عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, December 5,2024 | 1446, جُمادى الآخرة 3
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
وہابی تحریک اور” اسلامی بنیاد پرستی“
:عنوان

:کیٹیگری
ڈاكٹر جعفر شيخ ادريس :مصنف
وہابی تحریک اور“اسلامی بنیاد پرستی”

ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس  
اردو استفادہ: محمد بن مالک  
 
ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس اُن بقید حیات علمی شخصیات میں سے ہیں جو دورِ حاضر میں ہمارے لئے علمی و فکری مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ فلسفہ میں پی ایچ ڈی ہیں، جبکہ حدیث شیخ ابن بازؒ سے پڑھ رکھی ہے اور عقیدہ میں بالعموم مدرسۂ نجد سے کسب فیض کیا ہے۔ امریکہ میں بننے والے انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ میں عالم اسلام کے جو مفکرین پیش پیش رہے، ان میں ڈاکٹر جعفر ادریس بھی شامل رہے ہیں۔ بعد ازاں، یعنی، اِس انسٹی ٹیوٹ پر ”عقلیت پسند“ رجحانات کی چھاپ بڑھ جانے کے بعد، ڈاکٹر جعفر نے امریکن اوپن یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، جس میں ہمارے استاد ڈاکٹر صلاح الصاوی آپ کے دست راست تھے، جو بعد ازاں ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس کے امریکہ بدر ہو جانے پر اس جامعہ کے پریزیڈنٹ بنے۔ امریکہ سے نکال دیے جانے کے بعد سے ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس اپنے آبائی وطن سوڈان میں قیام پزیر ہیں۔ قدیم اور جدید ہردو علوم میں ید طولیٰ رکھنے والے ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس فکری امور میں عالم اسلام کے نوجوانوں کیلئے ایک بیش قیمت سرمایہ اور ایک نہایت قابل اعتماد علمی مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ کی عمر دراز کرے اور ہمارے لئے ان کو ذریعۂ فیض بنا کر رکھے۔

 
”بنیادپرست“ کی اصطلاح سب سے پہلے انیسویں صدی کی ہزاروی (Millenarian) تحریک سے جنم لینے والی امریکی پروٹسٹنٹ تحریک کیلئے استعمال ہونا شروع ہوئی، جوپھر بعد میں علیحدہ طور پر، بیسویں صدی کے آغاز سے ہی امریکہ کی مذہبی و غیر مذہبی زندگی میں دَر آنے والے جدید رحجانات کے بالمقابل استعمال ہونے لگی۔ یہ اصطلاح مذہبی مقالوں کے ایک مجموعہ The Fundamentals سے اخذ کی گئی جو 1909ء کو امریکہ میں شائع ہوا۔
تاہم بعد میں یہ اصطلاح کسی مذہب کے بنیادی عقائد سے تمسک اور سیکولرزم سے برأت کی صورت میں جلد ہی ایک عالمگیر واقعہ کے طور پر دیکھی اور سمجھی جانے لگی۔ دنیا کے تقریباً تمام ہی مذاہب کے پیروکاروں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سیکولرزم کے سحر سے آزاد ہو کر اپنے اصل مذہب میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ اور سیکولرزم کو محض مسترد کر دینے پر ہی اکتفانہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے مذاہب کی روشنی میں اس کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے خود کو منظم کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، تاکہ اس کے مناسب متبادل تلاش کرسکیں۔ چنانچہ ہر مذہب میں اس کے اپنے اپنے بنیاد پرست پائے جاتے ہیں۔ مثلاً بنیاد پرست یہودی، بنیاد پرست بدھ، بنیاد پرست ہندو، وغیرہ وغیرہ۔ مگر جو بنیاد پرستی ہمیشہ خبروں کی زینت بنی رہتی ہے اور جس کے لیے مغربی دانشور، صحافی اور منصوبہ ساز سب سے زیادہ متفکر و منہمک نظر آتے ہیں وہ صرف اور صرف ”مسلم بنیاد پرستی“ ہے۔! تاہم یہ سمجھنا غلط ہوگا_ جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں _ کہ تمام مسلم بنیاد پرست مِل کر یکساں طور پرایک ہی تحریک تشکیل دیتے ہیں جس کے نظریات اور مقاصد سب میں ایک طرح سے مشترک ہوں اور جو کسی واحد قیادت تلے متحد بھی ہو۔ ! واقعہ یہ ہے کہ ”اسلامی“ کا سابقہ لگانے والے گروہوں میں شیعہ بھی ہیں اور سُنّی بھی۔ اوراِس ایک بظاہر مشترک پہچان کے باوجود ہر دو گروہوں کے مابین زمین و آسمان کا فرق اور بعدپایا جاتا ہے۔ بلکہ خود سنی اور شیعہ میں ان کے اپنے اپنے اندر مختلف گروپس اور تحریکیں پائی جاتی ہیں۔ ان سب کو مغربی میڈیا ایک ہی پہچان سے مُلقّب کرتا ہے: ”بنیاد پرست“ !!!
تو پھر ان مختلف و متنوع مسلم جماعتوں اور تنظیموں، اور حتی کہ بعض مسلم ریاستوں تک کو اصطلاحِ مذکورہ کے تحت لانے کی کیا مناسب توجیہ اور کیا نقطئہ اشتراک ہونا چاہیے؟
پس وہ چیز جو ان سب جماعتوں اور تنظیموں کے درمیان مشترکہ ہے، اور جس میں یہ سب جماعتیں، غیر مذہبی بنیاد پرست تحریکوں کے بالمقابل یکساں طور پر صف آراءنظر آتی ہیں، وہ بلا شبہ سیکولرازم کا مسترد کیا جانا ہے۔
چنانچہ مذہبی بنیاد پرستی اپنی اس تعریف کی رُو سے ایک سیکولر- مخالف طرزِ عمل ہے۔
لیکن چونکہ کچھ مسلم بنیاد پرست، اور مسلم دنیا اور مغرب میں موجود ان کے مخالفین،سیکولر مخالف رویّے کو مغرب مخالف یا امریکہ مخالف رویّے کے ساتھ گڈمڈ کر دیتے ہیں، لہذا اس کے نتیجے میں مسلم بنیاد پرستی کی تعریف ایک مغرب مخالف رویے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ یہ نقطئہ نظر بسا اوقات کچھ ان اہل مغرب کی طرف سے بھی اختیار کیا جا رہا ہوتا ہے جن کو خود وہاں کے سیکولرزم سے شدید ترین مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔ مغرب اور سیکولرزم کو ایک دوسرے کا مترادف و ہم معنی قرار دینا، ایک طرح سے خود مغرب کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے۔ کیونکہ مغربی تہذیب میں کافی کچھ ایسا بھی ہے جو مغرب اور دیگر اقوام کے لیے سیکولرزم کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت اور قدروقیمت کا حامل ہے۔
