بسم اللہ الرحمان الرحیم
”تدریج“ سنت ہے
ڈاکٹر محمد بن لطفی الصباغ
اردو استفادہ: مریم عزیز
ہم میں سے وہ اصحاب جو لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی تعلیم و تربیت دینے میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ رسول اللہﷺ کی مثال کو سامنے رکھیں۔ رسول اللہﷺ اسلامی احکامات کے معاملے میں نرم اور بتدریج رویہ اختیار کیا کرتے تھے۔انہوں ﷺ نے اپنے اصحاب ؓ کو بھی یہی طریقہ سکھلایا۔
جب نبی ﷺ نے معاذ بن جبلؓ کو یمن روانہ کیاتو یہ تاکید کی کہ اولین ترجیح بتوں (شرک)کا رد اور توحید کی دعوت ہو۔پھر جب وہ قبول کرلیں تب ہی اسلام کے باقی ارکان کی طرف جایا جائے۔ یوں ہر رکن علیحدہ علیحدہ متعارف ہو اور لوگوں پر یکبارگی سب کچھ قبول کرلینے کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔
حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں، ابن عباس سے مروی ہے؛
”تم اہل کتاب قوم کی جانب جارہے ہو، سو پہلی بات جس کی دعوت دی جائے وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو(1)۔اگر وہ اس بات میں تمہاری فرمانبرداری اختیار کرلیں تو ان کو سکھایا جائے کہ اللہ نے ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔پھر جب وہ اس بات میں تمہاری فرمانبرداری کریں تو ان کو سکھایا جائے کہ ان کی دولت سے زکوٰۃ لی جائے اور ان کے غریبوں کو دی جائے۔ پھر جب وہ اس میں تمہاری فرمانبرداری کر لیں تو اُن کی دولت کا بہترین حصہ نہ لیا جائے۔مظلوم کی بد دعا سے ڈرتے رہنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔“
(صحیح بخاری 1395، صحیح مسلم 19)
اس حدیث سے بتدریج حکمت عملی اختیار کرنے کی گہری ترغیب ملتی ہے!
چنانچہ جب لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے، تو پہلا قدم صرف اللہ کی توحید اور محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان کی دعوت ہو! پھر جب لوگ ایمان کی یہ بنیاد بنا چکیں، دوسرے معاملات کو ان کی اہمیت اور مقام کے لحاظ سے ایک کے بعدایک پورا کیا جائے۔
اس طریقہ عمل کا مقصدنرمی اور رواداری ہے۔اگر ہم لوگوں سے تمام احکامات کیلئے یکدم کامل اطاعت کا مطالبہ کرنے لگیں تو اس کا نتیجہ سوائے ان کے بدک جانے کے اور کچھ نہیں نکلے گا!لہٰذا ہمارے لئے بہت اہم ہے کہ ہم دین میں ترجیحات کا پورا ادراک حاصل کریں۔قارئین کرام یہ ایک بہت گراں قدر خوبی ہے جسے بہت سے مسلمان داعی نظر انداز کر بیٹھتے ہیں!!
یہ بات سچ ہے کہ خاص و عام معاملے میں اللہ تعالیٰ کاہر حکم بلاشبہ اہم ہے اور یہ انتہائی غلط بات ہوگی اگر ہم خدا کا ایک بھی حکم غیر سنجیدگی سے لیں۔مزید یہ کہ اپنی کسی دینی ذمہ داری سے ناواقفیت کسی شخص کی ذاتی کمزوری ہے اور ایک مسلمان کیلئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی دینی کم علمی پر قانع ہوکربیٹھ رہے۔تاہم یہ سب کہنا بھی اس مضمون کے عنوان کے برخلاف نہیں کہ ہمارا مقصد دعوت میں حکمت کی آگہی بیدار کرنا ہے۔مرحلہ وارتعلیم اور تبلیغ کرنابجائے خود اسلامی تعلیم کاحصہ ہے اور رسول اللہﷺ کی مبارک سنت بھی ہے۔
اگر مثال سے سمجھایا جائے تو یوں لیجئے کہ ایک دہریے(جو خدا کے وجود سے منکر ہو)کو جب ہم دعوت دینگے تو یہ دعوت نماز قائم کرنے یاحج کی اہمیت و فضیلت کی نہیں ہوگی۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ ان اعمال کی قبولیت کی شرط ہی خدا کی توحیدپر ایمان ہے! ایمان کی دعوت دیے بغیر اعمال صالحہ پرتقاریربیکار کا مشغلہ ہوگا!
