کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
محمد بن مالک میدانِ جہاد اور عملِ جہاد کے ساتھ ایک قلبی وابستگی بلاشبہ ایمان کا حصہ ہے۔ اس ایمان کا لطف وہی پا سکتا ہے جو تصورِ جہاد کا ایک بہرۂ وافر رکھتا ہو۔ میدانِ جہاد کا تصور اور تذکرہ بھی ایک مسلمان کی دِل کی ٹھنڈک کا باعث ہوتا ہے۔ ایک مردِ مجاہد کے لیے جہاد کی تکلیفوں اور دُشواریوں میں دنیا جہان کے عیش و آرام سے کہیں زیادہ سامان ِ راحت و طرب پنہاں ہوتا ہے۔ جہاد ہو اور قربانی نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے! جہاد ہو اور صعوبتیں نہ ہوں، یہ کس طرح ہو سکتا ہے! البتہ کتنے ہی ”دینداروں کے گروہ“ ہیں جو جہاد کی کٹھنائیوں اور صعوبتوں کا مزہ گھر بیٹھے بغیر کسی پریشانی کے ہی حاصل کر لینے کے قائل ہیں۔چنانچہ جہاد کے بالمقابل اور متوازی پورا ایک نظام اور سلسلہ ہے جو دین کے نام پر الگ سے قائم چلا آرہا ہے۔ بلکہ اُن کے ہاں دین یہی ہے!! یعنی خانقاہیں، درگاہیں اور آستانے وغیرہ۔ آپ یہاں ہیں تو چاہے کچھ بھی کرتے اور کہتے رہیں اور بھلے لاکھوں سے متجاوز ہو جائیں، دنیا کو آپ سے کوئی خطرہ ہے نہ پریشانی۔ بلکہ دنیا آپ کی اِسی ”دینداری“ کی دِل کھول کر داد دیتی ہے اور دین کے سارے نام لیواؤں کو آپ ہی کی صف میں دیکھنا چاہتی ہے۔ ”اپنے“ تو اپنے، آپ تو ”غیروں“ کے دل پر بھی راج کرتے ہیں۔دنیا کے امن اور سلامتی کے نام پر آخر اور بالآخر آپ ہی تو اُن کے کام آتے ہیں!انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ”مہذب“ دنیا آخر کب تک اپنے فوجی مرواتی رہے، اور کب تک اپنی معیشت یونہی داؤ پر لگائے رہے؟! آپ کا وجودِ نامسعود بھی تو کسی مرض کی دوا ہونا چاہیے! چنانچہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف آپ کے زود اثر اور دور رس فتاوٰی حاصل کرنے کے لیے صرف ”اپنے“ ہی دوڑ کر آپ تک نہیں آتے بلکہ پینٹاگون والے بھی آپ کی راہ تکتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہو، آپ کے معنوی جد اَمجد، ہندوستان کے ”اعلیٰ حضرت“ بھی تو ایسا ہی ”شرفِ قبولیت“ حاصل کر چکے ہیں، جب اُنہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کے حرام ہونے کا فتوٰی صادر فرمایا تھا۔ ایسی ہی ”عزت“ پھر میڈ اِن پاکستان ”شیخ الاسلام“ کو نصیب ہوئی جب ا نہوں نے اپنا چھ سو صفحے کا مبسوط فتوٰی اِسی باب میں جاری کیا، پھر اُسے لیے لیے پھرے (یَحمِلُ اَسفَارا)۔ چنانچہ اب کے جو ہمارے کچھ سجادہ نشینوں کو پینٹاگون ایسے اہم ترین دفاعی مرکز میں بسلسلۂ ”ٹریننگ“ شرفِ باریابی نصیب ہوا ہے، یہ عین اسی نامبارک سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ ”رُتبۂ بلند“ جس رُوسیاہ کو ملا، مل گیا! کتنے ”قیمتی“ ہوں گے یہ فتاوٰی جن کی ضرورت مسلمانوں کی بجائے کفار کو ہوتی ہے! اور کیسا قابل ِ رشک ہو گا وہ دشمن، کہ جب وہ جہاد کے خلاف ٹریننگ کا اہتمام کرے تو اُن کے ایک اشارے پر ہمارے خانقاہی دین کے رکھوالے دوڑے چلے جائیں۔ پاسباں مِل گئے ”کعبے سے صنم خانے کو“
|
|
|
|
|
|