اور چونکہ مسلم بنیاد پرستی کی حیثیت متعین کرنے میں سب سے زیادہ زور اسی مغرب مخالف رویے پر ہی رہا ہے، چنانچہ اب جو کوئی بھی مسلم فرد یا گروپ کسی بھی اہم مسئلہ، یا نکتہ یا کسی پالیسی پر مغرب کے ساتھ آوازۂ اختلاف بلند کرتا ہے، اُس پر فورًا ”بنیاد پرست“ کی مہر ثبت کر دی جاتی ہے۔ اب جمہوریت کو ہی لے لیجیے۔ کوئی عاقل و ہوشمند شخص ایسا نہیں ہو گا جو جمہوریت سے تعلق رکھنے والی تمام کی تمام چیزوں کو رد کرتا ہو۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ جمہوریت میں بھی ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن میں انسان کی بنیادی ضروریات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ تاہم یہ سوچنا بھی قطعاً غلط ہوگاکہ جو لوگ بیسویں صدی کی مغربی اقوام کی طرز پر جمہوری ادارے اور ان جیسی اقدار نہیں رکھتے وہ لازماً مغرب کے دشمن ہیں۔
ستم بالائے ستم، کہ مسلم بنیاد پرستی کے نام سے اب اکثر لوگوں کے ذہن میں دہشتگردی کا تصور ابھرنے لگا ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسی کارروائیوں میں سے جو چند ایک شاید دہشتگردی قرار دی جانے کی واقعی مستحق ہوں، ایک حقیقی مسلمان کو ان کے تصور سے ہی جھر جھری سی آجاتی ہے۔ کیونکہ وہ بھی ایک حساس اور صاحبِ دل مخلوق ہے۔ دوسرے یہ کہ معصوم انسانوں کو قتل کرنا جو مسلمانوں کے ساتھ برسرِ پیکار نہ ہوں، پیغمبرِ اسلام کی طرف سے سختی سے منع کیا گیا ہے، حتی کہ جب مسلمان کفار کے ساتھ بالفعل مبتلائے کارزار بھی ہوں۔
اس سب گفتگو کا مقصد مسلم دنیا میں ابھرنے والے بنیاد پرستی کے اس وقوعہ کی تردید کرنا نہیں ہے۔ اصل سوال اس کے پائے جانے کا نہیں (کہ وہ تو ایک واقعہ ہے) بلکہ اس کی اصل نوعیت اور کیفیت کو سمجھنے کا ہے۔
تو پھر ”اسلامی بنیاد پرستی“ کی درست تعریف کیا ہونی چاہیے؟ اس کے لیے اب ہم اسے عیسائی بنیادپرستی سے پرکھ کے دیکھتے ہیں:
جو خصوصیات عیسائی بنیاد پرست تحریک کے لیے وجہِ امتیاز قرار دی جاتی ہیں ان میں انجیل کے ایک ایک لفظ کے خدا کی طرف سے نازل ہوا ہونے کا عقیدہ رکھے جانے کے ناتے اس کا ایک قطعی حجت کے طور پر تسلیم کیا جانا، اور اس کے الفاظ کے ظاہری معنی کی پیروی کرنا، نیز مسیح کی بن باپ پیدائش اور قیامت سے پہلے ان کی آمدِ ثانی، (کفار کے) مخلّد فی النار ہونے کا نظریہ، اور (اشاعت مذہب کے لیے) تبلیغی سرگرمیوں کا التزام کیا جانا وغیرہ امور شامل ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو ان سب میں قرآن کے بعینہ کلامِ خداوندی ہونے پر کامل اتفاق پایا جاتا ہے۔ قرآنی آیات کی تفہیم و تشریح کے لیے ان کا طریق کار بڑی اور بنیادی حد تک ظاہری طرز پر مبنی ہے۔ اگرچہ عیسائیوں کے ہزاروی نظریے ایسی کوئی خرافات مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی، تاہم یہ سب مسیح کی بن باپ پیدائش کے ساتھ ساتھ ان کے نزولِ ثانی پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ مزید برآں ، ہر مسلمان اگرچہ ”تبلیغی“ (Evengelic)نہیں ہوتا، تاہم مسلمانوں کو تبلیغیت (Evengelism) کے اس نظریے سے کوئی اصولی اختلاف بھی نہیں ہے۔ یوں بنیاد پرستی کی ”عیسائی شرائط“ پر اگر پرکھا جائے تو تقریباً تمام ہی مسلمان اس طرح لازمی طور پر بنیاد پرست قرار پاتے ہیں۔
اندریں صورت، بنیاد پرستی کو مسلمانوں میں کے کسی مخصوص فرد، گروہ یا تحریک کے ساتھ کیونکر خاص کیا جاسکتا ہے؟
جہاں تک میرا خیال ہے، اسلام کے کچھ ایسے نظریات کو ، جن کو کچھ مسلمان نصوصِ شرعیہ کے ظاہری معنی کا عین اقتضاءسمجھتے ہوں، جبکہ دیگر یا تو ان سے جاہل ہوں، یا ان کو نظر انداز کیے ہوئے ہوں یا ان کو اسلام سے غیر متعلق سمجھتے ہوں، اسلام کی مبادیات کے طور پر بشدّت و اصرار پھیلانا ہی اس (یعنی بنیاد پرستی کے) زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرستی کی اس تعریف کو یہاں ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک گونہ وسعت اور گنجائش پائی جاتی ہے جس کے سبب یہ اس فینامنن کو نہ تو کسی خاص دور میں محدود کرتی ہے، اور نہ اسے کسی بیرونی ثقافت کے ردّ عمل کے طور پر ہی ظاہر کرتی ہے۔ بایں ہمہ یہ اس قدر محدود بھی ہے کہ تمام کے تمام مذہبی پیروکاروں کو ایک ہی صف میں بھی لا کھڑا نہیں کرتی۔
”وہابی بنیاد پرستی “ کی امتیازی خصوصیات: اسلامی بنیاد پرستی کی مذکورہ بالا خاص صفت کے مطابق اگر پرکھا جائے تو موجودہ ریاستِ سعودی عرب کے ”مذہبی بانی“ محمد بن عبد الوہابؒ عمومی طور پر ایک آئیڈیل مسلم بنیاد پرست رہنما کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ یہاں اس خاص بنیاد پرستی کی چیدہ چیدہ خصوصیات ذکر کی جاتی ہیں:
ا۔ اگر عیسائی بنیاد پرستوں کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے بنیادی عقائد کو اپنے بنیادی مقالات کے اندر بنیاد پرستی سے تعبیر کیا ہے تو بالکل اسی قبیل کی چیز محمد بن عبدالوہابؒ کے کئی مقبولِ عام رسائل میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ تحریک بھی بنیاد پرست کہلانے کے اسی قدر لائق ہے۔
ب۔ شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کی عمرِ مدید کا زیادہ تر حصّہ، 1703ء سے 1792ء تک، اسلام کے بنیادی و اساسی اصولوں کی تعلیم و ترویج پر ہی مرکوز رہا، جن میں عقیدہ کی مبادیات، منہجِ تلقّی (علمِ شرعی حاصل کرنے کا طریقۂ کار)، اور عقیدہ کے دفاع اور نشر واشاعت کے لیے ایک مستحکم ریاست کے قیام کی اہمیت وغیرہ ایسے اہم ترین امور شامل ہیں۔ شیخ نے اپنی تمام زندگی اسلام کے انہی بنیادی اصولوں کی تعلیم دینے، ان کی وضاحت و تشریح کرنے، ان کے لیے دلائل و براہین مہیا کرنے، لوگوں کو ان پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ کرنے اور ان اصولوں کے مخالف شبہات و اعتراضات کاابطال کرنے کے لیے وقف کردی تھی۔
ج۔ انہوں نے تاریخ کی ایک سب سے مضبوط نہیں تو ایک انتہائی مضبوط و مستحکم اسلامی تحریک کا آغاز کیاجو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تھی۔ چنانچہ اس کو جلد ہی اپنے مخالفین و معاندین کے ساتھ مبتلائے کارزار ہونا پڑا۔
د۔ اگرچہ یہ تحریک جدید دور کی کسی بھی اسلامی تحریک کے مقابلے میں اپنے میدانِ عمل میں طے کردہ مقاصد کے حصول میں سب سے زیادہ کامیاب رہی، اور اگرچہ یہ تحریک تا حال دنیا بھر کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ایک چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہے، بہت سے اسلام کے مدّعی اسے پھر بھی اپنے مزعومہ اسلام کے بالمقابل ایک خطرناک گمراہی قرار دیتے ہیں۔ لیکن یاد رہنا چاہیے کہ کسی تحریک کا اس کے بعض ہم مذہب لوگوں کی جانب سے مسترد کیا جانا ہی اس کے بنیاد پرست ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کے لیے کافی ہے۔
ہ۔ نصوصِ شریعہ کے معانی کے اخذو استنباط میں، خصوصاً صفاتِ باری تعالیٰ کے معاملے میں، شیخ کا مسلک ”ظاہری(1)“ (Literalist)  تھا۔
و۔ شیخ کو اس بات کا حد درجہ احساس تھا کہ ان کی حیثیت محض ایک مبلّغ یا مسند نشین عالم کی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی تحریک کے لیڈر کی ہے جو معاشرے میں ایک حقیقی تبدیلی کو ظہور میں لانے کے لیے برپا کی گئی ہے، اور یہ کہ اگرچہ دین کا بنیادی علم دیا جانا اس تبدیلی کو روبہ عمل لانے کے لیے سب سے اولین مرحلہ اور ناگزیر شرط ہے، تاہم یہ اس تبدیلی کا نقطئہ آغاز ہی ہو سکتا ہے نہ کہ اس کا منتہا۔! دیگر عملیت پسند سماجی مصلحین کی مانند وہ بھی اپنے نشر واشاعت کردہ مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کی ضرورت و اہمیت کے شدت سے قائل تھے۔ ان کو اگرچہ اپنے پیروکاروں کی ایک مناسب تعداد دستیاب تھی تاہم انہوں نے ان کو دورِ جدید کی فعال تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کی طرز پر منظّم بھی نہیں کر رکھا تھا۔ چنانچہ اس طاقت کے حصول کے لیے انہوں نے قبائلی سرداروں کی نصرت و حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں، جنہیں آج کے سربراہان مملکت کے مماثل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
حاکمِ دِرعیہ محمد بن سعود نے، جواِن قبائلی سرداروں میں سے تھے، شیخ کی دعوت پر لبیک کہا، اور شریعت کے نفاذ اور شیخ کی اٹھائی ہوئی تحریک کے دفاع کا عہد کیا۔ یوں اس نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی ، جو آگے چل کر مملکتِ سعودی عربیہ کے نام سے موسوم ہوئی
ز۔ جیسا کہ پیچھے گزرا، دورِ حاضر کی بنیاد پرستی خواہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی، بنیادی طور پر مغربی سیکولرزم کو مسترد کر دینے کی خاصیت سے پہچانی جاتی ہے۔ تاہم شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کو ایسی کسی شے کاسامنا نہیں تھا۔ ”مغربی تہذیب“ ایسا کوئی مسئلہ ان کو سرے سے درپیش ہی نہیں تھا۔ مغربی تہذیب تو ایک طرف، خود مسلم دنیا بلکہ عرب کے دوسرے علاقے ان کی تگ و تاز کا محور و مرکز نہ تھے۔ اس کے باوجود انہیں البتہ ایک اور ہی قسم کے سیکولرزم کا سامنا تھا، جسے انہوں نے ”جاہلیت“ کا نام دیا۔ ”جاہلیت“ دراصل ایک شرعی اصطلاح ہے جو سماجی، معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے کسی بھی ایسے نظام کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جو خالص انسانی فکر اور اسی کی آراءو ہوا پر بناءکرتاہو، نہ کہ کسی آسمانی ہدایت پر۔ چنانچہ ان معنوں میں شیخ کے عہد کے قبائلی سرداروں کی حکومتیں جاہلی، یا سیکولر طرز پر مبنی تھیں، کیونکہ وہ اپنی ریاستوں میں اسلامی قوانین کے اجراءو نفاذ کے روادار نہ تھے۔
مثال کے طور پر، عورتوں کو ان کے جائز قانونی ترکۂ وراثت سے مختلف ہتھکنڈوں اور حیلوں کے ذریعے محروم رکھا جانا اس معاشرے میں عام تھا لیکن کسی بھی سربراہِ قبیلہ نے نہ تو اس طریقۂ کار کو ممنوع ٹھرایا اور نہ اس کے مرتکب کو کبھی لائق تعزیر ہی قرار دیا۔ گویا کہ اسلامی تعزیرات و ضابطۂ فوجداری کو سرے سے معطّل رکھا گیا۔ چنانچہ جب شیخ محمد بن عبد الوہابؒ نے عملِ فاحش کی مرتکبہ ایک عورت کے لیے شرعی سزا جاری کرنے کا فرمان صادر کیاتو اس کے نتیجے میں قبائلی سرداروں کے یہاں ایک شدید صدائے مخالفت بلند ہوئی۔ حتی کہ جس سردار کے علاقے میں یہ حد جاری کی گئی، ایک دوسرے طاقتور قبائلی سردار نے اسے دھمکایا کہ یا تو شیخ کے موت کو گھاٹ اتارے، یا انہیں جلا وطن کردے، وگرنہ سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ اس سردار نے شیخ کو جلا وطن کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔
ح۔ اپنے مخاطبین کی نفسیات پر ہر وقت نگاہ مر کوز رکھنا اور ان میں سے ہر ایک کو بہتر سے بہتر انداز میں متوجہ کیے رکھنے کی صلاحیت سے متصف ہونا ایک اچھا معلم ہونے کی لیے ناگزیر ہے۔ خلیفۂ چہارم علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”لوگوں سے ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق بات کیا کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہو جائیں؟“ (فتح الباری - ج 1 ص 127)
شیخ محمد بن عبدالوہابؒ نے اس نصیحت کو گویا پلے سے باندھ رکھا تھا اور اس پر خوب اچھی طرح عملدرآمد کرنا جانتے تھے۔ چنانچہ جب وہ عراق میں اپنے بادیہ نشین قبیلے سے باہر کے علماءکو مکاتیب بھیجتے تو روایتی و ادبی قسم کی عمدہ و شستہ عربی زبان استعمال کرتے۔ لیکن جب کبھی ان کا واسطہ اپنے ہی لوگوں سے ہوتا تو وہ تحریر میں بھی بڑی سادہ اور عام فہم زبان استعمال کرتے، حتی کہ کہیں کہیں (بقدر ضرورت) سوقیانہ الفاظ اور تراکیب استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کرتے۔
شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کو بھی قریب قریب اسی انداز کی عزت و قبولیت حاصل ہوئی جو ابن تیمیہؒ کو نصیب ہوئی۔ خود محمد بن عبدالوہابؒ کا نہایت کثرت کے ساتھ ابن تیمیہؒ سے استفادہ و نقل ظاہر کرتا ہے کہ ان کی نگاہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا کیا مقام تھا۔ تاہم ان کی دعوت کا اسلوب اپنے شیخ سے بہت زیادہ جدا اور مختلف تھا۔ جس کی ایک وجہ تو مختلف نفسیات اور مراتب کے لوگوں سے شیخ کا سابقہ پیش آنا تھی جس کے سبب شیخ ابنِ عبدالوہابؒ کو ایک الگ انداز اختیار کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں شیخ محمد بن عبدالوہابؒ ایک بہت ہی سادہ طرز کی ثقافت رکھنے والے معاشرے میں مصروف کار تھے جہاں ابن تیمیہؒ کے وقتوں اور علاقے کی طرح علمی مشاغل کی فراوانی اور کثرت ہرگز نہ تھی۔ ابن تیمیہ کے زمانے میں ان کے شہر سکونت دمشق میں تو فلاسفہ،متکلمین، صوفیاء، سائنسدانوں اور یہودی و نصرانی علماءوغیرہ کا ہمہ وقت اجتماع اور رونق رہا کرتی تھی۔ چنانچہ انہیں علمی مباحث میں خاصی تفصیل اور دقت میں جانا پڑا، اور اکثر مقامات پر کلامی مباحث کے اندر قرآنی مطالب کی تائید و دفاع میں عقلی دلائل و توجیہات سے بھی کام لینا پڑا۔ شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کا ایسی کسی صورتحال سے چنداں واسطہ نہ تھا۔ لہٰذا علمی مباحث میں انہیں ابنِ تیمیہؒ کا طریقۂ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ انہوں نے اپنے کام کو شرعی نصوص و ادلّہ کے اہتمام تک ہی محدود رکھا اور خشک فلسفیانہ و کلامی اعتقادی مسائل سے بالکل اجتناب کیے رکھا۔ نجی مکاتیب کو چھوڑ کر شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کا اندازِ تحریر قانونی، دوٹوک، مختصر اور جامع ہے۔
ط۔ سماجی اصلاح کی تحریکوں کے رہنما اور قائدین جن افکار کو لے کر اٹھتے ہیں وہ عموماً لوگوں کے لیے نامانوس اور ناقابلِ فہم ہوتے ہیں۔ لہٰذا جلد ہی انہیں چیلنجز، تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ اگرچہ تحریک کے رہنما اور اعلیٰ قیادت اس مخالفت کا سامنا اور دفاع کرنے کے لیے پورے طور پر تیار ہوتے ہیں،تحریک کے کارکنان اور اس سے وابستہ عام افراد ایسا کرنے سے قاصر ہی ہوتے ہیں۔ جب کہ کسی تحریک کا ایک بڑا اور معتد بہ حصّہ یہی کارکنان اور عام لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ دوسری طرف تحریک کی مخالفت پر کمر بستہ لوگ ان عام کارکن ٹائپ افراد کو گمراہ اور بدظن کر دینے کی حکمتِ عملی کے تحت کچھ ایسے پیچیدہ سوالات ان کے سامنے کھڑے کر دیتے ہیں جن کا جواب دینے کے وہ اہل نہیں ہوتے، اور یوں یہ مخالفین تحریک کو کمزور کر دینے کے درپے رہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کے متبعین کے ساتھ بھی پیش آتارہا۔ شیخ نے فوراً اس بات کو محسوس کرکے ضروری جانا کہ ان کے پیروکاروں کو ایسے سوالات کے کچھ سادہ اور ٹھوس جوابات سکھا دیے جائیں جن کو وہ بہ آسانی سمجھ بھی سکیں اور بوقت ضرورت ان سے مخالفین کا منہ بھی بند کرسکیں، چاہے یہ مخالفین علماءکے درجے پر ہی کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کی ہمت بندھائی کہ ان نام نہاد علماءسے ہرگز مرعوب نہ ہوں، کیونکہ باطل کی پیروی کرنے والا عالم بھی انتہائی کمزور اور بودا ہوتا ہے، جبکہ راہِ حق کی اتباع کرنے والا ایک عام شخص بھی انتہائی مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے۔ چنانچہ اس قسم کے عام افراد کے لیے شیخ ابن عبدالوہابؒ نے اپنی دعوت کے دلائل کو دو اقسام پر منقسم کیا: ایک عام دلائل جو کوئی بھی عام شخص اعتراضات کے جواب میں پیش کر سکتا تھا۔ دوسرے کچھ مخصوص قسم کے جوابات، جو اکثر و بیشتر اٹھائے جاتے رہنے والے سوالات کے لیے ترتیب دیے گئے۔
ی۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر تحریکیں چاہے وہ اسلامی ہوں یا نہ ہوں، خاصی قلیل العمر ثابت ہوتی ہیں۔ جن افکار و نظریات پر تحریک کی اٹھان ہوئی ہوتی ہے وہ بسا اوقات تحریک کے اپنے کارکنان کے ذہنوں میں ہی نہایت خام اور نا پختہ حالت میں پائے جاتے ہیں۔چنانچہ جب کبھی انہیں خراب و نا موافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یا حتی کہ اُن خاص حالات میں کوئی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے جن حالات کے تحت وہ تحریک میں شامل ہونے پر تیار ہوئے تھے، تو گویا تحریک سے ان کی واپسی کے راستے ہموار ہو جاتے ہیں اور یوں وہ جلد ہی تحریک کو فراموش کر دینے پر آمادہ نظر آنے لگتے ہیں۔ تاہم کچھ تحریکیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی آئیڈیالوجی کی گرفت ان کے کارکنان پر نسلاً بعد نسلٍ بھی مضبوطی کے ساتھ برقرار رہتی ہے۔ وہابی تحریک کا شمار بلاشبہ ایسی ہی تحریکوں میں ہوتا ہے۔ درج ذیل قرائن اس حقیقت کو بخوبی واضح کرتے ہیں:
(i) اس تحریک کی تاریخ میں دو مرتبہ یہ سانحہ رونما ہوا ہے کہ اس کے بطن سے جنم لینے والی سعودی ریاست کو اپنے دشمنوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جو ریاست کے سقوط پر منتج ہوئی۔ تحریک کے بڑے سیاسی اور مذہبی لیڈرز یا تو شہید کر دیے گئے، یا قیدی بنا لیے گئے ۔ لیکن ایسی ہر ایک شکست کے بعد بھی تحریک کے باقیماندہ ارکان ہر بار تحریک کو از سرِ نو آغاز فراہم کرنے کے لیے باہم یکجا و مجتمع ہوتے رہے، اور تحریک کی روحِ رواں بنیادی تعلیمات کو اسی عزم، یقینِ محکم اور صمیمِ قلب کے ساتھ پھیلاتے رہے، حتی کہ بالآخر انہیں ایک بار پھر قوت نصیب ہوئی اور وہ دوبارہ ایک اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
(ii ) دیگر تمام مسلم ا سکالرز کی طرح موجودہ سعودی عرب کے مذہبی اسکالرز کسی خاص سیاسی مسئلہ کے اندر رائے یا نقطۂ نظر رکھنے میں دیگر سے مختلف سے ہو سکتے ہیں، یا کسی خاص شے کا ٹھیک ٹھیک شرعی حکم بیان کرنے میں بھی وہ کچھ لوگوں سے جدا نظر آسکتے ہیں، تاہم یہ صرف وہابی تحریک کا ہی فیضان ہے کہ ان سب میں باوجود فقہی یا کسی خاص شے کے ساتھ مخصوص اختلاف رائے کے، عقیدہ اور منہج کے اندر ایک کلّی اتفاق اور یگانگت پائی جاتی ہے، جسکی نظیر عالمِ اسلام کے کسی اور خطّے میں شاید نہ پائی جاتی ہو۔
(iii ) سعودی سوسائٹی اگرچہ ایک آئیڈیل اسلامی سوسائٹی نہیں کہی جا سکتی، تاہم اس کے اندر کسی بھی دوسری موجودہ اسلامی سوسائٹی کی نسبت جملہ اقسامِ شرک سے مدافعت اور محافظت کا عنصر سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کا سہرا بھی بلاشبہ ان اقسامِ شرک کی بیخ کنی کا بیڑا اٹھانے والی وہابی تحریک اور اس کے بانی کے سر ہی جاتا ہے۔
(iv ) بجائے کمزور، مدہم یا ماند پڑنے کے، یہ تحریک اپنی اساسی تعلیمات کی شکل میں بہت جلد ہی اپنے خطۂ ظہور سے نکل کر اردگرد کے علاقوں اور ممالک میں پھیل گئی تھی۔ اب بھی دنیا کے مختلف خطوں میں اس تحریک کی پیش قدمی زور پکڑتی جا رہی ہے اور یہ دیگر اسلامی تحریکوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔
عقیدۂ توحید اور وہابی تحریک: ہر مسلمان کلمۂ طیبہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہے جس کا مطلب یہ گواہی دینا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی لائقِ عبادت نہیں۔ یہ شہادت دراصل وہ بنیادی ستون ہے جس پر اسلام کی پوری کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ محمد بن عبدالوہابؒ نے اس شہادت کی اصل اہمیت، حیثیت اور تقاضوں کو لوگوں پر واضح کیا اور بتلایا کہ اس کلمہ کا زبانی اقرار کر لینا ہی کافی نہیں۔ اسکے اصل معنی اور مدلول کو محض جان لینا بھی کافی نہیں۔ اس کی حقانیت کو محض تسلیم کر لینے سے بھی اس کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ صرف ایک اللہ کی عبادت کر لینے سے بھی اس کا حق ادا نہیں ہوتا۔ اس کلمہ پر پورا اترنے کے لیے ان سب کے ساتھ ساتھ، اللہ کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں کا کھلا کھلا انکار بھی لازمی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس شہادت کے متناقض اقوال، افعال اور نظریات سے اجتناب و برأت بھی ناگزیر ہے۔ تاہم جن جن لوگوں سے بشمول علماء، شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کا واسطہ تھا، ان کی اکثریت کلمۂ شہادت کے تقاضوں سے نا بلد تھی۔ یہی وہ شکایت ہے جو اس تحریک کا تسلسل بننے والے موجودہ ”بنیاد پرستوں“ کو آج کے مسلمانوں سے ہے۔
سو، ”اللہ کے سوا کوئی بھی لائقِ بندگی نہیں ہے“ ،کلمہ کے اس مفہوم پر صحیح معنوں میں پورا اُترنے کے لیے دو شرطوں کا پورا ہونا ضروری ہے:
1۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اکیلا تنِ تنہا ہی عبادت کیے جانے کا مستحق ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کر لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں کی بندگی سے اجتناب و برأت بھی ضروری ہے۔ اسے شیخ نے توحید کا اصل مدلول قرار دیا۔ یہی وہ توحید ہے جسکی طرف تمام انبیاءعلیہم السلام لوگوں کو دعوت دیتے رہے اور جو ہمیشہ ہی ان کے اور ان کی دعوت کے منکرین کے مابین وجۂ نزاع و باعثِ مخاصمت بنتی رہی۔ تاہم بہت سے مدعیانِ اسلام بشمول علماء، اس کلمہ کے مدلول سے بہرہ وَر نہیں ہوتے، لہٰذا اس کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل نہیں ہوتے۔ اور یوں شرک میں واقع ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ” مسلمان“ ان الزامات کو شدت سے رد کرتے ہیں اور یہی دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ تو اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے۔! یہاں پھر یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ عبادت کا مفہوم ہے کیا۔ اور کن کن چیزوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس بات کی وضاحت محمد بن عبدالوہابؒ کے رسائل و تحریرات میں بتکرار ملتی ہے۔ ان کے نزدیک عبادت ان مخصوص افعال و کیفیات سے عبارت ہے جن کا اظہار و وقوع صرف ایک خدائے تعالیٰ کے لیے ہی کرنا بر حق ہے اور اس سے ماسوا باطل۔ ذیل میں ان کیفیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
(i ) محبت: خدا سے محبت ہونے کے ساتھ لوگوں اور بہت سی چیزوں کی محبت دل میں ہونا ایک فطری امر ہے۔ لیکن آدمی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوتا جب تک کسی چیز کے ساتھ اس کی محبت خدا کی محبت سے زیادہ ہو۔ آدمی کی شدید ترین محبت تو بس خدا کے لیے ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ
”اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے خدا کے سوا شریک ٹھہرا رکھے ہیں ، وہ ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت خدا سے کرتے ہیں۔ اور جو ایمان والے ہیں وہ سب سے شدید محبت صرف اللہ ہی کے ساتھ رکھتے ہیں ۔“ (البقرۃ: 165)
اس آیت کی تشریح میں شیخ محمد بن عبدالوہابؒ فرماتے ہیں: ”اللہ نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ وہ (مشرکین) خدا سے اتنی ہی محبت رکھتے ہیں جتنی کہ ان ہستیوں سے جن کو انہوں نے خدا کے برابر کر ڈالا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ خدا کے لیے ان کی محبت نہایت درجہ زیادہ تھی تاہم (اسی قدر محبت اپنے جھوٹے معبودوں کے حق میں روا رکھنے کے باعث ) خدا کی یہ محبت ان کو اسلام میں داخل نہیں کرتی تھی۔ تو پھر اس شخص کا کیاحکم ہونا چاہیے جو اپنے معبود کے ساتھ خدا سے زیادہ محبت رکھتا ہے؟ اور پھر اس شخص کی بابت کیا معاملہ ہونا چاہیے جو اپنے جھوٹے معبود سے تو محبت کرتا ہے، لیکن خدا کے ساتھ سرے سے کوئی محبت ہی نہیں رکھتا؟؟! (مؤلفات الشیخ محمد بن عبدالوہابؒ، ج1)
(ii ) خوف و خشیت: خوف کو بھی شیخ محمد بن عبدالوہابؒ عبادت کے ارکان میں سے شمار کرتے ہیں اور اس کی دلیل میں قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں:
فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي
”پس ان سے خوف نہ کھاؤ، صرف مجھی سے ڈ رتے رہو۔“ (البقرۃ ۔150)
تاہم اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ خداکے سوا کسی چیز کا خوف دل میں پیدا ہوجانا خلافِ توحید ہے، کیونکہ ایسے خوف سے بالکلیہ بچے رہنا نفس الأمر میں محال ہے۔ خوف کے عبادت ہونے کے حوالے سے معاملہ بس اتنا ہے کہ کسی چیز کا خوف خدا کے خوف جتنا یا اس سے زیادہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ صرف اسی صورت میں ہی یہ خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کی راہ میں حائل و حارج ہوتا ہے۔ وگرنہ قرآن خود کہتاہے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ  
”اور ضرور ہم تم کو مبتلائے آزمائش کریں گے خوف اور بھوک کے ذریعے سے، اور جانوں، مالوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے سے۔ (البقرۃ ۔ 155)
(iii )قُلِ ادْعُواْ الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلاَ يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلاَ تَحْوِيلاًo أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًاo
” کہہ دیجیے کہ جنہیں تم خدا کے سوا (اپنا معبود) مانتے ہو، انہیں پکار دیکھو۔ وہ تم پر سے تکلیف کو دور کرنے پر قادر ہیں اور نہ اسے تبدیل کرنے پر۔ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے ربّ کی طرف راستہ تلاش کرتے ہیں، کہ اُن میں سے کون زیادہ اس کے قریب ہوتا ہے، اور اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہیں بے شک تیرے ربّ کا عذاب ہی خوف کھائے جانے کے لائق ہے۔“ (الاِسراء- 56 ، 57)
محمد بن عبدالوہابؒ کہتے ہیں کہ یہی ان مشرکین کا اصل جرم تھا کہ وہ (فوت شدہ) صالحین کو (مدد کے لیے) پکارتے تھے۔ اور یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا شرکِ اکبر کی اقسام میں سے ہے۔
(iv) اطاعت و فرمانبرداری: قرآن نے کچھ یہودیوں اور نصرانیوں کی بابت بتلایا ہے کہ انہوں نے خداکو چھوڑ کر اپنے احبار و رھبان اور مسیح ابن مریم علیہ السلام کو اپنا ربّ بنا لیا تھا جب کہ انہیں صرف ایک الٰہ کی بندگی و پرستش کا حکم دیا گیا تھا۔ (التوبۃ۔31)
انہوں نے کس انداز میں ان احبار و رھبان کو اپنا ربّ بنا رکھا تھا؟ صرف ان معنوں میں کہ وہ ان امور میں اُن کی اطاعت کرتے تھے جو خدا کی طرف سے ان کے لیے ممنوع ٹھہرا دیے گئے تھے (جبکہ خود انہیں اس بات کا علم بھی تھا)۔ اس سے یہ اصول برآمد ہوتا ہے کہ مطلق اطاعت صرف خدائے واحد کا حق ہے۔ اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت مُطلق طور پر کرنا اسے ربّ بنا لینے کے مترادف ہے۔
2 ۔اسلامی ریاست: یہ اصول کہ اطاعت صرف خدا کاحق ہے، اسلام کا وہ اصول ہے محض جس کی بناءپر کلیسا اور ریاست کے درمیان تفریق کے مغربی و سیکولر نظریے کو مسلمان شدت کے ساتھ مسترد کرتے ہیں۔ الہامی ہدایات کے نازل ہونے کا مقصد یہی ہے کہ زندگی کے ہر ایک شعبے میں ان کی پابندی کی جائے۔ کسی کو، چاہے وہ کوئی مطلق العنان شخص ہو، یا کوئی منتخب کردہ اسمبلی یا کوئی مذہبی عالم، ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسی قانون سازی کرے جو قرآن و سنّتِ نبوی سے متصادم ہو۔ بصورتِ دیگر ان کا ایسا کرنا خود کو خدا کے مقام پہ لا کھڑا کرنا ہے، اور یہ ویسا ہی شرک ہے جیسا کہ قبروں کو پوجنا۔ یہی بات اُن لوگوں پر بھی لاگو ہوتی ہے جو اِن کی اطاعت پہ راضی ہوں یا اس کو ان کا جائز حق سمجھتے ہوں۔
قرآن نے ہر اُس شے یا ہستی کو طاغوت سے تعبیر کیا ہے جو خدا کے ماسوا پوجی جائے۔ امام محمد بن عبدالوہابؒ نے طواغیت کی کثیر تعداد کا ذکر کرکے ان کی بڑی شکلوں کو پانچ اقسام میں منقسم کیا ہے اور انہیں رؤوس الطواغیت (طاغوتوں کے سرغنہ) قراردیا ہے۔ ان سرکردہ طواغیت میں سے سب سے پہلا، شیطان خود ہے جو لوگوں کو اللہ کی بندگی کے راستے سے بھٹکا کر غیر اللہ کی عبادت کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرا وہ ظالم حکمران ہے جو اللہ کی شریعت کو بدل کے رکھ دیتا ہے۔ تیسرا وہ حکمران جو اللہ کے نازل کردہ احکامات سے فیصلہ کرنے کی بجائے کسی اور ماخذِ قانون کے مطابق فیصلے صادر کرتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ”جو کوئی اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔“ (المائدۃ ۔ 44)
چوتھا وہ شخص جو غیب کا علم رکھے جانے کا دعوٰی کرے۔ اور پانچواں سرکردہ طاغوت وہ شخص ہے جو اپنی عبادت کیے جانے پر راضی ہو۔ چنانچہ، ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا انواعِ طاغوت میں سے تین کا تعلق صاف طور پر حکومت اور نظامِ حکومت سے ہے۔
وہابی تحریک پر وارد شدہ کچھ نئے اعتراضات اور ان کی حقیقت
اپنے آغاز اور اٹھان کے دور میں اس تحریک کو مخالفین و معاندین کی جانب سے شدید ترین تنقید اور دشمنی کا سامنا تو کرنا ہی پڑا تھا ۔جس کے باوجود اس کی ٹھیٹ اور ٹکسالی دعوت دنیائے اسلام کے کونے کونے میں پھیل گئی اور ماضی قریب میں عالمِ اسلام کا ایک اہم ترین واقعہ بنی۔ آج بھی اس تحریک کا تسلسل بننے والوں کو اپنے مخالفین کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔ پہلے بھی مخالفت کرنے والے اسلام کے مدّعی تھے اور آج بھی اسلام کے نام لیوا ہی ہیں جو اپنے پیشروؤں کی مانند خود کو ”گھر کا چراغ“ ثابت کرنے میں کوئی کسر چھوڑ رکھنا نہیں چاہتے۔
یہ معترضین، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہابؒ پر ”ظاہری“ ہونے کا الزام چسپاں کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو شکایت ہے کہ شیخ نے اپنی دعوت و تحریک کی بنیادیں اٹھانے میں اس فرق اور امتیاز کو قطعاً فروگزاشت کر دیا ہے کہ کونسی چیز خالصتاً اسلامی ہے اور کونسی چیز محض عرب ثقافت و پس منظر سے تعلق رکھتی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ الزامات کہاں تک درست ہیں:
ا۔ ظاہریت(2) (Literalism): یہ اصطلاح عموماً بنیاد پرستوں کی مخالفت میں چاہے وہ عیسائی ہوں یا مسلم، ان کے معترضین کی جانب سے استعمال کی جاتی ہے جس کا مقصد ان بنیاد پرستوں کے ہاں رائج، الہامی صحائف اور نصوصِ شرعیہ کے مخصوص طریقۂ تفہیم پر اعتراض کرنا ہوتا ہے۔ حالآنکہ یہاں جس طریقۂ تفہیم کو ظاہریت قرار دے کر مسترد کیا جا رہا ہوتا ہے، کسی بھی دوسرے طریقۂ مطالعہ یا کسی بھی مطالعۂ مضمون میں ہم میں سے ہر ایک زیادہ تر اسی کو بغرضِ تفہیم استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کا مطلب ہم عام طور پر کس طرح اور کس طریقے سے نکالا کرتے ہیں؟ یقینا ہم یہی کیا کرتے ہیں کہ لوگوں نے جس سیاق و تناظر میں الفاظ اور محاورات کو استعمال کیا ہوتا ہے،اسی سیاق کے اندر ان الفاظ و محاورات کے لیے مخصوص معانی کو بروئے کا ر لاتے ہوئے ان کی باتوں کو کوئی خاص مفہوم پہناتے ہیں۔ تفہیم کے اس مشہور و معروف طریقۂ کار سے ہم صرف اسی وقت ہی دامن کش ہوتے ہیں جب کسی خاص قرینہ سے ہم پر یہ واضح ہو جائے کہ متکلم یا مؤلف نے، کسی خاص وجہ سے، زیرِ غور الفاظ و تراکیب کو اپنے عام معنی سے ہٹ کر کسی اور معنی کے لیے استعمال کیا ہے۔ پس، اسی معروف ظاہری طریقۂ تفہیم کی مدد سے ہی ہم اپنی روز مرہ زندگی میں قائل کے قول کا کوئی مطلب اخذ کرکے یہ اندازہ قائم کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ اس نے جو کچھ کہا ہے آیا وہ صحیح ہے یا غلط، اچھا ہے یا برا، مناسب ہے یا نا مناسب، وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ اس طریقۂ تفہیم کو محض ”بنیاد پرستوں“ کے ساتھ خاص کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نصوصِ شرعیہ کے معانی کے اخذ و استنباط میں بھی یہ (ظاہری) طریقۂ کار بنیاد پرستوں کے ساتھ خاص نہیں ہے، کیونکہ کسی مذہب کو مسترد کرنے والے بھی جس بنیاد پر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ مذہب ان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، وہ اس مذہب کے لٹریچر کی تفہیم کا وہی طریقۂ کار ہوتا ہے جسے معروف معنوں میں ظاہریت کہا جاتا ہے۔
