ایک اور الیکشن تمام ہوئے!
(ایقاظ کے فائل سے)
حضرات!وقت ہے جو ہمارے سامنے ’پانچ پانچ‘ سال کرکے بھاگا چلا جارہا ہے۔ بچے جوان ہورہے ہیں اور جوان بوڑھے۔ ایک نسل قریب قریب گزر گئی ہے اور دوسری ضعیف العمری میں پیر رکھ چکی۔ معاشرے سر تا پیر بدلے جانے لگے ہیں۔ جہان میں روز کوئی نئی آندھی آتی ہے۔ ہمارے سوا ہر چیز شاید یہاں چل رہی ہے۔ صرف ہم ہیں، ’اپنے اپنے‘ موقف کے اسیر، جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں۔ یہ خیال تو شاید واقعتاً درست نہ ہو کہ ہم پیچھے جانے لگے ہیں، ہاں زمانہ ضرور آگے بڑھ گیا ہے۔
سب کا کچھ نہ کچھ بن گیا ہے۔ کوئی اپنی باری لے چکا، کوئی اپنی باری لے رہا ہے، کوئی باری لینے کے بعد پھر اپنی دوسری دوسری اور تیسری باری کے لئے دھکم پیل میں لگا ہے۔ بہت سوں کو ہم نے باریاں دلوائیں گو وہ ہمارے شکر گزار نہ ہوئے بلکہ عین وقت پر طوطا چشم بن گئے۔ بہت سوں کی جیت ہماری مرہونِ منت رہی۔ بخدا ہم ہیں جو باری کی آس کے بغیر کھیل رہے ہیں۔ ایک روٹین پوری کر رہے ہیں۔ نوبت اس حد کو آچکی ہے کہ ہم نہ بھی کھیلیں تو اب یہاں کوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑتا۔ خدایا، ہماری یہاں اب کمی تک محسوس نہیں ہوتی!؟
اور پھر مسئلہ اتنا تھوڑی ہے۔ ہمیں ایک نہایت غیر طبعی قسم کے اتحاد کے نتیجے میں ایک غیر معمولی کامیابی بھی تو ملی تھی۔ وہ کیا ہوئی؟کیا یہ کافی ہے کہ ہم ’فلاں‘ اور ’فلاں‘ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیں اور ایک اتنے بڑے تجربے کا صحیح تجزیہ تک نہ کر پائیں؟ کیا ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں ایک حقیقی تبدیلی لانے کیلئے کچھ اور انداز کے ’دیندار‘ چاہئیں نہ کہ وہ ملغوبہ جس کا سارا کام خراب کرنے کیلئے چند ’فلاں‘ اور ’فلاں‘ کافی ہوجاتے ہیں جو پانچ سال تک ہمارا مذاق بنواتے اور بالآخر ہمیں طاق نسیاں میں رکھ کر اپنی کسی اور مہم پر نکل جاتے ہیں؟
کیا ہمیں اندازہ ہوا کہ ایک زوردار نظریاتی و تہذیبی دھارا تشکیل دے رکھنا اور معاشرے کے اندر تبدیلی کا ایک واضح ترین مقدمہ بنا ہونا ’اقتدار‘ رکھنے پر منحصرنہیں، خصوصاً ایک ایسا اقتدار رکھنے پر جس میں بہت ساری مفاہمتوں کی ضرورت پڑی رہتی ہے؟ اور یہ کہ اقتدار کسی تحریکی مقدمے کو عمل کی صورت دینے کا محض ایک ذریعہ ہے، نہ کہ آپ سے آپ کسی مسئلہ کا حل۔ لہٰذا وہ مقدمہ ہی اگر معاشرے کے اندر ہمارے وجود سے پھوٹ پھوٹ کر باہر نہ آرہا ہو تو اقتدار کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں اور یہ کہ ایک نہایت مضبوط مقدمہ رکھے بغیر، عین ایک ویسا ہی زور دار تحریکی مقدمہ جو مولانا مودودی کی تاسیس کردہ تیس اور چالیس کی ایک مٹھی بھر جمعیت سے پھوٹ پھوٹ کر برآمد ہو رہا تھا.... ایک ایسا زورآورمقدمہ رکھے بغیر، جو سماج کی دھرتی ہلا رہا ہو، اقتدار کی راہداریاں چلنا تو نری ایک مشقت ہے؟
کیا اقتدار کے ایک نامکمل تجربے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ جمہوری عمل کے ’متبادل‘ کی بحثیں بھی فی الوقت ہماری ضرورت نہیں، لہٰذا انتخابی سیاست میں ہماری صالح اسلامی تحریکوں کی شرکت وعدم شرکت ایسی بحثوں کے دوران ’متبادل‘ لانے کا چیلنج بڑی حد تک ایک غیر متعلقہ سوال ہے۔ بلکہ اسے فضول کہیں توشاید غلط نہ ہو۔ کیونکہ ’متبادل‘ اسی چیز کا طلب کیا جاتا ہے جو کم از کم کام تو دے رہی ہو۔ شرعی بحث سے قطع نظر، جو چیز کام بھی نہ دے رہی ہو اور الٹا ہمارا ایک بھاری نقصان کئے جار ہی ہو، اس پر نظر ثانی کیلئے ’متبادل‘ کی شرط بھلا کیا ضروری ہے؟
گفتگو کا مقصد یہ نہیں کہ یہاں سیاست کے اندر ہرگز ہمارا کوئی کردار نہ ہو۔ سرخ سویرے کے خلاف جماعت اسلامی کا جہاد کس سے روپوش ہے؟ پاکستان میں رہنے والا کوئی دیندار اس کیلئے اگر جماعت کا احسانمند نہیں تو اس کا شمار انہی لوگوں میں سے ہوگا جو بندوں کے شکر گزار نہیں ہوتے تو خدا کی شکر گزاری بھی پھر نہیں کرپاتے۔ 1977ءمیں بھٹو کے کافرانہ ایجنڈے کے خلاف اٹھنے والی تحریک کا روحِ رواں ہونا جماعت اسلامی کو ہی نصیب ہوا تھا۔ اس کے علاوہ کئی اہم اہم موقعوں پر جماعت کا جو کردار سامنے آیا اور کفر کی قوتوں پر ”شوکتِ اسلام“ کی جو دھاک بٹھائی گئی پاکستان کی تاریخ میں وہ سنہری حروف سے لکھا جانے کے قابل ہے۔ لیکن کیا ایک بات پر ہم نے غور کیا؟ یہ اتنا زبردست کردار کچھ اقتدار رکھنے یا حتیٰ کہ سرے سے ایوان اقتدار میں پائے جانے پر موقوف نہ تھا۔ یہ اسمبلیوں میں جماعت کے پاس کم یا زیادہ سیٹیں ہونے یا نہ ہونے پر انحصار نہ کرتا تھا۔ یہ جس چیز پر انحصار کرتا تھا وہ تھا جماعت کا عوام میں پایا جانا۔ وہ تھا جماعت کے وجود میں ایک ایسی زوردار وبے قابو تحریک کا کروٹیں لینا جو اب ان آخری عشروں میں خاصی حد تک دھیما پڑ گیا ہے۔ وہ تھا جماعت کے ہاں ایسے اعلیٰ پائے کے افراد کا پایا جانا جو اس کی تیس اور چالیس کے عشروں میں ہونے والی اٹھان کا ایک طبعی نتیجہ تھااور جن کا پیدا ہونا ویسے ہی مباحث چھیڑ دینے کا نتیجہ ہوا کرتا ہے جو ابتدائے تاسیس کے وقت امام مودودی کے زرخیز قلم نے چھیڑ دیے تھے۔
اس زور دار ’آتش فشاں‘ کردار کے بڑی حد تک سرد ہوجانے میں اور __ چند عشروں کے اندر اندر__ ہماری ترجیحات کا محور دھیرے دھیرے تبدیل ہورہنے میں بہت سے عوامل کارفرما ہوں گے۔ یہ درست ہے۔ مگر اس میں ایک بڑا کردار جاہلیت کے ساتھ اور جاہلی قوتوں اور پارٹیوں کے ساتھ ’مفاہمت‘ کو اصولی طور پر قبول کرلینے کو بھی حاصل رہا ہے۔ جاہلی ایجنڈوں کی حامل جماعتوں کے ساتھ ’مفاہمت‘ اور ’بیچ کی راہ چل لینے‘ کا منہج.... یہ ایک ایسی ڈھلوان تھی جس پر پیر رکھنے کی دیرتھی اور پھر ہم لڑھکتے ہی چلے گئے۔ اور آج یہ حال ہے کہ اپنی مختصر سی تاریخ میں ہم پیچھے دیکھتے ہیں تو ایسی ایسی چوٹیاں نظر آتی ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا کبھی ہم ان بلندیوں پر بھی پائے جاتے تھے۔ نہ صرف ان بلندیوں پر پائے جاتے تھے بلکہ اس سے بھی بلند چوٹیوں پر نگاہ رکھے ہوئے تھے کیونکہ ہمارا رخ ہی بلندیوں کی جانب تھا، اور کچھ تو ہم میں شاید ایسے تھے جو ستاروں پر کمند ڈال لینے کی ہمت اور عزم رکھیں۔ مگر مفاہمتوں کا ایک ایسا سفر شروع کر بیٹھے کہ آج ہمارے سامنے صرف بڑے بڑے نشیب رہ گئے ہیں۔ بڑھتے ہیں تو اور نیچے جاتے ہیں اور رکتے ہیں تو ’متبادل‘ کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے، جوکہ ایک ایسی قوی ’دلیل‘ بن گئی ہے کہ ہزار رونوں پر بھاری اور ہزار بحثوں کا ایک ہی مسکت جواب ہوتی ہے!
کیا شک ہے فاصلہ تھوڑا تھوڑا کرکے ہی طے ہوتا ہے، سفر چاہے بلندیوں کا ہو یا نشیبوں کا! چلتے رہیے تو کہیں نہ کہیں ضرور پہنچتے ہیں! اور رکنا تو واقعتا انسان کے بس میں نہیں! حضرات گرامی وقائدین صد احترام! تو پھر کیا ’جہت‘ کے مسئلے پر خدا کے لئے، اور پھر ان بلند مقاصد کیلئے جن کی تکمیل کی خاطر سات عشرے پیشتر ہم نے برصغیر کا ایک نہایت برگزیدہ قافلہ تشکیل دیا تھا اور جس سے اعلیٰ چیز برصغیر کے اندر شاید اس پوری چودھویں صدی میں سامنے نہ آئی ہو.... ’جہت‘ کے مسئلے پر کیا ہم اپنے ان آخری عشروں کا ایک جائزہ لینے اور اپنے سب بھائیوں اور ہمدردوں کو اس میں شریک تفکیر کرنے پر اتفاق کر سکتے ہیں؟
