اداریہ
دکھ کی ”دوا“ کرے کوئی!
حامد کمال الدین
پچھلا حصہ
اگلا حصہ
یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ایک مسئلہ ڈیڑھ پونے دو سو سال پرانا ہے مگر اپنی اِس سنگینی اور اپنے اِن براہِ راست اثرات و روزمرہ مضمرات کے باعث، اور اپنی اِس تکلیف دہ خصوصیت کے باعث کہ یہ ہر خاص و عام کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ آج پہلی بار ہمارے ہی سر پر پڑا ہے! ”درد“ کو دیکھیں تو یہی لگتاہے کہ یہ قیامت آج ہم پر ہی ٹوٹی ہے!
1
راستے جو”عقیدہ“ سے پھوٹیں اور ”معاشروں“ سے گزریں!
2
دکھ کی ”دوا“ کرے کوئی!
3
کچھ اصولی باتیں: ”حالیہ مرحلہ“ میں تحریکوں کے سماجی کردار کے حوالے سے
ا
”انقلاب“ یا ”خلافت“ آنے تک ہر چیز مؤخر کر رکھنا کوئی صائب منہج نہیں
ب
مکی مرحلہ پر قیاس!
ج
”مکمل اقتدار“ کے بغیرامت کو لے کر کیسے چلا جا سکتا ہے؟!
د
ایک ڈائنامک طریقِ عمل
ح
ہمارے اِس مجوزہ منہج اور ”جزوی تبدیلی“ کے منہج میں کیا فرق ہے؟
و
ایک اشکال
4
تعلیم کے شعبہ میں اسلام کے اِحیائی عمل کو درپیش چیلنج
ا
”علم“ ہی سے اِس امت کی ساخت ہوئی اور ہوگی
ب
”علم“ و ”تعلیم“ کی سَلَفی تأصیل
ج
اسلام میں ایسی نسلوں کا پروان چڑھنا جو جاہلیت سے آگاہ نہیں !
د
ہمارا مطلوبہ تعلیمی عمل جاہلیت کا فریم توڑنے کیلئے، نہ کہ اُسکے اندر فٹ ہونے کیلئے!!!
ح
مستشرقین کی بد روح برابر بولتی ہے!
و
”اسلامی نظر“ کا فقدان: وہ اصل چیلنج، جس پر ہمارے نوجوان کی ڈھیروں محنت ہو گی
ز
میدان سامنے ہے!
ح
مذکورہ بالا توضیحات کی روشنی میں
حالانکہ.... غور کریں تو پچھلی نسل کے مصلحین اور تحریکی قائدین بھی اِسی کا رونا روتے گئے ہیں! ذرا پیچھے جائیں تو اُس سے پچھلی نسل کے قائدین بھی اِسی کا رونا روتے گئے تھے، اور شاید اُس سے پچھلی نسل بھی اِسی بے بسی کا رونا روتی گئی ہو! کیا ہمیں بھی اپنے دور میں اِسی مسئلہ کا رونا رو کر اپنے ’فرض‘ سے عہدہ برآ ہونا ہے؟
یہ ”تعلیم“ کا مسئلہ ہے....؛ ایک مجرب ترین نسخہ جو ہمارے سب خدوخال بدل دینے اور ہمیں ہمارے دین، ہماری تہذیب، ہماری شریعت، ہماری تاریخ، اور ہماری شناخت سے برگشتہ کر دینے کیلئے ہمارے چھوٹے چھوٹے نونہالوں سے لے کر جوانی میں پیر دھرنے والے ہمارے بچوں اور بچیوں تک، سب پر، لگ بھگ دو صدی سے، بڑی کامیابی کے ساتھ آزمایا جا رہا ہے، اور ہماری اسلامی قیادتیں ابھی تک اِس مارگزیدہ کیلئے ”تریاق“ ہی تلاش کرتی پھر رہی ہیں!
