‘نظام’ نہیں “عقیدہ” ہی تبدیل ہونے
والا ہے
ہر چیز کو اُس کی ٹھیک ٹھیک جگہ پر
رکھنا عدل ہے اور اُس کی جگہ سے ہٹا دینا ظلم۔ غلط ہونے کیلئے ضروری نہیں کہ آپ نے
جو کام کیا وہ سرے سے غلط ہو۔ ایک نہایت اچھا کام یا ایک نہایت اچھی چیز بھی ہو،
اُس کا ایک غلط جگہ پر یا ایک غلط ترتیب میں ہونا اُس کو ”غلط“ قرار دینے کے لئے
بجائے خود کافی ہے۔
ہمارا تحریکی عمل جو عرصۂ دراز سے
اپنی حقیقی جہتوں کی تلاش میں سرگرداں ہے، حق رکھتا ہے کہ اِس پہلو سے بھی ہم اس
پر سوچ بچار ضرور کر لیں اور اس پر صحیح نتائج تک پہنچنے کیلئے جس قدر جرأت اور
ہمت درکار ہے اُس کو بروئے کار لے کر آئیں۔ اِس سے کسی کو فائدہ ہو نہ ہو، ہمارے
اپنے عمل کی صحت اور افادیت کیلئے البتہ یہ ناگزیر ہے۔
ہمارے تحریکی عمل کو یہاں جس چیز سے
واسطہ تھا وہ ایک خاص قسم کا نظام ہے اور ایک خاص معاشرتی صورتحال۔ ”معاشرتی صورتحال“
پر ہم کسی اور مقام پر گفتگو کریں گے (ہمارا سلسلۂ مضامین ”موحد معاشرہ نہ کہ
تیسری دنیا“ بھی یہاں کی ”معاشرتی صورتحال“ سے ہی بحث کرتا ہے)۔
یہاں ہمارا موضوع ہوگا: وہ ”اجتماعی عقیدہ“ جس پر یہ نظام کھڑا ہے، نیز وہ منہج جو
اِس کے بالمقابل اپنایا جانا ضروری تھا۔
وہ نظام جس سے ہمیں واسطہ تھا اور ہے:
’نظام‘ سے متعلق یہاں ہمیں جس اجتماعی
صورتحال سے واسطہ پڑا ہوا ہے وہ محض ’کچھ افراد کا فسق و فجور‘ نہیں ہے، جس
کا مداوا اُن ’فاسد افراد‘ کو کچھ ’صالح افراد‘ کے ساتھ بدل دینے کے اندر
تلاش کیا جاتا۔ معاملے کی یہ تصویر دیکھنا اور دکھانا خطرناک حد تک فریب کن رہا ہے....
ایک اجتماعی سیاسی عمل کیلئے’نظام‘ کا
لفظ تاریخ میں شاید ہی اِس سے پہلے کبھی اِس شدت کے ساتھ استعمال ہوا ہو۔ ’نظام‘
کا ایک انتہائی مربوط حالت میں پایا جانا، گو آج کے دور کا ایک نہایت خاص واقعہ ہے
جو کہ __ اپنی اِس نمایاں ترین صورت میں __ ماضی کے اندر کم ہی پایا گیا ہو گا،
تاہم یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ ’نظام‘ نام کی چیز کوئی آج ہی جا کر دنیا میں پائی
جانے لگی ہے۔ البتہ کسی بھی ’تبدیلی‘ کی صدابلند کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری
ہو گا آیا آپ کا واسطہ وہاں محض ’اَفراد‘ کے ساتھ ہے یا ’نظام‘ کے ساتھ، اور اُس ’نظام‘ کے پیچھے کسی خاص ”عقیدہ“ اور
”فکر“کے ساتھ ؟
’نظام‘ کسی معاشرے کے اندر پائے جانے والے بے شمار فکری، نظریاتی
(عقائدی)، تہذیبی اور سماجی عوامل سے تشکیل پانے والی ایک چیز ہے اور عموماً
صدیوںمیں کہیں جا کر بدلی جاتی ہے۔ اِس دنیا میں ’تختے‘ الٹے جانے کے واقعات ہوتے
بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں، البتہ ’نظام‘ الٹ دیے جانا ایک بے حد نادر واقعہ ہے اور
خال خال ہی کوئی اِس میں کامیاب ہوتا دیکھا گیا ہے۔
استعمار کے بعد سے یہاں ہمیں جس
صورتحال سے سابقہ ہے، وہ ایک ایسی اساسی تبدیلی کا تقاضا کر رہی ہے جس کی ضرورت
ہمیں اِس سے پہلے کی صدیوں میں اپنی پوری تاریخ کے اندر کبھی درپیش نہیں رہی،
سوائے اُس وقت کے جب اول اول اِس امت کی اساس رکھی گئی اور جب ایک جاہلی معاشرے کو
چیر کر اُس کے اندر سے ایک اسلامی معاشرے کی پیدائش کرائی گئی؛ اور جو کہ رسول
اللہ ﷺ اور آپ کے اولو العزم اصحابؓ کے اپنے ہاتھوں سر انجام پائی تھی۔ البتہ بعد
کی صدیاں، معاملہ جتنا بھی خراب اور اصلاح طلب ہو جاتا رہا، اِس نوبت کو نہیں
پہنچا کہ ایک ’سر تا پیر تبدیلی‘ کا متقاضی ہو، کیونکہ اصحابِؓ رسول اللہ کے ہاتھوں
رونماہونے والی اِس تبدیلی نے مسلم معاشروں کو ایک ایسا رخ دے دیا تھا کہ وہ صدیوں
تک ان معاشروں کو ایک متعین سمت دیے رکھنے کیلئے کافی تھا، جس کے نتیجے میں صدیوں
تک ایسا رہا کہ ’حکمران‘ اچھا آئے یا برا، اسلام کا یہ آئین اپنی جگہ سے ہل کر
دینے کانہ تھاکہ ”نہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت اور نہ رسول کی لائی ہوئی شریعت کے
سوا کسی کا قاعدہ اور قانون“۔ کوئی کتنا ہی بڑا جابر ہو اور کتنے ہی غلط طریقے سے
اقتدار کی دہلیز تک پہنچا ہو، اسلام کے اِس آئین کو اپنی جگہ سے ہلانا یا حتیٰ کہ
کسی ایک لمحے کیلئے بھی اِس کو مشکوک ٹھہرانا کسی کیلئے ممکن تھا اور نہ کسی کی
سوچ تک میں آ سکتا تھا۔ البتہ آج ایک طویل تعطل کے بعد..آج استعمار کے ہاتھوں یہاں
کے بیشتر خدوخال تبدیل ہو جانے کے بعد، اور کچھ اساسی ترین تغیرات رونما ہوجانے کے
نتیجے میں، یہاں ایک ایسا جوہری فرق پیش آ چکا ہے جو ”اصلاح“ کے لئے میدان میں
اترنے والے آج کے اصحاب سے تاریخ اسلامی کی سابقہ تمام صدیوں کی نسبت ایک بالکل
مختلف تقاضا رکھتا ہے اور جوکہ اُس تقاضے سے بہت ملتا جلتا ہے جو اسلام کی اُس
پہلی نسل کے سامنے رکھا گیا تھا جس نے انسانی دنیا کے اندر ایک جاہلی واقعے کو سر
تا پیر الٹ دینے کے بعد آسمانی نقشے پر ایک نئے جہان کی تعمیر کی تھی۔
آج کی اسلامی تحریکوں کیلئے اِس سے
بڑھ کر فخر اورسعادت کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ یہ اپنی تاریخ کاوہ چیلنج سرکرنے
کیلئے یہاں پائی گئی ہیں جو بیچ کی صدیوں میں کبھی کسی تحریک کو درپیش نہیں رہا
اور جوکہ اپنی حقیقت اور ماہیت میں اُس چیلنج سے بے حد مشابہ ہے جو اِس امت کی
پہلی نسل کو درپیش رہا تھا، یعنی زندگی کے ایک پورے دھارے کو ہی اُس کے تمام تر
زور و شور کے علی الرغم ایک رخ سے ہٹا کر ایک بالکل نیا رخ دے دینا اور لاکھوں
کروڑوں پر مشتمل انسانی آبادیوں کو ایک ایسی’شرق تا غرب‘ تبدیلی سے گزارنا جس کے حجم کا اندازہ کرنا بھی ایک معنیٰ
رکھتا ہے، خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب یہاں کی کوئی بھی تبدیلی ایک ’مقامی تبدیلی‘
شمار نہیں ہوتی اور اِس پہلو سے یہاں کی ہر تبدیلی اپنے مضمرات میں ایک ’عالمی
تبدیلی‘ ہے!
# جہاں یہ ایک بے حد خوشی کی بات ہے،
اور اُن بہت سے دکھتے زخموں پر مرہم کا درجہ رکھتی ہے جن کو یہاں پر پائی جانے
والی ’مایوسیاں‘ اور ’ناکامیاں‘ آئے روز ہرا
کرنے لگتی ہیں کہ سات عشرے گزر جانے کے بعد بھی ہم عین وہیں پر کھڑے ہیں جہاں ہم
پہلے دن تھے بلکہ کئی پہلوؤں سے اُس سے بھی کہیں پیچھے ہیں، اور یقینا اتنی محنتوں
اور قربانیوں کے بعد پہلے والے نقطے پر ہونا یا اُس سے بھی پیچھے چلا جانا اور کفر
کا پہلے سے بھی بڑھ کر یہاں سر چڑھ کر بولناایک بے حد تکلیف دہ بات ہے.... جہاں یہ
بات اِن سب دکھتے زخموں پر مرہم کا درجہ رکھتی ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کا جو چیلنج
درپیش تھا وہ کوئی معمولی چیلنج نہ تھا لہٰذاہم اگر چند عشروں میں اِس اتنے بڑے
پانسے کو اسلام کے حق میں پلٹ دینے میں کامیاب نہیں ہوئے تو یہ کوئی ایسی تعجب کی
بات نہیں.. وہاں یہ بات خاص طور پر حق رکھتی ہے کہ ہم اُس چیلنج کے حجم کا بھی
صحیح صحیح اندازہ کریں اور اُس کی جسامت کے بقدر ہی یہاں پر کوئی لائحۂ عمل
اختیار کریں۔ ایک چیلنج اگر اِس قدر عظیم الشان ہے کہ اس کا سامنا کرنے والی
تحریکیں عظیم الشان کہلانے کے لائق ہوں، تو اُس کی سنگینی کا درست اندازہ کرنا اور
اُس کی حقیقت اور ماہیت سے صحیح طور پر واقف ہونا بھی پھر اتنا ہی ضروری ہوگا۔
بلکہ ایک عظیم الشان چیلنج کا سامنا کرنے والی تحریک عظیم الشان کہلانے کے لائق ہی
اُس وقت ہو سکتی ہے جب وہ اُس کی ٹکر کا لائحۂ عمل بھی اپنے منہجِ عمل کے اندر
رکھتی ہو اور اُس پر پورااتر کر دکھانے کے سب تقاضے حتی الوسع پورے کر رہی ہو۔
٭٭٭٭٭
# کسی صورتحال پر پورا اترنے کا سب سے
پہلا تقاضا یہی ہو سکتا ہے کہ آپ اُس کی حقیقت و ماہیت کا صحیح ادراک رکھتے ہوں
اور اُس کے تحریکی لوازم سے پوری طرح آگاہ ہوں ....
یہاں ہمیں جس چیز سے واسطہ تھا وہ
باقاعدہ ایک ’نظام‘ تھا اور اُس ’نظام‘ کے پیچھے ایک خاص اجتماعی سوچ، ذہنیت، طرزِ
فکر و استدلال، اصولِ عمل اور حق و ناحق کا تعین کرنے کے بے ساختہ معیارات اور
موازین۔ یہاں ایک لمحہ کیلئے بھی یہ سوچنا غلط تھا کہ جس اجتماعی صورتحال سے ہمیں
واسطہ ہے وہ محض ’کچھ افراد کا فسق و فجور‘ ہے، جس کا مداوا اُن ’فاسد افراد‘ کو
کچھ ’صالح افراد‘ کے ساتھ بدل دینے کے اندر تلاش کیا جائے! یہ ایک منظم صورتحال
تھی جو کچھ مخصوص عوامل کا ایک نہایت طبعی و لازمی نتیجہ تھی....
بالعموم اِس سے پہلے، یعنی استعمار کے
ہاتھوں ہمارے فکری خدوخال اورہمارا”اجتماعی عقیدہ“ سر تا پیر بدل دیے جانے سے
پیشتر، اپنے یہاں ’حکمران‘ پائے جاتے تھے اور مسئلہ کو ’حکمرانوں‘ ہی کے صالح یا
فاسد ہونے کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا تھا۔ تاریخ کے کثیر اَدوار بلا شبہ یہ ایک
درست اعتبار رہا ہے: مسندِ اقتدار پر اچھے لوگ فائز ہیں تو ان کے ہاتھ مضبوط کئے
جائیں اور اگر برے لوگ پائے جانے لگے ہیں تو اُن کو ٹھیک کرنے یا حسب استطاعت اُن
کو تبدیل کرنے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ اپنی تاریخ کا ایک طویل دور بلا شبہ ہمیں
ایسی ہی ایک صورتحال سے واسطہ رہا ہے اور ’اچھے لوگوں‘ کے آنے کے ساتھ امیدیں
وابستہ کر رکھنا حقیقت پسندی کے منافی کبھی نہ رہا تھا۔ یہی وہ اساسی فرق ہے جو
استعمار کے ورثہ کو اپنے یہاں ’اپنا‘ لیا جانے سے پہلے کی صورتحال کے ساتھ خاص ہے۔
مگر یہاں مسئلہ ’حکمرانوں‘ سے بڑا
تھا۔ استعمار ہمارے لئے ’افراد‘ نہیں بلکہ چلتا چلاتا ایک ’نظام‘ چھوڑ کر گیا تھا
اور اُس نظام کو سنبھال رکھنے والی ایک ’اجتماعی فکر‘۔ یہ ایک ’سسٹم‘ ہے جس میں
’افراد‘ کی اپنی ایک اہمیت ضرور ہے مگر ان کی حیثیت مشین کے اندر چلنے والے
’پرزوں‘ سے بہت مختلف نہیں چاہے وہ کوئی وزیر اعظم ہے یا صدر یا کوئی بڑے سے بڑا
عہدہ۔ آپ کو اِس مشین کے اندر فٹ ہونا ہے تو اپنے آپ کو ایک ’پرزے‘ کے اندر ڈھالنا
ہے۔ اِس کا اندازہ آپ کو ’مشین‘ کی گڑگڑاہٹ سے ہی ہو جاتا ہے۔ جونہی آپ اپنے آپ کو
اِس میں ’فٹ‘ ہونے کیلئے پیش کرتے ہیں آپ کو ایک خاص ’عمل‘ سے گزرنے کی ضرورت پیش
آتی ہے، اِس کو ’قومی دھارے یا قومی فلسفے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی ضرورت‘ سے
تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ ’قومی دھارا‘ یا ’قومی فلسفہ‘ فکر و عمل کی ایک خاص جہت کا
نام ہے اور اِس کی ’تشکیل‘ یا اِس کے اندر ’ترمیم واضافہ‘ کے جملہ حقوق ایک خاص
طبقے کے نام پوری طرح محفوط ہوتے ہیں۔ ’اقتدار‘ کے جھولے میں آپ کو کوئی
چھوٹی موٹی باری مل سکتی ہے البتہ اِس ’قومی عقیدے‘ کے ’کاپی رائٹس‘ کو ہاتھ
لگانا بدستور آپ کی پہنچ سے باہر رکھا جاتا ہے۔ خود آپ کو اِس کی ’تشکیل‘ یا اِس
کو ’چیلنج کرنے‘ سے بڑھ کر اِس کی ’دوڑ‘ میں شامل ہونا بلکہ زور لگا کر دوڑنے
والوں سے آگے گزر جانا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے! (1)
بظاہر آپ اِس ’نظام‘ کو بھی برا بھلا
کہہ سکتے ہیں۔ بلکہ شاید ہی کوئی شخص ہو جو یہاں اِس نظام کو سراہتا دیکھا گیا ہو۔
چنانچہ اِس ’نظام‘ کے گن گانا یا اس کو کوسنے سنانا ایک غیر متعلقہ چیز ہے اور اِس
میں وقت ضائع کرنا ایک خوامخواہ کی مشقت۔ ہاں جس ’قومی دھارے‘ میں شامل کر کے یہ نظام آپ کو اپنے ایک خاص ڈھب پر
لے کر آتا اور بالآخر آپ کو اپنے استعمال کے قابل بناتا ہے، اُس ’قومی دھارے‘ یا ’قومی عمل‘ کے سب معیارات آپ کو من و
عن قبول کرنا ہوتے ہیں۔ یہاں البتہ کوئی ’چوائس‘ نہیں! ایک ’نظام‘ کی کامیابی اصل
میں تو یہی ہوتی ہے۔ اِس کو یہ لوگ باقاعدہ طور پر melting pot کہتے ہیں۔ یعنی ایک ایسی صورتحال جس
میں آپ ایک ایسی نرم و گداز ’حرارت‘ محسوس کریں کہ ’پگھلنے‘ سے رکا رہنا آپ کے بس
میں نہ رہے اور اِس ’پسیج جانے‘ کے نتیجے میں آپ اِس کے باقی اجزاءکے ساتھ یکجان
ہونے لگیں، اور یوں رفتہ رفتہ اپنی ”انفرادیت“ سے، جوکہ آپ کا اصل سرمایۂ افتخار
ہے، ہاتھ دھوتے چلے جائیں۔ ’سسٹم‘ کیلئے ان لوگوں کے ہاں ایک دوسرا لفظ بھی
استعمال کیا جاتا ہے:
salad bowl یعنی
ایک ایسی صورتحال جس میں آپ کی انفرادیت اُسی قدر باقی رہنے دی جاتی ہے جس قدر
سلاد کے اندر موجود اَجزاءاپنی ’انفرادیت‘ قائم رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ سلاد
کے چھوٹے چھوٹے قتلے اپنا الگ الگ ذائقہ دیتے ہیں اور ایسے ’تنوع‘ diversity کو کسی نظام کے حق میں melting pot والے ماڈل سے بھی زیادہ بہتر باور کیا
جاتا ہے۔ ’چُورا‘ ہو جانے کے بعد ’واپسی‘ کی راہ اِس کے اندر بھی قریب قریب مسدود
ہی ہوتی ہے۔ اپنی لغت کے الفاظ استعمال کریں تو ایسی حیرت انگیز صلاحیت رکھنے والے
’ظروف‘ کو ہمارے پرانے لوگ ’نمک کی کان‘ سے بھی تشبیہ دے دیتے رہے ہیں!
# غرض یہ ایک ’نظام‘ہے اور ’افراد‘ کو
اپنے اندر لینے اور ضم کرنے یا ’ہضم‘ کرنے کے معاملہ میں اِس کا ایک متعین ’طریق کار‘ ہے۔ ’نظام‘ پر آپ جتنا مرضی
برسیں اور جی بھر کر تنقید کریں، البتہ وہ مرحلہ وار عمل جس سے ’گزار کر ‘ یہ نظام
آپ کو اپنے استعمال کے قابل بناتا ہے اُس ’عمل‘ پر اور اُس کے سب ذہنی وفکری
’مراحل‘ پر اعتراض کی بہر حال گنجائش نہیں۔ ہاں اِس ’پراسیس‘ میں آپ کو اپنا آپ
صرف دے نہیں دینا اِس میں ’کامیاب‘ ہو کر دکھاناہے!!!
اِس نظام کے استعمال کے قابل بننے کے
یہ جو سب ذہنی وشعوری ’مراحل‘ ہیں اور جن کو ہم نے ’پراسیسنگ‘ کا نام دیا ہے، اُس سے گزرنا اور اُس میں کامیاب ہو
کر دکھانا البتہ آپ کی وہ ”ضرورت“ ہے جس پر پائے جانے والے ’شرعی اعتراضات‘ بھی آپ
کو خود ہی رفع کرنا ہوتے ہیں! یہاں سے معاملہ ’یک نہ شد، دو شد‘ والا ہو جاتا ہے:
اِس نظام کی مشقت بھی اور اِس کا ’شرعی دفاع‘ بھی!
(واضح رہے، ’پراسیسنگ‘ سے ہماری مراد
محض کوئی ’انتخابی عمل‘ نہیں۔ ایسا سمجھ لینا ہماری اِس گفتگو کے سیاق کو نہایت
محدود کر دینا ہو گا۔ بلاشبہ بہت سی دینی جماعتیں ’انتخابی عمل‘ میں شریک نہیں
ہوتیں مگر یہ ’نظام‘ ان کو بھی اپنے استعمال کے قابل بنانے اور اپنے’دھارے‘ میں لے
کر آنے کیلئے ویسے ہی ایک ’پراسیس‘ سے گزار رہا ہوتا ہے۔ پس واضح رہے، ہمارا موضوع
’حکومت یا اپوزیشن‘ اور ’پارلیمنٹ کے اندر یا پارلیمنٹ کے باہر‘ ہونے کے تناظر سے
وسیع تر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کہیں پر پائے جانے والے گروہوں کو اپنے ’وجود‘ کا حصہ بنانے کی ایک نظام کے پاس بے
شمار صورتیں ہوتی ہیں، جن کو کسی خاص شکل میں محصور جاننا درست نہ ہو گا۔ ’پراسیس‘
میں پڑنے سے یہاں ہماری مراد ذہنی و شعوری طور پراُس ’قومی و اجتماعی صورتحال‘ کو
قبول کرنا اور اُس کا حصہ بننا ہے جس کے دم قدم سے یہاں کا ’نظام‘ قائم ہے)۔
پس مسئلہ ’نظام‘ کی ستائش یا مذمت کا نہیں۔ سوال یہ رہے گا کہ کیا آپ
اپنا آپ اُس ’پراسیس‘ میں دینے کیلئے تیار ہیں جس
سے یہ نظام ایک نہایت طبعی انداز میں خود بخود یا ’نگرانی‘ کے کسی ہلکے پھلکے
انتظام کے تحت میکانکی انداز میں تشکیل پاتاہے؟
ہر سسٹم اجتماعی سطح پر ایک خاص فکری
و نظریاتی صورتحال سے جنم لیتا ہے اور اپنے وجود کے تسلسل کیلئے اُسی کے خطوط کو
آگے بڑھانے پر اُس کو اپنا کل انحصار رکھنا ہوتا ہے۔ آپ اُس سسٹم کو اچھا کہیں یا
برا، سوال یہ ہو گا کہ آپ اُس ’اجتماعی صورتحال‘ کا حصہ بننے کیلئے تیار ہیں جس سے
یہ نظام آپ سے آپ جنم لیتا اور ایک نہایت فطری انداز میں اُس سے اپنی تشکیل کرواتا
ہے؟
کیا آپ اُن ’خطوط‘ کو قبول کرتے ہیں
جو اِس نظام کو ایک دوام اور تسلسل دے رکھنے کیلئے وضع کئے گئے ہیں؟ یا پھر ایک
ایسی صورتحال کو وجود میں لانے پریقین رکھتے ہیں جو اپنی پرداخت میں اِس نظام کے
خاتمہ اور اِس کی جگہ ایک دوسرے نظام کے قیام کی صلاحیت رکھتی ہو؟
# آپ کی تنقید ’نظام‘ پر ہو سکتی ہے۔
البتہ اُس ”فکری و نظریاتی صورتحال“ کا جزو لاینفک بننے کیلئے تو جس پر یہ نظام
کھڑا ہے، بالعموم یہاں دیکھنے میں آیاہے بہت سے ’شرعی دلائل‘ دیے جا رہے ہوتے ہیں! نہ صرف اسلامی نظریہ (ہماری اصطلاح
میں ”عقیدہ“) کے بے شمار مبحث اِس ’فکری و اجتماعی صورتحال‘ کی ’ہم آہنگی‘ میں
لانے کیلئے بے دریغ قربان ہوتے ہیں بلکہ قومی فورموں پر ’قابل قبول‘ لہجے اختیار
کرنے کیلئے اپنے وہ بہت سے مواقف تک جو کبھی اِس عقیدہ کی ترجمانی کیلئے اختیار کئے
گئے تھے، بھلا دینا پڑتے ہیں۔
یہ ’فکری و اجتماعی بنیاد‘ جس پر ایک
’نظام‘ کھڑا ہوتا ہے اور جوکہ وہاں پائے جانے والے سب فریقوں کیلئے ’مشترک زمین‘
کا درجہ رکھتی ہے، اس کو ہم وہاں کا ”اجتماعی عقیدہ“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ اصل چیز
جس کو ہمیں چیلنج کرنا تھا نہ کہ اُس کے ساتھ ’ہم آہنگ‘ ہو کر دکھانا تھا وہ یہاں
کا ”اجتماعی عقیدہ“ تھا جو ایک خاص ’نظام‘ کو وجود دے رکھنے کیلئے یہاں پایا گیا
ہے۔
حضرات! یہ صرف ’راستہ‘ ہی ہے جسے دیکھ
کر بتایا جا سکے کہ اِس پرچل کر آپ اپنے گھر پہنچنے والے ہیں یا کسی دوسرے کے گھر!
دیکھنا یہ ہو گا کہ ایک ’نظام‘ کی تہہ میں جو ’فکری و نظریاتی بنیاد‘ پائی جاتی ہے
(اور جس کو ہم وہاں کا ”اجتماعی عقیدہ“ کہتے ہیں) اُس کو آپ رد کرتے ہیں یا اپنی
سرگرمی کیلئے چپ چاپ اُسی کو قبول کر لیتے ہیں؟ کسی کے ’راستے‘ پر چلتے ہوئے ’اپنی
منزل‘ پر جا پہنچنے کی آس رکھنا خوش فہمی کی آخری حد کہلانے کے لائق ہے۔ ایک نظام
کی تہہ میں پائی جانے والی ”عقائدی بنیاد“ کو ہی اگر آپ ہلاتے اور
لرزاتے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ الٹا اُس کو قبول کر لیتے ہیں اور اُس کے حق میں
’دلائل‘ دیتے بلکہ باقاعدہ اُس کی بابت لوگوں کے ’اشکالات‘ رفع کرتے دیکھے جاتے
ہیں اور اپنے عقائد و نظریات ہی کو نہیں اپنی ہسٹری تک کو اُس کے ’موافق‘ کر کے
دکھانے اور خود اپنے لوگوں کو اُسی سے ہم آہنگ لہجے اختیار کروانے کیلئے کوشاں
رہتے ہیں ، تو یہ سمجھنا کہ اُس نظام کو ’ختم‘ کر کے آپ یہاں بالکل ایک ’نئے‘ نظام
کی بنیاد رکھ رہے ہیں، خام خیالی کے سوا کچھ نہ کہلائے گا۔
ایک ’نظام‘ کو ختم کرنا ہے تو اُس کی فکری و عقائدی بنیادوں کو ہلا
کر رکھ دینا وہاں پر کرنے کا سب سے پہلا کام ہو گا۔ وہ اپنے چلنے کیلئے جہاں سے ’دلیل‘ پاتا ہے سب سے پہلے آپ کو وہاں
پر حملہ آور ہونا ہو گا۔ وہ سب بنیادیں جہاں سے اُس کو اپنے وجود کیلئے ’جواز‘
ملتا ہے ملیامیٹ کر دینا ہوں گی۔ اِس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اُس کے ہاتھ
کوئی ایک بھی چیز ایسی نہ لگے جس سے وہ اپنے اوپر پائے جانے والے اعتراضات کا
’ازالہ‘ کر لینے میں مدد پائے۔ بصورت دیگر آپ جو اُس نظام کو ختم کرنے کے داعی ہیں
وہاں پر خود اپنے پائے جانے کا وجہ جواز ختم کر لیں گے اور بہت جلد ایک ’غیر ضروری چیز‘ نظر آنے لگیں گے۔ اُس
کے ہاتھ اگر کوئی ایسی چیز آ جاتی ہے جس سے اب وہ قابل اعتراض نہیں رہتا تو اُس کے
حق میں یہ ایک عظیم الشان کامیابی ہے۔ کجا یہ کہ ایسی کوئی چیز آپ کی مدد سے اُس
کے ہاتھ آئے!
مگر یہاں کیا ہوتا رہا ہے؟ اِس نظام
کے حق میں ’شرعی دلائل‘ دینے کا کام بالعموم ہم (اسلام پسندوں) ہی کے سپرد کر رکھا
گیا ہے! جہاں تک یہاں کے لا دینوں کا تعلق ہے، اُن کو اِس نظام کی بابت ’مطمئن‘
کرنے کا کام ظاہر ہے ہم اسلام پسندوں کو نہیں دیا جا سکتا تھا۔ نہ وہ ہمارے مطمئن
کرانے سے مطمئن ہو سکتے تھے، مگر آپ دیکھتے ہیں یہاں کے لادینوں کو اِس نظام کی
بابت اچھا خاصا ’اطمینان‘ حاصل ہے(2)۔ اِس کیلئے یہاں کے کچھ لا دین طبقے تھے جو
اپنے ہم مشربوں کو یہ یقین دلانے پر مامور تھے کہ یہ نظام کوئی ایسا ’اسلامی‘ بھی نہیں کہ سب کچھ یہاں سچ مچ ہی
”شریعت“ کے تابع ہو کر رہ جائے! مغرب کو اِس نظام کی بابت ’مطمئن‘ کرنے کا کام بھی
ظاہر ہے ہم اسلام پسندوں کو نہیں سونپا جا سکتا تھا۔ مغرب کو مطمئن کرنے کیلئے
اپنے یہاں مغرب کے معتمد طبقے بہت تھے جو اپنے اِس نظام کے ’اسلامی‘ ہونے کی بابت
مغرب کے خدشات رفع کریں کہ وہ خاطر جمع رکھے؛ یہاں پائی جانے والی محض کچھ بے اثر
و ناقابل ذکر ’اسلامی دفعات‘ سے، جن میں باقاعدہ سوچ سمجھ کر کچھ نہایت موثر سقم
چھوڑ رکھے گئے ہیں، اُس کے دیے ہوئے اِس نظامِ سامراج کی ہیئت بدلی ہے اور نہ بدل
سکتی ہے، لہٰذا مغرب کو خوامخواہ اِس پر پریشان اور ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں اور
بلامضائقہ وہ اب بھی ہم پر اپنی عنایات جاری رکھ سکتا ہے بلکہ چاہے تو اور بھی
بڑھا سکتا ہے! البتہ ہم اسلام پسندوں کو یہاں کے ’مذہبی‘ طبقوں کے سامنے اِس نظام کے حق میں ’مذہبی دلائل‘ دینا
تھے اور یہ ’فرض‘ بلاشبہ ہم کئی عشروں تک بڑی تن
دہی کے ساتھ نبھاتے رہے۔ جونہی کسی ’سرپھرے‘ نوجوان کی زبان پر اِس کیلئے
’طاغوت‘ کا لفظ آیا ہم نے جھٹ سے اُس کو آئین سے ’کتاب وسنت کی بالادستی‘ نکال کر
دکھا دی اور اِس ’کم علمی‘ پر خوب خوب اُس کی خبر بھی لی کہ آخر وہ کس دنیا میں
رہتا ہے! بلکہ اُس کو عاقبت خراب ہو جانے کی فکر بھی دلائی کہ مبادا اپنی ’کم
علمی‘ کے باعث اور کسی ’غلو‘ کا شکار ہو کر وہ اِس نظامِ سامراج کی بابت کوئی ایسا
’گمراہ‘
اعتقاد رکھ
کر اپنا ’عقیدہ‘ خراب کر لے جیسا اعتقاد وقت کے خلیفۂ راشد (حضرت علیؓ) کی خلافت
کی بابت رکھ لینے سے کچھ لوگ __ تاریخِ اسلام کے اندر __ ”خوارج“ کہلائے تھے! دوسرے لفظوں میں:
جو حکم امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسے خلیفۂ راشد وامامِ عادل کا وہی
حکم ہمارے آج کے اِس نظامِ انگریزی و ترکۂ افرنگی کا؛ اُس کو باطل کہنے والے بھی
خوارج اور اِس کو باطل کہنے والے بھی خوارج! سر موں کوئی فرق نہیں!!!
یہ اُس نظام کے ساتھ ہمارا معاملہ تھا
جس کو ہم ختم کرنے جا رہے تھے اور اُس کی جگہ ایک اسلامی نظام قائم کرنے جا رہے
تھے!!!!!
جس نظام کو ہمیں ختم کرنا تھا اُس کے
حق میں شرعی دلائل لے کر آنے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی ڈال رکھی گئی تھی!!! ہم نے
دونوں کام نبھانا چاہے؛ ایک ہم سے ہو گیا اور دوسرا نہ ہو سکا!!! ہمارے ”شرعی
دلائل“ جو ہم اِس نظام کے دفاع میں لے کر آتے رہے ہمارے ”انقلاب“ کے خلاف ایک طرح
کا استغاثہ تھا جسے ہم نے خوب دلجمعی کے ساتھ لڑا!!!
# یہ تو اِس نظام کے ”دفاع“ کا معاملہ تھا، جس میں یقینا ہم خاصا
آگے چلے گئے تھے اور چند عشروں کے اندر ہمیں ایک بہت بڑی چوٹ پڑنے کا باعث تو
یقینا یہی رہا؛ جس کے نیتجے میں ہم قریب قریب ’آؤٹ‘ ہی ہو گئے۔
البتہ ہماری اِس گفتگو کا سیاق اُس
”دفاع“ سے، جو اِس نظام کو ہم سے میسر آیا، وسیع تر ہے....
ہر نظام کی تہہ میں ایک خاص ’فکری و
نظریاتی بنیاد‘ پائی جاتی ہے، جس کو جڑوں سے ہلا دینے پر ہی اُس نظام کا خاتمہ اور
اُس کی جگہ کسی اورنظام کے قیام کا عمل اپنے وجود میں آنے کیلئے تمام تر انحصار
کرتا ہے۔ پس سب سے پہلا سوال وہاں یہی ہوگا کہ وہ ”فکری و نظریاتی بنیاد“ جو اِس
نظام کو تھام کر کھڑی ہے اُس کے ساتھ آپ کی سازگاری کیسی ہے؟ ’نظام‘ کے ساتھ
سازگاری یا عدم سازگاری ایک بعد کی بات ہے۔
اِسی ’فکری و نظریاتی بنیاد‘ کو ہی ہم
اپنے اِس مضمون میں ’قومی ذہن‘ یا ’قومی عمل‘ یا ’قومی دھارے‘ یا ’اجتماعی عقیدے‘ ایسے الفاظ سے تعبیر
کریں گے۔ اصل ہلانے کی چیز یہ ’قومی دھارا‘ تھا نہ کہ وہ ’نظام‘ جو ایک ’قومی
دھارے‘ میں بہنے کا ایک طبعی اقتضاءہوا کرتا ہے ....!
کچھ شک نہیں، ایک ’قومی اجتماعی عمل‘ کچھ خاص ’قومی مسلمات‘ پر کھڑا ہوتا
ہے۔ وہاں پائے جانے والے سب فریقوں کے مابین اُن ”مسلمات“ پر ایک قطعی اشتراک پایا
جاتا ہے۔ سب فریقوں کے مابین وہ ایک ’مشترک زمین‘ہوتی ہے۔ یہ ”مسلمات“ ہی وہ چیز
ہیں جو اُس ’قومی عمل‘
کی جہت متعین
کرتے ہیں۔ یہ ”مسلمات“ بول بول کر بتا رہے ہوتے ہیں کہ وہاں کے ’قومی عمل‘ میں پیر
رکھنے کیلئے آپ کو اپنے عقیدہ و نظریہ کی کون کونسی قربانی دینی ہے اور نظریاتی
طور پر اپنے آپ کو اُس کے اندر کس طرح ’ایڈجسٹ‘ کرنا ہے۔ حق یہ ہے کہ اِن ”مسلمات“ کو دیکھ کر جو کہیں پر پائے
جانے والے ’قومی عمل‘ کی تہہ میں بول رہے ہوتے
ہیں، یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہوتا کہ اُس ’قومی عمل‘ کی منزل کیا ہے اور
اُس کی ’زمین‘ استعمال کرنے کے نتیجے میں یہاں سے کیا برآمد ہونے والا ہے۔ بلکہ یہ
پیش گوئی کر دینا تک مشکل نہیں ہوتا کہ اس ’قومی دھارے‘ میں بہہ کر خود ایک اسلامی
تحریک ہی بالآخر کہاں پہنچنے والی ہے۔
کچھ شک نہیں کہ یہ ”مشترک زمین“ جس پر
یہاں کا ’قومی عمل‘ استوار کرایا گیا ہے ”اسلام“ کے علاوہ کوئی چیز ہے۔ (”اسلام“ یعنی: اللہ کی غیر مشروط و بلا
شرکت غیرے بندگی و فرمانبرداری)
”توحید اور
شرک کے مابین فرق“.. ”اسلام اور کفر کے مابین حد فاصل“.... ’قومی عمل‘ کے سب فریقوں کے مابین ایک
متفقہ و غیر متنازعہreferring
point سرے
سے نہیں۔ ’اسلام‘ کے حوالے سے کوئی چیز یہاں کے فریقوں کے مابین ’ریفرنگ پوائنٹ‘ ہو بھی تو ہر فریق کے
ہاں اس کی اپنی اپنی توجیہ ہے اور اپنی اپنی تفسیر۔ ہرفریق اپنے اپنے ذہن میں
”اسلام“ کی جو حدود و قیود رکھتا ہے بلکہ برسر عام اُس کا اظہار کرتا ہے، ’قومی
عمل‘ کے اِن فریقوں کے مابین ”اسلام“ کی تعریف اور ”اسلام“ کے حدود و قیود کے
حوالے سے جو فرق پایا جاتا ہے وہ اتنا ہی بڑا فرق ہے جو خود کفر اور اسلام ہی کے
مابین ہوا کرتا ہے!
پس سب سے پہلے تو ایک ”اسلامی تحریک“
کو یہ کرنا تھا کہ وہ یہاں پائے جانے والے اِس ”قومی عمل“ ہی کو چیلنج کرے جو
”اسلام“ (یعنی اللہ کی غیر مشروط و بلا شرکت غیرے عبادت اور اطاعت) پر کھڑا ہوا
نہیں۔ اُس تحریک کو یہاں پر برسر عمل اُس ’قومی ذہن‘ ہی کو مسترد کر دینا تھا جو ”اسلام“کے حتمی و قطعی مسلمات سے تشکیل
پایا ہوا نہیں۔ ”اسلامی تحریک“ کو سب سے پہلے اِس ’قومی دھارے‘ ہی کے ساتھ اپنا
اختلاف سامنے لانا تھا جس کے سب فریقوں کے مابین ”اسلام“(یعنی اللہ کی غیر مشروط
وبلا شرکت غیرے عبادت و اطاعت) ایک بنیادی ترین referring point نہیں۔
حق یہ ہے کہ اُس ’فکری و نظریاتی بنیاد‘ ہی کے ساتھ،
یعنی اُس ’قومی اجتماعی عمل‘ ہی کے ساتھ، جو یہاں باطل کو تھام کر کھڑا ہے، ہمیں
ہرگز کوئی سازگاری نہ رکھنا چاہیے تھی۔ نہ صرف یہ کہ سازگاری نہ رکھنا چاہیے
تھی،بلکہ اُس ’فکری و نظریاتی بنیاد‘ کو ہی چیلنج کر دینا اور اُس کے خاتمہ کے
درپے ہو جانا ضروری تھا۔ اُس ’قومی اجتماعی عمل‘ کو جس کے دم سے یہ نظام قائم تھا
ایک ایسے ’قومی عمل‘ سے بدل دینا جو یہاں ایک صالح نظام کو تھام کر کھڑا ہو، ایک
ناگزیر امر تھا اور یہاں پائی جانی والی تحریکوں اور اسلام کے داعیوں کا اصل کام
تو یہی تھا۔ اِس پر تن دہی کے ساتھ کام ہونے لگتا تو ہم دیکھتے کہ چند عشروں کے
اندر یہ نظام ایک ایسے کھگر (جُرُفٍ ہَارٍ) کی طرح کھڑا ہے جس کے تلے سے اسلام کے
تحریکی عمل کے تیز دھارے نے بہت سی مٹی کھور دی ہے اور اُس کی تمام تر رعونت اور
طنطنہ کے باوجود اُس کی جڑیں کھوکھلی اور اُس کی حالت دگرگوں کردی ہے جہاں اِس کا
بھاری بھر کم وجود اب روز بروز قابل ترس ہونے لگا ہے(3)۔ یہی وہ صورتحال ہوتی جو
یہاں ایک صالح نظام کے قیام کا آپ سے آپ تقاضا کر رہی ہوتی؛ اُس صورت میں ”اسلامی
نظام“ کا قیام وقت کی آواز ہوتا جس کو سننے پر ہر کوئی مجبور ہوتا اور جس کا مطلب
ہر کسی کی سمجھ میں آتا۔
البتہ جو طریق کار بالعموم یہاں ہم نے
اپنایا وہ یہ کہ ہم اُس ”قومی عمل“ اور اُس ”اجتماعی عقیدہ“کا حصہ بننے لگے جس پر
یہ نظام اپنے وجود میں آنے اور اپنے قائم رہنے کیلئے تمام تر سہارا کر رہا تھا۔ ہم
نے نہ صرف یہ کہ اُس ”فکری، نظریاتی اور شعوری صورتحال“ کو بنیاد سے ہاتھ نہیں
ڈالا جس پریہ نظام استوار تھا بلکہ اُسی کے اندرہم نے وہ سب ’نعرے‘ تلاش کرنا شروع کر دیے جو ہمیں یہاں
کامیابی دلوا سکیں! ہم نے اُسی کے اندر سے وہ ’دلائل‘ نکالنے کی کوشش کی جو سیکولر
قوتوں کے بالمقابل ہمارے حق میں جائیں! ہمارے خیال میں معاملہ واقعتا اِسی قدر
آسان تھا! ہمیں لگتاتھا کہ اِن ’قومی مسلمات‘ ہی کا سہارا لے کر ہم یہاں کے سیکولر
طبقوں کے کیس کا بودا پن ثابت کر سکتے تھے اور یہ کہ اِس کے لئے ایک ”قرآنی معرکہ“
کھڑا کرنے (”وجاہدہم بہ جہاداً کبیراً“(4)) اور انبیاءکے
طریقے پر یہاں ایک ”عقائدی جنگ“(5) چھیڑ دینے تک نوبت چلی
جانا ضروری نہ تھا، بلکہ شاید ہم میں سے بعض کے خیال میں یہ ’انتہاپسندی‘ بھی
ہوتا! دوسرے لفظوں میں، ہم نے قومی سطح پر پائی جانے والی اِس انتہائی مبہم (اور
درحقیقت متناقض اور حق و باطل کا ملغوبہ) فکری و نظریاتی صورتحال کی بابت یہ ثابت
کرنے کی کوشش کی کہ یہ تو صاف صاف ہمارے حق میں جاتی ہے نہ کہ سیکولر طبقوں کے حق
میں!!! تا آنکہ قومی سطح پر پائی جانے والی اِس ”فکری و نظریاتی صورتحال“ کو خود
ہی بول کر بتانا پڑا کہ وہ کس کے حق میں جاتی ہے، آیا ہم اسلام پسندوں کے حق میں
یا سیکولر طبقوں کے حق میں؟! اور اب جب وہ صورتحال خود بول بول کر بتا رہی ہے،
جبکہ جوہری طور پر اُس میں کوئی بڑا فرق نہیں آیا ہے بلکہ وہ ”قومی صورتحال“ محض
اپنی افتاد میں اور اپنے اُن تناقضات میں ’نمایاں تر‘ہوئی ہے، تو آج اِس کو سننا
ہمارے لئے حد سے بڑھ کر تکلیف دہ اور مایوس کن ثابت ہو رہاہے۔
اِس ”فکری و نظریاتی صورتحال“ پر جو
اِس نظام کی تہہ میں بیٹھی ہے اور جس کو ہم نے یہاں کا ’قومی عمل‘ یا ’قومی دھارا‘
یا ”اجتماعی عقیدہ“ کا نام دیا ہے، خصوصاً
اِس کے پس منظر پر، ہمیں قدرے تفصیل کے ساتھ بات کرنا ہو گی....:
٭٭٭٭٭
# ”اسلامی ایمپائر“ ایک ایسی عظیم الشان
حقیقت کا نام رہا ہے کہ اس پر ’زوال‘ کو آنے کیلئے بھی صدیاں درکار
تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے واقعتا ہمیں ایسی ہی ایک بلندی پرلے جا کر چھوڑا تھا! کچھ ہی
عرصہ گزرنے کے بعد اِس پرزوال کا ایک بھر پور حملہ ہوا تھا، بلکہ یہ ایک ایسا
زوردارحملہ تھا کہ کوئی اور امت ہوتی تو اس کی تاب ہی نہ لا سکتی۔ مفتوح قوموں کے
بے شمار دماغ جو اپنے آپ کو ’سپر پاورز‘ سے کم کسی مرتبہ پر دیکھنے کے روادارنہ
تھے، ’اسلامی ایمپائر‘ کو ہر ہر سطح پر زوال سے دوچار کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کازور
لگاچکے تھے۔ مگر یہ امتِ محمد تھی جو فساد اورانحراف کے ہر ریلے کے آگے مضبوط چٹان
کی طرح کھڑی رہی جبکہ اِس کے ایک گروہ کو تو قیامت تک اُس حق پر قائم رہنا ہے(6)
جس کے ساتھ محمد ﷺ کو مبعوث کیا گیاہے۔ امت کی ابتدائی صدیوںمیں اِس گروہ کو، جو
ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور امت کیلئے روشنی کا مینار بن کر رہے گا، ’مین اسٹریم‘
کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
البتہ ”اسلامی ایمپائر“ کوئی ’اسٹین لیس‘ قسم کی چیزنہ تھی بلکہ ایک
”انسانی واقعہ“ تھا اور وہ خدائی سنتیں جو اِس سے پہلے امتوں کے زوال اورانحطاط کے
حوالے سے کارفرما رہی تھیں، اِس آخری آسمانی امت کو بھی اُن سے کوئی چھوٹ حاصل نہ
تھی۔ بلکہ رسول اللہﷺ کی اپنی پیش گوئی کی رو سے اِس امت کو بھی اُن سب خدائی
سنتوں کی زد میں آنا تھا(7) اور اِس معاملہ میں کسی چیز سے بھی اِس کو کوئی
استثناءحاصل نہ تھی، سوائے ایک چیز کے اور وہ یہ کہ اِس امت کے ایک طائفہ کو قیامت
تک اِس حق پر قائم رہنا اور اس کیلئے جاہلیت کے خلاف برسر جنگ رہنا ہے(8)، اور اِس
میں ظاہرہے کبھی ایک دن کا بھی انقطاع نہیں آیا۔
# بلا شبہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ
اسلامی میں ایسے ایسے بے کار حکمران آتے رہے ہیں کہ جن کو کسی بھی درجہ میں آج کے
کسی حکمران سے بہتر نہ کہا جا سکے۔ ایسے ایسے لوگ مسند اقتدار پر فائز ہوتے رہے
ہیں جو اسلام سے اُتنا ہی بیگانہ ہوں گے جتنا کہ آج کے دور کے مسند اقتدار پر فائز
طبقے، اور بعض احوال میں آج کے بعض لوگوں سے بھی کہیں زیادہ گئے گزرے۔ اِس کے
باوجود ماضی کی اُس صورتحال اور ہماری آج کی اِس صورتحال میں ایک بے حد جوہری فرق
ہے....
ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ایک ’قومی و
اجتماعی صورتحال‘ جو کسی جگہ پر ایک بار قائم ہو جاتی ہے اور جس سے تشکیل پانے
والی ’اسٹیٹ‘ کو ”نظام“ بھی کہا جاتا ہے .. یہ ’قومی و اجتماعی صورتحال‘ کسی جگہ
پر جب ایک بار قائم ہو جاتی ہے (اِس کو ہم اپنی اصطلاح میں ”اجتماعی عقیدہ“ کی
تبدیلی کہتے ہیں) تو اُس اجتماعی عمل کا حصہ بننے والے افراد اُس گاڑی کے آگے
بڑھنے کیلئے بالعموم ’پہیوں‘ کا کام دیتے ہیں۔ ’افراد‘ کی اپنی ایک اہمیت ضرور ہے، تاہم انکا کردار بالعموم
اِس دائرہ سے باہر نہیں جاتا کہ وہ اُس کے پراسیس کو یا تو تیز تر و مؤثر تر کر
دیں، یا پھر اُس میں سستی وکاہلی لانے یا اُس کے عمل میں ایک گونہ تعطل لانے اور
اُس کو غیر مؤثر کر دینے کا باعث بنیں۔ ایسے ایسے لوگ بھی جو اُس کی فکری و
نظریاتی بنیاد سے آخری حد تک منحرف ہوں،اُس ”پیچھے سے چلتے آئے ہوئے اجتماعی عمل“
کو، زیادہ سے زیادہ، ’خراب‘ کر سکے ہوں گے۔ مگر یہ کہ وہ اُس کو ’یکسرایک نئی جہت‘
پر ڈال گئے ہوں، ایسا ہوتاشاید کبھی نہ دیکھا گیا ہو، اِلا یہ کہ ایک تحریک
باقاعدہ ایک نئے عقیدے کی داعی بن کر اٹھی ہو(9) اور اُس نے ”عقائدی بنیاد“ پر ہی
وہاں کی کایا پلٹ دی ہو (جس کا اساسی ترین جزو یہ ہو گا کہ وہ تحریک وہاں پر پائی
جانے والی ”عقائدی صورتحال“ پر پوری بے رحمی کے ساتھ تیشے برسائے اور اُس کو
’وجود‘ کے حق تک سے محروم کر دے، عین اِسی لہجے کے ساتھ وہ میدان میں اترے اور یوں
ایک نئے نظریے (ہماری اصطلاح میں ”عقیدے“) کی ہی وہاں پر سیادت قائم کرا دے)۔
پس یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی جگہ پر اگر
ایک صالح قسم کی ”قومی و اجتماعی صورتحال“ وجود میں لے آئی گئی ہے اور اُس کا ایک دھارا کسی زور دار
تحریکی عمل کے ہاتھوں ایک بار تشکیل پا گیا ہے تو عرصۂ دراز تک وہاں ایساہی رہے
گا کہ اچھے لوگ میدان میں آتے ہی اُس کو بلندیوں سے ہمکنار کرنے لگیں گے البتہ اگر
کچھ خراب لوگ بھی آجائیں تو وہ اُس کو کچھ نہ کچھ خراب تو کریں گے مگر اُس کو یکسر
ختم کر کے وہاں پر سراسر ایک باطل ”قومی و اجتماعی صورتحال“ کو جنم نہ دے سکیں گے،
اِلا یہ کہ وہ باقاعدہ ایک تحریک ہوں؛ یعنی باطل کے حق میں ایک ”عقائدی کایا پلٹ“
کو عمل میں لے آنے کی صلاحیت سے لیس اور عزم سے مسلح ہوں۔ بصورتِ دیگر وہ اُسی
صالح نظام کو ہی کچھ نہ کچھ خراب کر کے چلاتے بہر حال رہیں گے؛ اور ”نیک لوگوں“ کے
آتے ہی صورتحال کے یک بیک پلٹ جانے کا امکان بھی مسلسل باقی رہے گا۔ تاریخ اسلام
کا طویل عرصہ ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا رہا۔
بعینہ اسی طرح، اگر کسی جگہ پر ایک
غیر صالح ”قومی و اجتماعی صورتحال“ وجود میں آگئی ہے، جس کے خاص اپنے اسباب ہو
سکتے ہیں، (ہم جانتے ہیں کہ عالم اسلام میں یہ اسباب اور عوامل نمایاں طور پر
استعماری راج کی طرف لوٹتے ہیں) تو پھر اُس باطل کا ایک تسلسل برقرار رہے گا۔ اُس
کو اگر کچھ باطل پرست لوگ میسر آتے ہیں تو وہ اُس کو اُس کی باطل سمت میں آگے
بڑھانے میں کمال کی کامیابی حاصل کر کے دکھائیں گے۔البتہ باطل کی اُس گاڑی کو اگر
کچھ ’صالح‘ پہئے دستیاب ہو جاتے ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ یہی کرسکیں گے کہ اُس کے
اندر ایک تعطل لے کر آئیں یا زیادہ ہی ’ہمت‘ سے کام لیں تو اُس کے اندر سمت
کا ایک بحران پیداکر دیں، جس سے وہ قوم کہیں بھی پہنچنے کے قابل نہ رہے۔ البتہ یہ
صالح لوگ __ اجتماعی سطح پر __
جب تک اُس
”فکری و نظریاتی صورتحال“ ہی کو نہیں بدل دیتے جس پر وہ نظام اپنی بناءکرتا آیا ہے
اور وہاں پر سراسر ایک نئی ”فکری و نظریاتی صورتحال“ پیدا نہیں کر دیتے (اور جوکہ ناممکنات میں سے بہرحال نہیں) تب
تک اُس کو وہ جہت بہرحال نہ دی جا سکے گی جو صالحین کے اپنے عقیدے کا اقتضاءہو۔ یہ
بھی تب ہے اگر یہ مفروضہ کچھ دیر کیلئے مان لیا جائے کہ صالحین کسی طرح آنکھ بچا
کر اُس نظام کے اندر کسی ’مؤثر پوزیشن‘ تک پہنچ لیں گے اور ’فریق دیگر‘ اُن کو ایساکرنے کے لئے چھوڑ دے گا۔
ہاں البتہ ’فریق دیگر‘ اگر اُن کو یہ موقعہ دینے کا بھی روادار نہ ہو اور اِس کے
باعث وہ کسی ’مؤثر پوزیشن‘ تک ہی نہ پہنچ سکیں پھر تو اُن کا کردار وہاں پر ایک
بیگار سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہ پا سکے گا۔
خلاصہ یہ کہ ایک نظام وجود میں آنے
کیلئے غیر معمولی زور اور طاقت چاہتا ہے البتہ جب ایک بار چل پڑے تو وہ اپنے دھارے
میں سب کو چلاتا ہے جبکہ خود اُس کو چلنے کیلئے معمولی سی توانائی بھی دستیاب ہو
تو کام دے جاتی ہے۔ تاریخ اسلام کی کثیر صدیاں ”اسلامی نظام“ کے حق میں اور آج ’استعمار‘ کے چھوڑے ہوئے ”باطل نظام“ کے حق
میں ہمیں یہی حقیقت کارفرما نظر آتی ہے۔
# بنا بریں.... چونکہ ”اسلامی ایمپائر“
ایک انسانی واقعہ تھا لہٰذا انحطاط کے عوامل بہر حال اِس کے وجود پر اثر انداز
ہوتے رہے۔ بہت بہت تاریک ادوار میں بھی اِس کا معاملہ بگاڑ میں ایک حد سے نہیں
گزرا تو اِس کی وجہ وہ تھی جو اوپربیان ہوئی۔ یعنی: ایک بہت بڑے بگاڑ کے علی الرغم
یہ پیچھے سے چلا آنے والا ایک صالح تسلسل تھا جس کی سمت کو یکسر موڑ دینا بغیر کسی
زوردار ’باطل تحریکی عمل‘ کے ممکن نہ تھا۔ پس اُس دور میں ہم دیکھتے ہیں ایک فاسق
سے فاسق شخص بھی مسند اقتدار پر قابض ہوتا ہے تو ملک کے طول و عرض میں چلانے کے
لئے ”شریعت محمدی“ کے علاوہ کوئی قانون نہیں پاتا، حتیٰ کہ کسی بات کو ”قانون“
کہنے کی جرأت تک نہیں پاتا (سوائے کچھ تاتاری حکمرانوں کے، جنہوں نے قبولِ اسلام
کے بعد بھی چنگیز خان کی ’یاسق‘ کو قانون کا درجہ دے کر رکھا، اور جس پر امام ابن
کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں سورۃ المائدہ (آیات 43 تا 50) کے تحت باقاعدہ کفر کا
فتویٰ دیا۔ کچھ ہی دیربعد تاتاری بھی اسلام ہی کے اجتماعی رنگ میں رنگے گئے، ان کی
’یاسق‘ (تزکِ چنگیزی) قصۂ پارینہ بنی اور شریعت محمدی کے سوا کوئی چیز ملک کے طول
و عرض میں ”قانونی مرجع“ کے طور پرباقی نہ رہی)۔
البتہ انحطاط کے عوامل ”اسلامی
ایمپائر“ پرمسلسل حملہ آور رہے؛ مجموعی طور پر گراف نیچے اور نیچے ہی جاتا رہا اور
آخری صدیوں میں تو قریب قریب زمین ہی کو چھونے لگا تھا۔ اجتماعی سطح پر پائی جانے
والی بدعملی اور اخلاقی گراوٹ کو اِس وجہ سے کچھ دیر کیلئے نظر انداز کر دیتے ہیں
کہ بدعملی اور اخلاقی گراوٹ کو، جو کہ اپنے یہاں بے حد وحساب پائی جانے لگی تھی،
ہماری یہ اقوام ”اسلام“ کے منافی ضرور جانتی تھیں۔ مگر
شرک کی بد ترین اصناف اور بدعات اور گمراہیاں کہ جن کی کوئی حد اور نہ حساب،وہ
اشیاءتھیں جو ”اسلام“ کا ہی حصہ باور ہونے لگی تھیں۔ بلکہ حق یہ ہے لوگوں کے نزدیک
اب ”اسلام“ ہی یہ تھا اور اِس کے علاوہ وہ کسی ”اسلام“ سے واقف ہی نہیں رہ گئے
تھے! یعنی اِس عمارت کو ڈھ جانے کیلئے محض ایک بہانہ درکار تھا!
غرض ”استعمار کے آنے سے پہلے
ہی”اسلام“ ہمارے اِس ماحول میں ”اجتماعی عقیدہ“ ہونے کی اپنی وہ حیثیت جو اس کو
ہزار سال تک حاصل رہی تھی، قریب قریب کھو چکا تھا۔ ہماری اُس اجتماعی حالت زار کو
دیکھیں جس کو ہم تاریخ کی ان آخری صدیوں میں پہنچ چکے تھے تو لسان حال سے ہم
’استعمار‘ کو گویا کب کے اپنے یہاں آنے کی ’دعوت‘ دے رہے تھے۔ (الجزائر کے معروف مسلم مفکر مالک بن نبی کے
بقول:
’استعمارا
جانے کے قابل‘ ہونا کسی قوم کے ہاں پائی جانے والی باقاعدہ ایک ”حالت“ کا نام ہے، جو کہ ایک عرصہ سے
ہماری مسلم اقوام پر طاری ہو چکی تھی؛ غیر قوم نے آ کر اِس کو محض ’دریافت‘ کیا
تھا نہ کہ اِس کو ’پیدا‘ کیا تھا! مالک بن نبی کے بقول: ’ناقابلِ استعمار‘ ہونا
بھی کسی قوم کے ہاں پائی گئی ایک ”حالت“ ہی کا نام ہے جس کو جب تک پیدا نہ کیا
جائے وہ معرض وجود میں نہیں آتی۔ مقصد یہ کہ جب تک آپ بطورِ قوم ایک ’قابل
استعمار‘حالت میں رہتے ہیں اور اُس سے نکل آنے کے لئے مطلوب فکری و شعوری وعملی
استعداد اپنے اندر پیدا نہیں کرلیتے آپ کسی ”دوسرے“ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں؛
یعنی آپ کو اپنے زیر استعمار لانے میں تب کوئی کوتاہی یا تاخیر ہو گی تو ”اُس“ کی
طرف سے ہو گی اور آپ کو چھوڑ دینے کے پیچھے کوئی مجبوری (عالمی جنگیں وغیرہ نہ کہ
ہماری سورما قیادتیں!) ہوگی تو ”اُس“ کی طرف سے ہو گی۔ وہ دوبارہ کس شکل میں آتا
ہے یہ بھی سراسر ”اُس“ پر ہے!)۔
چنانچہ اجتماعی سطح پر وہ ”فکری و
نظریاتی صورتحال“ جو استعمارسے متصل پہلے کی صدیوں میں ہمارے یہاں پائی گئی __ اور
جس کو اُس وقت کا ’قومی دھارا‘ کہنا چاہیے __ خصوصاً ”اسلام“ کو ”نا اسلام“ سے الگ
کرنے کی صلاحیت رکھنے کے حوالے سے، وہ بستر مرگ پر پڑے ایک مریض کی حالت سے کچھ
مختلف نہ تھی جس کو ’زندہ‘ دیکھ کر آپ کبھی ’خوش فہمی‘ کا شکار نہیں ہوتے۔
کیا ”قومی سطح“ پر، ”اسلام“ کو پہچان پانے اور ”اسلام“کو
”نا اسلام“ سے چھانٹ سکنے کے حوالے سے، آج یہاں کی صورتحال اُس وقت سے بہتر ہو گئی
ہے جو استعمار کے اپنے ہاں آنے سے پہلے یہاں کے ’قومی دھارے‘ کو لاحق تھی؟ یا ..
معاملہ آج اُس سے بھی کہیں بڑھ کر آشوب ناک ہے؟؟؟
”توحید اور شرک کے مابین فرق“.. ”اسلام اور کفر کے مابین حد فاصل“....
یہ اِس امت کا پہلا سبق تھا جو اِس کو اپنے نبی سے ملا تھا اور جو کہ اِس کے وجود
میں آنے کی بنیاد بنا تھا۔ یہ چیز جو امت کے وجود میں آنے کی بنیاد بنی تھی اور
صدیوں اِس امت کے وجود کو منواتی رہی تھی، استعمار کے یہاں پر آنے سے پہلے ہی اپنے
یہاں قریب قریب دم توڑ چکی تھی۔ وہ سب سے پہلی اور سب سے اہم حقیقت جو آج کے
”اِحیائی عمل“ کے پیش نظر رہنی چاہیے تھی، یہی ہے۔
# حقیقت یہ ہے کہ قومی سطح پر آج ہم
جہاں کھڑے ہیں وہ اپنی اساس میں اُسی ”فکری و نظریاتی صورتحال“ کی ہی ایک بھیانک
تر صورت ہے جس پر ہم استعمار کے قبضے میں چلے جانے سے پہلے پہنچ چکے ہوئے
تھے۔خصوصاً خالص اسلام کو پہچاننے کی استعداد نہ رکھنے کے حوالے سے۔ اور جس کے
باعث یہاں صدیوں سے چلے آنے والے ’نظام‘
کے ختم ہونے
کا گویا پتہ تک نہ چلا تھا اور جس کے باعث ایک بدیسی ’نظام‘ کو اپنا ”خیر مقدم“
کرانے میں اپنے یہاں دیر نہ لگی تھی! اور ’مزاحمت‘ تو گویا وہ جانتا تک نہ تھا!
(ابھی یہ ”اسلام“ کو محض ”پہچاننے“ کی
اجتماعی صلاحیت رکھنے کے حوالے سے بات ہوئی ہے، ”اسلام“ کو اپنی اجتماعی زندگی کا جیتا
جاگتا واقعہ بنا کر رکھنا تو خیر اور بھی دور کی بات ہے)۔
غرض ”اسلام“و ”کفر“میں فرق کر سکنے کے اعتبار سے ہماری ’قومی
استعداد‘ اُس صورتحال کی نسبت اب تو کچھ ابتر ہی ہوئی ہوگی جس پر ہم استعمار کے
ہاتھوںمفتوح ہو جانے سے پہلے کھڑے تھے اور جس کے باعث ہماری یہ سب لٹیاڈوبی تھی۔
اندازہ کر لیجئے ایسی قوم جس کی”اسلام“ کی حقیقت سے واقفیت اور آگاہی اِس حال کو
جا پہنچی ہو (اُس کے عملی قیام کی تو خیر ابھی بات ہی نہ کریں!)، یعنی حقیقتِ
اسلام سے مکمل بیگانگی، اوپر سے اُس کو ایک نئی تہذیب کے آگے دو سو سال تک زانوئے
تلمذ طے کرنا ہو!
اور آج.. وہ ”فکری و نظریاتی ابتری“
پورے دو سو سال آگے بڑھ چکی ہے.. ”دو سو سال“ بھی اُس دور کے جب ’زمانہ قیامت کی
چال چل گیا‘ تھا!!!
# استعمار کے آنے سے پہلے ہماری جو
صورتحال تھی اُس کو ”فکری و نظریاتی ابتری“ کہنا بھی اِس کی صحیح عکاسی نہ ہو گا۔
وہ ایک ”فکری ونظریاتی مسخ“a
misshape of the Islamic ideology تھا۔ ”اسلام“ کی اصل تصویر ذہنوں کے اندر باقی ہی نہ رہ گئی
تھی۔ اَن پڑھوں کی بات نہیں ہو رہی، اوپر کے طبقوں کا بھی یہی حال تھا۔ ”اسلام“ کی اصل تصویر ذہنوں تک میں باقی نہ رہ
گئی تھی۔ محض اتنا ہوتا تو بھی ہم اس کو غنیمت سمجھتے؛ ”اسلام“ کی اصل تصویر مسخ
ہو کر رہ گئی تھی۔ طرح طرح کی خرافات اب ”اسلام“ کا حصہ تھیں۔ شرک کی بے شمار
اقسام ”اسلام“ کا جزوِ لا ینفک تھیں۔ وہ چیز جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرما
رکھا تھا: ”من أحدث فی أمرنا ہذا“ یعنی وہ چیز جو صحابہؓ والے دین میں کہیں
اِدھر اُدھر سے شامل کر دی گئی ہے جبکہ دینِ صحابہ سے اُس کا کوئی ثبوت ہی نہ ملتا
ہو.. اور جبکہ وہ ’چیز‘ بلکہ ’چیزیں‘ جو صدیوں کے ایک عمل نے ”اسلام“ میں شامل
کروا دی تھیں، بہت بڑی بڑی شرکیات تک پر مشتمل تھیں، اور جن کی بابت __ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق __ امت
کو مل کر ”فَہُوَ رَدّ“ (”یہ رد ہے“) کہنا تھا.. یہ شرکیات ”قبول“ تو بڑا عرصہ
پہلے کر لی گئی تھیں اب تو ”اسلام“کی پہچان ہی یہ مان لی گئی
تھیں.... جبکہ ’استعمار‘ اپنے یہاں ابھی نہیں آیا تھا!!!
یہ ہے فکری و نظریاتی لحاظ سے یہاں کا
وہ ”قومی عمل“ جس نے ہمیں استعمار کے چنگل میں دیا تھا۔ ایک صالح اسلامی تحریک کو
سب سے پہلے تو اُس ’قومی ذہن‘ کا تجزیہ کرنا تھا جس نے قوم کو اس حال تک پہنچایا
تھا۔ ’مابعد استعمار‘ گمراہیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے بھی یہی ضروری تھا کہ وقت کی
صالح تحریک پہلے یہ دیکھے کہ اِس قوم سے اِس کی ایمپائر ابتداءً چھنی کیوں تھی؟
آخر وہ کونسی وجہ تھی کہ خدا نے اِس کو اِس کے حال پر چھوڑدیا اور اِس کی نصرت سے
ہی دست کشی اختیار کرلی ....؟ صاف سی بات ہے، جس چیز کی نصرت کا خدا کی طرف سے
وعدہ ہے وہ وہی ”اسلام“ ہے جو اُس کے ہاں سے اترا ہے۔ اُسی کو مسخ کر دیا جائے تو
”نصرت“ کس چیز پر اترے؟ کیا اُسی چیز پر جس کو اُس کا رسول کہے: ”فَہُوَ رَدّ“
یعنی ”یہ رد ہے“؟!
# یہاں اصلاح کا بیڑا اٹھانے والی تحریک
کو اتنا پیچھے ضرور جانا چاہیے تھا کہ وہ اِس بات کا تعین کرے کہ باطل کو اسلام کے
نام پر قبول کر نے کی ریت اِس امت کے اندر پڑی کیسے اور اِس کا سدِباب کہاں سے
ہوتا ہے؟ کیونکہ آج کی ”اسلامی تحریک“ کو جس سب سے بڑے چیلنج
کا سامنا ہے وہ یہی ہے کہ ”اسلام“
اور ”باطل“
کے مابین جو فرق ہے اور جو کہ بُعد المشرقین سے بڑھ کر ہے، وہ آج کے اِس ’قومی
عمل‘ میں بال سے باریک ہو گیا ہے۔ (اکثر ’تماشائیوں‘ کیلئے تو یہ سمجھنا دشوار ہے
کہ آخر ایسا کونسا ’بڑا‘ فرق ہے جو آج کی ایک جدید ’فلاحی جمہوری ریاست‘ اور ’اسلام کی مطلوبہ ریاست‘ کے مابین
پایا جاتا ہے؛ ایک’فلاحی جمہوری ریاست‘ ہی تو ’اسلامی نظام‘ کا اصل اقتضاءہے، یہ
نہیں تو ’اسلامی نظام‘ آخر کس بلا کا نام ہے؟!)
”کفر اور اسلام کے فرق“ کا اپنے یہاں کے ”قومی مسلمات“ کی فہرست سے روپوش ہو جانا
کچھ ایساتازہ المیہ نہیں۔ کوئی تحریک ذرا پیچھے نگاہ اٹھا کر دیکھتی تو ”شرک و توحید“
اور ”کفر و اسلام“ کے فرق کا روپوش ہوتا چلا جانا اُس کو کئی صدی پیچھے تک نظر
آتا۔
# یہ ”نظریاتی دیوالیہ پن“ اور یہ
”عقائدی مسخ“ جس پر ہم استعمار کے آنے سے پہلے ہی پہنچ چکے ہوئے تھے، بلکہ جس کے
باعث ہم استعمار کیلئے ایک اچھی ’دریافت‘ ثابت ہوئے تھے، آگے چل کر اِس
میں کچھ ’پیش رفت‘ بھی ہوئی۔ جس میں اہم ترین یہ کہ ہمارے بہت سے دماغ ’جدید علوم‘
سے آراستہ ہوئے۔ یہ بات ایک پہلو سے خوش آئند تھی تو ایک پہلو سے اور بھی تشویش
ناک۔ ہمارے یہ دماغ اگر اسلامی عقیدہ میں گہرے گئے ہوتے اور اس کے بعد مغربی علوم
و فنون سے بہرہ ور ہوئے ہوتے تو یہ کمال کی ایک پیش رفت ہوتی۔ ”عقیدہ“ کی یہ چھلنی
لگی ہوتی تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ فکرِ مغرب کی وہ سب غلاظتیں اِس روانی کے
ساتھ اپنے ہاں چلی آتیں۔ مگر ہم جانتے ہیں وہ نیک طبقہ جس سے ایسی کسی راہنمائی کی
توقع ہو سکتی تھی، اِس سطح سے بہت نیچے تھا، بلکہ اِس چیلنج کا اندازہ کر لینا بھی
اُس کے بس سے باہر تھا۔ پس جدید علوم کے آنے سے بعض پہلوؤں سے یہاں ایک بہتری ضرور
آئی خصوصاً سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے۔ البتہ ذہنوں کے اندر دین کی حقیقت اور
سے اور مسخ ہوتی چلی جانے اور ”اسلام و کفر کا فرق“ اور سے اور مٹتا چلا جانے کے
حوالے سے ہمارے بیشتر بڑے بڑے دماغ اور بھی بری حالت کو پہنچے۔ یہ بات خاص اِس لئے
بھی اہم ہے کہ یہ استعمار ایک باقاعدہ ”دین“ رکھتا تھا۔ پھر اور بھی خطرناک یہ کہ
وہ اُس کو ’دین‘ کا نام نہ دیتا تھا۔ ’ڈیموکریسی‘، ’ریشنل ازم‘، ’رَیلَٹِوازم‘ ’سیکولر ازم‘، ’نیشنل
ازم‘ وغیرہ وغیرہ باقاعدہ ادیان تھے جو ”دین“ نہ کہلانے کے باعث بغیر کسی روک ٹوک کے ہمارے فکری
پیراڈائم میں چلے آئے تھے اور اِن سے بڑھ کر کوئی چیز اب ہماری نظر میں حق نہ رہی
تھی۔ جب یہ ”دین“نہ تھے تو اسلام کے ساتھ ان کے تعارض کا سوال ہی کیونکر ذہنوں کے
اندر اٹھ سکتا تھا؟! یہ الگ بات کہ ایسا کوئی سوال ذہنوں کے اندر اٹھ بھی جاتا تو
”اسلام“ کی تفسیر کے ہی کچھ ایسے اسلوب اپنے یہاں بر وقت ایجاد ہو گئے تھے کہ
”اسلام“ اِن سب ’جدید حقائق‘ اور ’جدید تقاضوں‘ کے ساتھ ’ہم آہنگ‘ نظر آنے میں دیر
کر دینا بھی اپنے حق میں معیوب جانے! چنانچہ اول تو وہ شرک ہی جو منوں کے حساب سے
درآمد ہوا ’غیر دینی رنگ‘ رکھنے کے باعث کسی کے کان کھڑے کردینے کاباعث نہ ہو سکتا
تھا۔ لہٰذا دو صدی تک قسما قسم شرک اپنے یہاں لا لا کر ڈھیر کیا جاتا رہا، جبکہ
توحید اور شرک میں تمیز کی استعدادہمارے یہاں پہلے ہی بڑی دیر سے دم توڑ چکی تھی۔
پھر اُس منہج کے باعث، جس کی رو سے ”اسلام“ پر ہی یہ ’فرض‘ عائد ہو جاتا ہے کہ
اپنے علمی و تاریخی ذخیروں کے اندر جابجا وہ ہمیں اُن سب باتوں کی نشاندہی کر کے
دے جو ہم مغرب سے سیکھ کر آئیں! (اور جن کا تمام تر پس منظر مغرب ہی کے فکری
بحرانات اور مغرب ہی کی فکری تاریکیاں ہیں، جبکہ اسلام میں ’ایسی‘ کوئی بات ہوگی
تو اُس کا بالکل کوئی اورسیاق ہو گااور اسلام کے فکری پیراڈائم میں اُس کی اپنی
ایک ترتیب ہو گی، جوکہ اسلامی عقیدہ میں گہرائی پانے کے بعد ہی آدمی پر عیاں ہو
سکتی ہے) ... ’مطالعۂ اسلام‘ کے اِس نئے منہج کے باعث جو جو کچھ مغرب سے درآمد
ہوا ”اسلام“ میں بھی جگہ جگہ اُس کے ’ثبوت‘ ہی دیکھے گئے(10)!
اِس سے پہلے بھی ہماری حالت کچھ ایسی
قابل رشک نہ تھی، مگر یہ کور پن جو ہمیں استعمار کی شاگردی اختیار کر لینے کے بعد
نصیب ہوا اور جس کے باعث ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ پر ’دیواریں ٹٹولنے‘ کی
نوبت آئی رہی ہے اور جوکہ بدستور جاری ہے اور شاید بڑھتی جا رہی ہے، ہماری تاریخ
کا ایک ایسا آشوب ناک واقعہ ہے جس کی مثال اِس سے پہلے نہیں ملتی۔
# یہ تو ہوئیں ’قومی عمل‘ کی وہ فکری و
نظریاتی جہتیں جن کو بدلے اور اساس سے ہلائے بغیر اِس سے ایک ’صالح نظام‘ کا برآمد
کرا لیا جانا ایک خواب ہی ہو سکتا تھا۔
مزید یہ کہ، انگریز یہاں ایک ”فاتح“
کی حیثیت سے آیا تھا نہ کہ مقامی باشندوں کے ’ووٹ‘ ڈلوا کر۔ فاتح کو اپنی مرضی کا
نظام قائم کرنا کبھی مشکل نہیں رہا(11)۔ مسلمان فاتحین تھے تو ان کو مفتوحہ علاقوں
کے اندر اپنا نظام ساتھ لے جانے میں کبھی دشواری پیش نہیں آئی۔ انگریز تھے تو اُن
کو اپنا نظام ساتھ لے کر آنے میں کوئی دشواری پیش نہ آسکتی تھی۔ ’فتح‘ بلا شبہ چیز
ہی ایک ایسی ہے۔ اصل زور کسی نظام کو بلکہ اُس نظام کا اقتضاءکرنے والی ”فکری و
نظریاتی صورتحال“ کو وجود میں لے کر آنے پر صرف ہوتا ہے۔ ہاں البتہ جب وہ ایک بار
وجود میں آ جائے تو پھر اُس کی برآمد ہرگز اتنا بڑا چیلنج نہیں ہوتا۔ خصوصاً جبکہ
کسی قوم کا ”فتوحات“
کرنا اِس بات
کی دلیل ہوتا ہے کہ اُس کی فاعلیت اپنے عروج کے ایک نہایت بلند نقطے پر ہے۔ دوسری
جانب کسی قوم کا ’مفتوح‘ ہونا بالعموم اِس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ اُس کی فاعلیت
قریب قریب صفر ہے۔ پھر جبکہ یہ محض ’فتح‘ نہ تھی۔ یہ ”استعمار“ تھا۔ ہم محض ایک ’مفتوحہ قوم‘ نہ تھے۔ ہم
ایک ”کالونی“ تھے جس کو ایک خاص نقشے کے
تحت بسایا جانا ہوتا ہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جس نے یہاں پر ایک فاسد نظام کو پوری قوت
اور جبر کے ساتھ ہماری زمین کے اطراف و اکناف میں جاری وساری کرا دیا، اور وہ بھی
ہمارے اپنے ہی ’اعلیٰ دماغوں‘ کی بے حد وحساب بھرتی کر کے، اور ایک صدی سے زائد
عرصہ لگا کر اِس کو باقاعدہ وہ مومنٹم بھی دے دیا جس کو بے اثر کر دینا کوئی آسان
کام نہیں رہ جاتا۔
کیاایک زور دار تحریکی عمل کے بغیر،
جو یہاں پائے جانے والے ’قومی عمل‘ اور اُسکے سب باطل مسلمات کی چولیں ہلا دے، اور
محض کچھ مبہم قسم کی ’شقوں‘ کی مدد سے، اِس پہاڑ کو ہٹایا جا سکتا تھا؟؟؟
٭٭٭٭٭
# یہ ہے وہ ”اجتماعی عقیدہ“ جس سے آج
یہاں آپ کا ’قومی دھارا‘ تشکیل پاتا ہے۔ یہ ہے وہ ”فکری و نظریاتی“ سیناریو جس سے
یہاں کے ’قومی عمل‘ نے وجود پا رکھا ہے....
’قومی عمل‘ یا ’قومی دھارا‘ __ ہماری
اصطلاح میں __
وہ چیز ہے جو
کسی اجتماعی دائرے کے اندر پائے جانے والے سب فریقوں کے مابین ’مشترک سرزمین‘ کا
درجہ رکھتی ہے۔ جو وہاں پر پائے جانے والے سب فریقوں کے مابین ’مسلمات‘ کا درجہ
رکھتی ہے۔ اُس کے سب فریق اُس کا پابند ہو کر ہی ’قومی عمل‘ یا ’قومی دھارے‘ کا
حصہ باور ہو سکتے ہیں۔ یہ سب فریق نہ صرف اُس کے پابند اور اُس کا حصہ ہوتے ہیں
بلکہ یہ اُن ’مسلمات‘ کو بنیاد بنا کر بے محابا ایک دوسرے کا ’محاکمہ‘ بھی کرتے
ہیں اور کوئی اس پر چوں چرا نہیں کر سکتا۔ اِن ’قومی مسلمات‘ کی بالفعل یہ حیثیت
ہوتی ہے کہ اِن کے توڑے جانے کا طعنہ نہ صرف وہاں پر ’چلتا‘ ہے بلکہ حد درجہ ”مؤثر“ جانا جاتا ہے۔ لہٰذا کوئی واقعتا اگر
ان کو توڑ بھی رہا ہو، (اور بلا شبہ ہر آئین ہی کسی نہ کسی وقت توڑ لیا جاتاہے)،
مگر وہ یہ طعنہ لینے کا روادار نہیں ہوتا۔ ’قومی عمل‘ میں شریک کوئی ایک فریق نہیں
سب کے سب فریق اِن مسلمات کا بے تحاشا حوالہ دیتے سنے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا
دکھانا ہو، جوکہ کسی بھی ماحول میں بالعموم ہوتا ہے اور انسانی طبیعت کا حصہ ہے،
تو بھی ایک دوسرے کے خلاف ان ’مسلماتِ قومی‘ کی ہی آڑ لی جاتی ہے اور انہی کو اپنے
کیس کی ’ناقابل تردید دلیل‘ بنایا جاتا ہے۔
کوئی ملک یا کوئی ماحول ایسا نہیں ہو
سکتا جس کے اندر ایک ”اجتماعی عقیدہ“ نہ پایا جاتا ہو؛ یعنی کچھ ایسے امور جن پر
اُس قوم کا شیرازہ مجتمع ہو اور وہاں کے سب فریق واضح طور پر اُن امور کی پابندی
کا دم بھریں (وہ اشیاء’لکھی ہوئی‘ ہوں یا زبانی ہی روز ان کی چوپالوں اور چینلوں
پر ان کی بوچھاڑ ہوتی ہو، سب فریقوں کی اُس سے وابستگی البتہ ہر شک و شبہ سے
بالاتر ہوتی ہے)۔ دیگر اشیاءمیں خواہ اُن کے مابین کیسا ہی اختلاف کیوں نہ ہو،
لیکن وہ خاص اشیاءجن کو ہم نے وہاں کا ”اجتماعی عقیدہ“ کہاہے اُن کے مابین ایک
’مشترک بنیاد‘ کا درجہ رکھتی ہوں۔ یہ ’مشترک اشیاء‘ البتہ کسی ایک فریق کا ایجنڈا
نہ ہو، بلکہ اُس ’اجتماع‘ کے سب فریق ہی اُن کا پابند رہنے اور ایک دوسرے کو اُن
کا پابند رکھنے پر یک آواز ہوں۔
”اجتماعی عقیدہ“ یا ”قومی مسلمات“ کے
حوالے سے ایک ایک سادہ مثال آج کی اِس جاہلی صورتحال سے اور ماضی میں اپنے اسلامی
ادوار سے ہم یوں دے سکتے ہیں کہ: آج کے اِس ’قومی عمل‘ میں ایک حکمران کیلئے کوئی
بھی طعنہ سہہ لینا ممکن ہے، سوائے اس بات کے کہ ’فلاں حکمران نے 73ءکا آئین توڑا
ہے‘۔اِس طعنے سے البتہ اس کی جان جاتی ہے اور اس سے بچنے یا اس پر پردہ ڈالنے
کیلئے وہ ہزارہا جتن کر سکتا ہے۔ بعینہ یہ حیثیت تاریخ اسلام کی بے شمارصدیاں اس
طعنہ کو حاصل رہی تھی کہ ’فلاں حکمران نے خدا کی شریعت کو توڑ ڈالا ہے‘۔ہو سکتا ہے
وہ حکمران واقعتا ”شریعت خداوندی“ کو توڑ رہا ہو، جس طرح کہ ہو سکتا ہے یہ حکمران
واقعتا ’ 73ءکے آئین‘ کو توڑ رہا ہو، مگر آپ دیکھتے ہیں دونوں اپنے اپنے ”دین“ کو توڑنے کا طعنہ سننے کے متحمل
بہر حال نہیں! دونوں کیلئے یہ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام بہر حال ہے! ”مسلمات“ در
اصل اسی شےءیااشیاءکو کہیں گے جن کا حوالہ وہاں کا صرف ایک فریق نہیں بلکہ سب کے
سب فریق یکساں شدت کے ساتھ دے یا لے سکتے ہوں۔ ایسے ہی ”مسلمات“سے اگرکہیں پر پائی
جانے والی خاص اجتماعی صورتحال تشکیل پاتی ہو تو اُس کو ہم وہاں کا ”قومی دھارا“
یا ”قومی عمل“ کہیں گے۔ حق یہ ہے کہ ایسے
”قومی مسلمات“ کو جن سے بالا تر کسی قوم کے اجتماعی عمل میں کوئی مسلمہ اور کوئی
حوالہ نہ ہو، وہاں کا ”دین“
کہلانے کے
لائق ہے۔
آج کے ایک جاہلی ”قومی عمل“ یا جاہلی
”قومی دھارے“ کی قوت دیکھنی ہو تو اِس ایک بات ہی سے دیکھی جا سکتی ہے کہ: ’قومی
دھارے‘ میں شریک اگر کوئی ’مذہبی جماعت‘ بھی ہو جو وہاں پر پائے جانے والے کسی
جابر حکمران کو معاشرے کی نظروں میں گرانا اورقوم کو اُس سے نجات دلانا چاہتی ہو،
تو اُس کیلئے یہ کہنے کی بجائے کہ ’یہ ظالم صبح شام خدا کی حدوں کو توڑتا ہے‘ وہ
یہ کہنا کہیں زیادہ ’مؤثر‘ اور ’مفید‘ پائے گی کہ ’یہ ظالم ملک کا آئین توڑتا ہے‘۔
بے شک ایسی کسی بھی’مذہبی جماعت‘ کے ’اپنے‘ عقیدے کی رو سے ”خدا کی حدوں کو توڑنا“ ”ملکی آئین کو توڑنے“
کی نسبت کہیں بڑا جرم ہو گا، مگر یہاں بات ”اجتماعی عقیدے“ یا”قومی دھارے“ کی ہو
رہی ہے۔ ”قومی عقیدہ“ کی لغت میں جو جرم سب سے
بڑھ کرناقابل معافی ہے وہ بہر حال ’آئین کی خلاف ورزی‘ ہی ہے۔ ہمارا خیال
ہے کوئی بھی شخص اِس پر ہمارے ساتھ اختلاف نہیں کر سکتا۔ ’شریعت کی خلاف ورزی‘ اِس
”قومی عمل“ کے کسی ایک آدھ فریق ہی کے نزدیک کوئی ایسا جرم ہو سکتا ہے جس پر کوئی
طوفان اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ یعنی یہ ایک ’مذہبی جماعت‘ کی اپنی سوچ یا اپنی
تعبیرہو سکتی ہے، ”قومی لغت“ البتہ اِس قسم کی ’تعبیرات‘
سے خالی ہے۔
”قومی عقیدہ“ یا ”قومی دھارا“ __ ہماری اصطلاح میں __ پس وہ چیز ہے جو: وہاں
کے سب فریقوں کے مابین ’مشترکہ سرزمین‘ کا درجہ رکھتی ہو۔ ”آپس کا معاملہ“ کرنے
میں وہاں کے سب فریق اُسی کے پابند ہوں اور اُسی کے مسلمات کا حوالہ دینے اور لینے
کو اپنے لئے معمول کا درجہ دے کر رکھیں، اگرچہ ہر فریق اپنے ’ذاتی‘ یا ’جماعتی‘ اعتقاد کیلئے اس ”قومی عقیدہ“ کے علاوہ بھی
کوئی ’عقیدہ‘ رکھے۔
ایک مثالی اسلامی تحریک کی سب سے پہلی
مڈھ بھیڑ تو اُس جاہلی واقعے سے ہو گی جس کو ہم نے یہاں کا ’قومی دھارا‘ یا ’قومی
عقیدہ‘ یا ’قومی فلسفہ‘ کہا ہے۔ اِسی کا ”اسلام“(12) کے ساتھ جو واضح ترین تصادم
ہے اور جوکہ اپنی ایک ایک بات سے عیاں ہے، اُس کو پورے زور کے ساتھ سامنے لانا..
اِسی کو صاف صاف چیلنج کر دینا.. اِسی کے انحراف کو شدت کے ساتھ موضوع بنانا، اور
اِس کے مد مقابل قرآنی اصطلاحات اور قرآنی مسلمات کو میدان میں لے کر آنا.. ”قرآنی
مسلمات“ کے ساتھ تصادم پر مبنی کسی ایسے ’قومی عقیدے‘ یا ’قومی نظریے‘ یا ’قومی تعبیرات‘ یا ’قومی
شعارات‘ کو تسلیم کرنے سے ہی صاف انکار کرنا اور اُن کو ہرگز کسی التفات کے لائق
نہ جاننا اگرچہ پوری دنیا انہی کی مالا جپتی ہو.. اور عین یہیں پر وہ لہجے اختیار
کر لینا جو حق اور باطل کے مابین ہمیشہ اختیار ہوتے رہے ہیں.... یہ وہ محاذ ہے جو
بڑی دیر سے داعیانِ حق کا منتظر ہے۔ اِس باطل کے مدمقابل جو بھی تحریک اٹھے گی،
اُس کی یہاں کے
’نظام‘ کے
ساتھ مڈ بھیڑ بعد میں ہو گی، یہاں کے ’قومی دھارے‘ یا ’قومی عقیدے‘ کے ساتھ پہلے
ہوگی(13)۔
# حق یہ ہے کہ ایک مثالی اسلامی تحریک
کی قوت کا اصل منبع بھی یہیں پر ہے۔ وہ باطل کو لرزا سکے گی تو یہاں سے۔ اپنے
ماحول میں، جہاں ’ظلمات‘ اور ”روشنی“
کا فرق سامنے
لانا اِس سارے عمل کا نقطۂ اساس ہے، وہ”روشنی“ کا مینار بن سکے گی تو اِسی محاذ
پر اپنی استقامت دکھا کر۔ ’اندھیرے‘ سے وحشت کھانے والے ’پروانوں‘ کا اِس ”روشنی“
کے گرد مجتمع ہونا ممکن ہوگا تو یہیں سے۔
مزید برآں، ”اسلامی تحریک“ کیلئے اپنا
جہان آپ پیدا کرنے کی راہ بھی صرف اور صرف یہیں سے کھل سکتی ہے۔ باطل ہمیشہ اسلامی
تحریکوں سے ’قومی دھارے‘ کے استعمال کا ’کرایہ‘ یا ’حق راہداری‘ وصول کرتا ہے جس
کی قیمت بسا اوقات حد سے بڑھ جاتی ہے۔ تحریکیں اِس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔
’قیمت‘ دیتے بھی چلے جائیے، پرائی زمین پھر پرائی ہے، ’مالکان‘ نہ جانے کس دن آپ
کو ’باہر‘ کر دیں! یہ تک بعید نہیں کہ وہ کچھ عشرے آپ سے اِس کے حق میں ”شرعی
دلائل“
دلوا لیں اور
آپ کا پورا زور لگواکر ایک بار اِس کو ”اسلامی“ ثابت کروا لیں(”اسلامی“ یعنی اس سے
انحراف ”اسلام“ سے اور ”محمد ﷺ کے راستے“ سے انحراف ہے!) اور پھر آپ کو اِس
’اسلامی عمل‘ سے باہر کر دیں! آخر ’آپ‘ کے باہر ہونے سے تو ایک ’اسلامی عمل‘ غیر
اسلامی نہیں ہو جائے گا!.... یوں آپ باہر ہوں گے اور ایک ’اسلامی عمل‘ جوں کا توں
جاری رہے گا۔ آخر میں آپ اِس ’عمل‘سے باہر ہوں گے البتہ آپ کے دیے
ہوئے ”دلائل“ اِس کے کام آتے رہیں گے!!!
”اسلامی تحریک“ کو اپنی پیش قدمی کیلئے
یہاں جو ”زمین“
درکار ہے وہ
اِس کو خود تیار کرنا ہوگی۔ یہ”زمین“ حاصل ہو گی یہاں پر پائے جانے والے ’قومی
عقیدہ‘ کے ساتھ الجھ کر اور اُس کے ساتھ اپنا ایک ”اصولی و بنیادی اختلاف“ سامنے
لا کر۔
یہ ”اصولی و بنیادی اختلاف“ یہاں کے
جاہلی مسلمات کے بالمقابل خالص اسلامی مسلمات کو سامنے لانے اور ان کے مابین پایا
جانے والا بعد المشرقین واضح کرنے سے ہو گا نہ کہ ان ہر دو کو ’ملتی جلتی‘ قسم کی کوئی چیز ثابت کر
کے دکھانے سے۔ اسلامی تحریک یہاں کے ہر فورم پر اور ہر ہر انداز میں اپنے خالص
اسلامی مسلمات کو کچھ اِس زور کے ساتھ سامنے لائے گی گویا یہاں کے جاہلی مسلمات کو
جانتی تک نہیں۔ یہاں تک کہ ایک بات اگر کسی انداز میں جاہلی مصادر کے اندر بھی
پائی گئی ہے، تب بھی اسلامی تحریک اُس کو اپنے ہی شرعی مصادر سے بیان کرے گی اور
اُس کے واجب الاتباع ہونے کی بنیاد اور اُس کو اِس حیثیت کے حاصل ہونے کی بنیاد کہ
انسانوں کے سر اُس کے آگے خم ہوں، اِس بات ہی کو بنائے گی کہ وہ مالک الملک کی
تنزیل ہے۔ اسلامی تحریک کی تمام تر کامیابی اِسی چیز میں پوشیدہ ہے اور یہی چیز
اُس کے چلنے کیلئے یہاں اُس کو جاہلیت سے کچھ ”زمین“ واگزار کرا کر دے گی کہ وہ
ایک چیز کے واجب الاتباع ہونے کی بنیاد اُس کا ”آسمان سے نازل ہوا ہونا“ بنائے نہ
کہ جاہلیت کے ہاتھوں (کسی خاص ’پروسیجر‘ کا تابع رکھتے ہوئے) اُس کا ’پاس‘ ہوا
ہونا۔ اول الذکر میں اسلامی تحریک کی زندگی ہے اور ثانی الذکر میں اُس کی موت۔ اِن
ہر دو مناہج کا فرق اگر سامنے آ جاتا ہے تو اسلامی تحریک کے آگے بڑھنے کیلئے راستے
اللہ کے فضل سے آج بھی بے حد کھلے ہیں۔
# یہاں ’نظام‘ بدلنے کا نعرہ لے کر
میدان میں اترنے والی کسی بھی اسلامی تحریک کو بغور دیکھنا تھا، کہ اُس کو جس چیز
کے ساتھ یہاں پالا پڑا ہے آیا وہ محض ایک ’نظام‘ ہے یا اس کے پیچھے کارفرما ایک
”اجتماعی عقیدہ“، جس کے اپنے ’مسلمات‘ ہیں اور اپنے’محکمات‘، اور جس سے لازماً
ایسا ہی ایک فاسد نظام جنم لے سکتا ہے نہ کہ وہ ”صالح نظام“ جس کے قائم کرنے پر یہ
اسلامی تحریک ایمان رکھتی ہے؟ اسلامی تحریک کے سامنے جو سوال بے حدواضح ہونا چاہیے
تھا وہ یہ کہ: کیا یہاں تبدیل ہونے والی چیز محض ایک عدد ’نظام‘ ہے؟ یا وہ چیز ہی
جو یہاں پائے جانے والے سب فریقوں کے مابین ’مشترک زمین‘ کا درجہ رکھتی ہے، اور جس
کو ہم نے یہاں کا ”اجتماعی عقیدہ“ کہا ہے، اساس سے تبدیل ہونے والی ہے، کیونکہ
آسمان سے اترے ہوئے سب کے سب محکمات و مسلمات اپنی اُسی شرعی حیثیت میں، اور بغیر
کسی اضافی شرط کے، یہاں کے ’قومی عمل‘ کے سب فریقوں کے لئے ”مسلمات“ کا درجہ رکھتے
ہیں اور نہ اِن سب فریقوں کیلئے ”بائنڈنگ“ ہیں؟
”اسلامی تحریک“ کو سب سے پہلے یہی
دیکھنا تھا، اور دیکھنا ہو گا، کہ کیا وہ ایک ایسے ’قومی دھارے‘ اور ’اجتماعی
عقیدے‘ کو
own کر
لے جو ”اسلام“ کے معروف مسلمات سے آخری حد تک بیگانہ ہے؟ (”اسلام“ یعنی: اللہ کی
بلا شرکت غیرے عبادت اور شرعِ محمد کی غیر مشروط اطاعت)۔ کیا ایسا تو نہیں کہ یہ
’زمین‘ اسلامی تحریک کے چلنے کیلئے ہی درست نہیں، اُس کا اِس ’زمین‘ پر ایک ’صالح
نظام‘
کی بنیاد
اٹھانا تو بعد کی بات ہے؟؟؟!!!
جو شخص بھی اسلامی عقیدہ کی ایک اصیل
نظر لے کر آج یہاں کے اِس ”اجتماعی عقیدے“ اور اِس ”قومی دھارے“ پر نگاہ ڈالتا ہے
وہ ”اسلام“ و ’غیر اسلام‘ اور ”توحید“ و ’شرک‘ کا ایک ایسا خلط دیکھتا ہے کہ آگے
بڑھنے کیلئے اِس کو بنیاد بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ اِس پر کسی صالح اسلامی عمل کی
بنیاد رکھی ہی نہیں جا سکتی۔ ”اسلامی نظام“ جس حقیقت کا نام ہے وہ روشنی کا ایک
بلند وبالا مینارہو گا اور آج کی اِس اندھیری دنیا کے اندر تو بجا طور پر وہ ہر
کسی کو دعوتِ نظارہ دے گا۔ ایسا مینار کھڑا کرنے کیلئے وہ پختہ زمین چاہیے جس پر
ایک صالح تعمیر ممکن ہو، اور اس کو اونچا لے جاتے ہوئے بار بار ’بنیادوں‘ کی فکر
نہ کرنی پڑے!
( وہ تحریک جو اللہ کے فضل سے یہاں پائے
جانے والے اِس بند راستے کو کھول کر دے گی اُس کا منہج بے حد واضح ہے: وہ سب سے
پہلے اُس چیز کو ہی چیلنج کرے گی جس کو ہم نے یہاں کے ’قومی مسلمات‘ یا یہاں کا
”اجتماعی عقیدہ“ کہا ہے۔ نظریاتی سطح پر، اِسی سے جو زمین یہاں پر واگزار کرائی
جائے گی، اُسی کو ”اسلام“ کے تحریکی عمل کے آگے بڑھنے
کیلئے قابل اعتماد سمجھا جائے گا۔
وہ تحریک جو اللہ کے فضل سے یہاں
’اسلامیانِ برصغیر‘ کے اِس رکے ہوئے قافلے کو لے کر چلے گی، وہ اپنے آپ کو یہاں کے
کسی ’دھارے‘ کی نذر کر دینے کی بجائے اِس ’دھارے‘ کے رخ کو ہی بنیاد سے زیر بحث
لائے گی۔ وہ اِس کی ”سمت“
پر ہی ایک
ایسا نزاع اٹھائے گی کہ ’قافلہ‘ اپنی توانائیوں کے مصرف کا تعین نہایت دِقت و
بصیرت کے ساتھ عین ابتدا میں کرے۔ جرأت کے ساتھ وہ یہاں پائے جانے والے ’قومی و
اجتماعی فکر‘ کی صحت پر ہی ایک سوالیہ نشان لگائے گی اور اس کی تشکیل کرنے والوں
اور اس میں آگے لگنے والوں کے مبلغِ علم اور صحتِ اعتقاد ہی کو موضوع بنائے گی اور
اس کے اندر پائے جانے والے باطل کے رواسب کو پوری صراحت اور دیانت کے ساتھ چھانٹ
چھانٹ کر الگ کرے گی۔ وہ ’اسلام‘ کے نام پر پائی جانے والی ہر
چیز کو ”اسلام“ کی روشنی میں پرکھے گی اور اس کے ہر کھوٹ کو رد کرے گی، اور اس
معاملہ میں نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کرے گی اور نہ کسی بڑے سے بڑے
نام کو خاطر میں لائے گی، سوائے اُن ناموں کے جن کی ہمارے شرعی و فقہی مصادر میں
ہی کوئی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔ خالص اسلامی اصطلاحات کے ساتھ یہاں ایک جری تحریک
کو بہر حال میدان میں اترنا ہو گا، جو پٹی ہوئی لکیروں کو اپنے منہج عمل سے خارج
کر کے دکھائے۔
حضرات! ایک صالح ”احیائی عمل“ یہاں کے
’قومی عمل‘
کی پیدا کردہ
باریکیوں اور پیچیدہ بحثوں اور حد سے زیادہ الجھی ہوئی ’آئینی گرہوں‘ کو سلجھانے
کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہ اللہ کے فضل سے سیدھاسیدھا اس کو بلڈوز کرے گا۔ ”توحید
اور شرک کے مابین فرق“.. اور ”اسلام اور کفر کے مابین حد فاصل“ سے ہی اگر کہیں پر
آپ کا ’قومی دھارا‘ تشکیل نہیں پاتا اور عین یہی چیز اُس کی بنیادوںمیں نہیں پڑی
ہوئی اور پھوٹ پھوٹ کر اُس سے برآمد نہیں ہو رہی.. تو یقین کیجئے، کچھ ’وعدوں‘ اور
’عندیوں‘ کو عشروں کے عشرے جپتے چلے جانے سے یا کچھ’آئینی شقوں‘ کو ڈال یا نکال
دینے کی مشق سے آپ کے اُس ’قومی دھارے‘ کو کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ اپنی جگہ
پر ویسے کا ویسا رہے گا اور اپنی اُس فاسد سمت میں ویسے کا ویسے بہے گا۔
کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اِس ”اجتماعی
عقیدہ“ کے اوپر کوئی عمارت اٹھانے کے بجائے، نیچے سے اِس کی تہہ کو ہاتھ ڈالئے اور
اِس کی بنیادوں کو ”توحید اور شرک کے مابین فرق“.. اور ”اسلام اور کفر کے مابین حد
فاصل“ کی اساس پر قائم کیجئے۔ بصورتِ دیگر ’قومی دھارے‘ کے گرداب میں گھومتے چلے
جانے اور بالآخر اس میں روپوش ہو جانے کی بجائے ایسے ’قومی عمل‘ سے جو ”توحید اور
شرک کے مابین فرق“.. اور ”اسلام اور کفر کے مابین حد فاصل“ پر قائم نہیں، اجتناب
اور برأت کر رکھنا آپ کے دین اور دنیا ہر دو کے حق میں کہیں بہتر ہے۔
اصل چیز ’نظام‘ نہیں جو کہ کہیں پر
پائے جانے والے ایک مخصوص ”قومی عمل“ کے سر پرخود بخود نمودار ہو
جانے والی چیز ہے۔ اصل تبدیل کر دی جانے والی چیز وہ ”قومی فضا“ اور وہ ”اجتماعی
عقیدہ“ ہی ہے جس کے اندر سے اُس کے ساتھ مناسبت رکھنے والا ’نظام‘ آپ سے آپ ابھر
آتاہے۔
کارکنانِ اسلام! یہاں باطل کے جاری
کردہ ’قومی لہجوں‘ اور ’اجتماعی رجحانات‘ کے محاذ پر آج اگر آپ پورااتر کر دکھا
لیتے ہیں، اور جاہلیت کے صادر کردہ اِن لہجوں کو ہی ”بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ
عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ“(14) ایسے منہج کی دھار پر
رکھ لینے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں تو قلوب اور عقول کی دنیا میں جس
قدر راستہ آپ کیلئے کھلا ہے اتنا کسی کیلئے نہیں۔
# وہ تحریک جو اللہ کے فضل سے یہاں پائے
جانے والے اِس بند راستے کو کھول کر دے گی، اُس کا منہج بے حد واضح ہے: وہ اِس
”قومی و اجتماعی صورتحال“ کو اور اِس کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی ایک مخصوص
’قومی زبان‘ کو اور اِس کی دی ہوئی تمام تر ’اصطلاحات‘ کو اور اس کے ہاں پائے جانے والے تمام تر ’مسلمات‘
اور سب کے سب 'referring
points'کو
صاف صاف چیلنج کرے گی اور اپنا کیس سامنے لانے کیلئے اپنے ہی ”عقیدے“ اور اپنے ہی
تاریخی و علمی ورثے کی عطا کردہ ”اصطلاحات“ و ”مسلمات“ پر آخری حد تک اصرار کرے گی۔ وہ سب کچھ جسے صدی دو صدی
کے ایک تاریخی عمل نے یہاں پائی جانے والی ایک مخصوص ’قومی زبان‘ میں ڈھال دیا ہے
اُس کو ”حوالہ“ ماننے کی بجائے وہ اس کی ”دلیل“طلب کرے گی۔ ”قرآنی عقیدے“ اور ”آسمانی عہد“ کے سوا __ جس کا
بیان اور ایضاح اُس کی سرگرمی کا سب سے بڑا میدان ہو گا __ وہ کسی ’ریفرنس‘ ، کسی
’کلاز‘ ، کسی ایسی ’دفعہ‘ جس کو کسی ’دوسری دفعہ‘ کے ساتھ ملا کر پڑھنا ضروری ہو
اور اُس ’دوسری دفعہ‘ کو کسی ’تیسری دفعہ‘ کے ساتھ!، کسی ’پروسیجر‘ جس کی ابتدا
معلوم ہے اور انتہا نامعلوم!، کسی ’مفروضے‘، کسی ’عندیے‘، کسی ’وعدے‘، کسی ’بیان‘،
کسی ’تاریخ ساز اعلان‘، کسی زندہ یا مردہ قومی شخصیت کی ’خواہش و عدم خواہش‘ یا
’پسند و ناپسند‘.. کا حوالہ.... دینا گوارا کرے گی اور نہ لینا۔ ایک ایسے سنجیدہ
خطاب پرقادر ہونا اُس تحریک کی پہچان کا اولین جزو ہو گا۔ وہ ایسے کسی ’بلیک ہول‘ کا رخ نہیں کرے گی جس میں
کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے مقدمہ سمیت روپوش پائی جائے۔ وہ اپنے اور ’فریق دیگر‘ کے
مابین ایک ہی چیز کو حَکَم ٹھہرائے گی اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی
سنت (اُس فہم کے ساتھ جس پر قرونِ اولیٰ کے سوادِ اعظم پائے گئے)۔ اُس کے اور
’فریقِ دیگر‘
کے مابین یہ
ایک ہی ’ریفرنگ پوائنٹ‘ ہوگا اور اس کے سوا وہ کسی چیز کو ’جانے‘ گی تک نہیں۔ فریق دیگر کے ساتھ اُس کا لہجہ اور اسلوب
نہایت واضح اور دوٹوک ہوگا، اور اُس اسلوب کے اندر صرف اور صرف ”عقیدہ“ بولے گا:
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ
تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ۔(15) اِس کے سوا کوئی زبان اور نہ کوئی
اسلوب: ہر ہر نزاع میں، ہر ہر تصفیہ طلب مسئلہ میں معاملہ یہاں دو ہی ہستیوں کی
طرف لوٹایا جا سکتا ہے: اللہ یا اُس کا رسول۔ یہ حَکَم قبول نہیں اور اِس حَکَم کا
فیصلہ حرف آخر نہیں تو کوئی اور ہستی یہاں پائی ہی نہیں جاتی جو فریقین کے مابین
’ریفرنگ پوائنٹ‘ بنے۔ فیصلہ اِس بنیاد پر نہیں ہوتا تو پھر کوئی بنیاد یہاں پائی
ہی نہیں جاتی جس پر فریقین کے مابین ”فیصلہ“ ہو۔ یہ ”ڈیڈ لاک“، بہ نسبت عشروں کے
عشرے کسی’موہوم امید‘ کا تعاقب کروانے کے، ایک نہایت ”مثبت“ اور ”مفید تر“ پیش رفت
جانی جائے گی، کیونکہ اِس تحریک کا سارے کا ساراکیس اِس کے مابعد مراحل کیلئے،
خصوصاً ”وَكَذَلِكَ نفَصِّلُ الآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ
“(16) کا منہج سامنے لانے کیلئے، اِسی پر بلڈ اَپ کرے گا۔ وہ ”ہٹ دھرمی“ جو
اِمکانی طور پر ’فریق دیگر‘ کی جانب سے سامنے آ سکتی ہے، اِس تحریک کے کیس کو مضبوط
سے مضبوط تر کرنے کیلئے باقاعدہ ’استعمال‘ میں لائی جائے گی، اور یہ اِس منہج
کاباقاعدہ حصہ ہے۔ یہ وہ تحریک ہوگی جو ’فریق دیگر‘ کو ایک ’مبہم ہاں‘ کی بجائے ایک ”برہنہ ناں“ کے
روسٹرم پر کھڑا کر کے دکھائے گی، اور ایک ایسی قوتِ خطاب کا اِس کو بہرحال بندوبست
کرنا ہو گا۔
یہ چیز سمجھئے کسی معاشرے میں ”تحریکی
عمل“ کا آغاز ہو گا۔ اِس سے پہلے اگر کچھ ہے تو اُس کا نام ”تحریک“ نہیں۔
(1) محض ایک مثال کے طور پر: قیام پاکستان
تک آپ جن قومی شخصیات کی عظمت کا اندازہ کرنے میں آخری حد تک ناکام رہے تھے اور
”توحید“ کی بابت آپ کے ایک اصیل و جداگانہ فہم و شعور نے آپ کو اِس بات کے ’ادراک‘
سے روک رکھا تھا کہ ملت کی ڈولتی نیا پار لگانے کیلئے اُن شخصیات کا طریق عمل کس
قدر صحیح اور ان کا منہج عمل اسلام کی کس اعلیٰ پائے کی ترجمانی تھا، قومی دھارے
کے ’مطاف‘ میں قدم رکھتے ہی آپ پر ان کی
عظمت کے ہزارہا پہلو یکا یک آشکارا ہونے لگتے ہیں اور آپ نہ صرف ان کی اِس عظمت کو
سلام کرنے کی ضرورت کے احساس سے سرشار ہوتے ہیں بلکہ آپ کو اپنا وہ ماضی، جو اگر
’قومی فلسفے‘ کی یہ مجبوری نہ ہوتی تو نہایت قابل فخر ہوتا، اب ایک ’تلخ یاد‘ کی
طرح نظر آتا ہے اور بوجوہ آپ کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی ایسی جگہ چھپ
جائے کہ کسی فورم پر آپ کو اُس کی بابت سوال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ’قومی زبان‘
بولنے کی یہ محض ایک چھوٹی سی مثال تھی جبکہ پیر پیرپرآپ کو ایسی صورتحال سے واسطہ
پڑتا ہے جہاں آپ اپنے عقیدے (نظریے) کو بار بار ’ڈھانپنے‘ کی ضرورت سے ملتی جلتی ایک ذہنی کیفیت سے پورے ایک تسلسل کے
ساتھ گزارے جاتے ہیں۔ کہنے کو یہ ایک چھوٹی سی بات ہوتی ہے اور بلاشبہ آپ سے کسی
بڑی چیز کا مطالبہ یک مشت نہیں کر دیا جاتا مگر اپنے ’نظریاتی وجود‘ سے دستبردار
ہونے کی ایک مسلسل مشق آپ کو بہر طور کرنا ہوتی ہے اور آپ جانتے ہیں اِس سے کوئی
مفر نہیں۔
یہ بات کچھ ایسی نظر انداز کر دینے
والی بھی نہیں ۔ ’قومی زبان‘ بولنے کی یہ مجبوری اور اِس کا پیدا کردہ فرق ملاحظہ
کرنا ہو تو ایک نظر یہ دیکھ لیا جائے کہ ’پاکستان‘ میں ہمیں یہ زبان کس طرح
بولناپڑی ہے، اب ’بنگلہ دیش‘ میں کس طرح (آخر پرہیز، جس کے باعث آپ کھیل کے میدان
سے ہی باہر رہیں، کب تک؟) اوراگر ’بھارت‘ میں ’رہنا‘ ہے تو ’قومی زبان‘ کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے وہاں کیسے پاپڑ بیلنا
ہیں؟ یہ ایک نہایت حقیقی سوال ہے جس کو معرض التواءمیں ڈال رکھنا درست نہ ہوگا۔
(2) یہاں تک کہ جب بھی ”شریعت“ کے نفاذ کی
بات ہوتی ہے یا اِس ضمن میں اسلامی طبقوں کی جانب سے کوئی ’رونا‘ رویا جاتا ہے،
یہاں کے بہت سے سیکولر طبقے بڑی ہی بے پروائی کے ساتھ، ہونٹ مروڑکر، یہ کہتے دیکھے
جاتے ہیں کہ: ’آئین میں اِس بات کا ایک طریق کار طے تو کر دیا گیا ہے، اب گلہ کس
بات کا؟ اُس آئینی طریق کار کے مطابق شریعت کا یہ جتناچاہیں نفاذ کریں، کس نے روکا
ہے‘؟ مراد یہ کہ: ’نو من تیل‘ لانے کا جو ایک طریق کار طے ہے اور جس کو اسلام
پسندوں نے قبول کر رکھا ہے، اب اِس ’روٹھنے‘ اور ’کوسنے دینے‘ کا کیا مطلب، اسلام
پسند اُس ’نو من تیل‘ کا بندوبست آخر کیوں نہیں کر لیتے؟! اور یہ کہ اِس ’آئینی
طریق کار‘ سے اکتاہٹ کیوں، یہ تو ’نہ کھیلنے‘ والی بات ہوئی؟!!!! ’اسلام پسند‘ ہمت
کریں اور ’آئینی طریق کار کے اندر رہتے ہوئے‘ جیسے چاہیں ملک میں اسلام لے آئیں اور پاکستان کو ’اسلام کا
ایک گہوارہ‘
بنانے کے
متعلق اپنے سب دیرینہ خواب بڑے شوق سے پورے کریں؟ اسلام کی جوئے شیر لانے والوں کی
راہ میں سب ’آئینی راستے‘ کھلے تو ہیں؛ ’آئینی راستوں‘ سے جیسے مرضی اسلام لے کر آئیں ، اور ’بنیادی حقوق‘ تو ’اسلام
پسندوں‘ سمیت یہاں پاکستان کے ہر شہری کو حاصل ہیں!!!
(3) کچھ برسوں یا عشروں کے ایک زوردار عمل
سے کہیں پر پائے جانے والے باطل کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دینا اور اِس مسلسل عمل سے
نیچے تک اُس کو کھوکھلا کردینا اور بالآخر اُس کو ایسی حالت میں لے آنا جہاں اوپر
سے لگنے والی کوئی بڑی ضرب اس کاصفایاکر سکے اور اُس کی جگہ حق کو معاشروں کی
سرزمین کے اندر تمکنت دلوا سکے.. اِس کانقطۂ آغاز محمد قطب کے الفاظ میں وہی ہے
جس کی جانب سورۂ انعام کی آیت (وَكَذَلِكَ نفَصِّلُ الآيَاتِ
وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ - 55) کے اندر اشارہ ہوا ہے۔
(دیکھئے محمد قطب کی تصنیف ”دعوت کا
منہج کیا ہو“ صفحہ 32 تا 37، علاوہ ازیں کتاب کی فصل ”اسلام کی جو پہلی اٹھان ہوئی
اس میں ”تحریکی اسوہ“ کہاں ہے؟“ دیکھ لی جانابھی مفید ہو سکتا ہے)
(4) وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا
كَبِيرًا(الفرقان: 52) ”اور جہاد کرو ان سے اِس (قرآن‘ کے ساتھ) ایک جہادِ کبیر“۔
اِس آیت میں قرآن کی مدد سے باطل کے
خلاف ایک جہادِ عظیم برپا کر دینے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ سورۂ فرقان ایک مکی
سورت ہے۔ پس یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب تلوار کے ساتھ جہاد کا حکم ابھی نازل ہی
نہیں ہوا تھا۔ لا محالہ یہ جہاد کی وہ قسم ہے جو تلوار کے بغیر کیا جاتا ہے اور جس
میں اسلامی تحریک کا ہتھیار ”قرآن“ ہوتا ہے جو باطل کے خلاف ایک ایسی نظریاتی جنگ
برپا کرواتا ہے کہ جس کو برپاکرنا اور جیت کر دکھانا قرآنی منہجِ عقیدہ کے سواکسی
کے بس کی بات نہیں۔
اِس پر ہم کسی اور وقت تفصیل کے ساتھ
گفتگو کریں گے، مگر یہ ایک لمحۂ فکریہ ضرورہے کہ ہمارے یہاں ”قرآنی دروس“ کا فنامنا مختلف سرکلز میں الحمد للہ
کئی عشرے سے جاری ہے اور روز بروز ترقی کر رہا ہے، مگر وہ جس کو ”قرآن کی مدد سے
جہادِ کبیر“ کہا گیا ہے، اور کہیں اور نہیں اِسی قرآن کے اندر کہا گیا ہے، وہ شاید
ڈھونڈے سے بھی ہمارے ”دروسِ قرآنی“ کے اِس فنامنا کے اندر
نہ ملتا ہو۔ الا ما شاءاللہ۔ اِس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ یہاں ”قرآن“ سے
پہلے ”ایمان“ کا سبق لینے کا منہج مفقود ہے جو کہ ”توحید“ کے وہ اساسی ترین مباحث
ہیں جو اپنے دور کے جبت اور طاغوت کے بالمقابل ”قرآن“ کو پڑھنے اور سمجھنے کا ایک
سلیقہ اور ایک سمت عطا کرتے ہیں، جس کے باعث پھر آدمی جیسے جیسے ”قرآن“ پڑھتا ہے
ویسے ویسے اُس کے اپنے دور میں پیش آئندہ ”قرآنی معرکہ“ اُس کے قلب و ذہن کی لوح
پر نمایاں سے نمایاں تر ہونے لگتا ہے۔
طالبعلموں کیلئے.. اِس منہج پر سید
قطبؒ کی ”فی ظلال القرآن“ ہماری نظر میں ایک نہایت راہنما تصنیف ہے۔
(5) ”توحید بہ مقابلہ شرک“ کی بنا پر اپنے
ماحول میں پائے جانے والے ”جاہلی اجتماعی عقیدہ“ کے خلاف ایک ”عقائدی جنگ“ لڑ کر
اور جیت کر دکھانے اور اُس کی جگہ ایک ”اسلامی اجتماعی عقیدہ“ قائم کر دینے کی ایک
تابناک مثال ماضی قریب میں محمد بن عبد الوہاب کی تحریک میں ملتی ہے۔ مغربی میڈیا
محمد بن عبد الوہاب اور سید قطب ایسے ناموں کو ایک ’ڈراؤنا خواب‘ دیکھتا ہے، تو
شاید یہ ’بلا وجہ‘ نہیں!
(6) اِس پر رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی والی
حدیث آگے چل کر آ رہی ہے۔
(7) عن عبد اللہ بن عمرو، قال: قال رسول
اللہﷺ: لیأتین علی أمتی ما أتی علی بنی اِسرائیل حذو النعل بالنعل
(الترمذی، کتاب الاِیمان، باب ما جاءفی
افتراق ہذہ الا مۃ)
عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، کہا:
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: میری امت پر بھی ویسا ہی معاملہ گزرے گا جیسا کہ بنی
اسرائیل پر گزرا، یوں جیسے جوتے کے دو پیر آپس میں ملتے ہیں“
عن أبی سعید الخدری، عن النبی ﷺ قال: لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا شبرا
وذراعا بذراع، حتی لو دخلوا جحر ضب تبعتموہم۔ قلنا: یا رسول اللہ الیہود والنصاری؟
قال: فمن؟
(صحیح البخاری۔ کتاب الاعتصام بالکتاب
والسنۃ، باب قول النبی ﷺ لتتبعن سنن من کان قبلکم _ صحیح مسلم۔ کتاب العلم، باب
اتباع سنن الیہود والنصاری)
ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ
سے، کہ آپ نے فرمایا: تم اپنے سے پہلوں کے طور طریقوں پر چل کر رہو گے، وہ ایک
بالشت چلے ہوں گے تو تم بھی ایک بالشت چلو گے اور وہ ایک ہاتھ تو تم بھی ایک ہاتھ۔
یہاں تک کہ وہ اگر سانڈے کے بل میں جا گھسے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کر لو گے۔ ہم
نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا (اپنے سے پہلوں سے مراد) یہود و نصاریٰ ہیں؟
فرمایا: تو اور کون؟
عن أبی واقد اللیثی أن رسول اللہ ﷺ
لما خرج اِلی حنین، مر بشجرة للمشرکین یقال لہا ذات أنواط یعلقون علیہا أسلحتہم۔
فقالوا: یا رسول ا للہ اجعل لنا ذات أنواط کما لہم ذات أنواط۔ فقال النبی ﷺ:
سبحان اللہ، ہذا کما قال قوم موسی اجعل لنااِلٰہا کما لہم آلہة۔ والذی نفسی بیدہ،
لترکبن سنة من کان قبلکم
(الترمذی، کتاب الفتن، باب ما
جاءلترکبن سنن من کان قبلکم)
ابو واقد لیثیؓ سے روایت ہے،کہا: نبی
ﷺ حنین کیلئے نکلے تو مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کو ذات انواط کہا جاتا
تھا اور جس پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکایا کر تے تھے۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسول
اللہ! ہمارے لئے ایک ذاتِ انواط ٹھہرا دیجئے جیسا ذاتِ انواط اُن کا ہے۔ نبی ﷺ نے
فرمایا: سبحان اللہ! یہ ویسی ہی بات ہے جو قومِ موسیؑ نے کہی تھی کہ اجعل
لنااِلٰہا کما لہم آلہۃ یعنی ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دو جیسے اُن کے معبود
ہیں۔ قسم اُس ذات کی جس ہاتھ میں میری جان ہے، تم بھی اُن راستوں کی سواری کر کے
رہو گے جن پر تم سے پہلے تھے۔
(8)عن معاویۃ یقول: سمعت النبی ﷺ یقول:
لا یزال من أمتی أمۃ قائمۃ بأمر اللہ لا یضرہم من خذلہم ولا من خالفہم حتی
یأتیہم أمر اللہ وہم علی لک
(صحیح البخاری۔ کتاب المناقب، باب
سؤالالمشرکین أن یریہم النبی ﷺ)
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ
میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
میری امت میں سے ایک ایسا گروہ باقی
رہے گا جو حق کو لے کر کھڑا ہو گا۔ اُن کو بے یار و مددگار چھوڑنے والے اُن کا کچھ
بگاڑ سکیں گے اور نہ اُن کی مخالفت کرنے والے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (فیصلۂ
قیامت) آجائے گا جبکہ وہ اِسی حال پر ہوں گے۔
عن جابر قال: سمعت رسول اللہِ صلی
اللہ علیہِ وسلم یقول: لا تزال طائِفۃ مِن أمتِی یقاتلون علی الحقِ ظاہرین اِلی
یوم القیامۃ۔ وفی روایۃ ثوبان: لا یضرہم من خذلہم حتی یأتِی أ مر اللہِ وہم
ذلِک۔
(صحیح مسلم، کتاب الاِمارۃ، باب: قول
النبی ﷺ لا تزال طائفۃ من أمتی ظاہرین)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا،
سنا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے:
”ہمیشہ رہے گا ایک گروہ میری امت میں
سے، حق پر، قتال کرے گا، اور چھایا رہے گا، قیامت تلک“
جبکہ ثوبان رضی اللہ عنہ والی حدیث کے
الفاظ میں آتا ہے:
نہ بگاڑ پائیں گے اُن کا کچھ بھی ان
کو بے یار و مددگار چھوڑنے والے، یہاں تک اللہ کا حکم (قیامت) آجائے، جبکہ وہ اسی
حال میں ہوں گے“
(9) ”نظریاتی یلغار“ کو ہم اپنی اصطلاح میں
”عقیدہ کی دعوت“ کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چند صدیاں پیشتر یورپ میں آنے والے
انقلابات بھی نرے پرے
change of system ایسے
واقعات نہ تھے، بلکہ باقاعدہ ایک نظریاتی یلغار تھے اور ان کی یہ کایا پلٹ ایک
”عقائدی بنیاد“ پر ہی روپزیر ہوئی تھی، قطع نظر اِس بات کے کہ اُن کی یہ عقائدی بنیاد
کس قدر باطل تھی۔
(10)کوئی کتنا ہی انکارکرے ’ڈیموکریسی‘ یا
’نیشن سٹیٹ‘ یا اِسی طرح کی دیگر مغربی ’درآمدات‘ کو ”اسلام“ کے ساتھ جوڑنے یا ”اسلام“ سے اس کے ’ثبوت‘ دینے کے
پیچھے.. صاف صاف یہی حقیقت بول رہی ہے۔ اِس پر قدرے تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت
تھی، لہٰذا اِسکی تفصیل مضمون کے آخر میں الگ سے نیچے دی جا رہی ہے۔
(11) ہند میں وسط ایشیا سے آئے ہوئے مسلم
فاتحین نے ”اسلامی نظام“کے قیام کی کوئی بہت عمدہ صورت پیش نہیں کی تو اس کی وجہ
یہ نہیں کہ ہند ایک ’مفتوحہ‘
خطہ تھا اور
فاتحین کو اپنا قاعدہ اور نظام یہاں پر چلانا دشوار لگتا تھا۔ بلکہ معاملہ یہ ہے
کہ یہ مسلم فاتحین جہاں سے آئے تھے وہاں بھی ”اسلامی نظام“ کی ایسی ہی ایک شکل
قائم تھی۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ جس شکل میں ایک نظام کسی قوم کے اپنے یہاں قائم ہوتا
ہے اُس شکل میں وہ نظام کسی مفتوحہ خطے میں قائم کر دینابھی اُس کیلئے کوئی ایسا
دشوار نہیں ہوتا۔ بہرحال ”سلاطین دہلی“ کا دور اِس معاملہ میں
کوئی ایسا برا بھی نہیں رہا۔ ”مغل“
البتہ
تاتاریوں ہی کی نسل تھی اور وہ اپنا تزکِ چنگیزی ساتھ اٹھا لائے تھے، جس سے نکل کر
اسلامی شریعت کی تحکیم کا شرف مغلوں میں سے اورنگزیب عالمگیر ہی نے پایا جس کی
قیمت برصغیر کے ہندو، نیز مسلمانوں میں سے سیکولر مؤرخین، سے ظاہرہونے والے بے حد
وحساب بغض کی صورت وہ آج تک دے رہا ہے۔ معلوم نہیں بر صغیر کے ’مسلم سیکولروں‘ اور
ہندوؤں کے مابین کونسے ’جنم‘ کا ساتھ ہے!
(12) ”اسلام“: یعنی اِس بات کو سب سے بڑا آئین
ماننا کہ ”نہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت“ اور ”نہ رسول کے سوا کسی کی شریعت“۔ جو کہ
” أشہد أن لا الٰہ الا اللہ و أن محمدا رسول اللہ“ کا ہی ایک سادہ و سلیس مفہوم
ہے۔
(13)اِس کی ایک واقعاتی مثال ہمیں سید ابو
الاعلیٰ مودودیؒ کے اختیار کردہ اُن موحدانہ لہجوں کے اندر نظر آتی ہے جو اُن کے
تیس اور چالیس کے عشروں میں سامنے آنے والے کام میں پھوٹ پھوٹ کر بول رہے تھے۔
کچھ دیگر پہلوؤں سے آپ سید ابو
الاعلیٰؒ کے اُس کام سے چاہے اختلاف کریں، مگر باطل کو اُس کی بنیاد سے ہاتھ
ڈالنا، یہاں تک کہ موحدین اپنے ماحول میں پائے جانے والے جاہلی ’قومی دھارے‘ یا
’قومی عقیدے‘
ہی کو صاف
صاف چیلنج کرنے لگے ہوں اور اُس کے مقابلے میں ”قرآنی مسلمات“ کو ہی ماننے اور منوانے پر اِس پورے نزاع کو موقوف ٹھہرا رہے
ہوں، یہ بہرحال تحریکی عمل کی ایک ایسی بلندی ہے جو بعد میں یہاں کسی تحریک کے حصے
میں نہ آ سکی۔ کاش یہ عمل کچھ اور عشرے جاری رہتا۔ اسکا جاری رہنا اللہ کو منظور
ہوتا تو بڑا عرصہ پہلے یہ باطل کی بنیادیں آخری حد تک کھوکھلی کر چکا ہوتا۔ قدر
اللہ، وما شاءفعل!
(14)بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى
الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ۔ (الانبیاء: 18)
”بلکہ ہم تو حق کی چوٹ باطل کے سر پر
لگاتے ہیں جو اس کا کچومر نکال دیتی ہے، اور تب وہ مٹ کر رہ جاتا ہے“۔
(15)فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ
فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ
وَالْيَوْمِ الآخِرِ ۔ (النساء: 59)
”پھر اگر نزاع کرو تم کسی چیز میں تو
لوٹاؤ اُس کو طرف اللہ کے اور رسول کے، اگر ہو تم ایمان رکھتے اللہ کے ساتھ اور
یوم آخرت کے ساتھ“
(16)وَكَذَلِكَ نفَصِّلُ الآيَاتِ
وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ (ال أنعام:55 )
”اور اِسی طرح ہم کھول کر رکھ دیتے ہیں
آیات کو، اور تاکہ عیاں ہو کر رہ جائے مجرموں کا راستہ“
(17)’ڈیموکریسی‘ یا ’نیشن سٹیٹ‘ یا اِسی طرح کی دیگر مغربی ’درآمدات‘ کو
”اسلام“ کے ساتھ جوڑنے یا ”اسلام“ سے اس کے ثبوت دینے کے پیچھے صاف صاف یہی حقیقت
بول رہی ہے۔ ورنہ کہاں وہ کفر، اور کفر کی تہ در تہ تاریکیوں پہ قائم وہ جاہلی پس
منظر جہاں سے ’ڈیموکریسی‘ اور ’نیشنلزم‘ اور ’ریشنلزم‘ اور ’ہیومن ازم‘ ایسے اِن نظریات اور اِن پر مشتمل اِن
نظاموں نے جنم لیا ہے.. اور کہاں ”اسلام“ جو حق اور عدل کے سب پیمانے
اپنے ایک خاص پیراڈائم کے ساتھ لے کر آتا ہے اور فکری و تاریخی ہر دو پہلو سے اپنا
ایک الگ تھلگ بلکہ منفرد ترین پس منظر رکھتا ہے۔
صرف یہ ایک بات ہی کہ ”اسلام“ شرک اور
شرک کی جملہ اقسام و مظاہر کے ساتھ دنیا کے اندر کس درجہ کی جنگ چھیڑنے آیا ہے،
اگر آپ پر واضح ہو جاتی ہے تو مغرب کے برآمدکردہ اِن نظریات اور اِن نظاموں کے
’اسلام کے ساتھ مشترک پہلوؤں‘ کی طرف نظرچلی جانا وہ آخری بات ہو سکتی ہے جو کبھی
کسی مسلمان کے ذہن میں آ سکے۔ شرک کے اِن نظریات اور اِن نظاموں کی بابت جو پہلی
بات البتہ ایک ”مسلم“کے ذہن میں آ سکتی ہے وہ یہی کہ کم از کم نظریاتی سطح پر تو
ضرور ہی وہ اِس شرک کے خلاف تلوار سونت لے اور اُس وقت تک لڑے جب تک اُس کی جان
میں جان ہے یاجب تک یہ نظریات پسپا اور ان کا کلمہ دنیا کے اندر پست نہیں ہو جاتا۔
مغرب کی دی ہوئی اِن سوغاتوں کے ’اسلام کے ساتھ مشترک پہلوؤں‘ کی جانب
ہی بار بار نظر کا جانا بلکہ وہیں پرجم کر رہ جانا صرف ایک ہی حقیقت کی غمازی کرتا
ہے اور وہ یہ کہ وہ ”اسلام“ جس کاپہلا سبق شرک کے خلاف
اعلانِ جنگ ہے ایسے شخص یا ایسے ماحول کے ہاں دم توڑ چکا ہے اور اسلام کی اس اساسی
ترین صفت سے ہی اب وہ آخری حد تک بیگانہ ہو چکا ہے۔ ایسے شخص یا ایسے ماحول کی سب
سے پہلی ضرورت یہی ہو سکتی ہے کہ اس کا کوئی ہمدرد اُس کو ”لا الٰہ الا اللہ“ کا
مطلب اور معنیٰ سکھائے اور جب تک وہ یہ ”سبق“ نہ سیکھ لے اُس کو اسلام کے کسی اور
’سبق‘ پر نہ جانے دے۔ بے شک اسلام ’پوری زندگی کو محیط‘ ہے اور اِس لحاظ سے اسلام
کے اسباق اور ابواب بے شمار ہیں اور ’عدلِ اجتماعی‘، ’شورائیت‘، ’ارزاں انصاف‘،
’بنیادی حقوق‘، ’رفاہی مملکت‘ وغیرہ وغیرہ ”اسلام“ کے بعض اسباق یا بعض ابواب ہو
سکتے ہیں.. مگر”اسلام“ کے اُس اولین و لازمی ترین سبق کے بعد کہ ”نہیں کوئی پرستش
و بندگی کے لائق، مگر اللہ وحدہ لاشریک“۔ یہ مینی فسٹو اگر سب سے اوپر نہیں تو
اسلام کے اپنے ہی باقی کے اسباق غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں، خواہ آدمی ”اسلام“کے یہ
باقی کے اسباق”اسلام“ کے اپنے ہی مصادر سے پڑھے، کجا یہ کہ ’اسلام‘ کے وہ اسباق
بھی آپ کو ”مغربی برآمدات“ سے ہی ٹٹول ٹٹول کر نکالنا پڑے ہوں!
مختصر یہ کہ مغرب سے ملنے والے اِن
نظریات اور اصطلاحات کے ساتھ، جن کو ہمارے لوگ ہی نہیں پوری دنیا مغرب ہی کے
پیراڈائم کے اندر رکھ کر دیکھے گی، ”اسلام“ کے جوڑ اور ٹانکے لگانا بلا شک و شبہ
اُسی ”مفتوح“ اور ”قابل استعمار“ ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ بنظر غائر دیکھنے والے ایک
شخص کیلئے اِس حقیقت میں شک کی ادنیٰ ترین گنجائش نہیں رہ جاتی۔ پھر بھی حیرت ہوتی
ہے، اِن ’ٹانکوں‘ کو بڑے اچھے اچھے حلقوں کے ہاں بھی پزیرائی پانے میں کوئی بڑی
دشواری پیش نہیں آئی، بلکہ کچھ ہی دیر بعد اِن ’ٹانکوں‘ کو قبول نہ کرنے والوں کے
فہم اسلام کو مشکوک ٹھہرانے کے رجحانات بھی یہاں پر پزیرائی پانے لگے۔ فاِلی اللہ
المشتکی