کیا آپ اپنے نبی ﷺ کی نصرت کے لیے تیار ہیں؟؟
ایک بار پھر گستاخانہ خاکے.... اور توہین ِ رسالت....
(معاذاللہ) ہمارے نبیﷺ کے مضحکہ خیز خاکے بنانے میں ہزاروں شقی اور تیرہ بخت افراد کی شمولیت....!!
ہر بار کے احتجاج اور لعنت ملامت کے باوجود، دو بارہ پہلے سے کہیں بڑھ کر جسارت، بدبختی، غلاظت ِ قلبی اور جہنم رسید ہونے کی خواہش کا برملا اظہار....
ان کی دنیا بھی عنقریب ان کے لیے جہنم بن جانے والی ہے....
ایک بڑی جنگ عنقریب چھڑ جانے والی ہے....
یہ جنگ ہم نے نہیں، خود انہوں نے ہی چھیڑی ہے....
یہ جنگ ہوکے رہے گی....
یہ وہ جنگ نہیں جو محض دلیل سے جیتی جاتی ہو....
یہ وہ کارزار نہیں جس کا حل ڈائیلاگ میں ڈھونڈا جاتا ہو....
ادارہ ایقاظ کے زیر اہتمام ہفتہ وار عقیدہ کلاس
یہ وہ جدال نہیں جو اپنی بات رکھ دینے پر موقوف ہوجائے....
یہ وہ معاملہ نہیں جو اہل ِ کفر کے انجامِ آخرت پر چھوڑ دیا جائے....
توہین ِ رِسالت ایسے بدترین جرم کی سزا ، قدرت اہل ِ اِسلام کے ہاتھوں بھی دِلوایا کرتی ہے....
تاریخ اِس کی شاہد ہے اور ماضی اِس پر گواہ....
لیکن، تب ہمارے اسلاف بڑے غیّور، خوددار اور باضمیر ہوا کرتے تھے....
امن اور آزادی کے جھوٹے اور کھوکھلے نعرے انہیں کسی اصولی اقدام سے ہرگز نہ روک سکتے تھے....
اُن کے لیے اپنے نبیﷺ پر مر مٹنے کا جذبہ دُنیا کی ہر محبت سے سِوا تھا.... اور ہر رُکاوٹ سے ماورا....
اندیشے اور وسوسے اُن کی راہ میں حائل نہ ہو سکتے تھے....
کمزوری اور غلامی میں بھی اُن کی آتش ِ محبت اسی طرح فروزاں اور تاباں تھی....
تب اُن کے دشمن بھی ہمارے نبی کی حرمت و ناموس کے معاملے میں حد درجہ محتاط تھے....
نبیﷺکی شان میں کوئی ایسا ویسا لفظ بولنا اُن کے لیے اپنے ہی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف ہوتا....
مسلمانوں کا بچہ بچہ جان دے دینے اور جان لے لینے پر آمادہ ہوجاتا....
آج جو ہمارے نبی کی شان میں اِن سیہ بختوں کی ناپاک زبانیں دراز ہیں.... دریددہنوں سے غلاظتوں کے بھپکے اُٹھ رہے ہیں.... اِن کے قلم کی روشنائی خبیث رُوحوں اور شیاطین کے گندے خون کی مرہون ِ منت ہے۔۔۔، اور اِن خاکوں کی شکل میں انہوں نے دراصل خود اپنے کمین فطرت معاشروں اور گھناؤنے نظریات کی مکروہ تصویر کھینچی ہے....
کیا یہ کبھی ایسی جرأت کرسکتے تھے؟.... کیا ان کو کبھی ایسا سوچنے کی بھی ہمت ہوسکتی تھی؟؟
....اگر ہم خود ہی کمزور نہ پڑ گئے تھے.... اگر بزدلی نے ہر طرف سے ہم پر گھیرا نہ ڈال دیا ہوتا.... اگر یوں دُنیا سے ہماری محبت اِس قدر ہرگز نہ بڑھ گئی ہوتی.... اگر ہم موت میں دائمی زندگی تلاش کرنے کی بصیرت سے محروم نہ ہو گئے ہوتے.... اگر ہمارے نہاں خانۂ دِل میں عشق ِ مصطفٰی کا روشن چراغ ماند نہ پڑگیا ہوتا.... اگر ہم اہل ِ کفر سے دوستی اور محبت کی پینگیں اس قدر نہ بڑھا چکے ہوتے.... اگر ہماری جمعیت پارہ پارہ نہ ہوچکی ہوتی.... اگر ہماری خود اِنحصاری گھٹ گھٹ کر مر نہ چکی ہوتی.... اگر ہماری غیرت و حمیت کا جنازہ ہمارے ہی ہاتھوں نہ نکل چکا ہوتا.... اگر ہمارے دین کی بنیادوں سے ہمارا سرِ رشتہ کمزور نہ پڑ گیا ہوتا.... اگر امن اور آزادیٔ اظہار کے ڈھکوسلوں سے ہماری عقلوں پر پتھر نہ پڑ گئے ہوتے....!!!؟؟؟
یہ صرف ہمارے دُشمن کی جسارت ہی نہیں... ہماری بزدلی ، مُردہ ضمیری اور کم عقلی کا نوحہ بھی ہے!
اگر آج بھی ہم نے دُشمن کو اِس قبیح اور گھناؤنے فعل سے نہیں روکا تو، خدا نہ کرے، اگلی بار اِس سے کچھ زیادہ ہی ہوگا، اور خاکم بدہن، یہ سلسلہ کبھی رکے گا نہیں....
یہ بھی ماتم کرنے کا مقام ہے کہ ہم صرف اپنی کمزوری اور ناتوانی کے ہی ذمّہ دار نہیں بلکہ دشمن کی تمام قوت و طاقت بھی ہمارے دَم سے ہے۔ اور ہم اپنی غفلت، سہل پسندی اور دنیا پرستی کے سبب دشمن کی شان و شوکت اور آن بان بڑھانے کا دنیا میں سب سے بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ انٹر نیشنل مارکیٹ میں دشمن کی مصنوعات اور پراڈکٹس کی سب سے بڑی خریدار مسلمان قوم ہی ہے۔ اُن کی ملٹائی نیشنلز نے جگہ جگہ ہمارے ملکوں میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے خون پسینے سے اپنی خون آشام معیشت کی آبیاری اور افزائش برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی سبب اُن کی معیشت دن بہ دن مضبوط سے مضبوط تر اور ہماری کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے ۔ اور ہم بھی کیا سادہ ہیں، جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں اُسی بیداد گر سے دوا لیتے ہیں۔ وہ ہم سے ہی کماتے ہیں۔ پھر ہم پہ ہی احسان کرکے قرض جاری کرتے ہیں۔ اور یوں ہمارا بال بال قرض میں جکڑ کر جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنی شرائط منواتے ہیں۔ وہ ہمارے دینی شعائر اور قدروں کو جب چاہتے ہیں پامال کردیتے ہیں اور ہم بے بسی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ وہ ہمارے معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کو ہمارے ہی ملکوں میں بم برسا برسا کر خاک و خون میں نہلانے کا ہنر آزمانے کی مشق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ جور و جفا کے اشتیاق میں حد سے گزرے ہوئے ہیں۔
ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تک؟؟!!
یہ مانا تم نے تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
آخر یہ ذلّت و خواری اور بے کاری کب تک؟ یہ بے بسی، رُسوائی اور ناداری کس لیے؟؟ یہ عاجزی و درماندگی اور لاچاری تا بہ کے؟؟؟
یاد رکھو کہ دشمن صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ آج کی” مہذب“ دنیا میں طاقت اور قوت ہی سب ”اخلاقیات“ کا منبع ہے۔ یہ معاملہ خالی خولی احتجاج اور نعروں سے حل ہونے والا نہیں، بلکہ درحقیقت ”بائیکاٹ“ اور ”پابندی“ جیسی حکمت ِ عملیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جب تک مغرب پر کسی قسم کا معاشی یا سیاسی دباؤ نہ ڈالا جائے گا، وہ ہماری بات ماننے والا نہیں۔ یہ افراد کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ دو قوموں کی جنگ بن چکی ہے۔ اور جنگوں میں احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اِس ذلّت و رُسوائی کو دور کرنے کا وہ طریقہ جس میں امت ِ مسلمہ کا بچہ بچہ شریک ہو سکتا ہے اور جس پر کوئی پابندی بھی نہیں لگائی جا سکتی، یہ ہی کہ ایک نئے عزم، ولولے اور یکجہتی کے احساس کے تحت غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا نئے سرے سے بھرپور ڈول ڈالا جائے، خاص طور پر وہ اشیاءجو تعیش کے زمرے میں آتی ہیں جیسے کولڈڈرنکس، چاکلیٹس، فوڈ آئٹمز، کاسمیٹکس وغیرہ وغیرہ۔ اور حبِّ نبوی کی خاطر حتی الامکان زیادہ سے زیادہ ملکی مصنوعات کا سہارا لیا جائے....، بلکہ بنیادی ضرورت کی اشیاءبھی حتی الامکان اپنے ملک کی ہی استعمال کی جائیں....، تاکہ ایک طرف مسلمانوں کی معیشت مضبوط و مستحکم ہو تو دوسری طرف کفار کی کمزور۔ اور اِس معاشی دباؤ کی بدولت ان سے کئی ایک اہم معاملات میں ڈیل کرنے کی پوزیشن میں آیا جاسکے۔
ٹھیک ہے کہ کئی بار مصنوعات کے بائیکاٹ کی پکار پہلے بھی لگائی جاتی رہی ہے، اور ہر بار ہماری ہی سہل پسندی اور تعیش پرستی کی وجہ سے گُھٹ کے ختم بھی ہوجاتی رہی ہے، اور ٹھیک ہے کہ ہمارے ”مطلوبہ معیار“ کی بہت سی اشیاءلوکل سطح پر بنتی ہی نہیں ہیں، لیکن اگر ہم تھوڑی سی آزمائش گوارا کرکے حتی المقدور آج اِس چیز پر مجتمع ہو جائیں تو کل اِنشاءاللہ اِس کے نتائج ہم بچشمِ سر دیکھیں گے۔ اِتنی ذرا سی قربانی (جو شاید قربانی سے ”ذمّہ داری“ میں عنقریب تبدیل ہوجانے والی ہو!)، اگر ہم اپنے گھر بیٹھے نہیں دے سکتے تو وہ کون سی محبت ِ رسول ااور کونسی امت کی فکر ہے جس کا رونا ہم دِن رات روتے رہتے ہیں؟؟ ”میرے اکیلے بائیکاٹ سے کیا ہوجائے گا“ ایسی سوچ اگر ہر فرد رکھنے لگے تو واقعی کبھی بائیکاٹ نہیں ہو سکتا۔ یہ تبھی کامیاب ہوگا جب ہر شخص دوسروں سے بے نیاز ہو کر بلکہ دوسروں کو بھی متوجہ کرتے ہوئے اپنی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم باندھے۔ اور حرمت و ناموسِ رسول کی حفاظت کی صدا جس فورم اور جس بھی تنظیم کی طرف سے لگ رہی ہواس میں اُن کی آواز کے ساتھ آواز ملائے، تاکہ ایک طرف دنیا اسلام کے نام لیواؤں کو ایک بار پھر یکجا و مجتمع ہوتا دیکھے، اور دوسری طرف اُن کا مسئلہ دنیا کے ایک بڑے مسئلہ کے طور پر تسلیم ہو سکے۔
یاد رکھیے، موجودہ حالات میں دشمن کو گھٹنے لگوانے کے لیے بائیکاٹ سے زیادہ بہتر، آسان، محفوظ، ”پُر امن“ اور سہل حکمت ِ عملی کوئی اور نہیں ہے۔
اپنے نبیﷺکی حرمت اور اپنے دین کی حفاظت کے لیے اندریں حالات بائیکاٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں....
کیا آپ اپنے دین اور اپنے نبیﷺکی نصرت کے لیے تیار ہیں؟؟