آج سے ساٹھ ستر سال پہلے کے اصلاحی و تحریکی قائدین کے خطبات سنیں تو ان کے لہجوں میں وہ سرد آہیں آج بھی آپ سن سکتے ہیں جو وہ اپنی نسلوں کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر بڑے ہی کرب بھرے لہجے میں بھرا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’لارڈ میکالے کے نظام‘ کو برا بھلا کہنے میں انہوں نے ہرگز کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یقینا ہمیں معلوم ہو گیاہے کہ آج سے دو سو سال پہلے تاسیس کئے جانے والے اِس نظامِ سامری کا سنگ بنیاد ”برطانیہ عظمیٰ“ کے کس شخص نے رکھا تھا۔ اور یہ بات تو کسی بھی شخص سے اوجھل نہیں رہی ہے کہ یہ نظام امت محمد کو ”تعلیم“ دینے کیلئے کس قوم نے وضع کیا ہے؟ کس قوم نے امت محمد کو ”سدھانے اور ’ ’تربیت“ دینے کیلئے باقاعدہ یہاں ایک ”نظام“ تشکیل دیا تھا؟ سوال تو یہی ہے کہ اِس کے بالمقابل ہمیں، اور خصوصاً ہماری اسلامی قیادتوں کو، کرناکیا تھا؟
یعنی ایسا نہیں ہے کہ مسلم ہند میں جس وقت اِس ’نئی طرز‘ کے سکولوں اور کالجوں کا فنامنا سامنے آنے لگا تھا اُس وقت کے صالحین پر پوشیدہ تھا کہ اِس سسٹم سے یہاں پر کیا چیز برآمد ہونے والی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جس وقت ’علی گڑھ‘ میں ایک ادارے کی بنا رکھی گئی تھی، ہمارے اُس وقت کے غیور علماءکو معلوم نہیں تھا کہ یہاں ’کیا‘ ہونے جا رہا ہے! پس وہ کہانی تو جو ہماری اصل توجہ کی حقدار ہے، اُس ”بے بسی“ کے گرد گھومتی ہے جو ہمیں یہاں کے صالحین اور مصلحین کے ہاں نظر آتی ہے۔ ہمارے وہ علماءاور فضلاءکم نہ تھے جو اِس نظام کے خطرے سے اُس وقت بھی آگاہ تھے جس وقت اِس کی ہمارے یہاں بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ چند ہی لوگ ہوں گے جو اِس نظامِ روسیاہ سے اُس وقت بھی کوئی خوش فہمی رکھتے ہوں گے جب اِس کی ”مصنوعات“ ابھی مارکیٹ میں آنے نہیں لگی تھیں۔ ہمارے بیشتر نیک طبقوں کو اِس بات کا بہرحال اندازہ تھا کہ اِس نظام کے ذریعے یہاں پر کیا چیز پیدا ہونے جا رہی ہے۔ مگر تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ ہمارے یہ نیک طبقے اِس شر سے نبرد آزما ہونے کیلئے ’مذمت‘ یا ’مقاطعہ‘ سے بڑھ کر بالعموم کچھ نہ کر سکے تھے، یعنی وہی دو ’آپشن‘ جو آج بھی ہمیں پوری طرح حاصل ہیں اور جنہیں یہاں کے صالح طبقے آج تک آزماتے چلے آ رہے ہیں!
قطعی بات ہے، جس وقت یہ نظامِ تعلیم یہاں پر لانچ کروایا جا رہا تھا، کسی کے بس میں نہ تھا کہ وہ اِسے بزور روک دے۔ کسی کے مقدور میں نہ تھا کہ وہ اِن اداروں کی طرف قدم اٹھانے والے اپنے بھائی بندوں کے راستے میں آ کر کھڑا ہو جاتا۔ یہ ایک فاتح قوم تھی جو یہاں پر اپنا نظام ہم پر مسلط کرنے جا رہی تھی اور ہم ایک مفتوح قوم تھے، لہٰذا وہ سب حدود جو ایک فاتح اور مفتوح کے مابین ملحوظ رکھے جانا ہوتے ہیں ہم اُن سب حدود کے بہرحال محکوم تھے۔ ’پیپر کرنسی‘ کے بارے میں یہاں کے اُس دور کے ایک عالم دین کا جواب یقینا اِسی تلخ حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ”حضرات! پیپر کرنسی چلے گی، میرا فتویٰ نہیں چلے گا“۔ پس یہ ایک یقینی بات ہے کہ یہ نظام جسے فاتحین ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہاں پر چلانا چاہ رہے تھے، اُس کو بہرحال چلنا تھا۔ البتہ اپنے علماءوفضلاءکی جس بے بسی کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ یہی سوال ہے کہ اِس نظامِ تعلیم کی ”مزاحمت“ کی وہ اپنے پاس کیا منظم و کامیاب صورت رکھتے تھے؟ یہ اگر طے ہے کہ ایک نظامِ تعلیم کو یہاں چلنا تھا.... تو پھر قوم کے بچوں کی ذہن سازی کی اِس پر فریب اسکیم کے مقابلے پر پورا اترنے کیلئے، بلکہ اس کو اس کے اپنے ہی میدان میں شکست دینے کیلئے، اور ممکنہ طور پر امت کے زیادہ سے زیادہ طبقوں پر اُس کو بے اثر کر دینے کیلئے وہ کیا لائحۂ عمل تھا جو ہمارے یہ علماءوفضلاءاپنے پاس رکھتے تھے؟ اور وہ کیا کوششیں ہیں جو ہمارے اِن اصحابِ فضیلت نے ”تعلیم“ کے میدان میں اِس کفر کا مقابلہ کرنے کیلئے بالفعل انجام دیں، اور وہ کوششیں کہاں تک اِس چیلنج کے شایانِ شان اور اِس کی ٹکر کی تھیں؟ ہمارے وہ کونسے ادارے اور پروگرام ہیں جو ”تعلیم“ کے میدان میں اِس کفر کے خلاف جو ہمارے معصوم ذہنوں پر یلغار کررہا تھا، سرگرم رہے اور اِس چیلنج پر پورا اترنے کیلئے بر سر عمل ہوئے اور جنہوں نے وقت کے اِن فکری و نظریاتی محاذوں پر قوم کے بچوں کو ایک غیر محسوس مگر منظم ”ارتداد“ کی راہ پر ڈال دینے والے اِس عمل کے بالمقابل اس کی ٹکر کی ایک علمی وفکری استعداد سے قوم کو اور قوم کے بچوں کو لیس کر دینے کا حق ادا کر دیا ہو؟
پچھلا حصہ
اگلا حصہ