انوکھا لاڈلا ،کھیلن کو مانگے چاند!
ابو زید
یہ حملہ نہیں، ایک اعلان تھا۔۔
یہ اعلان کیا تھا؟
یہی کہ صہیونیت کسی بھی معیار کو نہیں مانتی۔
صہیونیت ہر ایسے معیار کو رد کرتی ہے جس کی زد اس پر پڑتی ہے۔
انسانی ہمدردی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
انسانی حقوق ہوں یا بنیادی حقوق ہو، چاہے اس کے جو بھی معنی ہوں صہیونیت اس کو قطعی طور پر رد کرتی ہے۔
بھلے ساری دنیا کے باضمیر انسان ایک طرف ہوں، بھلے مغرب کے اپنے بنائے ہوئے خود ساختہ قانون پیروں تلے روندے جائیں۔ مملکت اسرائیل کے لئے آزادی ہے جو چاہے کرے۔سات کیا سات ہزار خون معاف اور ہر بار معاف۔
کیا یہ کوئی نیا اعلان تھا؟
یہ اعلان تو آدھی صدی سے بار بار کیا جارہا ہے۔لیکن جن کو سننا چاہئے وہ سن کر نہیں دے رہے ہیں؟
اسلئے ان کو یہ اعلان بار بار کرنا پڑ رہا ہے، ہر بار پہلے سے بھی اونچی آواز میں۔
یہ اعلان کس کی طرف سے تھا؟
اسرائیل؟ یا امریکہ کی طرف سے؟
بلکہ کوئی اور بھی ہے جس کی طرف یہ اعلان منسوب کیا جاسکتا ہے؟
کیا انجمن اقوام متحدہ کو اس سے کوئی شکایت ہے؟ کیا اقوام متحدہ نے اس حملے کی مذمت کی؟
کیا اس میں کوئی شک ہے کہ یہ در اصل اقوام متحدہ کا بھی مؤقف ہے؟
کیا اس میں کوئی شک ہے کہ یہ وہی اقوام متحدہ ہے جس نے بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام کو بڑے صبر سے برداشت کیا؟
کیا یہ وہی اقوام متحدہ نہیں جس کی اپنی پناہ گاہ میں1995میں بہ یک وقت سات سے آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور اس سے کچھ بھی نہ بن پڑا!
مسلمانو! یہ وہی اقوام متحدہ ہے، بالکل وہی ہے، وہی انداز ہے اور وہی کرتوت ہیں۔
٭٭٭٭٭
ایک ایٹمی طاقت جس کو اکثر بڑی طاقتوں کی اندھی حمایت حاصل ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کی مجبوری ہے۔ یہ اس کی بقا کی جنگ ہے۔
ہاں یہ واقعی اس کی بقا کی جنگ ہے۔
بھوکوں کو کھانا کھلاؤ تو اسرائیل خطرے میں ہے۔
ننگوں کو کپڑے پہناؤ تو اسرائیل خطرے میں ہے۔
مجبوروں اور بے کسوں کی مدد کرو تو اسرائیل خطرے میں ہے۔
مریضوں اور بیماروں کو دوائی پہونچاؤ تواسرائیل خطرے میں ہے۔
یہ کو نسا ملک ہے جو ہر بھلے کام سے خطرہ محسوس کرتا ہے؟
یہ کونسا ملک ہے جس نے پندرہ لاکھ کی غزہ کی آبادی کو ایک کھلا جیل بنادیا ہے جہاں ضروریات زندگی کی ہر چیز پہونچنے پر روک ہے؟
یہ کونسا ملک ہے جس نے دنیا کے بد ترین جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی مظلومیت کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے؟
٭٭٭٭٭
اسرائیل کیا ہے، اور کیسے اور کیونکر قائم ہوا۔ اب تک اس کی تاریخ کس قسم کی ظالمانہ کاروائیوں سے بھری پڑی ہے۔اور اب جو غزہ میں امدادی سامان لے جانے والے جہاز کے ساتھ کیا سلوک کیاگیا، کس طر ح سے بین الاقوامی قوانین(جھوٹے ہی سہی) کی دھجیاں اڑائی گئی، کس طرح سے انسانی فطرت میں ودیعت رحم کے جذبے کا مذاق اُڑا کر اپنی مسخ شدہ فطرت کا مظاہرہ کیا گیا، کس طرح سے نہتے پرامن افراد پر جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے، مختلف نظریات کے داعی، مختلف ممالک کے باسی، مختلف پیشے سے وابستہ افراد موجود تھے ان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر باقاعدہ کمانڈو کارروائی کی گئی۔مفکرین، ڈپلومیٹ ، حقوق انسانی کی تنظیموں کے اراکین اور صحافی ان سب کو ہتھیار بند دہشت قرار دے کر بین الاقوامی سمندر پرامدادی جہاز پر دھاوا بولا گیا۔یہ کوئی گھڑی بھر میں سنانے کی داستان نہیں ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے جانبدار ہونے کے باوجوداس داستان کو اتنے انداز میں ظاہر کیا جاچکا ہے کہ ان صفحات میں سر دست مزید کچھ اضافہ کی گنجائش نہیں ہے۔
البتہ اس میڈیا کا اپنا انداز ہے اور یہ موجودہ عالمی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے بلکہ اس نظام کاہی ایک کل پرزہ ۔ کسی مجبوری کے تحت اگر کچھ حقائق کا اظہار کر بھی دیا جاتا ہے تو انہی حقائق کو کچھ دوسری اہم حقائق کو نگاہوں سے محو کرنے کے استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر ان معاملات میںیہ جھٹکے کو جذب (Shock absorber) کرنے کا کام بھی کرتی ہے
موجودہ دور مغرب کی سیادت کا دور ہے اور یہ کچھ مغربی نظریات پرمبنی ہے۔لیکن مملکت اسرائیل کی حیثیت اس نئے عالمی نظام میں بالکل منفرد ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مملکت اسرائیل اس عالمی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔اگر اس نظام کی معیشت سرمایہ داری ہے، معاشرت مغرب کے مخصوص تہذیبی اقدار ہیں، سیاست اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ اور اس کے زیر تحت چلنے والی جمہوریت ہے تو عالمی توازن کے خانے کو پر کرنے کے لئے اس کے پاس جو چیز ہے وہ صہیونیت ہے۔
مغرب کے اس عالمی نظام میں مذہبی ریاست ایک انتہائی ناپسندیدہ اور ہر حال میں قابل مذمت شئے ہے۔ نسل پرستی کا الزام ایک بد ترین گالی ہے۔ مغربی معاشرے کی جڑوں میں نسل پرستی مضبوط ہونے کے باوجود کوئی بھی اپنے اوپر نسل پرستی کا الزام لینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ صہیونی ریاست جو مذہب پرستی اور نسل پرستی کا ایک واضح ترین مجموعہ ہے اس کے لئے ہر قسم کا استثناءبھی ہے۔ یعنی عالمی قوانین، مغربی اقدار، نئے عالمی نظام کے مسلم عقائد ایک طرف اور یہ صیہونی ریاست دوسری طرف۔
یہ صیہونیت کیا ہے؟ ایک یہودی کے نزدیک اس کے کچھ معنی ہیں، ایک نیوکون عیسائی کے نزدیک اس کے کچھ اور معنی ہیں، ایک سیکیولر سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل شدہ شخصیت کے نزدیک یہ کچھ اور ہے اور ایک مؤرخ اس نظریے کو کسی اور زاویے سے دیکھتا ہے۔ لیکن ان سب میں ایک مشترک چیز بالکل شفاف اور واضح ہے۔ وہ یہ کہ ہر صورت میں اسرائیل کی مکمل، غیر مشروط اور اندھی حمایت کی جائے اور یہ حمایت اسرائیل کا ایسا حق جوکسی بھی صورت میں ساقط نہیں ہوسکتا۔
حماس پر الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ یہ ایک مذہبی شدت پسند جماعت ہے اور اسرائیل کے بے گناہ عوام پر راکٹ سے حملے کرتی ہے۔ مغرب کے اپنے تناظر میںیہ الزام کا فی وزن رکھتا اگر پی ایل او کا تجربہ نہ کیا گیا ہوتا۔ یہ یاسر عرفات جس کی جماعت میں مسیحیوں بلکہ مذہبی مسیحیوں کی کثرت رہی جو کہ اپنے سیکیولرزم کو ثابت کرنے کے لئے بڑھاپے میں ایک مسیحی عورت سے شادی بھی رچا چکے ہیں، ان کے ساتھ امریکہ اور اسرئیل نے کیا حشر کیا؟ یاسر عرفات خیر سے اپنے مسیحی ہم نشینوں کے ساتھ بڑے زور و شور سے کرسمس بھی مناتے تھے، اسلامی نظام کے داعی ہونے کے الزام سے بھی بری رہے اور ان سب "خوبیوں" کی وجہ سے ایک بین الاقوامی لیڈر کی حیثیت ان کی پہچان بھی مسلم تھی۔ لیکن ان کے ساتھ کیا کیا گیا؟ امن کی ہر نام نہاد کوشش کو ناکام بنادیا گیا۔ ابھی زیادہ دن نہیں گذرے کہ اس بوڑھے شخص کو کس طرح بمباری کر کرکے ہراساں کیا گیا اور کیسی کسمپرسی کی حالت میں اس کی موت ہوئی۔ یاسر عرفات کی موت سے بہت پہلے ہی فلسطینی عوام نے سیکیولر قوتوں کا نا اہل اور غیر مؤثر ہونا جان لیا تھا جس کی وجہ سے ہی دینی قوتیں میدان میں آئیں۔ مگر اب ان سیکیولرزم کے علمبرداروں کو حماس کی دینداری سے شکایت ہے۔ ان سب باتوں کا لب لباب اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ بے بس فلسطینی عوام کی شنوائی نہیں ہوگی، چاہے وہ سیکولر ہوں یا دیندار۔
ان سب واقعات کے تناظر میں کچھ باتیں بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ بلکہ یہ باتیں اہل نظر کے نزدیک کبھی پوشیدہ رہی ہی نہیں۔ موجودہ واقعات سے ان کی سمجھ کی توثیق ہی ہوئی ہے۔
۔۔مملکت اسرائیل اور موجودہ عالمی سیٹ اپ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر اپنے اصل کی اعتبار سے یہ ایک دوسرے کے لئے اتنے قریب نہ بھی ہوں تو اس نظام نے اسرائیل کی اتنی حمایت کی ہے کہ اس کے کسی بھی اقدام کی مخالفت اسکی اپنی مخالفت کے مترادف ہو گی۔
۔۔امریکہ کی طرف سے مملکت اسرائیل کو مکمل چھوٹ حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس چھوٹ کے دینے میں سیکولر طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں اور بنیاد پرست عیسائیوں اور یہودیوں کے اپنے نظریات۔ سیکیولر اور مذہبی طاقتوں میں بعد المشرقین ہونے کے باوجود اسرائیل کو اندھی بہری حمایت کرنے میں ان میں حد درجہ اتفاق پایا جاتا ہے۔
۔۔ امریکہ کے اپنے مفادات بھلے جو کچھ بھی ہوں اسرائیل کی حمایت کے معاملے میں امریکہ کی اپنی عالمی ساکھ اور مفادات قطعاً کوئی معنی نہیں رکھتے۔
۔۔ موجودہ عالمی سیٹ اپ میں اسرائیل کو جو مقام دیا گیا ہے یہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہی دیا گیا ہے۔ کچھ مجبوریوں کے تحت اسرائیل کے خلاف تجاویز بھلے پاس ہوجائے، اس عالمی سیٹ اپ میں اقوام متحدہ کے تحت اسرائیل کے خلاف کوئی تادیبی کارووائی ممکن نظر نہیں آتی۔
۔۔اتنے شدید عالمی رد عمل کے باوجود امریکہ سے یہی متوقع تھا کہ وہ اسرائیل کو یکہ و تنہا ہونے سے بچانے کے لئے اس کی مذمت کرنے سے گریز کرے گا۔ لیکن اقوام متحدہ نے جس طرح کسی مذمت سے گریز کیا اور ہونے والی موتوں پر اظہار افسوس پر اکتفا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے بعد بھی اقوام متحدہ سے کوئی توقع رکھنا قطعاً حماقت ہی ہوگی۔
۔۔"اسلامی ممالک" نے جس طرح کا رد عمل دکھایا ہے اس کے بعد ان سے عالمی سیاسی نظام میں کوئی مثبت کردار کی توقع رکھنا عبث ہے۔
۔۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ مغرب اپنی تمام خرابیوں کے باوجود اپنے اندر ایسے کچھ منصف مزاج مفکرین رکھتا ہے جو یہودی ہوتے ہوئے بھی اسرائیل کی انسان دشمن پالیسی کی مخالفت کا علم بلند کئے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی تمام کوششوں کے باوجود مغرب اپنے مجموعی طرز عمل میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا روادار نہیں ہے۔
۔۔ امدادی بحری بیڑے ”فریڈم فلوٹیلا“ پر حملہ کرنا اس بات کا بھی واضح ثبوت ہے کہ، اسرائیل اپنی بنیادوں کو کتنا کمزور(Vulnerable)پاتا ہے۔ اسے یہ خوف کھائے جارہا ہے کہ وہ اگر ذراسا بھی دب کررہے گا تو پھراسے ابھرنے کے لئے موقعہ ہی نہیں ملے گا۔
۔۔ ان سب حالات میں ترکی نے جو رول ادا کیا ہے، بے اختیار ترکان عثمانی کی یاد آجاتی ہے۔حالات نے جو رخ اختیار کیا ہے اس میں سلطنت عثمانی کی فتوحات اور عظمت رفتہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ ترکی کے پاس اپنے تاریخی ورثے کے طور پر جو کچھ بھی ہے اس کو وہ اسلام سے علیحدہ کرہی نہیں سکتا۔کئی دہایوں پر مبنی سخت ترین سیکیولر نظام اور اسرائیل کے ساتھ قریب ترین سفارتی اور تجارتی تعلقات کے باوجود ترکی اپنے آپ کو اسلام سے الگ نہیں کرسکا۔ پاکستان بلکہ ہر مسلم ملک کے سیکولرسٹوں کے لئے اس میں بہت بڑا سبق ہے۔ اس وقت جو مسلم اکثریتی ملک کھل کر میدان میں آئے گا اس کے لئے امت مسلمہ کی قیادت کی باگ ڈور ہاتھ میں لینا انتہائی آسان ہوگا۔امید یہی ہے کہ عالم عرب کے خوابیدہ حکمرانوں کو آہستہ آہستہ ہوش آجائے گا۔