جاہلی طبقوں کے ساتھ مفاہمت اور بیچ کی راہ چلنا ہمارے حق میں ایک ایسا منہج ثابت ہوا جس نے بہت جلد ہم سے عین وہ چیز چھین لی جو اس جاہلی ماحول کے اندر ہمارا اخص الخاص امتیاز ہو سکتا تھا۔ ہماری یہ ’حیرت انگیز انفرادیت‘ ہی تو ہمارا وہ کل سرمایہ تھی جو یہاں کے گھپ اندھیرے میں ہمیں ایک روشنی بنا کر رکھتی۔ جو ہمارے جذبوں کو مہمیز دیتی۔جو یہاں روشنی کے ہر طلبگار کو آپ سے آپ ہمارا پتہ دیتی۔ جو یہاں تاریک ایجنڈوں کو لے کر چلنے والوں کے تاریک پن کو اور بھی بھیانک کر دیتی اور باطل کے بطلان پر آپ اپنی زبان ہوتی۔ اور پھر سب سے اہم، اسلام کی یہ غربت ہی وہ چیز ہوتی جو ہم میں نصرتِ خداوندی کا استحقاق پیدا کرتی۔ ہمارا یہ ’فرق‘ ہی تو پس ہمارا کل اثاثہ تھا۔ اس کو تو اور سے اور گہرا اور اور سے اور نمایاں کیا جانا تھا، کہ ہماری کل جان تھی ہی اسی میں۔ اسی کی روشنائی سے تو وہ تحریر لکھی جانا تھی جو اس معاشرے میں ایک حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتی۔ جب یہی فرق، جوکہ ہماری اصل جان تھا، مدھم پڑنے لگا تو یقینی تھا کہ ہمارے وجود میں زندگی کی وہ شہ زور موجیں رفتہ رفتہ سرد پڑنے لگتیں اور بالآخر دم توڑنے لگتیں۔
تب نہ صرف ہمارا اپنا وجود بے جان ہونے لگا، بلکہ اس ’فرق‘ کے دھیما پڑنے کے باعث جو دو عشرے کی مسلسل محنت کا نتیجہ تھا اور جو ہمیں یہاں کی سب جاہلی قوتوں اور پارٹیوں سے ممتاز رکھے ہوئے تھا.... اپنی اس ’انفرادیت‘ پہ گہن لگنے کے باعث پھر یہ بھی ہونے لگا کہ ہمارے بہت سارے باصلاحیت نوجوان، جو زمانۂ طالبعلمی میں ہم سے تربیت لیتے رہے اور ہمارے اسٹیج سے اپنی صلاحیتوں کے جوہر نکھار نکھار کر جاتے رہے، عملی زندگی میں قدم رکھتے وقت ’بہتر مواقع‘ کی تلاش میں پھر دیگر اسٹیجوں پر قسمت آزمائی کیلئے نکل کھڑے ہوتے رہے۔ اور اب اس رجحان میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں کے کئی ایک اسٹیج سجے ہوئے دیکھیں تو.. بڑی محنت سے پیدا کیا ہوا ہمارا خون اب دوسروں کے کام آرہا ہے اور کچھ جاہلی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے میں ممد ہورہا ہے۔ ’اگر وہ فرق اتنا بڑا نہیں جو ہم میں اور یہاں کی بے دین ایجنڈا بردار پارٹیوں کے مابین ہے، اور جن کے ساتھ ہمارا ’اشتراکِ عمل‘ رہتا رہا ہے اور کبھی خلافِ شریعت نہیں سمجھا گیا، تو پھر خود ان پارٹیوں ہی میں جا کر کام کرلینے میں کیا حرج ہے ، جن کو اقتدار میں باری مل جانے کی کچھ آس بھی ہے‘! یہ انداز فکر اب ہمارے بہت سے باصلاحیت لوگوں میں پرورش پانے لگا ہے۔ ان کے اُن پارٹیوں میں جانے کے پیچھے بھی بڑی حد تک وہی ’عملیت‘ کار فرما ہے جو کبھی ہمیں اس کوچۂ سیاست میں چلے جانے کیلئے ایک ’دلیل‘ نظر آتی تھی اور جوکہ عموماً ’متبادل‘ کے سوال کو ہر دلیل پر بھاری جانتی ہے!
پس سیاسی کردار رکھنا ایک اسلامی جماعت کے حق میں حرج کی بات نہیں۔ باطل ایجنڈوں کے آڑے آنا، جاہلی رجحانات کی راہ میں مضبوط بند باندھنا، عوام میں باطل ایجنڈوں کے خلاف ایک بھر پور مزاحمت پیدا کرنا اور مختلف مواقع پر ان کو بروقت متحرک کرنا.... سب کچھ مطلوب ہے۔ ایک صحیح بنیاد پر رہتے ہوئے حکومتوں سے معاملہ کرنا، یا حتیٰ کہ امت کے کسی فائدے کیلئے اور کسی جائز مقصد کی خاطر حکومتوں یا دوسری پارٹیوں سے معاملہ کرنا (حلف الفضول سے بنیاد لیتے ہوئے) تک غلط نہیں(1)۔ اور بلا شبہہ جماعت نے ایک ایسا زبردست کردار بہت سے مواقع پر ادا کیا بھی ہے۔ مگر اسلامی تحریکوں کا سیاسی کردار اس بات پر موقوف نہیں کہ یہ جاہلی قوتوں کی ’شریک عمل‘ نظر آئیں اور جاہلی نظام کا حصہ۔ نہ یہ صحیح ہے کہ کسی جزوی قسم کے ہدف کی خاطر یہ اپنا وہ نہایت اصیل فرق مدھم پڑ جانے دیں جو اِن کی قوت کا اصل راز ہے۔نہ ہی یہ جائز ہے کہ ایک سیاسی کردار رکھنے کیلئے، یا ’قومی زندگی‘ میں پزیرائی پانے کیلئے، یہ اپنے اس تشخص کی قربانی دینے لگیں جو باطل اور جاہلیت سے ایک کھلی برأت رکھ کر ہی وجود میں آتا ہے۔
یقین کیجیے آج کا دین پسند نوجوان آپ کے ساتھ جڑے گا تو صرف تب جب آپ جاہلیت کے ساتھ برسر پیکار ہوں گے۔ بصورت دیگر، خصوصاً اگر آپ جاہلیت کے ساتھ بیچ کی راہ چلنے کے منہج پر گامزن ہیں، تو آپ کا یہ نوجوان اپنے جذبۂ عمل کو روپزیر کرانے اور اپنی صلاحیتوں کا مصرف کرنے کیلئے یا تو آپ کے علاوہ کوئی دینی فورم ڈھونڈے گا، چاہے وہاں جا کر وہ انتہا پسند رجحانات کا شکار کیوں نہ ہو جائے، اور یا پھر سیدھا سیدھا وہ اس جاہلیت ہی کے ساتھ چل لے گا، جس کے ساتھ آپ صرف ’بیچ کی راہ‘ چلنے تک کے ہی روادار ہوتے ہیں!
جاہلیت کے ساتھ اشتراکِ عمل کے نتیجے میں ملنے والی وقتی پزیرائی اسلامی تحریکی جماعتوں کی زندگی مختصر کرا دینے کا باعث بنتی یہاں عموماً دیکھی گئی ہے۔
بہت سی اور جماعتیں بھی، جن سے ہماری خدا واسطے کی محبت ہے، اس حقیقت سے خبردار رہیں!
(اقتباسات از: مضمون ”ایک اور الیکشن بھی تمام ہوئے“ ایقاظ جولائی تا ستمبر 2008ء)
(1) بشرطیکہ ان تمام جاہلی احزاب کا راستہ ہلاکت اور گمراہی کا راستہ ہی باور کیا اور کرایا گیا ہو۔ ان کے کفریہ ایجنڈا سے براُت نہایت واضح کر رکھی گئی ہو اور ان کے راستوں کے ساتھ جنگ اور امت کو اُن سے منحرف اور بیزار کرنے کا عمل کسی ایک لمحہ کیلئے بھی موقوف نہ ہوا ہو۔ بلکہ اگر کسی وقت یہ خدشہ ہو کہ ایک جاہلی ایجنڈا رکھنے والی قوت کے ساتھ ہمارا کھڑا ہونا حق اور باطل کے فرق کو ملیامیٹ کر دینے کا باعث ہو سکتا ہے اور نجات کے متلاشیوں کو اِس سے اندھیرے اور اجالے کے مابین ایک قربت محسوس ہو سکتی ہے تو ترجیح داعیانِ حق کے اُس تشخص کو ہی حاصل ہو جو یہاں ”تبدیلی“ کی ایک بنیادی ترین شرط ہے۔
ہاں اگر آپ ان قوتوں اور پارٹیوں کو جاہلی احزاب ہی کا درجہ دے رکھنا ’افراط‘ اور ’غلو‘ سمجھتے ہیں تو پھر اور بات ہے۔ اُس صورت میں البتہ یہ توقع رکھنا بھی درست نہ ہو گا کہ لوگ اِس کو حق اور باطل کی ایک کھلی کشمکش سمجھیں۔ تب یہی ہو گا کہ لوگ اِس کو ایک ’نقطۂ نظر‘ کا فرق سمجھیں جوکہ ان کے خیال میں آپ کے اور پی پی یا مسلم لیگ وغیرہ کے مابین کسی وجہ سے پایا جانے لگا ہے۔ اور یہی بالفعل ہو رہا ہے۔