جہاد افغانستان میں آپ کا حصہ؟
جمع و ترتیب:محمد زکریا خان
یوں تو سارا عالم اسلامی ہی مصائب میں مبتلاءہے لیکن دو خطے ایسے ہیں کہ جن سے مسلمانوں کا مستقبل جڑا ہے۔مشرق وسطیٰ میں فلسطینی مسلمانوں کی تحریک مزاحمت اور جنوبی اور وسطی ایشیاءمیں افغانستان کی مزاحمت۔
مشرق وسطیٰ میں قابض قوتوں کو چین سے نہ بیٹھنے دینا اس لیے ضروری ہے کہ ارض فلسطین میں خدا نخواستہ اسرائیل اور اس کے اتحادی قدم جما لیتے ہیں تو پھرپورا مشرق وسطیٰ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔اسی طرح افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک قدم جما لیتے ہیں تو پھر جنوبی ایشیاءاور وسطی ایشیاءکے مستقبل کا فیصلہ بھی ان کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔
روس کے خلاف افغان جہاد میں بیشتر اسلامی ممالک کی حکومتوں کا مفاد افغانستان سے روس کے انخلاءسے جڑا تھا۔طاقت ور کی چاکری کرنے والوں کی ناک طاقت کے سرچشمے کے ’یونی پولر‘ہو جانے کی بو سونگ رہی تھیں ۔اس قسم کی بو پالینے میں اسلامی ممالک پر مسلط حکمرانوں کی ناک خاصی حساس دیکھی گئی ہے۔افغانستان میں امریکہ کے خلاف اسلامی جہاد کی کامیابی میں خلافت کے قیام سے کسی کا ’مفاد‘نہیں جڑا بلکہ بین الاقوامی کرپشن کی اس معمول کی دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو اسے کوئی جاہ پسند برداشت نہیں کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ سرکاری سطح پر افغانستان کی موجودہ مزاحمت کو جہاد کہنا تو دور کی بات ہے سرکاری محکمے بو سونگھتے پھرتے ہیں کہ ان کا کوئی شہری افغانستان کی سر زمین کا رخ نہ کرنے پائے۔بیرونی مجاہدین کو آمد و رفت کے لیے جس طرح روس کے خلاف جہاد میں جہاز کے رعایتی ’ٹکٹ‘تھمائے جاتے تھے اب کی بار روس سے بڑے دشمن کے خلاف کسی کو ’فل ٹکٹ‘پر سفر کرنے کے لیے افغانستان کا ویزہ نہیں ملتا۔
افغانستان میں جا کر جہاد میں شمولیت تو نصیبوں کی بات ہے۔ہم نے کچھ اور صورتیں جمع کی ہیں جن کے ذریعے آپ ملکی قانون کی خلاف ورزی نہ کرتے ہوئے بھی افغان جہاد کی نصرت کر سکتے ہیں ۔ڈاکٹر سلمان عودہ کی ویب سائیٹ میں جہاد فلسطین کی نصرت کے لیے ایک فورم تشکیل دیا گیا تھا؛ہم نے اکثر تجاویز وہیں سے منتخب کی ہیں ۔نبی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ’ معروف کی کوئی سی صورت ہو اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے‘۔
درج ذیل صورتوں میں سے بہت سی صورتیں یقیناًآپ کے لیے قابل عمل ہوں گی:
1) دعاءکرنا۔دعاءسب سے اہم عبادت ہونے کے علاوہ سب سے اہم عملی صورت بھی ہے۔دعاءاپنے اندر زبردست اثرات رکھتی ہے لیکن اس کے رو بہ عمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کی دوسری نصوص از قسم مقدور بھر قوت جمع رکھنا؛نہ دعاءسے غافل ہونا اور نہ صرف دعاءہی کرتے چلے جانا اور دستیاب وسائل سے عمداً پہلو تہی برتنا۔نیز ایسے مایوس کن الفاظ زبان پر نہ لانا کہ’ہم دعاءکے علاوہ اور بھلا کر بھی کیا سکتے ہیں ‘۔دعاءکے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ کیا جا سکتا ہے بلکہ خطرات میں کودے بغیر بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے اگر چہ جہاد بہرحال خطرات سے کھیلنے کا ہی نام ہے۔
2) اپنی ذات کی اصلاح کرنا۔افغانستان کے مسئلے سے اب تک جو شخص لا تعلق رہا ہے وہ اپنا جائزہ لے کہ کیا واقعتایہ مسئلہ نظرانداز کرنے کے لائق تھا!
3) اپنی تعلیم میں سنجیدگی اختیار کرنا۔عالم اسلام کو تعلیم یافتہ مسلمانوں کی بے حد ضرورت ہے۔غیر سنجیدہ انسان نہ اپنی ذات کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اورنہ دوسروں کو۔
4) امریکہ اور یورپ کی ترقی ہماری شکست کی وجہ نہیں ہے بلکہ ہماری کوتاہی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے؛اس حقیقت کا ادراک کرنا ہمارے مصائب کو کم کر سکتا ہے۔
5) گاہے بگاہے نوجوانوں کے ایسے اجتماعی پروگرام ترتیب دینا اور ان میں شرکت کرنا جن میں امت کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہو۔
6) نجی طور پر اور تبادلہ خیال کرکے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ہماری شکست کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں ۔
7) پر امید رہنا۔مایوسی و نا امیدی سے کوسوں دور رہنا۔مایوسی سے بچنے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں ۔مثلاً آپ خبر سنتے ہیں کہ افغانستان میں ہمارے دو بھائی شہید کردیے گئے ہیں ۔ آپ اپنے آپ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ میں دو مسلمانوں کو راہ راست پر لاؤں گا۔
8) خواہش نفس سے بچنا
9) غیر اللہ سے راہ و رسم کے ہر طریقے سے توبہ کرنا۔
10) کثرت سے استغفار کرنا۔
11) گناہوں سے دور ہونا۔اس بات پر ایمان پختہ کرنا کہ معاصی کی وجہ سے قوموں پر دشمن مسلط ہوتے ہیں ۔
12) دوسرے مسلمانوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا۔
13) امت کے مسائل کو اپنے ذہن سے فراموش نہ ہونے دینا۔
14) نماز پنجگانہ کی مسجد میں با جماعت ادائیگی کو یقینی بنانا۔
15) جہاد کی ترغیب دینے والی آیات کسی خوش الحان قاری کی آواز میں سننا۔
16) دشمن کی تاریخ اور اس کی نفسیات جاننے کے لیے اس قسم کی کتب کا مطالعہ کرنا اور کچھ حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرنا اور پھر اہل علم سے منکشف ہونے والے حقائق کا تبادلہ خیال کرنا۔
17) اپنے روزمرہ کے معمولات کو منظم شکل دینا اور جائزہ لینا کہ کوئی وقت بے کار میں تو نہیں گزرا۔
خواتین کا کردار
18) خواتین اپنے متعلقین کو مایوسی سے بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔مردوں کی غیر موجودگی میں وہ اس بات ک یقینی بنائیں کہ گھر کے معمولات متاثر نہیں ہوں گے ۔کسی بھی محاذ میں اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی جب تک اس بات کا اطمنان نہیں ہو جاتا کہ گھرمحفوظ ہیں ۔
19) جس گھر میں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پاس پڑوس کی خواتین اس گھر میں جا کر حوصلہ بڑھائیں ۔
20) بچوں کی نفسیاتی تربیت میں جہاد سے محبت؛سخاوت؛دلیری اور شہادت کی تمنا جیسے جذبات پیدا کرنا۔
21) صبر اور قناعت پسندی کو رواج دینا۔بچت کی عادت اپنانا۔ مہینے کے بعد پس انداز کی ہوئی رقم کو مناسب مد میں صدقہ کرنا۔
خاندان کی ذمہ داری
22) اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں سرشار خاندان۔افراد خانہ ہفتے میں ایک بار اکھٹے ہوں اور سب مل کر جہادی ترانے سنیں ۔سیرت کی کتابوں سے سلف صالحین کے جہادی کارنامے پڑھیں اور سنائیں ۔بچوں کوخوش الحانی سے ترانے دہرانے کی مشق کرائیں ۔
23) اگر آپ کے قرب و جوار میں پاکستانی یا افغانی مہاجرین کی خیمہ بستی ہو تو کبھی کبھار وہاں جا کر ان کا حوصلہ بڑھائیں اور روزمرہ کی اشیاءمیں سے کچھ چیزیں عاریتاً یا مستقل ان کے پاس چھوڑ آئیں ۔
24) خاندان والے مل کر کسی فاضل معلم کی خدمات حاصل کریں جو مہینے میں ایک بار دین کے بنیادی مسائل کی تعلیم دیا کرے۔
25) اگر آپ کے گھروں میں انٹرنیٹ کا محفوظ استعمال ہے تو انٹرنیٹ پر امریکہ اور اسرائیل کے جنگی جرائم پر جو مواد دستاب ہے اسے دوسرے لوگوں کو فارورڈ کریں ۔
26) افغان جہاد سے متعلق معلومات صرف اسلامی ذرائع سے حاصل کریں ۔اگرکوئی اہم خبر موصول ہوتی ہے تو اسے پھیلانے سے پہلے اہل علم کے سامنے پیش کریں ۔
27) مسلمانوں کے caseکو دنیا کے معتدل افراد سے منوانے کے لیے معقول دلائل جمع کریں ۔
28) غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے معلومات حاصل کرنے کی عادت ڈالیں ۔ اس مقصد کے لیے اگر کوئی زبان سیکھنے کے لیے آپ کے پاس وقت ہو تو ہرگز پس و پیش سے کام نہ لیں ۔فرانسیسی زبان اور جرمن بولنے والے ذرائع ابلاغ سے بہت کم معلومات یا خبریں ترجمہ ہوتی ہیں ۔عین ممکن ہے آپ پہلے سے کوئی زبان جانتے ہوں ۔آپ اپنے اس ہنر کے ذریعے افغان جہاد کی نصرت کر سکتے ہیں ۔
29) بین الاقوامی سیاسی سیمنار کی رپورٹیں حاصل کریں ۔ ممکن ہو تو ان میں شرکت کریں اور اگر آپ کو وہاں کچھ کہنے کا موقع ملتا ہے تو افغانستان میں کیے جانے والے مظالم کو بیان کریں ۔
30) افغان مجاہدین کی ہمت کو دیکھ کر اپنے اندر کم ہمتی کو پیدا نہ ہونے دیں ۔
31) افغانستان کے جغرافیہ سے آگاہ ہونے کی کوشش کریں ۔پاکستان اور دوسرے پڑوسی ممالک کے لیے افغانستان میں ایک آزاد خود مختا اسلامی اصولوں پر کاربند حکومت کس قدر فائدہ مند ہے اس کے دلائل جمع کریں ۔
32) حملہ آور ملک کے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کی کوئی صورت نکالنا۔
33) طالبان کی سابق اسلامی حکومت کے نمایاں کارناموں کا تذکرہ کرنا خصوصاً ایک معاشرتی انتشار میں مبتلا ملک میں کتنی تیزی کے ساتھ امن پھیل گیا تھااس کو بار بار یاد دلائیں ۔
34) جہاد کی ترغیب دینے والی نظمیں یا اشعار تخلیق کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا۔
35) فضائل جہاد پر مبنی احادیث جمع کرکے اس کے معانی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرنا۔مختلف پروگراموں میں دعوت دینے کے لیے دعوت نامے چھاپے جاتے ہیں ۔ایسے دعوت ناموں پر فضائل جہاد پر مبنی آیات یا احادیث میں سے کوئی عبارت لکھوائیں ۔
تعلیمی میدان میں
36) تعلیمی اداروں میں استعمار کی تاریخ اور موجودہ دور میں اتحادی ممالک کا افغانستان پر حملہ کرنا کے عنوان پر تقریری مقابلے کرائے جا سکتے ہیں یا کوئز پروگرام تشکیل دیے جا سکتے ہیں ۔مقابلے میں کامیاب ہونے والے طلبہ و طالبات میں انعامات تقسیم کیے جائیں ۔
37) اس موضوع پر کہانی مقابلہ بھی کرایا جا سکتا ہے جس میں اس بات کی ترغیب دی جائے کہ کہانی میں پیش کیے جانے والے واقعات اصل حقیقت کے بہت قریب ہوں اور کہانی لکھنے والوں نے قابل اعتماد ذرائع سے معلومات حاصل کی ہوں ۔
38) گرمیوں کی تعطیلات میں اگر ممکن ہو توسیاحتی پروگرام تشکیل دیے جائیں اور اس میں افغان خیمہ بستیوں میں سے کسی ایک کا سروے بھی شامل کیا جائے۔
39) قرآن مجید میں قوموں کے عروج و زوال پر متعدد آیات موجود ہیں ۔طلبہ کو شارٹ کورس میں یہ آیات اور ان کی مستند تفسیر پڑھائی جائے۔
40) طلبہ کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کی جائے کہ جب تک کوئی قوم ذہنی طور پر شکست تسلیم نہیں کر لیتی اس وقت تک اس قوم سے حملہ آواروں کے خلاف مزاحمت ختم نہیں کی جا سکتی۔شکست یہ نہیں کہ آپ کے خطے میں دشمن کو مہم جوئی کا موقع مل گیا ہے۔شکست یہ ہے کہ آپ ذہنی طور پر غلامی قبول کر لیں۔ یہ نفسیاتی اصول طلبہ کو ازبر کرائے جائیں ۔ہمارے پڑوس میں ایران میں خمینی کے زمانے میں جنگ کے دوران میں ایسے کئی اسباق اور غیر نصابی سرگرمیاں تشکیل دی گئی تھیں ۔سرکاری سطح پر کھلے عام امریکہ کے ایران پر حملے کی صورت میں طلبہ کے ذہنوں کو پہلے سے تیار کر لیا گیا تھاکہ وہ امریکہ کے خلاف اپنے دل میں نفرتیں پالیں۔ یاد رکھیں آپ دشمن سے اس وقت تک نہیں جیت سکتے جب تک اس سے آپ نفرت نہیں کرتے۔
ایران کے طریقہ تربیت کوہماری حکومتیں بھی اختیار کر سکتی ہیں بشرطیکہ وہ غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتارنے کا فیصلہ کر لیں ۔
امریکہ چاہتے ہوئے بھی ایران پر حملہ نہیں کرتا۔بعید نہیں کہ اس کی وجہ اسکولوں کا وہ تربیتی نظام ہو جس میں متوقع حملہ آور دشمن سے قوم کے نونہالوں کو پہلے سے ہی خبردار کر کے رکھا جاتاہے۔
41) طلبہ کے درمیان تصویری مقابلہ بھی کرایا جا سکتا ہے۔تصویری مقابلے میں افغانستان میں جنگی جرائم کی عکاسی کی جائے۔
42) مسلمانوں پر مختلف خطوں میں ڈھائے جانے والے مظالم پر ہفتہ وار مستند خبر نامہ مین بورڈ پر آویزاں کیا جائے۔
ابلاغ عامہ کی سطح پر
43) ابلاغ عامہ کے ذمہ دار افغانستان کی خبروں کو نمایاں ترین جگہ دیں ۔اور اس مسئلہ کو ہرگز فراموش نہ ہونے دیں ۔
44) قابض فوجوں کے مستند جنگی جرائم کو نمایاں طور پر پیش کرنا۔
45) رائے عامہ پر اس طرح اثرانداز ہونے کی کوشش کریں کہ ہماری حکومت افغان مسئلے میں خارجہ حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے۔اگر آپ کے ابلاغی ذریعے سے عوام کامضبوط اور دوٹوک موقف سامنے آجاتا ہے تو پھر حکومت امریکہ سے کہہ سکتی ہے کہ وہ اپنا ووٹ بینک گنوا کر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کر سکتی۔
46) قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی برتاؤں کیا جاتا ہے اس کی خبریں مسلسل دیتے رہنا۔
47) علماءکرام اور واعظین مذہبی تہواروں خاص کر جمعہ کے اجتماع میں جہاد کی اہمیت کو اجاگر کریں۔
48) مسلمانوں کے مختلف اسکول آف تھاٹ کے درمیان اتحاد اور یگانت پیدا کرنا۔سامعین پر واضح کرنا کہ جو مختلف اسکول آف تھاٹ میں تسلیم شدہ آراءچلی آ رہی ہیں ان کو ہوا دے کر جو شخص نفرتیں پیدا کرنا چاہتا ہے وہ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے دشمن کا آلہ کار ہے۔جب تک اصول دین میں کوئی واضح انحراف نہ ہو کسی مسئلے پر ہجر(مسلمانوں کاوہ تعلق جس کا قائم رہنا واجب ہے ) نہ کیا جائے۔
49) مساجد میں افغانستان کے جہاد کے برحق ہونے پر مبنی لٹریچر رکھا جائے۔
50) دشمن ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا۔
51) کسب کا حلال ذریعہ اختیار کرنا
٭٭٭٭٭