عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Monday, November 25,2024 | 1446, جُمادى الأولى 22
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2010-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
راستے جو”عقیدہ“ سے پھوٹیں اور ”معاشروں“ سے گزریں!
:عنوان

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف

 
اداریہ

 "معاشرہ" اسلامی تحریکوں کا منتظر

حامد کمال الدین

   
پچھلا حصہ
 اگلا حصہ

راستے جو”عقیدہ“ سے پھوٹیں

اور ”معاشروں“ سے گزریں!

 
 بڑی دیر سے ہماری تحریکی دنیا میں شکووں اور شکایتوں کا ایک شور بلند ہونے لگا ہے۔ سرگردانی بڑھ رہی ہے کہ اسلامی تحریکیں اپنی پیش قدمی کیلئے سب ممکنہ طریقے اور راستے آزما چکیں، مگر ”راستے“ ہیں کہ کھل کر نہیں دے رہے۔
1
راستے جو”عقیدہ“ سے پھوٹیں اور ”معاشروں“ سے گزریں!
2
دکھ کی ”دوا“ کرے کوئی!
3
کچھ اصولی باتیں: ”حالیہ مرحلہ“ میں تحریکوں کے سماجی کردار کے حوالے سے
ا
”انقلاب“ یا ”خلافت“ آنے تک ہر چیز مؤخر کر رکھنا کوئی صائب منہج نہیں
ب
مکی مرحلہ پر قیاس!
ج
”مکمل اقتدار“ کے بغیرامت کو لے کر کیسے چلا جا سکتا ہے؟!
د
ایک ڈائنامک طریقِ عمل
ح
ہمارے اِس مجوزہ منہج اور ”جزوی تبدیلی“ کے منہج میں کیا فرق ہے؟
و
ایک اشکال
4

