فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق
ڈاکٹر محسن محمد صالح
اردو اِستفادہ: محمد زکریا خان
مقدمہ
اسلام میں پانچ ایسی ٹھوس بنیادیں ہیں جن کی وجہ سے امت مسلمہ ایک متحدہ امت قرار پاتی ہے اور ان کے درمیان الفت اور محبت پیدا ہو جاتی ہے: عقیدۂ اسلام، شریعت مطہرہ، ثقافت، تصورِ امت اور دارالاسلام ۔
”امت کا تصور“ ایک ایسا دائرہ ہے جس میں اسلام لانے والی ہر قوم، ہر وطن، نسل اور رنگ کا انسان اپنے اندر ایک وحدت کا شعور رکھتا ہے۔ نبی علیہ السلام کے اس فرمان کے مصداق، کہ تمہاری مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے کسی ایک عضو میں ٹیس اٹھتی ہے تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے ۔جب بھی کسی خطے سے کسی مظلوم مسلمان کی فریاد (وااِسلاماہ!) بلند ہوتی ہے تو یہ آواز پوری امت سنتی ہے خواہ کوئی مسلمان دنیا کے کسی دور دراز گوشے میں ہی کیوں نہ رہتا ہو ۔
یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کو وحدت کے حوالہ سے اتنی عظیم الشان اور مقدس قدریں حاصل ہیں کہ وہ ان کی بدولت ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیتی ہے جو کوئی دوسری قوم ہزاروں سال میں بھی نہیں دے سکتی۔ جب امت اپنے اصولوں پر راسخ تھی تو اس امت نے محض اسی(80) برسوں میں دنیا کے ایک نہایت وسیع خطے پر وہ اثرات ڈال دیے تھے جو اس سے پہلے روما کی شہنشاہت آٹھ صدیوں میں نہ ڈال پائی تھی۔ پھر اسلامی فتوحات روما کی طرح استعماری عوامل کے زیر اثر بھی نہیں تھیں۔ حق یہ ہے کہ اسلامی قلمرو میں آنے والے خطے تاریخ میں پہلی بار آزادی سے روشناس ہوئے۔ اسلامی فتو حات غلامی سے آزادی کا پروانہ ہوا کرتی تھیں۔ البتہ جب مسلمانوں کی جانب سے لوگوں کو آزادی کی فضاؤں سے روشناس کرنے کی بجائے ان سے وہی سلوک کیا جانے لگا جو بادشاہ اپنی رعایا سے کرتے ہیں تو اعداء ان پر مسلط ہو گئے ۔ دو صدیوں تک عالم افرنگ نے صلیبی جنگوں ( 489ھ۔690ھ) سے نہ صرف اسلامی پھیلاؤ میں رکاوٹ ڈال دی بلکہ کچھ ہی عرصے بعد تاتاریوں نے مسلمانوں کی عظمت خاک میں ملا دی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے دوبارہ ہدایت کی راہ اختیار کی تو ایک مرتبہ پھر انہوں نے اتنی قوت ( سلطنت ممالیک اور بعد ازاں سلطنت عثمانیہ )حاصل کرلی تھی جس کی وجہ سے صدیوں تک استعمار ان کے خطوں میں داخل ہونے کی جرأت نہ کر سکا۔
جب مسلمان اپنے مقدس اصولوں پر مجتمع تھے تو نہ صرف وہ دس صدیوں تک دنیا کی سب سے بڑی قوت رہے بلکہ علم و ترقی اور ثقافت میں بھی وہ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم تھے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا کی تاریخ میں اگر’ فرسٹ ورلڈ ‘کی کوئی اصطلاح ہے تو وہ گزشتہ میلینم میں مسلمان تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جس میں یورپ جہالت اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
سقوط غرناطہ ( اسپین ) ( 1492ء ) کے بعد مسلم خطوں پر مغربی استعمار کا آغاز ہوا ۔اس کے بعد نپو لین ( 1798ء ) نے مسلمانوں کے مرکزی علاقوں پر حملہ کیا اور ایک کے بعد دوسرا خطہ استعمار کی جھولی میں گرتا چلا گیا۔ زوال کی انتہاء یہ ہوئی کہ 1924ء میں عثمانی خلافت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا۔ کاش سقوط خلافت صرف سیاسی زوال ہوتا۔ مغربی استعمار نے نہ صرف سیاسی غلبہ حاصل کرلیاتھا بلکہ ان کے ہاں جو اجتماعیت کے گھٹیا اصول تھے، مانند وطن پر ستی، قوم پرستی اور دوسری نسلوں سے نفرت وغیرہ، یہ سب زہر امت کے جسد میں گھول دیے گئے۔ مسلم امہ کی ذہنی ساخت تبدیل ہونے کے بعد وہ وحدت کے اصولوں سے نا آشنا ہو گئے اور ہر علاقہ، ہر خطہ اور ہر جغرافیائی وحدت صرف اپنی آزادی اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے لگی ۔اجتماعی شعور سے کوسوں دور اور گردو پیش سے تغافل برتتے ہوئے۔
مسلمانوں کی وحدت تو پہلے ہی دوسرے اجنبی شعاروں کی وجہ سے پارہ پارہ تھی اس پر مستزاد استعمار نے مسلمانوں کے مرکز اور مقدس مقام میں صہیونی ریاست کا ناسور کھڑا کردیا۔ امت مسلمہ کی وحدت اور شعوری بیداری کے امکان کو ختم کرنے کے لئے عالم اسلام کے وسط میں صہیونی ریاست کا وجود استعمار کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ عرب اتحاد ہو یا عالم اسلام کا اتحاد ہو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل ہے ۔
جہاں تک استعمار ی ہتھکنڈوں کا تعلق ہے جن کے ذریعے استعمار نے وحدت امت کے تصورکی بجائے دوسرے ’ ازم ‘ عالم اسلام میں داخل کیے.... تو مغرب کی یہ خدمت عالم اسلام میں سے چند سیاسی ضمیر فروش لوگوں نے کی ہے۔ جہاں تک باشعور مسلم عوام ہیں تو وہ اب بھی قومی، وطنی یا نسلی وحدتوں کو نہیں مانتے ہیں اور امت کے اجتماعی وجود کا تصور اپنے قلب و شعور میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ فلسطین ( جہاں الم ناک ہے وہاں ) اس مسئلے نے امت کے وحدت کے شعور کو بھی بیدار رکھا ہوا ہے۔ صہیونی عزائم سے بھی عوام مسلمان اس لیے باخبر ہیں اور اسے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں کیونکہ فلسطین میں صیہونی ریاست موجود ہے۔ فلسطین سے اہل اسلام کی تعلق داری محض اتنی نہیں کہ اس سر زمین کے باسی مسلمان ہیں اور اس پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ فلسطین میں القدس کا مقدس شہر ہے جہاں مسجد اقصیٰ ہے ۔ یہ خطہ مسلمانوں کے مقدس مقامات میں مسجد حرام کے ساتھ ذکر ہوتا ہے۔ مسئلہ فلسطین سے اہل اسلام کی وابستگی کی صرف ایک ہی بنیاد ہے اور وہ اسلام ہے۔ اس خطے نے اور مسلمانوں کے عقیدے نے انہیں ایک جسم کی مانند کردیا ہے۔ مسجد اقصیٰ کی طرف اگر سواریاں کھنچی چلی جاتی ہیں ( تین مسجدوں کا قصد کرکے سفر کرنا ہمارے دین میں بہت بڑی نیکی کاکام ہے بلکہ ان تین مسجدوں کے علاوہ قصد کرکے کسی عبادت گاہ کا رخ نہیں کیا جاسکتا ؛ مسجد حرام مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ) تو ارض فلسطین پر یہودی قبضے کی وجہ سے مسلمانوں کا شعور ایک جیسا ہے یہاں تک کے عوام مسلمان اپنے خطے اور علاقے کے مسائل سے بھی زیادہ اہمیت اس مسئلے کو دیتے ہیں۔
اس مختصر کتابچے میں مسئلہ فلسطین کے بنیادی حقائق بہت عمدگی سے بیان کیے گئے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کا متن ہر عربی اور عجمی مسلمان کو ازبرہوجانا چاہیے بلکہ دنیا کے ہر معتدل انسان کو اس کتابچے میں مذکور سچائیوں کا اعتراف کرنا چاہیے ۔
ڈاکٹر محسن محمد صالح کی یہ کاوش اگرچہ بنیادی طور پر فلسطین کے مسئلے کو بیان کرنے کیلئے لکھی گئی ہے لیکن صہیونی خطرہ صرف فلسطین کے خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ خطرہ پورے عالم اسلام کو ہے۔ یہودیوں کے نزدیک داؤد کی سلطنت ( اسرائیل ) فلسطین تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ مشرق و مغرب چہار سودریائے فرات سے جنوب میں خط استواء تک پھیلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کے مسلمان اس مسئلے کو سب سے زیادہ سنگین سمجھتے ہیں اورتمام دشمنوں سے بڑھ کر اس دشمن سے نبرد آزما ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
کتبہ : ڈاکٹر محمد عمارہ
اگست 2001ء
مسئلہ فلسطین
تاریخی حقائق کے تناظر میں ایک اسلامی تجزیہ
(1) فلسطین کا حدود اربع : ملک شام کے جنوب مغربی علاقے کو فلسطین کہتے ہیں۔ فلسطین براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر ابیض متوسط (Mediterranian Sea) جس کا دوسرا نام بحیرۂ روم رہا ہے، کے ساحل پر واقع ہے۔ فلسطین ایک طرف براعظم افریقہ اور ایشیا کے درمیان پل کا کام کرتا ہے تو دوسری طرف براعظم یورپ کے انتہائی قریب واقع ہے۔ فلسطین کے شمال میں لبنان ہے؛ مشرق میں اردن اور جنوب مغرب میں مصر واقع ہے۔ فلسطین کا موجودہ رقبہ 27ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ آب و ہوا کے لحاظ سے یہ خطہ معتدل سمجھا جاتا ہے ۔
(2) تہذیب و تمدن کا پہلا گہوارہ: فلسطین کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق گیارہ ہزار سال پہلے جہاں سب سے پہلے انسان نے زمین سے فصل اگائی اورجہاں پہلی مرتبہ انسان بستی بنا کر رہنے لگے وہ سر زمین فلسطین تھی ۔دنیا کا قدیم ترین شہر ’اریحا‘ اسی سر زمین میں تہذیب و تمدن کا اولین گہوارہ بنا تھا۔ گزشتہ آٹھ ہزار سالوں سے یہ شہر آباد چلا آرہا ہے ۔
