فکر مند طبقوں اور ”تبدیلی“ کی خواہشمند تحریکوں کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ یہ ایک بھاری بھر کم کام ہے اور کسی ایک فرد کے کرنے کا نہیں۔حق تو یہ ہے کہ بے شمار ادارے، تنظیمیں اور تحریکیں مل کر اِس پر کام کریں اور صورتحال کو بدل کر رکھ دینے میں ایک بھرپور کردار ادا کریں۔ تاہم یہ واضح کر دینا ہم یہاں پر ضروری جانیں گے کہ جہاں تک ہمارا (یعنی ادارہ ایقاظ کا) تعلق ہے، تو اِس مشن کی انجام دہی میں ہم اپنا حصہ ڈالنے کی شدید ترین خواہش بھی رکھتے ہیں، ارادہ بھی۔ اِس سلسلہ میں جو کوشش ہمارے مقدور میں ہے، وہ بھی اپنے طور پر ہم بہرحال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ اِس کیلئے جس قدر ذرائع اور وسائل درکار ہیں اُس کا عشر عشیر تو کیا کچھ بھی فی الحال ہم اپنے پاس نہیں رکھتے۔ ہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اِس سلسلہ میں ہم آخری حد تک سنجیدہ اور پر عزم ہیں اور ہمارا یہ سب لکھنا لکھانا اور ان پریشانیوں اور فکرمندیوں کو آپ حضرات کے ساتھ بانٹنا اِسی حقیقت پر دلالت کرنے کیلئے ہے۔ جو حضرات، خواہ وہ افراد ہوں یا گروپ یا انجمنیں یا تنظیمیں یا ادارے، اِس سلسلہ میں تعاون دینے یا لینے میں سنجیدہ ہوںوہ یقینا ہمیں چشم براہ پائیں گے۔ ہماری فکرمندی صرف ایک بات کے متعلق ہو گی اور وہ یہ کہ اِس وژن کو بے جان کر دینے کی کوئی صورت ہمیں قبول نہیں ہو گی۔

جاہلیت کے اِن بے حد و حساب ذرائع کے بالمقابل اور اِس بھاری بھرکم مشینری اور میلوں کے اندر پھیلی ہوئی مادر ہائے علمی اور بے تحاشا وسائل اور تعلیم و تحقیق کے اِس بظاہر ناقابل تسخیر میکنزم کے مقابلے میں ہم اپنی پیش قدمی کے متعلق اِس قدر پر اعتماد ہیں تو اِس کی وجہ عقیدۂ توحید پر قائم یہ وژن ہی ہے جو اِس بحر ظلمات میں یقینی طور پر ہمیں راستہ بنا کر دے سکتا ہے۔ پس اِس عمل کی ساری جان اِس وژن کے اندر ہے۔ اِس کے ڈائنامزم کو تھوڑا سا بھی بے جان کر دیا جاتا ہے تو جاہلی نظام تعلیم کے یہ بھاری بھرکم ذرائع، اِس کے بے تحاشا وسائل، میلوں کے اندر پھیلے ہوئے پر شکوہ کیمپس واقعتا ناقابل تسخیر ہیں۔

واللہ غالب علیٰ أمرہ

وآخر دعواناأن الحمد للہ رب العالمین

 

 

 

(1) مباحث فی علوم القرآن، مؤلفہ مناع القطان ص: 358

(2) ہم صحابہ کی عمومی اپروچ کی بات کر رہے ہیں۔ یقینا علمائے صحابہ و تابعین کے ہاں علمی مجالس ایک اور انداز سے بھی رہی ہیں۔ مثلاً مشہور تابعی مفسر مجاہدؒ نے عبد اللہ بن عباسؓ سے پورا قرآن تین مرتیہ یوں پڑھا کہ اُن کو ایک ایک آیت پر روکتے اور اُس کے معانی پوچھتے جاتے۔ (دیکھئے مقدمۃ التفسیر مؤلفہ امام ابن تیمیہؒ ص: 9 مع شرح صالح بن عبد العزیز آل الشیخ)

(3) دوسری طرف، ذرا اپنے ”اسلامیات“ کا پرچہ دینے والے ہونہار نوجوان کو قرآنی آیات“ کی تیاری کرتے ہوئے بھی کسی وقت ملاحظہ فرمائیے گا، کہ ہم نے اپنے بچوں کو ”قرآن“ کو کس انداز میں لینا سکھایا ہے۔

