عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, November 22,2024 | 1446, جُمادى الأولى 19
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2010-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
کچھ اصولی باتیں: ”حالیہ مرحلہ“ میں تحریکوں کے سماجی کردار کے حوالے سے
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

 
اداریہ

کچھ اصولی باتیں
”حالیہ مرحلہ“ میں تحریکوں کے سماجی کردار کے حوالے سے

حامد کمال الدین

   
 پچھلا حصہ
 اگلا حصہ

 
٭ پس اصل سوال یہ نہیں کہ اِس نظامِ تعلیم کی تباہ کاریاں بیان کرنے میں کس نے کیا خدمات انجام دیں؟ بے شک اِس کی ضرر رسانی واضح کرنا بھی ضروری تھا، مگر اصل سوال یہی ہے کہ کیا عملاً بھی کسی نے اِس مسئلہ کو ہاتھ ڈالا؟ مسلم معاشروں کو ”ارتداد“ کی راہ پر ڈال دینے کیلئے یہ جو ایک غیر محسوس مگر ایک محکم انتظام تھا، اور جوکہ باقاعدہ ایک تعلیمی و تربیتی وثقافتی عمل کی صورت میں اپنے یہاں دیکھا جا رہا تھا اور بدستور دیکھا جا رہا ہے، ہماری علمی قیادتوں نے قوم کے بچوں میں اُس کی ٹکر کی علمی وفکری استعداد پیدا کرنے اور قوم کو اُس کے خلاف صف آرا کرنے کے معاملہ میں یہاں پرہمیں کیا اسکیم پیش کر کے دی....؟
1
راستے جو”عقیدہ“ سے پھوٹیں اور ”معاشروں“ سے گزریں!
2
دکھ کی ”دوا“ کرے کوئی!
3
کچھ اصولی باتیں: ”حالیہ مرحلہ“ میں تحریکوں کے سماجی کردار کے حوالے سے
ا
”انقلاب“ یا ”خلافت“ آنے تک ہر چیز مؤخر کر رکھنا کوئی صائب منہج نہیں
ب
مکی مرحلہ پر قیاس!
ج
”مکمل اقتدار“ کے بغیرامت کو لے کر کیسے چلا جا سکتا ہے؟!
د
ایک ڈائنامک طریقِ عمل
ح
ہمارے اِس مجوزہ منہج اور ”جزوی تبدیلی“ کے منہج میں کیا فرق ہے؟
و
ایک اشکال
4

تعلیم کے شعبہ میں اسلام کے اِحیائی عمل کو درپیش چیلنج
ا
”علم“ ہی سے اِس امت کی ساخت ہوئی اور ہوگی
ب
”علم“ و ”تعلیم“ کی سَلَفی تأصیل
ج
اسلام میں ایسی نسلوں کا پروان چڑھنا جو جاہلیت سے آگاہ نہیں !
د
ہمارا مطلوبہ تعلیمی عمل جاہلیت کا فریم توڑنے کیلئے، نہ کہ اُسکے اندر فٹ ہونے کیلئے!!!
ح
مستشرقین کی بد روح برابر بولتی ہے!
و
”اسلامی نظر“ کا فقدان: وہ اصل چیلنج، جس پر ہمارے نوجوان کی ڈھیروں محنت ہو گی
ز
میدان سامنے ہے!
ح
مذکورہ بالا توضیحات کی روشنی میں
حقیقت یہ ہے کہ اِس سوال کے جواب میں یہ کہنا کہ ’یہاں کے کچھ مخلصین وقتاً فوقتاً انگریزی اقتدار کے خاتمہ کا منصوبہ بناتے رہے تھے‘ اور پھر اِس معاملہ میں ”تحریک مجاہدین“ یا ”تحریک ریشمی رومال“ یا ایسی ہی کوئی مثال پیش کر دینا ہرگز ہمارے اِس سوال کا جواب نہیں۔ یہ سب تحریکیں جو انگریزی اقتدار کے خاتمہ کیلئے اٹھیں، آخری حد تک ہماری ستائش کی حق دار ہیں، لیکن کافر اقتدار کے چنگل سے آزاد ہونے کی یہ سب صالح کوششیں اور یہ سب مستحسن مثالیں اِس سوال کا جواب بہرحال نہیں کہ اِس تعلیمی و تربیتی وثقافتی معرکہ میں جس کا یہاں کی گلی گلی اور محلہ محلہ میں لڑا جانا ٹھہر گیا تھا، ہمیں اپنی تاریخ کا جو ایک سنگین ترین چیلنج درپیش تھا، ہمارے یہاں کے صالح طبقوں نے اُس چیلنج کے شایانِ شان ہمیں کیا اسکیم پیش کر کے دی تھی....؟
٭ کچھ الجھنوں سے بچنے کیلئے، ہم چاہیں گے چند باتیں اِس سلسلہ میں یہیں پر واضح کر دی جائیں....
”انقلاب“ یا ”خلافت“ آنے تک ہر چیز مؤخر کر رکھنا کوئی صائب منہج نہیں
مغرب کے ساتھ اپنے اِس معرکہ کو ”سیاسی میدان“ تک محدود کر لینا یا اپنی زیادہ تر توجہ اِسی ”سیاسی دائرہ“ پر مرکوز کر لینا، اور اپنے اِس پورے مسئلے کا حل بس اِسی خاص نقطے (”سیاسی تبدیلی“) سے برآمد ہوتا دیکھنا ہمارا ایک قدیم بحران ہے اور طریقے طریقے سے وہ آج بھی ہمارے اِس چیلنج کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے اندر رکاوٹ بن رہا ہے، بلکہ ہمارے بہت سے اجتماعی فرائض کی ادائیگی کو معرضِ التواءمیں ڈال رکھنے کا ایک یقینی سبب بھی۔
مغرب کے ساتھ اپنے اِس معرکہ کو ”سیاسی میدان“تک محدود کر لینا، یا کم از کم ’حالیہ مرحلہ‘ میں اِس کو ”سیاسی میدان“ میں ہی محصور جاننا....
شاید اِس طرزِ فکر نے ہی آگے چل کر یہ رخ اختیار کیا کہ یہ سب فرائض جو وقت کی جاہلیت کے بالمقابل __ سماجی سطح پر __ ہمیں آج درپیش ہیں، اپنے کسی متوقع ”انقلاب“ کے رونما ہو جانے کے انتظار میں مؤخر کر رکھے جائیں۔
یہی وہ طرزِ فکر ہے جس کی رُو سے....:
- ”تعلیم“ کا مسئلہ، ”انقلاب“ آنے پر سلجھایا جائے گا، ابھی تو اِس پر صرف صبر کرنا ہو گا اور زیادہ سے زیادہ، حالیہ کافرانہ نظام تعلیم کی مذمت یا اِس سے کنارہ کشی کی وہ ایک دیرینہ پالیسی ہی جاری رکھی جا سکتی ہے، اِس کے سوا اَبھی اِس وقت بھلا کیا چیز ممکن ہے؟!
اِس ”قیادت ہاتھ میں لینے“ کا طریقہ البتہ یہ نہیں کہ امت کو ”وعظ“ کئے جائیں اور اُسے ”حرام، حرام“ کے فتوے جاری کر کے دیے جائیں (اِس شدتِ اسلوب پر ہم معذرت خواہ ہیں)۔ دو سو سال سے یہ ”وعظ“ اور یہ ”فتوے“ دیے ہی تو جا رہے ہیں۔ امت کی قیادت ہاتھ میں کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شعبہ ہائے زندگی کے اندر ”عمل“ کے میدانوں میں آپ قوم کے آگے لگیں۔ اِن سماجی میدانوں کے اندر امت کو اپنی راہنمائی میں چلانے کی استعداد سامنے لائیں۔ اِن سب سماجی محاذوں پر امت کے ساتھ مل کر اور کاندھے سے کاندھا ملا کر یہ بند راستے کھولیں.. اور یہیں سے اِس کے ایک بڑے حصے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں کر لیں۔ یہیں سے امت کو حالیہ و آئندہ مرحلوں کیلئے جاہلیت کے پنجے سے نکالنے کی کوئی صورت سامنے آئے گی اور یہیں سے وہ چیز بھی میسر آئے گی جو آپ کو ”بحالیِ خلافت“ کی پوزیشن میں لا کھڑا کرے۔

- معاشرے کے اندر ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ کا مسئلہ، جوکہ آج اِس وقت کا نہایت اہم مسئلہ ہے، ”انقلاب“ آنے پر چھیڑا جائے گا، ابھی اِس کا امکان کہاں؟!
- ”تہذیبی جنگ“ کیلئے قوم کی صفیں بنانے کا مسئلہ، ”انقلاب“ آئے گا تو دیکھا جائے گا، ابھی بھلا اِس کی کیا صورت؟!
- ”میڈیا وار“ میں جہاں تک ممکن ہو پورا اتر کر دکھانے کا چیلنج ہے، وہ بھی ”انقلاب“ آنے پر ہی دیکھا جا سکتاہے، ابھی اِس کی گنجائش کہاں؟!
- یہاں تک کہ کئی طبقے اپنے ”انقلاب“ کی کامیابی تک، مسلم مقبوضہ خطوں کیلئے ہونے والے ”قتال“ کو ناجائز ٹھہراتے ہیں! دشمنانِ اسلام فلسطین، یا افغانستان، یا عراق، یا چیچنیا یا کشمیر میں ہمیں چیر پھاڑ بھی دیں تو ان کے نزدیک پھر بھی اسلام کے اِن ازلی دشمنوں اور اِن خونیں بھیڑیوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کیلئے ”ملک“ میں ان کے ”انقلاب“ کا ہی انتظار کیا جائے اور تب تلک دشمن ہمارے ساتھ جو بھی کرے، یہاں تک کہ وہ ہماری ڈیموگرافی ہی تبدیل کر کے چلتا کیوں نہ بنے، اُس کے خلاف مسلح مزاحمت سے دست کش ہی رہا جائے، خواہ ہمارے اِن بھائیوں کا یہ منتظرہ ”انقلاب“ آنے میں کتنی ہی دیر لگے!
مختصر یہ کہ: امت کے سب یا بیشتر اجتماعی مصالح یہاں پر لائی جانے والی کسی موہومہ ”سیاسی تبدیلی“ کے انتظار میں موقوف ٹھہرا رکھنا!
