قارئین کے سوالات
آپ حکمرانوں کی معین تکفیر کیوں نہیں کرتے؟
سوال: ایقاظ نے متعدد مقامات پر ”حکم بغیرماأنزل اللہ“ کا مسئلہ اٹھایا ہے اور ایسے لوگوں کا ”کفر“ ثابت کیا ہے جو اللہ کے اتارے ہوئے کے مطابق انسانوں کے فیصلے نہیں کرتے۔ لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایقاظ یہاں کے حکمرانوں کو معین کر کے کافر نھیں کہتا! حکم مطلق اور حکم معین میں فرق اپنی جگہ مگر کیا حکمِ معین اسلام میں سرے سے نہیں ہے؟
آپ کے اکتوبر تا دسمبر 2009 ءکے اداریہ میں کئی صفحے اس بات پر صرف کئےگئے کہ کفر یا شرک ایسا حکم جیتےجاگتے انسانوں پر لگتا ہے نہ کہ ’نظام‘ ایسی مجرد اشیاءپر۔ طاغوت اس انسان کو کہیں گے جو انسانوں پر اپنا قانون چلانے لگے۔ خود آپ کے نزدیک: محض ’نظام‘ کو طاغوتی کہہ دینا اورانسانوں پر اس کی کوئی زد آنے ہی نہ دینا ایک ایسا منہج ہے جو قرآن کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ __ خود آپ کے بقول __ کفر و شرک وغیرہ کے یہ سب احکام قرآن کے اندرانسانوں پر ہی عائد کئےگئے ہیں نہ کہ کچھ مجرد اشیاءپر کہ جن کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں۔
آپ نے لکھا ہے:
باطل کے کیمپ میں پائے جانے والے ’انسانی عنصر‘ سے صرفِ نظر کر رکھنے کا منہج ایک غیر حقیقی منہج کہلائے گا اور اِس صورت میں باطل کے ساتھ کسی حقیقی کشمکش کی شروعات بھی ناپید رہیں گی چاہے ’نظری‘ طور پر اُس باطل کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کیلئے اہل حق کو کتنا ہی ’منظم‘ کیوں نہ کر لیا گیا ہو۔ معسکرِ باطل کا تعین ہونے کے معاملہ میں ’مجرد‘ abstract اور ’مجسم‘ concrete کا یہ اجتماع اور اِس مسئلہ کو دیکھنے کی بابت یہ توازن اپنے نوجوانوں کی ’نظر‘ کی تربیت کیلئے بہر حال مطلوب ہے اور ہماری اِس وقت کی ایک بہت بڑی تحریکی ضرورت۔
آپ کے ان افکار کی روشنی میں بھی دیکھاجائے تو آپ کا ”حکم مطلق“ ہی کا بیان کرتے چلے جانا، جبکہ ”حکم معین“ سے احتراز کرنے کے باعث آپ مسلسل ان حکمرانوں کو مسلمان مان رہے ہوں، کیا وہی ’مجرد‘ والی بات نہیں ہو جاتی؟ کیاآپ کی اِس دعوت میں بھی ’انسانی عنصر‘ نظر انداز نہیں ہو جاتا؟ آپ کے ان افکار کی روشنی میں ہی، کیا یہ ضروری نہیں ہو جاتا کہ کم از کم کچھ افراد کی تو معین کر کے تکفیر کی جائے؟
(ناصر الدین .... لاہور)
جواب:
محولہ بالا گفتگو جو ہمارے اکتوبر تا دسمبر 2009ءکے اداریہ میں ہوئی، اُس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ وہ یہاں پائے جانے والے ایک خاص ذہن کو سامنے رکھ کر کی گئی تھی۔ یہ وہ ذہن ہے جس کے نزدیک ”کفر“ اور ”شرک“ اور ”طاغوت“ ایسے شرعی الفاظ کا ’انسانوں‘ پر اطلاق کر دینا ہی __ اصولاً __ ایک غلط بات ہے۔ یہ لوگ، اپنے تحریکی مباحث کے اندر اِن اصطلاحات کا استعمال کرتے بھی ہیں __ اور بلاشبہ کسی کسی وقت یہ گرامی قدر اصحاب ”حاکمیت“ کے حوالہ سے یہاں پر قائم صورتحال پر ”شرک“ یا ”کفر“ وغیر ایسی فردِ جرم عائد کرنے کے ایک گونا قائل بھی نظر آتے ہیں __ تو ان سب الفاظ کا اطلاق ’نظام‘ نامی کسی ’مجرد‘ چیز پر ہی کرنے کے روادار ہوتے ہیں۔ البتہ جونہی آپ ”کفر“ یا ”شرک“ ایسی فردِ جرم کا رخ کسی ’انسانی مخلوق‘ کی طرف کرتے ہیں، یہ حضرات اِس بات کے ساتھ ایک اصولی اختلاف کرتے ہوئے کچھ ایسا نکتہ بیان فرماتے ہیں کہ اِن الفاظ کا استعمال گویا ’نظام‘ ایسی کسی ’غیر جاندار‘ مخلوق پر ہی ہو سکتا ہے نہ کہ اِن افعال کے مرتکب ’جاندار‘ و ’ذی شعور انسانوں‘ پر۔ یہی معاملہ لفظ ’طاغوت‘ کا ہے۔ گویا ان کے خیال میں ’طاغوت‘ انسان نہیں ہو سکتا، اور نہ کسی ’انسان‘ کو شریعت کے اندر طاغوت کہا جا سکتا ہے۔ ان کے تئیں ’طاغوت‘ شریعت میں صرف اور صرف کسی ’نظام‘ ایسی غیر مکلف مخلوق ہی کو کہا جا سکتا ہے!