(4) دیکھئے مسند احمد (مسند انس بن مالکؓ)، نیز الاتقان فی علوم القرآن مؤلفہ امام سیوطی، ج: 1، ص: 180۔

علاوہ ازیں، عبد اللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: کنا نعد من یقرأ سورۃ البقرۃ من الفحول ”جو شخص سورۃ البقرۃ پڑھ چکا ہوتا ہم اُسے سر بر آوردہ لوگوں میں سے گنتے“۔ (دیکھئے ”بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز ص 106)

(5) دیکھئے مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، مجلد 15، تفسیر سورۃ ہود بسلسلہ آیت 17۔ امام ابن تیمیہ یہ روایت جندب بن عبد اللہؓ اور عبد اللہ بن عمرؓ سے ذکر کرتے ہیں، اور اپنے مجموع فتاویٰ میں اِس بات کو جا بجا نقل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ سورۂ ہود کی اِسی آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں: قرآن میں آنے والے کلمات ”نور علیٰ نورٍ“ کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ”ایمان کا نور، پھر اس پر قرآن کا نور“!

(6) کتاب الفوائد مؤلفہ ابن القیمؒ۔ ص: 20، فصل: فائدۃ: الرب تعالیٰ یدعو عبادہ فی القرآن اِلیٰ معرفتہ من طریقین..

(7) مثال کے طور پر سورۃ حم السجدۃ آیت نمبر 37 میں رات، دن، سورج اور چاند کو اللہ کی ”آیات“ کہا گیا ہے۔ سورۃ الجاثیہ آیت 3 تا 5 میں کہا گیا ہے کہ: آسمانوں کے اندر اور زمین میں، اور خود انسانوں کی تخلیق اور زمین پر پھیلے ہوئے چوپایوں میں، اور دن رات کے اختلاف میں اور آسمان سے نازل ہونے والے رزق میں کہ جس سے زمین مردہ ہو چکنے کے بعد زندہ ہو اٹھتی ہے، اور ہواؤں کے  رخ بدل بدل کر لائے جانے میں بے شمار ”آیات“ ہیں۔ سورۃ الروم کا تیسرا رکوع پورا اُن ”آیات“ کا نہایت وقیع انداز میں ذکر کرتا ہے جو کائنات میں اور خود انسانوں کے اپنے اندر جلوہ آرا ہیں۔ یہ ”آیاتِ مشہودۃ“ کی چند مثالیں ہیں جو قرآن سے دی گئیں، ورنہ قرآن اِن کے ذکر سے بھرا ہوا ہے، اور باقاعدہ ان کیلئے ”آیات“ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اِس کے باوجود کائنات کے مطالعہ کو ہمارے یہاں ”ایمان“ کا مضمون نہیں مانا جا رہا۔

(8) (حم السجدۃ: 37) ”اور اُس کی آیات میں سے ہیں: رات اور دن اور سورج اور چاند۔ مت جھکو سورج کے آگے اور نہ چاند کے آگے۔ بلکہ جھکو اللہ کے آگے، وہ جس نے ان کو پیدا کر رکھا ہے، اگر ہو تم اُس کو پوجنے والے

(9) کتاب الفوائد: فصل: قاعدۃ جلیلۃ: وَكَذَلِكَ نفَصِّلُ الآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ، ص 109

نیز مفتاح دار السعادۃ : 1: 295، مدارج السالکین: 1: 343، الجواب الکافی: 152، مؤلفہا ابن القیمؒ۔

(10) سید قطبؒ کی ”معالم فی الطریق“ کے اردو میں کئی تراجم ہو چکے ہیں جن میں مشہور ترین ”جادہ و منزل“ از خلیل حامدی مرحوم، اور ”نشاناتِ راہ“ از معروف شاہ شیرازی ہیں۔ مؤخر الذکر کا ایک ایڈیشن جو ایک عشرہ پیشتر ہماری نظر سے گزر چکا ہے، اُس میں کتاب کی اِسی محولہ بالا فصل (منہج القرآن المکی) کے تحت کچھ فٹ نوٹس دیے گئے ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ مترجم سے سید قطبؒ کا یہ منہج ہضم نہیں ہو سکا ہے جس کی رو سے سید قطبؒ جاہلی نظام میں ”اسلامی ترمیماتی عمل“ کے ساتھ امیدیں لگوا رکھنے کو باطل اور فرسودہ قرار دیتے ہیں!

(11) مزید جسارت نہ ہو تو.. روایتی ”مذہبی طبقہ“ نہ صرف آج کے اِس ماڈرن ماحول میں ”آوٹ سائڈر“ ہے بلکہ ”دین“ جس کا یہ نمائندہ سمجھا جاتا ہے اُس کی اصل حقیقت سے بھی از حد نا آشنا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ رسولوں کا اصل کیس وہ آج کی جدید زبان میں معاشرے کے سامنے نہیں لا سکتا، بلکہ صورتحال یہ ہے کہ وہ رسولوں کا اصل کیس سرے سے اٹھا کر نہیں پھر رہا، بلکہ رسولوں کی دعوت اُس کو معلوم ہی نہیں! اس کو ”دین کے علوم“ آتے ہوں گے، مگر دین“ نہیں۔ الا ما شاءاللہ۔ یعنی نہ دنیا اور نہ دین۔ اِس چیز نے ایک طرف اِس ”مذہبی طبقے“ اور ”جدید انسان“ کے مابین ایک ناقابل عبور خلیج حائل کر رکھی ہے تو دوسری طرف اِس کے اور ”حقیقتِ دین“ کے مابین ناقابل اندازہ فصیل قائم کر رکھی ہے۔ یعنی ایک طبقہ معاشرے کیلئے ہی اجنبی نہیں، وہ ”دینکی نمائندگی بھی بالکل نہیں کر رہا، اور جو کر رہا ہے وہ بے حد غلط نمائندگی ہے۔ یہ مسئلہ ہماری نظر میں اِس قدر سنگین ہے کہ یہاں پر حقیقی تبدیلی کے داعی طبقوں کو اپنی شناخت بھی شاید ایک مختلف انداز میں کرانا پڑے۔

(12) سورۃ ابراہیم، آیت 4

(13) سورۃ ابراہیم کی اسی محولہ بالا آیت میں آگے چل کر یہ الفاظ آتے ہیں۔ (مفہوم: ”تاکہ وہ ان پر (خدا کا مدعا) نہایت واضح کردے“۔

(14) یہ ہم پر واضح ہے کہ چہرے کے پردے کا واجب نہ ہونا فقہائے اسلام کی ابک بڑی تعداد کا مذہب رہا ہے اور یقینا آج بھی اِس پر عمل ہو سکتا ہے۔ ”اسلامی اہداف“ کیلئے عمل میں لائی جانے والی مادرہائے علمی کے حوالے سے البتہ ہم یہاں جس صورتحال کا رونا رو رہے ہیں وہ ایک نہایت دگرگوں صورتحال ہے۔ بلکہ یہ اُن مادرہائے علمی سے شاید ہی کسی بات میں ہو مختلف ہو جن کی تاسیس کے وقت ”اسلام“ کا کوئی نام نہیں لیا گیا تھا!!! کسی ادارے کے ”اسلامی“ ہونے کے حوالے سے ”مظاہر“ بھی بہرحال دیکھے جاتے ہیں۔

(15) یہ بات اسلامی اسکولوں اور اداروں کی بابت عمومی ملاحظہ کے طور پر کی گئی ہے۔ یقینا کچھ اسلامی ادارے ایسے ہیں جو بچوں کو بہترین اسلامی راہنمائی دینے کا اپنی استطاعت کی حد تک حق ادا کرتے ہیں اور بہتری کیلئے ہر دم پریشان رہتے ہیں۔ ہم اِس ضرورت سے غافل نہیں کہ مسلمانوں کو اِن اسلامی اداروں کی مدد اور سر پرستی کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ یہ ادارے ہمارے یہاں زیادہ سے زیادہ پھلیں پھولیں۔

 (16) ایک حدیث کے الفاظ جو کہ صفحہ 74 پر گزر چکی ہے۔

(17) ”کھینچا تانی“ کا لفظ ہم نے عمداً استعمال کیا ہے۔ کیونکہ جس ”اسلامی تعلیم“ کے ہم داعی ہیں وہ وہی ہے جو جاہلی مفہومات اور تصورات کے ساتھ یہاں پیر پیر پر الجھے گی، نہ کہ وہ ”اسلامی نظامِ تعلیم“ جو جاہلیت کے اِس فریم کے اندر ہی فٹ ہو سکتا ہے اور جو کہ اِس وقت کے بیشتر اسلامی گروپوں کا مطمحِ نظر دکھائی دیتا ہے۔

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز