شرح رسائل توحید
بسلسلہ تعارف: ”شروط لا الٰہ الا اللہ“
مقدمہ طبع دوم
”صالح اعتقاد“ ہماری پہلی ضرورت ہے
اِن اللہ طیب لا یقبل اِلا طیبا!!!
”عقیدہ“ کوئی ’فلسفہ‘ یا ’علم الکلام‘ کا موضوع نہیں۔ یہ عام مسلمان کی ایک بنیادی اور روزمرہ ضرورت ہے....
”عقیدہ“ مسلمان کی وہ ضرورت ہے جو نماز سے بھی پہلے آتی ہے اور روزہ سے بھی۔ اِس کا درجہ حج اور زکات سے بھی پیشتر ہے اور صدقہ و خیرات سے بھی اور بھلائی کے عام کاموں سے بھی۔
”عقیدہ“ وہ چیز ہے جس سے نماز و روزہ، حج و زکات اور صدقہ وخیرات ایسے سب نیک اعمال ”اللہ وحدہ لاشریک کی عبادتبنتے ہیں.... یہاں تک کہ بھلائی کے وہ عام کام بھی، جن پر کم و بیش دنیا کا ہر مذہب اور ہر اخلاقی فلسفہ زور دیتا ہے، ”خدا کی بندگی“ بن جاتے ہیں۔
”خدا کی بندگی“.... یعنی وہ چیز جو اگر ہونے لگے تو سمجھو دنیا میں آدمی کے آنے کا مقصد پورا ہوا۔ شرط یہ ہے کہ خدا ہی اس کو اپنی ”بندگی“ شمار کرے۔ اِس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ بندہ خدا کی بابت اپنا تصور درست کرے۔ نیز وہ اپنے یہاں خدا کی وہ حیثیت طے کرے جو انسانوں کی اِس دنیا میں خدا کے لائقِ مقام ہے اور پھر اس میں کسی کو اُس کا شریک نہ رہنے دے:
فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا۔ (الکہف: 110)
”پس جو شخص امیدوار ہے کہ اپنے رب سے جا کر ملے، تو اُسے چاہیے عمل کرے نیک۔ اور ہرگز شریک نہ کرے اپنے رب کی عبادت میں کسی ایک کو۔“
خدا کی بابت آدمی نے اپنا تصور ہی اگر درست نہیں کر رکھا.. نبی سے سیکھ کر خدا کی وہ حیثیت ہی ابھی نہیں مانی جس کو تسلیم کروانے کیلئے دنیا میں خدا کے پیغمبر آتے رہے.. تو اس سے پہلے اگر وہ نیکی کے کچھ ’اعمال‘ کرنے بھی لگتا ہے تو وہ آدمی کے حق میں فائدہ مند بہر حال نہ ہوں گے۔ ایسا شخص ’اعمال‘ جتنے بھی کر لے، وہ ”عبادتِ خدواندی“ کی صفت سے خالی ہی رہیں گے۔
خدا کا بندے سے مطالبہ ہے کہ سب سے پہلے یہ اُس کی بابت اپنا ”اعتقاد“ درست کرے۔ ’اعمال‘ قبول ہونے کیلئے اُس کی یہ باقاعدہ شرط ہے۔ خدا کی اِس شرط کو پورا کئے بغیر آدمی اگر بے حد وحساب نیکیاں بھی کرلے تو وہ بندے کے اپنے ہی نفس کی تسکین ہوں گی یا زیادہ سے زیادہ اُس کو دنیا میں فائدہ پہنچانے والی کوئی چیز۔ خدا کو خوش کرنے والی اور اگلے جہان تک ساتھ دینے والی چیز بہرحال نہیں۔
خدا کی یہ جو شرط ہے، اِس کو پورا کئے بغیر ’نیک اعمال‘ قبول ہونے کی آس لگانا تو ہے ہی خام خیالی۔ ’گناہوں کی بخشش‘ تک اُس کے یہاں ”عقیدہ“ کو پاک کئے بغیر ممکن نہیں؛ اِس کے لئے بھی شرط یہی ہے کہ آدمی پہلے اُن باطل تصورات سے تائب ہو جو اُس ذاتِ کبریائی کی بابت آدمی نے محض اپنی جہالت سے قائم کر رکھے تھے۔ نبی سے اپنے خالق کا درست تعارف پائے اور اُس کی وہ یکتا حیثیت تسلیم کرے جس کی رو سے اُس کے شریک کھڑے کرنا روئے زمین پر ہونے والا سب سے سنگین اور سب سے بڑھ کر ناقابل معافی جرم ہے۔
غرض ”شرک“ سے دستبردار ہوئے بغیر آدمی کی ”نیکیاں قبول ہونا“ تو بہت بڑی بات ہے، ”گناہ معاف ہونے“ کی درخواست بھی اُس کے ہاں نہیں سنی جاتی! یہ بات اُس نے اپنی کتاب میں نہایت واضح اور ہر شک و شبہ سے بالاتر کر رکھی ہے۔
”عقیدہ“ کا سنور جانا پس وہ چیز ہے جس سے آپ کی نماز روزہ ودیگر اعمالِ عبادت میں وہ حیرت انگیز صفت آجاتی ہے کہ یہ اعمال اپنے اوپر آسمان کا کوئی ایک بھی دروازہ بند نہ پائیں اور عرش تک ان کی راہ میں کوئی چیز حائل نہ ہو، پھر خدا کے ہاں یہ اعمال ”قبولیت“ پا کر سر بمہر کر دیے جائیں اور قیامت تک کیلئے سنبھال رکھے جائیں۔
آپ خود سوچیں، نیک اعمال تو نیک اعمال ہیں ، یہ بھلا خدا کو پسند کیوں نہ آئیں گے؟! خدا اگر کسی کا ’نیک عمل‘ رد کرتا ہے(1) تو اس کا سب سے بڑا سبب یہی ہو سکتا ہے کہ خدا کو وہ شخص ہی ناپسند ہو جو یہ عمل کرنے میں لگا ہے۔ خدا کو اُسی شخص کا عمل پسند آئے گا جو خود پہلے خدا کو پسند ہو۔ خدا اپنی مخلوق کو بلاوجہ ناپسند بھی نہیں کرتا۔ البتہ آدمی باطل عقیدہ میں لتھڑا ہوا ہو اور اُسی اعتقاد کی غلاظت میں لت پت وہ اُس پاک ذات کو پوجنے کھڑا ہو گیا ہو تو بھلا کیسے وہ اس سے خوش ہو سکتا ہے؟ وَثِيَابَكَ فَطَهِّر !!! پہلے ”شرک“ سے طہارت اور برأت حاصل کرے اور نبیوں سے سیکھ کر ”توحید“ والی پاکیزگی اور ستھرائی اختیار کرے، پھر البتہ وہ خدا کی تعظیم میں ایک لفظ بھی بولے تو وہ اُس کے ہاں قبولیت پائے بغیر نہ رہے گا۔ تب آدمی خدا کی تسبیح و تقدیس کا کوئی ایک بھی پیرایہ بیان کرے تو اُس کے فرشتے آگے بڑھ کر یہ کلمات وصول کرنے کو موجود ہوں گے۔ اُس کی نگری میں یہ تو ہونے والا ہی نہیں کہ ایک ”نیک عمل“ ردی میں پھینک ڈالا جائے! ”عبادت“ ایسی اعلیٰ چیز اُس کے ہاں ضائع چلی جائے! ”نیکی“ وہ چیز ہی نہیں جو مٹی میں رُل جائے! ”بھلائی“ کی یہ صفت ہی نہیں کہ وہ خاک میں مل جائے! لکھوکھا فرشتے اُس نے صرف اِس مقصد کیلئے پھیلا رکھے ہیں کہ آسمان کی کوئی چیز یہاں زمین پر پڑی نہ رہ جائے! اُس کے کارندے اِس بات کے پابند کر رکھے گئے ہیں کہ ”بندگی“ اور ”عبادت“ نام کی کوئی چیز اُس تک پہنچائے بغیر نہ چھوڑی جائے! ”عبادت“ کی ایک ایک رَتی تولنے کے لئے تو اُس نے اپنے یہاں ترازو نصب کر رکھے ہیں! اِس جنس کا تو اُس نے وہ مول لگا رکھا ہے کہ آدمی کے لیے اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اور یہ ”مول“ دیکھ کر، جاننے والوں نے اِس راہ میں اپنے جان مال تک اُس کے ہاتھ بیچ ڈالے!!! پس ’نیک اعمال‘ سے بڑھ کر اُس کو کیا چیز عزیز ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ ”صالح اعتقاد“ سے پھوٹ کر آئیں؟! ”صالح اعمال“ کہیں گے ہی ہم اُن اعمال اور رویوں کو جو ”صالح اعتقاد“ کی ڈالیوں پر نمودار ہوں۔(2)
انبیاءکی کاشت کردہ فصل تو ایسی ہی ہوتی ہے....!!!
ایک ’خود رَو‘ فصل سے ”بہشت“ کے ثمر تھوڑی پھوٹ سکتے ہیں....!!!
”عقیدہ“ سنوار لینا پس ایسی ہی ایک پاکیزگی اور آراستگی پا لینے کا نام ہے، جس سے آدمی خدا کے ہاں قبول ٹھہرتا ہے۔ پھر جب وہ خود خدا کے ہاں قبول ہوتا ہے تو اُس کے نیک اعمال خدا کے ہاں قبول ہوئے بغیر رہتے ہی نہیں!
صاحبو! ہر چیز اپنے ’پتے‘ پر پہنچ کر رہتی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ”نیکی“ خدا تک نہ پہنچے؟!! وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ !!!(3) ”توحید“ دراَصل دنیا میں خدا کا ”پتہ“ ہے، اور ”پتے“ کے بغیر چیز بہرحال نہیں پہنچتی!!!
پس آپ غور کریں تو ”صحیح اعتقاد“ انسان کی سب سے بڑی اور سب سے پہلی ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اِسی پر زور لگایا اور اِسی کو اپنی محنت اور جدوجہد کا اصل میدان بنایا۔
********
مزید برآں.. ”عقیدہ“ وہ واحد چیز ہے جو مسلمان کو ابتداءً وجود میں لاتی ہے....
”مسلمان“ ایک بار وجود میں آ جائے پھر تو واقعتا اُس کو ”نماز“ بھی پڑھنا ہوتی ہے، ”روزہ“ بھی رکھنا ہوتا ہے، ”زکات اور حج اور صدقہ وخیرات“ ایسے نیکی کے سب کام بھی کرنا ہوتے ہیں بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل اعمال کا پورا ایک نظام اختیار کرنا ہوتا ہے اور پوری زندگی ایک جہاد اور مجاہدہ میں گزرانا ہوتی ہے۔ البتہ اہم ترین بات یہی ہے کہ سب سے پہلے ایک مسلمان ”وجود“ میں آئے۔ یہ کام آپ کو ”عقیدہ“ کے سوا کوئی چیز نہیں کر کے دے سکتی۔ ”نماز“ ایک مسلمان کو وجود میں نہیں لاتی، بلکہ وجود میں آئے ہوئے ایک مسلمان کیلئے خدا کی بندگی اور عبادت کی ایک صورت بنتی ہے۔ یہی معاملہ روزہ کا ہے اور یہی معاملہ حج اور زکات اور جہاد کا اور یہی اسلام کے دیگر سب اعمال کا۔ یہ سب ایک ”مسلمان“ کے کرنے کے کام ہیں۔ اِن پر زور دینا بھی یوں آپ سے آپ ضروری ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ایک ”مسلمان“ کو عدم سے وجود میں لے آنا ”توحید“ ہی کا کمال ہے۔”صالح اعتقاد“ کے سوا ”مسلمان“ کو وجود میں لانے کا کوئی نسخہ نہیں۔(4)
پس یہ تو درست ہے کہ کاشتکار محنتی نہ ہو تو اُس کا کاشت کردہ شجر شاخوں اور شگوفوں سے لدا ہوا نہیں ہوتا، اور کہیں تو یہ حال ہوتا ہے کہ ’ثمر‘ نام کی کوئی چیز نہیں۔ پھر بھی ”موحدین“ کا منہج محض ’اعمال‘ کی دہائی دینا نہیں۔ ”محنت“ بھی ہوگی تو اِس شجر ہی کی کچھ ایسی اصلاح کر دینے پر کہ اِس میں ”اعمال“ کو جنم دینے کی صلاحیت آئے۔ ”شجر“ یہی لا الٰہ الا اللہ ہے؛ ہرا بھرا ہونا ہے تو اِسی کو۔ دیکھ بھال کی جانا ہے تو اِسی کی۔ اور ”ثمر“ لینا ہے تو اِسی سے!!!
********
”صحیح اعتقاد“ جب وہ پاکیزگی اور آراستگی ہے جو آپ کو ابتداءً خدا کے ہاں قبول کرواتی ہے، اور جس کے بعد آپ کے ”اعمال“ میں وہ صفت آتی ہے کہ یہ اُس ذاتِ بے نیازی کے التفات کا محل ٹھہریں، اور حق یہ ہے کہ ایسے اعمال کی پیدائش کی نوبت ہی تب آتی ہے جب ان کی تہہ میں وہ ”صالح اعتقاد“ پایا گیا ہو.... تو پھر یہ بات جان لینے کی ہے کہ اِس پاکیزگی اور آراستگی کی کوئی حد نہیں۔ اور جب اِس پاکیزگی اور آراستگی کی کوئی حد نہیں تو پھر ”قبولیت“ کی بھی کوئی حد نہیں!!!
اصل پاکیزگی جب ”اعتقاد“ کی پاکیزگی ہے اور ”اعمال“ کو اِسی ”اعتقاد“ کی ڈالیوں پر نمودار ہونا ہے، تو پھر ”اعتقاد“ کے قوی اور راسخ ہونے کی کوئی متعین حد نہیں۔ یہاں کسی کا شجر بہت تناور ہو گا تو کسی کا نحیف اور لاغر۔ نفس انسانی میں ”اعتقاد“ کا گہرا چلا جانا ہر شخص کے معاملہ میں ایک سا نہیں۔ پس طبعی بات ہے کہ ”عمل“ کے برگ و بار بھی ہر شجر پر ایک سے نہ آئیں۔ البتہ محنت کا میدان یہی ہے۔ ”عقیدہ“ قلب انسانی کی سرگرمی کیلئے ایک نہایت وسیع افق فراہم کرتا ہے۔ ”عقیدہ“ کی پختگی ایک لا متناہی چیز ہے۔ ”العروۃ الوثقیٰ“ پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کرنا ایک غیر اختتام پزیر مشن ہے۔ یعنی....: شرک سے برأت ہے ، اِس کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے کی بھلا کیا حد ہو سکتی ہے۔ باطل سے عداوت ہے، اس میں آپ جتنا بھی آگے چلے جائیں۔ خدا کے شریکوں کا انکار ہے، اس میں آپ جتنی بھی ہمت دکھا سکیں۔ غیر اللہ سے نا امید ہونا ہے، اس میں آپ جتنا بھی رسوخ پا سکیں۔ ”عبادت“ پر غیر اللہ کے حق کی نفی اور جبت و طاغوت کے ساتھ کفر ہے، یہ کام آپ جتنی بھی شدت سے کر سکیں۔ اللہ کی عظمت اور کبریائی ہے، یہ آپ کے دل میں جتنی بھی گہری اتر سکے۔ اُس کی اطاعت پر دلجمعی جتنی بھی پائی جا سکے۔ اُس کا خوف آپ جتنا بھی رکھ سکیں۔ اُس کی چاہت اور طلب جتنی بھی بڑھا سکیں۔ اُس سے امید باندھ رکھنے میں آپ جس قدر بھی یکسو ہو سکیں۔ اُس پر توکل اور سہارا رکھنے میں آپ جتنا بھی قابل رشک ہو سکیں۔ اُس کی خشیت جتنی بھی اختیار کر سکیں.... غرض ”اعتقاد“ کو زیادہ سے زیادہ اعلیٰ اور زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوئی حد نہیں۔ یہ آپ کے ہمت دکھانے کا ایک وسیع و عریض میدان ہے۔ ’اعمال‘ میں جان آنا اور ’اعمال‘ کا خدا کے ہاں پزیرائی پانا اِسی کے دم سے ہے۔ درجات کا تفاوت اُتنا ”کثرتِ اعمال“ سے نہیں ہے جتنا کہ ”قوتِ اعتقاد“ سے۔ ”دین“ سب سے پہلے قلب و ذہن کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہ آدمی کا ایک خاص ادب اور سلیقے سے خدا کی جانب متوجہ ہونا اور اپنے آپ کو اُس کا زیرنگیں کر لینا ہے۔ بلکہ خدا کی جانب متوجہ ہونے سے پہلے خدا کے ماسوا ہستیوں سے اچاٹ اور بے نیاز ہو جانا ہے۔ اِس ”اعتقاد“ کی شدت سبھی میں یکساں نہیں۔ ”توحید“ سے تمسک میں سب برابر نہیں۔
پس ”عبادت“ کے اقوال، اعمال اور رویوں کو غیر اللہ سے پھیر دینے اور اللہ کے لئے خالص کر دینے میں ہر آدمی کو اپنا اپنا زور دکھانا ہوتا ہے اور اپنی اپنی ہمت۔ ”دین“ میں جان بس اِسی سے آتی ہے۔
یہ بات ہر دو پہلو سے قابل غور ہے....:
1) نفی کے معاملہ میں: شرک سے برأت سب میں ایک درجہ کی نہیں؛ اِس میں ایک سے ایک بڑھ کر درجہ ہے۔قلب کے اِس پر یکسوہونے کی کوئی حد نہیں اور اِس کیلئے عزم وارادہ رکھنے کی کوئی انتہا نہیں۔ ”غیر اللہ کی عبادت کا بطلان“ دل میں بیٹھ جانا کوئی ایک ہی درجہ نہیں رکھتا؛ کسی شخص میں یہ بات پختہ ہوگی تو کسی میں پختہ تر۔ بہتر سے بہتر اور قوی سے قوی تر ہونے کی یہاں ہر کسی کے پاس پوری گنجائش ہے۔ جہنم سے بھاگ لینے میں تیز سے تیز تر ہونا کیا تعجب کی بات ہے؟!
2) اِثبات کے معاملہ میں: پھر خدا کی بندگی کا دم بھرنے میں سب کے سب ایک سے نہیں؛ خدا کا خوف اور خشیت اور محبت رکھنے میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھے ہوتے ہیں۔ خدا کے آگے ذلت اور عاجزی اختیار کرنے میں آدمی بہتر سے بہتر درجہ پر جا سکتا ہے۔ خدا کی محتاجی کا شعور رکھنے میں یہاں ایک سے ایک اعلیٰ مقام پایا جاتا ہے۔ اُس کی چاہت اور طلب میں آپ جتنا بھی آگے بڑھ سکیں۔ غرض ”عبادت“ کو اللہ کیلئے خالص کر دینے اور اِس میں زیادہ سے زیادہ نفاست اور کھراپن لے آنے کی کوئی حد نہیں۔ بہشت میں تو ایک سے بڑھ کر ایک درجہ ہے!
خوب سے خوب تر کا یہی اصل میدان ہے:
لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ !!!
جس قدر یہاں محنت ہوگی، اعمال میں قبولیت اُسی کے بقدر آئے گی۔
جب ایسا ہے، تو ”اصلاحِ عقیدہ“ کوئی ایک بار کر لیا جانے والا کام نہیں۔ ”توحید“ کوئی ’عبارت‘ نہیں جس کو پڑھ دیا جائے۔ باطل سے برأت اور بیزاری کوئی ’اسٹیٹمنٹ‘ نہیں جو ایک بار جاری کر دی جائے۔ ”صالح اعتقاد“ کوئی ’لٹریچر‘ نہیں جس کو ’مطالعہ‘ سے گزار لیا جائے۔ یہ تو وہ چیز ہے جس کو انسان میں دل کی طرح دھڑکنا ہے۔ پورے تسلسل کے ساتھ انسان کے رویہ و عمل کی بنیاد بنے رہنا ہے۔ اُس کی حرکت اور سعی کو جنم دیتے جانا ہے۔ اُس کی سوچوں اور خیالات سے لے کر اقوال اور افعال تک اور اُس کے اجتماعی و سماجی کردار تک ہر ہر چیز کی صورت گری کرنی ہے۔ اور اُس کے پورے وجود کو اور اُس سے متصل سب ا مور کو اپنی ایک لڑی میں پرو کر رکھنا ہے اور کسی ایک چیز کو بھی اُس سے باہر رہنے نہیں دینا۔
********
ہمارا یہ سلسلۂ تالیفات:
”بیانِ عقیدہ“ کی اِسی اہمیت کے پیش نظر ، ”شرح رسائل توحید“ کے عنوان سے یہ ایک سلسلۂ تالیفات سامنے لایا جا رہا ہے۔ ”عقیدہ“ پر پہلے سے جو لٹریچر دستیاب ہے وہ اِس وقت یہاں کی بہت سی ضرورتیں پوری کر رہا ہے تو بہت سی ضرورتیں پیدا بھی کر رہا ہے۔ ”عقیدہ“ پر جتنا بھی لٹریچر پایا جاتا ہے اُس سارے کا مقصد کتاب اور سنت کے بیان کردہ ”ایمانی حقائق“ کو ہی قلوب اور اذہان میں اتارنا ہے، پھر بھی ہر کتاب اپنے اِس ہدف کو ایک خاص سطح پر حاصل کرتی ہے اور دیگر بہت سے تحریری کاموں کیلئے گنجائش چھوڑ دیتی ہے۔ ”عقیدہ“ کے بیان اور ایضاح کا جو اسلوب ہمارے اِس سلسلۂ رسائل میں اپنایا گیا ہے، اُس میں یہاں کی دعوتی اور تحریکی ضرورتوں کو بطورِ خاص سامنے رکھا گیا ہے۔
ہمارا یہ سلسلۂ تالیفات اس لیے نہیں کہ قاری ”عقیدہ“ کی معروف کتب و مراجع سے مستغنی ہو جائے۔ البتہ یہ امید رکھنی چاہیے کہ ہماری اِن تحریروں کے مطالعہ سے وہ ”عقیدہ“ کی معروف و مستند کتب کی جانب رجوع کیلئے باقاعدہ ایک ترغیب پائے۔ اور یہ کہ پہلے اگر وہ ”عقیدہ“ کی اہمیت کو ایک محدود سیاق میں دیکھتا تھا، تو اب اُس کی نظر میں ایسا نہ رہے اور وہ ”عقیدہ“ اور اِس پر پائے جانے والے مراجع اور کتب کو پہلے سے کہیں بڑھ کر اہمیت دینے لگے۔
ایک طالب علم پر واضح رہنا چاہیے کہ ہمارے یہاں ”عقیدہ“ کے صرف اُنہی جوانب کو نمایاں کرنے کی کوشش ہوئی ہے جو حالیہ ضرورتوں کے لحاظ سے یہاں پر اوجھل دیکھے جا رہے ہیں۔
علاوہ ازیں.... قاری پر مخفی نہ ہو گا کہ ”عقیدہ“ کے موضوع پر حالیہ عشروں میں یہاں جو لٹریچر سامنے آیا ہے وہ زیادہ تر عربی سے ترجمہ شدہ ہے، جوکہ ہمارے نزدیک اِس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ ”عقیدہ“ کے باب میں ”اصولِ سلف“ کی پیش قدمی پورے ہندوستان میں جاری ہے، یہاں تک کہ ”عقیدۂ سلف“ کے مقابلے میں قریب قریب کوئی دعوت ہی یہاں اب باقی نہیں رہ گئی ہے۔ پھر بھی یہ ضروری ہے کہ یہاں کا قاری ’تراجم‘ کے علاوہ بھی کچھ پڑھے! تفہیم عقیدہ کے حوالہ سے برصغیر کے قاری کی ضرورتیں عرب قاری کی ضرورتوں کی نسبت بہت مختلف ہو سکتی ہیں۔ پھر، یہاں کے تحریکی حلقوں کی ضرورتیں یہاں کے روایتی حلقوں کی نسبت بہت مختلف ہیں۔ اِس سلسلۂ کتب کی تیاری میں یہ ہر دو امر ہمارے پیش نظر رہے ہیں۔ یوں بھی ادارہ ایقاظ نے اپنی محنت اور جدوجہد کیلئے بالعموم جس میدان کا انتخاب کر رکھا ہے وہ یہاں کے ”تحریکی“ اور ”سماجی“ عمل کو ”عقیدہ“(5) سے وابستہ کرانا ہے؛ جس کیلئے ہمیں اپنے ہی ماحول کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔
اِس سارے عمل میں ہمارا مصدرِ استفادہ امت کے معروف علماء، مربی اور مفکرین رہے ہیں۔
********
’رسائل توحید‘ عقیدہ کے کچھ بنیادی متون Texts ہیں، جوکہ امام محمد بن عبد الوہابؒ کے کچھ مختصر رسائل سے من وعن لے کر اردو میں ڈھالے گئے تھے۔ اِن میں بطور خاص قابل ذکر یہ ہیں: ”الأصول الثلاثۃ“، ”شروط لا الٰہ الا اللہ“، ”نواقض الاِسلام“، ” أنواع التوحید الثلاثۃ“، ” أنواع الشرک“، ” أنواع الکفر والنفاق“،”معنی الطاغوت ورؤوس أنواعہ“۔ یہ مختصر رسائل، توضیحات و حواشی کے اضافہ کے ساتھ، چند سال پیشتر اردو خواں طبقے کے فائدہ کیلئے شائع کئے گئے تھے اور اب بھی اِسی عنوان (رسائل توحید) سے دستیاب ہیں۔
بعد ازاں، اِن توضیحات و حواشی کو ناکافی جانتے ہوئے ضرورت محسوس کی گئی کہ اِن رسائل کے موضوعات کو ہی ذرا کھول دیا جائے اور یہاں کی تحریکی و سماجی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ان کا ایک مفصل بیان کر دیا جائے۔ یہاں سے ”شرح رسائل توحید“ کا یہ سلسلہ سامنے آیا، جس کا جزءاول ”شروط لا الٰہ الا اللہ“ اِس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اِس کا جزءدوم ”نواقض اسلام“، جزءسوم ”توحید کے تین اساسی محور“ اور جزءچہارم ”شرک اکبر اور شرک اصغر کا بیان“ طباعت کے مراحل سے گزرنے کو ہیں، جبکہ اِس سلسلہ کے باقی اجزاء پر کام جاری ہے۔
ان رسائل کو عوام کیلئے مفیدتر بنانے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ بطور ایک داعی یا بطور ایک دعوتی و تربیتی حلقہ کا انچارج، اجتماعی نشست میں لوگوں کو ان کا مطالعہ کروائیں اور جا بجا خود بھی اِن مباحث کو واضح کرتے جائیں۔ ایسے حلقے مساجد میں ہوں، یا گھروں یا ہوسٹلوں میں، اِس وقت ہماری بہت بڑی ضرورت ہیں۔
دعوتی ضرورت کے پیش نظر، ہم اِن کتابچوں کے چیدہ چیدہ مضامین علیحدہ علیحدہ رسائل کی شکل میں سامنے لانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
”رسائلِ توحید“ صرف متن کے ساتھ مطلوب ہوں تو وہ مختصر کتابچہ الگ سے دستیاب ہے۔
وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ، عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ أنِیْب
(1) قرآن میں یہ بات بڑی تکرار کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ مخلوقِ انسانی کا کوئی نیک عمل خدا کے ہاں ضائع جانے والا نہیں۔ قرآن اور حدیث کا تتبع کریں تو یہ بات نہایت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ عمل رد ہو جانے کی صرف دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
1) سب سے پہلی یہ کہ وہ شخص ہی جو یہ عمل کر رہا ہے، خدا کے ہاں رد ہونے والا ہو۔ مشرک آدمی خواہ کتنے ہی نیک عمل کرے، خدا اُس کے اعمال کو قبول کرنے والا نہیں۔ آدمی خود خدا کو قبول نہیں تو اُس کا عمل خدا کے ہاں قبول ہوتا ہی نہیں۔ عمل رد ہونے کی سب سے سنگین صورت یہی ہے۔ اِس کا تعلق ”شرکِ اکبر“ سے ہے۔
2) دوسری صورت یہ کہ اس عمل میں کوئی کھوٹ ہو، جس کی آگے دو صورتیں ہیں:
الف: وہ خالصتاً خدا کیلئے نہ کیا گیا ہو، بلکہ مخلوق کو متاثر کرنا اور مخلوق سے ستائش پانا بھی اُس عمل میں آدمی کا مقصود ہو گیا ہو۔ اِس کو ”ریاء“ کہتے ہیں، جس کے متعدد درجات ہیں۔ اِس کا تعلق ”شرکِ اصغر“ سے ہے۔
ب: وہ عمل شرعِ محمد ﷺ کی پابندی میں رہ کر نہ کیا گیا ہو۔ اِس کا تعلق ”بدعت“ سے ہے۔
یہ تینوں امور ”عقیدہ“ کی تعلیم سے ہی آدمی پر صحیح طرح واضح ہوتے ہیں۔
(2) ”عمل صالح“ کی دو شرطیں (اخلاص، اور متابعتِ سنت) بعد کی بحث ہیں۔ یہاں بات یہ ہو رہی ہے کہ ”عملِ صالح“ وجود میں کس طرح آتا ہے۔ صالح عمل وہی ہے جو توحید کے شجر سے پھوٹے اور اخلاص اور متابعت کی شرط پوری کرے۔
(3) وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ (الحج: 37) ”ہاں مگر اُس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے“
إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر: 10) ”بلند ہوتا ہے اُس کی طرف پاکیزہ کلام (الکلم الطیب) اور بلند کرتا ہے اُس کو صالح عمل“
(4) یہ سچ ہے کہ ”فرد“ کو برآمد کرنے کا جو بھی نسخہ آپ پاس رکھتے ہوں، اُس کی بنیاد پر اور اُس کے اقتضاءکے مطابق ”تربیت“ نہ ہو تو اُس نسخہ کا مطلوب فرد پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کا کوئی بھی منہج اِس بات سے مستغنی نہیں۔ ”تربیت“ کا مطلب ہی ”انسان کی افزائش اور نشو و نما کرانا“ ہے، چاہے اُس انسان کی پیدائش کسی صالح بنیاد سے کرائی گئی ہو یا کسی باطل بنیاد سے۔ پس یہاں اگر ”توحید“ کے پیدا کردہ افراد کسی بڑی سطح پر نہیں پائے گئے، تو اُس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ ”توحید“ کو ”تربیت“ کی بنیاد بنانے والے یہاں بہت کم پائے گئے۔اور یہ بات بھی شاید اُنہی لوگوں کے بارے میں سچ ہو جن کا نقص ”توحید“ کو ”تربیت“ کی بنیاد نہ بنا پانے تک محدود ہو۔ اکثر لوگوں کے ہاں تو ”تصورِ توحید“ ہی میں اچھے خاصے جھول پائے گئے ہیں، اور ”توحید“ کی جامعیت تو کم ہی کسی کے ہاں دیکھنے میں آئی ہے۔
بہرحال ”عقیدہ“ ہمیں اسلام کے مطلوبہ فرد کو پیدا کرنے کیلئے ”بنیاد“ فراہم کر کے دیتا ہے، البتہ یہ ”بنیاد“ ہوگی، اِس کا ذریعہ ”تربیت“ ہی رہے گا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسلام کا مطلوبہ فرد برآمد کرنے کیلئے واحد بنیاد ”عقیدہ“ ہے اور واحد ذریعہ ”تربیت“۔ (ظاہر ہے ”توحید“ کے مواد سے فرد کی تعمیر ایک نہایت خاص انداز کی تربیت ہوگی) پس یہ توقع رکھنا پھر بھی درست نہ ہوگا کہ کسی کا ”عقیدہ“ درست ہو گیا ہے تو یہ معاشرے میں ایک جیتی جاگتی حقیقت کے طور پر بھی دیکھا جانے لگے گا، جب تک کہ اِس کو برآمد کرانے پر محنت نہیں ہونے لگتی۔ ”عقیدہ“ کے ساتھ اِس سے بڑی زیادتی کیا ہو سکتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اِس کو ”تبلیغ“ کا موضوع سمجھا جائے، نہ کہ ”تربیت“ اور ”تحریک“ کا۔
(5) اِس حوالہ سے ادارہ ایقاظ نے ایک الگ سلسلۂ تالیف شروع کر رکھا ہے، جس کا عنوان ہے: ”توحید.. تحریک تا معاشرہ“۔ اِس سلسلہ کی پہلی کتاب ”موحد تحریک“ شائع ہو چکی ہے اور دوسری کتاب ”موحد معاشرہ نہ کہ تیسری دنیا“ زیر تالیف ہے، جس کے کچھ حصے سہ ماہی ایقاظ میں آ چکے ہیں۔
تحریکی و سماجی اصلاح کے عمل کو ”عقیدہ“ کے بطن سے جنم دلوانا باقاعدہ ایک منہج ہے۔ ادارہ ایقاظ بالعموم اِسی سے متعلقہ مباحث کو سامنے لانے کیلئے کوشاں ہے۔ ہماری ایک دوسری کتاب ”مسلم ہستی کا احیاء“ اِسی کیس کو ایک اور جہت سے سامنے لاتی ہے، جس کو دیکھ لینا اِس موضوع میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کیلئے مفید ہو سکتا ہے۔