|
|
|
|
|
مستعار
بازار اوریا مقبول جان
ایک ترقی یافتہ مہذب اور جمہوری ملک صرف انیس سو(1900) ایسی خواتین سے خوفزدہ ہے جو چہرے پر نقاب ڈال کر اس کے بازاروں میں نکلتی ہے۔ فرانس کا یہ خوف اس قدر ہے کہ پوری پارلیمنٹ اس پر ایک طویل عرصے سے بحث کر رہی ہے۔پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ ایسی خواتین کی اصل تعداد گن کر بتاؤ جو چہرے کو چھپا کر بازار آتی ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مال کے کیمرے ، جگہ جگہ نصب سیکوریٹی کیمرے ، حتی کہ ٹریفک کنٹرول کرنے والے کیمروں سے اعداد و شمار جمع کئے گئے تو یہ کل انیس سو نکلے ۔ یہ انیس سو کمزور ، پردے میں لپٹی اور صرف اپنی ضروریات کے لئے گھروں سے نکلنے والی خواتین اس قدر خطرناک کیوں ہیں؟پورے فرانس کے چھوٹے چھوٹے قصبوں تک سے جمع کرکے ان خواتین کو اگر پیرس کے شانزے لیزے پر جمع بھی کردیا جائے تو یہ قابل ذکر تعداد نہیں بنتی۔ لیکن پھر بھی پورے فرانس کا میڈیا اور سیاسی رہنما چیخ چیخ کر ان پر پابندی لگانے کو کہہ رہے ہیں۔ یہ یورپ کا واحد ملک ہے جو اس نقاب پردہ یا چہرے کے ستر کا فرانسیسی ترجمہ نہیں کرتابلکہ لفظ "برقعہ" استعمال کرتا ہے اور ساری بحث اگرچیکہ فرانسیسی میں ہو، سارا میڈیا کوئی بھی زبان بولے لیکن ان سب کی گفتگو میں لفظ برقعہ باربار اپنے اصلی لہجے میں ادا کیا ہوا مل جائے گا۔ اور اب تویہ لفظ عالمی میڈیا کی ہر بڑی زبان کا حصہ بن چکا ہے۔ جس طرح آج سے دس سال پہلے حجاب جو مغربی میڈیا میں اجنبی تھا اب وہ ہر یورپی زبان کا جزو لاینفک ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ انیس سو خواتین جو برقعہ اوڑھ کر گھر سے نکلتی ہیں وہ کونسی دہشت گردی کی مہم کا آغاز کر رہی ہوتی ہیں۔ وہ کونسی آزادی نسواں، حقوق انسانی اور سیکیولر طرز زندگی کو چیلنج کر رہی ہوتی ہیں۔ وہ کن جمہوری اقدار کے لئے خطرہ ہیں ۔ وہ تو بحیثیت انسان اپنی مرضی سے لباس پہننے کا حق استعمال کررہی ہوتی ہیں۔ پھر ان کے اس طرح باہر نکلنے سے کس کی دم پر پاؤں آتا ہے اور کون ہے جو اس آغاز سے خوف زدہ ہے۔ نہ حجاب کل تک کوئی اخلاقی، جمہوری اور مذہبی مسئلہ تھا اور نہ برقعہ کسی ایسی جمہوری روایت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ صرف ایک لمحے کو گذشتہ ایک سو سال سے پھلتی پھولتی اور اربوں ڈالر کماتی فیشن انڈسٹری کو غور سے دیکھیں تو آپ کو اس سارے غصے اور غیض و غضب کی وجہ سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کمزور، نحیف اور ناتواں انیس سو خواتین نے کن بھیڑیوں کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کی ہے۔ یہ بھیڑیے پوری دنیا میں بہت معزز اور محترم ہیں۔ پورا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ان کا باج گزار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اقوام متحدہ کے خواتین کے حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عورت کے پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک ہر مقام کو بازار میں لے آئے ہیں لیکن حقوق نسواں کی کوئی تنظیم ان کے خلاف آواز بلند نہیں کرتی۔ یہ کئی سو ارب ڈالر کی فیشن اور ایڈورٹائزنگ انڈسٹری کے مالک ہیں۔ یہ پوری دنیا کی خواتین کو اپنی انگلیوں کے اشارے پر نچاتے ہیں اور ان کے جسموں کے تناسب کو برسر عام نمائش پر رکھ کر اپنی دنیا بھرمیں پھیلی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پہیہ گھماتے ہیں۔ 1910 میں جب انہوں نے فیشن شوز اور ماڈلنگ کے کاروبار کا آغاز کیا تو انہوں نے خواتین کو نعرہ دیا کہ انہیں نرم و گداز ہونا چاہیئے۔ لیکن صرف دس سال بعد جب 1920 میں اکثر ملکوں میں عورت کو ووٹ کا حق ملا تو اسے ایک اور دوڑ دھوپ میں لگا دیا گیا کہ اسے پر گوشت اور گداز نہیں بلکہ پتلی، نرم و نازک اور دھان پان کی طرح ہونا چاہیئے اور پھر اس پوری انڈسٹری نے عورتوں کو فاقے کرنے اور رات دن ورزش کرنے جیسے عذابوں میں پھنسا دیا۔ ٹھیک تیس سال بعد جب ان کی مرضی کے مطابق عورتوں نے خود ان کے بنائے گئے فیشن کے معیارات کے مطابق ڈھال لیا تو بے چاری عورت جسے انہوں نے نمائش کی بھوکی بنا دیا تھا ایک بار پھر ان کے جال میں آگئی۔ یہ عرصہ صرف پندرہ سال کا تھا۔ ادھر خواتین کے حقوق کی جدوجہد شروع ہوئی اور ادھر 1965 میں پوری فیشن انڈسٹری اور ایڈورٹائزنگ نے خواتین کو کمزور، نازک ، کانچ کی بنی ہوئی اور دبلی پتلی ماڈلز کا تحفہ دیا اور پوری دنیا کی خواتین آج تک اسی خوف کے سائے میں پل رہی ہیں کہ کب ان کے جسم پر ایک پاؤنڈ وزن زیادہ آجائے اور وہ خو د کو فاقوں اور ورزشوں کی اذیت میں ڈال دیں ۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق جسے جوہان ہیری نے ریفرنس کے طور پر پیش کیا، یہ بتایا کہ 80فیصد خواتین اپنے جسمانی تناسب کی وجہ سے ناخوش ہیں اور یورپ اور امریکہ کی پانچ کروڑ خواتین ایسی ہیں جو ایک نفسیاتی مرض Anaroxiaکا شکار ہوگئی ہیں جس میں خود بخود بھوک مٹ جاتی ہے اور وزن خطرناک حد تک کم ہوجاتا ہے۔ امریکن سائیکولاجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ستر فیصد خواتین ایسی ہیں جو صرف تین منٹ کسی فیشن میگزین کو دیکھ لیں تو ان پر ڈیپریشن طاری ہوجاتی ہے۔ یہ سب میڈیا کے زوردار ہتھیارسے کیا جاتا ہے اور وہاں اس بے چاری عورت کو سجا سنوار کر یوں کاروباری منڈی میں کھڑا کیا جاتا ہے کہ ہر کوئی اسے تہذیب اور آزادی کے نام پر داد دیتا ہے۔ اس انڈسٹری کے بڑھتے ہوئے اثرو نفوذ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ امریکہ میں 1971 تک ٹیلی ویژن پر ہر ہفتے 714کمرشیل آتے تھے یعنی ایک سال میں عام آدمی 37000کمرشیل دیکھتا تھا۔ جبکہ اب روزانہ ٹیلی ویژن پر تقریباً دو ہزار کمرشیل آتے ہیں یعنی ہر سال سات لاکھ تیس ہزار کمر شیل اور ان میں نوے فیصد سے زیادہ عورتوں کی نمائش سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان کمرشیل میں عورتوں کے جسمانی اعضاءکو نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ مردوں میں ان کے چہروں کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ اس جسمانی دہشت گردی کا صرف ایک نتیجہ جان ایلن کوین کی تحقیق سے لگائیں کہ جو مرد اس طرح کے جسمانی خطوط کے اشتہار دیکھتے ہیں ان میں جنسی جرائم، خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی کے رجحانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ خود اس ساری فیشن انڈسٹری کا اندرونی حال یہ ہے کہ اگست 2009 میں انند جان کو 59سال قید کی سزا سنائی گئی جس پر سولہ ماڈلز اور ایک بچی کے ساتھ زیادتی ثابت ہوئی۔ وہ اپنے تمام کیریر میں کئی سال مسلسل کمسن بچیوں کو ہوس کا نشانہ بناتا رہا۔ یہ وہ فیشن ڈیزائنر ہے جس کے کپڑے پیرس ہیلٹن جیسی مشہور ماڈل بھی پہننے پر فخر کرتی ہے۔ میں یہاں ایسے ہزاروں کیس پیش کرسکتا ہوں لیکن یہ سب فیشن زدہ ماحول اور طرز زندگی ان جرائم سے خوف زدہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ انہیں کاروباری اثرات کا نام دیتے ہیں۔ ایسی وارداتوں اور اس طرح کے جنسی تلذذ سے تو انہیں اور تحریک ملتی ہے۔ عورت بازار کی زینت بنتی ہے تو پھر اس سے وابستہ اربوں ڈالر کی انڈسٹری کا جائزہ لیجئے جو دن رات ترقی کرتی ہے۔ بالوں کو رنگنے، شیمپو، چہرے کے خدوخال، جسم کے تناسب کے ملبوسات ، ہزاروں قسم کے میک اپ، لاکھوں کی تعداد کے پر فیوم، بیوٹی پارلر اور جسمانی خوبصورتی کے مراکز، لاکھوں کی تعداد میں پلاسٹک سرجن، جوتوں سے لے کر سر اور بالوں تک قابل توجہ پہناوے، آنکھوں، ہونٹوں اور گالوں کو پر کشش بنانے کا سامان۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ ان کی تعداد پر جو فہرستیں مرتب ہوئی ہیں وہ بھی کئی سو جلدوں میں ہیں۔ یہ کئی سو ارب ڈالر کی انڈسٹری ہی نہیں اس کے پیچھے چھپی وہ ہوس بھی ہے جو عورت کو ہر پہلو سے بازار میں لا کر اپنے جذبوں کی تسکین چاہتی ہے۔ جہاں دولت اور جنس کی ہوس اکٹھی ہوجائے وہاں اسے للکارنے والا ایک شخص بھی زہر لگتا ہے اور یہاں 1900عورتیں ہیں جو یہ اعلان کرر ہی ہیں کہ ہم نے تماشا نہیں بننا ، ہم نے بازار میں نہیں کھڑا ہونا، ہم تمہارے اس لائف سٹائل پر لعنت بھیجتی ہیں۔ یہ کیسا منافق لائف سٹائل اور حقوق نسواں کا ایجنڈا ہے جو کچن میں کام کرکے تھکنے والی عورت کو مظلوم کہتا ہے اور فیشن کے خبط میں فاقوں مرنے، گھنٹوں ورزش کرنے اور مہینوں صرف جوس اور پانی پر زندگی گزار کر مردوں کے لئے تماشا بننے والی عورت کو روشن خیال، آزاد، جمہوریت پسند اور مہذب قرار دیتا ہے۔ فرانس جس میں روزانہ مسلمان ہونے کی تعداد تین سے چار ہے اور جس کے بارے میں یہ اندازے ہیں کہ2025 تک یہ مسلم اکثریت کا ملک ہوگا وہاں یہ 1900خواتین اس حرص و ہوس کی منڈی میں ایک ایسا آغاز ہیں کہ اگر اسے کچلا نہ گیاتو کل یہ سوال عام ہوسکتا ہے کہ اس سارے دھندے میں عورت ہی تماشا کیوں بنتی ہے، اسی کی عریا نی کیوں بیچی جاتی ہے، اسے ہی بازار میں لا کر کیوں کھڑا کیا جاتا ہے، آرٹ، ادب، فیشن اور آزادی کے نام پر۔ ( بشکریہ ڈیلی ایکسپریس)
|
|
|
|
|
|