اس ظاہری طریقۂ تفہیم(Literal Interpretation) کے بالمقابل جو طریقۂ کار پیش کیا جاتا ہے اسے ایک مادر پدر آزاد یا کم از کم ، آزاد رو طریقۂ تفہیم (Liberal Interpretation) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ طریقۂ کار ایک خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ ایک لبرل شخص بھی جب نصوص کا مطالعہ کرتا ہے تو ابتداءمیں اس کا طریقۂ کار ظاہری (Literalist) ہی ہوتا ہے، لیکن جونہی دورانِ مطالعہ وہ کسی ایسے مقام یا نکتہ پر پہنچتا ہے جو اس کے پہلے سے قائم شدہ منہج اور اس کے مزاج سے میل نہیں کھاتا، تو وہ فوراً اس نص کی ”تفہیمِ نو“ شروع کر دیتا ہے۔ اور ایسی تشریحات سوچنے لگ جاتا ہے جو اس کے طبعی میلانات،منہج اور ثقافتی پس منظر کے عین مطابق ہوں۔ لیکن اس طرح کرکے وہ خود اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے، کیونکہ اگرچہ اس کی منشاء، مذہب کو اپنے دور کے لیے زیادہ سے زیادہ ”قابلِ عمل“ بنانا ہوتی ہے، تاہم اس نئی تفہیم کے نتیجے میں لوگوں کو جو مذہب حاصل ہوتا ہے، اس کی اصل ساخت جاتی رہتی ہے اور پھر وہ اصل اسلام یا اصل عیسائیت یا اصل یہودیت کہلانے کے لائق نہیں رہتا، البتہ اس کو اس مذہب کی ایک تحریف شدہ شکل ہی کہا جا سکتا ہے۔
معانی و مفاہیمِ نصوص کے اخذ کا یہ معروف طریقۂ کار، جو کہ ظاہری طریقہ کہلاتا ہے،اکثر ایک دوسرے طریقۂ اخذِ معانی کے ساتھ خلط کر دیا جاتاہے کیونکہ اس طریقہ کو بھی کبھی کبھار ”ظاہری“ طریقے کے طور پر ذکر کر دیا جاتاہے، درآنحالیکہ یہ طریقۂ تفہیم خاصا غیر معقول اور غیر منطقی ہے۔ یہ مؤخر الذکر طریقۂ تفہیمِ نصوص اس بنیاد پر سابق الذکر سے اپنے خطوط جدا کر لیتا ہے(جہاں اس کی غیر معقولیت بھی واضح طور پر نظر آجاتی ہے) کہ اس میں متکلم یا مؤلف کے استعمال کردہ الفاظ، خاص طور پر محاورات کے اندر استعمال ہونے والے الفاظ کو ان کے سیاق سے علیحدہ کرکے معانی متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس میں کسی خاص شخص کی طرف سے کیے گئے ،الفاظ کے خاص استعمال کو بھی توجہ کے لائق نہیں سمجھا جاتا، جس کی وجہ سے معانی کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس قسم کا ”ظاہری“ طریقۂ کار بنیاد پرستوں کو موردِ الزام ٹھہرائے جانے کی وجہ نہیں بنتا کیونکہ ان کا تو اوّلین اور بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ خدا کے کلام اور اس کے انبیاءکے فرامین جس منشا اور مراد کو چاہتے ہیں اسی کا تتبّع کیا جائے۔ بلکہ یہ تو لبرل طرز کے شارحین کا معاملہ ہے کہ وہ غیر معقول تشریحات میں سر کھپاتے اور انہی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے نظر آتے ہیں۔
ب۔ عرب ثقافت اور اسلامی شریعت میں فرق نہ کرنا: وہابی بنیاد پرستوں کے خلاف یہ الزام اگرچہ کبھی کبھار غیر مسلم اسکالرز کی طرف سے بھی رکھا جاتا ہے تاہم اکثر و بیشتر اس کی صدا تجدّد پسند (Modernist) مسلمانوں کے منابر سے ہی بلند ہوتی ہے۔ یہ ماڈرنسٹ مسلمان جب کبھی کوئی ایسی چیز اسلام کے اندر دیکھتے ہیں جسے وہ دورِ جدید میں ناقابلِ عمل یا نامناسب خیال کرتے ہیں تو فوراً انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو محض عرب کلچر کا ایک حصّہ تھا جسے علماءنے زبردستی شاملِ اسلام کر دیا ہے۔ اس کا اسلام سے بھلا کیا تعلق؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جن جن چیزوں کو یہ لوگ محض عرب کلچر کا حصّہ قرار دیکر مسترد کر دینا چاہتے ہیں ان میں سے اکثر وہ ہیں جو اسلام کے ظہور کے بعد اور اس کے تمام خطّۂ عرب میں پھیل جانے کی وجہ سے عرب کلچر کا حصّہ بنیں۔ یہ بات شاید بہت سوں کے لیے حیرانی کا باعث ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل کے عرب کلچر سے زیادہ کوئی اور کلچر پوری تاریخ میں ایسا نہیں ہے جسے موجودہ دور کے سیکولر جاہلی معاشروں سے مماثل یا قریب تر کہا جا سکے۔ پھر بھلا کون سی چیز اُس جاہلی عرب معاشرے کی ایسی ہو سکتی ہے جسے اسلام کے اندر شامل کر کے ”بطور اسلام“ پیش کیا جا سکتا ہو؟! یہ اسلام ہی تھا جس نے اس وقت کے عرب کلچر کو جاہلیّۃ قرار دے کر باطل ٹھہرایا، پھر اس کی کایا پلٹ کر ایک ایسے کلچر میں تبدیل کیا جو تمامتر اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مشتمل تھا۔ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہابؒ نے” بنیاد پرست “ ہونے کے ناتے اپنے دور میں اسی طرز کی جاہلیت کے خلاف جنگ لڑی اور اس کا سدِّباب کیا۔
اُس دور کے عرب جاہلی کلچر میں مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط پایا جاتا تھا جیسا کہ آج ملتا ہے۔ اُس کلچر اور آج کے جاہلی معاشروں کی عورت کے لباس میں جسمانی نمائش کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔ فحاشی اور عریانیت کی مثالیں بھی قریب قریب ایک سی ہیں۔ یہ صرف اسلام کے خورشید کی نمود ہے کہ جس کی تابانیوں سے جاہلیت کا وہ ظلمت کدہ، چشمۂ نورِ ہدایت ہوا، اور عورت شمعِ محفل سے چراغِ خانہ بنی۔ وہ جو کل شرم و حیا کے مفہوم سے شاید آشنا نہ تھی، حجاب اور پردہ اُس کا اصل سامانِ زیب و زینت ٹھہرا۔ مگر صد حیرت، کہ ایسے عدیم النّظیر انقلابِ چرخِ گرداں سے آشنا ہوتے ہوئے بھی بعض لوگ نکتہ رسی فرماتے ہیں کہ حجاب تو دراصل عربوں کا ایک دستور ہے نہ کہ اسلام کا کوئی تقاضا!!