ابھی پچھلے دنوں کچھ اصحاب کے ساتھ ”مسجد“ کے ایک بھر پور کردار کو زندہ کرنے کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، کہ اگر ”مسجد“ کے اِس بھولے ہوئے، بلکہ ملبے تلے دبے ہوئے، اُس تاریخی کردار کو زندہ کرنے پر محنت ہو جوکہ مسلم معاشرے کے اندر ”مسجد“ ادا کرتی رہی ہے، تو جاہلیت نے معاشرے کے اندر ہماری پیش قدمی کے جو سب راستے بند کر رکھے ہیں، اُن میں سے کئی ایک کو ہم ”مسجد“ کے اِحیاءکا منہج سامنے لا کر بھی اللہ کے فضل سے کھول سکتے ہیں.... تو شرکائے مجلس میں سے ایک صاحب نے اِس بات کو ”حالیہ مرحلہ“ میں غیر ضروری قرار دیا۔ ان کا فرمانا تھا کہ اگر ہم ابھی ایسا کرنے لگتے ہیں تو ایک ایک مسجد پر ڈھیروں محنت ہو گی اور پھر بھی کہیں پر اچھا رزلٹ آئے گا تو کہیں پر نہیں آئے گا، لیکن پہلے اگر ہم ایسا کر لیں کہ ”خلافت“ لے آئیں تو ہزاروں مسجدوں کے اندر ہم اپنی یہ ’خواہش‘ بآسانی پوری کر سکتے ہیں بلکہ اِس طرح کی اور بہت سی دیرینہ ’خواہشات‘ بھی پوری کر سکتے ہیں! واقعتا تعجب ہوا کہ اتنے ’فوری‘ و ’آسان‘ حل کی جانب ہماری نظر آخر کیوں نہ جا سکی!
چنانچہ وہ ہدف جو کسی وقت ’انگریز کا قبضہ ختم کرانے‘ سے تعبیر ہوتا تھا، اور جس کے انتظار میں یہاں کے سب یا بیشتر اجتماعی فرائض موقوف ٹھہرا رکھے جانا تھے، ’انگریز کا اقتدار ختم ہو جانے‘ کے ساتھ ہی اب ’انقلاب‘ یا ’خلافت‘ کا عنوان اختیار کر گیا ہے!!!
اور وہ بہت سے اجتماعی فرائض جن کو آج ہی ادا کیا جانا ہے اور وہ آج اِس حال میں ہی لازماً معاشرے کیلئے انجام دیے جانا ہیں، مسلسل معرضِ التواءمیں جا رہے ہیں۔
ایک ”سیاسی تبدیلی“ لائے بغیر گویا یہاں کچھ ہو سکتا ہے اور نہ شرعاً اِس کی کوئی گنجائش!!!
یعنی فکری ونظریاتی و علمی میدان میں ہمیں جاہلیت کے ساتھ جو دو دو ہاتھ کرنا تھے، اورجوکہ وقت کا ایک نہایت اہم اور فوری فرض تھا.... ہمارا وہ فرض ادا کرنا،مختلف عنوانات کے تحت، اور کچھ مزعومہ ’شرعی رکاوٹوں‘ کے پیش نظر، یہاں پر مؤخر سے مؤخر ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ وہ ”سیاسی تبدیلی“ جسے ”انقلاب“ یا ”خلافت“ وغیرہ ایسے عنوانات سے تعبیر کیا جاتا ہے، خود اُس کا رونما ہونا بھی بڑی حد تک اِسی بات پر موقوف ہے کہ کوئی تحریک پہلے یہاں پر جاہلیت کے ساتھ فکری و نظریاتی و علمی میدان میں ایک معرکہ لڑ کر دے!
٭ البتہ ہم یہ واضح کر دینا چاہیں گے، کہ ہم اُن لوگوں میں سے نہیں جو اِس طرح کے تنقیدی مباحث اُن نیک طبقوں کی مذمت میں لے کر آتے ہیں جو یہاں کفر کا غلبہ اور اقتدار ختم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ یہاں ’دانش‘ کے دعویدار کچھ افکار جن کا ایک نہایت من پسند مشغلہ یہ رہا ہے کہ یہ مسلمانوں کی پچھلی دو سو سالہ تاریخ میں اُن تحریکوں کو فضول، پھسڈی اور مضحکہ خیز بنا کر دکھائیں جو یہاں استعمار کے خلاف قتال کے میدان میں سرگرم عمل ہوئیں یا جو آج سرگرم ہیں، قارئین جانتے ہیں اِن جہاد گریز افکار کو ہم اپنی تحریروں میں ”اسلام کے اندر گاندھی کے مذہب کی ترویج“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اِن ”جہاد مخالف“ یا ”انقلاب مخالف“ افکار کے ساتھ ہمارانہ صرف یہ کہ کوئی فکری رشتہ نہیں، بلکہ ہماری اِس گفتگو کا بھی وقت کے اِن منحرف افکار سے ہرگز ہرگز کوئی تعلق نہیں....
ہمارا موقف نہایت واضح ہو، جن نیک لوگوں نے اول اول یہاں پر انگریز کے اقتدار کو ختم کرنے کیلئے کوئی منصوبہ تشکیل دیا، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جن کی سوچوں پر یہ فکر حاوی رہی تھی یا جن پر آج یہ فکر حاوی ہے کہ وہ مسلم سرزمین کو کفر کے غلبہ و اقتدار سے واگزار کرائیں، ہمارے نزدیک وہ اپنے وقت کا ایک نہایت اہم فرض ادا کرنے والے لوگ ہیں، جس پر اُن کی ہم جتنی تحسین کریں کم ہے۔
ہمارے آج کے وہ نام نہاد مفکر اور دانشورجو ہمارے اُن محسنوں کو جو استعمار کے خلاف ”خِفاَفاً وَثِقَالاً“ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور جنہوں نے اِس راستے میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے صبح شام تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اگر اپنی اِس فکری جہت میں مخلص و نیک نیت ہیں تو بھی عملاً وہ استعمار اور استعمار کے دین کو عالم اسلام پر مسلط کرا رکھنے میں ہی ممد و معاون ہیں۔ عالم اسلام کے جس جس طبقے نے بھی یہاں استعمار کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے، یا جو طبقے آج ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، بے شک اُن نیک طبقوں کے ہاں کتنی ہی غلطیاں اور ’منصوبہ بندی‘ کے کتنے ہی نقائض کیوں نہ پائے گئے ہوں، وہ سب ہماری حالیہ تاریخ کے ہیرو ہیں، جس پر اُن کو سپاس پیش کرنا ہم پر اُن لوگوں کا کم از کم حق ہے۔ اپنی قوم کے ہیروؤں کو اپنی آئندہ نسلوں کی نگاہ میں قابل نفرین بنانے والے البتہ اُس قوم کے ”دانشور“ کہلانے کے لائق نہیں ہوتے بلکہ دانستہ یا نادانستہ وہ اپنے دشمن کے اغراض و مقاصد پورے کرانے والے ہوتے ہیں۔ یقینا یہ لوگ جو استعمار کے خلاف مسلم مزاحمت کی کوششوں کو، جن میں بہت کچھ کمیاں اور پسماندگی کی بہت سی صورتیں بھی چاہے کیوں نہ پائی گئی ہوں، چٹکلوں اور لطیفوں کی صورت میں پیش کرتے اور اُن پر اپنے ”ملاحظات“ سے سامعین کو محظوظ کرتے ہیں، کوئی وقت ہوگا جب یہ محض ’اندازہ‘ تھا کہ عالم اسلام میں یہ دشمن کے ایجنڈا کو دست تعاون فراہم کرنے والے لوگ ہیں، مگر اب یہ چیز محض ’اندازہ‘ نہیں ایک برہنہ ”واقعہ“ کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔ خصوصاً اگر آپ ان حالیہ لہجوں کو دیکھیں جو مسلم معاشرے کو ”لبرلائز“ کرنے کے درپے یہاں کے ”میڈیا“ میں پھونکے جا رہے ہیں، تو اِس نتیجہ پر پہنچنے کیلئے کسی لمبی چوڑی ’تحقیقات‘ کی ضرورت نہیں رہے گی کہ ہمارے اِن ’دانشوروں‘ کے سر تال یہاں پر دشمن کی لانچ کردہ تہذیبی و ثقافتی اسکیموں کو کامیاب کروانے کی ہی ایک منظم و منسق organized and coordinated صورت ہیں۔
٭ شاید اپنے یہاں پائے جانے والے اُس طرزِ فکر کو بدلنے کی بھی ضرورت ہے جو اَشیاءکے مابین ”تعارض“ فرض کر لینے میں عجلت سے کام لیتا ہے....
یہ طرزِ فکر کہ: ’یہ؟‘ یا وہ؟‘، بالعموم درست نہیں ہوتا، اِلا یہ کہ دو چیزوں کے مابین واقعتا ایک تعارض ہی پایا جاتا ہو۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو باہم ”مختلف“ تو ہوتی ہیں مگر ”متعارض“ نہیں، لہٰذا وہ امت کے اندر بیک وقت ساتھ چلائی جا سکتی ہیں، بلکہ وہ بیک وقت ہی امت کی ضرورت ہوسکتی ہیں۔ اِس کے باوجود ہمارے ہاں اُن چیزوں کی بابت ”ایک“ کو ”دوسری“ کی قیمت پر اپنانے یا چھوڑنے کی بحثیں ہو رہی ہوتی ہیں! جبکہ بسا اوقات یہ اشیاءنہ صرف ایک دوسری کی ”معارض“ نہیں ہوتیں بلکہ ایک دوسری کو مکمل کرنے والی ہوتی ہیں، پھر بھی اِن اشیاءکو ایک دوسری کے مقابلے میں ”اپنانے“یا ”رد کرنے“ کیلئے ہی اپنے کچھ نیک طبقوں کے مابین اچھی خاصی کھینچا تانی ہو رہی ہوتی ہے!
امت کی کچھ ضرورتیں اگر باہم متعارض contradictory نہیں بلکہ ایک دوسری کو مکمل کرنے والی complimentary ہیں تو اِن سب کو ایک ساتھ کیوں نہیں چلایا جا سکتا....؟
مثلاً..اِس میں کیا مانع ہے کہ ملک پر چڑھ آنے والی افواجِ افرنگ کے خلاف جب مسلمانوں کی ابتدائی مزاحمت دم توڑ گئی تھی اور مسلم ہند پر انگریز نے اپنا قبضہ مستحکم کر لیا تھا.... تو یہاں پر انگریز کا قبضہ ختم کرانے کی جو کوئی اسکیم بنائی گئی وہ بھی ضرور بنتی مگر اُس کے ساتھ ساتھ مسلمان یہ بھی کرتے کہ ہند کے طول و عرض میں پھیلائے جانے والے اِس تعلیمی وثقافتی فتنہ کے خلاف اُس کی ٹکر کی ایک نظریاتی جنگ برپا کر کے رکھی جاتی؟ یہ کیا ضروری ہے کہ اِن ہردو ”آپشنز“ کے مابین ایک قسم کا تعارض ہی فرض کر لیا جائے؟
اور پھر اِس میں کیا مانع ہے کہ مسلم ہند کے اِس حصہ میں جس کو آج ”پاکستان“ کہا جاتا ہے، کفر کے نظام کو ختم کرانے کی تحریک بھی برپا ہو، اور یہاں پائے جانے والے تعلیمی، تربیتی، ثقافتی، ابلاغی اور سماجی چیلنجوں پر حتی الامکان پورا اترنے کے منصوبے بھی بیک وقت رو بہ عمل لائے جائیں؟
مکی مرحلہ پر قیاس!
٭ ابتدائے نبوت کی صورتحال کے برعکس، کہ جب یہ امت گنے چنے چند باعزیمت نفوس پر مشتمل تھی، آج ہم اپنے سامنے شرق تا غرب پھیلی ہوئی اور صدیوں کے اِدبار تلے دبی ہوئی پوری ایک امت کو دیکھتے ہیں، جوکہ اُس صورتحال سے بے حد مشابہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کو مصر میں پیش آئی تھی۔ ظاہر ہے، بھاری بھر کم وجود کی حامل یہ امت اِس وقت بری طرح محکوم اور مغلوب ہے اور اِس کو وہ چستی اور تن دہی بھی حاصل نہیں جو مکہ کی اُس مٹھی بھر نو خیز نبوی جماعت کو حاصل تھی۔ اور نہ فی الفور اِس بات کا امکان ہے کہ یہ اُس قابل رشک حالت میں لے آئی جائے۔ مگر اِس حالتِ مغلوبیت میں بھی امت اپنی کچھ بنیادی ترین ضرورتیں بہرحال رکھتی ہے۔ اور جبکہ اِن ضرورتوں میں بھی، کہ جن کا رونا سبھی رو رو کر گئے ہیں، اِس کی ”دینی ضرورتیں“ ہی سر فہرست ہیں۔ حق یہ ہے کہ امت کی اِن دینی و دنیوی ضرورتوں کو جو کہ فوری تدارک چاہتی ہیں نظر انداز کرتے چلے جانا، کہ گویا ان کا ابھی وقت ہی نہیں ہوا، جبکہ عملاً ان کی فراہمی کو یہاں کے دین بیزار طبقوں یا بیرون کے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی انجیل بردار این جی اوز پر چھوڑ رکھا گیا ہو، یہ ہم اسلامی تحریکوں کے حق میں ایک سنگین و ناقابل تلافی غلطی ہو گی۔
اشد ضروری ہے کہ __ آج اِس حالت میں بھی __ امت کی جو دینی و دنیوی ضرورتیں ہیں ان کی برآری، اور عمل کے ہر ہر میدان میں امت کی راہ نمائی، صالحین کے ہاتھوں اور صالحین کے ایجنڈا کے تحت انجام پائے نہ کہ اُن خدا فراموش قیادتوں کے ہاتھوں جو امت کو اللہ اور اُس کے رسول سے برگشتہ کر دینے کے باقاعدہ ایک ایجنڈا پر ہیں۔
ہرگز ضروری نہیں کہ کسی ”انقلاب“ یا ”خلافت“ کے انتظار میں، کہ جس کو سال بھی لگ سکتے ہیں اور عشرے بھی، اور جس میں نسلیں بھی بیت سکتی ہیں، بلکہ بیت گئی ہیں.. امت کے یہ سب اسٹرٹیجک مصالح معطل رکھے جائیں۔ اور اِس کے لئے ”دلیل“ یہ اختیار کی جائے کہ نبی ﷺ جب تک ”انقلاب“ نہیں لے آئے، تب تک معاشرے کی ایسی کسی ضروت کو آپ نے ہاتھ نہیں ڈالا تھا!
ہمارا یہ ”انقلاب“ یا ”خلافت“ یا ”ریاست“ جس کے انتظار میں اپنے بہت سے اجتماعی فرائض موقوف ٹھہرا رکھنا ہماری نظر میں گویا شریعت کا تقاضا ہے!.... ہمارا یہ ”انقلاب“ یا ”خلافت“ یا ”ریاست“ خدانخواستہ اگر کئی نسلوں تک وجود میں نہیں آتی، تو کیا امت کی اِن سب ضرورتوں کو کالعدم ہی مانا جاتا رہے گا؟ ”تعلیم“ اور ”تربیت“ اور ”ثقافت“ ایسے میدانوں میں تب تلک دشمن اِس کی جتنی مرضی نسلیں تباہ کرے اور جیسے چاہے اِس کے تہذیبی خد و خال مسخ اور اِس کے سماجی نقوش برباد کرتا پھرے، یہاں تک کہ ہمارے معاشرے کی ساخت ہی بدل کر رکھ دے بلکہ ہمارے ”انقلاب“ کے آنے تک ہمارے سامنے کوئی مسلم معاشرہ باقی ہی نہ رہنے دے (اور جو کہ وہ بڑی حد تک کر چکا ہے)، ہم کوئی مزاحمت تک نہیں کریں گے؟؟؟!حتی الوسع اِس کے سد باب کی کوئی بھی صورت اختیار نہیں کریں گے؟؟؟! امت کے اِن سب مسائل کو، ان کی تمام تر اہمیت اور ناگزیریت کو نظرانداز کرتے ہوئے، ہم کسی ”ما بعد انقلاب“ مرحلے کی ہی ضرورت جانیں گے اور حالیہ مرحلہ کیلئے تو، جس کی بابت کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کتنا دراز ہو گا، اپنے اِن سب مسائل و مصالح کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیں گے! اور ایسا کرتے ہوئے یہ اطمینان بھی رکھیں گے کہ یہی چیز آج کے اِن حالات میں شریعت اور سنت کا صحیح صحیح اقتضاءہے!!!
یعنی اتنی بڑی کوتاہی جو ہم امت کے حق میں، اور خود اپنے بچوں کے حق میں، کر رہے ہیں، اُس پر ہم ”نبوی طریقِ کار“ سے ”دلائل“ بھی رکھتے ہیں!!!
کچھ دیر کیلئے مان لیا جائے کہ ”انقلاب“ یا ”خلافت“ کا لایا جانا ہی حالیہ مرحلہ میں نبوی طریقِ کار کا اہم ترین اقتضاءہے (اور جوکہ محل نظر ہے).... تو بھی اِس بات کی کیا دلیل ہے کہ جب تک ہمارا یہ ”انقلاب“ یا ”خلافت“ یا ”ریاست“ قائم نہیں ہو جاتی، تب تک امت کے سب کے سب مصالح معطل رکھے جانا از روئے شریعت فرض ہے؟؟؟
ہمارے وہ اصحاب جو نبی ﷺ کی ”مکی زندگی“ کو ”انقلابی جد و جہد“ کے اندر محصور قرار دیتے ہوئے اور موجودہ صورتحال کو ہو بہو ”مکی مرحلے“ پر قیاس کرتے ہوئے (گویا یہ ہر دو تو ”مسلمات“ کی حیثیت رکھتے ہیں!) یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ نبی ﷺ سے ”مکی زندگی“ کے دوران بچوں اور بچیوں کے ”مدرسے“ قائم کرنے یا اِسی طرح کی کچھ دیگر سماجی سرگرمیاں اختیار کرنے کا کہاں ثبوت ملتا ہے؟.... کچھ دیر کے لئے اِن حضرات سے اگر یہ نہ بھی دریافت کیا جائے کہ: خود ”مدنی زندگی“ میں بھی نبی ﷺ سے بچوں اور بچیوں کے باقاعدہ ”مدرسے“ قائم کرنے کا ثبوت کہاں ملتا ہے؟، یہ تو بہرحال سوال ہونا چاہیے کہ: جس طرح آج ہمارے ہاں پہلے سے وجود رکھنے والی پوری ایک امت پائی جاتی ہے ویسی کوئی صورتحال ”مکی زندگی“ میں تھی کہاں؟ وہاں تو ”امت“ ایک نوخیز تحریک ہی کا نام تھا جس کی تعداد بڑے عرصے تک چند درجن افراد سے تجاوز نہ کر پائی تھی۔ محض یہ مماثلت، کہ ہر دو زمانہ میں آپ ایک ”اسلامی ریاست“ کو مفقود پاتے ہیں، ہماری آج کی اجتماعی ضروریات کو ”مکی زندگی“ کی اجتماعی ضروریات پر قیاس کروانے کیلئے کافی نہیں۔ آپ آج اپنے آپ کو اور اپنے چند صد یا چند ہزار اصحاب کو بھلے ایک ویسی ہی ”نو خیز تحریک“ سمجھیں (مکی جماعت پر قیاس کرتے ہوئے) اور اپنی اِس جماعت کو خواہ جس طریقے سے بھی آپ چلائیں اور اُس کی دینی و دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے کا جو بھی اسلوب اختیار کریں (ایک ”تحریک اپنی دینی و دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ایک ”قوم“ کی بہ نسبت یقینی طور پر ایک مختلف طریق کار رکھتی ہے) .... غرض ”اپنی جماعت“ کی حد تک آپ اپنے دینی و دنیوی مطالب کی برآری کا جو بھی طریق کار رکھیں، سوال صرف یہ ہے کہ:
یہ ”امت“ اپنی اِس حالت میں، اور اِس ”امت کے بچے اور بچیاں“ اِس حالیہ مرحلہ میں، آپ کا نہیں تو کس کا بوجھ ہیں؟ یو این او کا؟ یونیسف کا؟ مستشرقین کے وضع کردہ تعلیمی و تربیتی نیٹ ورک کا؟ انجیل بانٹنے والی ”انسانی ہمدردی“ کی تنظیموں اور انجیل پڑھانے والے ”کانونٹس“ کا؟ لہک لہک کر __ امتِ محمد کے مابین __کفر پھیلانے اور عریانی عام کرنے والے میڈیا کا؟ یہاں کفر کا نظام چلانے کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھنے والے حکمرانوں کا؟ یا خود آپ کا، یعنی شریعت پہ قائم امت کی علمی و تحریکی قیادتوں کا؟؟؟ اتنی بڑی امت آخر کسی کا تو بوجھ ہے!!!
آپ آج فکر کریں گے تو محض اپنی جماعت کی.. یہ منہج اختیار کرنے میں بھی کچھ ایسی حرج کی بات نہیں، بشرطیکہ آپ امت کو ”قیادت“ دینے کا زعم نہ رکھتے ہوں۔ ہاں اگر آپ امت کو ”قیادت“ دینے کا زعم بھی رکھتے ہیں اور آپ کے خیال میں کسی کو حق نہیں کہ وہ اِس منصب کے قریب تک پھٹکے، البتہ ”حالیہ مرحلہ“ میں، جو کہ اللہ ہی جانتاہے کتنا طویل ہو گا، آپ امت کی دنیوی تو کجا ”دینی“ ضرورتوں کی برآری کو بھی اپنا بوجھ ماننے کیلئے تیار نہیں، تو یہ البتہ ضرور ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ ایک معجزہ ہی ہو گا کہ اِس ”شرط“ پر امت آپ کے پیچھے آ کھڑی ہونے پر تیار ہو جائے! تب یہ ایک خواب ہی کہلائے گا کہ امت دور دور تک آپ کے پیچھے صفیں بنا کر کھڑی ہو!
”امت“ کا یہ بوجھ اٹھانے سے آپ اِس بنیاد پر باز رہتے ہیں کہ اتنا بوجھ اٹھا لینا آپ کے بس سے باہر ہے تو یقینا یہ ایک سمجھ آنے والی بات ہے اور اِس بنیاد پر اگر ”اغیار“ کو آپ کی امت کا یہ بوجھ ”اٹھانے“ کا موقعہ ہاتھ آتا ہے تو یہ بھی __ باوجود تکلیف دہ ہونے کے __ سمجھ آنے والی بات ہے۔ کیونکہ بس نہ چلنا ایک نہایت معقول عذر ہے اور بدترین سے بدترین صورتحال میں بھی یہ آپ کے حق میں صفائی دے سکتا ہے۔ چنانچہ یہ ”بس نہ چلنا“ تو ضرور آپ کے حق میں ایک عذر ہے، جس کا مطلب ہے امت کے معاملات کو سنبھالنے اور سہارا دینے کے حوالے سے جہاں جہاں آپ کا بس چلے وہاں وہاں آپ کو یہ عذر حاصل نہیں ہو گا۔ تاہم اگر آپ اِس امت کو اور اِس کے معصوم بچوں اور بچیوں کو اپنا بوجھ نہ ماننے کی باقاعدہ کچھ ”اصولی و علمی بنیادیں“ ہی پیش کرنے لگ جاتے ہیں، (اور جب آپ کی بیان کردہ اِن ”اصولی و علمی بنیادوں“ کی رو سے امت آپ کا بوجھ نہیں تو پھر ”کسی نہ کسی“ کا بوجھ تو یہ بہرحال ہے، اور اُس صورت میں جو قوتیں اِس کو اپنا بوجھ مانیں گی وہ اپنے آپ کو اِس کا ”والی وارث“ سمجھنے کا بھی اپنے تئیں حق رکھیں گی، بلکہ خود امت کے لوگ ہی جو اُن کے ہاتھ سے ”کھائیں پئیں“ اور اُن کی مہربانی سے ”پڑھیں پڑھائیں“ گے، نادانی میں اُنہیں اپنا ”والی وارث“ سمجھنے لگیں گے).... تو امت کے بوجھ سے دستبردار ہونے کی اگر کچھ ”اصولی بنیادیں“ اور باقاعدہ کچھ ”علمی دلائل“ آپ کے ہاتھ لگنے لگتے ہیں.. اور نتیجتاً آپ پورے شرح صدر کے ساتھ اور باقاعدہ ”نظریاتی“ طور پر اِس بات کے قائل ہیں کہ ”امت کا بوجھ فی الوقت آپ کا بوجھ نہیں“ تو یہ البتہ ضرور ایک سمجھ نہ آنے والی بلکہ ایک حد درجہ تشویشناک بات ہے۔
سوائے امت کو ”وعظ“ کرنے کے، یا اپنی ”تنظیم“ میں آنے کی دعوت دینے کے، یا ”انقلاب“ یا ”خلافت“ کیلئے اپنی چھتری تلے اکٹھا ہونے کی مکرر تلقین و یاددہانی کے، یا گاہے گاہے امت سے ”جلوس“ نکلوانے یا ”نعرے“ لگوانے کے.. امت کے کسی کام آنے کا روادار نہ ہونا اور اپنے آپ کو امت کی کسی خدمت کا مکلف نہ جاننا(1).... بہت سے دینداروں کے ہاں یہ کوئی ”کوتاہی“ اور ”قصور“ نہیں بلکہ باقاعدہ ایک ”شرعی منہج“ باور ہوتا ہے۔ کئی قابل احترام طبقے اِس منہج کے باقاعدہ ”دلائل“ رکھتے ہیں! یہاں تک کہ اِس منہج سے ”انحراف“ کرنے والوں پر ”شرعی گرفت“ کرتے ہیں کہ ابھی تو ”انقلاب“ یا ”خلافت“ پر کام کرنے کا مرحلہ ہے، یہ بھلے مانس کیونکر ابھی سے ”سماجی خدمت“ میں جت گئے!
٭ جہاں پہلے سے ایک امت پائی جائے گی (جیسا کہ آج ہے)، اُس کی ضروریات یقینا اُس صورتحال سے مختلف ہوں گی جہاں ایک امت کو ”عدم“ سے وجود میں لایا جا رہا ہو (جیسا کہ دورِ نبوت کے ابتدائی سالوں میں تھا)۔ یہ وہ بنیادی و اصولی فرق ہے جو بہت سی اجتماعی ضروریات کے حوالے سے ہماری آج کی صورتحال کو نبوی جماعت کے ”مکی مرحلے“ سے بائن ومختلف ٹھہراتا ہے۔ اور یہیں سے ہمارے اجتماعی فرائض کا نقشہ بھی، ”خلافت“ نہ ہونے کے باوجود، خاصا وسیع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ایک ”پہلے سے پائی جانے والی“ قوم کی ضروریات بے حد وسیع ہوتی ہیں، بہ نسبت اُس قوم کے جس کو ”عدم“ سے وجود میں لایا جانا ہو۔ یہ ہو ہی کیسے سکتا ہے کہ ایک قوم کی صدیوں سے جو ضروریات چلی آ رہی ہوں وہ یکسر موقوف ٹھہرا دی جائیں، خصوصاً اُس کے دینی مطالب و ضروریات.. اور ”دلیل“ یہ ہو کہ اب تو ہمارے ہاتھ سے ”خلافت“ ہی چلی گئی ہے!؟
جو ہو سکتا ہے، اور جو کہ عمل کا کوئی معمولی دائرہ نہیں، اسلامی تحریکیں فی الوقت وہ کام تو معاشرے میں کریں۔ خاص طور پر جبکہ ”راستہ“ بنانے کی کوئی صورت بھی اسلامی تحریکوں کیلئے یہیں سے نکل سکتی ہو۔ ہاں اِس کام کو ہاتھ ڈالنے سے پہلے آپ کو لا الٰہ الا اللہ پر خوب خوب محنت کرنا ہو گی۔ اپنا وہ کیس(2) سامنے لانے پر سخت جان کھپانا ہو گی، جس کو منواتے چلے جانے کی صورت میں ہی جاہلیت معاشرے کی قیادت سے معزول ہونے کے قابل ٹھہرتی ہو اور اسلامی قیادتوں کو اِس منصب پر دیکھنے کیلئے اذہان آپ سے تیار ہوتے چلے جاتے ہوں۔
حضرات! ”خلافت“ چلی گئی ہے، تو ہی تو ”اسلامی تحریکوں“ کی یہاں ضرورت پیدا ہوئی ہے!!!
یہ تحریکیں ”خلافت“ چلی جانے کا رونا رونے کیلئے نہیں، ”خلافت“ کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والے اِس خلا کو، حتی الوسع، پورا کرنے.. اور اِس ”درمیانی مرحلہ“ میں امت کے دین و دنیا کو درست رکھنے اور زندگی کے جملہ میدانوں میں اُس کا ہاتھ پکڑ کر چلانے کیلئے ہیں۔
”خلافت قائم کرنے کی جدوجہد“ اس عمل کا جو اسلامی تحریکوں کو حالیہ مرحلہ میں انجام دینا تھا، محض ایک حصہ ہو سکتا ہے نہ کہ کل کام۔
یوں بھی اِس بحر ظلمات میں __ کہ جس سے برا وقت امت پر کبھی پڑا ہی نہ تھا __ پیر پیر پر اور ہر ہر شعبۂ زندگی میں، اسلامی قیادتیں ہی امت کا ہاتھ پکڑ کر نہیں چلاتیں، تو اِس قافلہ کو ”خلافت“ کی منزل پر پہنچا لینے کا زعم رکھنا ”خود فریبی“ کے سوا کچھ نہ کہلائے گا۔ اہل علم و شرع آج اِس وقت امت کی قیادت اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے، تو یہ قافلہ جہاں پہنچنے جا رہا ہے اُس کا اندازہ شاید اب ہر شخص کر سکتا ہے۔ اِس ”قیادت ہاتھ میں لینے“ کا طریقہ البتہ یہ نہیں کہ امت کو ”وعظ“ کئے جائیں اور اُسے ”حرام، حرام“ کے فتوے جاری کر کے دیے جائیں (اِس شدتِ اسلوب پر ہم معذرت خواہ ہیں)۔ دو سو سال سے یہ ”وعظ“ اور یہ ”فتوے“ دیے ہی تو جا رہے ہیں۔ امت کی قیادت ہاتھ میں کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شعبہ ہائے زندگی کے اندر ”عمل“ کے میدانوں میں آپ قوم کے آگے لگیں۔ اِن سماجی میدانوں کے اندر امت کو اپنی راہنمائی میں چلانے کی استعداد سامنے لائیں۔ اِن سب سماجی محاذوں پر امت کے ساتھ مل کر اور کاندھے سے کاندھا ملا کر یہ بند راستے کھولیں.. اور یہیں سے اِس کے ایک بڑے حصے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں کر لیں۔ یہیں سے امت کو حالیہ و آئندہ مرحلوں کیلئے جاہلیت کے پنجے سے نکالنے کی کوئی صورت سامنے آئے گی اور یہیں سے وہ چیز بھی میسر آئے گی جو آپ کو ”بحالیِ خلافت“ کی پوزیشن میں لا کھڑا کرے۔ ورنہ اِس ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں تو ہے ہی۔ بہت پہلے کسی عرب دانا نے کہہ دیاتھا کہ لا رَ ایَ لِمَن لَا یُطَاعُ یعنی ”جس کی چلتی ہی نہ ہو، اور لوگ ہی جس کے پیچھے نہ ہوں، اُس کی کیا رائے اور کیا وِژن“؟!
”وعظ و ارشاد“ اور ”جلسے جلوس“ نکلوانے کے اِس دو سو سالہ تجربہ سے، ہم چاہتے تو بہت کافی اسباق و نتائج اب تک کشید کر سکتے تھے۔ جس تیزی کے ساتھ باطل کا یہ آکٹوپس octopus معاشرہ پر اپنا پنجہ مضبوط کرتا چلا جا رہا ہے، اور جس تیزی کے ساتھ معاشرے ہمارے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں، کیا وہ ہمیں کچھ ٹھوس نتائج پر پہنچانے کیلئے کافی نہیں؟ اُدھر معاشروں کا وہ رخ، اور اِدھر ”خلافت“ کی آس!
٭٭٭٭٭
”مکمل اقتدار“ کے بغیرامت کو لے کر کیسے چلا جا سکتا ہے؟!
٭ امت کی اِس ضرورت کو، جو اوپر بیان ہوئی، اِس بات کے ساتھ خلط نہیں کر دینا چاہیے کہ ’اسلام تو ایک دین ہی ایسا ہے کہ مکمل اقتدار کے بغیر اس کے بہت سے اصول اور بنیادیں سرے سے ہی معطل رہتی ہیں، لہٰذا اقتدار رکھے بغیر ”زندگی کے جملہ میدانوں“ میں امت کا ہاتھ پکڑ کر چلانے کا امکان ہی کیونکر ہے؟‘۔ یقینا اسلام ایسا ہی ایک کامل و شامل دین ہے۔ مگر ہماراکہنا یہ ہے کہ حالیہ مرحلہ کے دوران زندگی کے جن جن میدانوں میں اور جس جس حد تک مسلمان کا چلنا جائز ہے، کم از کم امت کا وہ ”چلنا“ تو امت کے اہل علم و ارشاد کے زیر رہنمائی ہو۔(3)
حق یہ ہے کہ ایک عام مسلمان کو سد رمق کیلئے کسی وقت مردار کھانے کی صورت درپیش ہو تو بھی وہ یہ کام ”شریعت“ کا پابند اور ”شرعی قیادتوں“ کی راہنمائی میں رہ کر کرے۔ یہ کہنا کہ ہر دو شخص مردار ہی تو کھا رہے ہیں، حد درجہ کا قصورِ فہم ہے۔ پہلا شخص شرعی راہنمائی کا پابند ہے اور دوسرا شخص شرعی راہنمائی سے سراسر بے نیاز۔ جو شخص آج ”شرعی راہنمائی“ کا پابند ہے، امکان یہ ہے کہ وہ کل بھی ”شرعی راہنمائی“ کا پابند ثابت ہو گا۔ اور جو آج ”شرعی راہنمائی“ کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا روادار نہیں، وہ شخص کل کو کسی قافلے کا حصہ بنایا جانے کیلئے بھی کسی صورت نامزد نہیں ہو سکتا۔
یہاں سے اسلامی تحریکوں کیلئے وہ دروازہ کھلتا ہے کہ باطل کے محکوم معاشرے کے اندر بھی یہ مسلم اقوام کو __ ممکنہ حد تک __ اپنی راہنمائی میں چلائیں۔ امت کی علمی و شرعی قیادتیں اللہ کے فضل سے آج بھی اِن معاشروں کے جملہ حقوق رِی کلیم reclaim کر سکتی ہیں، بشرطیکہ یہ اِن معاشروں کی جملہ سرگرمی __ ممکنہ حد تک __ اپنی نگرانی اور ہدایت کے تحت لے آنے کا منہج اختیار کریں۔ جی ہاں، ”جملہ سرگرمی“ جو عمل کے اُن میدانوں کو بھی شامل ہے جن میں __ اندریں حالات __ جاہلی نظام کے ساتھ ایک گونہ تعامل آتا ہے۔(4)
سوال تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دین میں اُس صورتحال تک کیلئے راہنمائی موجود ہے جب آپ مردار اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بقدرِسد رمق کھا لینے کے مجاز ہوتے ہیں، تو کیا اُس صورتحال ہی کیلئے اِس دین کے اندر کوئی راہنمائی نہ ہو گی جس کو آپ ”امت کی حالتِ محکومیت“ کہتے ہیں؟؟؟ ”فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ “ کے تحت کیا اِس حالت میں امت کے دین و دنیا کو شریعت و اہل شریعت کے تابع رکھنے کی کوئی صورت ہم امت کو نہیں دے سکتے؟؟؟
ہونا تو یہی چاہیے، کہ اِس ”درمیانی دور“ میں (یعنی جب تک خلافت کا قیام نہیں ہو جاتا) یہاں کی غیر شرعی حکومتوں اور باطل نظاموں کے ساتھ امت کا کوئی تعامل ناگزیر ہو تو وہ بھی امت کی حق شناس قیادتوں کے زیر نگرانی و زیر راہنمائی ہو۔ کہ نبی کے ورثاءاِس امت کے خلفاءہو سکتے ہیں یا علماء۔ دین و دنیا کے سب امور اِنہی کے ہاتھ میں دے رکھے جائیں گے۔ اِس امت کی کوئی ایک بھی چیز نہیں جو علمِ شرعی اور قیادتِ شرعی کی پابندی سے مستثنیٰ ہو، خواہ حالات کیسے ہی برے سے برے کیوں نہ ہوں۔ ”خلافت“ کی غیر موجودگی میں بھی ”سیاستِ شرعیہ“ کے سب کے سب ابواب یہاں موقوف نہیں ٹھہرا دیے جائیں گے۔
٭ بنا بریں.... آج جب ”خلافت“ کا سایہ امت کے سر سے اٹھ چکا ہے، ”اسلامی تحریکوں“ کو یہ دو کام بیک وقت کرنا ہوں گے:
1) معمورۂ ارض کی ایک چوتھائی پر بسنے والی، شرق تا غرب پھیلی ہوئی، اِس امت کیلئے فی الوقت ”مائی باپ“ کا کردار بھی __ ممکنہ حدود میں رہتے ہوئے __ ہماری اِن تحریکوں کو ہی ادا کرنا ہو گا۔ صدیوں سے بستی چلی آنے والی ایک امت کی جو کوئی اجتماعی ضرورتیں ہو سکتی ہیں، بطورِ خاص اس کی وہ ضرورتیں جو اِس کی نسلوں کو مسلمان رکھنے سے متعلق ہیں، وہ ضرورتیں بھی وقت کی اسلامی تحریکوں کو ہی پوری کرنا ہیں، کیونکہ اِن تحریکوں کے سوا __ خلافت کی عدم موجودگی میں __ کوئی نہیں جو __ خدا کے بعد __ اِس کا والی وارث ہو۔
امت کو مزید انحطاط اور ابتری میں جا پڑنے سے بچانا (جو کہ کوئی چھوٹا محاذ نہیں)، اِس کی نسلوں کے ”ارتداد“ میں جا پڑنے کے لئے جو ”دامِ ہم رنگِ زمیں“ جا بجا نصب کر رکھے گئے ہیں، ان سے اِس کا تحفظ کرنا، اِس کے انسانی سرمائے کو اہل کفر و اہل نفاق کے ہاتھ لگنے سے ممکنہ حد تک بچانا، کفر کے زوردار جھکڑوں کے آڑے آتے ہوئے اِس کے عقائدی وتہذیبی خدوخال کو ممکنہ حد تک محفوظ رکھنا.... علاوہ ازیں، حالیہ مرحلوں میں کہ جب سایۂ خلافت اِس کے سر پر نہیں، اِس پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے مقابل ممکنہ حد تک اِس کی ڈھال بننا اور مقدور بھر اِس کے جان و مال کے تحفظ کی صورت فراہم کروانا.... پھر یہی نہیں، بلکہ اِس کی ”دنیوی“ ضروریات کے معاملے میں بھی اِس کا سہارا بننا اور اِس میں اپنے مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کرنا، اور کفر کے ایجنڈا بردار طبقوں کے ہاتھوں اِس کا جو ذہنی و مادی استحصال ہو رہا ہے، حتی الامکان اُس کے آڑے آنا اور اِس (دنیوی) میدان میں بھی اِس کو ایک خدا شناس اور حق شناس قیادت فراہم کرنا، تاکہ خدا نا آشناس قیادتیں اِس کے ہاں پزیرائی پانے میں ناکام ہونے لگیں اور یوں رفتہ رفتہ اِس کی ”دنیا“ بھی اِس کے ”دین“ ہی وابستہ ہوتی چلی جائے.... یہ اِس وقت امت کی کچھ بنیادی ترین ضرورتیں ہیں۔
نہایت ضروری ہو گا کہ اسلامی قیادتیں امت کی اِن ضرورتوں کو یہاں کی اُن مغرب پرست قیادتوں کیلئے نہ چھوڑ دیں جن کے پیچھے لگ کر امت ”دین“ سے بیگانہ ہو سکتی ہے بلکہ اس کے بہت سے طبقے سرے سے ارتداد کا شکار ہو سکتے ہیں۔
2) پھر اِن ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ، اِن تحریکوں کا ایک نہایت اہم مشن یہ ہو گاکہ یہ اسے وقت کے فرعونوں اور طاغوتوں سے نجات پانے کی راہیں تلاش کر کے دیں۔ بلکہ اِس راستے میں اس کو عملی قیادت فراہم کریں۔ اِس عمل کے کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے کی صورت میں امت کا سفر کسی نہ کسی وقت جس حسین نقطے پر منتج ہو سکتا ہے اُسی کو ہمارے کچھ طبقے اپنی اصطلاح میں ”انقلاب“ کہتے ہیں اور کچھ طبقے ”خلافت“ یا ”اسلامی ریاست“۔
”عمل“ کے یہ دونوں محور.. ”امت کی راہنمائی“ کے یہ دونوں میدان.. جوکہ وقت کی اسلامی تحریکوں کو شدت کے ساتھ دعوتِ عمل دے رہے ہیں، ایک دوسرے کے معارض نہیں کہ یہ بحث اٹھائی جائے کہ ان میں سے کونسا کام اِس وقت کیلئے ”صحیح“ ہے اور کونسا کام ”غلط“۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔ ایک کی تقویت خود بخود دوسرے کی تقویت کا باعث ہو گی۔ ایک میں رہنے والا ضعف یا کمی خود بخود دوسرے پر اثر انداز ہو گی۔ اِن میں سے کسی ایک محور کو لمحہ بھر کیلئے بھی اگر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا مؤخر کر رکھا جاتا ہے تو یہ اپنا ڈھیروں نقصان کروانے کے مترادف ہو گا۔
پس مناسب ترین موقف، جس پر ہمارے اہل علم صاد کرتے ہیں، یہی ہے کہ حتی الوسع، وقت کے اِن سب محاذوں پر ہمیں بیک وقت پورا اترنا ہو گا، خاص طور پر آج کی اِس الجھی ہوئی صورتحال میں۔ ہاں اِس میں مضائقہ نہیں کہ اِن متنوع ضرورتوں پر پورا اترنے کے لئے، یہاں پائے جانے والے صالح طبقے اپنی اپنی ہمت، اپنے اپنے امکانات اور اپنے اپنے اختصاص کو مدنظر رکھتے ہوئے، اپنے لئے عمل و سرگرمی کا الگ الگ میدان رکھیں؛ کوئی قتال کے میدان میں یہاں پایا جانے والا خلا پر کرے، تو کوئی تعلیم کے میدان میں، تو کوئی سیاست کے میدان میں، تو کوئی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے میدان میں، تو کوئی دعوت کے میدان میں.... علیٰ ھٰذا القیاس، یوں مل کر یہ ایک دوسرے کو مکمل کریں نہ کہ ایک دوسرے کے بالمقابل اپنے اپنے کام کو ہی یہاں کرنے کا ’واحد کام‘ قرار دیں اور اِس بنا پر لوگوں کو ہر طرف سے توڑتوڑ کر اپنے ساتھ ملانے کا طرزِ عمل اختیار کریں!!!
٭٭٭٭٭
٭ ایک دلچسپ بات یہاں قابل ذکر ہے....
ہمارے بعض قابل احترام طبقے جو اِس بات کے داعی ہیں کہ حالیہ مرحلہ میں صرف ”انقلاب“ یا ”خلافت“ یا ”اسلامی ریاست“ کے قیام پر ہی کام ہو، یہاں تک کہ وہ اُن دینی طبقوں کے منہج کو غلط سمجھتے ہیں جو ”فی الحال“ امت کے سماجی مسائل پر عملی توجہ دیتے ہیں، بلکہ ان میں سے کچھ حضرات تو ”سنت“ اور ”سیرت کے مکی مرحلے“ کو باقاعدہ حوالہ بنا کر اپنایہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تا وقتیکہ ہمارا اپنا ”انقلاب“ نہیں آجاتا اور اسلام کو مکمل اقتدار حاصل نہیں ہوتا، نہ تو یہاں کے سماجی مسائل کی بابت کچھ کرنا ممکن ہے، نہ اِن پر محنت سودمند، اور نہ اِس پر توجہ دینا ہی درست ہے.... دوسری جانب ہمارے یہی اصحاب، وقت کے جاہلی نظاموں اور حکمرانوں کی خدمت میں امت کے سماجی مسائل کے حوالے سے ”مطالبات“ بھی پیش کر رہے ہوتے ہیں! یہی نہیں،بلکہ جب اِن ”اپیلوں“ اور اِن ”مطالبات“ سے عشروں کے عشرے کچھ برآمد نہیں ہوتا تو کچھ اِس مضمون کے گلے شکوے کرنے کا رجحان بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ”ہمارے حکمران امت کے مسائل کے حل کے معاملہ میں بالکل سنجیدہ نہیں“!
”ہمارے“ حکمران؟؟!
یہاں پر ”مکی مرحلہ“ روپوش ہو جاتا ہے! ”مکی مرحلہ“ کے بر عکس.... ”مسائل“ بھی ہماری زبان پر ہوتے ہیں۔ ”مسائل“ کا، خواہ وہ قومی نوعیت کے ہوں، یا سماجی، یا ’مذہبی‘.. رونا بھی رویا جاتا ہے۔ ”تجاویز“ بھی ہمارے زیربحث آ رہی ہوتی ہیں۔ ”سفارشات“ بھی پیش ہو رہی ہوتی ہیں۔ ”حکمران“ بھی ہمیں میسر ہوتے ہیں جن کی خدمت میں یہ سفارشات اور تجاویز پیش کی جانا واجب ہے اور وہ باقاعدہ طور پر ”ہمارے“ حکمران ہوتے ہیں(5)۔ آراءو تجاویز کی پزیرائی نہ ہونے کی صورت میں ”گلے شکوے“ تک ہوتے ہیں.... جبکہ اپنی اِس صورتحال کو مکہ کے ”ما قبل انقلاب“ مرحلے پر قیاس کرنے کا ”شرعی حکم“ بھی ہماری کچھ بے جان نظری بحثوں کے اندر جوں کا توں باقی ہوتا ہے!
گویا ”مکی مرحلہ“ یہ محض اِس پہلو سے ہے کہ دینی طبقے یہاں کے سماجی مسائل پر کوئی عملی توجہ نہ دیں اور شعبہ ہائے زندگی میں امت کو عملی قیادت دینے کے طریق کار سے کنارہ کش ہو کر رہیں! اندازہ کیجئے، دینی طبقوں کیلئے اِن شعبوں میں آگے لگنا اور قوت کے سوتوں تک پہنچنا اور اِس راہ سے معاشروں پر اثر انداز ہونے کے میدانوں پر قابض ہونا جائز نہیں، البتہ باطل نظاموں اور ان کے کارپردازوں کیلئے یہ کام اِس ”مکی مرحلہ“ میں نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ شرعاً یہ اُن سے مطلوب ہے!!! یہاں تک کہ اِس سلسلہ میں ہماری اپنی سب تجاویز، آراء، درخواستیں، اپیلیں، منتیں سماجتیں انہی کے آگے دائر ہوں گی، اور ہمارے سب شکوے، شکایتیں، آہیں اور نالے ”اپنے“ انہی حکمرانوں کی سنگدلی و بے رخی کے گرد گھومیں گے! اور ہمارے اور ہماری نسلوں کے سب مصالح انہی کے موڈ اور مزاج پر موقوف رہیں گے!
تجاویز، مطالبات، اپیلیں.... اور پھر شکوے، کوسنے اور دل گرفتگی.... ستر سال سے یہی مشق جاری ہے! وہ سب ”مسائل“ آج بھی مطالبوں، اپیلوں اور شکووں کا موضوع ہیں جو ستر سال پہلے ”حکام“ کی امانت سمجھ کر ہم نے اُن تک پہنچانا شروع کئے تھے! تب سے اب تک، یہ ریاضت اُسی معمول کے ساتھ جاری ہے۔ ’مطالبات‘ کی زبان ہمیں اتنی پسند ہے کہ نہ ہم سنانے سے تھکتے ہیں اور نہ”ہمارے“ حکمران ”سننا“ موقوف کرتے ہیں! کوئی ہمت سی ہمت ہے، سترسال سے ہم ’قومی المیے‘ ہی بیان کرتے جا رہے ہیں! ٹیپ کے مصرعوں سے دنیا بور ہو جاتی ہوگی مگر ہم نہیں ہوتے۔ ’مطالبوں‘ کی بجائے کیا ہی بہتر ہوتا کہ زیادہ نہیں تو کسی ایک ہی سماجی میدان میں ہم خود آستینیں چڑھا کر اترے ہوتے تو آج کم از اکم ایک میدان میں آپ کا کام بول رہا ہوتا! لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم اسلام پسندوں نے خود اپنی فاعلیت کو سماج کے کسی شعبے میں آزمانا تک ضروری نہ جانا اور ’مطالبات‘ کی زبان ہی کو شرعی و عملی جانا!
جن نظاموں کو ہٹا کر ہم اپنا ”انقلاب“ لانے پر یقین رکھتے ہیں.. بلکہ جن نظاموں کا ہونا ہی ہمارے نزدیک یہاں پر ”انقلاب“ کا موجب ٹھہرتا ہے، اُنہی نظاموں کو سب کی سب ”اسلامی“ سفارشات و تجاویز و مطالبات پیش کرنا بھی ضروری ہے!
کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ اِن باطل نظاموں کا ”اسلام“ یا ”اسلامی جزئیات“ کے ساتھ کیا تعلق؟
کیا آپ اِس سے اختلاف کر سکتے ہیں، جہاں جہاں اِس باطل نظام کی چادر میں ہم نے ’اسلامی‘ پیوند لگوانے کی کوشش کی، مذاق ہی بنا۔ جہاں جہاں ہم نے باطل کے اِس ”کل“ میں اپنے اسلامی ”اَجزاء“ ٹھونسنے کی کوشش کی، وہ ایک عجیب و غریب چیز ہی بنی۔ اور ظاہر ہے وہ عجیب و غریب چیز ہی ہو سکتی تھی، کیونکہ واقعتا اُس ”نظام“ میں جو باہر سے درآمد ہو کر یہاں پر ”انسٹال“ ہوا ہے اور اُن ”اسلامی“ ترمیمات میں جو آپ اِس کے اندر کرانا چاہ رہے ہیں، ایسی ہی ایک مغایرت ہے۔ ہر نظام اپنی ایک الگ بنتی رکھتا ہے اور کسی دوسری بنتی کی چیز اُس کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ ہر ”کل“ کو اپنے ”اجزاء“ ایک خاص ساخت اور خاص کٹائی کے ساتھ درکار ہوتے ہیں اور پھر وہ ان کو اپنی ایک خاص ترتیب میں جڑتا ہے تو ہی اُس سے وہ مطلوبہ چیز برآمد ہوتی ہے۔ کسی ”جزو“ سے آپ جو کوئی خاص امید رکھتے ہیں وہ اپنا وہ خاص فنکشن تب ہی ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے جب وہ اپنی ہی طرز کے ایک ”کل“ میں فٹ ہو، ورنہ اُس کے بے جوڑ اجزاءکوئی اور ہی نتیجہ پیدا کریں گے۔ جس ”موٹر کار“ کے اندر ہم نے ”جہاز“ کے پرزے فٹ کروانے کی کوشش کی، اُس کا یہی نتیجہ ہو سکتا تھا جو اب ہم ستر سال سے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، مگر کسی نتیجے پر پہنچنے کی ہمت نہیں پا رہے! اِس عمل کی بدولت ہمیں اب ایک ایسی بے نظیر سواری دستیاب ہوئی ہے کہ زمانہ حیران رہ جائے۔ اِس کو سعی لا حاصل بھی ہم تب کہتے اگر یہ سواری چل کر نہ دے رہی ہوتی۔ لیکن یہ خوب چلتی ہے، مگر یہ ہمیں آگے لے جانے کی بجائے تیزی کے ساتھ پیچھے لے جا رہی ہے! ایسی ایجاد بھلا دنیا میں کب ہوئی تھی؟! اپنے اجتماعی اسلامی مقاصد اور اسلامی عزائم کے حوالے سے، پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ستر سال پہلے ہم اِس سے کہیں بہتر پوزیشن میں تھے جبکہ آج معاملہ شدید دگرگوں ہے۔
یہاں سب سے کم افسوس آپ کو اپنی اُن (اسلامی) تجاویز پرہو گا جو اِن نظاموں اور حکمرانوں کے زیر غور آنے سے رہ گئی ہوں! البتہ جو حشر آپ اپنی اُن ”اسلامی“ تجاویز کا دیکھیں گے جو اِن نظاموں کی نگاہِ التفات کا محل ٹھہر جاتی رہی ہیں، وہ بیان سے باہر ہے! ایک دلدل ہے جس میں جتنا زور لگائیں اتنا دھنستے ہیں۔
ایک ڈائنامک طریقِ عمل
٭ لہٰذا وہ منہج جس کو ہم پیش کرنے جا رہے ہیں، اور جس کو ہم نے سید قطبؒ کے مدرسۂ فکر سے سمجھا ہے، یہ ہے کہ اِن باطل نظاموں کے سائے تلے رہتے ہوئے، اسلامی تحریکیں ’مطالبات‘ اور ’سفارشات‘ اور ’شکووں‘ اور ’کوسنوں‘ کا اسلوب اپنی قاموس سے خارج کر دیں۔ ”اسلامی نظام“ ایک کل کا نام ہے اور اِس کے کچھ اجزاءکو جاہلی نظاموں کے اندر فٹ کروانے کیلئے منتیں سماجتیں کرنے کا یہ منہجِ عمل ”اسلامی تبدیلی“ کی صداؤں کو آج تک مضحکہ خیز بنا دینے کا ہی باعث بنا ہے۔ اِن نظاموں سے مفاصلت اور برأت اختیار کر رکھنا اِن کے آگے درخواستیں رکھنے کی نسبت کہیں زیادہ باعزت موقف ہے، اسلام کے حق میں بھی اور خود اِن تحریکوں کے حق میں بھی۔
اِس منہج کا دوسرا حصہ، جو کہ ہم نے سفر الحوالی کے مدرسۂ فکر سے سمجھا ہے، یہ ہے کہ اسلامی تحریکیں ”ایوانوں“ کے راستے میں خوار ہونے کی بجائے ”معاشروں“ کے اندر اتریں؛ اور یہیں سے معاشروں کی سرزمین میں اپنے پیر جمائیں۔ امت کو لا الٰہ الا اللہ سکھانے سے لے کر (جو کہ اِس وقت کاسب سے بڑا چیلنج ہے) اِس کے دین و دنیا کی جملہ ضروریات __ اِس وقت کے دستیاب امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے __ یہی تحریکیں بہم پہنچائیں۔ جس کسی کے ساتھ جو تعامل کرنا ہو، امت اِنہی کی راہنمائی میں رہ کر کرے۔ اِن تحریکوںکو اِس پوزیشن میں لازماً آنا ہو گا کہ امت جاہلی نظام کے تحت رہتے ہوئے بھی __ ممکنہ حد تک __ اِنہی کی سرکردگی میں چلے۔ شعبہ ہائے زندگی میں یہی آگے لگیں اور ہر ہر میدان میں __ ممکنہ حد تک __ معاملات کو اپنے ہاتھ میں کریں۔ یہاں ہر ہر چپے پر ان کی جو مزاحمت ہو گی وہ ان کو زندگی دینے کا ذریعہ ہو گی۔ یوں یہ تحریکیں امت کو سیاسی جنگ سے بڑھ کر ”عقیدہ“ اور ”تہذیب“ کی جنگ لڑ کر دیں۔ ہر ہر فیلڈ میں ایسی اسلام شناس قیادتیں لائیں جو اپنے اپنے شعبہ میں جاہلی ایجنڈا کو نیچے سے ہلا کر رکھ دیں۔ علوم و افکار اور عقائد و نظریات کی زمین پر یہ قیادتیں معاشرے کے زیادہ سے زیادہ با صلاحیت عناصر کو اپنی پشت پہ لاکر جاہلیت کے داعیوں کے ساتھ دست بدست لڑیں، یہاں تک کہ پوری امت اِس تہذیبی و نظریاتی جنگ کی گرد اڑتی دیکھے کیونکہ وہ اِس معرکہ کی گرد دیکھ کر ہی قرآن اور لا الٰہ الا اللہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ اور اپنی جانبداری کا واضح ترین تعین کر سکتی ہے۔ (اِس چیز کو ہم اپنے اِس مضمون میں قدرے تفصیل سے بیان کر چکے ہیں، لہٰذا یہاں اِس کی مزید تفصیل میں نہیں جائیں گے)۔
٭٭٭٭٭
ہمارے اِس مجوزہ منہج اور ”جزوی تبدیلی“ کے منہج میں کیا فرق ہے؟
٭ یہاں پر ایک سوال وارد ہو سکتا ہے، اور وہ یہ کہ جاہلی نظاموں میں ’اسلامی‘ پیوندکاری جب ہماری نظر میں بے فائدہ اور اِن کے آگے اپیلیں اور درخواستیں رکھنے کا منہج مسترد ہونے کے لائق ہے.... تو اِس نظام کے ہوتے ہوئے، جہاں اِسی کی حکمرانی اور اِسی کی پالیسیاں چل رہی ہوں گی، سماجی شعبوں میں سرگرم ہو کر بھی آخر کیا تیر ماراجا سکتا ہے؟
اِس موضوع کو تفصیل کے ساتھ ہم کسی اور مقام پر ہی زیر بحث لا سکیں گے۔ تاہم صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ:
1) حالتِ مغلوبیت میں اسلام کی قوتِ مزاحمت کو سامنے لانا امت کے وجود سے پستی و اِدبار کی گرد جھاڑنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اِس کے بر عکس، جاہلیت کے دیے ہوئے نظاموں کو own کرنا امت کو آپ اپنے ہاتھ سے جاہلیت کے شکنجے میں دے آنے کے مترادف ہے۔ جہاں باطل کا غلبہ ہو، وہاں امت کے اندر ”فدویانہ“ لہجوں کو فروغ دینے کی بجائے ”اِنکار اور اِباء“ کے لہجے پروان چڑھانا ضروری ہوتا ہے۔ امت کے اندر خودشناسی کے عمل کی بحالی بھی اِسی سے ممکن ہے۔
2) امت کے دین و دنیا کو ہر حال میں شریعت و اہل شریعت کے تابع کر کے چلایا جانا ہے۔ جس کا طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اہل شریعت ہی آگے لگیں، اور یہ فرض ”حالتِ مغلوبیت“ میں بھی موقوف نہیں ہوتا۔ بلکہ حالتِ مغلوبیت کا تو کیا ذکر، کہیں پر ”حالتِ اسیری“ ہو، وہاں بھی ضروری ہو گا کہ مسلمان اپنے میں سے اہل علم وشرع کی جانب رجوع کریں، جبکہ اہل علم و شرع پر واجب ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو وہاں جو کوئی بہترین ممکنہ صورت میسر ہے، اُس کے مطابق چلائیں اور جہاں تک ممکن ہو، راستہ بنا کر دیں۔ یہاں تک کہ اسیر کرنے والوں کے ساتھ کوئی تعامل کرنا ہو، تو وہ بھی اسلامی قیادتوں کی راہنمائی میں رہ کر ہو۔
3) حالتِ اسیری میں بھی اگر اہل اسلام پر جتھہ بند ہو کر رہنا لازم ہے اور مسلمانوں میں سے وہاں پائے جانے والے اہل علم وفطانت پر اُس اسیری میں گرفتار مسلمانوں کو راہنمائی دینا ضروری ہے، خواہ اسیری کے ”قوانین“ کتنے ہی ناموافق ہوں، پھر بھی ”دستیاب امکانات“ کو بہرحال بروئے کار لانا ہوتا ہے.... ”حالتِ اسیری“ میں بھی فرائض اور ذمہ داریوں کا نقشہ یہ بنتا ہے تو ”حالت مغلوبیت“ میں پائے جانے والے امکانات تو کہیں زیادہ ہونے چاہئیں۔ ان کو بروئے کار کیوں نہ لایا جائے گا؟
4) پھر جبکہ ہم دیکھتے ہیں یہ ”دستیاب امکانات“ جو معاشرے کے اندر ہمارے منتظر ہیں، اِس قدر زیادہ ہیں کہ یہاں سے ہمیں نہ صرف امت کے بے شمار مصالح کو یقینی بنانے کا موقعہ ملتا ہے اور بے شمار پہلوؤں سے کفر کے خباثت بھرے ایجنڈا کو ناکام بنانے کی صورت میسر آتی ہے، بلکہ امت کو راستہ دکھانے اور چلانے کے بے پناہ امکانات بھی ہاتھ آتے ہیں، خصوصاً اگر ہم ”تعلیم“ کے میدان میں محاذ جیت لیتے ہیں۔ مزید برآں، جاہلیت کے خلاف امت کو صف آرا کرنے کا راستہ بھی یہیں سے گزرتا ہے۔ اور تو اور، امت کے ساتھ حقیقی رابطہ کی بھی یہی صحیح صورت ہے۔ علاوہ ازیں، معاشرے کے اندر جاہلیت سے بہت سی زمین واگزار کرانے کی بھی __ اندریں حالات __ اِس کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔
5) صورتِ موجودہ کو سامنے رکھتے ہوئے، یہاں کی سب سے بڑی اجتماعی ترجیح یہی ہو سکتی ہے اور یہی اِس سارے موضوع کا اہم ترین نقطہ ہے کہ باطل کے محکوم معاشرے کے اندر بھی ہماری اسلامی قیادتیں مسلم اقوام کو __ ممکنہ حد تک __ اپنی راہنمائی میں چلائیں۔ اِ س نقطہ کو ہم نے پیچھے صفحہ 28 تا 30 پر واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
امت کے ایک مؤثر حصہ میں جب آپ یوں جڑیں گاڑ لیں گے، اور ان کو اپنے ساتھ involve کر لیں گے، تو یہیں سے اُس صورتحال کو وجود میں لاناممکن ہے کہ رفتہ رفتہ یہ امت یا امت کا با صلاحیت ترین اور مؤثر ترین حصہ آپ کے ایجنڈا کی پشت پر آ کھڑا ہو۔
٭٭٭٭٭
ایک اشکال
٭ اِس سلسلہ میں کچھ تجربہ کار اصحاب کی جانب سے ایک خدشہ بھی پیش کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ:
اِس راستہ میں چلتے ہوئے، کارکنانِ اسلام کے ہاتھ میں لے دے کر سماجی خدمت ہی رہ جائے، اور ان کا کردار یہاں محض اور محض ایک ”سماجی کارکن“ کے طور پر ہی باقی رہ جائے۔
یہ خدشہ یقینا ایک بجا خدشہ ہے اور ہرگز ہرگز نظر انداز کر دینے والی بات نہیں۔ بلکہ یہ محض خدشہ نہیں اسلامی طبقوں کی جانب سے کیے جانے والے ”سماجی عمل“ کے کئی تجربات واقعتا ایسے ہیں جن سے برآمد ہونے والے نتائج کچھ ایسے امید افزا نہیں۔ بکثرت ایسے نمونے سامنے آئے ہیں جنہیں دیکھ کر بجا طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ سماجی خدمت کے اِن ”اسلامی“ اداروں اور پروگراموں اور اُن ”غیر اسلامی“ اداروں اور پروگراموں کے مابین کونسا جوہری فرق ہے سوائے یہ کہ اول الذکر کے ہاں اذان ہونے پر نماز پڑھ لی جاتی ہے، داڑھیاں ہیں اور اِن شاءاللہ و ماشاءاللہ و جزاک اللہ ایسے الفاظ کا قابل توجہ حد تک استعمال ہو جاتا ہے؟ سکول ہیں تو ایک واجبی سا فرق ڈال کر ”اسلامی متبادل“ سامنے لے آیا گیا ہے۔ نصاب ہیں تو ان کی یہی صورت حال ہے۔ عملاً یہ سب پروگرام یہاں پر جاہلیت کی ایک بڑی خدمت ہیں۔ جاہلیت کی اپنی ضرورت بھی تو یہی ہے کہ یہاں بے لوث سماجی رضاکار بے حد وحساب پائے جائیں! کرپٹ نظاموں کو یہ معاشرہ آخر چلانا بھی تو ہے!
حقیقت واقعہ یقینا یہی ہے۔ مضمون کے مقدمہ میں ہم خود اِس بات پر زور دے آئے ہیں کہ اِس سارے عمل کو ”عقیدہ“ کی ایک اصیل محنت سے ہی برآمد کرایا جانا ہے اور جب تک ”عقیدہ“ سے ہی اس سارے عمل کو جنم نہیں دلوایا جاتا، تب تلک یہ نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ الٹا دینداروں کی یہ محنت طاغوتوں اور جاہلیت کے کارپردازوں کو کام دینے والی ہے۔
اِس سلسلہ میں البتہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ دینی طبقے جن کی طرف سے سامنے آنے والے ”سماجی عمل“ کے تجربے کا کچھ حال اوپر بیان ہوا، خود ان کی ”دعوت“ کے مضمون ہی میں وہ بات کہاں ہے جو آپ اِن کے ”سماجی عمل“ میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں؟ یہ طبقے اگر اِس سماجی عمل کو ہاتھ نہ ڈالتے تو کیا آپ کو ان کے ہاں ”کفر بالطاغوت“ اور ”جاہلیت کے انکار“ کی دعوت نظر آتی؟ پس یہ نقص تو اصل میں ”تصورِ دین“ کا ہے، جس کا مظاہرہ آپ سے آپ ان طبقوں کی جملہ سرگرمی کے اندر دکھائی دینے لگتا ہے۔ نقص اصل ”عقیدہ“ کے اندر ہے مگر وہ ہمیں نظر کہیں اور آتا ہے۔ ”عقیدہ“ میں جان ہوتی تو اِس سرگرمی میں ہمیں وہ نظر آتی۔ بلا شبہ ”عقیدہ“ چیز ہی ایک ایسی ہے۔ بلکہ اگر آپ ”عقیدہ“ کی یہی تعریف کریں تو شاید غلط نہ ہو۔
یہ نہایت اہم نقطہ ہے اور (اِس سلسلۂ مضامین ”معاشرہ اسلامی تحریکوں کا منتظر ہے“ میں) آگے چل کر ایک فصل میں اِس پر ہم مزید بات کریں گے۔
 پچھلا حصہ
 اگلا حصہ

 
 
(1) اِلا یہ کہ امت کی یہ خدمت ”ووٹ“ کا استحقاق پیدا کرنے کیلئے ہو، جس سے اسلامی تحریکوں کا یہ امیج اور بھی آشوب ناک ہو جاتا ہے۔
(2) اسلام کا یہ اصل مضمون اور لب لباب ہی اسلامی تحریک کے کیس کے اندر واضح کرنے پر سب سے زیادہ محنت ہو، تو کسی دیگر کام کو ہاتھ ڈالنا درست ہو گا۔ اِس منہج کا یہ اہم ترین حصہ ارتکازِ توجہ سے محروم رہتا ہے تو یقینا سب معاشرتی عمل اور سماجی محنت فضول ہے، بلکہ جاہلیت کے کام آنے والی چیز۔ یہ بات ہم مضمون کے مقدمہ میں بھی کہہ آئے ہیں، اور کچھ آگے چل کر بھی ابھی اِس پر بات ہو گی۔
(3) روزمرہ زندگی سے اِس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک عام مسلمان کیلئے جن جن شروط کے ساتھ اور جن جن استثنائی حالات میں”بنک“ کے اندر اپنا سرمایہ رکھنا اہل علم کے نزدیک فی الوقت ”جائز“ مانا جاتا ہے، (قطع نظر اِس سے کہ آپ اِس مسئلہ میں کتنا سخت فتویٰ اختیار کرتے ہیں یا کتنا نرم)، امت کا ایک عام فرد یہ اقدام بھی کرے تو اہل علم و ارشاد سے پوچھ کر کرے۔ آپ غور کریں تو امت کا یہ فرد جو یہ کام امت کی ”شرعی قیادتوں“ سے پوچھنے اور باقاعدہ اجازت لینے کے بعد کرتا ہے بے حد مختلف ہے بہ نسبت اُس شخص کے جو عین یہی کام امت کی ”شرعی قیادتوں“ سے کسی بھی قسم کا رجوع کئے بغیر کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اول الذکر شخص نہ صرف اِس وقت ”شریعت“ کی راہنمائی میں چل رہا ہے (حتی الوسع) بلکہ بہت امکان ہے کہ امت کی ”شرعی قیادتیں“ جونہی اِس کو دی ہوئی یہ اجازت ختم کریں اور کسی متبادل صورت کے سامنے آنے کے باعث جونہی اِس کے آگے اِس سے کچھ مختلف شرعی تقاضا رکھیں، تو تب یہ ”شرعی قیادتوں“ کی جاری کردہ اُن نئی ہدایات کی پابندی کرنے لگے۔ جبکہ ثانی الذکر شخص بھی گو ابھی وہی کچھ کر رہا ہے جو کہ اول الذکر شخص کررہا ہے، مگر یہ نہ تو اِس وقت شریعت کا پابند مانا جائے گا اور نہ یہ اُس وقت شریعت کا پابند ہونے والا ہے جب امت کی ”شرعی قیادتیں“ اس کے آگے اِس سے کچھ مختلف تقاضے رکھیں گی۔
(4) یہ بات بھی ایک مثال سے ہی واضح ہو سکتی ہے....
اِس باطل نظام کے تحت رہتے ہوئے بھی، آپ اپنے بچے کو زندگی کی شاہراہوں پر چلانا موقوف نہیں کرتے۔ یہ کام اُس سے آپ (1) اپنے زیر نگرانی کرواتے ہیں، اور (2) حتی الوسع ”شریعت“ کی پابندی میں رہ کر کرواتے ہیں۔ باطل نظام کا ہونا یہاں آپ کا یہ ”کردار“ ہونے میں ”مانع“ نہیں بلکہ اِس کا ”متقاضی“ ہوتا ہے۔کہاں کس حد تک وہ جا سکتا ہے بلکہ اُسے جانا چاہیے، اور کہاں کس حد تک چلا جانا اُس کے حق میں صاف صاف خدا کو ناراض کرنا ہے، آپ اُس کو برابر اِس حوالے سے ”چلا“ رہے ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں وہ آپ کے ہاتھ سے نکل بھی جاتا ہے، مگر آپ اُس کو راہِ راست پر رکھنے کی یہ محنت مسلسل جاری رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں بلاشبہ وہ کسی مقام پر پہنچتا بھی ہے۔ اِسی کو آپ ”راہنمائی“ کہتے ہیں جوکہ آپ اپنے بچے کو اِس کفر کے نظام میں رہتے ہوئے ہی فراہم کر رہے ہیں۔ اِسی کا نام ”کنٹرول“ ہے جو آپ اپنے بچے پر اِس کفر کا محکوم ہوتے ہوئے بھی رکھتے ہیں۔ اب جو ”راہنمائی“ اِس کفر کے تلے رہتے ہوئے بھی آپ اپنے بچے کو دے سکتے ہیں اور بہر حال دیتے ہیں، جو ”کنٹرول“ اِس کفر کے محکوم ہوتے ہوئے بھی آپ اپنے بچے پر رکھتے ہیں اور جوکہ لازماً آپ کو رکھنا ہوتا ہے، اُسی کے کچھ مشابہ ”راہنمائی“ اور اُسی کے کچھ مشابہ ”کنٹرول“ آپ __ بطور ایک علمی و شرعی قیادت __ معاشرے کے ایک مؤثر طبقے پر بھی رکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ واقعتا آپ معاشرے کے ”مائی باپ“ یا ”مرشد“ بننے کی صلاحیت رکھیں اور معاشرے کی جملہ سرگرمی میں __ ممکنہ حد تک __ شرعی راہنمائی بلکہ شرعی قیادت فراہم کرنے کا جوہر اپنے اندر پیدا کر لیں۔
(5) یہاں تک کہ اپنے بعض انقلابی حلقوں (جن کی ہم بے حد تکریم کرتے ہیں) کی جانب سے اُن جہادی جماعتوں پر اعتراضات اٹھائے گئے جن کو پڑوس کے کچھ خطوں میں جہاد کیلئے پاکستانی حکمرانوں سے پروانہ حاصل نہیں! ان محترم حضرات کی جانب سے بڑی شد و مد کے ساتھ یہ نقطۂ نظر پیش کیا گیا کہ افغانستان اور کشمیر میں جہاد واجب ضرور ہے مگر یہ ”حکومت پاکستان“ پر واجب ہے۔ جہادی جماعتوں کا اپنے طور پر جہاد کرنا البتہ ہمارے ان انقلابی حلقوں کے نزدیک قابل اعتراض ہی جانا گیا!
یہ بات اُن جدت پسندوں کی جانب سے کہی جاتی جو ویسے ہی ریاست پاکستان کو ”الجماعۃ“ قرار دے چکے ہیں، تو بات سمجھ آنے والی تھی۔ تعجب یہ ہے کہ یہ بات اِس بار اُن طبقوں کی جانب سے آئی جو یہاں پر انقلاب کے داعی ہیں!
 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز