لبنان تا خلیج ِعدن ایرانی عزائم
جمع و ترتیب : محمد زکریا خان
یمن میں زیدی شیعہ کا وجود ایک تاریخی حقیقت ہے ۔یمن کے سربراہ ایک طویل عرصے تک ’امام‘ بھی کہلاتے رہے ہیں۔ لیکن یمن کی طویل تاریخ متشدد شیعہ اثنا عشریہ سے خالی رہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ چند ہی سالوں میں وہاں معتدل شیعہ تارک مذہب ہو کر اثنا عشریہ عقائد کے حامل ہو رہے ہیں؟ اس سارے قضیے میں ایران کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حوثیوں کے خلاف پہلی مرتبہ سعودی عرب نے علانیہ فضائی کارروائی کرکے سب کو حیران کر دیاہے!
یمن میں زیدی شیعہ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ شیعہ فرقوں میں سے انہیں معتدل شیعہ مذاہب میں شمار کیا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شیخین پر فضیلت اور امامت کے قائل ہیں اور امام کے لیے ہاشمی النسب کی بھی شرط لگاتے ہیں لیکن زیدی شیعہ کے نزدیک بھی اثنا عشریہ بدعات پر سمجھے جاتے ہیں۔ زیدی اور ا ثنا عشریہ کے بنیادی عقائد ہی مختلف ہیں۔
زیدی اثنا عشریہ شیعہ کے بنیادی عقیدہ ’التقیہ‘ کو بدعت کہتے ہیں۔اسی طرح اثنا عشریہ کے دوسرے منحرف عقائد ’الرجعہ‘ (1) اور ’البداءۃ‘ (2) پر بھی وہ یقین نہیں رکھتے ہیں اور نہ اُن کے اماموں کو امام تسلیم کرتے ہیں۔ دوسری طرف اثنا عشریہ زیدیوں کے امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ کی امامت کو نہیں مانتے ہیں۔
زیدی شیعہ میں ایک فرقہ ’جارودیہ‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو فسق پر سمجھنے کا عقیدہ رکھتا ہے۔ یمن کے پسماندہ علاقے ’صعدہ‘ میں جارودیہ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں؛اثنا عشریہ کے قریب یہی جارودیہ ہو رہے ہیں ۔
چند سال پہلے یمن میں زیدی شیعہ کے ایک بہت بڑے فقہی سیمینار میں اس فتوے کا اجراءکیا گیا کہ ’امام‘ کے لیے موجودہ زمانے میں ہاشمی النسب اور آل حسنؓ یا آل حسینؓ کی شرط واجب نہیں ہے۔ فتوے میں کہا گیا تھا کہ نسب کی شرط اس وقت اور حالات کے لحاظ سے تھی، اب حالات اسکاتقاضانہیں کرتے۔اس فتوے کی تائید زیدیوں کے بہت بڑے عالم اور مرجع علامہ مجدالدین نے بھی کی تھی۔ اس سیمینار میں علامہ بدرالدین حوثی جو جارودیہ فرقہ کے بہت بڑے عالم ہیں موجود تھے۔ بدرالدین حوثی نے اس فتوے پر شدید ردعمل کیا اور ناراض ہو کر ’صعدہ‘ چلے آئے اورانہوں نے ایک کتاب شائع کی جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ ’جارودیہ‘ کے عقائد اور اثنا عشریہ کے عقائد میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
زیدیوں کے شدید دباؤ پر حکومت نے بدرالدین حوثی کو ملک چھوڑنے کا کہا۔ بدرالدین حو ثی یمن سے نقل مکانی کرکے ایران میں چلے گئے۔ ایران میں ان کا قیام کئی سالوں پر محیط تھا۔
بدرالدین کی ملک بدری کے باوجود جارودیہ میں تبدیلی مذہب کا رجحان برابر جاری رہا۔ صعدہ میں بدرالدین حوثی کا بیٹا حسین حوثی مختلف تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں میں اپنے والد کا جانشین ثابت ہوا۔ حسین حوثی 1993ءاور 1997ءمیں پارلیمنٹ کے منبر بھی رہے۔
بدرالدین نے 1986ءمیں ’اتحاد شباب‘ کے نام سے عقائد کی تعلیم کی ایک انجمن بھی بنائی تھی ۔ اس انجمن نے بعد میں اپنا نام بھی تبدیل کر لیا اور کام بھی۔ نئی تنظیم ’حزب الحق‘ کے نام سے ایک سیاسی فرنٹ کے طور پر سامنے آئی۔ اس کے روحانی پیشوا بدرالدین اور عملی رہنما حسین حوثی تھے۔ کچھ عرصے کے بعد حسین حوثی حزب الحق سے علیحدہ ہو گئے اور ایک نئی جماعت کے نام سے علمی، ثقافتی اور فکری کام کا آغاز کیا جس نے جلد ہی سلفی مذہب کی بڑھتی ہوئی قوت کے خلاف مزاحمت کی شکل اختیار کر لی۔ یمن میں سلفی مذہب سے تعلق رکھنے والے ’التجمع الیمنی للاصلاح‘ کے نام سے کام کرتے ہیں۔ زیدی اور جارودیہ التجمع کی بڑھتی تعداد سے سخت خائف تھے۔ حکومت اور حسین حوثی کی جماعت نے التجمع کے خلاف اتحاد بنا کر کام کیا لیکن جلد ہی حسین حوثی حکومت سے اختلافات کی بنیاد پر الگ ہو گئے۔ حسین حوثی حکومت سے علیحدگی کے بعد اس کی شدید مخالفت میں کام کرتے رہے اور اپنی جماعت میں حوثیوں کے سینکڑوں نوجوانوں کو شامل کر لیا۔
سنہ 2002ءمیں زیدی علماءکے شدید اصرار پر حکومت نے حسین حوثی کے والد بدرالدین کے خلاف مقدمات ختم کرکے انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ زیدی علماءاس بات سے غافل تھے کہ بدرالدین مکمل طور پر ایران نواز ہو چکے ہیں ۔
سنہ 2004ءمیں حسین حوثی نے عراق پر امریکی قبضے کے خلاف اور یمنی حکومت کا امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کے خلاف یمن کے دارالحکومت صنعاءمیں تاریخ ساز مظاہرہ کیا جس سے حکومت گھبرا گئی اور حکومت نے مظاہرین کے خلاف قوت سے کام لیا۔ حکومت اور حسین حوثی میں شدید اختلافات بہت پہلے سے چلے آرہے تھے۔ حکومت نے الزام لگایا کہ حسین حوثی ’امام مہدی‘ ہونے کا دعوے دار ہے۔ 30 ہزار فوج، جنگی جہاز اور ٹینکوں کے ذریعے حکومت نے حوثیوں کے علاقے ’صعدہ‘ پر حملہ کیا جس میں حسین حوثی قتل ہوئے۔ حوثیوں کے فرنٹ کی قیادت بدرالدین نے سنبھال لی جو تادم تحریر انہیں کے پاس ہے۔
2004ءسے اب تک حکومت اور حوثیوں کے درمیان جنگی حالت ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ حوثی صعدہ، مأرب اور حکومتی عملداری کے شہر ’الجوف‘ تک اپنے قبضے میں لے کر پورے یمن پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ یمن کی آرمی اب تک اس فوجی آپریشن میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے یا نہیں ہونا چاہتی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جارودیہ فرقہ میں تبدیلی عقائد میں تیزی اور مختصر عرصے میں ان میں مسلح گروہ کس طرح نمو دار ہو گئے۔ جہاں تک تبدیلی عقائد کا تعلق ہے تو عام طور پر اس میں بہت آہستہ آہستہ تبدیلی آیا کرتی ہے ۔
حوثیوں میں تبدیلی مذہب ’ولایۃ الفقیہ‘ کی تلبیس کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ’ولایۃ الفقیہ‘ کی اصطلاح ایرانی انقلاب کے بانی خمینی نے متعارف کرائی ہے۔ شیعہ مذہب کیونکہ اہل بیت کی تقدیس پر ایمان رکھتا ہے اس لیے شیعہ عوام میں اہل بیت کی آل کے علاوہ کسی کے لیے ’امامت‘ تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ خمینی نے غیر اہل بیت کو شیعہ مذہب میں ’مرجعیت‘ تک رسائی دلانے کے لیے ’ولایۃ الفقیہ‘ کی اصطلاح متعارف کرائی اور اسی منصب کو استعمال کرتے ہوئے بدرالدین حوثی نے یمن کے عوام حوثیوں میں تبدیلی مذہب میں بہتری لائی !
جہاں تک مسلح حوثیوں کی منظم تنظیموں کاسامنے آنا ہے تو اس کے پیچھے واضح طور پر ایران کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ یمن نے بہت صراحت سے اب تک ایران کانام نہیں لیا ہے لیکن حوثی مسلح گروہوں سے ایران ساختہ اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ پچھلے دنوں ایران کے متعددبیانات بھی اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایران نے سعودی عرب اور یمن کو دھمکی دی ہے کہ وہ حوثیوں کی بیخ کنی سے باز رہیں۔ ایران نے بحری قزاقی کا بہانہ بنا کر ایرانی جہاز رانی کو محفوط کرنے کے لیے سمندر میں اپنے جہاز بھی اتارے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب نے بھی پہلی مرتبہ شدید ترین ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ اپنے سابقہ طرز عمل کی طرح حوثی شیعہ کے خلاف سعودی عرب پیچھے رہ کر ہی یمنی فوج سے کارروائی کرائے گا لیکن اس مرتبہ سعودی عرب نے کمال جرأت سے یمن کی حدود میں داخل ہو کر حوثیوں کے محفوظ ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ یاد رہے کہ حوثیوں کا علاقہ جغرافیائی لحاظ سے بہت پیچیدہ ہے اور سعودی عرب کی سرحد سے ملحق ہے۔
سعودی عرب اور خلیجی ممالک خاص کر بحرین اور امارات ایران کے توسیعی عزائم کے سب سے بڑے حریف ہیں۔ اگر ایران کو سعودی عرب کے جنوب میں صعدہ اور اُس کے گردو نواح میں حوثیوں کی شکل میں انصار مل جاتے ہیں تو مذکورہ بالا خلیجی ممالک شمال سے لبنان کی حزب اللہ کے نرغے میں اور جنوب سے حوثیوں کے نرغے میں آ جاتے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے یہ مسئلہ زندگی موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔
لبنان کے گزشتہ انتخابات میں سعودی عرب اور امریکہ نے اپنے حلیف؛ رفیق حریری کے فرزند سعد حریری کی بھر پور مدد کی تھی۔ یوں سعودی عرب سعد حریری کو حزب اللہ کے مقابلے میں لبنان کا وزیر اعظم بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ سعودی عرب اپنی جنوبی سرحد کو بھی رافضہ سے محفوط کرنے کی بھر پور مزاحمت کرے گا۔
ایران بھی سعودی عرب کی سرحدوں سےنزدیک سے نزدیک ہو رہا ہے۔ عراق میں ایرانی اثرو نفوذ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ سعودی عرب کے شمال میں حزب اللہ کسی وقت بھی حکومت میں آسکتی ہے۔ جنوب میں حوثی اگر ایرانی اسلحہ سے کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر خلیجی ممالک کے لیے ایران کا راستہ روکنا بیحد مشکل ہو جائے گا۔ ایران کی یہ مجبوری ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے اسے سعودی عرب کا کارڈ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ایران چاہتا ہے کہ سعودی عرب کا تین اطراف سے گھیراؤ کرکے امریکہ سے اپنے مطالبات منوا سکے۔
دوسری طرف امریکہ نے حوثی مسلح گروہوں کا تعلق ”القاعدہ“ سے جوڑنے کے کئی طریقے نکال لیے ہیں۔ یمنی قیادت بھی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔ یمن اس طریقے سے دہشت گردوں کے خلاف امریکہ کا حلیف بن کر بیک وقت سعودی عرب اور امریکہ سے اسلحہ کے علاوہ نقد رقومات بھیلینا چاہتا ہے۔
یمن کو القاعدہ کا گڑھ ثابت کرنے میں امریکہ کا یہ مفاد ہے کہ اس بہانے سے یمن کی مدد کرکے بظاہر وہ ایرانی اثرات کو کم کرنا چاہتا ہے، کیونکہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ طاقتور ایران کو کسی صورت گوارا نہیں کر سکتا!
حوثیوں کے مسئلہ سے قطع نظر بھی، یمن اِس وقت مالی ہی نہیں، شدید انتظامی بحرانات سے دوچار ہے، ملک میں لاقانونیت عروج پر ہے اور معاملات بالعموم حکومت کی رٹ سے خارج ہیں اور حکمران عملاً غیر مؤثر اور بے بس ہیں۔ جبکہ یمن کی جغرافیائی اہمیت خلیج اور بحر احمر میں امریکی ایڈونچرز کے حوالے سے روز بروز اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اِس لحاظ سے بہت سے مبصرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یمن کے حکمرانوں کو اِس موقع پر ’ڈالروں‘ کی ریل پیل کے جو نئے امکانات نظر آنے لگے ہیں ، ’ریالوں‘ کے بعد اُن سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔
آخری خبریں یہ ہیں کہ پاکستان نے بھی اپنے کچھ خصوصی فوجی دستے حوثی باغیوں کے خلاف سعودیہ اور یمن کی مدد کیلئے روانہ کر دیے ہیں، جوکہ ایک دور رس تناظر میں یمن کو ایران اور امریکہ ہر دو کی گود میں جانے سے روکنے کیلئے ایک خوش آئند بات ہو سکتی ہے۔
(1) الرجعہ سے مراد ہے دوبارہ جی اٹھنا، شیعہ عقائد کی اصطلاح میں امام غائب کے ظہور پر سنیوں کی ان برگزیدہ ہستیوں کو دوبارہ زندگی ملے گی جن سے شیعہ اس وجہ سے بغض رکھتے ہیں کہ انہوں نے علی بن ابی طالب اور اہل بیت کا حق ماراتھا۔ امام غائب کے ظہور پر وہ سب زندہ کیے جائیں گے اور انہیں رجم اور قتل کی سزائیں دی جائیں گی۔
(2) البداءۃ: شیعہ کے نزدیک ان کے اماموں کو غائب کی سبھی باتوں کا علم ہوتا ہے۔ جب کبھی ایسا ہو کہ کسی امام کی پیش گوئی کے مطابق امر کا ظہور نہ ہو تو شیعہ اسے کہتے ہیں کہ ہمارے امام نے ایسا نہیں چاہا تھا بلکہ امام کو پیش گوئی کے خلاف کوئی اور امر کا بداءہوا تو اس لیے واقعہ پیش گوئی کے مطابق نہیں ہوااور اس طرح واقع ہوا ہے جس کا بعد میں امام کو’بدا ‘ہوا۔