ہر کام میں محنت اور دیدہ ریزی
شیخ سلمان العودۃ۔۔اردو استفادہ: مریم عزیز
اُم المؤمنین عائشہؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں :”اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام میں مصروف ہو تو اسے خوب مہارت اور نہایت احسن طریق سے سر انجام دے “۔
یہ حدیث بہیقی نے شعیب الایمان میں بیان کی ہے (5081،5080 اور 5082) اور شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصحیح کی ہے۔
یہ حدیث اپنے مفہوم میں عام ہے اور تمام جائز وحلال نوعیت کے کاموں پر لاگو ہوتی ہے۔
ایک شخص کا تکمیل کردہ کام دوسروں کی توجہ اُسی وقت کھینچ سکتا ہے جب خود اُس شخص کی مناسب توجہ اور محنت اس کام کو حاصل رہی ہو۔!چنانچہ ایک مسلمان کا انجام دیا ہوا ہر کام اس کی عرق ریزی اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہونا چاہیے۔ دین اسلام نہ صرف اللہ کی بندگی میں احسان لانے سے عبارت ہے بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے تمام (جائز)کاموں کو بھی بطریق احسن و خوبی سر انجام دینے کا دوسرا نام ہے۔ اس حدیث کی تعلیم کے مطابق مسلمان کیلئے نہ صرف روحانی کامرانیاں ہیں بلکہ دنیاوی سربلندیاں بھی ہیں!بشرطیکہ محنت اسی قدر کی گئی ہو!!
محنت ، عرق ریزی اور جانفشانی مسلمان کے ہر کام کا خاصہ ہونا چاہیے۔یہ سب امورکسی ہنر مندانہ کام کی خوبیوں کو نہ صرف چار چاند لگا دیتے ہیں بلکہ دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سب سے نمایاں بھی کردیتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس حدیث پر عمل کرنے کی تمام تر سعی کریں تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور اس دنیا کی کامیابیاں اور کامرانیاں ہمارے قدم چومیں۔
اس حدیث کو سمجھنے کیلئے کو ئی دقیق تفصیل درکار نہیں، بلکہ روز مرہ کے معاملات اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ کسی طالب علم کی اسائنمنٹ ہو یا سائنس پروجیکٹ کے سلسلے کی کوئی پریزنٹیشن، وہ طالب علم بازی لے جاتا ہے جس نے اپنے کام میں ہر ہر مقام پر مہارت اور نفاست کا مظاہرہ کیا ہو۔ اسی طرح کسی دعوت میں پکائے جانے والے کھانوں میں محنت بھی اسی پر کی جاتی ہے جو اس موقع کاسب سے اہم پکوان ہو اور مہمانوں کی توجہ اور خصوصی ضیافت چاہتا ہو۔ ایک سنار کی دکان پر بھی سب سے قیمتی زیوروں کی نمائش پر زیادہ محنت کی جاتی ہے تاکہ وہ گاہکوں کو خریدنے پر مائل کردیں۔ یعنی جتنا زیادہ اہم کام اُتنی ہی زیادہ محنت، نفاست، توجہ، انہماک، تن دہی اور عرق ریزی۔!
محنت بہرحال اپنا آپ منوا لیتی ہے۔ مثالیں کئی ہیں اور سبق صرف ایک کہ جو کام بھی کیا جائے خوب ہنرمندی سے کیا جائے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو یہ بات اپنے بندوں کے حق میں نہایت محبوب ہے اور نہ صرف اللہ کی رضا کے سبب بلکہ اس محنت کے قدرتی نتیجہ میں بھی ایک مسلمان، دنیا میں باقیوں کی نسبت قبولیت و امتیاز حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا دین میں ہی نہیں، دنیا میں بھی سُرخ رُو اور اور سر بلند ہونا حد درجہ پسند ہے۔ البتہ اِس میں محنت اور مہارت بندوں نے ہی دکھانی ہوتی ہے اور انجامِ کار تو بالآخر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