تعلیم کے شعبہ میں اسلام کے اِحیائی عمل کو درپیش چیلنج
ا
”علم“ ہی سے اِس امت کی ساخت ہوئی اور ہوگی
ب
”علم“ و ”تعلیم“ کی سَلَفی تأصیل
ج
اسلام میں ایسی نسلوں کا پروان چڑھنا جو جاہلیت سے آگاہ نہیں !
د
ہمارا مطلوبہ تعلیمی عمل جاہلیت کا فریم توڑنے کیلئے، نہ کہ اُسکے اندر فٹ ہونے کیلئے!!!
ح
مستشرقین کی بد روح برابر بولتی ہے!
و
”اسلامی نظر“ کا فقدان: وہ اصل چیلنج، جس پر ہمارے نوجوان کی ڈھیروں محنت ہو گی
ز
میدان سامنے ہے!
ح
مذکورہ بالا توضیحات کی روشنی میں
یہاں تک کہ باقاعدہ سوال اٹھنے لگے ہیں کہ اِن بند راستوں کو کھولنے کیلئے اب کونسی تدبیر رہ گئی ہے جسے اختیار کیا جائے؟
اِس مایوس کن صورتحال سے وحشت کھانے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ.... ”متبادل“ کا سوال جو کسی وقت یہاں پر محض ”آزمائشی“ بنیاد پر اٹھایا جاتا تھا اب بڑی حد تک ”بے بسی“ کے ساتھ سامنے لایا جانے لگا ہے۔
”آخر کریں کیا؟“، یہ سوال نہیں اب ایک دُہائی کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
کچھ شک نہیں کہ اسلامی تحریکوں کا راستہ ”معاشروں“ کے بیچ سے گزرتا ہے، نہ کہ براہِ راست ”ایوانوں“ تک پہنچتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے، اسلامی تحریکوں کا راستہ ”ایوانوں“ تک جائے نہ جائے، ”معاشروں“ کے بیچ سے بہرحال گزرتا ہے۔ اسلامی تحریکوں میں فرسٹریشن کا آ جانا بھی کچھ ایسا تشویش ناک نہیں؛ ایسی نوبت آجانے پر آپ کی بہت سی سوئی ہوئی صلاحیتیں یکا یک بیدار ہو جاتی ہیں تو وہ ایک نئے سرے سے زور مارتی ہیں، جس کے نتیجے میں بند راستے کسی وقت کھل بھی جاتے ہیں۔ شرط یہی ہے کہ آپ کی سمت درست ہو۔ تشویش ناک بات ہو سکتی ہے تو وہ یہ کہ ہماری یہ ”فرسٹریشن“ اُن راستوں کو دشوار پانے کے حوالے سے ہو جو ”ایوانوں“ تک پہنچتے ہیں، نہ کہ اُن راستوں کے سنسان چھوڑے جانے کے حوالے سے جو ”معاشروں“ کے بیچ سے گزرتے ہیں! ہاں یہ بات البتہ تشویش ناک ہی نہیں، لمحۂ فکریہ ہے۔
جہاں تک اُن راستوں کا تعلق ہے جو ”معاشروں“ کے بیچ سے گزرتے ہیں، تو یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہو گی کہ ان راستوں کے حوالے سے کم از کم کوئی ”تشویش“ تو پائی جائے! ڈر ہے تو البتہ یہی کہ یہ ”تشویش“ اب بھی اپنے محل پر نہیں۔ خدشہ یہی ہے کہ یہ ”پریشانی“ اب بھی اِس بات سے متعلق نہیں کہ اسلامی تحریکیں کیوں یہاں کوئی ”معاشرتی کردار“ رکھنے سے عاجز ہیں؟ ”حسرت و یاس“ شاید اب بھی اِس بات سے متعلق ہے کہ اسلامی تحریکوں کے پاس بہت زیادہ ”سیاسی آپشنز“ کیوں باقی نہیں؟ ہاں اگر ایسا ہے تو یہ تشویش ناک ہی نہیں، آشوب ناک صورتحال ہے!
ہم یہ سمجھتے ہیں: ”معاشروں“ کے بیچ سے گزرنے والے راستے اسلامی تحریکوں پر کبھی بند ہی نہ تھے جو اِن کے مسدود ہونے کے واویلے ہونے لگیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ”معاشروں“ کے بیچ سے گزرنے والے راستے بڑی دیر ہوئی کبھی چلے ہی نہ گئے تھے جو اَب ہم تھک کر بیٹھنے کی بات کریں۔ اِس صاف گوئی پر ہم معذرت خواہ ہیں، یہ سارا عرصہ شاید ہم کہیں اِدھر اُدھر پھرتے رہے تھے، ”راستے“ تو مسلسل سنسان اور ہمارے منتظر ہی رہے ہیں! لہٰذا ”تشویش“ اگر اِس حوالے سے پائی جاتی ہے، اور جو کہ ایک نہایت ”امید افزا تشویش“ ہوگی، تو وہ یہ نہ ہونی چاہیے کہ یہ راستے ہم پر بند کیوں ہیں، کیونکہ یہ راستے کبھی بھی ہم پر بند نہیں تھے، بلکہ تشویش یہ ہونی چاہیے کہ یہ راستے ہم نے چلے کیوں نہیں؟ ہاں یہ تشویش جتنی بڑھ جائے ہماری نظر میں اتنا ہی اچھا ہے۔
ایسا ہو جاتا ہے، تو شاید ”متبادل“ کی وہ چیستان بھی، جو کہ روز ہمارا راستہ روک کر کھڑی ہوتی ہے، آپ سے آپ ہماری جان چھوڑ جائے۔ جس سے ہمیں اپنی ”غایت“ کی بابت بھی یکسوئی حاصل ہو گی اور اپنے ”راستے“ کی بابت بھی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ
”معاشروں“ کی طرف اگر ہمارا رخ ہونے لگتا ہے، تو عمل کی وہ شاہراہیں جو ہماری توجہ سے محروم رہی تھیں، یقینا ہمیں اپنے سامنے کھلی نظر آئیں گی۔ عزائم کو منزل کی طرف رواں دواں ہونے کا وہ کھویا ہوا احساس اور اعتماد واپس ملے گا۔ ”راستے“ پر ہونے کا وثوق ہماری اِس اعصاب شکن یاسیت کو ایک صحت مند رجائیت میں بدلنے لگے گا اور یہ رکا ہوا قافلہ بفضلہ تعالیٰ ایک نئے سرے سے جادہ پیما ہوتا دیکھا جائے گا۔
جن کئی ایک ملکوں میں اسلامی تحریک نے اپنے آگے بڑھنے کیلئے کچھ راستہ صاف کیا ہے، آپ جانتے ہیں وہاں پر سب سے زیادہ محنت ”معاشروں“ کے بیچ سے گزرنے والے راستوں پر ہی کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کچھ نہ کچھ امید افزا صورت سامنے آنے بھی لگی ہے(1)۔ یقینا ہر ملک کے خاص معروضی حالات ہیں۔ ایک ملک کے حالات دوسرے ملک کے حالات پر ہر پہلو سے قابل قیاس یقینا نہیں ہوتے۔ پھر بھی ہمارے سب کے سب مسلم ملکوں اور ہماری سب کی سب اسلامی تحریکوں کے مابین بہت کچھ مشترک بھی ہے، جس سے استفادہ کرنا بہر حال ہمارا حق ہے۔
ہم سمجھتے ہیں، کام کے آزادنہ مواقع جس قدرہماری اِس سرزمین میں پائے جاتے ہیں شاید ہی کہیں پائے جاتے ہوں۔ دوسرے بہت سے مسلم خطوں میں ہونے والے کام کی نسبت ہم ایک کہیں جاندار منہج کے ساتھ یہاں کے میدانِ عمل میں اترسکتے ہیں اور اللہ کے فضل سے نہ صرف اسلامیانِ ہند، بلکہ امت کے ایک بڑے حصے کی کھوئی ہوئی امیدیں بحال کر سکتے ہیں۔
ہماری تحریروں میں یہ بات اکثر بیان ہوتی ہے کہ حالات ہماری اسلامی تحریکوں کیلئے کامیابی کے جو غیر معمولی امکانات اِس وقت لے کر آ رہے ہیں، شاید اِس سے پہلے کبھی نہ لے کر آئے ہوں۔ یوں سمجھئے، ایک میدان پوری طرح خالی ہے۔ ”مایوس کن“ حالات کے اِس وقتی رخ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، یہاں کچھ تیاری کر لینے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی سرزمین پر ذرا پیر جما لیں اور پھر آگے بڑھیں تو شاید میدان اور بھی خالی نکلے اور آپ کو بہت آگے تک راستہ ملتا چلا جائے۔ پھر عالمی حالات تیزی کے ساتھ جس بہت بڑے خلا کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہو سکتا ہے یہاں وہ ہا ہا کار مچے کہ آپ کو گزرے ہوئے وقت کی بابت صرف ایک بات کا افسوس ہو اور وہ یہ کہ ”فارغ دنوں“ میں آپ اِس چیلنج کے شایانِ شان تیاری نہ کر سکے تھے اور یہ کہ اِن مواقع سے خاطر خواہ مستفید ہونے کیلئے آپ اپنے ”رجال“ پیدا کر سکے تھے اور نہ ”معاشرے کی سرزمین“ تیار کر پائے تھے۔
”رجال کی پیدا وری“ اور ”معاشرے کی سرزمین کی تیاری“، جس سے معاشرے میں اللہ کے فضل سے خود ہی آپ کی پیش قدمی کیلئے راستے کھلتے چلے جائیں گے.. اِن ہر دو ہدف کے حصول کیلئے اسلامی تحریکوں کو جن خاص میدانوں کے اندر اترنا تھا، اور اترنا ہو گا، ہماری نظر میں وہ یہ چار میدان ہیں:
1) تعلیم کا میدان
2) ابلاغ کا میدان
3) سماجی خدمت کا میدان
4) اور چوتھا میدان، جو کہ بلحاظ اہمیت سب سے مقدم ہے، وہ ہے ”داعیوں“ اور ہر ہر سوشل فیلڈ کے اندر”اسلامی قیادتوں“ کی تیاری۔
جبکہ معاشرے میں اترنے اور ”تحریک“ کھڑی کرنے کیلئے جن دو میدانوں کو بطورِ خاص بنیاد بنایا جائے گا، وہ ہیں:
1) دعوت، جس میں ”مسجد“ کا کردار بطورِ خاص زندہ کیا جائے گا، اور
2) امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔
(یہ مؤخر الذکر یعنی ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“، اسلام کے اجتماعی فرائض میں سے ایک عظیم فریضہ تو ہے ہی، اپنی تحریکی جہتوں کے لحاظ سے بھی اِس قدر ڈائنامک چیز ہے کہ ہماری بیشتر تحریکوں کو شاید اِس کا اندازہ ہی نہیں۔ در اصل یہاں پائے جانے والے کچھ ”فوجداری“ لہجوں نے بھی اسلام کے اِس شعار کا بے حد نقصان کیا ہے۔ بہرحال اسلامی تحریکوں کے حق میں یہ ایک ”توانائی کا خزانہ“ ثابت ہو سکتاہے)۔
جبکہ اِس پورے عمل کی جو بنیاد ہو گی، اور سب سے نمایاں کر کے رکھی جائے گی، بلکہ جس کے بغیر آپ کے یہ سب کے سب پراجیکٹ آپ کی تحریک کو کھڑا کرنے اور معاشرے کے اندر جاہلیت کے پیر اکھاڑنے کی بجائے، الٹا یہاں جاہلیت کا پانی بھروانے کے کام آئیں گے، وہ بنیاد ہے:
”کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ“۔ جوکہ درحقیقت لا الٰہ الا اللہ کی تفسیر ہے۔
اِس پورے عمل میں یہ بنیاد نہیں بولتی تو پھر باقی سب کہانیاں ہیں۔
یہ بنیاد جس چیز سے عبارت ہے اور جس میں اِس عمل کا سارا زور پوشیدہ ہے، وہ ہے ”جاہلیت“ کے ساتھ اپنا ایک اصیل فرق سامنے لانا اور معاشرے کے اند اُسی کو گہرا سے گہرا کرتے چلے جانا(2)۔ آپ کی اِس پوری جدوجہد سے یہ اصل کہانی روپوش ہوئی یا ذرا دیر کیلئے اگر مدھم ہی ہوئی، تو آپ کا یہ تمام تر معاشرتی کردار جاہلیت کے مردہ جسم میں ایک روح ڈالنے کے کام آئے گا البتہ آپ کے اپنے حق میں نری ایک مشقت رہ جائے گا۔ یعنی جہاں تک آپ کے اپنے مقاصد پورے ہونے کا تعلق ہے، آپ کی یہ ساری محنت اور یہ ”سماجی“ جدوجہد سراسر ضائع واکارت چلی جائے گی۔
پس اِس دعوتی و تحریکی و سماجی عمل کا یہ عنوان(کفر بالطاغوت و ایمان باللہ) وہ اصل چیز ہے جس پر بے حد محنت ہو گی اور وہ کنجی ہے جو اللہ کے فضل سے یہاں سب بند راستے کھولنے کے کام آئے گی۔
اِسلام کی یہ جو اساس ہے، یعنی ”شرک سے بیزاری اور توحید کا اِعلاء“ (اپنے ایک وسیع معنیٰ میں).. اِس کا یہ رنگ اِس پورے عمل میں پھیکا پڑا تو سب کچھ بے جان ہو جائے گا، خواہ کچھ دیر کیلئے ہمیں اپنے سامنے راستے کتنے ہی کھلے کیوں نہ نظر آئیں۔
٭٭٭٭٭
وقت کی اسلامی تحریکوں کو پس یہاں جو ”قوت“ درکار ہے، اُس کو فراہم کرنے کے یہ دو ہی بڑے محور ہیں:
1) جاہلیت کا نظریاتی ابطال.. عملاً جاہلیت سے اپنا فرق زیادہ سے زیادہ نمایاں کرتے چلے جانا.. جاہلیت کے ساتھ ”درمیانی راہیں“ چلنے کا امکان ختم کروادینا.. اور یہ آشکار کرتے چلے جانا کہ در حقیقت یہ دو ”عقیدوں“ اور دو ”ملتوں“ کی کشمکش ہے جو کہ یہاں ایک بنیادی ترین تبدیلی کو رو نما کرا لینے پر ہی کہیں سرے لگ سکتی ہے، نہ کہ ”حزبِ اقتدار“ و ”حزبِ مخالف“ ایسی کوئی واجبی کسرت جو ”سسٹم“ کی صحت اچھی رکھنے کیلئے انجام دی جائے۔ جاہلیت کے خلاف اپنے زوردار ترین دعوتی و تحریکی لہجوں کو مسلسل ایک کلائمکس کی طرف بڑھاتے چلے جانا اور اپنی تمام تر نظریاتی و سماجی سرگرمیوں کے ذریعے امت کے اندر جاہلیت کے خلاف ایک شدید ترین مزاحمت پیدا کروانا، اور باطل کو مسترد کرتے ہوئے بلکہ بلڈوز کرتے ہوئے.. ”اسلام“ پر جینے اور ”اسلام“ پر مرنے کے اجتماعی منہج پر معاشرے کو یک آواز کروانا۔
2) اِس نظریاتی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ، معاشرے کے اندر بھی جڑیں گاڑ کر چلنا اور ”باطل“ کے خلاف محض نظریاتی بحثوں (خطبوں، تحریروں، جلسوں، ’ڈرائنگ روم ملاقاتوں‘، ’چینل مناظروں‘ یا گلی گلی پھرنے ایسی کچھ ”مجرد“ قسم کی سرگرمیوں) تک محدود نہ رہنا۔ جس کا طریقہ یہی ہے کہ اسلامی قیادتیں معاشرے میں گہرا اترنے کے وہ سب سوتے ہاتھ میں کریں، جس سے یہ معاشرے کے ایک مؤثر طبقے کے اندر بولنے لگیں اور ان سب فیلڈز میں (جن کی چند مثالیں اوپر گزر چکیں) معاشرے کو دینے کیلئے مؤثر ترین قیادتیں سامنے لائیں.... تاآنکہ اِن کے اسلامی ایجنڈا کی مزاحمت معاشرے کے اندر کسی کیلئے ممکن نہ رہے اور ان کے دیے ہوئے رجحانات معاشرے پر چھا جانے کی صلاحیت سے آشنا ہوں۔ یوں اسلام کی پیش قدمی سڑکوں پر الاپے جانے والے کچھ سطحی ”نعروں“ کی صورت میں نہیں بلکہ معاشرے کی ”رگوں“ کے اندر ہونے لگے۔
٭٭٭٭٭
یہ سب امور جو اوپر نمبر وار ذکر ہوئے، ان کی وضاحت ظاہر ہے ہم اِس ایک مضمون میں نہیں کر سکیں گے۔ اِس بار کے اداریہ میں ہم ”تعلیم“ کی بابت ہی ذرا تفصیل میں جا کر گفتگو کریں گے۔ (آئندہ کسی وقت ہم ”ابلاغ“، ”سماجی خدمت“، ”داعیوں کا نیٹ ورک پھیلانے کے پراجیکٹ“، ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ اور اِس سلسلہ کے کچھ دیگر موضوعات پر قلم اٹھائیں گے، جس پر ہمارا یہ سلسلۂ مضامین ”معاشرہ اسلامی تحریکوں کا منتظر ہے“ اختتام کو پہنچے گا اور ایک مستقل تصنیف کی صورت میں دستیاب ہو گا۔ اِن شاءاللہ)۔
اسلامی ایجنڈا کو ”تعلیم“ کے چینل کی راہ سے معاشرے میں کیونکر گہرا لے جایا جا سکتا ہے؟ یہ اِس مضمون کا مرکزی نقطہ ہے، تاہم اِس کا بڑا حصہ تحریکی عمل کی ”سماجی جہتوں“ سے ہی بحث کرتا ہے۔ زیادہ تر، وہ عمومی منہج ہی یہاں ہمارے زیر بحث آئے گا جو معاشرے میں اسلامی تحریک کی راہ تکنے والے سب کے سب شعبوں کی ضرورت ہے۔ پس اِس بحث کے بیشتر نکات یہاں پرمطلوب ”سماجی عمل“ کے باقی میدانوں پر بھی اتنا ہی صادق آئیں گے جتنا کہ ”تعلیم“ پر۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو اِس مضمون کا دائرہ ”تعلیم“ سے وسیع تر ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
آسانی مبحث کی خاطر، اور طوالت کا اثر کم کرنے کیلئے، اِس بار کا اداریہ ”فصول“ میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور ہر فصل کو الگ عنوان د ے دیا گیا ہے۔
پچھلا حصہ
 اگلا حصہ

 
(1) یہ راستے جو ”معاشروں“ سے تو گزرے ہوں گے مگر ہو سکتا ہے ”عقیدہ“ سے نہ پھوٹے ہوں، لازمی نہیں ہر پہلو سے ہمارے لئے قابل تقلید ہوں۔ شرعی پہلؤں سے یہ جس قدر قابل اصلاح ہیں اس کیلئے ہم اپنے علمائے عقیدہ سے رجوع کر سکتے ہیں۔ یہاں ہمارے پیش نظر ان تحریکی تجربات کے سماجی پہلو ہیں۔
(2) اِس موضوع کو کھولنے کیلئے ہم کئی ایک تحریریں سامنے لا چکے ہیں۔ زیادہ نہیں، تو ہمارے چند گزشتہ اداریوں کی ایک سیریز دیکھ لی جانا اِس موضوع کی بعض جہتوں کو واضح کر سکتا ہے:
1) اسلامی قیادتیں اب یا کبھی نہیں (اداریہ اکتوبر تا دسمبر 2008ء)
2) پس چہ باید کرد (اداریہ اپریل تا جون 2009ء)
3) تیز حرکت، بند راستہ (اداریہ جولائی تا ستمبر 2009ء)
4) ”دعوت“ کو نئے لہجوں کی ضرورت (اداریہ جنوری تا مارچ 2010ء)
5) ’نظام‘ نہیں ”عقیدہ“ ہی تبدیل ہونے والا ہے“ (اداریہ اپریل تا جون 2010ء)
 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز