قارئین کے مراسلے
درخشاں ماضی۔۔۔انجان مستقبل
حذیفۃ عبد الرحمن
قارئین کے مراسلے ایقاظ میں من وعن شائع کر دیے جاتے ہیں۔ ادارہ ایقاظ کا یہاں شائع ہونے والے کسی مراسلے سے متفق ہونا ضروری نہیں
”میں مر رہا ہوں، مگر مجھے اطمینان ہے کہ اب میں ایسی دنیا میں جا رہا ہوں جہاں برطانی راج نہ ہوگا“۔
یہ جملہ روزنامہ امرت بازار پتریکا کے سابق ایڈیٹر موتی لال گھوش نے1920ءمیں اپنی زندگی کے بالکل آخری لمحات میں مسٹر گاندھی سے کہا تھا۔
(بحوالہ ماہنامہ ’الرسالہ‘ جنوری 1993، ص 8۔ ہندوستان آزادی کے بعد۔ ص 3، از وحیدالدین خان)
آنجہانی موتی لال کا یہ قول زیادہ قابل حیرت تو نہیں ہونا چاہئے ، کہ ایمان کی دولت میسر نہ ہوتو اس قسم کی ہفوات کا سرزرد ہوجانا اچنبھے کی بات بھی نہیں۔ مگریہ اس بات کا غماز ہے کہ اس دور کے سیاستدانوں کے اذہان تاجِ برطانیہ سے کس درجہ نالاں اور خائف تھے کہ مرض الموت میں بھی یہی ’ہوّا ‘ ان کی پریشانی کی وجہ بنا رہا۔’ متحدہ قومیت‘ کا نظریہ جسے انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے سیاسی منشور کی حیثیت سے پیش کیاتھا، بلا شبہ گمراہی پر مبنی تھا، مگر خود اہل اسلام میں سے کئی ایک مخلص رہنما بھی اس کی زد سے خود کو بچا نہ سکے تھے۔ ’فی زماننا قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘ جیسے الفاظ ایسی شخصیات کہہ رہی تھیں جن کا علم وتقویٰ شبہ سے بالاتر ہے۔ ’بہتی گنگا‘ میں۔۔۔۔نا دانستہ ہی سہی۔۔۔۔ مگر وہ لوگ بھی ہاتھ دھو نے پرخود کو مجبورپار ہے تھے جن کے متعلق یہ گمان بھی ظلم ہے کہ وہ اس ’گنگا‘ کے ’تقدس‘ کے قائل ہونگے۔ اب چونکہ طرح طرح کے حسین خواب دکھائے جانے لگے تھے، یقینی طور پریہ سب کچھ اسی کے زیر اثر ہو رہا تھا ۔
ایسے پر آشوب دور میں اہل سنت کے دو معتد بہ طبقے عموماً آپس میں ہی کچھ ایسے مسائل پر نبردآزما تھے جن کا دائرہ ’فروع دین‘ ہی کہلا سکتا ہے۔ رہا یہ کہ وہ نت نئی گمراہیاں جو مختلف طریقوں اور خوبصورت ناموں سے معاشرہ میں پنپ رہی تھیں اور وہ ضلالتیں جو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پروان چڑھائی جا رہی تھیں (مانند اشتراکیت، جمہوریت، سیکولرازم وغیرہ) ۔۔۔۔۔طواغیت کی ان جدید اشکال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا، ان کے آڑے آنا،اور ان کے ’ابطال‘ پر حتمی انداز میں اپنا سارا زور صرف کر دینا، باطل سے اصولی اور بنیادی درجہ کا اختلاف (چاہے انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اجتماعی معاملات سے ) ، ہم دیکھتے ہیں کہ صرف اور صرف ’تحریک اسلامی‘ کی قیادت کے ہی نصیب میں آیا۔
ہمارا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ مذکورہ بالا نیک طبقوں نے کوئی قابل ذکر خدمات سر انجام نہیں دیں۔ ’کالا پانی‘ بھیجے جانے والوں کی کثیر تعداد حق یہ ہے کہ انہی واجب الاحترام افراد پر مشتمل تھی۔ زنداں کے ’اسیر‘ یہی لوگ کہلائے جو کہ مقدور بھر اسلامی تہذیب و شعائر کا دفاع کرتے رہے۔ ان سب قربانیوں کا بہت بڑا اجر انشاءاﷲ ان صالح حضرات کو مل کر رہے گا، مگر قابل غور چیزیہ ہے کہ وہ ’سحر‘ جو ’ساحرین‘ کی جانب سے دکھائے جانے والے ’کرتب‘ کو ’حاملین عصا‘ کی آنکھوں کے سامنے ’زندہ حقیقت ‘ کے روپ میں پیش کر رہا تھا، اس ’افک ‘ کوبالکلیہ باطل کردینے والا’ید بیضا‘ استعمال کرنے کی سعادت بجا طور پر سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ہی کا مقدر تھی۔
ہمارے بعض ’مفکرین‘ اِس صداقت کو ’تاریخ نگاری ‘ کے بجائے ’تاریخ سازی‘ کا نام دینے پر اصرار کرنا چاہیں تو شوق سے کریں ، مگر لازم ہے کہ پھر وہ بر صغیر میں پائی جانے والی اُس دور کی کسی ایسی ہی ہمہ گیر اور فعال شخصیت کے نامِ نامی اسمِ گرامی سے ہمیں ضرور مطلع فرمائیں جس نے فکری اور عملی ہر دو حیثیتوں سے انسانی کردارمیں ایک تلاطم برپا کر دیا ہو۔
باعث تعجب ہونا چاہئے کہ اس تابناک ماضی کے باوجود آخر وہ کیا چیزہے جو آج اخبا ر کے ایک عام قاری کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ’جماعت اسلامی‘ بھی پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ایسی ہی محض ایک ’سیاسی‘ جماعت ہے؟ وہ کیا وجہ ہے کہ جو ’دین داروں‘ کو عین اس صف میں لا کھڑاکرتی ہے جو ’بے دین‘ لوگوں کی جائے قیام ہے؟؟ کیا سبب ہے جو عوام الناس پر چھوٹتے ہی یہ تاثر ڈال دیتا ہے کہ اس ساری دوڑ دھوپ کا مقصد ’اقتدار کی رسہ کشی ‘ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں؟؟؟
’تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘ نے اگر ہمارے چودہ طبق روشن نہ کر دئے ہوتے تو واﷲالعظیم ہم خود بھی ایک عرصہ تک اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ حقیقت کچھ ’اور ‘ ہو اور نظر کچھ ’ اور‘ آ رہا ہو، کیا یہ چیزذرہ برابر بھی لائق توجہ نہیں ؟؟؟؟
ایک عام ناظر اگر یقینا ہمارے متعلق اس انداز سے سوچنے لگا ہے اور ہمارا تنزل واقعی اس درجہ کو پہنچنے جا رہا ہے توضرورت اس بات کی ہے کہ ان اسباب کے سد باب کی جدو جہد کی جائے جنہوں نے ہماری ’حقیقی ‘ تصویر کوہی دھندلا کر دیا ہے۔
’راستہ ‘ کی تبدیلی کی جو وجوہات بھی آپ کے پاس ہوںگی مگر راستہ چلتے چلتے اپنی منزل سے ہی ’سرک‘ جانے کا یہ غیر معمولی واقعہ حیران کن ضرورہے۔
’دوسروں‘ کے اعتراضات کو بے شک آپ زیا دہ اہمیت نہ دیں، لیکن اگر ’دعوت‘ کے میدان میں خوش قسمتی سے آپ خودپر کوئی ’تحفظ‘رکھتے ہوں تو اس کو دور کرنے میں پس و پیش کم از کم بالکل بھی روا نہیں۔
دیکھنے والے تو وہی دیکھا کرتے ہیں جو ’نظر‘ آ رہا ہو۔ ’پس ِ منظر‘ میں آپ کے کیا کیا مقاصد ہیں، ’تفتیش ‘کی اس قدر محنت کی توقع عوام سے بہرحال آپ کو نہیں رکھنی چاہئے۔
تقسیم ہند سے قبل کے اس درخشاں دورکے نقوش اگر ذہنوں میں اب بھی راسخ ہیں، ’مسلم ہے تو لیگ میں آ‘ ایسے مصنوعی اور جذباتی نعروں کی حقیقت واضح کرتے رہنے کی ’اصل ‘ وجہ اور اغیار کے سجائے ہوئے دستر خوان سے اعتزال کر جانے کا’ ٹھوس جواز‘ اگر یادداشت میں کہیں محفوظ ہوتویقین جانئے اپنا ایک بے لاگ اور تنقیدی جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔
تحریک کا وہ بنیادی مقصد جو اس کی تاسیس کی وجہ بنا، آج ہمارے ’متفقین‘ یا ’کارکنان‘ کے ذہن سے روپوش تو نہیں ہو رہا؟؟ تاسیس کے ابتدائی ایام میں لڑے جانے والے اس فکری معرکہ سے ہمارے نئے ہمسفر لا علم تو نہیںہیں؟؟؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ’اپنی‘ ہی تاریخ کے مطالعہ کی سب سے زیادہ ضرورت خود ’ہمارے‘ ہی کارکن کو در پیش ہو ؟؟؟
(حذیفۃ عبد الرحمن)
٭٭٭٭٭