ہیٹی کا زلزلہ اور غیر ملکی امداد
مغرب کی انسانی ہمدردی کے پیچھے کارفرما خفیہ مقاصد
ڈاکٹر یاسر سعد
اردو استفادہ: محمد زکریا خان
لاطینی امریکہ کے مصیبت زدہ ملک ’ہیٹی‘ میں تباہ کن زلزلہ نے استعماری ملکوں کو ہیٹی میں دراندازی کا ایک اور موقعہ دے دیا ہے۔ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہونے والا ہیٹی عرصہ دراز سے استعماری ممالک کی باہمی رسہ کشی کا شکار چلا آرہا ہے۔ یوں تو امریکہ کی فوجیں پہلے سے ہی ہیٹی میں موجود ہیں لیکن زلزلے کو اوباما انتظامیہ نے اپنے حق میں مثبت طور پر استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ ہیٹی کے زلزلہ زدگان کے لیے بھرپور امدادی کام کرے گا۔
گزشتہ دہائی سے جنگیں برپا کرنے کی وجہ سے امریکہ بہت بدنام ہو چکا ہے۔ اوباما انتطامیہ نے ہیٹی کے زلزلے کو غنیمت سمجھتے ہوئے امدادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا لیکن اندر کا نفاق چھپائے نہیں چھپ رہا۔ انسانی ہمدردی کی مسکی چادر کے پیچھے رونما ہونے والے غیر انسانی اور سیاسی مناظر نمایاں سے نمایاں تر ہوتے جا رہے ہیں ۔
جن دنوں انسانی ہمدردی کے عنوان کے تحت ہیٹی میں امدادی کارروائیوں کا پروپیگنڈا تھا ٹھیک اُنہیں دنوں فلسطین کے چھوٹے سے قصبے ’غزہ‘ کے بیرون بیرون مصر کی سرحدوں کے ساتھ بستی کے انسانی ہجوم کو فولادی حصار (دیوار) میں جکڑا جا رہا تھا۔
غزہ کی طرف نقل وحمل کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے جو مصر کی سرحدوں سے ملحق ہے۔ غزہ کی طرف کھلنے والے راستے پر مصر کی حکومت فولاد کی مضبوط دیوار تعمیر کر رہی ہے تاکہ اسرائیل کی مرضی کے خلاف غزہ میں کوئی چیز نہ جا سکے۔ غزہ کے گرد یہ فولادی حصار امریکہ کے اشارے پر تعمیر کیا جارہا ہے۔ مختصر جغرافیہ اور کثیر آبادی والے شہر غزہ میں پندرہ لاکھ نفوس کی زندگی کا دارومدار مصر سے ملحق اس راستے کے کھلنے پر ہے۔
اگر ہیٹی میں امدادی کارروائیاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہو رہی ہیں تو ایسے پاک طینت ضمیر نے یہ کیسے گوارا کر لیا کہ پندرہ لاکھ انسان میڈیا کی آنکھ کے سامنے فولادی دیوار کے اندر گھٹ گھٹ کر مر جائیں ۔ غزہ میں اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے نہ خوراک پہنچ پا رہی ہے، جان بچانے والی ادویات ندارد، شیر خوار بچوں کے لیے خشک دودھ عنقا۔
غزہ پر اسرائیلی حملے کو زیادہ عرصہ تو نہیں ہوا۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ کی آبادی پر مسلط کی جانے والی اس جنگ میں ممنوعہ اسلحہ کا بے دریغ استعمال ہوا تھا جس کی شہادت تمام دنیا نے دی تھی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہیٹی کے زلزلے کو بہانہ بنا کر دراصل امریکہ وہاں اپنی فوجی قوت بڑھا رہا ہے۔ وینزویلا کے صدر نے اپنے انٹرویو میں کہا: زلزلے کے نتیجے میں ہیٹی پر امریکہ کا قبضہ مستحکم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امدادی کارروائیوں کے لیے تین ہزار فوج جس میں میرین بھی شامل ہیں میری تشویش کے لیے کافی ہیں ۔ یاالہی یہ امدادی قافلہ ہے یا فوج کشی! ہیٹی میں امریکی اسلحہ کیا پہلے کم تھا! ہم توقع کر رہے تھے کہ ہیٹی میں ڈاکٹروں اور نقل پذیر ہسپتال بھیجے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا:
گلی محلوں اور دھنسے ہوئے لوگوں کے درمیان ہمیں کوئی امدادی قافلہ نظر نہیں آتا۔ مردہ لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں کوئی مصروفِ کار نظر نہیں آتا۔ جہاں سے آہ و بکا آرہی ہو گی وہاں کوئی امدادی کارکن نہیں ملے گا۔ آفت زدہ شہریوں کے آس پاس تو ہمیں یہ نہیں ملتے، آخر امدادی دستے ہیں کہاں؟!
فرانس کے ویلفیر کے وزیر نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس کے ایک نقل پذیر ہسپتال کو امریکی فوج کے زیرِ انتظام ہوائی اڈے پر نہیں اترنے دیا گیاہے۔
دوسری طرف امریکہ کی طرف سے امدادی کام کے نگران ڈاکٹر بارتھ گرین نے متنبہ کیا ہے کہ زخمی شہریوں کو ہسپتال منتقل نہ کرنے کے حکم سے مجھے خطرہ ہے کہ بہت سی جانیں ضائع ہو جائیں گی۔
امدادی کام کے ذمہ داران نے کہا ہے کہ امریکی نقل پذیر ہسپتالوں میں زخمیوں کے داخلے ختم کر دیے گئے ہیں ۔
اخبار نیویارک ٹائم نے خبر لگائی ہے کہ بدھوار سے ہی زخمیوں کی منتقلی روک دی گئی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ امریکی ہنگامی ہسپتالوں نے مزید زخمیوں کے علاج معالجہ سے معذرت کر لی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ زخمیوں کو ہسپتال قبول نہ کرنے کی وجہ مالی دشواری نہیں بلکہ لاجسٹک ہے۔
ہیٹی زلزلے کے فوراً بعد اسرائیل نے بھی ہنگامی نقل پذیر ہسپتال ہیٹی روانہ کر دیے تھے۔ واپسی پر امدادی ٹیم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نیتن یاہو نے امدادی ٹیم بھیجنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: اس سے بین الاقوامی رائے عامہ نے اسرائیل کے بارے میں اپنے تاثرات تبدیل کر لیے ہیں ۔غزہ حملے کی وجہ سے ہمیں طرح طرح کے الزامات کا سامنا تھا۔ وزیر اعظم کہہ رہے تھے: امدادی کارروائی کا عمل آپ نے جس خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے اُس سے اُن لوگوں کا منہ بند ہو گیا ہے جو ہم پر جنگی جرائم کا الزام لگاتے ہیں ۔ ہمارا اصل چہرہ اگر کسی نے دیکھنا ہو تو اس امدادی ٹیم کی شکل میں دیکھ لے۔
جس وقت وزیراعظم نیتن یاہواِترا اِتراکر اسرائیلی کی انسان دوستی کی بنا پر اپنی خدمات کا ذکر کر رہے تھے اُس وقت دنیا امریکہ کے کارکن (Activist ) ٹی ویسٹ کا یہ بیان سن رہی تھی کہ ہیٹی میں اسرائیل کا امدادی عملہ انسانی اعضاءکی چوری میں ملوث پایا گیا ہے۔ ٹی ویسٹ نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں اسرائیلی طبی عملے کو ہیٹی میں زلزلہ زدگان کے انسانی اعضاءجسم سے علیحدہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تعجب ہے کہ اتنے سنگین جرائم پر بھی ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری سطح پر کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ شاید اس لیے کہ جرم تیسری دنیا کے کسی غریب خطے میں ہوا ہے اور مجرم ترقی یافتہ دنیا کا کوئی ’مہذب‘ عملہ ہے۔
پچھلے ہی دنوں نیو جرسی میں امریکی انتظامیہ نے یہودی مذہبی عہدے داروں کو انسانی اعضاءکی تجارت کے جرم میں گرفتار کیا ہے۔
سویڈن کے اخبار ’افتونبلاڈیٹ‘ نے رپورٹ شائع کی ہے کہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی فوجوں نے فلسطینی شہداءکے اعضاءکاٹے ہیں ۔ اس الزام کا اعتراف بعد میں اسرائیل کے سابق میڈیکل افیئرز کے مدیر یہوداھلیو نے بھی کیا ہے۔
آفت زدہ ہیٹی میں انسانی ہمدردی کے نام پر درندگی کی تصویر کو ایک اوربھیانک منظر اس طرح پیش کرتا ہے۔
امریکہ کے سوشل ویلفیئر کے وزیر اور ہیٹی میں امدادی عملے کے نگران ایف کریسٹلن نے بتایا ہے کہ دس امریکیوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ ہیٹی سے کم از کم اکتیس بچوں کو اغوا کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ اغوا ہونے والے بچوں کی عمریں دو ماہ سے بارہ سال کے درمیان ہیں ۔ کریسٹلن نے زور دے کر کہا کہ ملزمین کی نیت ان بچوں کو گود لینے والے لا ولد والدین کی تحویل میں دینا ہرگز نہیں تھا کیونکہ اس سلسلے میں امریکہ میں واضح قانون موجود ہے۔
جنسی بے راہ روی پھیلانے والے مافیا کی ضرورت پوری کرنے میں امریکہ کے خیراتی ادارے تنہا نہیں ہیں ۔ 2007ءمیں فرانس کے خیراتی اداروں نے افریقہ کے ملک ’چاڈ‘ سے سو سے زائد بچوں کو اغوا کیا تھا۔ چاڈ کے صدر ادریس دبی نے اس سانحے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھا۔ ان بچوں کو جنسی بے راہ روی پھیلانے والوں کو فروخت کیا جاتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ بسا اوقات انسانی اعضاءکی فروخت کے لیے اغوا کیے گئے بچوں کو جنسی بے راہ روی پھیلانے والوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔
کچھ ہی عرصہ بعد ادریس دبی نے اپنے خاص اختیارات استعمال کرتے ہوئے اغوا کاروں کو معاف کر دیا۔
ادریس دبی کو بد عنوانی کی وجہ سے اپوزیشن کی سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ فرانس نے دبی سے اس سیاسی چپقلش میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
تیسری دنیا میں امداد کے نام پر یہی کھیل برسوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ انسانی اعضاءکی تجارت اور دوسری جنسی بے راہ روی پھیلانے والے مافیا کے ہاں انسانی جسم کی بڑھتی ہوئی طلب۔