تعلیمی ادارے۔۔۔۔ قتل گاہیں!
سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ
مذکورہ بیان دراصل وہ تقریر ہے جوسید
مودودی ؒنے ایک اسلامیہ کالج میں منعقد ہونے والے جلسہ تقسیم اسناد میں طلباء سے
خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ اختصار کے پیش نظر اس تقریر کے چیدہ چیدہ مقامات کا انتخاب
کیاگیا ہے۔
’مرض‘ سے نجات دلانے کی فکر مگر ’مریض‘ سے انتہاء درجے کی شفقت اور
محبت ایک ہمدرد طبیب کا خصوصی وصف ہوتاہے ، ہماری گزار ش ہے کہ مولانا مودودی کی تقریر
کو اسی تناظر میں پڑھا جائے۔
کتاب ’تعلیمات ‘میں مذکورہ تقریر پر
لکھے گئے تبصرہ کے ان الفاظ کو ذہن میں رکھنا مناسب ہے:
”یہاں اس بات کی داد نہ دینا ظلم ہوگا
کہ جس تلخ صاف گوئی سے مولانا موصوف نے اپنے خطبہ میں کام لیا ہے اسے وہاں نہایت
ٹھنڈے دل سے سنا گیا او ر بہتوں نے صداقت کا اعتراف بھی کیا۔ کالج کے پرنسپل ایک
ایسے صاحب تھے جو موجودہ زمانے(مراد ہے نصف صدی پیشتر کا زمانہ۔ محرر) کے’ ’ترقی
پسندوں“ کی صف اول میں ہیں، مولانا کے نقطہ نظر سے ان کو سخت اختلاف ہونا ہی
چاہیئے ، لیکن اپنی ”ترقی پسندی“ کے کھلے دشمن کو دعوت دینے والے وہ خود ہی تھے
اور اس کی تلخ گفتاری کو بھی سب سے زیادہ خندہ پیشانی کے ساتھ انہوں نے ہی سنا۔
اگر چہ ایسی ہی بلکہ اس سے زیادہ تلخ صداقتیں ان دارالعلوموں میں بھی جاکر کہنے کی
ضرورت محسوس ہوتی ہے، جہاں مسلمانوں کی نو خیز نسلوں کے ساتھ اس سے بد تر معاملہ
ہو رہا ہے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ سوٹوں میں لاکھوں عیب کے باوجود جتنے بڑے دل چھپے
ہوئے ہیں، جبوں میں اتنے بڑے دل بھی نہیں ہیں۔ جو کچھ ایک کالج میں کہہ ڈالا گیا،
اس کا بیسواں حصّہ بھی دارالعلوم میں اس سے زیادہ ادب کے ساتھ دست بستہ بھی عرض
کیا جاتا تو جان چھڑانی مشکل ہو جاتی“۔
تقریر کا متن
”آپ کے اس جلسہ تقسیم اسناد (قدیم
اصطلاح کے مطابق جلسہ دستار بندی)میں مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا جو موقع دیا
گیا ہے اس کے لئے میں حقیقتاً بہت شکر گزار ہوں۔ حقیقتاً کا لفظ میں خصوصیت کے
ساتھ اس لئے بول رہا ہوں کہ یہ شکر گزاری رسمی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور گہرے جذبہ
قدرشناسی پر مبنی ہے۔جس نظام کے تحت آپ کا یہ عالیشان ادارہ قائم ہے اور جس کے تحت
تعلیم پا کر آپ کے کامیاب طلباء سند فراغ حاصل کر رہے ہیں میں اس کا سخت دشمن ہوں
اور میری دشمنی کسی ایسے شخص سے چھپی ہوئی نہیں جو مجھے جانتا ہے۔۔۔۔۔۔دراصل میں
آپ کی اس مادر تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں بلکہ ایسی تمام مادران ِتعلیم
کو درس گاہ کے بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کئے
جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (Death
Certificates)ہیں
جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جا رہے ہیں جب کہ وہ اپنی حد تک اس بات کا
اطمینان کر چکا ہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگا رہنے نہیں دیا ہے۔ ۔۔۔۔میں
یہاں اس صداقت نامۂ موت کے حصول پر آپ کو مبارک باد دینے نہیں آیا ہوں بلکہ آپ کا
ہم قوم ہونے کی وجہ سے جو ہمدردی قدرتی طور پر میں آپ کے ساتھ رکھتا ہوں وہ مجھے
یہاں کھینچ لائی ہے۔ میری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے بھائی بندوں کا قتل ِعام
ہو چکنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر میں یہ ڈھونڈتا پھرتا ہو کہ کہاں کوئی سخت جان بسمل
ابھی سانس لے رہا ہے۔
اعتذار
حقیقی صورتحال کا جو مطالعہ میں نے
کیا ہے وہ مجھے بتاتا ہے کہ ان درسگاہوں میں آپ کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔۔۔۔
تعلیم کا مدعا بھی یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں جن نئے انسانوں نے جنم لیا ہے اور جو
جبلی صلاحیتیں (Potentialities)ابھی خام حالت میں ہیں ان کو بنا
سنوار کراور بہتر طریقے پر نشو و نما دے کراس قابل بنا دیا جائے کہ جس سوسائٹی نے
انہیں جنم دیا ہے وہ اس کے مفید اور کار آمد فرد بن سکیں اور اس کی زندگی کے لئے
بالیدگی اور فلاح و ترقی کا ذریعہ ہوں۔ مگر جو تعلیم افراد کو اپنی سوسائٹی اور اس
کی حقیقی زندگی سے اجنبی بنا دے، اس کے حق میں اس کے سوا آپ اور کیا فتویٰ دے سکتے
ہیں کہ وہ افراد کو بناتی نہیں بلکہ ضائع کرتی ہے؟ ہر قوم کے بچے دراصل اس کے
مستقبل کا محضر ہوتے ہیں، قدرت کی طرف سے یہ محضر ایک لوح سادہ کی شکل میں آتا ہے
اور قوم کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خود اس پر اپنے مستقبل کا فیصلہ لکھے۔ ہم
وہ دیوالیہ قوم ہیں جو اس محضر پر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود لکھنے کے بجائے اسے
دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ وہ اس پر جو چاہیں ثبت کر دیں خواہ وہ ہماری اپنی
موت ہی کا فتویٰ کیوں نہ ہو۔
۔۔۔۔۔ ایسا ہی حال
ان لوگوں کا بھی ہے جو ان درسگاہوں سے تیا ر ہو کر نکلتے ہیں۔ جس سوسائٹی نے انہیں
تیارکرایا ہے اس کے پاس جب یہ تیا ر ہو کر واپس پہنچتے ہیں تو وہ بھی محسوس کرتی
ہے اور یہ خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس کے تمدن اور اس کی زندگی کے لئے ٹھیک نہیں
بنے۔ جس طرح معدہ اس غذا کو قبول نہیں کرتا جو اس کے لئے مناسب نہ ہو، اسی طرح
سوسائٹی بھی طبعی طور پر ان افراد کواپنے اندر کھپا نہیں سکتی جو اس کے لئے مناسب
نہ ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو اپنے کسی کام کا نہ پا کر’نیلام‘کے لئے پیش کر
دیتی ہے اور یہ خود بھی اپنی زندگی کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں سمجھتے کہ کہیں بک
جائیں ۔ آپ غور تو کیجئے کس قدر خسارے میں ہے وہ قوم جو اپنی بہترین انسانی متاع
دوسروں کے ہاتھ بیچتی ہے؟ ہم وہ ہیں جو ’انسان‘ دے کر ’جوتی اور کپڑا اور روٹی‘
حاصل کرتے ہیں!قدرت نے جو انسانی طاقت
(Man Power) اور
دماغی طاقت
(Brain Power) ہم
کو خود ہمارے اپنےکام کے لئے دی تھی وہ دوسروں کے کام آتی ہے۔ ۔۔۔ اور لطف یہ ہے
کہ اس ’خسارے ‘ کی تجارت کو ہم بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔
میں حیران ہو کر یہ سوچنے لگتا ہوں کہ
اس نظام تعلیم کو کس نام سے یاد کروں، جو پندرہ بیس سال کی مسلسل دماغی تربیت کے بعد
بھی انسان کو اس قابل نہیں بناتا کہ وہ اپنی قابلیتوں کا کوئی مصرف اور اپنی
کوششوں کا کوئی مقصود متعین کر سکے۔ بلکہ زندگی کے لئے کسی نصب العین کی ضرورت ہی محسوس
کر سکے۔ یہ انسانیت کو بنانے والی تعلیم ہے یا اس کو قتل کرنے والی؟
میری اس تنقید کا یہ مدعا ہر گز نہیں
ہے کہ آپ کو ملامت کروں۔ ملامت تو قصوروارکو کی جاتی ہے اور آپ قصوروار نہیں بلکہ مظلوم
ہیں۔ اس لئے میں دراصل آپ کی ہمدردی میں یہ سب کچھ کہہ رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ
اب جو آپ زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھنے کے لئے جا رہے ہیں تو پوری طرح اپنا
جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ فی الواقع اس مرحلہ پر آپ کس پوزیشن میں ہیں، آپ ملت
اسلام کے افراد ہیں۔ یہ ملت کوئی نسلی قومیت نہیں ہے کہ جو اس میں پیدا ہوا ہو ،
وہ آپ سے آ پ مسلم ہو، یہ محض ایک تمدنی گروہ (Cultural Group) کا نام بھی نہیں ہے جس کے ساتھ محض
معاشرتی حیثیت سے وابستہ ہونا مسلم ہونے کے لئے کافی ہو۔ دراصل اسلام ایک مخصوص
نظام فکر (Ideology)کانام ہے، جس کی بنیاد پر تمدنی زندگی
اپنے تمام شعبوں اور پہلوؤں کے ساتھ تعمیر ہوتی ہے۔ اس ملت کی بقا بالکل اس بات پر
منحصر ہے کہ جو افراد اس میں شامل ہوں وہ اس کے نظام و فکر کو سمجھتے ہوں، اس کی
روح سے آشنا ہوں اور اپنی تمدنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس روح کی عملی تفسیر و تعبیر
پیش کرنے پر قادر ہوں۔ یہاں ہماری انفرادیت کی اساس نہ خاک ہے نہ خون، نہ رنگ ہے
نہ زبان نہ کوئی اور مادی چیز، بلکہ صرف اسلام ہے۔ ہمارے زندہ رہنے اور ترقی کرنے
کی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہماری ملت کے افراداور خصوصاً اہل دماغ طبقے، اسلامی
طرز فکر اور اسلامی طرز عمل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، اس لحاظ سے ان کی تعلیم
اور تربیت میں جتنی اور جیسی کمزوری ہوگی اس کا عکس ہماری ملت کی زندگی میںجوں کا
توں نمودار ہوگا، اور اگر وہ اس سے بالکل خالی ہوں تویہ دراصل ہماری موت کا نشان
ہوگا۔
یہ وہ حقیقت ہے جس سے یہاں کوئی بھی
انکار نہیں کر سکتا۔ مگر کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ موجودہ نظام ِ تعلیم میں ملّت ِ
اسلام کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لئے جو انتظام کیا جاتا ہے ۔وہ دراصل ان کو
اس ملّت کی پیشوائی کے لئے نہیں بلکہ اس کی غارت گری کے لئے تیا ر کرتا ہے؟ان
درسگاہوں میں آپ کو فلسفہ، سائنس،معاشیات، قانون، سیاسیات،تاریخ اور دوسرے وہ تمام
علوم پڑھائے جاتے ہیں جن کی مارکیٹ میں مانگ ہے، مگر آپ کو اسلام کے فلسفے، اسلام
کی تاریخ اور فلسفہ تاریخ کی ہوا تک نہیں لگنے پاتی۔ ان معلومات سے اس کے سوا کچھ
حاصل نہیں ہوتا کہ آپ ذہنی طور سے اسلام سے بعید ہو جاتے ہیں۔ آپ میں سے جو لوگ محض
آبائی مذہب ہونے کی وجہ سے اسلام کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے ہیں وہ دماغی طور پر
غیر مسلم ہوجانے کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنے دل کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ اسلام
حق تو ضرور ہوگا اگر چہ سمجھ میں نہیں آتااور جو لوگ اس عقیدت سے بھی خالی ہو چکے
ہیں وہ اسلام پر اعتراض کرنے اور اس کا مذاق اڑانے سے بھی نہیں چوکتے۔
اس قسم کی تعلیم کے ساتھ عملاً جو
تربیت آپ کو میسر آتی ہے جس ماحول میں آپ گھرے رہتے ہیں اور عملی زندگی کے جن
نمونوں سے آپ کو واسطہ پیش آتا ہے ان میں مشکل ہی سے کہیں اسلامی کیریکٹر اور
اسلامی طرز عمل کا نشان پایا جاتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ عملی حیثیت
سے اسلام کی واقفیت بہم پہنچائی گئی ہو۔نہ عملی حیثیت سے اسلامی تربیت دی گئی
ہو۔۔۔۔ اگر وہ فکر اور عمل دونوں حیثیتوں سے غیر اسلامی شان رکھتے ہیں تویہ ان کا
قصور نہیں بلکہ دراصل ان درسگاہوں کا قصور ہے جو موجودہ نظام تعلیم کے تحت قائم کی
گئی ہیں۔ درحقیقت یہ میرا وجدان ہے، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ان
درسگاہوں میں دراصل آپ کو ذبح کیا جاتا ہے اور اس ملت کی قبر کھودی جاتی ہے جس کے
نونہال آپ ہیں۔ دراصل آپ کو باضابطہ اور منظم طریقہ پر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ بلا
ارادہ آپ کی ہر حرکت اس ملت کے لئے فتنہ سامان ہو، حتیٰ کہ آپ اس کی خیر خواہی کے
لئے بھی کچھ کرنا چاہیں تو وہ اس کے حق میں مضر ثابت ہو، اس لئے کہ آپ اس کی فطرت
سے بے خبر اور اس کے ابتدائی اصولوں تک سے بیگانہ رکھے گئے ہیں اور آپ کی پوری
دماغی تربیت اس نقشہ پر کی گئی ہے جو ملت اسلام کے نقشہ کے بالکل برعکس ہے۔
اپنی اس پوزیشن کو اگر سمجھ لیں اور
اگر آپ کو پوری طرح احساس ہو جائے کہ فی الواقع کس قدر خطرناک حالت کو پہنچا کراب
آپ کو کارزار زندگی کی طرف جانے کے لئے چھوڑا جارہا ہے تو مجھے یقین ہے کہ آپ کچھ
نہ کچھ تلافی ما فات کی کوشش ضرور کریں گے۔ پوری تلافی تو شاید اب بہت ہی مشکل ہے
تاہم میں آپ کو تین باتوں کا مشورہ دوں گا جن سے آپ کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
1۔ جہاں تک ممکن ہو عربی زبان سیکھنے کی کوشش
کیجئے ، کیونکہ اسلام کا ماخذ اصلی یعنی قرآن اسی زبان میں ہے اور اس کو جب تک آپ
اس کی اپنی زبان میں نہ پڑھیں گے اسلام کا نظام فکر کبھی آپ کی سمجھ میں پوری طرح
نہ آ سکے گا۔
2۔ قرآن مجید ، سیرت رسولﷺ اور صحابہ کرامؓ کی
زندگی کامطالعہ اسلام کو سمجھنے کے لئے ناگزیر ہے، جہاں آ پ نے اپنی زندگی کے 12 ۔
15 سال دوسری چیزوں کے پڑھنے میں ضائع کئے ہیں وہاں اس سے آدھا بلکہ چوتھائی وقت
ہی اس چیز کے سمجھنے میں صرف کر دیجئے جس پر آ پ کی ملت کی اساس قائم ہے اور جس کو
جانے بغیر آپ اس ملت کے کسی کام نہیں آ سکتے۔
3۔ جو کچھ بھلی یا بری رائے آپ نے ناکافی اور
منتشر معلومات کی بنا پراسلام کے متعلق قائم کر رکھی ہے، اس سے اپنے ذہن کو خالی
کر کے اس کا باقاعدہ مطالعہ
(Systematic Study) کیجئے۔
۔۔ اب میں اس دعا کے ساتھ اپنا یہ خطبہ ختم کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کی مدد کرے
اور آپ کو اس خطرے سے بچائے جس میں آپ پھنسا دیئے گئے ہیں۔
)ماخوذ از ”تعلیمات “ ص 40 تا 50(