پنبہ کجا کجا نہم
زنجبارایک اور مظلوم مُسلم خطّہ
تالیف: ڈاکٹر اکرم مشھدانی
اردو استفادہ: محمد زکریا خان
فرنگی استعمار سے پہلے مشرقی افریقہ کے پر فضا جزیروں پر مشتمل ’زنجبار‘ کی پہچان اسلام ہوا کرتی تھی۔ انگریز نے لڑاؤ اور سیاست چلاؤ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے افریقی نژاداور عرب نژاد نسلی تعصب کی ایسی آگ لگائی کہ اس کے نتیجے میں اب تک بیس ہزار عرب نژاد مسلمان مارے جاچکے ہیں۔
زنجبارzanzibarمشرقی افریقہ کے چند خوبصورت اور پر فضاجزیروں پر مشتمل ایک ملک کا نام ہے جو تنزانیہ کے قریب بحر ہند کی ایک اہم بندرگاہ میں شمار ہوتا ہے۔ جزیرہ ’زنجبار‘اور جزیرہ ’بیمبا‘ملک کے اہم تجارتی مراکز اور بڑی آبادی والی شہر ہیں۔ زنجبار کے دوسرے جزائر رقبے میں چھوٹے ہیں اور ’بیمبا‘ کے گرد سمندر میں واقع ہیں۔
زنجبار میں عرب نژاد مسلمانوں پر پچھلے کئی عشروں سے جو مصیبت آئی ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ مسلم ممالک کا میڈیا تو ویسے ہی اسی چیز کو فوکس کرتا ہے جو مغرب اور اس کے حلیف ممالک چاہتے ہیں تعجب ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری اسلامی تنظیمیں NGOsبھی زنجبار کی ابتر حالت سے مکمل غافل ہیں۔
مرکز خلافت سے دور ہونے کے باوجود زنجبار میں پہلی صدی ہجری میں ہی اسلام داخل ہو گیا تھا۔ عُمان کے عرب مسلمان سب سے پہلے ان جزائر میں آکر آباد ہوئے اور جلد ہی عربوں کے دین اور اخلاق سے متاثر ہو کر زنجبار کے جزائر کا نظم و نسق عمانی عربوں نے سنبھال لیا۔ زنجبار کی مقامی آبادی عربوں کی سیاست گری سے اور انصاف پسندی سے اس قدر متاثر تھی کہ ایک ہزار سال تک زنجبار کی خلافت عمانی عرب کرتے رہے۔ استعماری ممالک کی سازشوں سے سنہ1964ءمیں زنجبار کا الحاق افریقی ملک تنجا نیقا سے کر دیا گیا جس کا بعد میں نام تنزانیہ پڑ گیا۔ اس الحاق کے ساتھ ہی عربوں کے خلاف نفرت کا آغاز ہو گیا۔
زنجبار پر عمان کے عربوں کا اثر و نفوذ اسلام سے پہلے بھی تھا۔ زنجبار کے سردار عمان کی حکومت کی مرضی سے نامزد ہوتے تھے۔ زنجبار میں برطانیہ عمان کے سلطان سعید بن سلطان البوسعیدی کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے داخل ہوا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد برطانیہ نے زنجبار کو خود مختار کرتے ہوئے اپنے انتداب میں لے لیا۔
دوسرے استعماری ملکوں میں سیاست کرنے کا برطانیہ کو جو طویل تجربہ حاصل تھا اُس پر عمل کرتے ہوئے وہ خطے میں نسل پرستی کا بیج بونے میں کامیاب ہو گیا ۔ جب برطانیہ اپنے استعماری ممالک سے دست بردار ہونے پر مجبور ہو گیا تو ہر خطے میں اس طرح کی غیر منصفانہ تقسیم کر گیا کہ کوئی بھی ملک تب سے ا ب تک اندرونی مسا ئل سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔ زنجبار سے بیدخل ہوتے ہوئے برطانیہ وہاں دو نسلی سیاسی تنظیمیں تشکیل دے گیا تھا۔ ایک تنظیم عرب نژاد افریقیوں کی اور دوسری خالص افریقیوں کی ۔
1964ءمیں برطانوی حکومت کا خاتمہ ہو گیا لیکن برطانیہ کے رخصت ہونے کے کچھ عرصے بعد افریقی نسل پر مشتمل تنظیم نے تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے عربوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایااور یوں بیس ہزار کے قریب عرب مسلمان شہید کر دیے گئے۔
عرب مسلمانوں کے قتل عام کے بعد زنجبار میں ایک اور انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں ’عبید کرومی‘ کو اقتدار ملا۔ کرومی نے مغربی مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے زنجبار اور’ تنجانیقا‘ پر مشتمل نئے متحدہ ملک کی بنیاد رکھی اور اس کے ساتھ ہی مسلم علاقوں میں مشنری عیسائی انجمنوں کا کا م تیزی سے پھیل گیا۔ خطے میں اس سے پہلے عیسائی آبادی کا تناسب محض 3 فیصد تھا۔ کرومی کی حکومت میں بیشتر سرکاری کلیدی عہدے، تجارتی ادارے اور بڑے کاروبار عیسائیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ فیڈرل زنجبار اور تنجانیقا کا نام تنزانیا کہلایا اور متحدہ ملک کا دستور سیکولر۔ تنزانیا میں تعلیمی اور میڈیا کی منصوبہ بندی اس طرح کی گئی ہے کہ نوجوانوں کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے والی کھیپ اپنے ماضی سے مکمل طور پر نا آشنا رہے۔ نوجوانوں کو یہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے کہ افریقہ میں عربوں کا وجود ایک بیرونی اور غیر مقامی عنصر ہے۔ عربوں کی یہاں آمد کا مقصد افریقی نسل کی مقامی آبادی کا غلام بنا کر عالمی منڈیوں میں فروخت کرنا تھا۔ برطانیہ نے عمان کے سلطان’ سعید بن سلطان ‘ کو ایک معاہدے کے ذریعے سے مجبور کیا کہ وہ اس تجارت کو غیر قانونی قرار دے۔اس طرح مشرقی افریقہ کی مقامی آبادی پر برطانیہ کا یہ احسان ہے کہ اس نے انہیں غلامی کے طوق سے آزاد کرایا۔ انگریز اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وسطی مشرقی افریقہ میں اسلام کی دعوت کا سب سے بڑا مرکز زنجبار ہے ۔
مقامی افریقی آبادی میں علاوہ برطانوی سازش کے عمان کے برطانیہ کے ساتھ معاہدے کی وجہ بھی شدید نفرت کا باعث رہی ہے۔ ملک پر برطانوی استعمار کی ذمہ داری مقامی آبادی عرب حکمرانوں پر ڈالتی ہے کیونکہ انگریز عمان کے سلطان سے معاہدہ کرکے داخل ہوا تھا۔ 1890ءمیں زنجبار پر برطانیہ کا مکمل کنٹرول ہو گیا تھاجو ستر سال تک قائم رہا۔
1964ءسے لے کر اب تک ربع صدی ہو گئی ہے اوروہاں کی مسلم عرب آبادی افریقی نسل پرست تنظیموں ، مراعات یافتہ عیسائیوں اور تنجانیقا کی جانب دارانہ پالیسی کی وجہ سے ظلم و جبر کا شکار ہے۔ عربوں اور مقامی آبادی میں بہت گہرے اور قدیمی رشتے رہے ہیں لیکن عیسائیوں کو کلیدی عہدے ملنے کی وجہ سے اور زنجبار و تنجا نیقا کی فیڈریشن بن جانے کے سبب وہاں عرب آبادی کا قتل عام ہو رہا ہے۔ وہاں اس قدر اموات ہو چکی ہیں کہ مغربی میڈیا نے ضروری سمجھا ہے کہ اپنی تجارتی ساکھ قائم رکھنے کے لیے زنجبار میں برپا خون ریزی کی خبریں نشر کرے۔ ہمیں تعجب ہے کہ اب تک عربی ممالک کے نشریاتی ادارے (عمداً یا خود فراموشی کی وجہ سے) زنجبا رکی ہلاکتوں سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہیں ۔
2000ءمیں زنجبار میں غیر منصفانہ انتخابات ہوئے جس کے رد عمل میں عوام نے شدید احتجاج کیا۔ حکومت نے عوامی احتجاج کو قوت سے ختم کرنے کے لیے فوج اور پولیس کو کھلے اختیارات دیے۔ بہت سے علاقوں میں کرفیو لگایا گیاپولیس اور فوج نے مل کر علاوہ قتل و غارت کے عوام کی املاک کو بھی خوب لُوٹا۔ میڈیا خواہ غیروں کا ہو یا اپنا صرف ان واقعات کو فوکس کرتا ہے جن کا دکھایا جانا مغربی ممالک کے ایجنڈے کا حصہ ہو۔چیچنیا کی مقامی آبادی پر جو ظلم اور قتل عام ہو رہا ہے۔ فلسطین کی مسلم آبادی کا اسرائیل کے ہاتھوں قتل عام ہے یا زنجبار میں عربوں کو نشانہ بنایا جائے یا پولیس اور فوج عوام پر گولی چلا کر قتل عام کی مرتکب ہو، اس سب سے صرف نظر رکھنا شاید ہمارے میڈیا کی پالیسی کاحصہ ہے۔
غیر مسلم ممالک کی مداخلت سے جو ایک امید تھی کہ عرب یا مسلم ممالک ’زنجبار‘ کے کشیدہ حالات میں کوئی کردار ادا کریں گے اس سے مایوس ہو کر مقامی مسلمانوں نے خود سے اپنے اسلامی وجود کو مضبوط کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اسلامی تنظیموں کا انتخابات میں حصہ لینا مصالح مرسلہ میں آتا ہے یا نہیں سنہ 2005ءکے انتخابات میں اسلامی عنصر نے جانب داری کے باوجود 1995ءاور 2000ءکے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔
زنجبار کے معاشی اور معاشرتی ابتری پر تبصرہ کرتے ہوئے اسلامی سیاسی تنظیم ’الوعی الاسلامی‘کے جنرل سیکریٹری محمد سید علی جو کہ بلند مرتبہ عالم بھی ہیں نے کہا ہے کہ ملک کے بد تر حالات اس نہج پر ہیں کہ اس سے اسلام پسند عناصر اپنی شبانہ روز محنت کے ذریعے ایک بڑا مقام پیدا کر سکتے ہیں اور اس خلا کو پر کر سکتے ہیں جو نا اہل قیادت کی وجہ سے وہاں پیدا ہو گیا ہے۔
ایک اور مسلم سرکردہ شخصیت خمیس بن علی کہتے ہیں کہ ہماری غیر سیاسی انجمن ہر علاقے میں سرگرم عمل ہے۔ ہم اعانت جمع کرتے ہیں اور اسے تعلیم و تربیت اور صحت کے شعبوں میں خرچ کرتے ہیں۔ آپ ہمیں مساجد میں وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اور گلی محلوں میں ہمیں تعلیم دیتے ہوئے پائیں گے۔
بلاشبہ مقامی اسلامی بیداری کی وجہ سے مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین میں ’حجاب‘ کا رحجان بڑھ رہا ہے اور مقامی آبادی اس بات کو توجہ سے سن رہی ہے کہ سیکولر جمہوریت کی چکا چوند کے مقابلے میں اسلامی شریعت کو متبادل کے طور پر دیکھا جائے ۔ واعظین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تمام نسلیں اور قومیں صرف اسلام کے حقیقی تصور کو اپنا کر متحد ہو سکتی ہیں ۔
’زنجبار‘ میں اسلامی عمل کو بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے۔ ’زنجبار‘ میں حکومتوں کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے نہایت غربت ہے اور تعلیم و تربیت، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کے لیے مقامی آبادی سے قابل قدر اعانت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ دوسری طرف عیسائی مشنری ادارے مقامی اثر و نفوذکے علاوہ مغربی ممالک سے خطیر رقم لے کر مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرنے یا کم از کم سیکولر کرنے کا کام تندہی سے کر رہے ہیں ۔
زنجبار میں منحرف فرقے بھی سرگرم عمل ہیں ان میں اہم ترین ’اباضیہ‘ اور رافضہ ہیں ۔
ملکی سطح پر اسلامی تنظیموں کے درج ذیل مطالبات ہیں ۔
(الف) ملک کے اعلی ترین عہدے (صدارت اور وزارت عظمیٰ) مسلمانوں اور عیسائیوں میں برابر تقسیم ہوں ۔
(ب) وزارتوں کی تقسیم بھی مسلمانوں اور عیسائیوں میں مساوی ہو۔
(ج) اتوار کی بجائے جمعہ کو سرکاری تعطیل۔
(د) مسلمان علمائے کرام کے حقوق عیسائی علمائے دین کے برابر ہوں جس میں انہیں پارلیمنٹ میں جانے کا حق بھی حاصل ہو۔
(ھ) مسلم غیر سیاسی تنظیموں NGOsکے خلاف امتیازی سلوک نہ کیا جائے ۔
(و) مسلمان طلبہ علم کے لیے فزکس اور دوسرے سائنس کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اسی مالیت کی اسکا لر شپ کا اجراءہوجتنا عیسائی طلبہ علم کو دیا جاتا ہے۔
آخر میں مصنف کہتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے میڈیا کو زنجبار کے حالات کو نشر کرنا چاہیے۔ عیسائی مشنری اداروں کی تمام تر غیر مشکور مساعی کے باوجود وہاں کی مقامی آبادی اپنے آپ کو اسلام سے ہی وابستہ سمجھتی ہے۔ ’زنجبار‘ جو اپنے مصالحوں خاص کر ’لونگ‘ اور عطریات کی مہک کی وجہ سے پورے عربی خطے میں برسوں سے معروف ہے اب پھر سے اس بات پر آمادہ ہے کہ اس کا تعلق دیگر افریقی عربی ممالک سے از سر نو اور پہلے سے بڑھ کر مضبوط ہو۔
اسلامی ممالک کے میڈیا کو اپنے گھر کے مظالم نشر کرنے میں ہرگز پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہیے۔
٭٭٭٭٭