دین کی غیر اختلافی دعوت !!!
محمد بن مالک
کوئی شک نہیں کہ دنیا کا بندہ بنا رہنے اور اپنی خواہشات و کوششوں کا محور اسی جہانِ فانی کو بنائے رکھنے کو تمام الہامی و اخلاقی مذاہب نے نہایت مذموم گردانا ہے ۔ اسلام میں تو اس کی حد درجہ مذمت کی گئی ہے ، کہ یہ مرض کافر میں ہو تو اس کے لیے قبولیت حق ، اور اگر مسلمان میں ہو تو اس کے لیے پیرویٔ حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے ۔ قرآن کریم کی بے شمار آیات اسی دنیا پرستی کی تقبیح میں وارد ہوئی ہیں ۔ الہامی مذاہب کے تمام ہی پیروکاروں میں مادہ پرستی کے برا ہونے میں کبھی کوئی نظریاتی اختلاف نہیں رہا ۔
البتہ انبیاءو رُسُل جس مقصد وحید کے لیے دنیا میں مبعوث کیے جاتے رہے وہ مجرد مادہ پرستی و دنیا پرستی کے رد سے بہت بڑی اور کافی حد تک مختلف چیزتھی ۔ انبیاءعلیھم السلام کی بعثت کا موضوع تھا : عبادت اور بندگی ۔ عبادت اور بندگی کی خواہ کوئی شکل ہو ، اگر وہ زمین پر اللہ کے ماسوا کسی ہستی کے لیے انجام پا رہی ہو ، چاہے وہ کوئی بھی ہو ، لوگوں کو اس سے نکالنا اور عبادت کی تمام اشکا ل کو ایک اللہ کے لیے خاص کروانا .... یہ تھا انبیاءعلیھم السلام کا اول و آخر مشن....۔
عبادت اور بندگی کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ دُعا، پکار، فریاد، نذر، قربانی، سجدہ، طواف، اطاعت، تعظیم، خوف، محبت، توکل، اُمّید ....، وغیرہ۔ اور ماسوی اللہ جن جن ہستیوں اور اشیاءکو لوگوں کی طرف سے یہ استحقاق ملتا رہا ہے ان کی بھی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں۔ حاضر، غائب، طبیعی، غیر طبیعی، فوق الطبیعی، مادی، غیر مادی، جاندار، بے جان، نوری، ناری، خاکی، تصوراتی.... وغیرہ، غرض کئی اقسام ہو سکتی ہیں۔ پھر ہر قسم کے اندر اس کے کئی ایک افراد پائے جا سکتے ہیں۔ اللہ کے ماسوا ان تمام اقسام کی ہستیوں اور اشیاءکیلئے عبادت کو اس کی کسی بھی شکل میں بجا لانا شرک کہلاتا ہے۔ جو سب سے بڑا جرم ہے، باعث ِخلود فی النار ہے، اور انبیاءکی انذار و تنبیہات کا اصل عنوان ہے۔
شرک جب کئی اقسام کے افعال، اطوار اور طریقوں پر لاگو ہوتا ہے تو پھر اس کے بیان میں بھی ان تمام طریقہ ہائے شرک کا با صراحت و واشگاف انداز میں رد کیا جانا چاہیے۔ کسی ایک قسم کے شرک کو ”اصل شرک“ کے طور پر پیش کرنا اور دیگر اقسام کے اَشراک کو اِسی مزعومہ ”اصل شرک“ سے برآمد ہوتا ہوا دکھانا در اصل انبیاءکے مقدمے کو بہت ہی محدود کر دینا ہے اور توحید کے تصور کو انتہائی حد تک سکیڑ دینے کے مترادف۔ شرک کا تصور سکڑے گا تو توحید کا تصور بھی، لازمی سی بات ہے، اُسی کے بقدر محدود ہوتا جائے گا۔
اول تو کسی دعوتی تنظیم یا جماعت کا ردِ شرک کو اصل موضوعِ دعوت بنانا ہی خاصا نایاب ہے، خواہ وہ ردِ شرک بہت سی اقسامِ شرک میں سے کسی ایک ہی قسم کیلئے ہو۔ کتنی ہی دعوتی تنظیمیں اور جماعتیں ایسی ہیں جن کی دعوت کے باقاعدہ موضوعات میں کوئی ایک قسم کا ردِ شرک بھی دور دور تک سرے سے نظر نہیں آتا۔ کسی کی دعوت نظامِ خلافت کے قیام کے گرد گھومتی ہے تو کسی کی حکومت کے۔ کسی کو ”اتحاد بین المسلمین“ میں ہی تمام دنیوی و اخروی مسائل کا حل نظر آتا ہے اور وہ صر ف اسی کی پکار لگاتا پھرتا ہے تو دوسری طرف بہت سارے لوگ ”نیک اعمال“ اور فرائض و سنن کی دعوت میں ہی نجات کا واحد راستہ تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
بلا شبہ ایسے گروہ بھی پائے جاتے ہیں جن کی دعوت میں توحید اور ردِ شرک اپنا حصہ رکھتے ہیں لیکن یہ شاید یہاں مٹھی بھر تعداد میں پائے جاتے ہوں بلکہ اس سے بھی کم۔ دوسرے یہ کہ ایسے گروہوں میں سے بعض کے ہاں توحید اور ردِ شرک کے علاو ہ بعض دوسرے موضوعات بھی نمایاں حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں (مانند ردِ تقلید و اختلافی فروعی مسائل) جس کی وجہ سے توحید اور ردِ شرک تو دعوت کی اصل پہچان نہیں بن پاتے، البتہ ان کے حصے کا بہت سا زور ان اختلافی فروعی مسائل کے حق میں ضرور لگ رہا ہوتا ہے۔ یا پھر بعض مسائل جو فی نفسہ شر ک نہیں (مثلاً عقیدۂ حیۃ النبی، سماعِ موتیٰ وغیرہ) شرکِ اکبر سمجھے جانے کے سبب ردِ شرک کی دعوت کا ایک بڑا حصہ وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یا پھر بعض مباحث جو چند ایک معتد بہ گروہوں کے اکابرین کی کتب میں دفن ہیں، اور واقعی شرک کو پہنچتے ہوں، ان مباحث کا نئے سرے سے ”زندہ“ کر دیا جانا بھی چند موحد دعوتی حلقوں کی توجہ اور سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ لے جاتاہے، جبکہ ان اکابرین کا تسلسل بننے والے موجودہ علماءو راہنما حضرات اِن مباحث سے بڑی حد تک ناواقف ہی ہوتے ہیں جن پراِن کی کوئی گفتگو بھی عام طورپر پائی نہیں جاتی۔ البتہ اِن موحد حلقوں کی معرکہ آرائیوں کی بدولت ہی یہ علماءیہ جان پاتے ہیں کہ اُن کے اکابرین کی بعض کتب میں کیا کیا کچھ پایا جاتا ہے۔ تب جا کر ہی یہ ان کے دفاع اور ”مناسب“ تاویلات میں خود کو مجبور بھی پاتے ہیں!
توحید اپنے اصل معنوں میں اور شرک اپنی تمام رائج ا لوقت اشکال کے اعتبار سے کسی دعوت کا اولین موضوع پھر بھی نہیں۔
البتہ شرک اور توحید ایسی ”اہم اصطلاحات“ کو اپنی گفتگو اور حساب سے بالکلیہ خارج کیے رکھنا اب سبھی دعوتی اور تحریکوں کیلئے، کم از کم اِس دور میں، ہرگز ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ چنانچہ اپنی دعوت کے اصل مضمون اور بنیادی فارمیٹ میں کوئی تبدیلی لائے بغیر ہر ایک تنظیم اور تحریک نے ہی اپنے اپنے طور پر اپنی دعوت میں توحید اور ردِ شرک کی ”پیوندکاری“ کا فریضہ انجام دیا ہوا ہے۔ توحید اور ردِ شرک کے ایسے جوانب کو اپنی دعوت میں ”شامل“ کر رکھنا جو ”اصل مضمون“ یعنی تنظیم کی بنیادی دعوت سے پوری طرح ہم آہنگ ہو اور معاشرے میں کسی کو اُس سے کوئی تکلیف ہی نہ ہوتی ہو، بلکہ سرے سے کوئی اختلاف ہی نہ ہو، جہاں انبیاءعلیہم السلام سے اپنے علائق ”بحال“ دکھائے جانے کیلئے ضروری ہے وہیں کسی دعوت کے ”بہ آسانی“ پھلتے پھولتے رہنے کیلئے بھی ناگزیر ہے!
پاکستان ایسے مسلم معاشروں میں جہاں لا الہ الا اللہ کی حقیقت سوئی ہوئی بلکہ کھوئی گئی ہے، کسی دعوت کے بڑے آرام سے پھلنے پھولنے، بڑی آسانی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے اور کسی قابل ذکر مخالفت سے بچے رہنے سے کیا اُس کی دعوت میں کسی ایسی چیز کی نشاندہی ہو سکتی ہے جس کی آج مسلم معاشروں میں بدستور سب سے زیادہ کمی اور سب سے زیادہ ضرورت ہے؟؟! جو زیادہ سے زیادہ کشمکش آج کی دعوتوں کو معاشرے میں درپیش ہو سکتی ہے وہ عام لوگوں کے اندر لاتعلقی، اور طلب کا نہ ہونا ہے، جس کی ایک حد تک ذمہ دار یہ تنظیمیں اور جماعتیں خود بھی ٹھہرائی جا سکتی ہیں۔ یا پھر وہ مخالفت ہے جو دوسرے مذہبی و سیکولر گروہوں اور تنظیموں کی جانب سے ایک سیاسی طرز عمل کے طور پر سامنے آتی ہے اور غلبہ و کنٹرول کے نقطۂ نظر سے وجود پاتی ہے نہ کہ سبیل المجرمین ا ور سبیل المؤمنین کا فرق برپا کر دیے جانے کی وجہ سے۔ یہ وہ سیاسی مخالفت ہے جو کسی بھی دو گروہوں کے مابین اٹھ سکتی ہے، جس کیلئے کسی ایک گروہ کا حق پر ہونا تو کیا محض مذہبی یا نیم مذہبی ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ آپ کے مخالفین اگر آپ کا ناطقہ بند کر دینے کیلئے اور معاشرے میں آپ کو عملاً بے قوت رکھنے کیلئے ملائیت اور تنگ نظری کی طعن بازی و الزام تراشی کیے جاتے ہیں ، حتی کہ بعض اوقات تشدد تک اُتر آتے ہیں، تو کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے معاشرے میں حق و باطل کو خوب خوب واضح کر رکھا ہے جس سے آپ کی موجودگی میں آپ کے مخالفین کو اپنی موت صاف نظر آتی ہے؟ یا یہ کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو میدان میں نہیں دیکھنا چاہتے خواہ وہ آپ ہوں یا کوئی اور؟! اور آپ کو بدنام کرنے کیلئے محض سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرنا چاہتے ہیں جیسے کہ کسی بھی دوسرے مخالف کیلئے کرتے ہیں!!!
حقیقت اسلام پر مبنی دعوت چھیڑنے کی دیر ہوتی ہے کہ آپ کے مخالفوں کیلئے آپ کا وجود ہی برداشت سے باہر ہونے لگتا ہے خواہ آپ اکیلے ہی کیوں نہ ہوں اور خواہ ابتدا میں ”غلبہ و کنٹرول“ آپ کی دعوت سے مراد لیا ہی نہ جاتا ہو۔ تب تمام اقسام کی مخالفتیں ایک واضح روپ دھارنے لگتی ہیں جسے ”حق و باطل کی کشمکش“ اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے علاوہ کوئی اور نام دیا ہی نہیں جا سکتا۔
چہ جائےکہ اسلامی جماعتیں اور تنظیمیں اپنی تمام سرگرمیاں زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہوں....، دروس، خطبات، تقاریر، سیمینارز، تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف، اجتماعات، کارکن سازی، تربیت کارکنان، دعوت و تبلیغ وغیرہ کا کام روز افزوں ترقی پر ہو....، دوسری طرف باطل اپنی تمام تر خوفناکیوں کے ساتھ بدستور سروں پر چھایا ہوا ہو....، معاملات روز بروز سنگین تر ہوتے جا رہے ہوں....، اسلام اپنے ہی دیس میں غریب الغرباءہو....، اور تہذیب و اقدار اپنے لیے جائے پناہ ڈھونڈ رہے ہوں۔!
اس سے یہ مراد ہرگز نہ لی جائے کہ لوگوں کی زبردستی کی مخالفت مول لینا کوئی دین کا فریضہ ہے! دین کی دعوت کا ایسا مبنی بر حکمت طریقہ اختیار کرنا جس سے حتی الامکان کم سے کم رکاوٹوں اور مخالفتوں کا سامنا ہو __ آپ کیلئے بھی اور آپ کے مخاطبین کیلئے بھی __ عین دین ہی کا مطلوب ہے۔ لیکن مخالفت سے بچنے کی وہ ”حکمت“، بلکہ درحقیت فرقہ واریت کی چھاپ سے بچنے کی وہ ذہنیت جس سے دعوتِ دین کی ترتیب ہی الٹ کر رہ جائے، ہرگز ہرگز کوئی حکمت نہیں ہے۔
فرقہ واریت (1) کی چھاپ سے بچنے کی فکر نے تو یہاں دعوت کی ترتیب پر انتہائی اثرات مرتب کیے ہی ہیں، یہاں کے ایک عام فرد کی ایمانی ضروریات کے عدم ادراک نے بھی دعوت کے اصل موضوع کے پس پشت چلے جانے میں اہم کردار کیا ہے۔ جو کچھ تھوڑا بہت اس (یعنی لوگوں کی ایمانی ضروریات کے) حوالے سے دعوت کے عمل میں یہاں ڈالا جا رہا ہے وہ ”یقین بمقابلہ بے یقینی“ قسم کی کوئی چیز ہے، جوکہ وعظ و نصیحت کے باب سے تعلق رکھتی ہے، نہ کہ ”توحید بمقابلہ شرک“ یا ”علم توحید بمقابلہ جہالت“ ۔ سو، مسلمانوں کے کسی مجموعے سے ”اس کے مسلمان ہونے کے سبب“ جو جو توقعات اور تقاضے ہو سکتے ہیں وہی اب یہاں کی دعوتوں اور تحریکوں کی تگ و تاز کا محور و مرکز ہیں۔ ”مسلمانوں کا مجموعہ“ تو یہاں پایا جاتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ان کا کوئی نظام خلافت یا حکومت یا اِمارت نہیں پائی جاتی؟؟!! چنانچہ اس سوال کا کوئی ممکنہ جواب تلاش کر کے دعوتی و تحریکی کوششوں کو اُسی سمت میں مرکوز کر دیا جاتا ہے۔ لوگ تو اچھے خاصے مسلمان ہیں! جہالت ہے تو بس اِسی بات کے اندر کہ مسلمانوں کا کوئی نظامِ خلافت بھی ہونا چاہیے!! یا یہ کہ اسلام کی اپنی بھی کوئی حکومت ہوتی ہے!! سارے مسائل تو بس ا یک فرقہ واریت کے پیدا کردہ ہیں۔ ورنہ سبھی تو اچھے خاصے مسلمان ہیں! رافضی، قبر پرست اور وہابی وغیرہ سب باہم ایک ہو جائیں تو اسلام آج بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہے!!! ”اتحاد بین المسلمین“ ہی وقت کی اصل ضرورت ہے!!! وغیرہ وغیرہ۔
لیکن جبکہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ ان تنظیموں اور تحریکوں کی دعوت سے بے نیاز و لاتعلق ہی رہتا ہے تو پھر اِن کی طرف سے اغلباً یہ ”منطقی“ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ دنیا کے ہنگاموں نے اور دنیا کمانے کی خواہش نے ”اچھے بھلے مسلمانوں“ کو کہیں کا نہ چھوڑا، جبھی تو ا ن کے پاس اب اتنی بھی فرصت نہیں ہے کہ اسلامی جماعتوں اور تحریکوں کو دست ِتعاون فراہم کر سکیں۔ کمی ہے تو بس اسی بات کی کہ لوگوں کو اسلامی نظام کی اہمیت نہیں معلوم! بیچارے مسلمانوں کو اگر نہیں پتہ تو صرف یہی کہ مسلمانوں کے کسی مجموعے پر خود اسلام کی حکومت ہونا کس قدر ضروری ہے! یا اگر کوتاہی ہے تو نماز روزہ، ذکر و فکر ِصبح گاہی و نالۂ نیم شبی اور تبلیغی دوروں میں شمولیت کی۔ باقی سب خیریت ہے! اور کونسی اسلام کی ایسی ”بنیادی“ شیءہے جسے لوگ نہیں جانتے!!؟ اللہ کو پہلے سے مانتے ہیں! رسول پہ ایمان رکھتے ہیں! یوم آخرت کا ان کو پتہ ہے! قرآن پہ بھی ایمان رکھتے ہیں! بس ذرا خلافت یا اسلامی حکومت یا فرائض و سنن کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ یہ کمی پوری ہو جائے تو بس اسلامی انقلاب کی راہ ہموار ہے!! لیکن برا ہو اِس دنیا پرستی اور مادہ پرستی کا کہ ”اچھے خاصے مسلمانوں“ کو اسلام کے اِن اہم ترین تقاضوں سے غافل رکھے ہوئے ہے! یہی تمام برائیوں کی جڑ ہے! ”اصل شرک“ یہی مادہ پرستی ہے! علاج ہونا چاہیے تو اسی مرض کا! رد ہونا چاہیے تو اسی ایک شرک کا!!!
یوں ایک ایسا ”مفید و مؤثر“ طریق کار ہاتھ آتا ہے جس کے ذریعے تنظیموں اور تحریکوں سے لوگوں کے دور رہنے کی بھی ”صحیح تفسیر“ ہو جاتی ہے، جو داعیوں کے ضمیر کو مطمئن کر رکھنے کیلئے بہت کافی ہوتی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ طریقہ لوگوں میں ان کی دنیا داری اور خدا فراموشی کے اعتراف اور ”احساسِ جرم“ کے تحت ایک انفعالی تاثیر پیدا کر کے ”بطور کفارہ“ اپنی اپنی تنظیموں اور جماعتوں میں شامل کرنے کے کام آتا ہے۔ یعنی مادہ پرستی کے ”شرک“ سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں!! یا کم از کم آپ کی فکر اختیار کر لیں! او ر سب سے بڑھ کر یہ کہ ردِ شرک کی دعوت کا سب سے محفوظ اور آسان سرا ہاتھ لگتا ہے، کیونکہ یہ وہ رد ہے جس پر یہاں کسی کو سرے سے کوئی اختلاف ہی نہیں۔ خود ”دنیاداری کے شرک“ میں مبتلا لوگ، لوگوں کی دنیا پرستی کا رونا روتے اکثر نظر آتے ہیں۔
کسی شرک کا اگر اِن تنظیموں اور جماعتوں کے منابر سے ”ببانگ دہل“ اور ”علی الاعلان“ رد ہوتا ہے تو وہ یہی مادہ پرستی اور نفس پرستی کا ”شرک“ ہے اور یا پھر لکڑی پتھر کے بتوں کو پوجنا۔ جس سے یہاں نہ تو کسی کو کوئی اختلاف ہو سکتا ہے اور نہ جس سے یہاں پائے جانے والے باطل کے ساتھ حق کا کوئی نزاع ہی سامنے آسکتا ہے۔ باقی وہ شرک جس کی بیخ کنی کیلئے انبیاءعلیہم السلام سینکڑوں ہزاروں برس تک ایک کے بعد ایک زمیں میں بھیجے جاتے رہے، اور جس کا رد ہمیشہ حق و باطل کے درمیان ابتدا ہی سے ایک حقیقی ، اصولی اور انتہائی بنیادی نزاع کھڑا کر دینے کا باعث بنتا رہا، وہ اگر اِن دعوتوں اور تنظیموں میں کہیں سننے کو ملتا بھی ہے تو بہت ہی سرسری انداز میں، بالکل ضمنی طور پر اور وہ بھی درونِ خانہ۔جبکہ عین اُسی وقت معاشرے میں وہ شرک اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہو، اور زبانِ حال سے چیخ چیخ کر برسوں سے اپنی طرف متوجہ بھی کر رہا ہو۔ اپنی کسی تقریر کے کسی مقام پر، یا کسی تالیف میں کسی جگہ پر، آپ __ موضوع کے تقاضے کے تحت __ توحید الوہیت یعنی توحید ِ عبادت کے چند پہلوؤں کا ”بھی“ ذکر کر جائیں گے، جس طرح اور بہت سی باتوں کا ضمناً کر جاتے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ جہاں آپ نے پہلے ہی بیسیوں موضوعات پرسےنکڑوں تقاریر اور تألیفات کررکھی ہوں وہاں اِس موضوع پر ”بھی“ الگ سے اپنی ہی تنظیم کے کارکنان کے کسی ”تربیتی پروگرام“ میں کوئی ایک آدھ ”باقاعدہ“ تقریر کر رکھی ہو، یا کوئی تألیف کر چھوڑی ہو، جس سے ”نکتہ چینوں“ کا منہ بخوبی بند کیا جا سکتا ہو! اِس بات میں زور اور شدت لانا اور اس کو نہایت اہم معاملے کے طور پر پیش کرنا البتہ وہ چیز ہے جو شاید بلکہ یقینا آپ کے ہاں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ اور اس کو دعوت کے طور پر پیش کرنا بلکہ اپنی دعوت کا عنوان بنانا تو خیر سے بالکل ہی عنقا ہے۔ شرک تو آپ لوگوں سے یقینا چھڑوائیں گے ہی، لیکن اپنی تنظیم یا جماعت میں داخل کر لینے کے بعد! اور وہ بھی غیر محسوس اور سرسری سے انداز میں! ردِ شرک ایک عمومی معنیٰ میں آپ کی دعوت کا عنوان پھر بھی نہ ہو گا۔ اِس سے پہلے پہلے البتہ آپ صرف مادہ پرستی اور نفس پرستی کا شرک واضح کرنے کے پابند ہوں گے۔ باقی رہے عام لوگ تو جب تک وہ اپنی ”مادہ پرستی اور نفس پرستی کا خول“ توڑ کر آپ کی تنظیم یا جماعت میں شامل نہیں ہو جاتے تب تک اس بات کے مستحق قرار نہیں پاتے کہ آپ سے توحید الوہیت کے چند پہلو ہی سیکھ پائیں، کیونکہ ایسی کوئی بات آپ کی دعوتِ عام میں پائی ہی نہیں جاتی۔حالآنکہ یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں پیچھے عرض کیا گیا ہے کہ معاشرے میں اِسی کی سب سے زیادہ کمی اور اِسی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
بطور مثال، پاکستان کا کونسا علاقہ ایسا ہوگا جہاں دُعا، پکار، نداء، حاجت روائی اور استمداد کا شرک سرِ عام بلکہ بہت سی مساجد کے منبروں سے ڈنکے کی چوٹ پر نہ کیا جاتا ہو، جس کی گونج ”خاص دنوں“ میں تو بہت ہی اُونچی کر دی جاتی ہے۔(ویسے تو شرکیہ مجالس اور پروگرام پورا سال ہی چلتے ہیں۔ یوں سال کا ہر دِن ہی ”خاص “ہوتا ہے!) اور یہاں کی کونسی قابل ِ ذکر دعوتی تحریک ہوگی جو اپنی تنظیم میں شمولیت کی پیشگی شرط کے بغیر، اپنے عام دعوتی دروس و تقاریر کے پروگراموں میں (نہ کہ محض اپنے ہی کارکنوں یا طالبعلموں کو ”منتخب نصاب“ قسم کی کوئی چیز ”منتخب“ انداز میں پڑھاتے ہوئے!) اِس شرک کی قباحت بیان کرکے لوگوں کو اِس کے انجام سے ڈراتی ہو؟؟!!
اور مزارات پہ جو کچھ ہوتا ہے اُس سے تو بچہ بچہ واقف ہے۔ لیکن یہاں کی دعوتی تحریکوں کے پاس اس تمام خرافات اور شرک کی بد ترین شکلوں سے لوگوں کو روکنے کا اِس کے سوا اور کیا حل ہے کہ وہ ”پہلے“ اُن کی تنظیم یا جماعت میں شامل ہو جائیں؟؟!! ”تنظیمی عمل“ میں بندھ جانے کے بعد یہ خرافات ”خود ہی“ اُن سے چھوٹ جائیں گی!! یا یہ کہ جب یہاں کا نظام یا اِقتدار اِن تنظیموں کے ہاتھ آئے گا، تب ہی یہ اِس شرک کو ختم کرنے کے بارے میں ”سوچیں“ گے!سبحان اللہ! نظام گویا کوئی جادو کی چھڑی ہے جس کے ذریعے آپ پلک جھپکتے میں اِسلام کے تمام مسائل حل کر لیا کریں گے۔! بھلا لوگوں کو سدھارے اور اُن کے عقائد کی اِصلاح کیے بغیریہاں کے نظام کی باگ ڈور اِن تنظیموں کے ہاتھ کیوں لگنے لگی؟! بھلا لوگوں کو کیا پڑی کہ وہ خواہ مخواہ ہی اِن تنظیموں میں شامل ہوتے رہیں؟؟ اُن کے بھلا کون سے کام اِن تنظیموں کے بغیر بند ہیں؟! یہاں کی قابل ِ ذکر اسلامی تنظیموں اور جماعتوں نے کیا کبھی اِن شرکیہ و کفریہ کاموں کے اندر جہنم کی آگ دہکتی ہوئی اِن لوگوں کو دِکھائی ہے ، جو اُس سے بچنے کے لیے یہ اِن تنظیموں کا رُخ کرنے پر آئیں؟؟؟؟
رہا شرک کے بڑے بڑے داعیوں اور سرغنوں سے برأت و بیزاری کا معاملہ تو اُس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کوئی صاحب یہاں شرک ِ اکبر کی کئی ایک شکلوں کو سرِ عام پھیلا رہے ہوں، قرآن و حدیث میں دجل اور تلبیس کے ذریعے اپنے شرکیہ مذہب کے لیے دلائل بھی مہیا کرتے ہوں، مستزاد یہ کہ خود کو شیخ الاسلام بھی کہلاتے ہوں، اور یہاں کی داعی اسلامی تنظیموں کے ہاں اُن کے اشاعت ِ کفر و شرک کا ردّ و اِبطال تو بہت دور کی بات، اُن کی بابت سرے سے کوئی موقف ہی نہ پایا جاتا ہو۔!! کتنے ہی گروہ یہاں ایسے ہیں جن کی سرگرمیوں اور دعوت کا لبِّ لُباب ایک نقطہ پر آکر مرکوز ہو جاتا ہے جسے شرک و بدعت کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ یہ شرک و بدعت یہاں کی دعوتی تحریکوں کو اِن گروہوں کی بابت کسی خاص طرزِ عمل یا اُصولی اقدام پر آنے کا کسی درجہ میں کوئی سبب ہی نہیں بن پاتا۔ظاہر ہے، ایک چیز جب یہاں کی دعوتی تنظیموں کے لیے وجۂ نزاع ہی نہ ہو، اور دعوتِ عام کے نقطۂ نظر سے matter ہی نہ کرتی ہو تو اُس سے کوئی اُصولی موقف جنم لے بھی کیسے سکتا ہے؟؟!! جبکہ دعوٰی ہر ایک دعوتی تحریک کا یہ ہو کہ وہ عین نبوی منہجِ دعوت پر قائم ہے۔!! وجہ اِس کی شاید اِن تحریکوں کا یہ ”اصولِ دعوت“ ہو کہ کسی اُصولی دینی مسئلے میں جب پوری قوم متفق و ہم آواز نہیں ہے تو اُس میں اختلاف کو ہوا دینا ویسے ہی درست نہیں ہے!!!!
سوال یہ ہے کہ کسی قوم کے اندر توحید کی دعوت اُٹھانے کا موقع کب آئے گا؟؟ اُس وقت جبکہ پوری قوم توحید پر پہلے ہی متفق ہوگی؟؟؟ یا اُس وقت جبکہ اُس پر قوم میں بگاڑ اوراختلاف پایا جاتا ہوگا؟؟! اور لوگوں کی ایک اکثریت توحید کے تقاضوں سے نابلد ہونے کے سبب شرکِ اکبر میں مبتلا ہوگی؟!
کوئی قوم جب توحید پر قائم ہوگی تو وہاں توحید کی دعوت اُٹھانے کا معاملہ ویسے ہی درپیش نہیں ہوگا۔ اور جب وہاں توحید میں بگاڑ یا اختلاف ہوگا تو ”اختلافی“ ہونے کے سبب اُس پر بات کرنا ”حکمت“ کے تقاضے کے خلاف ہوگا!!!! تو آخر توحید کی دعوت اُٹھانے کی نوبت آئےگی کب؟؟؟؟ یہاں کی دعوتی تحریکوں کے ہاں تو اِس طرح اِس کی باری آتی دکھائی نہیں دیتی۔
لوگوں کی دلآزاری سے بچنے کا مسئلہ ایک توحید کی دعوت کے معاملے میں ہی کیوں سوالیہ نشان بن کر اِن تنظیموں کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے؟؟ کیا شرک کرنے والے کہیں اِس بات کا لحاظ کرتے نظرآتے ہیں؟ پھر، آپ سے کس نے کہا ہے کہ ضرور ہی پتھر پھینک مارنے والے انداز میں لوگوں کو توحید کی طرف متوجہ کریں؟! دلآزاری تو آپ کے اپنے ذاتی انداز اور طرزِ عمل سے کسی کی نہیں ہونی چاہیے ۔رہی دعوت ِ توحید تو وہ تو خدا کا حق ہے اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا اظہار۔ سب سے بڑی سچائی سے ہی منہ موڑ لینے والوں کو اُس کے اِظہار سے تکلیف ہوتی ہے تو ضرور ہو۔ شرک کو برا کہنے سے اہل ِ شرک کی دلآزاری کیوں نہ ہوگی؟! وہ بھی کیا اہل ِ توحید ہوتے ہوں گے جن سے شرک کے بڑے بڑے سرغنہ تک کوئی تکلیف ، چبھن اور مزاحمت محسوس نہ کرتے ہوں۔!!
آج جبکہ جاہلیت ِجدیدہ سروں پہ بیٹھ کر کفر و الحاد کے راگ پورے سُروں میں الاپ رہی ہے، اور شرک اپنی تمام شکلوں میں سر چڑھ کر بول رہا ہے، بیشتر اسلام کی داعی تنظیموں اور تحریکوں کی ”دعوتِ توحید“ (اگر کوئی ہے تو) ”جیسی ہے اور جہاں ہے کی بنیاد پر“ ان کے اپنے کارکنوں تک محدود ہے، اور جو ایک نہایت سرسری، سطحی اور جزوی شکل میں پائی جاتی ہے۔ جتنے بھی ”فہم ِدین“، ”تفہیم ِ اسلام“ اور دروس و تفسیر قرآن کے پروگرامات عوام الناس کیلئے ان تحریکوں کی جانب سے منعقد کرائے جاتے ہیں وہ عمومی طور پر دعوتِ توحید سے ”پاک“ ہی ہوتے ہیں۔ البتہ دورانِ تفسیر جہاں جہاں شرک کا بیان آ جائے وہاں اُس کے معانی کا رخ مادہ پرستی یا نفس پرستی وغیرہ کی جانب موڑ دینا بھی ضروری جانا جاتا ہے!
دعوت کی یہ شکل شاید اپنی نوعیت کی کوئی حیرت انگیز ترین چیز کہلائے جانے کی مستحق ہو کیونکہ اس میں پایا جانے والا ردِ شرک تو انتہائی حد تک غیر اختلافی ہے ہی، ان دعوتوں کے لبِّ لُبا ب اور مندرجات سے بھی شاید ہی کسی کو اختلاف ہوجانے کی نوبت آتی ہو ، اور جس سے شاید ہی کسی قابلِ ذکر پیمانے پر کوئی نظریاتی ٹکراؤ واقع ہوتا ہو ، الا یہ کہ کوئی شخص پہلے سے ”نظریاتی طور پر“ ملحد ہو، جو کہ ظاہر ہے کہ کوئی عام طور پر پایا جانے والا واقعہ نہیں۔ یہاں عامۃ الناس تو یہی جانتے ہیں کہ اسلامی نظام ہی سب سے بہتر نظامِ زندگی ہے۔ حکومت ”اسلامی“ ہی ہونی چاہیے۔ خلافت کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ شریعت کا نفاذ ہونا ضروری ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ الگ بات کہ تفصیلات، تعبیرات، توجیہات وغیرہ میں ہزار درجے کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر لوگ جمہوریت کو ہی خلافت کی ایک عملی صورت سمجھتے ہیں۔ شریعت کا نفاذ بھی ہو تو اِسی جمہوری طریقے سے ہو! ”اسلامی حکومت“ جمہوری، بلکہ ایک گونہ طور پر سیکولر ہی ہوتی ہے!! (کیونکہ جمہوریت اور سیکولرزم کا باہم چولی دامن کا ساتھ جو ہے)۔ شریعت سے منسوب جو چیز میڈیا کی چھلنی سے چھن کر نکل آئے وہی شریعت کہلانے کے لائق ہے! بہت سوں کے نزدیک ممکن ہے کہ موجودہ سسٹم ہی عین اسلامی ہو! (ستم بالائے ستم ، کہ یہاں کی بہت سی دعوتی تحریکیں خود جمہوری اقدار پر آخری حد تک یقین رکھتی ہیں) غرض اِس تمام اختلاف، اختلاط اور التباس کے باوجود یہاں کی بڑی اکثریت بنیادی طور پر __کم از کم مجملاً __ اسلام اور اس کی اقدار پر ہی ایمان رکھتی ہے۔ تعبیر اور تفصیل میں البتہ ہزار درجے کا فرق اور اختلاف ضرور دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلامی نظام کی اہمیت پر متفق ہو جانا ایک چیز ہے اور اس کی صحیح تعریف پر آجانا ایک بالکل دوسری چیز۔
چنانچہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ یہاں کی دعوتی تحریکوں کی کوششوں کا محور و مرکز لوگوں کو اُس چیز پر تیار کرنا ہے جس کے لوگ اپنے اپنے تصورِ دین کی روشنی میں پہلے سے قائل ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ لوگوں کے تصورِ دین میں آپس کا اختلاف بھی جس کے قائل ہونے میں مانع نہیں ہے۔ البتہ وہ چیز جو بالفعل لوگوں کو اِن تحریکوں کے گرد اکٹھا کر دینے میں مانع ہے، باوجود اِس کے کہ لوگ دعوت کے عنوان میں عمومی طور پران تنظیموں سے متفق ہیں، وہ لوگوں کی اپنی ترجیحات ہیں، نہ کہ لازمی طور پر ان کی مادہ پرستی یا نفس پرستی۔ لوگوں کے تصورِ دین اور عقائد کی درستی و اصلاح البتہ ان دعوتوں کا بنیادی موضوع ہے نہ مقصد!
اسلام کیا ہے او رہم سے کیا چاہتا ہے۔ اس کا آغاز کن چیزوں سے ہوتا ہے اور اس سے منسوب رہنے کی کیا لازمی شرائط اور تقاضے ہیں۔اسلام کا بڑے سے بڑا فریضہ کونسا ہے۔ اسلام کے اصولوں پر چلنا کیوں ضروری ہے اور یہ کہاں کہاں کن کن چیزوں سے ختم ہو سکتا ہے....، اسلام کے تصورِ دین میں اسی قسم کی موٹی موٹی بنیادی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ خرابی اِنہی امور کے دھندلا جانے اور ان میں فرق و اختلاف آجانے سے پیدا ہوتی ہے۔ دعوت کی بنیاد میں اِسی قبیل کی باتیں شامل رکھی جا سکتی ہیں۔ اسلام کی بنیاد جسے توحید الوہیت یا توحید عبادت کہا جاتا ہے، جو اسلام کا اولین مقدمہ اور اس کی روح ہے۔ اسلام اور اس کی دعوت کے سوتے اسی سے پھوٹنے چاہییں۔ تبھی ان دعوتی تحریکوں کی دعوت کے عنوانات سے عامۃ المسلمین کا اتفاق مفید و ثمر آور ہونے کی کوئی امید ہو سکتی ہے۔ دین کی اصطلاحات تو وہی ہوں البتہ ان کی تعبیرات بڑی حد تک متغیر ہو چکی ہوں، دین کی ترتیب بدل چکی ہو، اور پورا تصورِ دین اپنی تفاصیل کے اندر مسخ ہو گیا ہو، تو محض اصطلاحات کی ”غیر اختلافی“ دعوت سے، دعوت اور احیائے دین کے تقاضے کہاں تک پورے ہو سکتے ہیں؟؟
آپ لوگوں کو لاکھ دورۂ تفسیر قرآن اور دورۂ حدیث کراتے رہیں، عربی گرامر، ترجمۂ قرآن اور اصولِ فقہ سکھاتے رہیں، جو بلا شبہ ایک نہایت مستحسن کام ہے اور دین کی ایک بڑی خدمت۔ تاہم لوگ آپ سے یہ سب دینی تعلیم آپ کی جماعت یا تنظیم کی بنیادی دعوت کی روشنی میں ہی حاصل کرنے کے حقدار ہوتے ہیں! آپ کی تنظیم کا اپنا تصورِ دین بلکہ اس کی مرکزی دعوت (مانند اسلامی حکومت، یا خلافت یا قتال وغیرہ) اس تمام دینی تعلیم و تربیت میں روح کی مانند سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے۔ یوں بڑی آسانی اور خوبی کے ساتھ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے جماعت یا تنظیم کی بنیادی دعوت کی ”خدمت“ کرائی جاتی رہتی ہے۔ البتہ جس بنیادی کام کیلئے یہ قرآن و حدیث بھیجے گئے ہیں __ یعنی بیانِ توحید اور ردِ شرک کیلئے __ وہ یا تو سرے سے مفقود ہوتا ہے یا توحید اور شرک کی چند چھوٹی چھوٹی شکلوں کے ذکر تک محدود رہتا ہے، وہ بھی اپنی ترتیب سے ہٹ کر ،بہت بعد میں جا کر اور اپنی ہی مجالس کے اندر، نہ کہ بیانِ عام کے طور پر۔ پھر ستم کی بات یہ کہ اِس تھوڑے بہت بیانِ توحید و شرک کی غایت و مقصود بھی تنظیم کی بنیادی دعوت ہی ہوتی ہے، یعنی اسلامی حکومت، خلافت یا فرائض و سنن کی پابندی وغیرہ۔
دعوت کو اس کی اصل بنیادوں پر استوار کیے بغیر آپ جتنے مرضی لوگوں کو قرآن اور عربی گرامر پڑھاتے رہیں، تبدیلی اس سے آنی ہے نہ کبھی آئے گی۔ البتہ اس سے آپ اپنے تنظیمی مواقف کی ”مدلل مداحی“ اور حمایت کرنے والوں کی ایک تعداد شاید ضرور پیدا کر لیں۔
تبدیلی ہمیشہ کشمکش سے آتی ہے۔ معاشرہ کسی بڑی تبدیلی کا شدت سے راہ تک رہا ہے۔اور اسلام اور اس کے شعائر سے انتساب کے باوجود برسوں سے اپنی بنیادوں سے ہی اُکھڑا ہوا ہے۔ آئیڈیالوجی کی ایک بڑی کشمکش اٹھا دینے کے علاوہ تبدیلی کی کوئی صورت یہاں ممکن نہیں....، ایک ایسی آئیڈیالوجی جوخالص توحید کے اِظہار اور شرک کی تمام شکلوں کے کُھلے کُھلے ردّ و اِنکار پر بِنا کرتی ہو۔ اس تبدیلی کیلئے یہاں کی اسلامی دعوتی تحریکیں پہلی اور آخری امید ہیں۔ اِن تحریکوں کو باہر کی جنگ سے بھی پہلے ابھی اندر کی جنگ لڑنی ہے اور یہاں کے سیکولروں ، ملحدوں، زندیقوں اور مبتدعین کی راہ کھوٹی کرنی ہے۔ لیکن کیا کسی ایسی چیز کو دعوت کی بنیاد بنانے سے کہ جس سے یہاں معدودے چند افراد کے علاوہ کسی کو تکلیف نہ ہوتی ہو، یہاں کوئی حقیقی کشمکش کھڑی کی جا سکتی ہے؟ اور کیا ایسی کسی حقیقی کشمکش کے بغیر یہاں کسی تبدیلی کی راہ ہموار ہونا ممکن ہے؟؟؟
٭٭٭٭٭
مادہ پرستی ہو یا نفس پرستی، امت مسلمہ کے اندر اگر یہ پائی جاتی ہو تو __ عام حالات میں __ زیادہ سے زیادہ یا تو شرک ِاصغر ہو گی یا شرک ِخفی(2)۔ شرک ِاکبر یہ پھر بھی نہ ہو گی جو انبیاءکے جھگڑوں اور اختلافات کا ہمیشہ اصل عنوان رہا۔ شرک ِاصغر اور شرک ِخفی کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینا اور اُس سے بچانے کی کوشش کرنا ایک بہت ہی فضیلت والا کام ہے۔ البتہ ان دونوں کا بیان شرک ِاکبر کی وضاحت اور اس کے رد کیلئے کی جانے والی کوششوں سے بالکل بھی کفایت نہیں کرتا۔ شرک ِاکبر کی وضاحت میں البتہ یہ دونوں ذیلی موضوعات کی حیثیت میں ضرور سامنے آ جاتے ہیں۔
حب دنیا ایک چیز ہے اور دنیا ہی کا بندہ بنا رہنا ایک الگ چیز۔ یعنی مادہ پرستی بہ اعتبارِ کیفیت مثلاً حبِّ مال و جاہ اور عیش پسندی کچھ شیءہے اور مادہ پرستی بہ اعتبارِ عقیدہ نظریہ مثلاً انکارِ آخرت و خدا وغیرہ کچھ اور۔ آخرت، بعث بعد الموت، حشر نشر اور جزا و سزا وغیرہ تو وہ امور ہیں جن میں مسلمانوں کے بہت سے گمراہ فرقوں میں بھی کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ بلکہ جن میں بہت سی غیر مسلم امتیں مثلاً یہودی، عیسائی وغیرہ تک مسلمانوں سے متفق ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں میں مادہ پرستی اگر پائی جاتی ہے تو اپنی کیفیت و مظاہر کے لحاظ سے، نہ کہ حقیقی اور نظریاتی طور پر۔ نظریاتی مادّہ پرستی اور نفس پرستی بمعنی ایک عقیدہ، طرزِ زندگی اور نظامِ حیات تو صرف گذشتہ تین چار صدیوں میں اہلِ مغرب کے ”دورِ تنویر“ (Enlightenment Period ) سے گزرنے اور کلیسا یعنی مذہب سے چھٹکارا پا لینے کے نتیجے میں وہاں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ تاہم اہلِ مشرق مختلف الہامی و اخلاقی مذاہب کے پیروکار ہونے کے ناتے عمومی طور پر ایسے کسی ”نور“ (Enlightenment ) سے تاحال ”محروم“ ہی ہیں۔
نبی علیہ السلام کے اولین مخاطب یعنی مشرکین عرب مادّہ پرست (بمعنی منکرینِ آخرت) ہی تھے۔ ان کی تگ و تاز بلکہ نیک اعمال کا محور و مرکز بھی یہ دنیائے فانی ہی تھی ۔ وہ خدا کے علاوہ اپنے بتوں کا تقرب اور رضا طلب کرنے والے اعمال بھی اپنی دنیا کی زندگی میں راحت، شادمانی اور آسودگی حاصل کرنے کی غرض سے کیا کرتے تھے۔ وہ خدا کو تو مانتے تھے لیکن ان معنوں میں ”دہریہ“ تھے کہ دنیا کے علاوہ کسی اور زندگی اور جہان پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ
”اور (یہ) کہتے ہیں کہ ہماری تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے، (اسی میں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارتا ہے“۔ (الجاثیۃ -24)
وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ
”اور کہتے ہیں کہ ہماری بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہمیں دوبارہ جی کر نہیں اُٹھنا ہے“۔
(الأنعام -29)
اس کے باوجود نبی علیہ السلام کی دعوت ترکِ مادہ یا ترکِ دنیا پر مبنی نہ تھی۔لوگوں کو دنیا کے ہنگاموں سے نکالنا انبیاءعلیہم السلام کی بعثتوں کا کوئی مقصد یاہدف سرے سے تھا ہی نہیں۔ اہلِ مکہ کی مادہ پرستی اور دہریت کے علی الرغم نبی علیہ السلام نے اپنی دعوت کا آغاز لا الہ الااللہ سے کیا اور ان معبودوں کا انکار کروایا جن کی معاشرے میں بالفعل پرستش ہوتی تھی۔اس اصل دعوت کو اٹھانے کے ساتھ رسالت،آخرت اور کتاب پر ایمان خودبخود ایک لازمی تقاضے کے طور پر اس دعوت سے وابستہ ہو گئے۔ رسالت اور کتاب پر ایمان اسی لاالہ الا اللہ پر ایمان لانے کا ہی ایک راستہ تھا۔اور آخرت پر ایمان اس ایمان کی وجوہات کو مستحکم کرتا تھا۔ اس کے بعد بھی ایک لاالہ الااللہ کی دعوت ہی پورے عرصۂ نبوت میں تمام دیگر ایمانی موضوعات پر غالب رہی۔ بلکہ دیگر تمام ایمانی موضوعات اسی مرکزی موضوع کو واضح کرنے کا ذریعہ بنتے رہے.... ۔ لا الہ الا اللہ ...کفر باالطاغوت اور شرک کی تمام رائج اشکال کے بر سرِ عام انکار کے معنوں میں، اور خدا کے تمام حقوق اس کی مخلوق سے چھین کر اسی کے سپرد کر دینے کے معنوں میں ....۔
مادہ پرستی قرآن کی وعیدوں اور تنبیہات کا موضوع اس وقت بنی جب یہ حبِّ جاہ و مال و اولاد وغیرہ کی شکل میں قبولیت حق میں رکاوٹ بنی۔ انبیاءکی دعوت کا موضوع یہ پھر بھی نہ تھی۔ البتہ وہ ”حق“ جس کو قبول کرنے میں یہ مادہ پرستی لوگوں کے آڑے آتی رہی وہی ”حق“ از اول تاآخر انبیاءعلیہم السلام کی دعوت بنا رہا۔چنانچہ اصل حیثیت حق کے احقاق کی تھی نہ کہ اس کی قبولیت میں مانع ہو جانے والے ،لوگوں کے اپنے concerns کی۔
آج برِّصغیر کے مسلمانوں میں مادہ پرستی و نفس پرستی بہ اعتبارِ عقیدہ و نظریہ تو اغلباً بالکل نہ ہو۔ البتہ کیفیت کے اعتبار سے یہ سنگینی کو پہنچی نظر آتی ہے۔ دوسری طرف شرک کی شاید ہی کوئی شکل ہو جو اس مسلمان معاشرے میں نہ پائی جاتی ہو ۔ بہ الفاظِ دیگر مادہ پرستی کا شرک نہ ہوتے ہوئے بھی آج کے مسلمان بحیثیتِ مجموعی شرک کی تمام اقسام میں ”خود کفیل“ ہیں۔ دوسری طرف کوئی شرک آج کی چند قابلِ ذکر دعوتوں اور تحریکوں کی دعوت میں انکار، ردّ اور برأت کا کچھ حصّہ پاتا ہے تو وہ مجرّد یہی شرک ہے! جو اپنی اصل کے اعتبار سے یہاں پایا ہی نہیں جاتا۔ایک حاکمیت کا شرک تھا سو وہ بھی ایک عرصے سے یہاں برأت سے ”محروم“ ہے!کیونکہ اب مرکزی موضوع محض اسلامی حکومت کا قیام رہ گیا ہے، نہ کہ غیراللہ کی حاکمیت کا ردّ۔ رہیں شرک کی چہار اطراف پھیلی برہنہ مثالیں، تو ان کا خاتمہ تو کیا، محض ردّ کیا جانا بھی ان دعوتی تحریکوں کا سرے سے کوئی ہدف اور مقصد ہی نہیں۔ کسی تعلیمی عمل سے گزارتے ہوئے یا ”منتخب نصاب“ پڑھاتے ہوئے اپنے ہی کارکنوں کو یا مستقبل کے امیدوارانِ رکنیت (potential members or supporters) کو ” شرک کی حقیقت اور اس کی اقسامِ “بھی بتادی جائیں توبہت کافی ہے!البتہ جب ”مطالباتِ دین“ ایسے موضوع کے تحت اپنا تصوّرِ دین یا فرائض ِ دین کا خاکہ بیان کرنا ہو تو معاشرے میں رائج جملہ اقسامِ شرک کا ردّ اور کفر باالطاغوت ان مطالبات اور فرائض میں کوئی مقام ہی نہ رکھتے ہوں!!!
لازم ہے کہ یہاں کے ایک عام فرد کی ایمانی ضروریات کا درست اور ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے۔ یہ ایمانی ضروریات اگر محض ”کمالیات“ یعنی زہد و تقوٰی اور سنن و مستحبات سے واقفیت یا اسلامی نظام و خلافت کی اہمیت جان لینے سے تعلق رکھتی ہوتیں تو پھر تو صورتحال کی کوئی تصویر بہت پہلے ہی بن چکی ہوتی اور معاملہ ان دعوتوں کے ہاتھوں کب کا سرے لگایا جا چکا ہوتا۔ اور زہے نصیب، کہ اسلام کا سفینہ بر سر ساحلِ مراد پہنچ چکا ہوتا۔ لیکن جب کہ امت کی خرابی و خستگی روز بروز بڑھتی پائی جاتی ہے اور اسی کے بقدر ان دعوتوں اور تحریکوں کی حیرانی اور سرگردانی بھی، تو پھر کیوں نہ اس زوال و انحطاط کی تفسیر ایمان و عقیدہ کی ”مبادیات“ میں نقص سے کی جائے، بجائے ”کمالیات“ میں کمی کے؟؟
یا پھر شاید معاملہ یہ ہے کہ معاشرے میں پھیلے عقائد کے اس بگاڑ کو ان تحریکوں کے یہاں بھی اسلام کے لیے قابلِ نقص ہی نہ سمجھا جاتا ہو، اور عقائد کے ”اختلاف“ کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے ”وسیع تر امور “ میں مسلمانوں کو اپنی اپنی تنظیم کے قریب لانا ہی قابلِ عمل اور وقت کا تقاضا خیال کیا جاتا ہو۔ تنظیم یا جماعت میں شامل ہونے کے بعد لوگوں کے عقائد بھی ”وقت آنے پر“ ٹھیک ہوتے رہیں گے! البتہ ایسی کسی چیز کی دعوت جس سے لوگوں کی اکثریت کے ابتداءہی میں برگشتہ ہو جانے کا اندیشہ ہو، اور دعوتی عمل کے دوران ہی لوگوں کا اختلاف سامنے آجانے کی نوبت آسکتی ہو، تنظیمیں اور جماعتیں بھلا کہاں اس کی متحمل ہو سکتی ہیں؟ خواہ ”وہ چیز“ ہمیشہ انبیاءکی بنیادی دعوت ہی رہی ہو!!
یوں اِن تنظیموں اور جماعتوں کے اِس طریقۂ دعوت سے، ان میں شامل ہونے والے افراد کے ذہن میں دین کی جو ترتیب بنتی ہے اس میں توحید بہت بعد میں جا کر آنے والی، کوئی” لچکدار قسم کی“ اختلافی چیز کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اِس طرح جو تصور دین فروغ پاتا ہے اُس کی رُوسے توحید کے مسئلہ میں لوگوں کو بہت زیادہ نہیں توایک ”معقول حد تک“ گنجائش ضرور ملنی چاہیے!!۔ چنانچہ تنظیم و جماعت کے پلیٹ فارم سے ہٹ کر اپنے انفرادی اور نجی ماحول میں بھی اِن لوگوںمیں اکثر اِس قسم کی ”فرقہ وارانہ“ باتوں سے اجتناب ہی دکھائی دیتا ہے۔ البتہ شرک اورتوحید کو مادہ پرستی اور نفس پرستی کے ”اتفاقی“ بلکہ ”اجماعی“ رنگ میں بیان کیا جائے تواِس سے بیانِ توحید کا فرض بھی پورا ہو جاتا ہے اور تنظیم کی طرف دعوت دینے کا کام بھی آسان ہو جاتا ہے!!
امت کی یہ مادہ پرستی جو قائم بہ اعتبارِ کیفیت ہے نہ کہ بہ اعتبارِ عقیدہ و نظریہ، یہ مادہ پرستی مسلمان داعیوں کی وعظ و نصیحت ، ترغیب و ترہیب اور تذکیر کا موضوع تو ہو سکتی ہے کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق تقوی، زہد، فکر آخرت اور تعلق مع اللہ ایسے معاملات سے ہے، جیسا کہ قرآن میں بھی تذکیر کو مؤمنین کے لیے منفعت بخش کہا گیا ہے۔ اس کا تعلق ایمان کی کمی بیشی سے ہے نہ کہ ایمان کی اصل سے۔ ایمان کی اصل جو کہ عقیدہ یا نظریہ ہی ہوتی ہے وہی دعوت کا اصل موضوع بننا چاہیے۔ پس یہاں کے داعیوں کے لیے __خصوصاً جو انقلاب کے علمبردار ہیں __ یہ از حد ضروری ہے کہ وہ وعظ و نصیحت کے موضوعات اور دعوت کے موضوعات کے مابین واضح تفریق قائم کر کے دونوں کو الگ الگ از سرِ نو مرتب کریں اور معاشرے میں اپنے ارد گرد ان موضوعات کے مخاطبین کو بھی نئے سرے سے دریافت کریں، تا کہ جس کا جو مرض ہو اسی کی تشخیص کے لحاظ سے اسے دوا ملے۔ جس کے ایمان کو پھل پھول کر تناور درخت بننا ہو، اُسے اس کے مناسب غذ ا ملے، اور جس کے ایمان کو ابھی ابتداءسے ہی پھوٹنا ہو، اس کے حسب حال سامانِ کاشت کاری بہم پہنچایا جائے۔
یہ بہرحال صاف صاف واضح ہو کہ ہماری اِس تمام گفتگو کا مقصد نہ تو لوگوں کوتوحید کی اصل پر قائم یہاں کی اِسلامی دعوتی تحریکوں اور تنظیموں سے برگشتہ کرنا ہے اور نہ اِن تنظیموں سے برأت کا اعلان کرنا۔ دین کا بہت سا عمل ، جیسا تیسا سہی، اِنہی تحریکوں کے ذریعے یہاں انجام پا رہا ہے۔ ہمارے نزدیک اُمّت کے انحطاط سے نکل کر پھر سے جادہ پیما ہونے کا اِمکان اگر ہو سکتا ہے تواِنہی دینی تحریکی جماعتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے سے۔ چنانچہ دعوت کے بنیادی مضمون کے حوالے سے تبدیلی کی کوئی صورت اِس تحریرسے اگر پیدا ہو سکتی ہے __اِن جماعتوں کے کارکنان کے لیے بھی اور ان کی قیادتوں کے لیے بھی__ تو اِس سے ہمارا یہی مقصود ہے۔
٭٭٭٭٭
(1) فرقہ واریت کیا ہے اور کیا نہیں ہے، دعوت ِ توحید کے پسِ پُشت چلے جانے میں فرقہ واریت کے اِلزام نے کس طرح اہم کردار ادا کیا ہے اور یہاں معاشرہ کے کرتا دھرتاؤں نے اسلامی تحریکوں تک پر اِس اِلزام کے ذریعے کس طرح اپنی مرضی کے خلاف امور کی نشر و اِشاعت پر ایک طرح کی ’اخلاقی‘ پابندی لگا رکھی ہے....، بلکہ اِن تحریکوں نے ان کی یہ پابندی قبول کر رکھی ہے....، یہ سب جاننے کے لیے مدیرِ ایقاظ اُستاذ حامد کمال الدین کی تألیف ”موحد تحریک“ کی درج ذیل فصول کا مطالعہ انتہائی مفید رہے گا: ”فرقہ واریت ہے کیا؟“، ”دعوتِ توحید اور فرقہ واریت“ اور ”تأثرات کی مار“۔
(2) شرکِ اصغر اور شرکِ خفی کے مباحث کی تفہیم کے لیے دیکھیے ایقاظ اکتوبرتا دسمبر 2009 ءمیں مدیرِ ایقاظ کا مضمون: ”شرکِ اصغر اور شرکِ خفی کا بیان“۔ علاوہ ازیں، شرکِ اکبر کی تفصیلی وضاحت کے لیے ایقاظ جولائی تا ستمبر 2007 ء میں شائع شدہ مضمون: ”توحید کی ضد شرک ہے“ از مدیرِ ایقاظ استاذ حامد کمال الدین۔