عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Monday, November 25,2024 | 1446, جُمادى الأولى 22
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2010-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
”ہمارا“ نظامِ تعلیم
:عنوان

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف
 
”ہمارا“ نظامِ تعلیم

محمد بن مالک
 
 
قوموں کی ترقی اور عروج و زوال سے انسانی شخصیت کی ترقی کا گہرا تعلق ہے
انسانی زندگی میں ”روحانیت“ اور ”اخلاقیات“ کی اہمیت کتنی ہی شدید ترین کیوں نہ ہو، ”مادّیت“ کے علم اور اپنے دور کی مادّیت کے ساتھ پورا اُترنے میں اس کے تقاضوں کو مدِّ نظر رکھنا، خود روحانیت کے پیغام کو دنیا میں زندہ و تازہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔
”دنیا میں اِنسان کیوں اور کس لیے آیا ہی؟“ یہ  ایک فطری سوال ہے جو ہر انسان کے ذہن میں ضرور اُبھرتا ہے۔ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش اور جستجو اِنسان کو علم و عرفان کی طرف لے کر جاتی ہیں۔علم کی اصل طلب اور پیاس اِنسان کے اندر خود اُس کی ذات سے متعلق سوال سے پیدا ہوتی ہے۔ ہر  ایک چیز کے بارے میں بھی اُس کے ذہن میں اِسی قسم کے سوالات اُٹھتے ہیں جو اُسے علم کی راہوں میں گامزن رکھتے ہیں، اور کہیں نہ کہیں اُسی اوّلین سوال سے آکر جڑ جاتے ہیں۔
انسان خدا کی قدرت اور تخلیق کا عجیب شاہکار ہے۔ کائنات کا مشاہدہ اُسے جن سوالات تک لے کر جاتا ہے،ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب سوالات پہلے سے اُس کے اندر ہی کہیں موجود تھے، جو وقت آنے پر برآمد ہو گئے۔! پھر جب وہ ان کے درست جوابات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اُسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام جوابات بھی اُس کے اپنے اندر ہی کہیں سے دریافت ہوئے ہیں۔!! یوں اُس کا کائنات کو سمجھنا اور جاننا گویا اپنی ذات کو دریافت کرنے ہی کی  ایک کوشش ہوتی ہے،اور خود کو پہچاننا، کائنات کو بوجھنے ہی کا ایک تسلسل۔
اِنسان کے اندر سے سوالات کو برآمد کروانا اور پھر اُسی کے اندر سے جوابات کو تلاش کروانا دراصل ”تعلیم“ ہی ہے۔
٭٭٭٭٭
انسانی شخصیت اگر کسی  ایک ہی پہلو کو محیط ہوتی اور محض  ایک ہی حوالے سے بیان کی جا سکتی ہوتی تو پھر یہ دنیا بھی اِس قدر رنگارنگ اور ہمہ اقسام کی اشیاءاور کیفیتوں کا مجموعہ ہونے کی سزاوار نہ ہوتی۔ اِنسان کے اندر مختلف صفات اور ہمہ رنگ خصوصیات کی بوقلمونی کی گئی ہے تو اِسی لیے کہ یہ دنیا کے ہر ایک رنگ کے ساتھ ایک بھرپور تفاعل کرے۔ اور اِس ناتے دُنیا کے ہر اِک رنگ کا عکس پہلے خود اپنی ذات کے اندر دریافت کرے۔
دنیا سب کی سب اِنسانوں ہی کے لیے ہے۔ پھر دونوں کے رنگوں کے تنوع اور اُس کے امتزاج میں ہم آہنگی کیوں نہ ہوگی؟!
 ایک کثیر الجہت شخصیت کا حامل ہونا اِنسان جیسی مخلوق کے ہی شایان ِ شان تھا۔ یہ مخلوق جب اپنی اِس عظیم صفت کو پہچان کر اُس کی قدر دانی کا حق ادا کرتی ہے تو یہ دُنیا بھی اپنے تمام رنگوں سمیت اُس کے لیے درِ دل وا کر دیتی ہے۔
اِنسان کسی خود کار شے کا نام نہیں ہے۔ وقت، حالات اور زمانے کی گردشوں کے حساب سے اُس نے دنیا کے ساتھ اپنا رشتہ برقرار رکھنا اور معاملات کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔اپنی شخصیت کے فکری پہلو سے ہٹ کر بھی وہ دنیا میں اپنے  ایک  ایک لمحے کا اثر مُرتب کرتا ہے،اپنی ذات پر بھی اور اپنے ماحول پر بھی۔
چنانچہ صاحب ِ عقل و شعور ہونے کے ساتھ ساتھ یہ  ایک احساس کی دنیا اور جذبوں کا  ایک جہان بھی اپنی ذات کے اندر سدا آباد رکھنے والی مخلوق ہے۔ اِس کی  ایک” نفسیات“ ہے۔ قدرت نے اس کے اندر ”جمالیات“ کی جوہرکاری بھی نہایت خوب کر رکھی ہے۔ یہ  ایک ”معاشرتی حیوان“ بھی ہے۔ اِس کی  ایک ”اخلاقیات“ بھی بہرحال ہوتی ہے۔ اِس کے اندر ”روحانیت“ کی طلب بھی بہرکیف پائی جاتی ہے،وغیرہ وغیرہ۔ پھر اِن میں سے ہر ایک کی کئی ایک شکلیں اور شاخیں ہیں، جن کے پھر اِنسان کی شخصیت میں پنپنے کے اپنے اپنے تقاضے ہیں۔
قدرت نے جب اِنسان کی شخصیت میں اِتنے مختلف پہلو ودیعت کر رکھے ہیں تو ہر  ایک کی اہمیت کو زمانے میں  ایک بھرپور اِنسانی کردار کے ادا ہونے کے لیے مدِّ نظر رکھنا اَز بس ضروری ہے۔ اِنسانی شخصیت کے اِن سب پہلوؤں میں سے آپ محض کسی  ایک کو نکال لیجیے۔ آپ کے سامنے جو کچھ ہوگا وہ بظاہر کتنا ہی کارآمد کیوں نہ ہو، اِنسان کہلانے کے لائق بہرحال ہرگز نہ ہوگا۔
ممکن نہیں ہے کہ خالق و فاطر نے اِنسان کے اندر کوئی چیز ودیعت کر رکھی ہو اور دنیا میں اِنسان نے اپنا جو جو کردار ادا کرنا ہے،اُس میں اُس کا کوئی اہم حصہ نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی شخصیت کے یہ مختلف پہلو اپنی انفرادی اور isolated حالت میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے۔ ہر ایک پہلو اپنے دیگر اِنسانی پہلوؤں کی موجودگی میں ہی کارآمد و مؤثر ہے،اور اُن کے بغیر  ایک لایعنی شے۔ ایک کم سے کمتر صلاحیتوں کا اِنسان بھی اگر اِنسان ہے تو اِسی وجہ سے کہ اُس کی شخصیت کے اندر یہ سب پہلو جمع ہیں، خواہ کتنے ہی غیر ترقی یافتہ حالت میں ہوں۔