چنانچہ مضمون میں ہمارا روئے سخن اس ذہن کی جانب تھا۔ ہم نے اپنے مذکورہ مضمون میں اس فکر کا رد کیا تھا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ بے شک آپ ”کفر“ یا ”سرکشی“ ایسے یہ الفاظ مجازاً کسی وقت ’نظام‘ ایسی ’غیر جاندار‘ مخلوق کیلئے استعمال کر لیں، مگر قرآن میں ’کافر‘ یا ’طاغوت‘ ایسے یہ الفاظ کچھ ’مجرد‘ اشیاءکیلئے نہیں، بلکہ کچھ ”جاندار“ اور ”ذی شعور“ ہستیوں ہی کیلئے استعمال ہوئے ہیں چاہے وہ شیاطین انس ہوں یا شیاطین جن۔ لہٰذا ’کفر‘یا ’شرک‘ یا ’طاغوت‘ ایسی فردہائے جرم کا اطلاق بلا شبہ انسانوں پر ہی ہوتا ہے۔
یہ ایک اصولی بات ہے۔ انسان ہی ”کفر“ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انسان ہی ”شرک“ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ”انسان“ ہی طاغوت بنتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اٹھارہ کروڑ انسانوں پر غیر اللہ کی شریعت چلائی جا رہی ہو اور اِس سے کسی ایک بھی ’انسان‘ کا کفر لازم نہ آئے! غیر اللہ کی شریعت چلانے پر ’کفر‘ یا ’شرک‘ یا ’طاغوت‘ ایسی ہر فردِ جرم ہم ’نظام‘ ایسی کسی مجرد شےءپر ہی کر دیا کریں اور اُس کے ’انسانی عنصر کو اِس حوالہ سے کسی فردِ جرم کا مستوجب تک نہ جانیں!
گفتگو کو آگے بڑھانے کیلئے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اُس مضمون کے چند اقتباسات ہی پہلے یہاں دے دیے جائیں، کیونکہ یہ موضوع کئی پہلو سے ویسے بھی بے حد اہم ہے۔ اقتباسات کے ساتھ ساتھ ایک حاشیہ بھی جو ہمارے اُسی مضمون میں اقتباسات کی اِن عبارتوں کے تحت دیا گیا تھا ہماری اُس گفتگو کے مخاطب طبقہ کا تعین کرنے میں نہایت واضح ہے، لہٰذا وہ ایک عدد حاشیہ بھی ہم ان اقتباسات کے ذیل میں دوبارہ دیں گے، جس سے کہ بالکل ہی واضح ہو جائے گا کہ ہم نے کس طبقے کی فکر کو وہاں پر موضوعِ بحث بنایا تھا:
ہمارا یہ معرکہ وجود میں ہی آنے کا نہیں جب تک ہم اپنے اُس اصل ہدف کا تعین نہیں کر لیتے جو یہاں جاہلیت کا علم اٹھا کر کھڑا ہے۔ یعنی ایسا بہرحال نہیں کہ ہم لوگوں کو بیچ سے ہٹاتے ہٹاتے ہر کسی کو ہی سامنے سے ہٹا دیں اور عملاً کوئی انسانی فریق ہی ہمارے سامنے نہ ہو جس سے ہمیں یہ جنگ لڑنی ہے سوائے کچھ abstract اشیاءکے، مانند ’نظام‘، ’قانون‘ اور ’طرزِ حیات‘ وغیرہ جبکہ ہم ’نظام‘ اور ’قانون‘ اور ’طرزِ حیات‘ کے سرغنوں اور کارپردازوں کو اِس جنگ سے الگ کر چکے ہوں(1)! ایسی جنگ تو قیامت تک وجود میں آنے والی نہیں جو ’مجرد اشیاء‘ کے خلاف لڑی جا رہی ہو، سوائے مفروضات و فلسفہ جات کی دنیا کے اندر ہی۔ بلکہ ایسی جنگ کی تو کوئی ابتدائی ترین شکل بھی بننے والی نہیں جس میں ’فریقِ مخالف‘ محض کچھ ’مجرد اشیاء‘ ہوں!
.... .... .... نہ حق نے کبھی مجرد رہ کر میدان جیتا ہے اور نہ باطل کبھی مجرد رہ کر پچھاڑا گیا ہے۔ ہر دو کی نمائندگی کو اور ہر دو کی پہچان بننے کو یہاں انسان در کار ہیں۔ پس کچھ انسانی چہرے باطل کے حوالے سے بھی نظر میں آنا اور نظر میں رہنا ضروری ہے اور حق کے حوالے سے بھی۔ کسی ایک جانب پایا جانے والا خلل بھی اِس جلیل القدر معرکہ کے وجود میں آنے کے اندر مانع ہو جاتا ہے۔ باطل کے کیمپ میں پائے جانے والے ’انسانی عنصر‘ سے صرفِ نظر کر رکھنے کا منہج ایک غیر حقیقی منہج کہلائے گا اور اِس صورت میں باطل کے ساتھ کسی حقیقی کشمکش کی شروعات بھی ناپید رہیں گی چاہے ’نظری‘ طور پر اُس باطل کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کیلئے اہل حق کو کتنا ہی ’منظم‘ کیوں نہ کر لیا گیا ہو۔ معسکرِ باطل کا تعین ہونے کے معاملہ میں ’مجرد‘ abstract اور ’مجسم‘ concrete کا یہ اجتماع اور اِس مسئلہ کو دیکھنے کی بابت یہ توازن اپنے نوجوانوں کی ’نظر‘ کی تربیت کیلئے بہر حال مطلوب ہے اور ہماری اِس وقت کی ایک بہت بڑی تحریکی ضرورت۔
’مجرد‘ پر ہی کل زور دے رکھنے کا ایک منہج ہمارے کچھ قابل احترام حلقوں کے یہاں اگر پزیرائی پا کر رکھتا ہے.. تو ہمارے نزدیک یہ منہج کسی عملی تو کیا کسی فکری اور نظریاتی معرکے کو بھی جنم دینے سے آخری حد تک قاصر رہے گا اور وہ خاص فضا جو حق اور باطل کے آمنے سامنے آنے سے بالکل ابتدا ہی کے اندر وجود پانے لگتی ہے اور بعد کے معاملہ کے آگے بڑھنے کیلئے ایک بنیاد فراہم کرتی ہے، یہاں بڑی حد تک عنقا رہے گی۔
.... .... .... لہٰذا ہم سمجھتے ہیں باطل کے خلاف اٹھائی گئی دعوت میں محض ’مجرد‘ پر زور دے دیا جانا دعوت کا ایک ابتدائی خلل ہے کیونکہ اِس میں ’انسانی‘ پہلو قریب قریب مفقود ہوتا ہے جس کے نتیجے میں دعوت ایک فلسفہ اور ایک لیکچر بن کر رہ جاتی ہے۔ اِس منہج میں البتہ اگر یہ درستی کر لی جاتی ہے اور اِس میں اگر وہ توازن پیدا کر لیا جاتا ہے جس کا ابھی اوپر ذکر ہوا.... تو یہ چیز انشاءاللہ اِس میں ایک غیر معمولی قوت اور تاثیر لے آسکتی ہے اور تب ایک passive resistance بھی بلکہ ایک passive resistance ہی اللہ کے فضل سے کمال کے کچھ نتائج برآمد کر کے دکھا سکتی ہے۔
غرض یہ نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے دَور اور خطہ کے اندر پائے جانے والے کفر ہی نہیں اُس کفر کے سرغنوں اور اُس کے عَلم بردار طواغیت سے بھی بری و بیزار ہو کر دکھائیں۔ آپ کی جنگ نظریات کے ساتھ بھی ہو اور اُن نظریات کا ’وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ ‘ (النور: 11) کا مصداق ٹھہرنے والے انسانوں کے ساتھ بھی۔ یا تو آپ کے گرد وپیش میں کفر اور شرک کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور آپ کو خوش قسمتی سے یہاں خلافت راشدہ یا کم از کم بھی ’اموی‘ اور ’عباسی‘ ایسی کوئی اجتماعی صورتحال میسر ہے.. البتہ اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدائے رب العالمین کے خلاف یہاں پر پائی جانے والی بغاوت، کفر اور شرک کے درجہ کو پہنچتی ہے،اور جوکہ ایک انتہائی پریشان کن صورتحال ہے، تو اس صورت میں خدائے رب العالمین کے خلاف ہونے والی اس بغاوت کا کوئی انسانی سر پیر بھی آپ کو نظر آنا چاہیے۔ اِس پر حکم لگانے میں پوری احتیاط سے کام لیجئے، اور بے شک ’اشخاص‘ کو معیَّن (nominate) کر کے سرے سے کوئی حکم نہ لگائیے (کیونکہ اشخاص کو معین کر کے حکم لگانا ضروری بہر حال نہیں)، مگر وہ ’انسانی سر پیر‘ جو اِس عمل کے پیچھے کار فرما ہو، اُس کا حکمِ عام بیان کرنے کی ضرورت بہر حال رہے گی کہ اِس فعل کے مرتکب لوگوں کو شریعت میں کہا کیا جاتا ہے: وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ۔ (المائدۃ: 44) قرآن مجید کی ایک بے انتہا واضح آیت ہے اور یقینا کسی مقصد کیلئے اتاری گئی ہے۔ معاملے کو اتنا ’گول‘ بہرحال نہیں کیا جا سکتا کہ اِس کی زد محض کچھ مجرد اشیاءپر پڑے اور ’انسانوں‘ کو کسی وعید کا محل ہی نہ رہنے دیا جائے! اور پھر سوال تو یہ ہے کہ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ کے قرآنی الفاظ ”انسانوں“ کو موضوعِ بحث بناتے ہیں یا ’محض کسی نظام‘ کے لئے؟ مَن کا لفظ عربی کے اندر مخلوقِ عاقل کیلئے استعمال ہوتا ہے یا ’مجرد اشیاء‘ کیلئے؟
پس اگر آپ باطل کے خلاف ایک زندہ اور جیتی جاگتی دعوت کھڑی کر دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ’دعوت‘ کو نرا ایک ’فلسفہ‘ نہیں رہنے دینا چاہتے.... تو ایک ’نظام‘ کے ساتھ کچھ ’انسان‘ بہر حال آئیں گے۔ ہاں یہ ایک معقول بات ہے کہ آپ اِس دائرہ کو بہت زیادہ نہ پھیلائیں اور اپنی جانب سے اس کو ائمۃ الکفر اور رؤوس الفساد تک ہی محدود رکھیں، خصوصاً ایک کلمہ گو معاشرہ میں۔
(دیکھئے:اداریہ ایقاظ اکتوبر تا دسمبر 2009ء۔ صفحہ: 18 تا 23)
اوپر کے ان اقتباسات میں، جوکہ ہم نے اپنے اُس محولہ مضمون سے دیے، موٹے فونٹ میں دیے گئے الفاظ پر بھی غور فرما لیا جائے تو اِس مسئلہ میں وہ پورا متوازن موقف خود بخود سامنے آ جاتا ہے، جس کو نظر انداز کر دینے کے باعث سائل کے ذہن میں یہ اشتباہ پیدا ہوا ہے۔
ہم یقینا یہی کہتے ہیں کہ: ’کفر‘ یا ’ظلم‘ یا ’فسق‘، یا ’بدعت‘ یا ’شرک‘ یا ’طاغوت‘ ایسے سب شرعی احکام انسانوں پر لگتے ہیں نہ کہ صرف اور صرف ’نظام‘ یا ’قانون‘ یا ’سسٹم‘ ایسی مجرد اشیاء پر۔ اِس بات میں ہم سائل کے ساتھ یقینا متفق ہیں اور اِسی بات کو ہم نے اپنے اُس مضمون کے اندر واضح اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں مگر انسانوں پر ان احکام کو لاگو کرنے کی کچھ معین قیود ہیں۔ اِن قیود کو پھلانگ کر بہرحال نہیں گزرا جا سکتا۔ اِن میں سے اہم ترین قید یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں کسی کو ”کافر“ ڈیکلیر کر دینے کا فیصلہ باقاعدہ طور پر وقت کے اہل علم کی طرف سے آئے(2)۔ مسلمانوں کے وہ تمام امور جو اجتماعی نوعیت کے ہیں اورجن کا فیصلہ کسی ’فرد‘ کو نہیں کر دینا ہوتا، اس باب میں معاملات کو ”اولو الامر“ کی طرف لوٹایا جانا ہے۔ (اولو الامر، یعنی ”جن کو مسلمانوں کے معاملات سونپ کر رکھے جاتے ہیں “)۔ مسلمانوں کے معاملات کو انہی کی جانب لوٹانا ازروئے قرآن فرض ہے:أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ (النساء: 59)”اولی الامر“: یا مسلم امراءہی اور یا مسلم علماء۔(اس سلسلہ میں ملاحظہ فرمائیے مسئلہ: ”علماءکا اولی الامر کے زمرے میں آنا“: ایقاظ اکتوبرتا دسمبر 2006، صفحہ : 32 تا 37)۔ پس جہاں تک تو مسئلہ ہے ”حکم مطلق“ کا تو وہ تو ہمیں اپنے دین کے مصادر سے ہی لینا ہے۔ ”حکم مطلق“ (عمومی قاعدہ) کی رو سے تو یہی واضح ہے کہ جو لوگ غیر اللہ کی شریعت کو انسانوں پر واجب العمل ٹھہرائیں، وہ اللہ مالک الملک کے ساتھ ”کفر“ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ بلا شبہ یہ لوگ غیر اللہ کو اللہ کا ہم مرتبہ کر دینے کے باعث ”شرک“ کے مرتکب بھی ہوتے ہیں اور ”کفر“ کے بھی۔ ”حکم مطلق“ (یعنی اس عمومی شرعی قاعدہ) کو تو پس ہم اپنے عقیدہ اور دین کے مصادر سے ہی لیں گے اور اپنے ماحول میں پائے جانے والے شرک کے مدمقابل ہم اس کو اپنے مضمونِ دعوت میں بھی باقاعدہ شامل کریں گے۔ یعنی پورے زور کے ساتھ یہ کہیں گے کہ جو شخص اللہ کے قانون کو معطل کر کے بندوں پر اپنا قانون چلائے اور اللہ کی شریعت کی جگہ ان پراپنی شریعت کو واجب العمل ٹھہرائے، وہ شخص درحقیقت خدائی کا دعویدار ہے اور خدا کی ہمسری کرتا ہے، جس کو ہماری شرعی اصطلاح میں”طاغوت“ کہا جاتا ہے۔ یہ عمومی قاعدہ یعنی ”حکم مطلق“ تو کھل کر بیان کریں گے اور مسلم معاشرے کو اِس پریک آواز بھی کریں گے۔ رہ گیا مسئلہ ”حکم معین“ کا (یعنی یہ کہنا کہ ’فلاں اور فلاں شخص‘ اس قاعدہ کی بنا پر اب ”کافر“ ڈیکلیر کر دیا گیا ہے)، تو یہ کام (یعنی اُس شخص پر حکم معین لگانا) اولو العلم کی طرف لوٹایا جانا ہوتا ہے۔ جب تک علمائے وقت کے ہاں سے ہی کوئی ایسا فیصلہ امت کو صادر کر کے نہیں دے دیا جاتا (کہ ”فلاں نام کا شخص یا حکمران اپنے فلاں اور فلاں قول یا فعل یا رویے کی وجہ سے ’کافر‘ قرار دیا جاتا ہے“) ہم عام مسلمان لوگ اِس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے اور اپنی طرف سے کسی کے ”کافر“ ہونے کا فیصلہ بہرحال نہیں کر دیں گے۔
چنانچہ ”انسانی عنصر“ کو نظرانداز نہ کرنے کا یہ مطلب بہر حال نہیں کہ حکم معین (اسلامی معاشرے میں کسی شخص کو معین کر کے ”کافر“ ڈیکلیر کر دینے) کے سلسلہ میں جو کوئی قیود پائی جاتی ہیں ہم ان کو ہی پھلانگ کر گزر جائیں!
تاہم سائل کے اِس طرزِ تفکیر پر بھی ہم کچھ بات کرنا چاہیں گے کہ حکم معین (حکمران کو متعین کر کے اُس کو ”کافر“ قرار دینے) سے احتراز کرنا __ در حالیکہ حکم مطلق (حکمران کے اُس فعل کو صاف صاف ”کفر“ کہنے) کو دعوت کا مضمون بنا رکھنے پر پورا زور دے رکھا گیا ہو __ ”انسانی عنصر“ کو نظر انداز کر دینے کے مترادف ہے....!
وہ ذہن جس کا ہم نے رد کیا تھا، اُس کا تو نقطۂ نظر ہی بالکل اور ہے۔ اُس کا تو کہنا ہے کہ ”کفر“ یا ”طاغوت“ وغیرہ ایسے کلمات کا اطلاق اگر کہیں کرنا ہی ہو تو وہ ’نظام‘ وغیرہ ایسی غیر مکلف مخلوقات پر ہو سکتا ہے۔ وہ تو اِس عمومی قاعدہ (حکم مطلق) کے ساتھ ہی متفق نہیں کہ بندوں پر غیر اللہ کی شریعت کو محکَّم ٹھہرانے والا شخص ”شرک“ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ ان حضرات کو تو اِس عمومی قاعدہ (حکم مطلق) سے ہی اختلاف ہے اور وہ تو اِس قاعدہ کے بیان پر ہی شدید معترض ہوتے ہیں کہ اللہ کے قانون کو پس پشت ڈال کر بندوں پر اپنا قانون چلانے والا شخص ”طاغوت“ کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے اِس نقطۂ نظر ہی کے رد میں ہم نے وہ پورا مضمون (یا اس مضمون کا بڑا حصہ) تحریر کیا تھا۔
البتہ ہمارا یہ عمومی قاعدہ (حکم مطلق) بیان کرنا اور دعوت کے لہجوں میں اس کو نمایاں کرنا کہ خالق کی شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی شریعت کو چلانے اور واجب العمل ٹھہرانے والا انسان __ اصولاً __”طاغوت“ کہلاتا ہے اور اُس کا یہ فعل کھلا کھلا شرک ہے اور خدا کی ہمسری ہے.... ’انسانی عنصر‘ کو نظر انداز کرنا نہیں، بلکہ ’انسانی عنصر‘ کو گرفت میں لانا ہے۔
وقت کے وہ بڑے بڑے علماءاور اساتذہ، جن کو ہم اس سطح پر سمجھتے ہیں کہ وہ آج کے دعوتی و تحریکی عمل کی راہنمائی کر سکتے ہیں، اُن کا تو سارا زور ہی اسی بات پر ہے کہ ”حکم مطلق“ کو دعوت کے لہجوں کے اندر نمایاں کرنا ہی یہاں پر باطل کو لرزانے کا نہایت مؤثر و دور رس طریقہ ہے۔ واقفانِ حال تو خوب ہی جانتے ہیں، ”حکم معین“ میں پڑنا تو اِس وقت ایک ’پنڈورا باکس‘ کھولنے کے مترادف ہے اور بکثرت مشاہدہ میں آ چکا ہے کہ ایسی دعوتیں بہت جلد بند گلی میں پہنچ جاتی ہیں۔ اِسی لئے، بالعموم یہ دعوتیں ”دعوت“ کے طور پر جب چل ہی نہیں پاتیں تو پھر بہت جلد یہ ”قتال“ کی صورت دھار لینے پر مجبور ہوتی ہیں، بلکہ بسا اوقات اس طرف کو دھکیل لائی جاتی ہیں.... اور یوں، بالآخر اور بھی مسدود راستے پر جا پہنچتی ہیں، کیونکہ ایک بہت بڑی معاشرتی بنیاد تیار نہ ہو چکی ہو __ اور جوکہ ”دعوت“ ہی تیار کر کے دے سکتی ہے __ تو قتال کا عمل بھی بہت جلد دم توڑ جاتاہے، ( اور ظاہر ہے، ’قتال‘ تک ہی نوبت چلی گئی تو اس کے بعد تو پھر کوئی اور ’آپشن‘ بھی باقی نہیں رہ جاتا!)، جیسا کہ مصر، الجزائر، لیبیا اور شام میں اس کا ایک نہایت تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ ہم بہرحال یہاں ”دعوت“ کے آپشنز کو ابتداءہی کے اندر ختم کر دینے کو ایک صائب طریق نہ سمجھیں گے۔ بلکہ ”دعوت“ کے راستے کھلے رکھنے پرزوردینا از حد ضروری جانیں گے اور اپنے نوجوانوں کو کسی بند گلی پر پہنچنے سے بچنے کی تلقین بھی حسب توفیق کریں گے۔ دیگر خطوںمیں ہوچکے ’تجربات‘ سے ہمیں استفادہ کرنا ہے نہ کہ اُن کا اعادہ!
(اِس حوالہ سے محمد قطب کی کتاب ”کیف ندعو الناس“، جس کا اردو استفادہ ”دعوت کا منہج کیا ہو؟“ کے عنوان سے ہو چکا ہے، ایک نظر دیکھ لی جانا نہایت مفید ہو سکتا ہے)
بنا بریں، ”دعوت“ اور ”تحریکی عمل“ میں اِن لہجوں کو نہایت زور داربنا دینا کہ غیر اللہ کی شریعت کو چلانے اور شرعِ عام کا درجہ دے رکھنے والے انسان اسلامی عقیدہ کی دی ہوئی شرعی اصطلاح میں ”طاغوت“ ہوتے ہیں اورصاف صاف اللہ کے ساتھ شرک کے مرتکب، جس کے خلاف ساری امت کو اٹھ کھڑا ہونا ہے اور اس کو کسی صورت قبول نہیں کرنا، خواہ ایسا انسان اکثریت کے ووٹ لے کر آیا ہو، یا ووٹوں کے بغیر اقتدار پر قابض ہوا ہو، خواہ اس کا نام جمہوریت ہو یا آمریت ہو یا جاہلیت کی دی ہوئی کوئی بھی اور اصطلاح، ہماری اسلامی شرعی اصطلاح میں اس کا نام ”طاغوت“ ہے، جس کا کفر کر دینا ”اللہ پر ایمان“ معتبر ہونے کیلئے ایک پیشگی شرط ہے.... اِن لہجوں کا سامنے لے آیا جانا اور ان کو نہایت زوردار بنا دینا ہمارے یہاں کے دعوتی و تحریکی عمل کی ایک بے حد اہم ضرورت ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ دعوت کے مضمون میں اس بات کا نہ پایا جانا یہاں کے دعوتی و تحریکی عمل کا ایک بے حد بڑا نقص ہے۔ اِس میں بھی شک نہیں کہ ایک کھلے کھلے کفر کے مقابل دی جانی والی اِس دعوت میں اِس کفر کو کفر ہی نہ کہا گیا ہونا اب تک یہاں کے دعوتی عمل کو ایک بے جان دعوت رکھنے کا واضح سبب چلا آیا ہے۔
چنانچہ ایک حکمران کو نام لے کر آپ اگر ’کافر‘ نہیں بھی کہتے، کیونکہ اُس کو معین کر کے ’کافر‘ ڈیکلیر کرنے کیلئے ”مسلم اتھارٹی“ کی جانب سے فیصلہ اور اعلان آیا ہونا ضروری ہے، اور جبکہ اُس کو کافر کہنے میں کوئی شرعی مصلحت بھی پوشیدہ نہیں بلکہ اُس کی مفسدت فی الوقت اُس کی مصلحت سے کہیں زیادہ ہے، ہاں البتہ اُس انسان کے فعل کو بہرحال ”کفر“ ہی کہتے ہیں (یعنی حکم مطلق بیان کرنے میں کوئی کمی نہیں رہنے دیتے)، اور امت کو بھی __ دعوتی عمل کے ذریعے __ اس ”کفر“ کے خلاف صف آرا کرنے لگتے ہیں ، بغیر اس کے کہ ’کافر کافر‘ کی کوئی گردان دعوت کے مضامین میں یہاں صبح شام سننے کو ملے، تو یہ ایک نہایت صائب طریق ہے۔ آج کے دور کے کبار علمائے عقیدہ مسلم معاشروں میں دعوت کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے ”مصالح اورمفاسد کے موازنہ“ کا شرعی قاعدہ بروئے کار لاتے ہوئے اسی بات کو صائب تر طریق قرار دیتے ہیں۔
الغرض ایک انسان کے فعل کو ”کفر“ کہنا، بغیر اس کے کہ لازماً اُس کو بھی ’کافر‘ ہی کہا جائے، (یعنی ”حکم مطلق“ کا بیان اور ابلاغ) ’انسانی عنصر‘ کو نظرانداز کر دینا نہیں بلکہ ’انسانی عنصر‘ کو ”دعوت“ کی گرفت میں لانا ہے۔ وہ چیز جو علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں ”حکم مطلق“ کہلاتی ہے، وہ کسی ’مجرد‘ چیز پر حکم لگانا نہیں بلکہ ”انسانوں‘ ‘ کے فعل پر حکم لگانا ہے۔
رہ گیا معزز قاری کا یہ سوال کہ کیا ”حکم معین“ (کسی شخص کو نام لے کر اًس پر وہ حکم لگانا) اسلام میں سرے سے نہیں؟ تو اسلام میں حکم معین یقینا ہے۔ (اس مبحث کیلئے دیکھئے، اداریہ ایقاظ جنوری تا مارچ 2009ء)۔ ہم نے صرف اُس کی کچھ قیود بیان کی ہیں البتہ یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اسلام میں حکم معین سرے سے نہیں۔ بلکہ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں، ہم نے جنوری 2009ءکے شمارہ میں اُن کا رد بھی کیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ علمائے عقیدہ کے ہاں ازحد مستحسن ہے کہ ”حکم معین“ سے زیادہ سے زیادہ اجتناب برتا جائے اور کبھی ضروری ہی ہو جائے، اور ایسا کرنے کی مصلحت اس کی مفسدت پر علماءکو بھاری ہی نظر آئے، تو ہی یہ علماء”حکم معین“کی نوبت آنے دیتے ہیں۔ عام حالات میں، خصوصاً جب جہالت اور لاعلمی معاشرے میں عام ہو، ”حکم مطلق“ کے بیان کو ہی اپنی دعوت اور تعلیم کے عمل میں اختیار کر رکھنے کو درست تر جانتے ہیں۔ اِسی بات کو ہمیں اب یہاں پر درپیش ”تحریکی عمل“ کے اندر سمونا ہے۔
(1)(یہ حاشیہ بھی ہمارے اُسی مضمون سے ہے، جس کو من وعن یہاں پر دیا جا رہا ہے):
ہمارا مقصد یہاں اُس نقطۂ نظر پر بات کرنا ہے جس کا کہنا ہے کہ آپ صرف اور صرف یہاں کے ’طاغوتی نظام‘ کے خلاف بات کریں بغیر اِس کے کہ آپ ان ’انسانوں‘ پر بات کریں اور ان کا کوئی شرعی حکم بیان کریں جن کا عمل ہی در حقیقت اِس نظام کو ’طاغوت‘ کا وصف عطا کرتا ہے۔ سبھی جانتے ہیں ’نظام‘ ایک ایسی مخلوق ہے جو ’جمادات‘ میں بھی نہیں ’مجرد‘ اشیاءمیں آتی ہے۔ ’نظام‘ نہ ’مکلف‘ مخلوقات کے زمرے میں آتا ہے؛ نہ اِس کا حساب اور نہ اِس کو عذاب اور نہ یہ کسی وعد اور وعید کا مخاطب۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں قرآن کا مخاطب ”زندہ مخلوقات“ رہی ہیں۔
ہمارے یہ قابل احترام حضرات جو اپنے اس نقطۂ نظر پر حد سے زیادہ زور دیتے ہیں اور ’انسانوں‘ کو موضوعِ بحث بنانے کے شدید مخالف ہیں لیکن ’طاغوت کے خلاف جدو جہد‘ کا تصور بہرحال قرآن سے ہی لیتے ہیں.... ہمارے یہ واجب الاحترام حضرات قرآن کی کونسی آیت میں ’نظام‘ کا ذکر پاتے ہیں؟ انبیاءکی ساری زندگی باطل ’نظام‘ کے خلاف جدوجہد میں گزری تو ’نظام‘ سے ملتا جلتا کوئی لفظ آخر قرآن میں اور انبیاءکے صحیفوں میں اور کتب سیرت میں بھی تو ملنا چاہیے! اِس کے برعکس، ہم دیکھتے ہیں علمائے عقیدہ قرآن میں وارد لفظ ”طاغوت“ کی تفسیر کرتے ہیں تو اس میں وہ کچھ ’ذی نفس‘ مخلوقات کا ہی ذکر کرتے ہیں: مثلا: شیطان جو خدا کو چھوڑ کر اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہے، حاکم جائر جو خدائے رب العالمین کے قانون کی بجائے اپنا قانون چلاتا ہے، عدل کی مسند پر بیٹھنے والا وہ ظالم جو خدا کے نازل کردہ احکام کی بجائے کسی اور شریعت کی رو سے فیصلے کرتا ہے، وہ شخص حو علم غیب کا دعوی کرتا ہے، اور وہ پیشوا جس کی عبادت ہو (یعنی اس کو سجدہ و رکوع ہو اور اُس سے دعاءو استغاثہ ہو) تو وہ اس پر راضی ہو، وغیرہ وغیرہ۔
قرآن اور قصص انبیاءکو دیکھیں تو.... یہاں تو سب کچھ ”زندہ اور مکلف ہستیوں“ کے گرد ہی گھومتا ہے۔ محض کچھ abstract اشیاءکے خلاف جدوجہد کے فلسفے تو لگتا ہے خاصا بعد میں جا کر سامنے آئے ہیں، بلکہ ’رواداری‘ کے اِس دور کا ہی خاصہ نظر آتے ہیں۔ واللہ اعلم
(2) تکفیر کے معاملہ میں علماءکی اتھارٹی کے حوالہ سے شیخ ناصر العمر لکھتے ہیں:
والتکفیروفق الضوابط السابقۃ مردہ اِلی أہل العلم، وأمااِقامۃ الحد فمردہ اِلی الحاکم، وبعض الناس یغلط؛ فیظن أن الحکم بالتکفیرلاینبغی اِلا للحاکم، وہذا خلط بین الحکم بالکفر والردۃ وبین اِقامۃ الحد علیہ؛ فہذا الأخیر ہو الذی یرد أمرنفاذہ اِلی ولی الأمر، أما الحکم الشرعی فمردہ اِلی العلماء.
اِن مذکورہ ضوابط کے اندر رہتے ہوئے، تکفیر کا کام اہل علم کی طرف لوٹا جانا ہوتا ہے۔ ہاں حد قائم کرنے کا معاملہ حاکم کی طرف لوٹایا جانا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے اور وہ یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ تکفیر کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہی سوائے حاکم کے کسی کیلئے سزاوار نہیں۔ در اصل یہ لوگ خلط کر بیٹھے کسی پر کفر یا ارتداد کا حکم لگانے کے مابین اور (اس سے لازم آنے والی) حد کی اقامت کے مابین۔ جبکہ صرف موخر الذکر (اقامت حد) ہی وہ چیز ہے جس کو لاگو کرنے کا معاملہ ولی الامر کی طرف لوٹایا جانا ہوتا ہے۔ جہاں تک حکم شرعی کو (اپلائی) کرنے کا معاملہ ہے تو یہ چیز لوٹائی جاتی ہے علماءکی طرف۔
دیکھئے: http://almoslim.net/node/97945