اللہ کے رسولﷺ نے حکم دیا :
”یَسِّرُواوَلا تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُواوَلا تُنَفِّرُوا“
(البخاری، کتاب: العلم، باب: ما کان النبی یتخولہم بالموعظۃ، مسلم: کتاب الجہاد والسیر، باب فی ال أمر بالتیسیر وترک التنفیر، عن أنس بن مالک، واللفظ للبخاری)
آسانیاں پیدا کرو، دین میں مشکل نہ لاؤ۔خوشخبریاں دیا کرو اور لوگوں کو دین سے متنفر مت کرو
دین میں کئی ایسی باتیں ہیں جن کو یکدم اپنانے میں لوگوں کو دقت کا سامنا ہوجائے۔اگر ہم ان ہی تمام چیزوں کا مطالبہ کرنے سے بات کا آغاز کرنے لگیں تو لوگ ہم سے دور بھاگنے لگیں گے ۔مگر دوسری طرف اللہ کی محبت، اُس کی تعظیم اور اس کی بندگی کی اہمیت کا شعور جگایا جائے، ثواب دارین کی حرص پیدا کی جائے، اور اُس کے عذاب کا خوف پیدا کیا جائے تو لوگ خوشی خوشی عبادت کے تمام اعمال ادا کرنے میں آسانی محسوس کریں۔ان کے دل جب اللہ کی محبت اور تقویٰ سے معمور ہوں تو اطاعت و بندگی پہلے کی طرح بوجھ نہ لگیں بلکہ دل و جان کو عزیز عادت!
یہی نکتہ نہی عن المنکر میں بھی اہم ہے! اگر لوگوں کی زندگیاں بڑے چھوٹے گناہوں سے گھری ہوئی ہوں اور ہم ان ہی پر بحث شروع کردیں تو لوگ ڈر کربدک جائیں۔ تاہم خدا کاخوف جب دلوں میں جگایا جاچکا ہو تو عوام الناس خود ہی گناہوں سے اجتناب کیا کریں!
مومنوں کی ماں عائشہ ؓ کہتی ہیں:
اِنما نزل أول ما نزل منہ سورۃ من المفصل فیہا ذکرالجنۃ والنار،حتیٰ اِذا ثاب الناس اِلی الاِسلام، نزل الحلال والحرام، ولو نزل أول شیءلا تشربوا الخمر لقالوا لاندع الخمرأبدا، ولونزل لاتزنوالقالوالاندع الزنا أبدا۔
(صحیح البخاری، کتاب: فضائل القرآن، باب: تألیف القرآن، عن یوسف بن ماہک عن عائشہ)
”قرآن میں پہلی پہلی آیات (مفصل سورتوں سے) جنت اور دوزخ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ پھر جب لوگوں نے اسلام کی جانب رجوع کرلیا تو حلال اور حرام سے متعلق آیات نازل ہوئیں۔ اگر پہلے پہلی ہی یہ بات نازل ہوئی ہوتی کہ” شراب مت پیو“تو لوگ کہتے کہ ”ہم تو شراب نہیں چھوڑنے کے“ اگر یہ نازل ہوا ہوتا کہ”زنا مت کرو“ تو وہ کہتے کہ”ہم تو زنا نہیں چھوڑنے کے“۔
دین کی دعوت میں بتدریج نصیحت کرنا یوں ہے کہ جیسے کسی بھٹکے کا ہاتھ تھام کر اس کو ہدایت کے رستے پر منزل تک پہنچایا جائے۔
وآخرو دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
(1) محمد رسول اللہ کے الفاظ نسائی کی روایت میں آتے ہیں