عافیہ.... تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
عافیہ
جسے میں نے دیکھا
تحریر: ابو السبایا
عافیہ تو قید تھی ہی، یہ مضمون لکھنے والا ایک نہایت پیارا بھائی بھی اس وقت ”ٹیرر ازم“ کے گھناؤنے الزام کے تحت امریکہ کے اندر قید میں چلا گیا ہے۔ قارئین! اِس کی رہائی کیلئے بھی اللہ سے دعا کریں۔ (ادارہ)
رسول اللہ کے زمانے میں اسلام قبول کرنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے تھے: ایک وہ جو مسلمان ہونے کے باوجود اپنے علاقوں میں اپنے ہی لوگوں میں بستے رہتے اور دین کے بنیادی ارکان پر عمل پیرا رہتے۔ دوسرے وہ جو ہجرت کرتے اور رسول اللہ ﷺ کی مہمات اور جدوجہد کا حصہ بنتے۔ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا رویہ اور معاملہ دونوں گروہوں سے الگ الگ تھا۔ مثال کے طور پر امام مسلم اور امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ جب کسی فوجی یونٹ کے کمانڈر کا تقرر کرتے، تو اسے دشمن کے جو لوگ مسلمان ہو جائیں انکے بارے میں ہدایات بھی کرتے۔ چنانچہ آپ فرماتے: ” اِنہیں اپنے علاقے چھوڑ کر مہاجرین کی سرزمین کی طرف ہجرت کی دعوت دینا، اِنہیں بتانا کہ اگر وہ ایسا کریں تو ان کے وہی حقوق اور فرائض ہونگے جو مہاجرین کے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں ، تو اِنہیں بتانا کہ ان کی حیثیت اعرابیوں (بدوؤں) کی ہوگی، اور ان پر باقی مومنوں کی طرح اللہ کا قانون نافذ کیا جائے گا“ ۔ یہ تفریق صرف اس بنا پر تھی کہ ایک گروہ نے اپنے کاندھوں پر کچھ ذمہ داریاں اٹھا لی تھیں، جب کہ دوسرے فریق نے کم عملی کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک بہت انفرادی، علاقائی اور بے ضرر مذہب تک محدود کر لیا تھا۔ خلاصہ کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ نے اس وقت کے مسلمانوں کے عمل کو دو طرز پر تقسیم کر دیا تھا: دین المھاجرین ( جس پر عمل پیرا لوگ اپنے کاندھوں پر اسلام کی نصرت اور فتح کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے تھے) اور بدوؤں کا دین (دین الاعراب : جس پر عمل پیرا لوگ بنیادی چیزوں سے آگے نہ بڑھتے)
حالانکہ یہ صورت حال آج سے چودہ سو سال پہلے کی ہے ، مگر غور کیا جائے تو یہ ایک دائمی تفریق ہے جو مسلمانوں کو ہمیشہ انہی دو طبقوں میں ہر جگہ اور ہر وقت تقسیم کرتی ہے۔ اسی لئے آپ محسوس کریں گے کہ باعمل مسلمان بھی ، چاہے وہ مغرب میں ہوں یا مشرق میں، انہی دو طبقوں میں منقسم پائے جائیں گے۔ ماضی کا دین الاعراب آج کے اس اسلام کے مشابہ ہے جو کہ ارکان خمسہ، حلال گوشت اور محلے کی مسجد کو صاف رکھنے تک محدود ہے۔ مغرب میں تو ایسے مسلمان کا ملنا بھی مشکل ہے، تو ذرا آنکھوں اور دل کو ملنے والے اس سرور اور خوشی کا اندازہ کیجئے جو ان مسلمانوں کو دیکھ کر ملتی ہے جو ایک قدم آگے بڑھ کر دین المھاجرین تک پہنچ گئے ہیں، جن کو تمام امت کی فکر ہے اور جس فکر نے اسے کھڑا ہونے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ یہ ہیں وہ لوگ جو اسلام کے فعال کارکن بن جاتے ہیں۔ یہ اپنا ہر پل اللہ کی بندگی میں صرف کرتے ہیں چاہے جیسے بھی کر پائیں، چاہے انکی زندگی میں اور کتنی ہی مصروفیات اور ذمہ داریاں ہوں۔ ان کے دل باقی مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ اپنے سروں کو بلند رکھتے ہوئے کرتے ہیں اور اپنے ارد گرد جانوروں کی طرح رہنے والے انسانوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
ہکذا الاحرار فی دنیا العبید
غلاموں کی دنیا میں آزاد لوگ اسی طرح رہا کرتے ہیں
حال ہی میں تمام دنیا ایک ایسی ہی شخصیت کے بارے میں بات کر رہی ہے ۔ ایک چھوٹے سے قد کی نحیف سی کالج کی طالبہ، جو ایک بیوی اور تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں بھی ہے۔ اس کا نام عافیہ صدیقی ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس کہانی کی طرف میری طرح کھچے چلے آئیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس خاتون کی اسلام کے لئے تڑپ اور خلوص کو اسکو جاننے والوں کی طرح جان جائیں۔ یہ ایک ایسا خلوص تھا جو اسکے ایسے اعمال سے عیاں تھا جو دیکھنے میں توبہت آسان اور معمولی تھے، مگر جن کے کرنے کے یہ کام ہوتے ہیں وہ بہت ہی کم کرتے ہیں!
جو لوگ عافیہ کو جانتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک بہت چھوٹے قد کی، خاموش طبع، باتہذیب اور شرمیلی خاتون تھی، جسے محفل میں کوئی مشکل سے ہی نوٹ کرسکتا تھا۔ مگر یہی لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر موقع پر کچھ کہنے کی ضرورت پڑتی تو پیچھے بھی نہ ہٹتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ مسجد میں بوسنیا کے یتیم بچوں کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کے لئے تقریر کر رہی تھی۔ تقریر کے دوران اس نے وہاں موجود مرد سامعین سے بھی گلا کر ڈالا : ” کہاں ہیں مرد؟ مجھے ہی کیوں یہاں کھڑے ہو کر یہ کام کرنا پڑ رہا ہے؟ اور بات بھی اسکی ٹھیک تھی۔ وہ مسلمان بھائیوں سے بھرے معاشرے میں ایک ماں، ایک بیوی اور ایک طالبہ ہی تو تھی۔ وہ بھائی جو اسلام کے کسی کام کے نہ تھے....
جب وہ MIT یونیورسٹی (امریکہ میں واقعہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک) میں طالبہ تھی تو اس نے مقامی جیلوں میں قید مسلمانوں تک قرآن کریم اور دیگر اسلامی مواد پہنچانے کا پروگرام مرتب کیا۔ وہ یہ مواد ایک مقامی مسجد تک پہنچانے کا بندوبست کرتی اور پھر خود ہی مسجد جا کر وہ بھاری بکسے تنہا اٹھا کر سیڑھیوں سے تین منزلیں نیچے رکھ کر آتی۔ سبحان اللہ ! دیکھئے اللہ نے اس کا کیا مقدر لکھا تھا : یہی عورت جو اتنا وقت اور توانائی مسلمان قیدیوں کے لئے صرف کرتی تھی آج وہ خود قید ہے! (یا اللہ اس کو رہائی دے دیں! )
یونیورسٹی کے اندر بھی اسکی اسلام سے لگن نمایاں تھی۔ 2004 ءمیں Boston Magazine (بوسٹن میگزین) میں شائع ہونے والا ایک مضمون کہتا ہے: ” جو ممبران دوسروں کو اسلامی تعلیم دینا چاہتے تھے، ان کے لئے عافیہ نے تین گائیڈ (معلوماتی کتابیں) لکھے۔ گروپ کی ویب سایٹ پر اس نے (اسلامی) دعوت ٹیبل چلانے کا طریقہ بیان کیا۔ یہ ٹیبل دراصل ایک معلوماتی اور استقبالیہ میز تھی جو کہ اسکولوں میں لگائی جاتی۔ اس میز پر موجود مسلمان غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں بتاتے اور انھیں مسلمان ہونے پر آمادہ کرتے“۔ مضمون نگار مزید لکھتا ہے کہ وہ گائیڈ جو عافیہ نے لکھے کیے تھے، ان میں سے ایک میں لکھا تھا:” ذرا سوچیں! ہمارا یہ حقیر مگر پر خلوص دعوتی کام اگر کل کو اس ملک کی ایک بڑی دعوتی تحریک بن جائے! بس ذرا سا تخیل کریں! اور ہم کتنا ثواب کما لیں گے ان تمام لوگوں کا جو ہماری اس تحریک کے ذریعے آنے والے سالوں میں مسلمان ہوں گے۔ بڑی سوچ رکھیں اور بڑے منصوبے بنائیں۔ اللہ ہمیں یہ قوت اور اخلاص عطا فرمائے کہ ہم اپنے مخلصانہ اور خاکسار کام کو جاری رکھیں اور اسے پھیلائیں یہاں تک کہ امریکہ ایک مسلمان ملک بن جائے“ !
اللہ اکبر.... دیکھئے اس ہمت اور عزم کو.... دیکھئے ان اونچے ارادوں اور مقاصد کو! بحیثیت ایک مرد کے ہمیں شرم آنی چاہیے کہ یہ سبق ہمیں ایک بہن سے سیکھنا پڑ رہا ہے۔
ہفتے میں ایک مرتبہ اتوار کے روز وہ اپنے راستے سے قدرے ہٹ کے مقامی مسلمان بچوں کو پڑھانے گاڑی چلا کے جاتی تھی۔ مجھے ایک مسلمان بہن نے بتایا جو کہ عافیہ کے حلقوں میں حاضر ہوا کرتی تھی کہ: ” عافیہ اپنے راستے سے دور اس لئے نہیں جایا کرتی تھیں کہ لوگ انھیں دیکھیں یا وہ کسی کی دوست بن جائیں بلکہ وہ محض اس لئے یہاں آتیں تھی کہ لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیں، حالانکہ انگریزی انکی مادری زبان بھی نہ تھی“۔
ایک اور بہن جو عافیہ کے حلقے اٹینڈ کرتی تھی، کہتی ہے : وہ ہمیں کہا کرتی تھیں کہ کبھی اس بات پر ( پشیمان ہو کر) بہانے نہ بنانا کہ تم کون ہو( یعنی مسلمان ہونے پر) ۔ امریکی کمزور لوگوں کی کوئی عزت نہیں کرتے۔ امریکی صرف تب ہماری عزت کریں گے جب ہم کھڑے ہوں اور مضبوط ہوں۔
اللہ اکبر.. .یا اللہ اس عورت کو رہائی دے دیں!
مگر عافیہ کی سب سے بڑی لگن دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا تھی۔ بوسنیا میں جنگ کا آغاز ہوا تو وہ چین سے بیٹھی نہ رہ پائی بلکہ جو کچھ بھی اس سے بن پڑا فورا ً بروئے کار لے آئی۔ اپنے آپ کو خیالی دنیا میں بند کر کے اس نے اپنے آپ کو بوسنیا جا کر امدادی کارروایوں میں بذات خود حصہ لینے کے خوابوں سے بہلانے کے بجائے، اس سے جو کچھ ہو سکا اس نے کر ڈالا۔ وہ لوگوں کو بوسنیا کے حالات سے آگاہ کرنے کے لئے بات کرتی اور ان سے چندے کی اپیل کرتی۔ اس سلسلے میں وہ لوگوں کو ای میل بھی کرتی اور بات موثر طریقے سے پہنچنے کے لئے سلائڈ شو بھی استعمال کرتی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عافیہ نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔ کم از کم ہم لوگوں کو ان کے حالات ہی کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ بس پیچھے بیٹھ کر کچھ نہ کرنا ناقابل قبول ہے۔ ایک مرتبہ اس نے ایک مقامی مسجد میںبوسنیا کے یتیموں کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کے لئے تقریر کی۔ لوگ خاموش تماشائی بن کر اسے دیکھ رہے تھے، کہ اتنے میں اس نے کہا : ” اس کمرے میں موجود کتنے لوگوں کے پاس جوتوں کے ایک سے زائد جوڑے ہیں؟ آدھے لوگوں نے ہاتھ اٹھا لیا۔ اس پر عافیہ نے کہا :” تو پھر انھیں بوسنیا کے ان یتیم بچوں کو دے دیجئے جنھیں جلد ہی شدید سردی کا مقابلہ کرنا ہے“! اس کی یہ اپیل اتنی موثر تھی کہ امام مسجد تک نے اپنے جوتے اتار کر بوسنیا کے مسلمانوں کو دے دیے!
اس بہن کے اسلام کے لئے جذبے کے بارے میں اور بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ جو کچھ ابھی تک قلم بند کیا وہ اس دختر اسلام کی تصویر کشی تو ضرور کرتا ہے اور شاید کہ یہ مسلمان بھائیوں کو بہنوں سے پہلے اس بات پر ابھارے کہ جو کچھ ان کے بس میں ہو وہ اس سے اسلام کی بھرپور خدمت سر انجام دیں۔ یاد رہے کہ جب وہ یہ سب کچھ کر رہی تھیں تو ایک ماں ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹریٹ (Ph.D)کی طالبہ بھی تھیں، جب کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس سے کہیں زیادہ فضول وقت ہونے کے باوجود اس سے بہت کم کرتے ہیں۔
پس عافیہ کے اس تصور کو لئے جب میں کورٹ اس کی ضمانت پہ رہائی کی سماعت کے دن پہنچا، تو مجھے شدید دھچکہ لگا کچہری کے کمرے میں سامنے بائیں طرف کا دروازہ آہستہ سے کھلا تو ایک انتہائی ناتواں، نڈھال اور بری طرح تھکی ہوئی عورت کو اندر لایا گیا، جو ہلکے نیلے رنگ کی ویل چیئر میں بمشکل اپنا سر اونچا رکھ پا رہی تھی۔ وہ نارنگی رنگ کے جیل کے لباس میں ملبوس تھی، جیسا کہ گوانتانامو بے میں قیدیوں کو پہنایا جاتا ہے۔ مگر اس نے سر پر سفید رنگ کا حجاب پہن رکھا تھا، جس کو کسی قدر سلیقے سے اس طرح اوڑھ رکھا تھا کہ اس کے انتہائی باریک ہاتھ بھی اسی سے ڈھک گئے تھے ( جیل کے یونیفارم کی آستینیں چھوٹی ہوتی ہیں) اس کے وکیل جلد ہی اس کے پاس آ بیٹھے اور سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
استغاثہ کا بڑا وکیل کرسٹوفرلاوین، جو کہ امریکی وزارت عدل میں اسسٹنٹ اٹارنی کا عہدہ رکھتا ہے، بھی تین چار ایف-بی-آئی ۔(FBI)کے ایجنٹوں کے ساتھ داخل ہوا، جن میں سے ایک عورت پاکستانی نژاد لگتی تھی (اللہ کی لعنت ہو ان پر) دفاع کے وکلا نے اعلان کیا کہ ضمانت پہ رہائی کی سماعت عافیہ کی صحت کی وجہ سے ملتوی کی جائے گی۔ بنیادی طور پہ انکا استدلال یہ تھا کہ ضمانت پہ رہا ہو کے وہ کیا کرے گی جب کہ وہ مرنے کے قریب ہے۔ چنانچہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کسی مزید کارروائی سے پہلے اسے ڈاکٹر فراہم کیا جائے۔
کرسٹوفرلاوین کھڑا ہو گیا اور اعتراض کیا کہ عافیہ امریکہ کے امن و امان کے لئے خطرہ ہے۔ جج اس بات سے متاثر نہ ہوا تو استغاثہ کے وکیل نے مزید کہا کہ یہ وہ عورت ہے جس نے گولیاں مار کر قید سے بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ جیسے ہی اس نے یہ الفاظ کہے میں نے عافیہ کی طرف دیکھا جو غم اور لاچاری میں سر نفی میں ہلا رہی تھی، جیسے وہ یہ سمجھ رہی ہو کہ پوری دنیا اس کے خلاف ہے۔ کم قد کاٹھ کے علاوہ وہ اتنی لاغر تھی کہ ویل چیئر کے پیچھے سے میں بمشکل اسے دیکھ پا رہا تھا۔ میں صرف اس کا بائیں طرف ڈھلکا ہوا باحجاب سراور ویل چیئر سے ابھرا ہوا سیدھا بازو دیکھ سکتا تھا۔
جب عافیہ کے وکلا نے اس کی حالت بیان کرنا شروع کی تو میری سمجھ میں آیا کہ وہ اس قدر غمگین اور نا امید کیوں لگ رہی تھی:
امریکی قید میں اتنا عرصہ رہنے کی وجہ سے اس کے دماغ کو نقصان پہنچا ہے۔
امریکی قید کے دوران اس کا ایک گردہ نکال دیا گیا۔
وہ کھانا ہضم نہیں کر سکتی کیوں کہ امریکی قید میں آپریشن کے دوران اسکی آنتوں کا ایک حصہ بھی نکال دیا گیا۔
امریکی گولیاں لگنے کی وجہ سے جو آپریشن ہوا اس میں کھال کی کئی تہیں ایک دوسرے کے اوپر سلی ہوئی ہیں۔
سامنے کے پورے جسم پر آپریشن کا نشان ابھی تک موجود ہے ( آپریشن انتہائی غیر ذمہ داری اور کمال اناڑی پن سے کیا گیا تھا)
اس تمام تکلیف کے باوجود امریکہ میں قید کے سارے عرصے میں اسے ایک بھی ڈاکٹر نے چیک نہیں کیا تھا، حالانکہ افغانستان میں کیے جانے والے آپریشن سے وہ دائمی تکلیف سے دوچار تھی اور اس درد کے لئے اسے صرف بروفین دی جا رہی تھی جو کہ عام طور پر سر درد کے لئے لوگ خود ہی دوکان سے خرید کر کھا لیتے ہیں!
اس سب کے باوجود استغاثے کا وکیل ڈھٹائی اور بے شرمی سے ڈاکٹر سے ملنے سے روکنے کے لئے اسے امن و امان کے لئے خطرہ باور کرا رہا تھا۔ جج نے پوچھا کہ اتنا عرصہ نیویارک کی جیل میں اسے طبی امدداد کیوں فراہم نہیں کی گئی ؟ اس سوال سے وکیل استغاثہ بوکھلا گیا اور کہا یہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ مگر پھر اس نے وہی چھچھوری دلیل دی جس کی اس سے امید کی جاسکتی تھی۔ کہنے لگا: ” جناب! یہ تو خود ہی کسی مرد ڈاکٹر سے ملنا نہیں چاہتی تھی“۔ جیسے ہی وکیل نے یہ کہا، عافیہ نے ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور ہلانا شروع کر دیا جیسے کہنا چاہتی ہو نہیں، یہ جھوٹ بول رہا ہے! مجھے اس پر رحم آ رہا تھا کیوں کہ ظاہر ہے وہ اپنے سامنے اتنے جھوٹ سن کر کافی دلبرداشتہ ہو رہی تھی۔ اس کی وکیل نے اپنا ہاتھ اسکے گرد ڈالا اور اسکا ہاتھ سہلا کر اسے تسلی دی۔
جب عدالت برخاست ہوئی تو مجھے ایک عالم کی بات یاد آئی ۔ امام ابن قیم نے لکھا تھا کہ بندہ اللہ سے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ: ...” دشمن کے پاس بس ایک ہی رکاوٹ رہ جاتی ہے جس سے وہ اس بندے کو پکارتا ہے، اور یہ وہ رکاوٹ ہے جسکا مقابلہ اسے بہرحال کرنا ہے.... رکاوٹ دراصل یہ ہے کہ شیطان اپنے لشکر اس مومن بندے پر چھوڑ دیتا ہے، جو اسے ہر طرح کا جسمانی و قلبی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب بندے کے اندر خیر کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔ جتنی بندے میں خیر ہوتی ہے اور جتنا اس کا درجہ بلند ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ دشمن اپنے لشکر اسکے خلاف استعمال کرتا ہے اور انکی اس کے خلاف مدد کرتا ہے، اور مختلف طریقوں سے اپنے دوستوں اور اولیا ءسے اس پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس رکاوٹ کو عبور کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، کیونکہ بندہ جتنا زیادہ اللہ کی طرف دعوت دینے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری پر ثابت قدم ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ دشمن نادان لوگوں کے ذریعے اسے بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ اب یہ بندہ زرہ بند ہو کر اس رکاوٹ کا مقابلہ کرتا ہے اور اللہ کی رضا اور نام کی خاطر دشمن کا سامنا کرتا ہے۔ اس حالت میں جو عبادت وہ کرتا ہے، وہ بہترین عبادت گزاروں کی عبادت ہوتی ہے“۔
عدالت کے اندر اس دن کے منظر سے یہ امر با لکل واضح تھا۔ عافیہ کی ظاہری جسمانی کمزوری اور نڈھالی کے باوجود، میں سارا وقت اس میں سے ایک مخصوص عزت اور قوت کو ابھرتے محسوس کر سکتا تھا۔ ہر چیز اس امر کی عکاسی کر رہی تھی: اسکا بھرپور انداز میں جج کی طرف ہاتھ ہلا کر وکیل کے جھوٹ کی نفی کرنا، اسکا انتہائی نا مساعد حالات میں جیل کے لباس کے اوپر حجاب پہننا کہ جن حالات میں اکثر لوگوں کے لئے حجاب کی فکر شاید آخری چیز ہو، امریکی FBI، پولیس، حکام اور رپورٹروں کی بھرمار جو اس چھوٹے سے کمرے میں صرف اس نحیف، لاغر، چھوٹے قد کی، خاموش امن و امان کے لئے خطرہ کو دیکھنے کے لئے آ دھمکے تھے...یہ سب اس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ سب لوگ اس بہن کی ایمانی قوت سے ہی خوفزدہ تھے!
یہ ہے حالت ہماری عزیز بہن کی، ایک مسلمان عورت جو قید و بند جھیل رہی ہے...
میں مزید کیا کہوں....؟
میں یہ مضمون آپ کو یہ بتا کر ختم نہیں کروں گا کہ مسلمان قیدیوں کی بازیابی فرض ہے۔ میں یہ بھی نہیں بتاؤں گا کہ کیسے خلیفہ المعتصم نے صرف ایک مسلمان عورت کو آزاد کرانے کے لئے ایک پورے شہر کو تاخت و تاراج کر ڈالا۔ میں صلاح الدین ایوبی یا عمر بن عبدلعزیز کے زمانے میں بھی نہیں لے جاؤں گا، جنہوں نے ہزاروں مسلمان قیدیوں کو چھڑایا۔ میں اس وقت یہ باتیں کرنا نامناسب سمجھتا ہوں، کیونکہ عافیہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ پانچ لاکھ کی مسلمان آبادی کے اس شہر میں سے کتنے تھوڑے مسلمانوں نے عدالت آنے کی زحمت گوارا کی (آس پاس کے علاقوں کو ملائیں تو آبادی اس سے بھی زیادہ ہے) اور یہ بھی کہ پورے امریکہ میں کوئی ایک بھی مسلمان جماعت یا جمعیت ایسی نہیں جس نے اس بہن کے دفاع میں ایک حرف بھی بولا ہو، چہ جائیکہ اس کے لئے کچھ کیا ہو۔ امام ابن قیمؒ نے بھی کیا خوب کہا تھا: ”جب غیرت دل سے نکلتی ہے، تو ایمان بھی اس کے پیچھے ہو لیتا ہے“۔
بدقسمتی سے، آج جب ہماری اکثریت بدوؤں کے دین پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہے، لگتا ہے کہ عافیہ صدیقی کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ ہمیں عافیہ صدیقی ہی سکھا سکتی ہے!
واللہ المستعان