(3) اس خطے کے فضائل: سر زمین فلسطین تمام مسلمانوں کیلئے ایک مقدس مقام ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر فلسطین کو مبارک سر زمین کہا گیا ہے۔ یہیں پر مسجد اقصیٰ واقع ہے جو اہل اسلام کا پہلا قبلہ اور زمین پر مسجد حرام کے بعد دوسری مسجد ہے ۔یہاں اس مسجد میں نماز پڑھنے کا درجہ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد فضیلت رکھتا ہے۔ یہیں سے رسول اللہ ﷺ معراج پر گئے تھے۔ معراج کی منزل سے پہلے مکہ مکرمہ سے آپ ایک ہی رات میں یہاں وارد ہوئے تھے۔ یہ بے شمار نبیوں کی دعوت کی بھی سر زمین ہے اور ان کا مدفن بھی ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اس سر زمین پر حشر ہو گا اور اسی سرزمین پر لوگ دوبارہ جِلائے جائیں گے۔ آخری معرکہ (مسیح بن مریم اور یہودیوں کے دجال ) میں مسلمانوں کا پڑاؤ ( دارالاسلام ) یہیں ہو گا۔ اس سر زمین کو یہ حیثیت بھی حاصل ہے کہ یہاں محض اللہ کی خوشنودی کیلئے مقیم ہو نا دوسری جگہ جہاد کرنے کے مساوی فضیلت رکھتا ہے۔ اس خطے میں ہمیشہ ایک گروہ ہوگا جو حق پر قائم رہے گا ۔
(4) تورات و انجیل میں اس خطے کی عظمت: ارض فلسطین صرف مسلمانوں کے نزدیک ہی مقدس سر زمین نہیں ہے یہود و نصاریٰ کی مذہبی تعلیمات کے لحاظ سے بھی یہ مقدس زمین ہے ۔یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تو رات میں جس سر زمین کو ارض موعود ( وہ زمین جہاں یہودیوں میں سے ایمان لانے والوں کو بے خانمائی کی بجائے ایک مستقر عطا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے عہد کیا تھا ) کہا گیا ہے وہ یہی خطہ ہے۔ یہودی اس زمین سے اپنا تاریخی رشتہ سمجھتے ہیں۔ یہ سرزمین بنی اسرائیل کے انبیاء کا مدفن ہے۔ یہودی مقدسات بھی یہاں موجود ہیں؛ قدس یا بیت المقدس میں بھی اور فلسطین کے دوسرے شہر الخلیل میں بھی ۔
دوسری طرف عیسائی اس سر زمین کو عیسائیت کا گہوارہ سمجھتے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت با سعادت یہیں ہوئی تھی۔ عیسٰی علیہ السلام کی دعوت کا میدان بھی یہی سر زمین تھی اور یہاں عیسائیوں کے اہم ترین دینی مراکز بیت المقدس ‘ بیت اللحم اور ناصرہ کے شہر میں واقع ہیں ۔
(5) بنی اسرائیل کے انبیاء کی بابت مسلمانوں کا عقیدہ: مسلمانوں کا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ وہ داؤد علیہ السلام ؛سلیمان علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء اور صالحین کے حقیقی اور جائز وارث ہیں۔ بلاشبہ بنی اسرائیل کے انبیاء نے اللہ کی توحید قائم کرتے ہوئے یہاں ایک عرصے تک حکومت کی تھی۔ بنی اسرائیل کے انبیاء کا دین دین توحید تھا جس کے اصلی وارث اب اہل اسلام ہیں۔ بنی اسرائیل کے انبیاء کی وراثت دین کی وراثت ہے۔ تو حید کا علم مسلمانوں نے اٹھا رکھا ہے۔ مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ بنی اسرائیل ہدایت کا راستہ چھوڑ چکے ہیں۔ یہودی اپنی کتاب میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ کہ بنی اسرائیل اپنے انبیاء کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے جس کی پاداش میں خدا کا غضب اور لعنت ان کی وراثت میں آئی ہے ۔
(6) غیر مسلموں سے مسلمانوں کے اصول سیاست: مسلمانوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں متعدد بار یہاں حکومت کی ہے۔ مسلمانوں کے سیاسی اصول وسعت نظری، درگزر کرنا، دوسرے مذاہب کے پیرو کار وں کو انسانی برابری کے اصول پر جینے کا حق دینا۔ ان کے تمام حقوق ادا کرنا خصوصاً بیت المقدس میں مقیم غیر مسلموں سے تو حکومت اور بھی نرمی سے پیش آیا کرتی تھی ( کیونکہ اسلامی عقیدے کی رو سے یہ ارض مقدس ہے جہاں اللہ کو فساد نا پسند ہے ) دوسری طرف یہاں جب بھی حکومت غیر مسلموں کے پاس آئی تو انہوں نے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کو ہرگز برداشت نہ کیا۔ انہیں ہر طرح کی اذیت پہنچاتے تھے اور جلداز جلد غیر مذہب کے پیرو کاروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سعی کرتے تھے ۔
(7) ارض فلسطین کے اولین باسی: علم تاریخ کی رو سے خطہ فلسطین کو جس قوم نے سب سے پہلے آباد کیا تھاوہ جزیرہ عرب سے نقل مکانی کرنے والے کنعانی تھے۔ یہ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ کنعانیوں نے یہاں اپنی ثقافت اور طرز زندگی کو رائج کیا۔ نیز اس وقت اس خطے کو ارض کنعان کہا جاتا تھا۔ جہاں تک موجودہ فلسطینی آبادی کا تعلق ہے تو یہ نسل بھی کنعان کے سلسلے سے ہے یا پھر ان اقوام کے اختلاط سے ان کا تعلق ہے جو بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں آبادتھے جنہیں اس وقت ’بلست‘ یا فلسطی‘ کہا جاتا تھا یا پھر دوسرے عرب قبائل کے سلسلے سے جا کر ان کا نسب ملتا ہے جو ارض کنعان میں آباد ہو گئے تھے۔ سیاسی لحاظ سے فلسطین پر مختلف قوموں کی حکمرانی رہی ہے لیکن فلسطین کو بغیر کسی انقطاع کے آباد رکھنے والی ایک ہی قوم رہی ہے جو کہ خود فلسطینی ہیں ۔
ظہوراسلام کے بعد فلسطینیوں کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی اور وہاں کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بھی عربی زبان بن گئی۔ 15ہجری سے لے کر تادم تحریر فلسطین کی ایک ہی شناخت اسلام رہی ہے اور تایخ کے اس طویل ترین عرصے میں اسلام کے علاوہ ان کی اور کوئی شناخت نہیں رہی۔اسلامی شناخت میں اس سے بھی فرق نہیں پڑا کہ وہاں کی اصل آبادی کا ایک حصہ یہودیوں کے جبر کی وجہ سے 1948 ء میں دوسرے ممالک میں ہجرت پر مجبور کر دیا گیاتھا۔
(8) صیہونیوں کا جھوٹا دعویٰ: یہودیوں کا یہ دعویٰ کہ وہ بھی تاریخ قدیم سے اس سر زمین کے آباد کار رہے ہیں، تاریخی حقائق اس دعوے کو جھٹلاتے ہیں۔ فلسطینی تو اس سر زمین کی آباد کاری میں گزشتہ پندرہ سوسال سے مصروف کار ہیں جبکہ اسرائیل کا جبری قیام ( مملکت داؤد ) تو آج کی بات ہے۔ یہ درست ہے کہ تاریخ کے ایک حصے میں بنو اسرائیل کو فلسطین کے بعض حصوں میں حکومت کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ وہ بھی فلسطین کے بعض حصوں میں نہ کہ پورے فلسطین میں۔ یہ کوئی چار سو سال کا عرصہ بنتا ہے؛ خاص طور پر584 قبل مسیح سے لے کر 1000قبل مسیح تک۔ اس کے بعد بنو اسرائیل ارض کنعان سے نقل پذیر ہو گئے ۔ 1948 ء تک انہیں اپنا ’آبائی وطن ‘ یاد ہی نہ رہا!
دراصل فلسطین کے بعض حصوں میں بنو اسرائیل کی حکمرانی کی وہی حیثیت ہے جو اس سر زمین میں دوسرے نو واردوں کی حکمرانی کی ہے۔ فلسطین میں دوسرے خطوں کی اقوام آکر حکمرانی کر جا یا کرتی رہی ہیں لیکن اس خطے کو جو قوم مسلسل آباد رکھے ہوئے ہے اور جو اسے اپنا وطن سمجھتی ہے وہ صرف ایک ہی قوم؛ فلسطینی رہی ہے۔ بنو اسرائیل کی فلسطین میں حکمرانی کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں جتنی دوسری غیر قوموں کی فلسطین پر حکمرانی ۔جیسے آشوری عہد یا فارس کی حکمرانی؛ مصر کے فراعنہ کی حکمرانی یا یونانیوں اور رومیوں کی فلسطین پر حکمرانی ۔ ہر حاکم قوم کا اقتدار بالآخر زوال پذیر ہوا اور فلسطینیوں کا وطن جیسے پہلے اپنے ہم وطنوں کے پاس تھا انہیں کے پاس رہا ۔
فلسطینی اپنی سر زمین چھوڑ کر کہیں نہ گئے۔ وہ اپنے وطن میں ہی میں آباد رہے ۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد وہ پھر کسی اور دین میں داخل نہ ہوئے۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ فلسطین میں اسلام کی حکمرانی کا عرصہ سب سے طویل بارہ صدیوں پر مشتمل رہا۔ فلسطین کی تاریخ میں صرف 90 برس کی قلیل مدت ایسی ہے جس میں عیسائیوں کو صلیبی جنگوں میں سے ایک معرکے میں فتح پانے پر حکمرانی کا موقع ملا ۔
جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے تو وہ فلسطین میں عارضی قیام کے بعد ایسے تارک خطہ ہو ئے کہ اٹھارہ سو سال تک انہیں یہاں کا خیال ہی نہیں آیا۔ سنہ 135 عیسوی تا بیسوی صدی کے طویل عرصے کے دوران میں فلسطین کی سر زمین یہودیوں کے وجود سے خالی رہی؛ سیاسی لحاظ بھی؛ ثقافتی لحاظ سے بھی؛ اور عمر انی لحاظ سے بھی۔ یہی نہیں یہودیوں کی مذہبی تعلیمات میں فلسطین کی طرف ان کا لوٹنا حرام ٹھہرا یا گیا ہے ۔
یہودیوں کے معروف رائٹر آرتھر کوسٹلر نے جو معلومات جمع کی ہیں ان کی رو سے 80 فیصد یہودی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے یہودیوں کا کوئی رشتہ ارض فلسطین سے نہیں بنتا۔ اسی طرح بنی اسرائیل کی بھی فلسطین سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ یہاں ہم معزز قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہودی مذہب کے ماننے والوں کی موجودہ اکثریت نسلی طور پر اسرائیل ( یعقوب علیہ السلام) کی نسل سے نہیں ہے بلکہ انہیں ’یہود خزر ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نسل بنی اسرائیل سے نہیں۔یہود خزر ترکی نسل کے تاتاری قبائل سے ہیں جن کا وطن قوقاز (کوکیشیا) کا شمالی علاقہ رہا ہے۔ اس نسل کے لوگ آٹھویں صدی عیسوی میں یہودی ہو گئے تھے۔ اگر یہودی مذہب کے پیرو کاروں کو کہیں لوٹنے اور اپنا وطن بنانے کا حق ہے تو وہ ارض فلسطین نہیں بلکہ روس کا جنوبی علاقہ ہے۔
یہودیوں کا یہ دعویٰ کہ ان کا موسیٰ علیہ السلام کے وقت فلسطین سے تعلق ہو گیا تھا حقیقی لحاظ سے غیر ثابت شدہ دعویٰ ہے۔تاریخی لحاظ سے یہ بات ثابت ہے کہ بنو اسرائیل کی اکثریت نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فلسطین کی طرف ( غزوے کے لئے ) چلنے سے انکار کردیا تھا ۔بابل ( عراق ) میں جب انہیں نقل مکانی کرنا پڑی تو اس کے بعد جب فارس کی فلسطین پر عملداری قائم ہوئی تو فارس کے حکمران’ خورس‘ نے انہیں فلسطین جانے کی اجازت دے دی تھی لیکن بیشتر یہود نے عراق رہنے کو ہی ترجیح دی اور واپس لوٹنے سے انکار کردیا۔ علاوہ ازیں، دنیا کی طویل تاریخ سے لے کر اب تک کبھی بھی ارض فلسطین میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب باقی دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی کل آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ نہیں رہا ۔
(9) صیہونیت کا آغاز: صہیونی تحریک جس نے اپنے لیے فلسطین میں قومی وطن کے وجود پر زور دیا کے برپا ہونے میں متعدد اسباب کار فرما رہے ہیں۔ اس تحریک کا آغاز یورپ کے عیسائی ماحول میں ہوا خصوصاً جن دنوں پر وٹسنٹ عیسائیوں کی تحریک زوروں پر تھی۔ یہ سولہوی صدی کا زمانہ تھا۔ اسی طرح یورپ میں قوم پر ستانہ تحریکیں اور وطن پر ستانہ تحریکوں نے صہیونی تحریک کے پختہ ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے خاص طور پر انیسوی صدی کی قوم پر ستانہ اور وطن پر ستانہ تحریکیں ۔
مشرقی یورپ میں صیہونیت کے فروغ میں خاص طور پراس قضیے نے اہم کردار ادا کیا ہے جسے یہودیوں کی سیاسی اصطلاح میں’مسئلہ یہود‘(jewish question)کہا جاتا ہے۔ اسی طرح روس میں یہودیوں کی نسل کشی نے بھی صہیونی تحریک کے برپا ہونے میں ا ہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں یہودیوں کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ اور دوسری طرف یہوودیوں میں ’تحریک تنویر ‘(Reform Judaism ؛یہودی عقائد میں ایسی لچک پیدا کرنا جو یورپ کے لیے قابل قبول ہو یعنی ایمانیات کو سماجی مسئلے سے زیادہ اہمیت نہ دینا) کی نا کامی بھی صیہونیت کے فروغ میں مدد گار رہی ہے۔
(10) مغربی استعمار کی سازش: مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ نے متعدد اغراض کے لئے عالم اسلام کے بیچ میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں لا یا۔ اس چھوٹی مگر خطر ناک ریاست سے ایک طرف عالم اسلام کے دوبازو جدا ہو گئے ایک طرف افریقہ کے مسلم ممالک تھے تو دوسری طرف ایشیاء کے مسلم ممالک اور ان کے بیچوں بیچ صہیونی ریاست جو انہیں کاٹنے کیلئے بنائی گئی تھی۔ صہیونی ریاست مسلم خطوں کی وحدت میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت رہی ہے۔ اس سازش کی وجہ سے عالم اسلام میں متحدہ قوت کے ابھرنے اور ترقی کے امکانات کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ مسلم ممالک صرف کنزیو مر( صارفین) ہیں اور صہیونی ریاست مغربی مال کی مشرق میں فروخت کی گزرگاہ۔صہیونی ریاست کے ناسور کی وجہ سے عظیم اسلامی وحدت جنم نہیں لے پائی ہے جو اس ریاست کی غیر موجودگی میں قدرتی طور پر عثمانی خلافت کے سقوط کے خلاء کو پر کرسکتی تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ عظیم تر اسلامی وحدت میں رکاوٹ عالم اسلام کے بیچ میں صہیونی ریاست کا قائم رہنا ہے۔ یہ جغرافیائی اور نظریاتی وحدت جس میں رکاوٹ صہیونی وجود ہے اُس وقت تک اپنے طبعی انضمام کو نہیں پہنچ سکتی جب تک صہیونی ریاست کو مٹا نہیں دیا جاتا ۔
(11) صیہونیت کے مقاصد: صہیونی تحریک کی بنیاد اگست 1897ء میں سوئٹزر لینڈ میں تھیوڈور ہرتشل کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ تحریک کے بانی نے روز اول سے اس تحریک کو استعماری مقاصد کیلئے بنا یا تھا جس کا مقصد مغربی ممالک کے اہداف پورے کرنا تھا۔ تمام تر چالاکی کے باوجود یہ تحریک پہلی جنگ عظیم تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرپائی تھی۔ صہیونی تحریک ایک نسل پر ستانہ تحریک ہے جس کی رگوں میں مذہبی قومی عناصر پائے گئے ہیں۔ اس تحریک کے پروان پانے کا انحصار اس اصول پر رکھا گیا ہے کہ فلسطین کے اصل باسیوں کے کتنے حقوق چھین کر نو واردوں کو دیے جا سکتے ہیں۔ ایک دفعہ صہیونی تحریک کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد مذہبی یہودی اور سیکولر یہودی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ جب تک کوئی یہودی صہیونی تحریک کا رکن ہے وہ انہی مقاصد کی تکمیل میں اپنی صلاحیتیں کھپائے گا جس کیلئے صہیونی تحریک برپاکی گئی ہے ۔
(12) فلسطین پر برطانوی انتداب: برطانیہ نے 1917 میں اعلان بالفور کے اعلامیے کے ساتھ فلسطین میں صہیونی قومی ریاست کی بنیاد رکھی۔ ستمبر 1918میں برطانیہ نے خطے پر قبضہ مکمل کرتے ہوئے فلسطینی اراضی کا ایک حصہ صیہونیوں کو دے دیا۔ اس سے پہلے برطانیہ عرب شیوخ سے معاہدہ کرکے خطے میں داخل ہوا تھا کہ وہ عرب ریاستوں کو مکمل آزادی اور خود مختاری دے گا۔ یہ معاہدہ برطانیہ نے عربوں کے متحدہ نمائندے الشریف حسین سے کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے حصے پر قبضے کے بعد برطانیہ نے کسی معاہدے کا پاس خیال نہ کیا اور عربوں کو کبھی آزادی اور خود مختاری حاصل نہ ہوسکی۔ معاہدہ سائکس پیکو کے ذریعے مشرق وسطیٰ بشمول عراق اور وسیع ترشام فرانس اور برطانیہ کے اثرو نفوذ کے درمیان چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم کردیا گیا۔ 1916میں سائکس پیکو (Sykes Picot Agreement) معاہدے کے تحت فلسطین کو بین الاقوامی خطہ قرار دیا گیا۔ پھر اس کے بعد دوسرے معاہدے سان ریموکانفرنس؛San Remo ( اپریل 1920) کے تحت فلسطین پر بین الاقوامی خطے کی بجائے برطانیہ کے انتداب کے حق کو تسلیم کرلیا گیا جسے مئی 1922ء میں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کرلیا ۔
(13) صیہونیت کے لیے برطانیہ کی خدمات: برطانیہ نے فلسطین پر اپنے انتداب کے دوران میں( 1918۔ 1948) یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ یہودی آباد کاری میں اضافہ ان اعدادو شمار سے لگا یا جاسکتا ہے کہ 1918میں فلسطین میں صرف( 55000)پچپن ہزار یہودی تھے اور 1948میں نقل پذیر ہو نے والے یہودیوں نے یہودی آبادی کو( 646000)چھ لاکھ چھیالیس ہزارتک بڑھا دیا۔ یعنی پہلے یہودی کل آبادی کا آٹھ فیصد تھے اور اس کے بعد ان کی آبادی کا تناسب تھا 31.7فیصدتھا۔ اسی طرح برطانیہ نے فلسطینی اراضی کی یہودیوں کو فروخت کے کئی طریقے نکال لیے۔ برطانیہ کے انتداب سے پہلے یہودی کل اراضی کے دو فیصد کے مالک تھے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد یہودی 6.7فیصد اراضی کے مالک ہو گئے۔ یہ اراضی یا تو سرکار کی طرف سے الاٹ ہوئی یا پھر فلسطین میں موجود غیر فلسطینیو ں نے یہ اراضی فروخت کی تھی۔ زمین کی خریداری پر یہودیوں کی طرف سے پرکشش قیمت پر بھی غریب فلسطینی اپنی اراضی نہ بیچتے تھے۔ تیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود فلسطین کے اصل باشندے 93.3 فیصد اراضی کے مالک تھے اورفلسطینی آبادی کا تناسب 68.3 فیصد تھا ۔
برطانیہ نے نوواردوں کےلئے متعدد اقتصادی ‘ سیاسی اور تعلیمی اور عسکری پراجیکٹ بنائے ۔ 1948 تک برطانیہ کی طرف سے 292یہودی خیمہ بستیاں تعمیر پاچکی تھیں۔صیہونی ستر ہزار فوج کیل کانٹے سے لیس تھی اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے آزاد ملک ہونے کا اعلان کردیا ۔
(14) تاریخ تحریک مزاحمت: بلاشبہ برطانیہ نے فلسطینیوں کے خلاف بڑی بڑی سازشیں کی تھیں لیکن وہاں کے غیور مسلمانوں نے برطانیہ کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت جاری رکھی اور غلامی پر کبھی راضی نہ ہوئے۔ فلسطین میں برطانیہ سے آزادی پانے کی تحریکیں برابر چلتی رہیں۔ آزادی کی تحریک میں اسلامی جماعتیں بھی تھیں اور قوم پرست تحریکیں بھی۔ اسلامی قیادت کے بڑے ناموں میں موسیٰ کاظم اور الحاج امین حسینی کی شخصیات مشہور و معروف ہیں جنہیں عوام کی بہت بڑی حمایت حاصل تھی۔ بیسوی صدی کی ابتدا ء میں فلسطینیوں میں برطانیہ کے خلاف کئی بغاوتیں ہوئیں۔ان بغاوتوں میں اہم ترین: 1920میں القدس کی بغاوت؛ 1931میں ’یا فا‘کی بغاوت؛ 1929میں البراق کی بغاوت اور اکتوبر 1932کی بغاوت۔ اسی طرح عزالدین قسام نے باضابطہ جہاد کا آغاز کیا۔ عبدالقادر حسینی نے ’ مقدس جہاد ‘ کے نام سے جہاد کا آغاز کیا۔ان پے درپے بغاوتوں کی وجہ سے( 1936۔ 1939)جنہیں فلسطین کی جہادی تاریخ میں’انقلاب عظیم‘کہا جاتا ہے؛برطانیہ اس بات پر مجبور ہو گیا کہ وائیٹ بک میں اس نے اگلے دس سالوں میں آزاد فلسطین کے قیام کی تحریر لکھ دی۔تحریر میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ برطانیہ سرکار معین رقبے سے زیادہ فلسطینی اراضی کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی لکھا گیا کہ پانچ سالوں کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی نقل مکانی ممنوع قرار دے دی جائے گی۔
اس تحریر کے بعد ہوا یہ کہ دنیا میں خاصی بڑی تبدیلیاں رونماں ہو گئیں۔ برطانیہ کی بجائے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا اثرو نفوذ بڑھ گیا۔ 1945 میں جب وائیٹ بک میں ثبت کی گئی تحریر کی تکمیل ہونا تھی تو امریکہ نے ایسا نہیں ہونے دیابلکہ فلسطینی اراضی کی فروخت کے ساتھ یہودیوں کی فلسطین میں نقل مکانی اور بڑھ گئی ۔
(15 ) فلسطین کی تقسیم: 1948 میں اقوام متحدہ کے مشترکہ اجلاس میں قرار داد پاس کی گئی کہ فلسطین کوتقسیم کرکے دو ملک بنادیئے جائیں ایک عربی خطہ جو کل اراضی کا 45فیصد ہو اور یہودی خطہ جو کل فلسطینی اراضی کا 54فیصد ہو جبکہ قرار داد میں ایک فیصد رقبہ ( قدس مبارک یا بیت المقدس) بین الاقوامی عملداری کے سپرد کرنے کی سفارش کی گئی۔
یہاں یہ بات قارئین کیلئے جان لینا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے مشترکہ اجلاس میں اگر کوئی قرار داد پاس کی جائے تو اقوام متحدہ کے میثاق کی رو سے ہی اس کی قانونی حیثیت اس معنی میں نہیں ہو تی کہ رکن ممالک ایسی قرار داد پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہوں گے۔ علاوہ اس کے تقسیم فلسطین کی مجوزہ قرار داد بذات خود اقوام متحدہ کے میثاق کے مخالف ہے۔ اقوام متحدہ کے میثاق میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر خطے کے عوام کو مکمل آزادی ہوگی اور یہ کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے حق دار ہوں گے۔ مزید براں اس قرار داد کی بابت نہ فلسطین کے عوام کو اعتماد میں لیا گیا؛ نہ ا ن سے رائے شماری لی گئی اور نہ کوئی وو ٹنگ سامنے آئی۔ اس قرار داد کے جانبدارانہ اور مبنی بر ظلم ہونے کی اس سے بڑی اور کیاد لیل ہو گی کہ غیر ملکی یہودی جو اقلیت میں بھی تھے انہیں اصل باشندوں کی نسبت زیادہ حصہ دیا گیا ۔
(16) صیہونی ریاست کا اعلان: 14مئی 1948 کی شام اسرائیل نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا ۔اسرائیل نے جلد ہی عرب فوج کو شکست سے دو چار کردیا۔ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عرب فوج کی قیادت بدنظمی کا بدترین نمونہ پیش کر رہی تھی۔اس کے علاوہ عرب فوج مکمل طور پر آزاد بھی نہ تھی۔ فوج کے ایک حصے پر استعمار کا شکنجہ کساہوا تھا۔ جنگ کے بعد اسرائیل فلسطین کی 77 فیصد اراضی کا مالک تھا۔ صہیونی ریاست نے اپنے قیام کے ساتھ ہی آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا۔ ملک بدر ہونے والے فلسطینیوں کے علاقوں میں یہودی آباد کیے گئے۔ 1948 میں فلسطینی آبادی چودہ لاکھ تھی ۔جن علاقوں کو صہیونی ریاست نے فلسطینیوں سے خالی کرایا تھا وہاں نو لاکھ سے زیادہ آبادی تھی 478گاؤں تباہ کرکے وہاں اسرائیلی بستیاں بسائی گئی تھیں ۔یاد رہے کہ مقبوضہ علاقے میں کل 585گاؤں تھے۔ کم از کم 34 مرتبہ فلسطینیوں کا قتل عام ہوا۔ باقی ماندہ فلسطینی اراضی کے ایک بڑے حصے (5876 کلو میٹر ) کو ایک معاہدے کے ذریعے اردن نے اپنے اندر سمو لیا اور غزہ کے ایک حصے (363 کلو میٹر ) پرمصر کا اثرو نفوذ قائم ہو گیا۔ اقوام متحدہ نے اس شرط پر اسرائیل کو تسلیم کرلیا کہ وہ ملک بدر کیے جانے والے فلسطینیوں کو ملک واپس آنے کی اجازت دے گا۔ اس قرار داد پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا ۔
(17) جمال عبد الناصر کی قیادت پر اعتماد: 1948۔1967 مصر کے جمال عبدالناصر نے فلسطینیوں کیلئے دو تحریکوں کے نام سے اسرائیل کے خلاف ردعمل کاآغاز کیا۔ ایک کا عنوان تھا’ معرکہ قومیہ‘ اور دوسری تحریک کا عنوان تھا ’آزادی کا راستہ اتحاد ‘۔فلسطین تنازع کے حل کے لیے عرب ریاستوں نے جمال عبدالناصر کی قیادت تسلیم کرلی دوسری طرف فلسطین کی اندرونی قوم پرست تحریکوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی مزاحمت ترک کردی کہ ان کے بارے میں عرب قیادتوں کو اختیار ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کا حل نکالیں ۔
حقیقت یہ تھی کہ عرب ریاستوں کے پاس مسئلے کے حل کیلئے کوئی متفقہ لائحہ عمل نہ تھا اور نہ ہی وہ اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے میں سنجیدہ نظر آتے تھے۔ فلسطینی مزاحمت اکادکا دیکھنے کو ملتی رہی لیکن کوئی ایسی اسکیم سامنے نہ آسکی جسے فلسطینی مزاحمت کا مکمل منصوبہ کہا جاسکے۔ صہیونیوں کے کسی نئے ظلم کے خلاف جذبات میں آکر عوام مسلمان شدید رد عمل ظاہر کرتے رہے لیکن کچھ عرصے کے بعد اس کی شدت ختم ہو جاتی جبکہ صہیونی قوت روز بروز بڑھتی جارہی تھی ۔
(18) جمال عبدالناصر کے ذاتی اثرو رسوخ سے 1964 میں احمد شقیری کی قیادت میں وطن پرست تحریک ’ تحریک آزادی فلسطین ‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ جمال عبدالناصر دیکھ رہا تھا کہ فلسطین میں زیر زمین آزادی کی تحریکیں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ اسے خطرہ تھا کہ فلسطینی تحریکیں کہیں خود مختار نہ ہوجائیں خاص طورپر تحریک’ الفتح‘ سے اسے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ جمال عبدالناصر کی ’خدمات ‘ سے آزاد ہو جائے گی اس لیے جمال عبدالناصر نے خود مداخلت کرکے اپنی سرپرستی میں تحریک آزادی کی بنیاد رکھ دی ۔تحریک’الفتح‘ 1957 سے سرگرم عمل تھی۔ 1948 سے پہلے والی حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے تحریک الفتح نے عہد کیا کہ فلسطین کی آزادی کا صرف ایک ہی طریقہ مسلح جہاد ہے ۔خالص فلسطینی تحریک اور قیادت ہونے کی وجہ سے تحریک الفتح فلسطین کی سب سے زیادہ ہر دل عزیز تحریک بن گئی تھی۔ فروری 1969 میں یاسر عرفات نے تحریک کی قیادت سنبھالی اور اس کے ساتھ فدائی تحریکیں اس تحریک میں شامل ہو تی گئیں۔ 1974 میں عرب ریاستوں نے الفتح کو فلسطین کی واحد قانونی تحریک تسلیم کرلیا۔ اقوام متحدہ نے بھی اسی سال اس تنظیم کی اقوام متحدہ میں بطور فلسطینی عوام کی واحد نمائندہ تنظیم کے رکنیت تسلیم کرلی ۔
(19) متحدہ عرب فوجوں کی شکست: 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اگلے چند ہی دنوں میں فلسطین کی باقی اراضی پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ مغربی کنارے کا مشرقی علاقہ جہاں القدس واقع ہے یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ غزہ کا ایک حصہ ‘سوریا میں واقع گولان کا پہاڑی سلسلہ اور مصر کا صحرا ئے سیناء بھی اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے مزید تین لاکھ تیس ہزار فلسطینی ملک بدر کردیئے ۔
(20) فلسطین کی اسلامی شناخت مٹانا: صہیونی ریاست اول روز سے اس منصوبے پر عمل پیرا تھی کہ فلسطین کی اسلامی شناخت ختم کردے اور خطے کو یہودی آبادی؛ ثقافت اور تمدن میں تبدیل کردے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے 1948 کے مقبوضہ اراضی کا 96فیصد سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ یہ وہ علاقے تھے جہاں سے یا تو مقامی آبادی کو ملک بدر کیا گیا تھا یا یہ اوقاف کی زمین تھی جو صدیوں سے اسلامی مقاصد کیلئے وقف چلی آرہی تھی۔ ان علاقوں سے اسلامی شناخت کے تمام نشانات مٹا کر وہاں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی کنارے پر 192یہودی بستیاں بسائی گئیں جو کہ مغربی کنارے کی کل اراضی کا 69فیصد بنتا ہے۔ غزہ کے علاقے کا 30فیصد سرکاری تحویل میں لیا گیا اور یہاں 14 یہودی بستیاں تعمیر کی گئیں۔ شکست کے نتیجے میں ملک بدر کیے گئے فلسطینیوں کی وطن واپسی کا سوال ہی ختم ہو گیا۔مختلف ممالک کے یہودی اب بھر پور اعتماد کے ساتھ اور بڑی تیزی سے فلسطین ہجرت کرنے لگے جس کی وجہ سے 1949 سے لے کر 2000 ء تک 28لاکھ یہودی فلسطین میں آ کرآباد ہو ئے ۔جنگ میں فتح پانے کے بعد صیہونی ریاست نے طے کیا تھا کہ سنہ 2005 تک صہیونی ریاست کی کل یہودی آبادی 53لاکھ تک ہونا چاہیئے ۔پچاس فیصد سے زائد مقامی آبادی کو ملک بدر کر کے ان کی جگہ اتنی بڑی یہودی آبادی اور ان کی بودو باش اور تمدن سے قدیم فلسطین کا مشرقی اور اسلامی حسن ختم ہو کر رہ گیا ۔فلسطین کی اراضی پر صہیونی مقبوضہ جات یہودی آباد کاری کا چربہ پیش کرنے لگے ۔(عربوں کی شکست کے یہ سب ثمرات فلسطینیوں کو اٹھانا پڑے۔)
(21) بیت المقدس کی اسلامی شناخت مٹانا: فلسطین کا قدیم تاریخی اور مقدس شہر ’القدس ‘ صہیونی ریاست کے نزدیک ان اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے جسے یہودی رنگ میں رنگنا ان کے منصوبے میں شامل رہا ہے۔ بیت المقدس کے 86فیصد علاقے کو سرکاری تحویل میں لے لیاگیا۔ مقبوضہ علاقے میں دو لاکھ اڑھتا لیس ہزار فلسطینیوں کے مقابلے میں یہاں چار لاکھ اٹھاون ہزار یہودی آبادکیے گئے ۔بیت المقدس کے مشرق میں جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے دولاکھ بیس ہزار یہودی آباد کیے گئے ۔ فلسطینیوں کے محلوں سے اس علاقے کو الگ تھلگ رکھنے کے لیے اور وہاں اسلامی تہذیب کی چھاپ چھپانے کے لیے یہودی آبادی والے علاقے کے گردا گرد شہر پناہ تعمیر کردیا گیا ہے۔ صہیونی ریاست نے اعلان کررکھا ہے کہ بیت المقدس ہی ان کا ابد آباد تک دارالحکومت رہے گا۔
یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پر کنٹرول حاصل کرنے کے ہزار جتن کرلیے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار ( دیوار براق ) کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ اس دیوار کی انتہا تک جتنا رقبہ تھا وہاں کی سب اسلامی تعمیر مٹا دی گئی ہے اور اس اراضی کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ اب تک مسجد کے زیر زمین دس کھدائیاں ہوچکی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے زیر زمین چار مستقل سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔ ان کھدائیوں اور سرنگوں کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ خطرہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہے۔ 25صہیونی شدت پسند تنظیمیں ایسی ہیں جو علانیہ مسجد اقصیٰ کو ڈھاکر وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہیں۔ 1976 سے لے کر 1998 تک 112سے زیادہ حملے مسجد پر ان تنظیموں کی طرف سے ہوچکے ہیں۔ ان میں سے 72حملے اوسلو پیکٹ کے بعد ہوئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ پر یہودی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے کیے گئے حملوں میں سب سے خطر ناک 21 اگست 1969 کی آتش زدگی کا واقعہ ہے۔
(22) مہاجر فلسطینیوں کا دوسرے ممالک کی شہریت لینے سے انکار: بے وطن کیے گئے فلسطینیوں نے دوسرے ممالک کی شہریت اور مراعات لینے سے صاف انکار کررکھا ہے ۔ وہ اپنے وطن لوٹنے پر ہی اصرار کرتے ہیں۔(وطن واپسی میں وہ فلسطینی بھی سنجیدہ ہیں جو مغربی ممالک میں مقیم ہیں)مغربی ممالک کی طرف سے فلسطینیوں کو فلسطین سے باہر آباد کرنے کے اب تک 240 منصوبے سامنے آئے ہیں لیکن ملک بدر کیے گئے فلسطینیوں نے سب کو ٹھکرا دیا ہے۔ فلسطینیوں کی وطن واپسی کے لئے اب تک اقوام متحدہ 110 قرار دادیں پاس کرچکی ہے۔ صہیونی ریاست کسی صورت میں ملک بدر کیے گئے فلسطینیوں کو واپسی کی اجازت نہیں دیتی۔ جہاں تک اقوام عالم کا تعلق ہے تو ان میں سے کوئی ملک بھی فلسطینیوں کی وطن واپسی کویقینی بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔2005ء کے اعداد و شمار کے مطابق چون لاکھ فلسطینی اپنے وطن سے باہر مہاجرت کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی کنارے سے بے دخل کیے گئے دس لاکھ فلسطینی ہیں۔ کل ملا کر یہ تعداد 64لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ مہاجرت کی زندگی گزارنے والی آبادی فلسطین کی آبادی کا 67فیصد ہے۔ فلسطینی مہاجرت کا یہ تناسب دنیا بھر میں مہاجر بستیوں میں رہنے والی کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ ہے۔ فلسطینی مہاجرت بیسوی صدی کا سب سے الم ناک اور تاریخی واقعہ ہے ۔
(23) اقوام متحدہ کا مسئلے کو مہاجرین تک محدود کرنا: اقوام متحدہ میں1949ء اور پھر 1974ء میں فلسطینی مہاجرت کے مسئلے پر رائے شماری ہوئی تھی۔اقوام متحدہ کے مشترکہ اجلاس نے واضح اکثریت سے اس بات کو تسلیم کیاکہ فلسطینیوں کو اپنے وطن لوٹنے کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ کو بھی اقوام متحدہ نے جائز قرار دیا ہے جس میں مسلح مزاحمت بھی شامل ہے اس لیے کہ ایک تو صہیونی ریاست نسل پرستی پر قائم ہے اور جانب دار ہے اور دوسرا یہ کہ ریاست اصل باشندوں کو ان کے وطن لوٹنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ امریکہ اس قرار داد کو اپنے حواریوں کے ساتھ ویٹو کر تارہا ہے اور اس پر عمل درآمد کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا ہے۔
قارئین کو اس موقع پر یاد دلاتے جائیں کہ جس اصول کو بنیاد مان کر یہودیوں کے لئے وطن کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے فلسطین میں ان کیلئے وطن بنا یا گیا ہے وہی اصول فلسطینیوں پر لاگو نہیں کیا جاتا جو طویل عرصے سے نہ صرف بے وطن ہیں بلکہ انہیں ان کے اصل وطن سے بے دخل کیا گیا ہے۔ اقوام عالم کس طرح اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے منافقت کرتی ہیں مسئلہ فلسطین اس کی سب سے بڑی شہادت ہے جبکہ اقوام متحدہ کی ایک سے زیادہ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے کہ بے وطن فلسطینیوں کو وطن لوٹنے کا حق حاصل ہے ۔اقوام متحدہ نے اسرائیل کو تسلیم کر کے کیساانصاف کیا ہے جس نے اصلی باشندوں کو بے وطن کرکے ان کی 77فیصد اراضی پر قبضہ کیا ہے۔
(24) استشہادی کار روائیاں: 1967 تا 1970 فلسطینی تاریخ میں فدائی حملوں کا سنہری زمانہ رہا ہے۔ اس عرصے میں تحریک مزاحمت کامیابی کی طرف جارہی تھی لیکن سنہ 1971 میں اردن نے مزاحمت کاروں کو اپنی سر زمین استعمال کرنے سے منع کردیا۔ اس کے بعد اگرچہ تحریک مزاحمت ختم نہیں ہوئی بلکہ لبنان کی سر زمین اس مزاحمت کیلئے استعمال ہونے لگی لیکن لبنان کی خانہ جنگی جہاں لبنان کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے وہاں تحریک مزاحمت فلسطین کوبھی نقصان ہوا ۔ 1975 تا 1990 کی لبنان کی خانہ جنگی کے علاوہ فلسطینی خیمہ بستیوں پر اسرائیل کی مسلسل بمباری؛ 1978 میں لبنان کے جنوبی حصے میں اسرائیل کی فوجوں کا گھسنا اور وہاں مزاحمت کی کارروائیوں کے خلاف بندوبست کرنا نیز اسرائیلی فوجوں کا لبنانی سر زمین کے اندر تک چلے جانا یہاں تک کہ سنہ 1972 میں بیروت کی سڑکوں پر اسرائیلی فوج کے بوٹوں کی دھمک پڑرہی تھی اور جب اسرائیل نے بیروت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اپنے مطالبات میں سب سے اہم مطالبہ یہ رکھا کہ لبنان تمام مزاحمت کاروں کو ملک بدر کردے گا ۔ اسرائیل کے شدید دباؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب ریاستوں میں سے کوئی بھی اپنی سرزمین فلسطینی مزاحمت کاروں کو استعمال کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔
(25) غیر مخلص عرب قیادت: فلسطینی مزاحمت کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ خود اس کے بھائی بند عرب رہے ہیں۔ صہیونیوں کے خلاف مزاحمت کس طرح موثر ہوتی جبکہ مزاحمت کی توانائی اپنے گھر میں عرب تنظیموں کے ساتھ پورا اترنے میں کھپ رہی تھی۔ سبھی عرب تنظیموں کی خواہش تھی کہ فلسطینی مزاحمت کا کنٹرول انہیں حاصل ہو۔ وہ فلسطینی مزاحمت کے سپو کس مین کہلا ئیں اورجب کوئی فیصلہ کن گھڑی آئے تو وہ اصل مزاحمت کاروں سے بالا بالا بڑی طاقتوں سے معاملات طے کر آئیں ۔
اکتوبر 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کو اس لحاظ سے کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس میں معنوی طور پر مصر اور سوریا کامیاب ہوئے اور امید تھی کہ فلسطین کی نمائندگی کرنے والے حقیقی کردار سامنے آگئے ہیں جو کہ متحداور ہم خیال ہیں۔ 1974 ہی میں یہ تاثر زائل ہونا شروع ہو گیا اور جلد ہی متعلقہ عرب ملکوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ شروع کردیا۔ ستمبر 1978 میں مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرلیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی وجہ سے عرب صہیونی تنازع میں سے ایک اہم اور مضبوط ترین ملک غیر جانبدار ہو گیا ۔
1980۔1988 عراق ایران جنگ سے بھی تحریک مزاحمت کو نقصان پہنچا۔ اس طویل جنگ سے نہ صرف دونوں ملک تباہ ہوئے بلکہ عرب ملکوں کے سامنے بھی ایک سے زیادہ سیاسی مسائل کھڑے ہو گئے۔ دوسری طرف تحریک مزاحمت فلسطین کی مالی اعانت میں بھی خاطر خواہ کمی ہوگئی۔ یہ وہی زمانہ ہے جس میں معدنی تیل کی قیمت آخری سطح تک گر گئی تھی ۔1990 میں عراق کا کویت پر قبضہ بھی تحریک مزاحمت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ اس سے بھی مشرق وسطیٰ کے اندرونی مسائل پیچیدہ ہو گئے۔ پھر سوویت یونین کے گرنے سے بھی مغربی بلاک کی بکھری توجہ مخصوص اہداف کی طرف مجتمع ہو گئی۔ ان اسباب کی وجہ سے فلسطینی قیادت بتدریج مسلح کارروائیوں سے دست بردار ہو کر رہ گئی اور ایک ایسے پر امن سیاسی حل پر مجبور پائی گئی جس میں ان کیلئے عمل کا میدان وہی قرار پا تا تھا جہاں ان کیلئے عمل کی کوئی گنجائش چھوڑی جاتی تھی !
خوش قسمتی سے ستر کی دہائی کا نصف آخر فلسطینی نوجوانوں میں اسلامی بیداری اور جذبہ جہاد کے ابتدائی مراحل کا زمانہ ثابت ہوا۔ اسی زمانہ میں مختلف جہادی تنظیمیں ظاہر ہوئیں جیسے’اسرۃ الجہاد‘ اور 1980 میں’ حرکت الجہاد الاسلامی‘۔ اسی طرح تنظیم ’المجاہدون الفلسطینیون‘۔ آخر الذکر تنظیم کی بنیاد اسی کی دہائی کی ابتداء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی تھی ۔
(26) انتفاضہ کا آغاز: دسمبر 1978 اور ستمبر1993 میں فلسطین کی اپنی سر زمین سے تحریک انتفاضہ نے جنم لیا۔ پہلی مرتبہ ایک خالص اسلامی تحریک نے مزاحمت کے عمل میں اپنے داخلی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے جہاد کا آغاز کیا۔ انتفاضہ مبارکہ کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ تحریک ’حماس ‘ نے بھی انتفاضہ کے ساتھ تحریک مزاحمت میں شمولیت اختیار کرلی ۔انتفاضہ نے جلد ہی عرب ریاستوں کے علاوہ بین الاقوامی طور پر توجہ حاصل کرلی اور مسئلہ فلسطین ایک مرتبہ پھر بین لاقوامی سطح پر نمایاں ہو گیا ۔
انتفاضہ کی مقبولیت سے جو سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکتے تھے وہ علاقے کے سیاسی حالات ‘ فلسطینی قیادت اور عربی قیادت کی عقلی اٹھان اور دیگر عوامل کی وجہ سے آزادی فلسطین کے پر زور مطالبے کی بجائے معمولی اور جلد بازی میں قبول کیے گئے سیاسی معاہدوں کی نذر ہو گئے جن میں سب سے زیادہ مضر اسرائیل کے ساتھ عرب ریاستوں کا باضابطہ اور بلا واسطہ مذاکرات میں شریک ہونا ثابت ہوا ۔
(27) مذاکرات کا دور: عرب موقف میں کمزوری آنے سے اُن قوتوں کو اس بات کے وسیع مواقع حاصل ہو گئے جو صہیونی قیادت سے پر امن مذاکرات کو وسعت دینے کے ایجنڈے پر زور دیتے تھے۔ یہاں تک کہ 1988 میں اقوام متحدہ نے اپنی قرار دادنمبر 181کے ذریعے فلسطین کی تقسیم کا اعلان کردیا۔ قرار داد میں فلسطین کو تسلیم کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جس کے ایک حصے پر عرب اور دوسرے پر یہودیوں کا حق تسلیم کیا گیا۔قرار داد میں مسئلہ فلسطین کے اہم ترین مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے مسئلے کی نوعیت محض مہاجر فلسطینیوں کی وطن واپسی تک محدود کی گئی ہے۔
1991 میں پہلی مرتبہ میڈرڈ کے شہر میں عرب ریاستوں نے اسرائیل سے بلا واسطہ پر امن مذاکرات کے سلسلے کا آغاز کیا۔ میڈریڈ مذاکرات کے دو برسوں بعدتک عرب نمائندے اسرائیل سے کوئی بھی قابل ذکر مطالبہ نہ منوا سکے سوائے ان خفیہ مذاکرات کے جو بالآخر اوسلو معاہدے کی بنیاد بنے۔ ستمبر 1993 میں اوسلو معاہدے پر طرفین نے دستخط کیے ۔
(28) مذاکرات میں شکست: اوسلو معاہدے میں عرب قیادت نے اسرائیل کو ایک جائز ملک کے تسلیم کرلیا۔ فلسطینی اراضی کے 77فیصد حصے پر بھی اسرائیل کا حق تسلیم کر لیاگیا اور یہ کہ تحریک انتفاضہ کالعدم تنظیم ہوگی اور اسرائیل کے خلاف کوئی مسلح کارروائی غیر قانونی سمجھی جائے گی۔ اسی طرح عرب قیادت پورے فلسطین کی آزادی کے فلسطینی متفقہ مطالبے سے بھی دست بردار ہو گئی اور یہ کہ اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے کسی عمل کو جائز نہیں سمجھا جائے گا اور یہ کہ ہر قسم کے مسائل کا حل پر امن مذاکرات کے ذریعے تلاش کیاجائے گا ۔
عرب قیادت نے اوسلو معاہدے پر دستخط کرکے عملاً تحریک آزادی فلسطین اور دوسرے مطالبات کا گلہ گھونٹ دیا۔اس کے مقابلے میں اوسلو معاہدے کی رو سےاسرائیل نے صرف اتنا تسلیم کیا کہ عرب قیادت(الفتح)کو فلسطین کے مسئلے کی قیادت کا حق حاصل ہے اور یہ کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے کے بعض حصوں میں فلسطینی قیادت کو محدود سطح پر آزاد ی دینے کا پابند ہو گا اور یہ کہ دوسرے اہم نوعیت کے مسائل اگلے پانچ برسوں میں طے کیے جائیں گے ۔
(29) اوسلو معاہدہ فلسطینی موقف کا ترجمان نہیں: اوسلو معاہدے کے خلاف رد عمل نہ صرف فلسطین میں ہوا بلکہ دوسرے عرب ممالک کی سرکردہ شخصیات اور اسلامی قیادتوں نے بھی درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔
(الف) عالم اسلام کے وہ اہل علم علماء کرام جن کی حیثیت مسلمہ ہے نے فتویٰ جاری کیا کہ صہیونی قیادت کے ساتھ اس کے مطالبات پر مذاکرات کرنا ناجائز ہے۔ پورے فلسطین کی آزادی کیلئے مقدس جہاد ضروری ہے اور یہ کہ یہ حق و باطل کا معرکہ ہے جسے نسل در نسل جاری رہنا ہے جب تک اللہ اہل حق کو مکمل نصرت اور کامیابی سے ہمکنار نہیں کردیتا۔ اور یہ کہ فلسطین کی اراضی پر کسی بشر کا حق نہیں ہے بلکہ یہ سارا خطہ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کیلئے وقف ( اوقاف ) ہے۔ کسی انسان کے لئے یہ جائز نہیں کروہ اس کے کسی ایک حصے سے دست بردار ہو۔ اگر اس وقت موجود ہ نسل حالت ضعف میں ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ یہی حالت برقرار رہے گی۔ آنے والی نسل کے حق کو مارنے کا کسی کو اختیار نہیں دیا جاسکتا اور یہ کہ مسئلہ فلسطین تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور عالم اسلام کا کوئی ایک مسلمان بھی اللہ کی سر زمین سے دستبردار ہونے کا وبال نہیں اٹھا سکتا خواہ فتح و کامرانی پر کتنا ہی عرصہ کیوں نہ بیت جائے ۔
(ب ) اوسلو معاہدے پر جس قیادت نے دستخط کیے ہیں وہ اپنے فعل کے آپ ذمہ دار ہیں ۔ قیادت نے عوام سے کوئی رائے طلب نہیں کی تھی اور نہ ہی وہ عوامی نمائندے تھے۔ جن دنوں معاہدے کی بات چل رہی تھی انہیں دنوں فلسطین میں اس کی مخالفت ہورہی تھی خواہ اسلامی تنظیمیں ہوں یا وطن پرست تنظیمیں ہوں یا سیاسی تنظیمیں سب کے ہاں مخالفت پائی جاتی تھی یہاں تک کے خود تنظیم ’ الفتح ‘ میں بھی مخالفت پائی جاتی تھی۔
(ج ) اس معاہدے میں طاقتور نے اپنے مطالبات ایک کمزور فریق سے قوت کے زور پر منوائے ہیں۔ اوسلو پیکٹ میں نہایت ہی اہم اور حساس مسائل کے حل سے صرف نظر کیا گیا ہے جن میں اہم ترین یہ ہیں :
(1) القدس (بیت المقدس)کا مستقبل کیا ہو گا ؟
(2) فلسطینی مہاجرین کا مستقبل کیا ہو گا ۔
(3) مغربی کنارے اور غزہ کے علاقے میں اسرائیلی ‘مقبوضہ جات میں یہودی بستیوں کا مستقبل کیا ہو گا ؟
(4) مستقبل میں فلسطینی قیادت کی کیا سیاسی حیثیت ہو گی وہ کس قسم کے تصرفات کرسکتی ہے اور اس کی حدود و قیود کیا ہیں ؟
سنہ 2000 تک مذکورہ بالا اہم مسائل میں سے کسی کا حل بھی سامنے نہیں آیا۔ دوسری طرف صہیونی ریاست بدستور خطے کو یہودی طرز میں ڈھالتی چلی جارہی ہے۔ اسرائیل اپنے تصرفات میں ان معاہدوں کا بھی احترام نہیں کرتا جو اس نے خود مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر طے کیے ہیں ۔
صہیونی قیادت نے مغربی کنارے کا صرف 18 فیصد حصہ فلسطینی قیادت کو دیا ہے اور غزہ کا 60فیصد حصہ دیا ہے۔ اس طرح پورے فلسطین کا صرف 4.72 فیصد حصہ فلسطینی قیادت کے پاس آیا ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ علاقے کا نظم و نسق ( امن عامہ ) پر دونوں ملکوں کا مشترکہ حق ہو گا۔ جو علاقے فلسطینی قیادت کو دستوری طور پر دیئے گئے ہیں ان میں سے عملاً مغربی کنارے کے 58فیصد پر اور غزہ کے 40فیصد علاقے پر صہیونی تسلط ہے ۔
اوسلو معاہدے میں صیہونی ریاست جن علاقوں سے دست بردار ہو کر انہیں فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنے پر آمادہ ہوئی تو عالمی ’امن‘قائم کرنے والوں کے اصرار پر صہیونی قیادت نے اس لیے اتفاق کرلیا تھا کیونکہ اس سے اسرائیل کی فلسطینی کثیر آبادی والے علاقے کی انتظامی ذمہ داریوں سے جان چھوٹنی تھی نیز شہری بندوبست پر جو کثیر سرمایہ لگتا اس سے بھی وہ بچ گیا۔ فلسطینی کثیر آبادی والے محلوں کے قریب صیہونی بستیاں جہادی حملوں سے غیر محفوظ تھیں۔یوں بھی غزہ میں گنجان فلسطینی آبادی کی وجہ سے اسرائیل یہاں سے نکلنے کا بہانہ چاہتا تھا؛ اوسلو معاہدے سے پہلے اسرائیل غزہ کے مقبوضہ جات مصر کو دینے پر آمادہ تھا مصر نے خود ہی اس ذمہ داری کو اٹھاانے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ علاقے فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرکے در اصل صیہونی ریاست نے اپنی سلامتی کو ہی محفوظ بنایا تھا نہ کہ یہ عرب قیادت کی کوئی سیاسی کامیابی تھی(achievement)۔
اوسلو معاہدے میں فلسطینی اتھارٹی کے اختیارات نہایت محدود ہیں نیز صہیونی استعمار کی نگرانی میں ہی ان پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی ریاست کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی فیصلے کو یا قانون کو ویٹو کے ذریعے بے اثر کرسکتی ہے ۔
اوسلو معاہدے کی رو سے فلسطینی قیادت مستقل فوج نہیں رکھ سکتی مزید براں صہیونی ریاست کی باضابطہ اجازت کے بغیر اسلحے کا بھی لین دین نہیں کر سکتی۔
فلسطینی اتھارٹی کے فرائض میں یہ شامل ہو گا کہ وہ صہیونی ریاست کے خلاف ہر قسم کی مسلح کارروائی ( جہاد ) کا سد باب کرے گی۔
اس بات کو یقینی بنانے کیلئے فلسطینی اتھارٹی نے مزاحمت کاروں میں سے بعض مجاہدین گرفتار کیے تاکہ خطے میں امن کے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے(اوسلو معاہدہ کرنے والی) فلسطینی قیادت اپنی سنجیدیگی اور فرض شناسی ثابت کر سکے!
(صیہونی سلامتی والی اس شق کی تکمیل کے لیے)مسلح حملوں کے سدباب کیلئے نو ( خفیہ ) محکمے تشکیل دیئے گئے ۔ان خفیہ محکموں کی شاہانہ تنخواہوں کا بوجھ فلسطینی عوام پر ڈالا گیا جبکہ معاشی ترقی ‘ صحت اور تعلیم کے شعبے اس بات کے زیادہ مستحق تھے کہ ان مدوں میں ٹیکس کی آمدنی صرف کی جاتی ‘ فلسطینی اتھارٹی کے خفیہ اداروں نے اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے اختیارات کا بے جا استعمال کیا لیکن حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا یہاں تک کہ ستمبر 2000 میں تحریک انتفاضہ کے میدان میں اترنے سے خفیہ محکموں کی سرگرمیاں اعتدال پر آگئیں
اوسلو معاہدے میں سرحدوں کی حفاظت کاحق اسرائیل کو دیا گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو سرحدوں کا جائزہ لینا ہو یا سرحدوں سے باہر نکلتا ہو یا کسی کو فلسطینی سرحدوں میں داخل ہو نا ہو تو فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے اس کی باضابطہ درخواست کرے گی ۔
(اوسلو معاہدہ فلسطین کے بنیادی اور حساس ترین مطالبات پر بالکل خاموش ہے)معاہدے میں فلسطینیوں کے مستقبل کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔نہ ان کے الگ خود مختاروطن کا تذکرہ ہے۔متنازع مغربی کنارے پر کس کا حق ہے اس کا معاہدے میں کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی غزہ کے مقبوضہ جات کے بارے میں صراحت کی گئی ہے کہ یہ متنازع علاقہ ہے۔
اوسلومعاہدے میں چونکہ اسرائیل کے عرب نمائندوں سے (پہلی مرتبہ)برائے راست مذاکرات ہوئے تھے اس لیے اس معاہدے کے بعد ہر عربی حکومت نے اس میں اپنی سلامتی دیکھی کہ وہ دوسری حکومت سے پہلے اسرائیل سے مذاکرات کرلے۔ اسرائیل نے ہر ایک حکومت سے اس کے ضعف کے بقدر مطالبات منوائے؛ اپنی مصنوعات کو فروغ دیا اقتصادی معاہدے کیے اور اسلامی تحریکوں اور قوم پرست تحریکوں کے خلاف مزید قانون سازی کرائی ۔
(30) تحریک انتفاضہ کا مبارک ظہور: 29ستمبر 2000 میں تحریک انتفاضہ نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو ثابت کیا کہ فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ہے۔ تحریک انتقاضہ بہت جلد نہ صرف فلسطینی عوام کی ہر دل عزیز تحریک بن گئی بلکہ عرب ممالک (کے عوام اور اسلامی اہم شخصیات اور تنظیموں)اور دوسرے اسلامی ملکوں میں انتقاضہ کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔
تحریک انتفاضہ کے سرگرم عمل ہونے سے فلسطینی فراموش شدہ مسئلہ دوبارہ زندہ ہو گیا۔انتفاضہ نے اصل صہیونی عزائم سے پردہ ہٹا یا اور صہیونی ریاست کی طرف سے امن کی اپیل کا پول کھو لا۔ تحریک انتفاضہ نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں جس دجل اور فریب سے کام لیا گیا تھا اسے نمایاں کیا اور ثابت کیا کہ ان معاہدوں میں فلسطینیوں کے جائز حقوق سلب کیے گئے ہیں ۔
تحریک انتفاضہ کے سرگرم ہوتے ہی فلسطینی عوام پر اسرائیلی غنڈہ گردی کا سیلاب آگیا۔ فلسطینی نوجوانوں سے جیلیں بھر گئیں اور حق دفاع کو بنیاد بنا کر اسرائیل نے فلسطین کی بیشتر اراضی پر قبضہ کرلیا ۔ صرف پانچ ہی برسوں میں فلسطینی شہداء کی تعداد 4160تک پہنچ گئی جبکہ 45ہزار فلسطینی اسرائیلی بمباری سے زخمی ہو ئے ۔برسر روزگار فلسطینیوں میں سے 57فیصد بے روزگار کردیئے گئے۔ اسرائیل کے اس شدید ظلم کے باوجود تحریک انتفاضہ جہاد اور شجاعت اور شہادتوں سے تحریک کو لازوال کرتی چلی جارہی ہے ۔تحریک انتفاضہ کو فلسطین کی سبھی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ فلسطین کی طویل مزاحمت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتفاضہ کی شکل میں صہیونی ریاست کو ایک متحدہ قوت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔انتفاضہ کی جہادی اور استشہادی کارروائیوں سے 1060صہیونی ہلاک ہوئے ہیں 6250 سے زیادہ صہیونی زخمی ہوئے ہیں۔ صہیونی ریاست پر امن معاہدوں سے ہی فلسطینی اراضی اور ان کے حقوق کی مالک بنتی جارہی تھی انتفاضہ نے جہاد کاباب کھول کر مذاکرات کے ذریعے فلسطینیوں کی فروخت کا سلسلہ کاٹ کررکھ دیا ہے۔ صہیونی ریاست عربوں کے ساتھ بلا واسطہ مذاکرات کے بعد تجارتی لین دین کے منصوبے بنارہی تھی۔ انتفاضہ کے جہاد سے اب اسے پہلے اپنی حفاظت کرنا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی معاشی ترقی کا خواب ادھورا رہ گیا ہے۔ اقتصادی طور پر اسرائیل کا سخت نقصان ہورہا ہے۔ سیاحت سے جو آمدن ہوتی تھی وہ ختم ہوگئی ہے ۔انتفاضہ کے بعد بہت سے یہودیوں نے خوف کے مارے اسرائیل سے نقل مکانی کی ہے۔ اسرائیل کی سیادت دوستونوں پر قائم تھی اسرائیل ( معاہدوں کے ذریعے فلسطینی حملہ آوروں سے ) محفوظ ہواوردوسرا اسرائیل اپنی مصنوعات کو ترقی دے کر اقتصادی اجارہ داری قائم کرے۔ الحمد للہ تحریک انتفاضہ نے اسرائیلی سیادت کے دونوں ستون ہلا کر رکھ دیئے ہیں ۔انتفاضہ کی قوت سے اسرائیل مجبور ہو گیا کہ وہ غزہ کے مقبوضہ جات سے نکل جائے ۔ یہاں یہودی آباد کاری کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔
(31) فلسطین کے نصاریٰ کا موقف: فلسطین میں عیسائی آبادی بھی پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی طرح وہ بھی صہیونی ظلم کا شکار ہیں۔ برطانیہ کے انتداب سے لے کر اب تک وہ آزادی وطن کی تحریک میں مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ برابر کے شریک رہے ہیں اور انہوں نے اس مسئلہ میں مسلمانوں کے ساتھ مثالی اتحاد کر رکھا ہے۔ وہ فلسطین کی پر انی تہذیب و ثقافت اور زبان ( عربی ) کا اسی طرح دفاع کررہے ہیں جیسے عام فلسطینی کرتا ہے؛ تقریر سے تحریر سے اور تلوار سے۔
(32) تحریک مزاحمت کے متفقہ اصول: اپنے خطے سے محبت اور اس کا دفاع کرنا اپنے مذہب کے مقدس مقامات کا احترام اور دفاع کرنا دین اسلام کے واجبات میں سے ایک اہم واجب ہے۔ اسلام کے علاوہ انسانیت بھی اس اصول کو تسلیم کرتی ہے۔ اپنے ہم وطن لوگوں سے ناطے داری ہونا ان سے محبت کرنا اور ان کیلئے اچھے جذبات رکھنا ایک فطری جذبہ ہے سوائے اس کے کہ اس سے کوئی ایسی چیز حلال نہ ہوجائے جو اللہ نے حرام ٹھہرائی ہے۔ اس دائرے میں رہتے ہوئے وطن اور اہل وطن سے محبت ایک فطری اور جائز جذبہ ہے۔ بنا بریں اس فطری جذبے کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کے بنیادی عناصر خواہ وطن کی محبت نے انہیں ابھارا ہو یا عربی جذبے نے مہمیز دی ہو یا اسلامی جذبہ کار فرما ہو سب ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہونے چاہئیں نہ کہ ایک دوسرے کے بر خلاف ۔
اسلامی معاشرے سے ضعف کے اسباب دور کرنا ہوں یا اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنا ہو یا تمدن یا ثقافتی ترقی حاصل کرنا ہو یا عرب مسلمانوں کے اتحاد کی تحریک ہو یا فلسطین کی آزادی کا مسئلہ ہو ان میں سے کوئی عمل ایسا نہیں جو دوسرے عمل کے مخالف ہو
بلکہ یہ سب ہی ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں اور یہ بالکل ممکن ہے کہ سب عناصر ایک ساتھ عمل کی تکمیل کا حصہ بنیں ۔
(33) امن قائم کرنا اسلام کی غایت ہے: دین اسلام سلامتی والا دین ہے۔ اللہ خود السلام ہے اور مسلمان ملتے ہوئے ملاقاتی کلمات میں سلام کہتے ہیں۔ جنت کا ایک نام دار السلام ہے۔ اسلام میں دوسری قوموں سے تعلقات کے لئے جو تعلیمات ہیں ان کا دائرہ کافی وسیع ہے جس میں دوسروں سے تعلقات پیدا کیے جاتے ہیں پر امن بقاء باہمی کا اصول بھی اسلام میں موجود ہے اور باہمی معاملات کرتے ہوئے اسلام نے اس اصول کی ترغیب دی ہے کہ احسن طریقے سے معاملے حل کیے جائیں ۔
اسلام کا متضاد دہشت گردی ہے یا جن نفوس کی اسلام میں حرمت ہے انہیں قتل کرنا بھی لفظ اسلام کا متضاد ہے۔ علاوہ ازیں اسلام دین حق بھی ہے اور سراسر عدل پر مبنی دین بھی ( جس میں خدا کی بندگی کا عہد کرلینے کے بعد ) انسان تمام بندھنوں سے آزا د ہو جاتا ہے اس لیے یہ دین دین حریت بھی ہے۔ بنا بریں اس دین حریت کے پیرو کار اپنے اوپر ظلم برداشت نہیں کرتے اور چونکہ یہ دین دین عدل بھی ہے اس لیے اسلام کے پیرو کار کسی پر ظلم بھی نہیں کرتے ہیں ۔اس دین میں ذلت کی زندگی رسوائی اور ناموشی ہے۔ اپنے دین؛عزت و ناموس؛مقدسات اور اراضی پر وہ اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ شے بخوشی قربان کردیتے ہیں ۔
فلسطین میں اس وقت تک سلامتی نہیں آسکتی جب تک اہل فلسطین پر ظالمانہ معاہدے ٹھونسے جاتے رہیں گے۔ ان کے حقوق سلب ہوتے رہیں اور اس کے اصل باشندے مہاجرت کی زندگی گزار یں ایسے ظالمانہ معاہدوں کو برابری پر قائم معاہدوں کا نعم البدل کہہ کر وقتی سیاسی مقاصد تو حاصل کیے جاسکتے ہیں اس لیے کہ وہاں کے شہریوں کو کمزور ار ضعیف سمجھ لیا گیا ہے لیکن ایسے معاہدوں سے فلسطین میں مستقل امن کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ آزادی فلسطین کا جہاد فرض ہی رہے گا اور اس کے شہریوں کیلئے ایک اعزاز اور آبرو مندی کی علامت ‘ صہیونی اور مغربی اصلاحات سے اس مزاحمت میں کوئی فرق نہیں آئے گا خواہ کوئی مغربی میڈیا کی ہاں میں ہاں ملا کرجہاد فلسطین کو دہشت گردی ہی کیوں نہ کہے اور اگر فلسطینی اپنے حقوق سے دست بردار ہو کر مزاحمت چھوڑ دیں تو اسے امن کہے۔ میڈیا حقوق کی جنگ کو دہشت گردی اور مظلوم کے ترک مزاحمت کو امن کہتا ہے۔
(34) اسلام میں جہاد کے اصول: مسلمان یہودیوں کے خلاف جہاد اس لیے نہیں کرتے کہ کوئی شخص یہودی ہے۔ اسلام میں اہل کتاب اور اہل ذمہ ( یہود و نصاری جو اسلامی ریاست میں ایک سالانہ مقرر شدہ رقم کی ادائیگی کے عوض اسلامی قلمرو میں رہنے کا معاہدہ کریں۔ اہل ذمہ فوجی خدمات سے مستثنیٰ ہوتے ہیں ) کے ساتھ سیاسی تعلقات کی تعلیمات موجود ہیں۔ اسلام اہل کتاب اور اہل ذمہ سے عدل و احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔ انہیں ( اپنے علاقے میں ) مذہبی عبادات اور رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ اور عہد معاہدہ کرنے کے بعد انہیں ویسے ہی شہری حقوق حاصل ہوجاتے ہیں جیسے مسلم شہریوں کو حاصل ہو تے ہیں جن کا ذکر اسلام میں کردیا گیا ہے ۔
جہاں تک ’مسئلہ یہود‘ اور’ سامی نفرت‘ کا تعلق ہے تو اسلام اپنی طویل تاریخ میں ایسی اصطلاحات سے ناواقف رہا ہے۔ کسی خاص نسل سے نفرت اور کسی قوم کا قتل عام یورپ کی سوغات ہے ۔یہودی اسلامی عملداری والے علاقوں میں صدیوں رہے ہیں لیکن وہاں انہیں ایسی کوئی’ مشکلات‘ پیش نہیں آئیں جو انہیں یورپ میں رہتے ہوئے پیش آئی ہیں۔ بنا بریں اسلامی تعلیمات میں یہ کوئی اصول نہیں کہ کسی یہودی کو صرف یہودی ہونے کی وجہ سے برداشت نہ کیا جائے۔ مسلمانوں کا جہاد صہیونیوں کے خلاف ہے جو ایک متعصب نسل پرست تشدد پسند تحریک ہے اور جس نے مسلم خطوں پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے جنہوں نے وہاں کے اصل باشندوں کو مہاجرت پر مجبور کیا انہیں بے وطن کیا اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی اہانت کی۔ جان لیجیے کہ مسلمان ہر اس قوم کے خلاف علم جہاد بلند کرتے رہیں گے جو ان کی اراضی پر قابض ہوتا ہے خواہ اس کا کوئی مذہب ہو یا کوئی نسل ۔
(35) امت صرف اسلام کے اصول اور مبادیات پر متفق ہو سکتی ہے: فلسطین کی آزادی اور صہیونیوں کی قوت منتشر کرنے کیلئے ہمیں اسلام کے اصولوں پر چلنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے سچے بندوں کی نصرت کا خو د ذمہ اٹھا لیا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں پوری امت مسلمہ کا عقیدہ بھی اسلام ہے جو اس تحریک میں فلسطین کے ساتھ کھڑی ہو گی۔اور اس لیے بھی کہ اسلام سراسر بھلائی اور فلاح کا دین ہے۔ اسلام میں یہ کشش ہے کہ وہ مسلمانوں کو متحد کرتا ہے اور ان کی طاقت کو یکجا کرسکتا ہے۔ فلسطین کی تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ اسلام کی وجہ سے اسے پہلے بھی آزادی نصیب ہوئی ہے جیسے تا تاریوں کا قبضہ اور پھر فرانس کے قبضے سے آزادی پانے کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔ جہاں تک اسلام کے علاوہ دوسرے نظریات کو بنیاد بنانے کا سوال ہے ( جیسے وطن پرست تحریکیں یا قوم پرست تحریکیں یا اشترا کی تحریکیں ) تو ماضی قریب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام کے علاوہ دوسرے نظریات ناکام ہی ہوئے ہیں ۔
(36) مسئلہ فلسطین کا اسلامی حل: اسلامی نقطہ نظر سے فلسطین کی آزادی کی تحریک کے نکات درج ذیل ہوسکتے ہیں ۔
(الف ) اسلام ہی کو اپنا عقیدہ اور منہح حیات بنا یا جائے ۔اپنی زندگی کو اسلامی اخلاقیات اور اسلامی قدروں کے مطابق ڈھالا جائے ۔ اپنے باہمی معاملات اللہ کی شریعت کے مطابق طے کیے جائیں۔
( ب ) تحریک آزادی فلسطین کی قیادت اسلامی ہو جو معاملات سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہو جو پختہ ارادے اور نیت صادقہ کے ساتھ صہیونی عزائم کا توڑ کرنا جانتی ہو ۔
( ج ) صہیونیت کے خلا ف تحریک کا دائرہ صرف فلسطین تک محدود نہ رہنے دیا جائے بلکہ پورے عالم اسلام میں صہیونی عزائم کو نمایاں کرنے کے بعد امت کو اپنی پشت پر لا یا جائے۔ اسے صرف فلسطینی مسئلہ یا عرب اسرائیل مسئلہ تک محدود نہ رکھا جائے کیونکہ ارض فلسطین کی آزادی تمام مسلمانوں پر فرض عین ہے اس لیے کہ صہیونی منصوبے صرف فلسطین کی سر زمین تک محدود نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا میں صہیونی اپنے منصوبے بنا رہے ہیں لہٰذا یہ مسئلہ علاقائی نہیں بین الاقوامی ہے ۔ ایک بین الاقوامی عدو سے بین الاقوامی سطح پر ہی نبٹا جاسکتا ہے ۔
( د) تحریک آزادی فلسطین کی ہر سطح پر مدد کرنا ۔فلسطین ارض رباط ہے ( مسلم علاقوں کا وہ مقام جہاں سے عدو در اندازی کرسکے اور جہاں کے باشندوں کو ہر وقت چوکنا رہنا پڑتا ہو۔ ایسے مقام سے اگر ایک دفعہ دشمن اسلامی قلمرو میں گھس آئے تو پھر اس کا دوسرے علاقوں میں گھسنا آسان ہو جاتا ہے۔ ارض رباط میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلام میں خصوصی مراعات دی جاتی ہیں )
( ھ ) تمام مسلم خطوں میں سیاسی ‘ اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اعلیٰ صلاحیتیں اور استعداد کارپیدا کرنا ۔ مسلم امہ کو ایک طویل جنگ کیلئے اپنے ہی پیدا کردہ وسائل پر انحصار کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلم ہستی کو زمین کی نیابت سونپی ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نہایت کٹھن کام ہے۔ اس ذمہ داری کو اٹھانے کیلئے مسلم امہ کو اپنے اندر بہت ساری لیاقتیں اور صلاحیتیں پیدا کرنا ہیں۔ صرف فلسطین کی آزادی کا ایک مسئلہ امت کو درپیش نہیں ہے بلکہ ہمارے بہت سے مقبوضہ جات آزاد ہو نا ہیں ۔
(37) مسئلہ فلسطین انسانی المیہ: مسئلہ فلسطین صرف سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ انسانوں کو پیش آنے والے بہت سے مسائل سے عبارت ہے۔ صبح و شام حقوق انسانی کا واویلا کرنے والوں کے سامنے لاکھوں مظلوموں کی آہ و بکاء ان کی جانبداری کے نفاق کا پردہ چاک کررہی ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کا ننگ چھپائے نہیں چھپ رہا۔ ترقی یافتہ ممالک کے سامنے جہاں حیوان و بہائم کے حقوق کی بات ہوتی ہے وہاں پچھلی نصف صدی سے ساٹھ لاکھ سے زائد انسانوں کا سوال ہے جن سے ان کا وطن بزور چھین لیا گیا ہے۔ جن کی خیمہ بستیوں میں بھوک ہی بھوک ‘ افلاس ‘ امراض اور ناخواندگی ہے ۔وہ بے گھر انسان جن کی جھونپڑیوں کو جلا کر ان پر یہودیوں نے بلند و بالا عمارتیں کھڑی کرلی ہیں؛ ایک ایسے دعوے کو بنیاد بنا کر جو سفید جھوٹ ہے۔ ایک ایسا دعویٰ جس کی نہ تاریخی حقیقت ہے نہ کوئی دینی ( توراتی ) شہادت ہے اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین میں اس کی اجازت ہے ۔
فلسطین میں صہیونی ریاست مغربی استعمار کی باقی ماندہ بدنما شکل کی صورت میں باقی ہے۔ دوسروے خطوں سے تو استعمار کو نکلنا پڑا اب اسے ارض رباط سے بھی نکلنا ہے؛ آج یا کل !چاہیئے کہ اس انسانی المیے کو حل کرنے کیلئے پوری انسانیت کھڑی ہوجائے ۔
(38) عمرانی صداقتیں: دنیا میں صہیونی قوت ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔بین الاقوامی مالیاتی امور ہوں یا سیاسی ہیر پھیر ہوں یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہو ہر جگہ پس پردہ صہیونی منصوبہ کار فرما ہے ۔امریکہ میں صہیونی اثر و نفوذ سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا ۔ ہم کسی ’سامی نفرت‘ کی وجہ سے یہ بات نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی ہمیں کسی خاص نسل سے بیر ہے ۔اگر کوئی قوم ترقی پا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا دوسروں سے منوا لیتی ہے تو یہ قابل ستائش کام ہے نہ کہ قابل مذمت شرط یہ ہے کہ وہ انسانی فلاح کیلئے استعمال ہو۔ قوت حاصل ہونے پر ظلم اور فساد پھیلا نا ‘ دوسروں کے حقوق سلب کرنا قابل تحسین نہیں کہلا سکتا۔
بلاشبہ صہیونی آج قوت میں ہیں لیکن یہ تفوق نا قابل تسخیر نہیں ہے۔ یہ خیال غلط ہوگا کہ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کے پیچھے صہیونی ہوں گے۔ صہیونی قوت خدا کی قوت پر غالب نہیں ہے اورنہ ہی وہ بشریت کی سرحدوں سے آگے نہیں نکل گئے ہیں۔ خدا کی پیدا کردہ مخلوق ہیں اپنے تئیں پیدا نہیں ہوئے۔ قوموں کے عروج و زوال کی کچھ خدائی سنتیں ہیں جیسے دوسری قوموں پر زوال کے دن آتے ہیں اسی طرح صہیونی بھی ہمیشہ طاقت ور نہیں رہیں گے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ترقی کی منازل بغیر محنت و مشقت اور اعلیٰ تنظیم کے حاصل نہیں ہواکرتیں لیکن ہمیں ان اسباب کو بھی سامنے رکھنا ہے جو زوال لا یا کرتے ہیں۔ دنیا کی طویل تاریخ میں پہلے بھی اس قوم کو ترقی حاصل ہوئی تھی لیکن ان پر زوال کوئی ایک مرتبہ نہیں آیا ۔ صہیونی آج قوت میں ہیں تو اس میں امت مسلمہ کیلئے نصیحت ہے۔ ایک زمانے میں یہودی دنیا کی حقیر ترین قوموں میں شمار ہوتے تھے۔ مسلمان بھی اپنے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کرسکتے ہیں جو دنیا کی نیابت کے لئے ضروری ہوا کرتی ہیں ۔
(39) تیسری عالمی جنگ کا خطرہ: اسرائیل کی ہوشر با فوجی قوت اقوام عالم کے امن کے لئے ایک مستقل خطرہ ہے ۔اسرائیل کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار میں جن میں 200 ایٹم بم بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کی تیز رفتار فوج کی استعداد خطر ناک حد تک زیادہ ہے۔ اسرائیل محض بہتر گھنٹوں میں سات لاکھ فوج ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل کرسکتا ہے۔ عالم اسلام کے قلب میں ایسی خطر ناک فوج بین الاقوامی امن کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے جہاں کسی وقت بھی ایک خطر ناک جنگ بھڑک سکتی ہے جو تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہے ۔
آج نہیں تو کل مسلمان ایک بڑی فوجی قوت بننے والے ہیں یہ بات بعید نہیں کہ اسرائیل کی وجہ سے مسلمان بھی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حاصل کرلیں۔ مسلمان اپنی ایک انچ زمین سے بھی دست بردار ہونے کے نہیں۔ حالت ضعف میں کبھی مسلمان نچلے نہیں بیٹھے اب جبکہ وہ دن دور نہیں جب مسلمان ایک بڑی قوت ہوں گے اگر اسرائیل کے وجود کو عالم اسلام کے قلب سے ختم نہیں کیا جاتا تو مسلمان اپنی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے عدو کو نکال کر دم لیں گے۔ اس سے پہلے استعمار کو بھی عالم اسلام سے نکلنا پڑا تھا۔ استعماری طاقتیں بھی بڑی قوت ہوا کرتی تھیں۔ ایک خطر ناک بین الاقوامی جنگ سے بچاؤ کی یہی صورت ہے کہ عالمی طاقتیں اپنا اثرو نفوذ استعمال کرتے ہوئے صہیونی ریاست کو مسلم اراضی سے بے دخل کردیں ۔
(40) صیہونی ریاست کا زوال: فلسطین میں صہیونی منصوبوں کا ناکام ہوجا نا نہ صرف ممکن ہے بلکہ ایک واقعاتی حقیقت ہے۔ صہیونی ریاست کا زوال ایک ربانی فیصلہ ہے۔ قرآن مجید جس میں باطل کی آمیزش کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تااللہ تعالیٰ یہودی زوال کی بشارت دیتا ہے۔ اس کا آخری رسول جس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک حرف خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ بھی یہودیوں کے زوال کی بشارت دے کر گیا ہے۔ پھر اس دھرتی پر خدا کی ربانی سنتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ انسانی تاریخ بھی ہمیں بتاتی ہیں کہ ظلم پر کوئی ریاست زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتی ۔
خدا کے نافرمانوں پر آفتیں آیا کرتی ہیں۔ خدا کی نگری میں ظلم نہیں رہنے دیا جاتا!
٭٭٭٭٭