السلام علیکم
معزز قارئین!
بیشتر لوگوں کے یہ زخم اِس موسم میں ضرور تازہ ہو جاتے ہوں گے....
ہر سال، انہی دنوں اور انہی مہینوں میں گھر کے بچوں یا نوجوانوں کو داخلہ دلوانے، تعلیمی اداروں کی بابت ان کیلئے کوئی ’مناسب ترین‘ فیصلہ کرنے اور ان کے ’کیرئیر‘ سے متعلق بحثوں، تبصروں، شکووں اور شکایتوں اور پھر ہوتے ہوتے سردآہوں تک پہنچ جانے والے احساسات سے یقینا آپ کو واسطہ پڑتا ہو گا۔ یہاں، ہم ’مہنگی فیسوں‘ اور ’داخلے کی مشکلات‘ کی بات نہیں کر رہے، بلکہ اُس صورتحال کی بات کر رہے ہیں جس کی ’قیمت‘ ادا کرنا ہمیشہ ہی یہاں بسنے والے ایک مسلمان کے بس سے باہر رہا ہے، مگر اب تو پانی سر سے گزر گیا ہے۔
شاید یہ لفظ بھی، یعنی ’پانی سر سے گزر گیا ہے‘ آج سے بہت پہلے کسی وقت کیلئے ہو، اور اغلب یہی ہے کہ مسئلہ کی سنگینی بیان کرنے کیلئے جوبھی تعبیر استعمال کی جائے وہ آج سے بہت پہلے کسی وقت کیلئے ہو! مختصر یہ کہ ایک نہایت پریشان کن مسئلہ، جس کا نام ”تعلیم“ ہے، آج یہاں بسنے والے ہر موحد مسلمان کا چین ختم کئے ہوئے ہے۔
بے شک یہاں بے شمار مسائل ایسے ہیں جو ایک مسلمان کے پریشان ہونے کے ہیں۔ مگر غور کرنے پر آپ اِسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اِن میں سے بیشتر مسائل ایک ہی بڑے مسئلے کی جانب لوٹتے ہیں اور وہ یہی ہے کہ یہاں پر ایک مسلمان نسل کو پیدا کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نئی نسل کے ساتھ پہلے سے پائے جانے مسائل اپنے گھناؤنے پن کے ساتھ اور بھی نمایاں ہو جانے لگتے ہیں اور کچھ نئے مسائل کو جنم دے کر مشکلات اور مصائب کا یہ انبار اگلی نسل کو منتقل کر جاتے ہیں۔
ہمارے یہ جگرگوشے اب کئی نسلوں کا بوجھ اٹھانے کیلئے جوان ہو رہے ہیں!
کفر کی تیز سے تیز ترہوتی چلی جانے والی پیش قدمی اب ہر حد کو پار کر گئی ہے۔ دوسری جانب، لگتا ہے ہم کفر کی اِس یلغار کے خلاف نظریاتی مزاحمت کرنا تک بھول گئے ہیں۔ اِس کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنا اور اِس کا کوئی ایسا دیرپا حل تلاش کرنا جو نہ صرف کفر کی اِس عالمی نظریاتی یلغار کا منہ توڑ کر رکھ دے، بلکہ اِس کے مدمقابل پوری قوم کو بھی صف آراءکر لینے کی امکانی صلاحیت رکھے، آج یہاں کے اُن سب طبقوں کا فرض ہے جو امت کو راہنمائی دینے کی خواہش یا دعویٰ رکھتے ہیں۔
قارئین! اِس بار کا شمارہ خاص اِس مسئلہ کی کچھ جہتیں بیان کرنے کیلئے ہی تحریر ہوا ہے۔