طوفان کی آمد اور ایمان کا امتحان
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
طوفان کی آمد اور ایمان کا امتحان
محمد بن مالک
اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے او ر کلمہ کی شہادت دینے والوں کے ملک پاکستان میں لوگوں کے اندر آسمانی اور زمینی آفات کے بارے میں عجیب و غریب تصورات پائے جاتے ہیں۔ جن کے مطابق یہ آتی تو خدا کی طرف سے ہیں، البتہ ان آفات کو ”ہینڈل“ کرنے کی تمام تر ذمّہ داری کچھ فوت شدہ ”بابوں“ اور ”خواجوں“ نے اپنے مُردہ کاندھوں پہ اُٹھا رکھی ہے۔!!! طوفان آتا تو خدا کی مرضی سے ہے، لیکن جاتا اِن کی مرضی سے ہے!! سو کبھی طوفان کا اندیشہ ہو، اور بڑے پیمانے پر حفاظتی تدابیر اختیار کی جارہی ہوں، یہ اپنے مُردہ بزرگوں پر ”ایمان بالغیب“ رکھنے والے ”راسخ العقیدہ“ لوگ چنداں پریشان نہیں ہوتے۔ ان کے ایک بڑے ”بابے“ کا مزار عین ساحل ِ سمندر پر جو واقع ہے! اب ”بابا“ جانے اور اُس کے خدائی اختیارات! طوفان آئے گا تو اِسی راستے سے نا، آخر بابا سے بچ کر کہاں جائے گا! اب معتقدین (بلکہ ”مؤمنین“) ہیں کہ طوفان کے ٹلنے کی خبر سننے کے منتظر ہیں ، اور فکر کا کیا سوال کہ قریب پھٹکنے بھی پائے! طوفان قریب آتا جا رہا ہے، لیکن ایک بے نیازی ہے کہ ”حسب ِ سابق“ قائم و دائم ہے! ایک ”چشمِ بصیرت“ ہے کہ طوفان کو وقت سے پہلے ہی ٹلتا ہوا دیکھ چکی ہے! ایمان بھلا اور کس چیز کو کہتے ہیں؟؟؟!!! لیکن اِس دفعہ جو طوفان آیا وہ کچھ نہ پوچھیے، بڑا ہی ”بے ادب“ نکلا۔ بابا بیچارے نے لاکھ پکارا ہوگا: ”پرے ہٹ، گستاخ، بے ادب!“ لیکن طوفان نے سن کے نہ دی۔ وہ طوفان ہی کیا جو کسی مخلوق کی بات سن لے۔ اور وہ بھی مردہ مخلوق۔ جو ایک مکھی نہیں اُڑا سکتی، اور اگر مکھی اُس سے کچھ اُڑا لے جائے تو چھڑا نہیں سکتی۔ اِس بار تو طوفان ہر کسی کو اُس کی اوقات یاد دِلانے پر گویا تُلا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ درّاتا ہوا اور دندناتا ہوا ”مزار شریف“ میں چڑھ آیا! آن کی آن میں اُس کی ایک معمولی سی لہر نے جو ذرا تھپکی دی تو مزار کی ایک دیوار اپنا بوجھ سہار نہ سکی اور ”بابا“ کی ”نگاہِ کرم“ کے منتظر چند زائرین پر اپنا ”کرم“ کر گئی۔ بھلا جس پر خدا کا غضب ہونا ہو اُسے کسی بابے یا خواجے یا ”گنج بخش“ کی نگاہِ مُردہ کیسے بچا سکتی ہے۔ جو ”بابا“ اپنے مزار کی دیوار گرنے سے نہیں روک سکتا وہ کسی کو اُس دیوار کے نیچے آنے سے کیسے بچا لے گا؟! جس ”گنج بخش“ کے پاس اپنے ہی مزار کے اندر اپنے ہی معتقدین کو تحفظ فراہم کرنے کی قوت نہ ہو وہ مزار سے باہر کی دُنیا میں کسی کا کیا بھلا یا بُرا کر لے گا؟؟!! یہ بیچارے فوت شدہ بندے خدا کی بھیجی ہوئی آفات سے کسی کو کیا بچائیں گے، یہ بے بس و لاچار لوگ تو انسانوں کی لائی ہوئی ”مصیبت“ سے خود اپنے مزاروں کو نہیں بچا سکتے۔ حقائق اور واقعات تو یہی کہتے ہیں۔ اَب کسی کو اگر قرآن کی بات سمجھ نہیں آتی تو کیا ایسے چشم کشا واقعات بھی عقلوں کو جھنجوڑنے کے لیے کافی نہیں ؟؟ ایسا بھی کیا اندھا ہونا؟! لیکن یہ ”ایمان“ بھی عجب چیز ہے بھئی۔ تمام دلیلوں سے کرتی ہے بے گانہ دِل کو۔ آپ لاکھ سمجھاتے رہیں کہ بزرگوں کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے، اُن سے اُمیدیں رکھنا فضول ہے۔ ہر چیز صرف اللہ کی مرضی سے ہوتی ہے اور اُسی کی مرضی سے ٹلتی ہے۔ اسی لیے صرف اُسی کو پُکارنا اور اُسی سے لو لگانا چاہیے۔ لیکن اِن ”ایمان والوں“ نے آگے سے یہی جواب دینا ہے کہ بابا کی یہی مرضی ہوگی!!! یہ ہوتا ہے ایمان!!! امام بری کا مزار جب دھماکے سے تباہ ہوا تھا تب بھی ایسی ”ایمان افروز“ باتیں سننے کو ملی تھیں۔ اَب ”داتا دربار“ میں ہونے والی تباہی کے بعد بھی لوگوں کے ”ایمان“ کا وہی عالَم ہے۔ کیا کہنے اِس یقین کی بلندی کے! ایسا ایمان یہاں والوں کو کبھی صرف خدا پر ہونے لگے تو چشمِ فلک شاید یہاں معجزے ہوتے ہوئے دیکھے! لیکن وائے نادانی، کہ آپ کا سمجھانا تو کیا دُنیا کے بڑے بڑے حقائق بھی کائنات کی سب سے بڑی سچائی اور توحید ایسی موٹی سی بات سمجھانے میں ناکام ہی رہتے ہیں۔آنکھیں اگر خود بند ہوں تو اِس میں سورج کا کیا قصور؟ وہ تو چہار سُو اپنی ضیاءپاشیاں کیے جا رہا ہے۔ توحید کا اعلان تو ربِّ کائنات ہر آن اپنی قدرتوں کے اِظہار کے ذریعے کیے جا رہا ہے۔ ہر لحظہ وہ اِک نئی شان میں ہے۔ لیکن سچ کہا ہے قرآن نے کہ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (دراصل آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ سینوں میں جو دل ہیں وہ اندھے ہو جاتے ہیں) اور وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ (اور جسے اللہ روشنی سے محروم کردے اُس کے لیے پھر کوئی روشنی نہیں)۔ مشرکین ِ مکہ تو پھر طوفان کے وقت ایک خدا کو خالص ہو کر پکارتے تھے۔ فرعون بھی ڈوبتے وقت ایک اِلٰہ کا اقرار کر رہا تھا۔ لیکن یہ ایسے ظالم، جاہل، اندھے اور بدبخت ہیں کہ عین ناگہانی آفت کے وقت بھی اپنے جھوٹے خداؤں کو ہی ”خالص ہوکر“ پکاریں گے۔ ایسوں کے لیے تو پھر طوفان سے بڑا ہی کوئی عذاب ہونا چاہیے۔
|
|
|
|
|
|