امریکہ اسرائیل تعلقات خراب نہیں ہوں گے!
ابو زید
عشق ایک گتھی ہے جس کو سلجھانے میں دنیا کے ادیبوں اور دانشوروں نے زندگیاں کھپا دیں۔ یوں تو افراد بھی عشق کے ہاتھوں برباد ہی ہوتے دیکھے گئے ہیں لیکن یہ دو قوموں کا عشق ہے اور وہ بھی ایسا جو شاید ہی سننے میں آیا ہو۔ یہ امریکہ اور مملکت اسرائیل کی داستانِ عشق ہے۔
اسرائیل و امریکہ کے تعلقات کی تاریخ کا اگر مختصر جائزہ لیا جائے تو شاعرانہ انداز میں اس کی تعبیر عشق سے ہی کی جاسکتی ہے۔ امریکہ بڑی مستقل مزاجی سے اور پورے جذبے اور بے غرضی کے ساتھ اسرائیل کی حمایت کئے جائے جارہا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کسی صنم بے وفا کی طرح اس امتحان کو جان لیوا بنا رہا ہے۔ یہ معاشقہ بسا اوقات ’بین الاقوامی کمیونٹی‘ میں امریکہ کی سبکی بھی کرا دیتا رہا ہے۔ لیکن ہوا جو عشق! خدا کسی کو یہ روگ نہ لگائے !
عشق نے غالب نکما کردیا-----ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے!
بہرحال بات شروع کرتے ہیں1967کی جنگ سے۔ 8جون1967میں اسرائیل نے امریکی بحری فوج کے ایک جہاز پر اس لئے حملہ کردیا تھا تا کہ امریکہ اس حملے کو مصر کی طرف سے سمجھے اور مصر پر حملہ کردے۔ لیکن بات چھپی نہ رہ سکی اور امریکہ کو تحقیق کرنے سے پتہ چل گیا کہ حملہ اسرائیل کی طرف سے ہوا تھا۔لیکن یہ بھی عشق کا ایک امتحان تھا۔سرزنش تو دور کی بات، امریکہ کا بس نہیں تھا کہ وہ اپنے محبوب کو شکایت بھری نظروں سے ہی دیکھ لے۔کسی بھی سیاسی ریکارڈ سے پتہ نہیں چلتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل سے اس کی وجہ بھی پوچھی ہو۔ اس حملے میں امریکی جہاز کے عملہ کے 34افراد ہلاک اور171 زخمی ہوئے تھے۔ بعض سمجھدار امریکی ابھی تک اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں کوئی دراڑ تک کیوں نہیں آئی۔ اگر کسی کو اس کے بارے میں تفصیل معلوم کرنا ہو تو انٹرنیٹ میں USS Libertyسرچ کریں ، پوری تفصیل مل جائے گی۔ کتنی ہی بارامریکہ نے اسرائیل سے عاجزانہ استدعا کی کہ جناب فلسطینیوں سے امن کی بات چیت کریں اور جواب میں اکثر اسرائیل سمجھوتہ تو دور کی بات ہے بات چیت کو بھی بڑے تکبر سے ٹھکرا دیتا ہے۔ اور بعد از خرابی بسیار کبھی بات کرنے پر تیا ر ہو بھی جائے تو نخرے اتنے کہ کبھی بات نہ بن پائے۔اور اگر امریکہ کی منت سماجت کے نتیجے میں پیشانی پر بل ڈال کر کوئی سمجھوتہ ہوجائے تو معاہدے کے بعد اضافی شرطیں جس کے نتیجے میں معاہدہ ہی ختم ہوجائے۔ آخر معشوق ٹھہرے سپر پاور کے!۔اور یہ سپر پاور ہے کہ عشق کی منزلیں طے کرنے میں اتنا مگن کہ اپنی عزت اور ساکھ کو داؤ پر لگائے جارہا ہے۔سچے عاشق دنیا کی پروا کب کرتے ہیں؟ یہ زمانے کی دیواریں عشق کے سودائیوں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ دنیا کے تمام آزاد ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ ساری دنیا میں امریکہ کے لئے نفرت بڑھی ہے اور بڑھتی جارہی ہے۔ لیکن محبت کی یہ ایسی کوئی بڑی قیمت نہیں ہے۔ اس دور میں دنیا کا سیاسی نظام قومیت کے نظریے کے تحت چل رہا ہے جس میں "قومی مفاد" ایک ایسی چیز ہے جو ہر ملک کے لئے بنیادی اور فیصلہ کن حقیقت رکھتی ہے۔ لیکن جہاں تک اسرائیل کا معاملہ امریکہ کے لئے قومی مفاد بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ تاریخ کا ایک حیرتناک واقعہ ہے۔ بعض دفعہ بائبل کی آخری کتاب "مکاشفہ" کے باب 17میں بیان قیامت کی ایک نشانی یاد آتی ہے۔اس میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک درندہ ظاہر ہوگا جس پر ایک فاحشہ عورت سوار ہوگی جس کے ہاتھ میں ایک پیالہ ہوگا جس میں اسکی حرامکاری کی غلاظت بھری ہوئی ہوگی۔ بائبل کے مفسرین اس درندے اور فاحشہ عورت کو دنیا بھر میں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ کیا ان کو اتنی آسان اور سامنے کی بات نظر نہیں آتی؟
اس طرف ہماری خصوصی توجہ جانے کی وجہ اسرائیل و امریکہ کے بیچ پیدا ہونے والا حالیہ تنازعہ ہے۔پچھلے برس دسمبر میں اسرائیل کی طرف سے اعلان ہوا تھا کہ اسرائیل اگلے دس مہینوں تک کے لئے نئی بستیوں کی تعمیر معطل کر رہا ہے۔ اس سال مارچ میں امریکہ کے نائب صدر جو بائڈن جو کہ اقراری صیہونی ہیں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یہ جو بائڈن نہ صرف اقراری صیہونی ہیں بلکہ ایک وڈیومیں بڑے فدویانہ اندا ز میں اپنی صیہونیت کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ صیہونی ہونے کے لئے یہودی ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر ، ہمارا اسرائیل کے ساتھ عشق اور وفاداری کا تعلق مذہب سے بالاتر ہے اور اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ایک طرف یہ اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں میں نئی تعمیرا ت کو روکنے کی کوشش بھی کر رہے تھے اور دوسری طرف اسرائیل نے عین انہی صیہونی عاشق زار نائب صدر کی اسرائیل میں موجودگی میں ہی اعلان کردیا کہ اسرائیل مشرقی یروشلم میں1600نئے مکانات تعمیر کر رہا ہے۔ یہ اعلان کیا تھا، پرانے منجھے ہوئے عاشق کے منہ پرطمانچے کی طرح لگا۔امریکہ نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اسرائیل تھوڑی دیر کے لئے اپنے عشق کے جادو کو بے اثر ہوتا دیکھ کر پریشان بھی ہو گیا۔ لیکن اسرائیل کا تجربہ کچھ اور تھا جس کی وجہ سے اس نے اپنے منصوبے کو معطل یا ملتوی کرنے سے صاف انکار کردیا۔ جب یہ خبریں آئیں تو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ہلچل مچ گئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ اب تک امریکہ کی تاریخ میں امریکہ اسرائیل کے تعلقات کا یہ سب سے بڑا بحران ہے۔ لیکن وہ عشق ہی کیا جس کا جادو سر چڑھ نہ بولے۔وقت نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ امریکہ ایک سچا عاشق ہے۔ابھی اس تنازع کے شروع ہوئے ایک ہفتہ گذرا تھا اورامریکہ میں اسرائیلی لابی چیں بہ چیں تھی کہ اسرائیلی وزیر خارجہ کی طرف سے پر اعتمادانداز میں کہا گیا کہ اسرائیل کا ان تعمیرات کو ملتوی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس اعتبار کا اظہار کیا گیا کہ اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات اتنے دیرینہ ہیں کہ یہ بحران ہوا ہوجائے گا۔یہ بیان اس وقت آیا جب مشرقی یروشلم میں اسرائیل فوجیوں اورفلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا۔دوسرے ہی دن امریکہ محبوب کی خفگی کے ڈر سے بے چین ہوگیااور ہلیری کلنٹن کی طرف سے محبوبانہ انداز اعلان آیا کہ اس طرح کے چھوٹے موٹے واقعات سے امریکہ اسرائیل تعلقات میں کوئی بحران نہیں ہے۔ اور اگلے دن امریکی صدر اوبامہ جو کہ صدر منتخب ہونے سے پہلے ہی دیوار گریہ (wailing wall) کے پاس اپنا سر ہلا ہلا کر اسرائیل سے وفاداری کا عہد کرچکے تھے نے خود رفتگی کے عالم میں کہہ دیا کہ نئی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں آئی ہے اور دوستوں کی درمیان اس طرح کی نا اتفاقی ہو ہی جاتی ہے۔
قارئین! اب ذرا شاعری کی دنیا سے باہر نکلیں۔ امریکہ امن کا پیامبر، اسرائیل اور فلسطین کی درمیان سمجھوتے کے لئے سرگرداں اور مملکت اسرائیل کی فہمائش کر کرکے عرب حکمرانوں کو خوش کرنے کی بار بار کوشش کر رہا ہے۔لیکن ایک چیز بالکل واضح ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ کسی بھی صورت میں مملکت اسرائیل کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔اسرائیل کی معاشی اور فوجی امداد اور سیاسی حمایت دائمی اور غیر مشروط طور پر جاری رہے گی۔ بھلا امریکہ کی ساکھ کو پوری دنیا میں نقصان پہنچے، بھلے امریکہ کی کتنی ہی سبکی ہو، بھلے امریکہ کے اپنے قومی مفادات کو کتنا ہی نقصان ہو یہ حمایت جاری رہے گی یہاں تک کہ حمایت کرنے والا یا جس کی حمایت کی جارہی ہے ان میں سے کوئی منظر عام سے غائب ہو جائے۔ واضح رہے یہودیوں کی آباد کاری کے لئے جن زمینوں پر اسرائیل نئی بستیاں تعمیر کر رہا ہے وہ اقوام متحدہ اور بین الاقومی کمیونٹی کے نزدیک بھی مقبوضہ ہیں۔ جون 2009میں قاہرہ میں مسلم امّت سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے صدر اوبامہ نے بھی اس کا اعادہ کیا کہ امریکہ ان نئی بستیوں کو غیر قانونی مانتا ہے۔ 1967کی سہ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل نئی بستیاں تعمیر کئے جارہا ہے حالانکہ اقوام متحدہ نے بھی ایک قرارداد منظور کرکے مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسرائیل نے باقاعدہ نئی بستیاں آباد کرنے کا کام 1972میں شروع کیا اور اسی دوران اقوام متحدہ نے اس کے خلاف ایک اور قرارداد منظور کی ۔لیکن اسرائیل نے بے جھجک اپنا کام جاری رکھا اور بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000تک اسرائیل ساڑھے تین لاکھ یہودیوں کو مقبوضہ علاقوں میں آباد کرچکا تھا۔ان خوبصورت بستیوں میں تمام سہولیات مہیا کرائی جاتی ہیں اور سیکوریٹی کا سخت انتظام ہوتا ہے جبکہ ان کے بہت قریب آباد فلسطینی بستیاں انتہائی خستہ حالت میں نظر آتی ہیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ اسرائیل کو بعض دفعہ مجبوراً بستیاں بسانے کے پروگرام کو ملتوی کرنا پڑا ہے لیکن مجموعی طور پر اسرائیل کی پالیسی یہی رہی کہ کسی کی پروا کئے بغیر اپنا کام جاری رکھے۔مارچ 2008میں جب یروشلم میں 600نئے گھر بنانے کا اعلان کیا گیا تو امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے اس کی مذمت کی۔ بات مذمتوں سے آگے بڑھتی تو کچھ بات بنتی۔اسرائیل کے لئے امریکی حمایت کسی بھی قانون کو نہیں مانتی ، معاشی اور فوجی امداد جاری رہے گی اسرائیل جو چاہے کرلے۔ہم اپنی بات ایک سیاسی مبصر کے تبصرے پر ختم کرتے ہیں۔
اسرائیلیوں کی اپنی کیلکولیشن (حساب وکتاب) یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان بعض اوقات تعلقات میں جو اتار چڑھاؤ آتا ہے اس کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اب دیکھیں کہ اس کی دو تاریخی نظیریں(precedents) ہیں۔ایک تو صدر ریگن کے زمانے میں سعودی عرب کے ساتھ اواکس (AWACS) طیاروں کے سودے کے معاملے میں اسرائیل کے صدر بیگن(Begin) نے مخالفت کی تھی تو آخر کار بیگن ہی کو فتح ہوئی تھی۔ اس کے بعد دوسرا بحران بش سینئر کے زمانے میں ہوا جب میڈرڈ کانفرنس کے بعد اسرائیل نے امن مذاکرات کا آغاز کرنے ہی سے انکار کردیا تو سیکریٹری آف سٹیٹ جیمس بیکر نے نہایت ہی سخت الفاظ اداکئے اور بڑے ہی جھنجلاہٹ کے انداز میں کہا کہ یہ ہے میرا فون نمبر، اگر آپ کو امن مذاکرات میں دلچسپی ہو تو مجھے اس نمبر پر کال کرلیجئے۔لیکن اسرائیل کا تجربہ یہ ہے کہ وہ ہر اس طرح کے کرائسس میں فتح مند نکل آتا ہے۔تو ان کا خیال یہ ہے کہ یہ صورت حال زیادہ دیر تک رہنے والی نہیں ہے ۔ خود سیکریٹری آف سٹیٹ اور صدر اوبامہ ابھی پچھلے دو دنوں میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ان چھوٹے موٹے واقعات سے ہمارے ان گہرے اور دور رس تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر امریکہ کی طرف سے یہ بیان آرہا ہو کہ آپ جو بھی کر رہے ہیں، آپ کے ہمارے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تو پھر اسرائیل کو کیا پڑی ہے کہ وہ امریکہ کی بات مانیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر امریکہ معاشی اور فوجی امداد کے دباؤ کو استعمال پر تیار ہو جائے تواسرئیل کو سمجھ آسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کانگریس کسی بھی صدر کو یہ کام کرنے نہیں دیگی۔
(بی بی سی اردو، سیربین 18مارچ 2010)