عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, November 23,2024 | 1446, جُمادى الأولى 20
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
نوبل پرائز ، استعمار کی خدمت میں
:عنوان

:کیٹیگری
محمد زکریا خان :مصنف

Download in PDF Format

 
اندھا بانٹے ریوڑیاں.. !
 
نوبل پرائز
 
 
استعمار کی خدمت میں
 
احمد عمرہ
 
 
اردو استفادہ : محمدزکریا خان
   
 
نوبل پرائز نوازنے والی کمیٹی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ مختصر مدت کے اندر باراک اوباما امن کے نوبل پرائز کے لیے کس طرح اہل قرار پا گئے۔ شاید سویڈن کو اپنی پہلی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ نوبل پرائز سویڈن کے نامور سائنس دان الفریڈ نوبل(A.B.Nobel) سے منسوب ہے جن کے دم سے دنیا آج ’ڈائنا میٹ‘ ایسی نعمت سے حظ اٹھا رہی ہے! نوبل پرائز خواہ امن کے لیے ہو یا ادب کے لیے ’بارود‘ سے اس کا گہرا رشتہ ہے!

 
 
متعلقہ کمیٹی نے اس بار امن کا نوبل پرائز امریکہ کے نو منتخب صدر باراک اوباما کو دے کر تجزیہ کاروں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس انتخاب پر حقوق انسانی کی تنظیمیں اور عام تجزیہ کار اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ نوبل پرائز کے انتخاب کی متعلقہ کمیٹی کے معیار کی پڑتال کریں۔ اس معیار کا جائزہ لینے کے لیے اگلی سطور میں ہم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ نوبل پرائز کا ’اسلام فوبیا‘ سے کیا تعلق ہے اور مسلم ممالک میں سے اب تک جن شخصیات کو اس پرائز سے’سرفراز‘کیا گیا ہے ان میں مشترکہ خصوصیات کیا ہیں:
انور سادات:  1978ء کا نوبل پرائز مصر کے انور سادات اور اسرائیل کے وزیر اعظم مناہم بجن ((1992۔1913) Menachem Begin ) کو دیا گیا ۔ امن کا نوبل پرائز دونوں سربراہان کو مشترکہ طور پردیا گیا تھا ۔ مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ تھی۔ جنگ بندی کی اپیل یک طرفہ طور پر مصر کی طرف سے کی گئی تھی۔ اگر یہ واقعتا بین الاقوامی امن کے لیے ایک زبردست کاوش تھی تو اس کا اکیلا ’حق دار‘ انور سادات تھا!
’کیمپ ڈیوڈ‘ کے ذریعےدراصل جنگ بندی کے اس ’انقلابی‘ معاہدے سے اسلام دشمن عناصر کو پہلی مرتبہ اسلامی ملکوں میں سے ایک ملک حاصل ہو گیا تھا جس نے اسرائیل کو بہ طور ملک کے تسلیم کر لیا تھا۔ عالم اسلام میں مصر وہ پہلا ملک ہے جہاں جنگ بندی کے بعد اسرائیل کا سفارت خانہ قائم ہوا تھا۔
1967ءکی مصر اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے مقابلے میں مصر اکیلا نہیں تھا بلکہ شاید پہلی بار بیشتر عرب ریاستوں نے اسرائیل کے خلاف متحدہ محاذ بنایا تھا۔انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں تنہا فیصلے کیے تھے اور اس وقت سے لے کر اب تک مصر تنہا ہے اور مصر کی طاقت کو اکیلا کرنا اسرائیل اور امریکہ کا سب سے بڑا مقصد تھا جو کیمپ ڈیوڈمیں حاصل ہو گیا۔
 
نجیب محفوظ: 1987ءمیں ادب کا نوبل پرائز مصر کے ادیب نجیب محفوظ کو دیا گیا تھا۔
نجیب محفوظ اپنے استاد سلامہ موسی(1887۔1958) کے افکار سے حد درجہ متاثر رہا ہے۔ سلامہ موسی کی شہرت عربوں سے اور عروبیت (عربوں کی ٹھیٹ اسلامی ثقافت) سے نفرت کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ عربی میں اس کے لیے ’شعوبیہ‘ کی اصطلاح رائج ہے۔ سلامہ موسی مغرب سے نسبت جوڑنے میں اور مصر میں مغربی تہذیب کا بیج بونے میں سب سے نمایاں نام ہے جبکہ نجیب محفوظ اس سے ایک قدم آگے مصر کا رشتہ عربوں اور اسلام سے توڑتے ہوئے فرعونی تہذیب سے جوڑنے میں سب سے بڑا نام ہے۔ جس وقت نجیب محفوظ کو ادب کے نوبل پرائز کے لیے منتخب کیا گیا تھا اس وقت فرعونی تہذیب کے احیاءمیں سب سے اونچی آواز نجیب محفوظ کی ہوا کرتی تھی۔
نوبل پرائزکے انتخاب تک نجیب محفوظ کا تخلیقی کام مصر اور عربی اخلاقیات کی قدروقیمت گھٹانے تک محدود تھا۔ نجیب محفوظ اس بات کا داعی تھا کہ انسان پر ’اخلاقیات‘ کی پابندیاں نہیں ہونا چاہیں۔ نجیب محفوظ کے الفاظ میں:
”اِنّہ لیس مِن مصلحۃ الانسان اَن یعیش فی قفص مِن الواجبات الاخلاقیۃ“ یہ بات انسان کی بھلائی میں نہیں ہے کہ وہ اخلاقی اقدار کی بہت سی پابندیوں کے قید خانہ میں دب کر جیون گزارے۔
جیسا کہ پچھلی سطور میں گزرا ہے۔ مصر اور اسرائیل کی باضابطہ جنگ رہی ہے۔ عالم اسلام کا عموماً اور اہل اسلام کا خصوصاً اسرائیل سے جو تنازع ہے اس سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ نجیب محفوظ کی ادبی خدمات میں مسئلہ فلسطین کے لیے کوئی خاطر خواہ کام دیکھنے کو نہیں ملتا بلکہ نجیب محفوظ کی آرا سے مسئلہ فلسطین کو نقصان ضرور ہوا ہے۔ نجیب محفوظ نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل سے معاہدہ کرنے کا انور سادات سے پہلے مؤید رہا ہے۔ انور سادات سے پہلے جمال عبد الناصر نے جنگ بندی سے پہلے اپنے بیان میں کہا تھا کہ’ مصر طویل جنگ کے لیے تیار ہے‘۔ صحافتی اصطلاح میں اس کے لیے ’حرب الاستنراف‘(War Of Attrition) کی اصطلاح مستعمل ہے۔ نجیب محفوظ جمال عبد الناصر کے اس قسم کے بیانات کا مذاق اڑایا کرتا تھا ۔ نجیب محفوظ کے بقول اسرائیل کے ساتھ مصر کی طویل جنگ سے ملک کا ہی نقصان ہونا ہے۔ ترقی کا عمل رک جائے گا اور مصر تہذیب و تمدن اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت پیچھے رہ جائے گا ۔ جنگ کرکے ہم نے دیکھ لیا، امن معاہدہ کو آزمانے میں کوئی مضائقہ نہیں اور کیا بعید کہ یہودی ہمارے ساتھ ’صالح‘ پڑوسی کی طرح رہیں!
مصر اسرائیل معاہدہ طے پانے میں نجیب محفوظ کے بیانات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ نجیب محفوظ اور اس کے ہم خیال طبقے نے اپنے بیانات سے امت پر سارے دروازے بند کرکے صرف ایک راستہ کھلا رکھا تھا اور وہ تھا مصر اسرائیل امن معاہدہ اور وہ بھی اسرائیل کی شروط پر!
ادب کے نوبل پرائز کے لیے نجیب محفوظ کی دوسری تخلیقات کے علاوہ ناول ’اولاد حارتنا‘ (ہمارے محلے کے بچے) کو بھی منتخب کیا گیا تھا۔ اس ناول میں انبیاءکرام کی جو کردار کشی کی گئی ہے اس نے نجیب محفوظ کی شخصیت پر بہت سارے سوالات چھوڑے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر ناول میں ایک کردار ’جبالوی‘ کا ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ ’جبالوی‘ کا اشتقاق جَبَل بمعنی خَلَقَ سے کیا گیا ہے۔ یہ کردار ایک رمزیہ کردار ہے جس کی شخصیت میں خالقیت پائی جاتی ہے۔ نقاد کے نزدیکیہ رمز دراصل ادیب کی اپنی شخصیت کی ہے۔
انبیاءکرام کی کردار کشی اور صاحب تحریر میں’ خالقیت‘کا وصف ہونے کی وجہ سے تادم تحریر یہ ناول بیروت میں تو فروخت ہوتا ہے لیکن مصر میں اس کی اشاعت اور خرید و فروخت ممنوع ہے۔
نجیب محفوظ کے سارے کام میں یہودیوں پر کوئی تنقید نہیں ملتی ہے ۔ جہاں تک یہودیوں کی تعریف کا تعلق ہے تو وہ واضح طور پر ’خان خلیلی‘ ’زقاق المدق‘ اور ’الحب تحت المطر‘ جیسے ناولوں میں موجود ہے۔
 
یاسر عرفات: 1994ءمیں امن کا نوبل پرائز یاسر عرفات، اسرائیل کے وزیر اعظم اسحاق رابین اور اسرائیل ہی کے اس وقت کے وزیر خارجہ شمعون پیریز میں تقسیم کیا گیا تھا ۔
اس نامزدگی کی بنیادی وجہ اوسلو پیکٹ تھا۔ اوسلو پیکٹ جسے عام فلسطینی شہری ’فلسطین کی فروخت‘ کی اصطلاح سے جانتے ہیں، اس معاہدے میں یاسر عرفات نے اسرائیل کو ایک مکمل خود مختار ریاست کے تسلیم کر لیا جبکہ اسرائیل نے یاسر عرفات کی PLO کو فلسطین کی قیادت کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اس معاہدے میں نہ صرف PLO کے سیاسی حقوق مذکور نہیں ہیں بلکہ مستقبل میں فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بنیاد بنا کر اپنے مطالبات منوانے کاراستہ بند کرکے اسے دو طرفہ مذاکرات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اوسلو پیکٹ کے بعد فلسطین کا مسئلہ بین الاقوامی نہیں دو طرفہ ہو گیا ہے۔
 
ڈاکٹر احمد زویل: علم کیمیا کے ماہر ڈاکٹر احمد زویل کا تعلق بھی مصر سے ہے۔ فیمٹو کیمسٹری میں وقت کے نہایت مختصر دورانیہ میں کیمیائی عمل کی پڑتال میں کامیابی پر 1999ءمیں نوبل پرائز حاصل کیا۔
ڈاکٹر احمد زویل مصر کے پیدائشی ضرور ہیں لیکن وہ حقیقی معنی میں امریکہ کی شہریت رکھتے ہیں اور دوسرا اس تحقیق کا فائدہ صرف ترقی یافتہ ممالک ہی اٹھا سکتے ہیں کیونکہ عرب ممالک یا اسلامی ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں ۔ اپنے ملک کے لیے یا کسی بھی دوسرے اسلامی ملک کے لیے زویل کی کوئی خدمات نہیں ہیں ۔ مصر یا دوسرے اسلامی ممالک میں علاج معالجہ کی سہولتیں یا کیمیائی عمل کی پڑتال کرنے والے آلات اس قدر تیز رفتار نہیں ہیں جتنا اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لیے رفتار ضروری ہے۔
زویل کم از کم دو مرتبہ اسرائیل یاترا کر چکے ہیں ۔ ایک مرتبہ نوبل پرائز کے تقریب میں مدعو ہونے کی وجہ سے اور دوسری مرتبہ ایک سائنسی سیمینار میں شمولیت کے لیے۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی میزائیل ٹیکنالوجی میں احمد زویل کی خدمات ہیں ۔ کیا ایسا ممکن تھا کہ احمد زویل__ جو یہ کہہ کر اپنا اسرائیل کا دورہ منسوخ نہیں کرتے تھے کہ علم(سائنس ) کا کوئی وطن نہیں ہوتا__ اگر اسرائیل میں انعام لینے سے انکار کر دیتے تو پھر بھی انہیں نوبل پرائز سے نوازا جاتا!
 
ڈاکٹر محمد البرادعی: مصر کے ڈاکٹر محمد البرادعی کو 2005ء کے امن کے نوبل پرائز کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ محمد البرادعی دو مرتبہ IAEA کے ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں ۔ امن کا نوبل پرائز ایٹمی اسلحے کی پابندیوں کو مؤثر کرنے پر دیا گیا تھا۔
محمد البرادعی نے اپنی ملازمت کے طویل دورانیے میں ایک مرتبہ بھی اسرائیل کے جوہری پروگرام پر تنقید نہیں کی ہے ۔
عراق پر اقتصادی پابندی لگانے میں اس ادارے کی ابتدائی رپورٹوں نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ عراق میں غیر قانونی اسلحہ کو بنیاد بنا کر پہلے اقتصادی پابندیاں لگائی گئی اور اس کے بعد باضابطہ حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔
اس کے بعد ہم یہودیوں میں سے جن شخصیات کو نوبل پرائز سے نوازا گیا ہے ان کا تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔ قارئین کرام آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل کا بالجبر قیام 1948ءمیں ہوا تھا۔ اسرائیل کے نوبل پرائز حاصل کرنے کی تعداد تمام عرب ممالک کے حاصل کردہ پرائز سے بھی زیادہ ہے۔ اسرائیل 2009ءتک نو نوبل پرائز حاصل کر چکا ہے۔
1966ءمیں اسرائیل کے ادیب شموئیل یوسف عفنون کو ادب کا نوبل پرائز ملا۔ عفنون کی کہانیوں میں یہودی طرز تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔ سویڈن کی کمیٹی پر ماہرین نے الزام لگایا تھا کہ عفنون کے انتخاب کے پیچھے سیاسی اغراض رہی ہیں ۔
1978ءمیں انور سادات کے ساتھ اسرائیل کے وزیر اعظم مناہم بجن کو امن کا نوبل پرائز دیا گیا جس کا تذکرہ پچھلی سطور میں گزر چکا ہے۔
1994ءمیں امن کا نوبل پرائز یاسر عرفات کے ساتھ اسرائیل کی دو شخصیات ؛وزیر اعظم اسحاق رابین اور وزیر خارجہ شمعون پیریز کو دیا گیاتھا۔
2002ءمیں اقتصادیات میں نوبل پرائز اسرائیل کے دانبیل کھانمان کو دیا گیا۔
2004ءکا کیمیاءکا نوبل پرائز اسرائیل کے دو سائنس دان اھارون اور ابرھام ہیرشکو کو امریکہ کے اروین روز Irwin A Roseکے ساتھ دیا گیا۔
مذکورہ بالا تجزیے میں ایک بات جو نمایاں ترین ہے وہ یہ ہے کہ نوبل پرائز کسی بھی ایسے شخص کو نہیں دیا گیا ہے جس کی اسرائیل یا یہودیوں پر تنقید ہو۔ اگر آپ جائزہ لیں تو نوبل پرائز حا صل کرنے والوں کی اسرائیل کے لیے کوئی نہ کوئی خدمات ضروررہی ہو گی۔
 
وی ایس نائپول: 2001ءکا ادب کا نوبل پرائز ٹرینیڈاڈ کے ادیب ودھیار نائپول کو دیا گیا۔
ایس-نائپول اسلام کو استعمار سے بھی بدتر کہتا ہے۔ اس کے نزدیک اسلام فرد کی شخصیت کو تباہ کرتا ہے۔
گیارہ ستمبر 2001ء میں ایک طرف عالم اسلام پر امریکہ کی یلغار تھی تو دوسری طرف اسی سال ادب کا نوبل پرائز ایسی شخصیت کو دیا جاتا ہے جو کھلے لفظوں میں اسلام کو برا بھلا کہتا ہے۔ نائپول کے ناولوں کا مستقل موضوع اسلام اور مسلم شخصیت پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ بابری مسجد کے سانحے کو درست کہتا ہے اور نہایت بد کردار آدمی ہے۔ سلمان رشدی کی طرح نائپول کو بھی برطانیہ نے ’سر‘ کا خطاب دیا ہے۔ رشدی کی طرح یہ ملعون بھی برطانیہ میں رہائش پزیر ہے۔
 
اورھان باموک: 2006ءکا ادب کا نوبل پرائز ترکی کے افسانہ نگار اورھان باموک کو دیا گیا۔ عالم اسلام میں باموک وہ پہلا شخص ہے جس نے سلمان رشدی کے متعلق مسلمانوں کے اہل علم کے متفقہ فتوی کو قابل مذمت ٹھہرایا ہے۔
باموک نے ترکی کی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا ہوا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں دس لاکھ ارمنی ترکی کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور اسّی کی دہائی میں ترکی حکومت نے تیس ہزار کرد قتل کیےتھے۔
اس جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں میں سے نوبل پرائز ایسی شخصیات کو دیا جاتا ہے جو یا تو اسلامی تعلیمات کے کھلم کھلا مخالف رہے ہوں یا جنہوں نے معاشرتی اخلاقی قدروں کا مذاق اڑایا ہو یا پھر جو اپنے ہی وطن کو مجرم قرار دیتے رہے ہوں۔
امریکی صدرباراک اوباما کے لیے امن کا نوبل پرائز تجزیہ کاروں کے لیے حیرت انگیز رہا ہے۔
اخبار ٹائمز لکھتاہے کہ اوباما کو ابھی وائٹ ہاؤس کے آفس میں صرف نو ماہ ہوئے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اوباما کے انتخاب سے دراصل جو پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جارج بش کے طویل اقتدار میں امریکہ نے بہت سارے اقدامات عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے انفرادی تصرفات سے کیے ہیں۔
اخبار فائنانشل ٹائم میں کالم نگار راکمان نے لکھا ہے کہ بہت مختصر مدت میں ہی یہ انتخاب اطمینان بخش نہیں ہے۔ اوباما کو اپنے عسکری معاونین کی رائے ماننا پڑتی ہے۔ چند ہی دنوں میں ہزاروں امریکی فوجی افغانستان بھیجے جانے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اوباما بھی جنگ پسند صدر ہیں جیسے اس سے پہلے جارج بش کی صدارت تھی یا لینڈن جونسن (1913- 1908) Lyndon B Johnson کا زمانہ صدارت۔
مصر کے سیاسی تحقیقی ادارے ’مرکز الاھرام‘ کے مدیر ڈاکٹر حسن ابوطالب نے کہا ہے کہ اوباما کا انتخاب جلد بازی کامظہر ہے۔ امن قائم کرنے میں اوباماکے اقدامات ابھی روبہ عمل ہی نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی کوئی عملی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ شاید نوبل پرائز سے انہیں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ آپ کی پالیسی قابل قدر ہے یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نوبل پرائز حقائق پسندی سے کم اور سیاسی اغراض کی وجہ سے زیادہ دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حسن مزید لکھتے ہیں کہ بل کلنٹن کے اقدامات امن قائم کرنے میں اوباما سے کہیں زیادہ بھی تھے اور عملی بھی۔ اگر اوباما کی ستائش ہی کرنا مقصود تھا تو اس کے لیے نوبل پرائز سے کم درجے کا انعام بھی دیا جاسکتاتھا۔ ہمارا خیال ہے کہ نوبل پرائز اسے دیا جاتاہے جس کے عمل کے نتیجے میں عملی تبدیلی واقع ہوئی ہو۔
اس مرکز کے ایک اور ماہر عمروھاشم ربیع کہتے ہیں کہ نوبل پرائز سے اوباما کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا اس کی یہ صورت بہتر نہ تھی کہ اوباما کو ادب کا نوبل پرائز دیا جاتا۔ آخر انہوں نے ادبی کتابیں بھی تو لکھی ہیں۔
اس کے بعد مصنف لکھتے ہیں کہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان ہتھکنڈوں سے کس طرح پوری دنیا کو عموماً اور عرب اور اسلامی ممالک کو خصوصاً فریب میں ڈالا جاتا ہے۔ اب ہمارے اچھے خاصے دانش ور یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں بلکہ کئی اسلام پسند بھی کہ اوباما پورے خلوص سے اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آخر ان پر اعتبار نہ کرنے کی کیا وجہ ہے!
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز