تقویٰ کا صلہ
ابن جوزیؒ--انتخاب: ریحان شفیع
ایک دن مجھے نفس کی ایک ایسی خواہش
پوری کرنے پر قدرت ہوئی جو اس کے لیے پیاسے کے حق میں شیریں پانی سے بڑھ کر تھی۔
تاویل نے کہا: یہاں ورع کے سوا نہ کوئی مانع ہے نہ رکاوٹ جبکہ معاملہ بظاہر جواز
کاتھا۔ میں تردد میں پڑ گیا۔ آخر کار میں نے نفس کی خواہش پوری کرنے سے انکار کر
دیا جس سے اس کو سخت حیرانی ہوئی۔ کیونکہ ممانعت شرعیہ کے علاوہ اور کسی رکاوٹ کے
بغیر وہ اپنی ایسی غرض سے محروم کر دیا گیا تھا جو اس کے نزدیک غایت تھی۔ تو میں
نے اس سے کہا:
”اے نفس ! جس طرف تو جانا چاہ رہا تھا
واللہ اسکی کوئی صورت نہیں ہو سکتی تھی۔“
یہ سن کر اسے غم ہوا تو میں نے پھر
اسے پکارا:
”کہ میں تیری کتنی ایسی خواہشات پوری
کر چکا ہوں جنکی لذت ختم ہو گئی اور ان کے کرنے پر حسرت و ندامت باقی رہ گئی۔
لہٰذا اپنی اس خواہش اور غرض کے درمیان غور کر۔ کیا لذت کے میدان میں ندامت کے سوا
کچھ باقی رہا۔“
نفس نے سوال کیا کہ پھر میں کیا کروں؟
میں نے کہا:
صبرت ولا واللہِ ما بی جلادۃ علی الحب
لکنی صبرت علی الرغم
میں محبت پر صبر کر رہا ہوں حالانکہ
مجھ میں اس کی سکت نہیں ہے۔ لیکن مجبوراً صبر کرنا ہی پڑتا ہے۔
اوراب میں اللہ تعالیٰ کی جناب سے اس
فعل پر بہترین بدلہ کا منتظر ہوں اور اس مسودہ کا یہ صفحہ اس توقع پر خالی چھوڑتا
ہوں کہ اس صبر پر انشاءاللہ جلد ہی بہتر صلہ ملے گا۔ پھر اسے اس خالی جگہ لکھونگا۔
چونکہ صبر کا صلہ کبھی جلد مل جاتا ہے اور کبھی تاخیر سے۔ پس اگر جلدی مل گیا تو
لکھدونگا اور اگر تاخیر ہوئی تو یہ سمجھ لو کہ مجھے اس شخص کے لیے جزاءحسن کے
متعلق ذرا بھی شبہ نہیں ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا کیے جانے سے ڈرا۔ کیونکہ جب
اس نے اللہ کے لیے ایک چیز چھوڑی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو اِس کا عمدہ عوض ضرور عطا
فرمائیں گے اور واللہ میں نے اس خواہش کو اللہ ہی کے لیے چھوڑا ہے۔
اور اس کا آخرت کے لیے ذخیرہ بن جانا
بھی میرے لیے کافی ہے۔ چنانچہ اگر قیامت کے دن مجھ سے پوچھا گیا کہ ایک دن تم نے
اپنی خواہش پر اللہ کی رضا کو ترجیح دی تھی ،یاد ہے؟ تو میں کہوں گا ہاں مجھے یاد
ہے! فلاں دن فلاں وقت میں نے ایسا کیا تھا!
پس اے نفس ! اس ذات کی توفیق پر شکر
کر! جس نے تجھے اس کی توفیق دی ورنہ تیرے علاوہ کتنے لوگ محروم کر دیے گئے اور آئندہ
بھی اس جیسے کام سے پرہیز کر(اور اس کا استحضار رکھ کہ) طاعت کی اور گناہوں سے
بچنے کی قوت اللہ کی نصرت پر موقوف ہے جو نہایت برتر اور صاحب عظمت ہے۔
وہ واقعہ (جو ابھی اوپر مذکور ہوا اور
جس کے لیے صفحہ خالی چھوڑا گیا تھا کہ جب بہتر بدلہ مل جائے گا تو اس پر لکھوں گا)
561ھ کا تھا جب 565ھ شروع ہوا تو مجھے اس کا ایسا عوض عطا فرمایا گیا جو اِن موانع
اور رکاوٹوں سے محفوظ تھا جن سے ورع و تقویٰ مانع نہیں بنتا۔
میں نے سوچا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے
اپنی خواہش چھوڑنے کا دنیا میں صلہ ملا ہے اور آخرت کا اجر تو اس سے کہیں بہتر ہو
گا۔ والحمد للہ
)صیدالخاطر امام ابن جوزیؒ(