چنانچہ انسانی شخصیت کے کسی  ایک پہلو کے زیادہ سے زیادہ مؤثر ہونے کا تعلق بڑی حد تک اُس کی شخصیت کے دیگر پہلوؤں کے ترقی یافتہ ہونے سے بھی ہے۔ شخصیت کے یہ سب مختلف پہلو ہیں ہی اِسی لیے کہ باہم ایک دوسرے کے کام کو تقویت پہنچائیں ، اور اُس کو زیادہ سے زیادہ مُفید و مؤثر بنانے میں اپنا اپنا کردار بھی بھرپور انداز میں ادا کریں۔ مگر یہ تبھی ممکن ہے جب انسانی شخصیت میں اِن سب جہتوں کو ایک مناسب حد تک پھلنے پھولنے اور نشو و نما و افزائش حاصل کرنے کے مواقع میسر آئے ہوں۔
 ایک بھرپور اور متوازن انسانی شخصیت ہر دور کی ضرورت رہی ہے۔ ہر دور میں کامیاب انسان وہی لوگ رہے ہیں جن کی شخصیت میں جامعیت اور توازن زیادہ سے زیادہ پایا جاتا رہا ہے۔ کامیاب اور ترقی یافتہ معاشرے بھی وہی ہوتے ہیں جن میں ایسے لوگوں کا تناسب زیادہ سے زیادہ پایا جاتا ہے۔اِس لحاظ سے آج کے مُسلم معاشروں کو دُنیا میں پھر سے عزّت و سرفرازی دلوانے اور اپنا آپ منوالینے کے لیے ایک بڑی اور انتہائی اہم ضرورت جامع اور متوازن شخصیت کے حامل مسلمان افراد کی تیاری ہے،جس کے لیے یہاں کے تعلیمی اور تربیتی سسٹم نے ہی اپناکردار ادا کرنا ہے۔
نئے دور کا جو فکری چیلنج ہے،سو ہے۔اُس سے بڑھ کر اب مزید چیلنج یہ ہے کہ اُمّت ِ مسلمہ کو کثیر تعداد میں ایسے افراد میسر آئیں جن کی شخصیت میں موجودہ زمانے کی نسبت سے ایک جامعیت اور ایک توازن پایا جاتا ہو، اور جو فکر کو عمل کے میدانوں میں اُتار دینے کی اہلیتوں سے مالامال ہوں۔
٭٭٭٭٭
”تہذیبوں کا تصادم“ دراصل فکری بنیادوں پر لڑا جانے والا وہ معرکہ ہوگا جس کے انجام کا اِنحصار فکر کی حقانیت کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک فریقوں کی اہلیتوں پر بھی ہوگا۔ (واضح رہے کہ اہلیتوں سے ہماری مُراد وسائل اور ٹیکنالوجی کی فراوانی ہرگز نہیں ہے۔بلکہ یہ چیزیں بھی جب ہوں گی تو اہلیت کی وجہ سے، اور اُسی کی موجودگی میں ہی کارآمد و مؤثر ہوں گی۔)
یہ جو بات ابھی بیان ہوئی وہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ کچھ دینی تحریکوں کے ہاں سے بھی برسوں سے دہرائی جا رہی ہے،بہ عنوان ”صالحیت و صلاحیت“۔ لیکن ایک بہت مختلف تناظر میں؛ یعنی حکومت کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے خود کو حقدار ثابت کرنے کے حوالے سے، نہ کہ اُمّت ِ مسلمہ کی تعلیم و تربیت کرنے کے لیے۔
البتہ صا لحیت کی اصطلاح کے اِستعمال سے اُس فکری ضرورت کی مکمل ترجمانی نہیں ہوپاتی جو یہاں کی تحرایکوں کے لیے اُمّت کی تعلیم و تربیت اور خود یہاں کے سیاسی عمل (جس میں شمولیت کے لیے وہ اِس خاصیت کو لازمی قرار دیتے ہیں) سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ضروری ہے۔ نہ صلاحیت ہی سے اُن کی وہ مراد بن پاتی ہے جو  ایک فرد کی شخصیت کے ہر پہلو کے حوالے سے لی جاتی ہو۔ زیادہ سے زیادہ اِس صلاحیت سے اُن کی مراد قیادت کی وہ اہلیت ہوتی ہے جوخاص میدان ِ سیاست میں، سایکولروں کے بالمقابل، اُن جماعتوں کے اندر اندر رہتے ہوئے، عمل میں لائی جائے۔
بلاشبہ آج مسلم شخصیت کے لیے درکار صلاحیت کو واضح کرنے کے لیے ”قیادت کی اہلیت“ سے بہتر شاید کوئی اور تعبیر نہ ہو۔لیکن یہ ایک ایسی قیادت ہوگی جومحض کسی  ایک مخصوص میدان ِ عمل سے وابستہ نہ ہو، اورنہ ہی صرف اپنی جماعت یا تنظیم کے لیے ہو،جس کی جماعت سے باہر کہیں دال ہی نہ گل سکتی ہو۔ بلکہ وہ  ایک جامع قیادت ہو جو زندگی کے تمام میدانوں کو عمومی طور پر محیط ہو۔
اِن سب کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود اُمّت کے سنجیدہ طبقے بڑے عرصے سے قیادت کے اِس خلا کو دور کرنے کی دُہائی دے رہے ہیں۔ اور اِس سلسلے میں تعلیم کے کلیدی کردار پر بھی زور دیتے رہے ہیں۔
بلاشبہ یہاں کی دینی _ تحریکی و غیر تحریکی_ دنیا میں جدید تعلیم کے حوالے سے بھی خاصی کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن بڑی حد تک وہ (”اِسلامی نصاب“ کی پیوند کاری کے ساتھ) پہلے سے چلے آنے والے ایک لگے بندھے نظام ِ تعلیم سے ہی وابستہ نظر آتی ہیں۔ جس کی غایت و مقصود بالآخر رائج امتحانی نظام سے اچھے نمبروں سے ”پاس “ہو جانا ہی ہوتاہے۔ گویا یہی یہاں کی اہلیت کا آخری معیار ہی!!
آپ اپنے نونہالوں کو کچھ بھی پڑھا اور سکھا لیں، گھوم پھر کے انہوں نے ابتدائی اور اہم ترین مرحلے میں ”میٹرک“ یا زیادہ سے زیادہ او لیول کا اِمتحان ہی دینا ہوتا ہے۔ چنانچہ تعلیمی اداروں کی سب کوششیں سمٹ کر امتحانات کی تیاری پر مرکوز ہو رہتی ہیں۔جس کا کوئی تعلق شخصیت کی تعمیر و ترقی اور کردار سازی سے نہیں ہوتا۔ بلکہ ابتدائی درجوں میں دی جانے والی تعلیم بھی اِس طرح اور ایسے خطوط پر دی جاتی ہے کہ بچے آگے جا کر بس میٹرک یا او لیول کے امتحان کی تیاری کے اہل ہو سکیں۔ا متحان سے گزرنے کی دیر ہوتی ہے کہ طلبہ،والدین، اساتذہ اور تعلیمی اِدارے سب سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ گویا ایک بڑا معرکہ تھا جو سَر کر لیا گیا!!! پھر اِمتحانات میں اچھے نمبرز، اعلٰی گریڈز اور پوزیشنز لینے کی ایسی جنون آمیز دوڑ لگی ہوتی ہے کہ توبہ ہی بھلی! جن تعلیمی اِداروں میں طلبہ کے اچھے گریڈز اور پوزیشنز آتی ہیں وہ سب سے اچھے تعلیمی اِدارے شمار کیے جاتے ہیں جہاں اپنے بچوں کو داخل کرانا والدین کا خواب ہوا کرتا ہے۔!!
بچوں کی شخصیت کی تعمیر و ترقی اور کردار سازی البتہ وہ چیز ہوتی ہے جو اِس سب بھاگ دوڑ، دھکّم پیل اور شور و غوغا سے بڑی حد تک غیر متعلق ہی ہوتی ہی!
میٹرک کے امتحان کی اہلیت؟؟!!! سبحان اللہ! کیا یہاں میٹرک کا امتحان بچوں میں سرے سے کسی قسم کی اہلیت پیدا بھی کرتا ہی؟؟!! اگر ایسا ہوتا تو پھر تو رونا ہی کس بات کا تھا۔
بنیاد جس نہج پر پڑ چکی ہو، باقی عمارت بھی پھر اُنہی خطوط پر تعمیر اور اُستُوار ہوتی ہے۔ چنانچہ آگے جا کر اِنٹر میڈیٹ، گریجویشن، پوسٹ گریجویشن وغیرہ کی تعلیم بھی اِسی امتحانی نظام کے زیر اثر، ذہنوں اور شخصیتوں کوانتہائی تنگ اور مخصوص سانچوں میں ڈھالنے کے کام آتی ہے۔ جس سے آگے جانا پھر کبھی اِنسان کے بس میں نہیں رہتا۔” تعلیم برائے ڈگری بذریعہ مروجہ امتحانی نظام“ صرف طلبہ اور والدین کا ہی مطمح نظر نہیں ہوتا بلکہ تمام مشنری و غیر مشنری، ”فار پرافٹ“ اور ”ناٹ فار پرافٹ“، اسلامی و غیر اِسلامی جدید تعلیمی اِداروں کا بالآخر یہی مقصد ہوتا ہے کہ عمدہ ڈگری ہولڈرز کو سند ِ فراغت سے شاد کام کیا جائے، اور یوں رائج تعلیمی نظام کا  ایک پرزہ بن کراور اُسی کی منشا کے مطابق لوگوں کو تیار کر کے خود کو ذمّہ داریوں سے سبکدوش سمجھا جائے۔
ہمارے تدریسی نظام کی اصل روح ہمارا امتحانی نظام ہے جو اِس بات کا تعیُّن کرتا ہے کہ تدریس کیسے کی جائے، کس چیز کی کی جائے اور کس چیز کی نہ کی جائے۔ طلبہ کی کارکردگی کا جو امتحان ایک محدود وقت کے اندر لیا جاتاہے وہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ طلبہ سے تحریری سوالات کے ذریعے ایک محدود سے انداز میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جو کچھ اُنہیں ”پڑھایا“ گیا تھا وہ اُنہیں کتنا آتا ہی! البتہ چونکہ اِس امتحان کا مقصد یہ معلوم کرنا نہیں ہوتا ، اور نہ ایسے کسی امتحان کے ذریعے یہ معلوم کرنا ممکن ہی ہے،کہ طلبہ کی شخصیت اور کردار کی مختلف جہتوں میں کیا ترقی اور تبدیلی رونما ہوئی، لہٰذا خود تدریس کا ہدف اور فوکس طلبہ کی شخصیت میں تبدیلی نہیں ہوتا، بلکہ صرف امتحان ہی لینا ہوا کرتا ہے،جس کا تعلق مضمون سے ہوتا ہے نہ کہ طلبہ کی شخصیت سے۔ تدریس بھی پھر صرف انہی چیزوں کی کی جاتی ہے جن کا اُس محدود وقت میں ”تحریری“ امتحان لیا جاسکتا ہو۔ البتہ جن چیزوں کاامتحان لیا جانا مشکل ہو یا کسی وجہ سے ممکن نہ ہوسکتا ہو، اُن کی تدریس کی پھر ضرورت ہی باقی نہیں رہتی! خواہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کتنی ہی اہم ہوں، اور انسانی سیرت و کردار سے اُن کا کتنا ہی گہرا تعلق ہو۔ اندازہ کیجیے، ایک تو تدریس کی تمام تر حدود کا اِنحصار امتحان اور اُس کے طریقۂ کار پر ، اوپر سے امتحان بھی محض تحریری!!!
اور پھر مخصوص نصابوں، کتابوں، سرگرمیوں اور دورانیوں کی تنگنائے میں نونہالوں کے دریائے جستجو کو مقیّد کر رکھنا اور اُن کی طلب و کسب ِ علم کا دھارا اپنی مرضی اور صوابدید سے مقرر و متعین کر رکھنا اپنی جگہ الگ ایک سوال ہے۔ اِنسانی صلاحیتوں کا مقصد اور مصرف چونکہ اِس نظامِ تعلیم میں پہلے سے طے ہوتا ہے لہٰذا اِس نظام کے تمام کَل پُرزے نصاب سے لے کر تدریس تک اور سرگرمیوں سے لے کر امتحانی طریقوں تک اِسی مقصد اور غایت کے حصول کے لیے ایک مخصوص ترتیب اور انداز سے فِٹ ہوئے ہوتے ہیں۔ اِنسانی شعور اور صلاحیتیں اِس نظام سے گزرنے کے نتیجے میں جس طرح نمو پاتی ہیں وہ اُن کے پروان چڑھنے کی ایک خاص ہی سمت ہوتی ہے۔ لوگوں کی سوچوں اور نظریات کا دھارا ان کے زبردست اختلاف اور تنوع کے باوجود آخر ِ کار ایک ہی سمت پر مرکوز ہو نے لگتا ہے۔ لوگوں کے اپنے نظریات خواہ کچھ بھی ہوں، دنیا کو دیکھنے اور اُس کے اندر اپنا کوئی کردار اَدا کرنے کا بالآخر وہی رُخ اور وہی انداز اختیار کرنا لوگوں کی عادت اور فطرت بن جاتا ہے جو یہ نظام اُن سے چاہتا ہے اور جس سے اُن کو برسوں گزارتا بھی رہا ہوتا ہے۔ اِس انداز سے ماورا ہو کر کوئی اور انداز اور جہت اختیار کرلینا تو دور کی بات ، اُس کا تصور بھی کر لینا لوگوں کے لیے ایک ناممکن سی بات ہو جاتی ہے۔
یہ ایک تیز رفتار مشینی عمل ہے،جو بلا استثناءیہا ں کے تمام جدید تعلیم کے اِداروں میں تعلیم و تربیت کے نام پر جاری ہے،جس میں ایک طرف تو یہاں کا اِمتحانی نظام اپنی فطری محدودیت کے سبب نونہالان ِ قوم کے اکتسابی عمل (learning process) کو نہ صرف حد درجہ محدود کر دیتا ہے بلکہ اُن کی طلب ِ علم کی ایک طرح سے غایت (driving force) بھی بن جاتا ہے۔ چنانچہ، جس جگہ امتحان کا ”جبر“ نہ ہو وہاں طلب ِ علم بھی مفقود ہوتی ہے۔ دوسری طرف خود جدید تعلیم کا مقصد، جو کہ یہ ہے کہ لوگ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک کامیاب زندگی (کامیاب بمعنی خوشحال) گزارنے کے اہل ہو سکیں،پہلے سے طلبہ، والدین، اساتذہ اور تعلیمی اِداروں بلکہ پورے معاشرے میں طے شدہ ہوتا ہے اور اِس نظام کی رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہا ہوتا ہے۔ یہ آخری حد تک اِس بات کا تعین کرتا ہے کہ طلبہ کی شخصیت میں کیا چیزیں پیدا کرنا ضروری ہے،اور کیا سرے سے نہیں۔ جبکہ درحقیقت یہ تعلیمی نظام جو چیزیں با ئی ڈیفالٹ پیدا کرتا ہے اُن سے کہیں زیادہ اہم وہ چیزیں ہیں جو یہ پیدا ہی نہیں کرسکتا۔
ایک خوشحال زندگی گزارنے کا اہل ہونے کے لیے اچھی سیرت و کردار کا حامل ہونا کیا ضروری ہے!!؟ بلکہ ہمہ اقسام کی اِنسانی صلاحیتوں کا مالک ہونے کی بھی کیا ضرورت ہے!؟
اِک صورت ہے خرابی کی جو اِس نظام کی تعمیر میں مُضمِرہی
حقیقت یہ ہے کہ وہ نظام جس کی بدولت کسی قوم کے معماران ِ مستقبل کی سوچ اور ذہنوں کو جکڑ کر  ایک مخصوص طریق اور رُخ پر لا ڈالنے کانہایت جامع او ر ”فول پروف“ اہتمام کیا جاتا ہے،اُسے جدید تعلیمی نظام کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ٹکسال ہے جس کے ذریعے ایک پوری کی پوری قوم کو برسہا برس تک ایک ہی طرح کے خطوط، نقشے اور ڈیزائن میں ڈھالا جاتا ہے۔ قوموں کی قومیں اِس طرح صدیوں تک گھر بیٹھے غلام رکھی جا سکتی ہیں۔ اپنی پسند کے، سُدھائے ہوئے افراد اور اقوام کی تیاری ایسے کسی تعلیمی نظام کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتی تھی جس میں لوگ بظاہر پڑھتے تو وہی کچھ ہوں جو وہ خود چاہتے ہوں (بشمول اِسلامیات!!) البتہ اِس نظام کا تعلیمی عمل لوگوں کو اِسی قابل بناتا ہو کہ وہ دنیا کے ہر معاملہ کو بالآخر، کہیں نہ کہیں اُسی نظر اور اُسی انداز میں دیکھیں جس طرح اُن کے آقا اور وقت کے کارپردازان ِ عالَم چاہتے ہیں۔
اب وہ زمانہ لد گیا جب ایک قوم کسی دوسری قوم کے اندر انفرادی یا جزوی طور پر اپنے نظریات اور طور طریقوں کی آمیزش کردیا کرتی تھی۔ اب یہ زمانہ ہے نظاموں اور طریقہ ہائے زندگی کے لین دین کا۔ اب قوموں کی زندگیوں میں اپنی چیزوں کی آمیزش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ انہیں ”سسٹم“ بناکر دے دیں اور اُس کے اندر ساری چیزیں بے شک اُنہی کی رہنے دیں۔ یوں وہ اپنی جزئیات میں مگن اور خوش ہوتے رہیں گے ، جبکہ ایک کُل کی حیثیت میں سب کچھ آپ ہی کا ہوگا اور آپ کے اُصولوں کے عین مُطابق۔
 ایک غلام قوم کو صدیوں تک غلام بنائے رکھنے کا اِس سے بہتر نسخہ کیا ہوگا؟! ایسی غلامی بھی اسی جدید، ترقی یافتہ دور ہی کی مرہون ِ منّت ہو سکتی تھی، جس میں ایک قوم جتنی زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی جاتی ہے اُسی قدر غلامی کے طریقوں اور رسموں میں راسخ، پختہ کار اور مضبوط ہوتی جاتی ہے۔
یہ نظامِ تعلیم اپنی بنیادوں سے ہی ایک مادہ پرست اور لادین نظام ہے۔ اِس کی اِس نوعیت کا ادراک کرنے کے لیے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ اِس کا آغاز کس طرح ہوا۔
تاریخ ِ انسانی کا  ایک بڑا زمانہ اِس طرح گزرا ہے کہ جب اِنسان کی تعلیم حاصل کرنے کی اپروچ سر چشمہ ہائے علم سے اتصال کرتے اور کراتے رہنا اور وہاں سے ہدایات لیتے رہنا ہی تھی۔ سولہویں، سترہویں صدی سے قبل ابھی اِنسانی دنیا اِس قدر ”مہذب“ نہ ہو سکی تھی کہ مذہبی نقطۂ نظر سے ماوراو آزاد ہو کر کائنات اور اُس کی موجودات کو دیکھنے اور پرکھنے کے قابل ہوتی ۔ مذاہب کا آغاز و انتہا اُن کی وہ خصوصیت ہوتی ہے جسے ”غیبیات“ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ غیبیات ہی مذاہب کی ایمانیات ہوتی ہیں۔ مذہب کو ختم کرنا ہو تو اس صفت کو اس کے اندر سے سلب کر لیجیے، باقی کچھ بھی نہ بچے گا جس کو مذہب کہا جا سکے۔ اور غیبیات مذہب کا وہ خانہ ہوتا ہے جس پر کوئی سوال وارد کیے بغیر جوں کا توں ہی قبول کیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ تمام مذاہب میں متفقہ طور پر اسے گھڑا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ مذہب میں اس لحاظ سے ایک تو پہلے ہی عقل کی ”محدودیت“، اوپر سے تحریف شدہ اور بعض غیر آسمانی مذاہب کا اپنی اپنی غیبیات کی بابت کلی طور پر ماورائے عقل ہونے پر اصرار نے ”سونے پر سہاگے“ کا کام کیا۔ چنانچہ انسان کی زیادہ تر توجہ ان علوم کی طرف منتقل نہیں ہو سکی، جن کی دریافت، تحقیق اور تدوین تمام کی تمام اور بالکل ابتدا ہی سے عقل کی مرہونِ منت ہوتی ہے،بلکہ ان کو بھی ”غیبی آنکھ“ سے دیکھا جاتا رہا۔ (ہم ابھی یہاں کسی شے کے حق یا مخالفت میں دلائل نہیں رہی) یا یوں کہیے کہ اس توجہ کی کوئی خاص ضرورت ہی نہیں پڑی۔ چنانچہ دنیاوی علوم ان ادوار میں موجودہ دور کی نسبت خاطر خواہ ترقی نہ کر سکے۔ اسی وجہ سے ان ادوار کے نظامِ تعلیم یا تعلیمی اپروچ اور موجودہ ادوار کی تعلیمی اپروچ میں واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔
پھر سترہویں صدی میں جب عقل کو کلیسا کے مذہبی جبر اور استبداد سے نجات دلا دی گئی، اور انسانی فکر تمام ضروری اور غیر ضروری بندھنوں سے آزاد بلکہ مادر پدر آزاد ہو گئی تو ایک بیک انسانی سوچ کا زاویہ ہی بدل گیا، اور کائنات ، اس کے مظاہر اور معاشرے لوگوں کو  ایک نئے انداز سے نظر آنے لگے۔ تب انسانی عقل ودانش کا تمام تر فوکس مادے اور اس کے مظاہر پر مرکوز ہو گیا۔ چنانچہ جلد ہی نت نئی دریافتیں اور تحقیقیں سامنے آنے لگیں۔ اور دنیاوی علوم دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے۔ خدا کے بغیر ہی اپنی دنیا یوں بنتی اور پھلتی پھولتی دیکھ کر مذہب اور اس کی ایمانیات کو دیس نکالا دیے جانے پر اور بھی ”شرح صدر“ نصیب ہوا۔ اور پچھلے ادوار میں ترقی نہ ہونے کا اولین سبب مذہب گردانا جانے لگا۔ اگرچہ کلیسا کے کفر، مذہبی جبر اور تحکم و تشدد کے مقابلے میں یہ انتہا بھی کچھ کم بدتر نہ تھی، بلکہ اُس سے کچھ زیادہ ہی تھی، لیکن اس کے نتیجے میں انسانی صلاحیتیں اپنی آخری حد تک نکھر کر سامنے آنے لگیں۔ صرف مادے اور دنیا ہی کو اپنا سب کچھ اور اول و آخر مان لینے کے نتیجے میں انسان کا فکری ، ذہنی اور طبعی تفاعل مادی حقائق و اشیاءکے ساتھ بے اندازہ حد تک بڑھ گیا۔ یوں مادے سے ڈیل کرنے کی ہر دو اقسام کی (یعنی ذہنی و طبعی) انسانی صلاحیتیں اپنی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ تب ان صلاحیتیوں کو باقاعدہ دریافت کر کے ان کی منظم درجہ بندی کی گئی۔ اور دنیا کی ترقی اور معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لیے ان صلاحیتیوں کو فرد کے لیے ضروری قرار دیا گیا ۔ اس کے لیے پھر باقاعدہ نظامِ تعلیم وضع کیا گیا جس میں انسانی نفسیات اور ذہنی ساخت کی نشوونما کے اصولوں کو بطورِ خاص مدّنظر رکھا گیا۔ البتہ مذہب کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جانے کے سبب جہاں بہت سی اقدار، اخلاقی معیارات اور سماجی ساختیں تہ وبالا ہوئیں، وہیں تعلیم پر بھی اس کے زبردست اثرات مرتب ہوئے اور  ایک بالکل جدا طرز کا معاشرتی نظام وجود میں آیا۔
مذہب سے گلوخلاصی کے بعد اب انسان کی توجہ اور مطالعے کا مرکز دو ہی چیزیں تھیں۔  ایک یہ مادی کائنات اور اس کے مظاہر، اور دوسرا خود انسان ، اس کے رویے اور اس کی ذہنی و نفسیاتی ساخت ۔ اور اس مطالعے کی بنیاد یا مصدر بھی اس کے اپنے تجربات و مشاہدات ہی تھے۔ مذہب سے چھٹکارے کا اب یہ ”فائدہ“ ہوا کہ مادی اشیاءاور واقعات کی کسی شرعی ، آسمانی ، غیبی، یا الہامی علت سے مکمل نجات و برأت حاصل ہوگئی، اور چیزوں کی حقیقت یا سببیت (causation) آخری حد تک ان کے مادی وجود کے اندر ہی کہیں تلاش کی جانے لگی۔ پہلے صورتحال اگر یہ تھی کہ ہر واقعے کی تفسیر و توجیہ اغلب طور پر مذہبی و غیبی نقطۂ نظر سے کی جاتی تھی، تو اب معاملہ کچھ یوں تھا کہ ہر  ایک چیز کی علیت خود اس کے اپنے مادی وجود سے کہیں باہر تصور نہ کی جاتی تھی! گویا پہلے جو چیز (یعنی عالمِ غیب) اشیاءکی اصل علت ہونے کے ناتے انسانی زندگی کا اہم ترین محور تھے، لیکن انسان کی دسترس سے بدیہی طور پر باہر ہونے کی وجہ سے اس کے اشیاءکی کھوج کرید میں مشغول ہونے میں بڑی حد تک مانع تھی ، اب اس چیز کے درمیان سے بالکل ہی ہٹ جانے کی وجہ سے اشیاءکی مادی علتوں اور انسان کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ یعنی  ایک چیز جو اُصولی طور پر انسانی دسترس میں تھی اُس کو انسانی تصرفات سے بالفعل دور رکھنے کا سبب وہ چیز بنی جو خود متفقہ طور پر انسانی دسترس و تصرفات کی حدود سے باہر تھی!!! اب یہ پردہ ہٹا تو تو جو چیز دسترس میں تھی وہ آپ سے آپ تصرف میں بھی آنا شروع ہو گئی!
چنانچہ، ایک طرف تو یہ ہوا کہ مادے کے عمل کرنے کے اصول اپنی باریک سے باریک سطح تک انسانوں کی توجہ کا مرکز تھے تو دوسری طرف خود انسان کے عمل اور تعامل کرنے کی بنیادیں۔ اوّل الذکر کے نتیجے میں سائنسی علوم کے اُصول مدوِّن ہوئے تو ثانی الذکر کی بدولت انسانی نفسیات اور سوشل سائنسز سے متعلق علوم کے۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ مادیت کی تمام اقسام کے متعلق انسان کا رسوخ فی ا لعلم (اُس کے اپنے مادی پیرایوں میں) بڑھتا گیا، بلکہ اِس طرح مادی اُصولوں کو آشکار کرنے کی عقلیت ، علمیت اور logic پر بھی اُس کی گرفت حد درجہ بڑھتی گئی۔کائنات اور اپنے اِرد گرد کے ماحول کے ساتھ اُس کے تفاعل میں نہایت نکھار اور مہارت پیدا ہوتی گئی، جس کے نتیجے میں اسے اب آہستہ آہستہ یہ اندازہ بھی ہونے لگا کہ مادی حقیقتوں کو آشکار کرنے کے لیے اپنے اِرد گِرد کے ماحول کے ساتھ کس طرح بہتر سے بہتر انداز میں تفاعل اور تعامل کیا جاتا ہے یہی اب اِنسان کے سیکھنے سِکھانے کا اصل موضوع اور میدان تھا۔ یعنی یہ کہ مادی اُصولوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مادے کے ساتھ interaction کس طرح کیا جاتا ہے،....نہ کہ مجرد مادہ اور اُس کے عمل کرنے کے اُصول۔ اسی طرح  ایک معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کس طرح رہن سہن اور طرزِ زندگی اختیار کیا جاتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ انسانی شخصیت کی تعمیر اور ترقی اُس کی تمام مختلف النّوع جہتوں میں کیسے ہوتی ہے ، اور اس ترقی کے مختلف مرحلہ وار مدارج کیا کیا ہیں، انسان کے سامنے رفتہ رفتہ کھلتے چلے گئے۔
مادّے اور اُس کے مظاہر سے بے پناہ تعامل اور تفاعل کے نتیجے میں اگرچہ مادی علوم اور ترقی کے راستے انسان پر ”چوپٹ“ کھل گئے، لیکن ترقی کے ابتدائی دور سے گزرنے کے بعد، جب کہ مادی اُصولوں کو آشکار کرنے کی صلاحیتیں اور مہارتیں تعلیمی و تربیتی عمل کے ذریعے سیکھی اور سکھائی جانے لگیں، اِنسان کا یہ تفاعل بڑی حد تک ایک میکانکی انداز اوریک خود کار (آٹومیٹک) طریقۂ کار میں تبدیل ہوتا چلا گیا ( خود مادہ میکانکی اُصولوں پر عمل کرتا ہے)۔ ”مادّیت کی روح“ تھی جو اِس تعلیمی نظام میں سراسر سرایت کیے ہوئی تھی۔ مادہ اور اُس کے ”لگے بندھی“ اصول و قوانین اِنسان کی رسائی میں کیا آنا شروع ہوئے کہ اُس نے ہر ایک عمل اور کام کے لگے بندھے ضوابط مقرر کرنا شروع کردیے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ اِن ضوابط اور طور طریقوں میں تبدیلی و ترقی آتی گئی، لیکن ہر تبدیلی کسی نئے میکانکی طریقے پر منتج ہوتی۔ ”میکانکیت“ ہی اب ان کے تعامل اور تفاعل کی جان تھی۔ اب لوگ گویا مشینوں کی مانند تھے جن کے اندرتعلیمی عمل کے ذریعے ”ہدایات“ کی پروگرامنگ کی جاتی تھیں اور پھر اُنہوں نے ایک لگے بندھے انداز سے اپنی دنیا اور معاشرے میں تعامل کرنا، اور دنیا کو مادی نقطۂ نظر سے زیادہ سے زیادہ اِفادی بنانے میں اپنا کردار اَدا کرنا ہوتا تھا۔ تعلیمی اِدارے اب ایسے مشین نما اِنسانوں یا اِنسان نما مشینوں کی بڑی بڑی فیکٹریاں تھیں جہاں ایک مخصوص شعوری ساخت اور خصوصیات کے حامل اِنسانوں کی کھیپ کی کھیپ تیار کر کے معاشرے میں اُتاری جاتی تھیں۔ سب سے بڑی صنعت اب تعلیم کی صنعت تھی، جہاں دوسری تمام صنعتوں کو چلانے والی پروڈکٹ یعنی اِنسانوں کو ”تیار“ کیا جاتا تھا۔ اور اِس صنعت کی روحِ رواں وہ نظام ِ تعلیم تھاجس کی داغ بیل مادی ترقی کو جاری رکھنے اور مادی اِفادیت (utilitarianism) کے نقطۂ نظر سے ڈالی گئی تھی۔ زندگی کے ہر ایک شعبے میں ہونے والی تیز رفتار علمی ترقی ایک مشینی عمل کی مرہون ِ منّت تھی۔ مشینیں اِسی لیے تو ہوتی ہیں کہ ایک کام کو تیز کر دیں!! سائنس اور ٹیکنالوجی کا تو سوال ہی کیا، اب تو اِنسان کے جذبوں کا اظہار بھی مشینی تھا۔ فن کی ایک مہارت تھی کہ آرٹ کے سبھی شعبوں میں بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ اِس سے پہلے ایسی ہمہ گیر، تیز رفتار اور اِنقلاب آفریں ترقی اِنسان نے بھلا کب دیکھی تھی۔! بعد میں جب ترقی سے ان کا دماغ خراب ہونے لگا، اور یہ طاقت کے نشے میں چُور ہونے لگے، اور لذت اندوزی اِن کی رگ رگ اور نس نس میں سمانے لگی، تو باقی دنیا اور اُس کے وسائل پر قبضہ کرنے کا سودا اِن کے سر پہ سوار ہوا، اور یہ تیسری دنیا کے زرخیز اور وسائل سے مالامال ممالک کو فتح کرنے کی مہم پر چل نکلے۔ عشروں بلکہ صدیوں تک اِن ممالک کو اپنی بدمستیوں کی آماجگاہ بنائے رکھنے کے بعدجب یہ دو عالمی جنگوں میں مبتلا ہو کر اپنا بہت کچھ گنوا دینے کے سبب گھر واپس لوٹنے پر مجبور ہوئے، تو اپنے پیچھے دیگر بہت سی ”یادگاروں“ کے ساتھ اپنے نظامِ تعلیم کی ”میراث“ بھی چھوڑ گئے۔ یہ نظامِ تعلیم کیا تھا، ایک غلام قوم کو آزادی کے نام پر مزید کئی صدیاں غلام بنائے رکھنے کا ایک زبردست انتظام تھا، اور گھر بیٹھے اُس سے ”خراج“ وصول کرتے رہنے کی ایک بہترین تدبیر۔ ویسے تو یہاں کا سیاسی اور معاشی نظام بھی غلامی ہی کی میراث ہے،لیکن اگر دیکھا جائے تو وہ اِس نظامِ تعلیم کا ہی ایک پھل ہے۔ اِن نظاموں کو رواں دواں رکھنے کے لیے جس خوئے غلامی اور ادائے بندگانہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ اِن کے کار پردازوں کو یہاں کے نظامِ تعلیم سے فارغ التحصیل ہو نے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
یہ ہے وہ تعلیمی نظام جس کے مخصوص طریقۂ کار کی داغ بیل اس کے مقاصد کے ذریعے پڑی۔ ایک خالص مادی اپروچ سے ترتیب دیا جانے والا نظامِ تعلیم ہی صرف اسی نہج اور خطوط پر استوار ہو سکتا تھا، کہ جس کے ذریعے ایک مخصوص اور مطلوب ساخت کا حامل انسان حاصل ہو سکے۔ چنانچہ تعلیم کا مقصد اگر اس سے مختلف اور بلند ہو تو یقیناً اس سے متعلقہ نظامِ تعلیم بھی اسی لحاظ سے مختلف ہونا چاہیے۔ ایک مختلف معیار کا حامل انسان بھی تبھی حاصل ہو سکے گا۔ محض نصابوں کی تبدیلی سے نظامِ تعلیم تبدیل نہیں ہوجایا کرتا۔ نصاب تو اس نظام کا صرف ایک جزءہے۔ دیکھا یہ جانا چاہیے کہ اس نظام کا وہ مخصوص پروسیجر کیا ہے جو اس کے سب اجزاءکو ایک خاص ترتیب اور انداز میں لاکر ایک خاص قسم کے انسانوں کی پراڈکٹ تشکیل کرتا ہے۔ اور جب تعلیم کا مقصد ایسے انسانوں کی تیاری ہو جو اُمت ِ مسلمہ کو ایک وسیع تر معنوں میں قیادت فراہم کرنے کے اہل ہوں، تو اِس پروسیجر میں کیا جوہری تبدیلی کرنا ضروری ہوگی۔
حکومتی مشینری تو ظاہر ہے یہاں کے نظامِ تعلیم میں کوئی ایسی تبدیلی کیوں کرنے لگی جس سے اُمّت ِ مسلمہ کو قیادت فراہم کرنے کے لائق لوگ تیار ہو سکیں، جبکہ اسلام اور اُمت ِ مسلمہ سرے سے اُس کاکوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اندریں حالات یہ کام یہاں کی دینی تحریکوں اور انقلابی جماعتوں نے ہی کرنا ہے،کیونکہ اسلام اور امت کا مسئلہ انہی سے تعلق رکھتا ہے۔ بلکہ ان کا مسئلہ تو ہے ہی یہی۔
٭٭٭٭٭
بڑے عرصے سے یہاں کے نظامِ تعلیم میں ”اسلامی تجربات“ کیے جا رہے ہیں۔ نصاب کی ”اسلامائزیشن“ سے لے کر اساتذہ کی ”ذہن سازی“ تک سبھی کچھ برسوں سے یہاں ہوتا رہا ہے۔ جدید تعلیمی نفسیات کے سبھی طور طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اُمّت تو چھوڑیے، محض ملک کی سطح پر ہی رہنمائی فراہم کرنے کے اہل چند لوگ بھی کیا ہم ایسے تیار کر پائے جو خاص اِسی نظامِ تعلیم کا ثمرہ ہوں؟ یہ نظامِ تعلیم لاکھ اہل لوگ پیدا کر سکتا ہو، اُن کی اہلیت بالآخر پہلے سے طے شدہ اور چلے آئے کاروبار ہائے زندگی میں ہی کہیں جا کر فٹ ہوتی ہے جن کو افرادی قوت فراہم کرنے کے لیے یہ نظامِ تعلیم وضع کیا گیا ہے۔ حقیقتاً یہ نظام اِسی لیے بنایا گیا ہے کہ دنیا کا جو نقشہ اور جو رنگ و رُوپ اہل ِ مغرب نے صدیوں سے مرتّب کر رکھا ہے،چہار دانگ ِ عالم میں اُسی کی اور سے اور تزئین و آرائش کرنے والے لوگ پیدا ہوتے رہیں، اور یہ دنیا ایک سوچی سمجھی سمت میں یونہی رواں دواں رہے۔ یہ لوگ یہودی ہوں یا عیسائی، ہندو ہوں یا مُسلمان، اپنے عقائد، اپنے نظریات اور اپنا مذہب اپنے ساتھ رکھتے ہوئے، (بلکہ اپنے اپنے مذاہب کی تعلیم بھی خود اِسی نظام کے ذریعے حاصل کرتے ہوئی) دنیا کے کسی بھی سسٹم میں اُس کے تقاضوں کے مطابق فِٹ ہو سکتے ہیں۔
سائنس، ریاضی، معاشرتی علوم اور لینگویجز وغیرہ کی اسلامائزیشن تو کیا، خود اِسلامیات کی تعلیم اِس نظام کی صحت کے لیے قطعاً مضر نہیں۔اِس لحاظ سے جدید اِسلامی اسکول اور ”غیر اِسلامی“ اسکولوں میں فرق یہ ہے کہ ایک ، دنیا کے نظاموں اور طور طریقوں میں کھپ جانے کے لیے ذرا ”اچھے مسلمان“ قسم کے پرزے فراہم کرتا ہے جبکہ دوسرا ذرا کم یا ”خراب مسلمان“ قسم کی! ویسے ”اسلامیات“ دونوں جگہ پڑھائی جاتی ہی!! البتہ اِسلامی اسکولوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں بچوں کو قرآن پڑھایا اور یاد کرایا جاتا ہے۔ دُعائیں اور اِسلامی آداب سکھائے جاتے ہیں۔ اور ایک غیر مخلوط اسلامی ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔تاہم اِن اسکولوں میں عام طور پر یہ سب اِسلامی ماحول بچوں میں اعلیٰ اخلاقی صفات پیدا کرنے سے زیادہ، بُرے اخلاق اور رذائل سے دور رکھنے پر مرکوز ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد جب بچے باہر کے ماحول سے آشنا ہوتے ہیں تو اُس سے بچنے کے لیے اُن کے اندر اتنی قوت ِ مدافعت نہیں ہوتی جو اسکول کی تربیت سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
یہ بات ہو سکتا ہے کہ بہت سوں کے لیے ایک شدید اچنبھا ہو؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس تعلیمی نظام کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ یہ ایمانیات سے بحث کر ہی نہیں سکتا ۔ ایمان کوئی ایسی شے ہے ہی نہیں جس کا اِس نظام کے تعلیمی طریقۂ کار سے کوئی تعلق بنتا ہو۔یہ نظام کسی ایسے معاملے کے لیے اپنے اندر سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں رکھتا جس کی خاطر اُصولی طور پر دنیا کی ہر شے قربان کی جاسکتی ہو بلکہ جس پر جان بھی نچھاور کی جا سکتی ہو۔یہ تو صرف مشاہدوں اور تجربوں پر مبنی اُصولوں اور مفروضوں سے ہی بحث کرتا ہے جن پر کبھی بھی کوئی سوال وارد کیا جا سکتا ہے،اور جن سے agree یا disagree کرنا کسی کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہوا کرتا۔ چنانچہ یہ نظامِ تعلیم اِسلامیات میں بیان کردہ ایمانیات کو بھی اِسی تناظر میں لیتا ہے۔ بلکہ خود اِسلامیات کا الگ سے ایک مضمون کے طور پر رکھا جانا اِس نظامِ تعلیم کے اِسی تناظر کا نتیجہ ہے۔ اِس نظامِ تعلیم میں آپ کا بچہ ”اسلامیات “ میں بھی اُسی طرح ”پاس“ ہوتا ہے جس طرح دیگر مضامین میں؛ اور کبھی اپنی ”نالائقی“ کے سبب ”فیل“ بھی ہو سکتا ہی!بلکہ اگر چاہے تواُس کے ایک ”بور کُن سبجیکٹ“ ہونے کا بھی اظہار کر سکتا ہی!! یوں اسلام کے بنیادی علم میں بھی ”مسلمانوں“ کے لیے باقی مضامین کی طرح پاس یا فیل ہوا جانا اور حتی کہ اس علم کا بچوں کے لیے ایک ”فیورٹ“ یا ”اَ ن فیورٹ “ مضمون کے طور پر ہونا ایک روٹین کا قابل ِ گوارا معاملہ ہوتا ہی!!
ہمارے بہت سے ”اسلامی ماہرین ِ تعلیم“ اپنے اسکولوں میں اپنی مرضی کے مواد پر مبنی اسلامیات لگنے پر تو خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں، البتہ اِسلامیات کو دیگر مضامین کی طرح ایک الگ مضمون کے طور پر قبول و تسلیم کرلینے کے نتیجے میں عقیدہ کے اندر جو ایک بڑا شفٹ واقع ہوتا ہے اُس سے بالکل لاعلم رہتے ہیں۔ ایک طرف آپ پورا زور لگا رہے ہوتے ہیں کہ کسی طرح اسلامیات کا علم قوم کے نونہالوں کے اندر گہرا اُتار دیا جائے، دوسری طرف اِس حقیقت سے بھی بے خبر رہتے ہیں کہ اِس نظامِ تعلیم کی اپنی ساخت اور اس کا مخصوص طریقۂ کار بچوں کو اِس مضمون سے بھی عین اُسی طرح گزرنے کی ہی اجازت دیتا ہے،جس طرح دیگر مضامین سے۔
یہ نظامِ تعلیم اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہر ایک شے کو دیکھنے کی ایک سیکولر نگاہ لوگوں کو ودیعت کرتا جاتا ہے۔ یوں یہ اپنی بنیادوں سے ہی ایک لا دین نظامِ تعلیم ٹھہرتا ہے،نہ کہ محض مواد کے اعتبار سے۔ عین جس طرح یہاں کا جمہوری سیاسی نظام اپنی بنیادوں سے ہی سیکولر اور لادین ہے جس کا اسلامی دفعات کی پیوند کاری اور اللہ کی حاکمیت ِ اعلیٰ کے اقرار سے کچھ نہیں بگڑتا، البتہ یہ اِن اِسلامی قوانین کے لیے خوب خوب ”گنجائش“ رکھتا ہے،بالکل اسی طرح یہ تعلیمی نظام بھی اپنے اندر اسلامیات اور مذہبی تعلیم کو اپنی لادین قدروں پر کوئی آنچ آنے دیے بغیر سمونے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس میں اسلامیات کے پیوند لگانے سے اِس نظام کی تصویر تو خیر کیا درست ہوگی، خود اِسلام کے تصور میں انحراف ضرور واقع ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اِس نظام میں کوئی ایسی جوہری تبدیلی کردی جائے جس سے اِس کا ضرر جاتا رہے،جبکہ اس کے فوائد اپنی جگہ باقی رہیں، جو کہ ظاہر ہے کہ اِس کی موجودہ حالت سے ایک کافی مختلف شکل ہوگی جس میں اسلامیات بہرحال ایک ”مضمون“ ہرگز نہیں ہوگی۔ بلکہ شاید اسلامیات نام کی کوئی شے ہوگی ہی نہیں۔ بلکہ ”عقیدہ“ ہوگا اور ”ایمان“، اور اِن کے سب متعلقات۔ باقی دین کی ہر شے اِن کی فرع کے طور پر آئے گی۔ اور یہ عقیدہ اور ایمان اُس تعلیمی نظام کی روح اور جان ہوں گے اور ایک جزوی شکل کے اندر، مسخ شدہ حالت میں پائے جانے کی بجائے پورے کُل کے اندر اپنی اصیل حالت میں سرایت کیے ہوئے ہوں گے۔
ویسے بھی جو چیز صحیح معنوں میں اسلامی عقیدہ کہلائے جانے کی مستحق ہے وہ یہاں کی”اسلامی اسکولوں“ کی اسلامیات کے نصاب میں شامل ہی کب رہی ہی؟؟ اور اگر کبھی ہو بھی جائے تو بھی عقیدہ اور اساسِ دین کی تلقّی کا جو طریقۂ کار ہے وہ اِسلامیات کے ”سبجیکٹ“ کے ذریعے اختیار کیا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسلامی عقیدہ جس چیز کا نام ہے وہ اصل میں ہی: کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ۔ یعنی شرک سے برأت و بیزاری اورصرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی۔ بھلا ہمارا نظامِ تعلیم ابھی جس حالت میں ہے،اس کے ہوتے ہوئے ”اسلامیات“ کے ذریعے مسلمانوں کی نئی نسلوں کو کفر بالطاغوت کی تعلیم دی جا سکتی ہی؟؟ بلکہ کیا حقیقتاً اسلامیات کفر بالطاغوت کی تعلیم کا بوجھ سہار بھی سکتی ہی؟؟؟ اسلامی عقیدہ کی تلقین و تعلیم تو وہ چیز ہے جو عقیدہ کو اذہان کے راستے قلوب میں اُتارتی ہے اور پھر ایمان کی شکل میں برآمد کرواتی ہے۔ جبکہ جدید نظامِ تعلیم سے تو آپ ہر ایسے عقیدہ سے عاری اسلامیات ہی پڑھ اور پڑھا سکتے ہیں جو دنیا سے ٹکر مول لینے پر آمادہ کر سکتا ہو، اور وہی ایمانیات جو ایمان کی رمق بھی پیدا کرنے سے قطعاً قاصر ہو! جو دیگر مضامین کی طرح اُصولوں، مفروضوں اور نظریات کا ایک مجموعہ ہو، جس پر”ایمان“ رکھنا یا نہ رکھنا اِس نظام کی وسعتوں اور کارفرمائیوں سے قطعاً غیر متعلق ہو۔
یہ باور ہو کہ ہم یہاں اِسلامیات ”پڑھانے کے طریقۂ کار“ یا اُس کے مواد پر کلام نہیں کر رہے۔ بلکہ یہ واضح کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خود اِسلامی تعلیمات کا اِس نظامِ تعلیم کے اندر ایک سبجیکٹ (یعنی اسلامیات) کے طور پر ہونا اپنے اندر کیا مضمرات رکھتا ہے۔
اسلامیات کا ایک ”مضمون“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک جزء(part) ہے جس نے بہرحال کسی کُل (whole) میں جا کر فٹ ہوناہے اور اُسی میں مدغم ہو کر اُس کے لحاظ سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اب جو کُل ہے اُس کا اپنا ایک فلسفہ اور اپنی ایک بنیاد ہے جس کے تحت تمام اجزاءیک خاص ہی ترتیب میں آکر اُس کے ساتھ فِٹ ہوئے ہیں۔ سب اجزاءنے اسی فلاسفی کی بنیاد پر باہم عمل کرکے ایک مجموعی اثر پیدا کرنا ہے جو اُس کُل کی تشکیل کے مقاصد کے عین مطابق ہوگا۔ ہر ایک جزءکا انفرادی حیثیت میں جو اثر مرتب ہو سکتا تھا وہ اب ایک کُل کا حصہ بن جانے کے بعد اُسی کے تقاضوں کے مطابق ڈھل کر ایک بالکل مختلف انداز میں سامنے آنا ہے۔
کیمسٹری پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن گیسیں جب تعامل کرکے پانی بناتی ہیں تو پانی کے اندر دونوں گیسوں کی سب خصوصیات جاتی رہتی ہیں! یہ بات ہر کُل کے اندر مدغم ہوجانے والے اجزاءکے لیے درست ہے۔
وہ اسلام ہی کیا جو کسی کُل کا حصہ بن سکتا ہو؟ کسی نظام کے اندر فٹ ہو سکتا ہو؟ کسی سسٹم میں اپنا آپ گم کردینے کے لیے استعمال ہوسکتا ہو؟؟!!
اسلام کے نام پر ہونے والی ہرچیز جو اُسے کسی اسلام سے غیر متعلق یا لادین کُل کا حصہ بنانے کے لیے وجود میں لائی گئی ہو، درحقیقت خود ایک لادین اور سیکولر چیز ہے۔
کیا ہمارے اسلامی ماہرین ِ تعلیم اِس تلخ حقیقت کا اِدراک کرنے پر آسکتے ہیں کہ اِسلامیات بحیثیت مضمون دراصل ایک لادین شے ہی؟؟؟!!!
”اسلامیات“ کا سبجیکٹ اسی لیے تو وضع کیا گیا ہے کہ یہ بات پوری مسلم قوم کے قلب و شعور میں اُتار دی جائے کہ زندگی کے دو حصے ہوتے ہیں: ایک دین دوسرا دنیا۔ اور دین بھی وہ جو محض فلسفوں اور اخلاقیات وغیرہ کا مجموعہ ہو۔ بچے جب اپنے پورے تعلیمی سسٹم کے اندر اِسلامیات کو دیگر مضامین کی طرح  ایک مضمون کے طور پر پڑھتے ہیں تو یہ تأثر اُن کے شعور اور ضمیر کا حصہ بن جاتا ہے کہ ”اسلام ”بھی“ ایک اہم اور قابل ِ قدر شے ہی“۔ سیکولرازم بھلا اور کیا ہوتا ہی؟؟ سیکولرازم یہی تو کرتا ہے نا کہ دین و مذہب کی پوری قدر کرتا ہے مگر اُسے اُس کی ”جگہ“ پررکھتے ہوئے۔ یوں اسلام بڑے آرام سے تصورِ زندگی کا ایک ”حصہ“، صرف ایک حصہ بن کر اپنا تمام اثر کھو بیٹھتا ہے۔
خدانخواستہ یہاں کے مسلمانوں کا مسجد کے ساتھ ایک گہرا قلبی اور تاریخی رشتہ نہ ہوتا؛ ان کے گھروں میں نسل در نسل اللہ، رسول ﷺ، قرآن اور اسلام کا نام تازہ نہ کیا جا رہا ہوتا؛ اور دینی تحریکوں اور جماعتوں نے معاشرے میں اسلام کا نام زندہ رکھنے کی اپنی سی کوشش نہ کر رکھی ہوتی تو آج یہاں اسلام کی وہی حیثیت اور وہی شکل ہوتی ، جو ایک زمانے میں ترکی کے اندر مُصطفٰی کمال پاشا اتا ترک کے قاہرانہ تسلط کے نتیجے میں رائج ہو گئی تھی۔ اسلام پھر جیسا تیسا یہاں ”اسلامیات“ کے ذریعے ہی سیکھنے کو مل رہا ہوتا۔ ویسے یہاں کے ”اہل ِ سیاست“ نے ابھی بھی کوئی کسر تو نہیں چھوڑی ہوئی۔ بڑی خوبی سے انہوں نے تحریکی قیادتوں کو ابھی تک اسلامیات کے نصاب کی بحثوں ہی میں اُلجھا رکھا ہے۔ گویا تعلیم اور وہ بھی اسلامی تعلیم کے حوالے سے ہماری دینی تحریکوں کی سب توقعات اِن حکومتوں سے ہی وابستہ ہیں۔ جو کرنا ہے حکومت نے ہی کرنا ہے۔ ہم نے بس درخواستیں ہی کرتے جانا ہے۔ کبھی ”اوپر“ سے اشارہ ملنے پر ہماری حکومت جب اسلامیات کے نصاب میں کچھ تبدیلی کر دیتی ہے تو اِن کی طرف سے آسمان سر پر اُٹھا لینے سے ہی شاید ادائے فرض کی تکمیل ہو جاتی ہی! جبکہ توقعات کا شیش محل ہنوز سلامت رہتا ہے! جیسے اب تک ہماری قوم کی ساری دینی تعلیم و تربیت ایک ”اسلامیات“ ہی کی مرہون ِ منت تھی! یہ جو ہمارے پڑھے لکھے صالح نوجوانوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ صفیں بنا کر میدان ِ جہاد میں مئے حیات نوش کرتے برسوں دیکھے گئے ہیں، ان کا جذبۂ جہاد کس چیز کا مرہون ِ منت تھا؟؟ میٹرک و اِنٹر کی اِسلامیات کا؟؟؟یا دراصل کوئی تحریکی عمل تھا جو اس سب جذبۂ عمل کو انگیخت کرنے کا باعث بنا تھا؟
دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ مسلم قوم کی دینی اقدار کو آخری حد تک مسخ کردے اور دنیا اُسی کے طے کردہ خطوط پر محو ِ خرام رہے۔ اسکے لیے وہ ہمارے دینی نشاط کے ہر امکان کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ اُس کی طرف سے اسلامیات کے نصاب میں تبدیلی بس اسی رُخ سے ہو سکتی ہے۔ ورنہ ہماری اسلامیات نے معاشرے میں کتنے اچھے مسلمان پیدا کر لیے ہیں؟؟ (1)
البتہ یہاں کے بہت سے اسلامی فکر کے حامل تعلیمی اِداروں میں اُن کی ”اپنی اسلامیات“ کے علاوہ ایک اور”اسلامی“ چیز اضافی طور پر پائی جاتی ہے۔ اور وہ ہے؛ دیگر مضامین مثلاً سائنس، ریاضی، معاشرتی علوم اور لینگویجز وغیرہ کا اِسلامائزڈ ورژن۔! جس میں ہر مضمون کے اندر اِسلامی ماحول اور ہر چیز کا خدا کے ساتھ ایک ربط اور تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے۔ جو بلا شبہ ایک نہایت نیک اور مستحسن اقدام ہے۔ لیکن عقیدے کی اساس سے جوڑنے والے کسی پروگرام اور انتظام کے بغیر یہ سارا سلسلہ ایک خواہ مخواہ کا تکلف اور نری بھرتی کی چیز معلوم ہوتا ہے۔ یہاں کے فارغ شدہ نوجوانوں کو بالآخر اُسی کاروبارِ زندگی میں جا کر کھپ جانا ہوتاہے جو اُسے سموچا نگل جانے کے لیے پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ بلکہ شاید اِسی کام کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ اور جہاں پہنچ کر ”بندہ و صاحب و محتاج وغنی“ سبھی سوچ اور راہِ عمل کے حساب سے ایک ہوجاتے ہیں۔! جبکہ وہ چیز جو نوجوانوں کو ایک بصیرت، ایک نظر اور دنیا کو برتنے کا ایک بالکل مختلف انداز عطا کرتی ہے،وہ دراصل اسلام کا عقیدہ ہے،نہ کہ محض ہر چیز کا خدا سے ہونے کا تصور ۔ اسلام پر جینے اور اسلام پر ہی مرنے کا جذبہ اسی عقیدے اور اِس سے برآمد کردہ ایمان کے شجر سے ہی پھوٹ سکتا ہے،نہ کہ محض اسلامی تاریخ یا اسلامی ثقافت کے تذکروں سے۔ یہ اگر آپ کے تعلیمی نظام میں اپنی جگہ موجود ہے تب تو سائنس اور لینگویجز وغیرہ کی اسلامائزیشن کسی حد تک مفید ہو سکتی ہے ۔ بلکہ صرف تب ہی مُفید ہوسکتی ہے۔ تاہم اسلامی عقیدہ کی بھرپور تعلیم و تربیت کے ماحول میں ایسی کسی اسلامائزیشن کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ کیونکہ یہ عقیدہ آپ کو وہی نظر تو عطا کرتا ہے جس سے چیزیں آپ کو اُن کے اصل رنگ میں دکھائی دیں اور آپ اُن کو ان کی مناسب جگہ پر رکھنے کی بصیرت رکھتے ہوں۔ اس نظر کے ساتھ اپنے نوجوانوں کو آپ بھلے دنیا بھر کا نصاب پڑھا دیں ، اس سے کوئی نقصان نہیں ہونے والا۔ اور اُس کے بغیر آپ لاکھ اپنی تعلیم کی اسلامائزیشن دَر اسلامائزیشن کا تکلّف کرتے چلے جائیں اس کا کوئی خاص فائدہ برآمد نہیں ہونے والا۔
آخر یہ کیوں نہیں ہوتا کہ یہاں کی دینی تحریکیں اور مذہبی قیادتیں خود ایک نظامِ تعلیم وضع کریں جس کا اول و آخر ٹھیٹ اسلامی عقیدہ اور اُس کی اقدار ہو، جو شرک کی تمام شکلوں سے برأت اور زندگی کے ہر میدان میں ایک اللہ کی بندگی پر مبنی ہوں، اور اِس ناتے اس نظام کے اندر اسلامیات اوراسلامائزیشن کی ضرورت تو کیا اُس کے ہونے کا سوال ہی نہ اُٹھتا ہو۔ یہاں عقیدہ محض deliver نہ کیا جاتا ہو بلکہ عقیدہ کی جڑوں سے ایمان کے شجر کو برآمد کرنے کا بھی ایک جامع پروگرام پایا جاتا ہو۔ ساتھ ہی ساتھ محض ”معلومات“ پر زور دینے کی بجائے انسانی شخصیت کی تمام پنہاں صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا مکمل اہتمام ہو، تاکہ دنیا کے ہر ایک رنگ کے ساتھ ایک بھرپور، فطری تفاعل کرنے والامسلمان دنیا کو نصیب ہو، اور تاکہ دنیا کے ہر میدان میں ایک صحیح ترین انسانی کردار تمام عالَم کے سامنے بطور نمونہ و برائے پیروی پیش کیا جا سکے۔
 
(1) واضح رہے کہ نہ تویہاں کے امتحانی نظام پر اور نہ اسلامیات بطور ایک سبجیکٹ پر ملاحظات رکھنے سے ہماری مراد یہ ہے کہ دونوں کو فی الفور متروک ٹھہرا دیا جائے، اور کسی بہتر سسٹم اور طریقۂ کار پر قدرت حاصل کیے بغیر حالت ِ موجودہ سے بھی ہاتھ دھو لیے جائیں۔ اور جو کچھ رہا سہا ہاتھ میں ہو، کسی بہتر چیز کا انتظام ہوئے بغیر اُس سے بھی فارِغ ہو لیا جائے۔ تاہم اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اِس پر مطمئن ہو کر بیٹھ رہا جائے، اور اِس نظام کو بدلنے کی کوئی کوشش ہی نہ کی جائے۔ یہ دونوں ایک عبوری دور کی تو شاید ضرورت ہوں، البتہ تبدیلی کے عمل کے لیے اِن کا بدلنا بھی ناگزیر ہوگا۔ بلکہ شاید تبدیلی اِن کے اندر آئے گی تو بڑے پیمانے پر تبدیلی کے امکانات روشن ہوں گے۔
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز