اداریہ
"معاشرہ" اسلامی تحریکوں کا منتظر
حامد کمال الدین
راستے جو”عقیدہ“ سے پھوٹیں اور
”معاشروں“ سے گزریں!
بڑی دیر سے ہماری تحریکی دنیا میں
شکووں اور شکایتوں کا ایک شور بلند ہونے لگا ہے۔ سرگردانی بڑھ رہی ہے کہ اسلامی
تحریکیں اپنی پیش قدمی کیلئے سب ممکنہ طریقے اور راستے آزما چکیں، مگر ”راستے“ ہیں
کہ کھل کر نہیں دے رہے۔
یہاں تک کہ باقاعدہ سوال اٹھنے لگے
ہیں کہ اِن بند راستوں کو کھولنے کیلئے اب کونسی تدبیر رہ گئی ہے جسے اختیار کیا
جائے؟
اِس مایوس کن صورتحال سے وحشت کھانے
کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ.... ”متبادل“ کا سوال جو کسی وقت یہاں پر محض ”آزمائشی“
بنیاد پر اٹھایا جاتا تھا اب بڑی حد تک ”بے بسی“ کے ساتھ سامنے لایا جانے لگا ہے۔
” آخر کریں کیا؟ “، یہ سوال نہیں اب ایک
دُہائی کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
کچھ شک نہیں کہ اسلامی تحریکوں کا
راستہ ”معاشروں“ کے بیچ سے گزرتا ہے، نہ کہ براہِ راست ”ایوانوں“ تک پہنچتا ہے۔
بلکہ یہ کہنا چاہیے، اسلامی تحریکوں کا راستہ ”ایوانوں“ تک جائے نہ جائے،
”معاشروں“ کے بیچ سے بہرحال گزرتا ہے۔ اسلامی تحریکوں میں فرسٹریشن کا آ جانا بھی
کچھ ایسا تشویش ناک نہیں؛ ایسی نوبت آجانے پر آپ کی بہت سی سوئی ہوئی صلاحیتیں یکا
یک بیدار ہو جاتی ہیں تو وہ ایک نئے سرے سے زور مارتی ہیں، جس کے نتیجے میں بند
راستے کسی وقت کھل بھی جاتے ہیں۔ شرط یہی ہے کہ آپ کی سمت درست ہو۔ تشویش ناک بات
ہو سکتی ہے تو وہ یہ کہ ہماری یہ ”فرسٹریشن“ اُن راستوں کو دشوار پانے کے حوالے سے
ہو جو ”ایوانوں“ تک پہنچتے ہیں، نہ کہ اُن راستوں کے سنسان چھوڑے جانے کے حوالے سے
جو ”معاشروں“ کے بیچ سے گزرتے ہیں! ہاں یہ بات البتہ تشویش ناک ہی نہیں، لمحۂ
فکریہ ہے۔
جہاں تک اُن راستوں کا تعلق ہے جو
”معاشروں“ کے بیچ سے گزرتے ہیں، تو یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہو گی کہ ان راستوں
کے حوالے سے کم از کم کوئی ”تشویش“ تو پائی جائے! ڈر ہے تو البتہ یہی کہ یہ
”تشویش“ اب بھی اپنے محل پر نہیں۔ خدشہ یہی ہے کہ یہ ”پریشانی“ اب بھی اِس بات سے متعلق نہیں کہ اسلامی تحریکیں کیوں
یہاں کوئی ”معاشرتی کردار“ رکھنے سے عاجز ہیں؟
”حسرت و یاس“ شاید اب بھی اِس بات سے متعلق ہے کہ اسلامی تحریکوں کے پاس بہت زیادہ
”سیاسی آپشنز“ کیوں باقی نہیں؟ ہاں اگر ایسا ہے تو یہ تشویش ناک ہی نہیں، آشوب ناک
صورتحال ہے!
ہم یہ سمجھتے ہیں: ”معاشروں“ کے بیچ
سے گزرنے والے راستے اسلامی تحریکوں پر کبھی بند ہی نہ تھے جو اِن کے مسدود ہونے
کے واویلے ہونے لگیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ”معاشروں“ کے بیچ سے
گزرنے والے راستے بڑی دیر ہوئی کبھی چلے ہی نہ گئے تھے جو اَب ہم تھک کر بیٹھنے کی
بات کریں۔ اِس صاف گوئی پر ہم معذرت خواہ ہیں، یہ سارا عرصہ شاید ہم کہیں اِدھر
اُدھر پھرتے رہے تھے، ”راستے“ تو مسلسل سنسان اور ہمارے منتظر ہی رہے ہیں! لہٰذا ”تشویش“ اگر اِس حوالے سے پائی جاتی
ہے، اور جو کہ ایک نہایت ”امید افزا تشویش“ ہوگی، تو وہ یہ نہ ہونی چاہیے کہ یہ
راستے ہم پر بند کیوں ہیں، کیونکہ یہ راستے کبھی بھی ہم پر بند نہیں تھے، بلکہ
تشویش یہ ہونی چاہیے کہ یہ راستے ہم نے چلے کیوں نہیں؟ ہاں یہ تشویش جتنی بڑھ جائے
ہماری نظر میں اتنا ہی اچھا ہے۔
ایسا ہو جاتا ہے، تو شاید ”متبادل“ کی وہ چیستان بھی، جو کہ روز
ہمارا راستہ روک کر کھڑی ہوتی ہے، آپ سے آپ ہماری جان چھوڑ جائے۔ جس سے ہمیں اپنی
”غایت“ کی بابت بھی یکسوئی حاصل ہو گی اور اپنے ”راستے“ کی بابت بھی۔ ان شاءاللہ
تعالیٰ
”معاشروں“کی طرف اگر ہمارا رخ ہونے لگتا ہے، تو عمل کی وہ شاہراہیں جو
ہماری توجہ سے محروم رہی تھیں، یقینا ہمیں اپنے سامنے کھلی نظر آئیں گی۔ عزائم کو
منزل کی طرف رواں دواں ہونے کا وہ کھویا ہوا احساس اور اعتماد واپس ملے گا۔ ”راستے“ پر ہونے کا وثوق ہماری اِس
اعصاب شکن یاسیت کو ایک صحت مند رجائیت میں بدلنے لگے گا اور یہ رکا ہوا قافلہ
بفضلہ تعالیٰ ایک نئے سرے سے جادہ پیما ہوتا دیکھا جائے گا۔
جن کئی ایک ملکوں میں اسلامی تحریک نے
اپنے آگے بڑھنے کیلئے کچھ راستہ صاف کیا ہے، آپ جانتے ہیں وہاں پر سب سے زیادہ
محنت ”معاشروں“ کے بیچ سے گزرنے والے راستوں پر ہی کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں
وہاں کچھ نہ کچھ امید افزا صورت سامنے آنے بھی لگی ہے(1)۔ یقینا ہر ملک کے خاص
معروضی حالات ہیں۔ ایک ملک کے حالات دوسرے ملک کے حالات پر ہر پہلو سے قابل قیاس
یقینا نہیں ہوتے۔ پھر بھی ہمارے سب کے سب مسلم ملکوں اور ہماری سب کی سب اسلامی
تحریکوں کے مابین بہت کچھ مشترک بھی ہے، جس سے استفادہ کرنا بہر حال ہمارا حق ہے۔
ہم سمجھتے ہیں، کام کے آزادنہ مواقع
جس قدرہماری اِس سرزمین میں پائے جاتے ہیں شاید ہی کہیں پائے جاتے ہوں۔ دوسرے بہت
سے مسلم خطوں میں ہونے والے کام کی نسبت ہم ایک کہیں جاندار منہج کے ساتھ یہاں کے
میدانِ عمل میں اترسکتے ہیں اور اللہ کے فضل سے نہ صرف اسلامیانِ ہند، بلکہ امت کے
ایک بڑے حصے کی کھوئی ہوئی امیدیں بحال کر سکتے ہیں۔
ہماری تحریروں میں یہ بات اکثر بیان
ہوتی ہے کہ حالات ہماری اسلامی تحریکوں کیلئے کامیابی کے جو غیر معمولی امکانات
اِس وقت لے کر آ رہے ہیں، شاید اِس سے پہلے کبھی نہ لے کر آئے ہوں۔ یوں سمجھئے،
ایک میدان پوری طرح خالی ہے۔ ”مایوس کن“ حالات کے اِس وقتی رخ کو
خاطر میں نہ لاتے ہوئے، یہاں کچھ تیاری کر لینے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی سرزمین پر
ذرا پیر جما لیں اور پھر آگے بڑھیں تو شاید میدان اور بھی خالی نکلے اور آپ کو بہت
آگے تک راستہ ملتا چلا جائے۔ پھر عالمی حالات تیزی کے ساتھ جس بہت بڑے خلا کی طرف
بڑھ رہے ہیں، ہو سکتا ہے یہاں وہ ہا ہا کار مچے کہ آپ کو گزرے ہوئے وقت کی بابت
صرف ایک بات کا افسوس ہو اور وہ یہ کہ ”فارغ دنوں“ میں آپ اِس چیلنج کے شایانِ شان
تیاری نہ کر سکے تھے اور یہ کہ اِن مواقع سے خاطر خواہ مستفید ہونے کیلئے آپ اپنے
”رجال“ پیدا کر سکے تھے اور نہ ”معاشرے کی سرزمین“ تیار کر پائے تھے۔
”رجال کی پیدا وری“ اور ”معاشرے کی سرزمین
کی تیاری“، جس سے معاشرے میں اللہ کے فضل سے خود ہی آپ کی پیش قدمی کیلئے راستے
کھلتے چلے جائیں گے.. اِن ہر دو ہدف کے حصول کیلئے اسلامی تحریکوں کو جن خاص
میدانوں کے اندر اترنا تھا، اور اترنا ہو گا، ہماری نظر میں وہ یہ چار میدان ہیں:
1) تعلیم کا میدان
2) ابلاغ کا میدان
3) سماجی خدمت کا میدان
4) اور چوتھا میدان، جو کہ بلحاظ اہمیت
سب سے مقدم ہے، وہ ہے ”داعیوں“ اور ہر ہر سوشل فیلڈ کے اندر”اسلامی قیادتوں“ کی
تیاری۔
جبکہ معاشرے میں اترنے اور ”تحریک“
کھڑی کرنے کیلئے جن دو میدانوں کو بطورِ خاص بنیاد بنایا جائے گا، وہ ہیں:
(1) دعوت، جس میں ”مسجد“ کا کردار بطورِ
خاص زندہ کیا جائے گا، اور
(2)امر بالمعروف و
نہی عن المنکر۔
یہ مؤخر الذکر یعنی ”امر بالمعروف و
نہی عن المنکر“، اسلام کے اجتماعی فرائض میں سے ایک عظیم فریضہ تو ہے ہی، اپنی
تحریکی جہتوں کے لحاظ سے بھی اِس قدر ڈائنامک چیز ہے کہ ہماری بیشتر تحریکوں کو
شاید اِس کا اندازہ ہی نہیں۔ در اصل یہاں پائے جانے والے کچھ ”فوجداری“ لہجوں نے
بھی اسلام کے اِس شعار کا بے حد نقصان کیا ہے۔ بہرحال اسلامی تحریکوں کے حق میں یہ
ایک ”توانائی کا خزانہ“ ثابت ہو سکتاہے۔
جبکہ اِس پورے عمل کی جو بنیاد ہو گی،
اور سب سے نمایاں کر کے رکھی جائے گی، بلکہ جس کے بغیر آپ کے یہ سب کے سب پراجیکٹ
آپ کی تحریک کو کھڑا کرنے اور معاشرے کے اندر جاہلیت کے پیر اکھاڑنے کی بجائے،
الٹا یہاں جاہلیت کا پانی بھروانے کے کام آئیں گے، وہ بنیاد ہے:
”کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ“۔ جوکہ
درحقیقت لا الٰہ الا اللہ کی تفسیر ہے۔
اِس پورے عمل میں یہ بنیاد نہیں بولتی
تو پھر باقی سب کہانیاں ہیں۔
یہ بنیاد جس چیز سے عبارت ہے اور جس
میں اِس عمل کا سارا زور پوشیدہ ہے، وہ ہے ”جاہلیت“ کے ساتھ اپنا ایک اصیل فرق
سامنے لانا اور معاشرے کے اند اُسی کو گہرا سے گہرا کرتے چلے جانا(2)۔ آپ کی اِس
پوری جدوجہد سے یہ اصل کہانی روپوش ہوئی یا ذرا دیر کیلئے اگر مدھم ہی ہوئی، تو آپ
کا یہ تمام تر معاشرتی کردار جاہلیت کے مردہ جسم میں ایک روح ڈالنے کے کام آئے گا
البتہ آپ کے اپنے حق میں نری ایک مشقت رہ جائے گا۔ یعنی جہاں تک آپ کے اپنے مقاصد پورے
ہونے کا تعلق ہے، آپ کی یہ ساری محنت اور یہ ”سماجی“ جدوجہد سراسر ضائع واکارت چلی
جائے گی۔
پس اِس دعوتی و تحریکی و سماجی عمل کا
یہ عنوان(کفر بالطاغوت و ایمان باللہ) وہ اصل چیز ہے جس پر بے حد محنت ہو گی اور
وہ کنجی ہے جو اللہ کے فضل سے یہاں سب بند راستے کھولنے کے کام آئے گی۔
اِسلام کی یہ جو اساس ہے، یعنی ”شرک
سے بیزاری اور توحید کا اِعلاء“ (اپنے ایک وسیع معنیٰ میں).. اِس کا یہ رنگ اِس
پورے عمل میں پھیکا پڑا تو سب کچھ بے جان ہو جائے گا، خواہ کچھ دیر کیلئے ہمیں
اپنے سامنے راستے کتنے ہی کھلے کیوں نہ نظر آئیں۔
٭٭٭٭٭
وقت کی اسلامی تحریکوں کو پس یہاں جو
”قوت“ درکار ہے، اُس کو فراہم کرنے کے یہ دو ہی بڑے محور ہیں:
(1) جاہلیت کا نظریاتی ابطال.. عملاً
جاہلیت سے اپنا فرق زیادہ سے زیادہ نمایاں کرتے چلے جانا.. جاہلیت کے ساتھ
”درمیانی راہیں“ چلنے کا امکان ختم کروادینا.. اور یہ آشکار کرتے چلے جانا کہ در
حقیقت یہ دو ”عقیدوں“ اور دو ”ملتوں“ کی کشمکش ہے جو کہ یہاں ایک
بنیادی ترین تبدیلی کو رو نما کرا لینے پر ہی کہیں سرے لگ سکتی ہے، نہ کہ ”حزبِ
اقتدار“ و ”حزبِ مخالف“ ایسی کوئی واجبی کسرت جو ”سسٹم“ کی صحت اچھی رکھنے کیلئے
انجام دی جائے۔ جاہلیت کے خلاف اپنے زوردار ترین دعوتی و تحریکی لہجوں کو مسلسل
ایک کلائمکس کی طرف بڑھاتے چلے جانا اور اپنی تمام تر نظریاتی و سماجی سرگرمیوں کے
ذریعے امت کے اندر جاہلیت کے خلاف ایک شدید ترین مزاحمت پیدا کروانا، اور باطل کو مسترد
کرتے ہوئے بلکہ بلڈوز کرتے ہوئے.. ”اسلام“ پر جینے اور ”اسلام“ پر مرنے کے اجتماعی
منہج پر معاشرے کو یک آواز کروانا۔
(2) اِس نظریاتی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ،
معاشرے کے اندر بھی جڑیں گاڑ کر چلنا اور ”باطل“ کے خلاف محض نظریاتی بحثوں
(خطبوں، تحریروں، جلسوں، ’ڈرائنگ روم ملاقاتوں‘، ’چینل مناظروں‘ یا گلی گلی پھرنے
ایسی کچھ ”مجرد“ قسم کی سرگرمیوں) تک محدود نہ رہنا۔ جس کا طریقہ یہی ہے کہ اسلامی
قیادتیں معاشرے میں گہرا اترنے کے وہ سب سوتے ہاتھ میں کریں، جس سے یہ معاشرے کے
ایک مؤثر طبقے کے اندر بولنے لگیں اور ان سب فیلڈز میں (جن کی چند مثالیں اوپر گزر
چکیں) معاشرے کو دینے کیلئے مؤثر ترین قیادتیں سامنے لائیں.... تاآنکہ اِن کے
اسلامی ایجنڈا کی مزاحمت معاشرے کے اندر کسی کیلئے ممکن نہ رہے اور ان کے دیے ہوئے
رجحانات معاشرے پر چھا جانے کی صلاحیت سے آشنا ہوں۔ یوں اسلام کی پیش قدمی سڑکوں
پر الاپے جانے والے کچھ سطحی ”نعروں“ کی صورت میں نہیں بلکہ معاشرے کی ”رگوں“ کے
اندر ہونے لگے۔
٭٭٭٭٭
یہ سب امور جو اوپر نمبر وار ذکر
ہوئے، ان کی وضاحت ظاہر ہے ہم اِس ایک مضمون میں نہیں کر سکیں گے۔ اِس بار کے
اداریہ میں ہم ”تعلیم“ کی بابت ہی ذرا تفصیل میں جا کر گفتگو کریں گے۔ (آئندہ کسی
وقت ہم ”ابلاغ“، ”سماجی خدمت“، ”داعیوں کا نیٹ ورک پھیلانے کے
پراجیکٹ“، ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ اور اِس سلسلہ کے کچھ دیگر موضوعات پر قلم اٹھائیں گے، جس پر
ہمارا یہ سلسلۂ مضامین ”معاشرہ اسلامی تحریکوں کا منتظر ہے“ اختتام کو پہنچے گا
اور ایک مستقل تصنیف کی صورت میں دستیاب ہو گا۔ اِن شاءاللہ)۔
اسلامی ایجنڈا کو ”تعلیم“ کے چینل کی
راہ سے معاشرے میں کیونکر گہرا لے جایا جا سکتا ہے؟ یہ اِس مضمون کا مرکزی نقطہ
ہے، تاہم اِس کا بڑا حصہ تحریکی عمل کی ”سماجی جہتوں“ سے ہی بحث کرتا ہے۔ زیادہ
تر، وہ عمومی منہج ہی یہاں ہمارے زیر بحث آئے گا جو معاشرے میں اسلامی تحریک کی
راہ تکنے والے سب کے سب شعبوں کی ضرورت ہے۔ پس اِس بحث کے بیشتر نکات یہاں پرمطلوب
”سماجی عمل“
کے باقی
میدانوں پر بھی اتنا ہی صادق آئیں گے جتنا کہ ”تعلیم“ پر۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے
تو اِس مضمون کا دائرہ ”تعلیم“ سے وسیع تر ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
آسانی مبحث کی خاطر، اور طوالت کا اثر
کم کرنے کیلئے، اِس بار کا اداریہ ”فصول“ میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور ہر فصل کو الگ عنوان د ے دیا گیا
ہے۔
(1) یہ راستے جو ”معاشروں“ سے تو
گزرے ہوں گے مگر ہو سکتا ہے ”عقیدہ“ سے نہ پھوٹے ہوں، لازمی نہیں ہر پہلو سے ہمارے
لئے قابل تقلید ہوں۔ شرعی پہلؤں سے یہ جس قدر قابل اصلاح ہیں اس کیلئے ہم اپنے
علمائے عقیدہ سے رجوع کر سکتے ہیں۔ یہاں ہمارے پیش نظر ان تحریکی تجربات کے سماجی
پہلو ہیں۔
(2) اِس موضوع کو کھولنے کیلئے ہم
کئی ایک تحریریں سامنے لا چکے ہیں۔ زیادہ نہیں، تو ہمارے چند گزشتہ اداریوں کی ایک
سیریز دیکھ لی جانا اِس موضوع کی بعض جہتوں کو واضح کر سکتا ہے:
(1)اسلامی قیادتیں
اب یا کبھی نہیں (اداریہ اکتوبر تا دسمبر 2008ء)
(2) پس چہ باید کرد (اداریہ اپریل تا جون
2009ء)
(3) تیز حرکت، بند راستہ (اداریہ جولائی
تا ستمبر 2009ء)
(4) ”دعوت“ کو نئے لہجوں کی ضرورت (اداریہ
جنوری تا مارچ 2010ء)
(5)’ نظام‘ نہیں ”عقیدہ“ ہی
تبدیل ہونے والا ہے“ (اداریہ اپریل تا جون 2010)