٭٭٭٭٭
 
(1) لفظ ”ظاہری“ یا ”ظاہریت“ ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس کے اِس مضمون میں جس خاص سیاق کے اندر آیا ہے اُس کا تعلق فقہ و اصول فقہ کی روایتی بحثوں کے ساتھ نہیں، بلکہ اُن بحثوں کے ساتھ ہے جو مغربی مفکرین اور اُن سے متاثر ہونے والے ہمارے آج کے جدت پسندوں اور لبرلسٹوں نے ”مذہبی صحیفوں“ کی تفسیر کے حوالے سے ایک نئے سرے سے اٹھا دی ہیں۔ اِس کی کچھ تفصیل ذرا آگے چل کر ایک حاشیہ میں دی جا رہی ہے۔ (ادارہ)
(2) واضح رہے، ”ظاہریت“ یہاں اُس معنیٰ میں نہیں جو فقہی مذاہب کے مطالعہ کے دوران ایک طالب علم کے زیر بحث آتی ہے....
فقہ میں ”ظاہری مذہب“، جو امام داود ظاہریؒ اور امام ابن حزمؒ کے ساتھ منسوب ہے، اور جس کی طرف ہمارے برصغیر کے اہل حدیث علماءکا ایک فریق بالعموم مائل رہا ہے، ایک خاص فقہی اصطلاح ہے ، جس کا اِس مضمون میں ذکر ہونے والی ”ظاہریت“ سے کوئی تعلق نہیں۔ فقہ میں ”ظاہری“ مذہب کو دیگر فقہی مذاہب سے ممتاز کرنے والی بنیادی چیز ”قیاس“ کو رد کرنا ہے، جوکہ مذاہب اربعہ کے ہاں معتبر مانا جاتا ہے اور خود محمد بن عبد الوہاب اور ان کے تلامذہ (جوکہ فقہ میں حنابلہ ہیں) ’قیاس‘ کے مخالف نہیں۔
البتہ زیر نظر مضمون میں ”ظاہریت“ نہ تو فقہ یا اصول فقہ کے سیاق میں موضوع بحث بنی ہے اور نہ ’قیاس‘ کی حجیت وعدم حجیت سے اِس کا کوئی تعلق ہے۔ یہ گفتگو مغربی مفکرین کی اٹھائی بحثوں کے سیاق میں ہو رہی ہے، جو اپنے یہاں اُن لوگوں کو literalist کہتے ہیں جو ’بائبل‘ کو اُس کے ظاہری معنیٰ میں لینے پرہی یقین رکھتے ہیں ۔ 'literalism' کے خلاف مغرب کے سدھائے ہوئے کچھ ’ذہین‘ طوطے وہی بولیاں یہاں ہمارے ہاں آکر بھی سنانے لگتے ہیں! جبکہ ہم جانتے ہیں (حالیہ دستیاب) بائبل میں ایسی ایسی نصوص پائی جاتی ہیں جن میں کہیں تو بے حد خطرناک اور بھیانک باتیں ہیں اور کہیں پر ایسی بے ہودہ باتیں جنہیں کوئی صاحب عقل تسلیم کر ہی نہ سکتا ہو (کیونکہ حالیہ دستیاب بائبل میں جگہ جگہ انسانی اضافے ہو چکے ہیں)۔ اِس لحاظ سے مغرب میں جن لوگوں کو ’مذہبی صحیفوں‘ کے حوالے سے ’ظاہری‘ (literalist) کہا جاتا ہے، وہ ایک بے حد مضحکہ خیز اور نامعقول اِمیج رکھنے والا طبقہ ہے۔ بائبل کے ماننے والے معاشرے اپنی’ معقولیت‘ بچا رکھنے کیلئے یہ نکتۂ نظر رکھنے پر مجبور ہیں کہ ’بائبل پر ایمان تو ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ اِس کی ہر نص سے جو بات نکل رہی ہو اس کو جیسے وہ ہے ویسے ہی مان لیا جائے‘۔ بائبل پر ایمان رکھنے والے معاشرے اِس بات کے متحمل ہی نہیں، سوائے ان میں سے ان literalist طبقوں کے جو عقل سے آخری حد تک دستکش ہونا قبول کرلیں۔ ’مذہبی صحیفوں‘ میں ’انسانی تحریف‘ ہو چکی ہو تو ’انسانی عقل‘ کو ”تاویل“ کے بغیر پھر کیا چارہ ہے؟!
البتہ ہم پر خدا نے اپنی نعمت کا اتمام فرما رکھا ہے، اور ہمیں اس کی نازل کردہ نصوص خالص حالت میں دستیاب ہیں، لہٰذا ہمارے منہج تلقی کا پہلا نقطہ ہی یہ ہے کہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات کو مِن وعن لینا ہے، اور اپنی عقل سے اُس کو ’درست‘ کرنے کی ہر جاہلانہ کوشش کو کفر اور الحاد جاننا ہے۔
لہٰذا واضح رہے، ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس کی گفتگو میں ”ظاہریت“ فقہ یا اصولِ فقہ کی بحثوں کے سیاق میں نہیں، جن کا تعلق ’قیاس‘ کے قبول وعدم قبول کے ساتھ ہے اور جوکہ ہمارے ائمۂ سنت کے مابین  ایک علمی و فقہی بحث کے طور پر معروف ہے۔ بلکہ ڈاکٹر جعفر کی اِس گفتگو میں ”ظاہریت“ ”عقائد“ اور ”افکار“ کی بحثوں کے سیاق میں ہے، جن کا تعلق ’تاویل“ کے قبول و عدم قبول کے ساتھ ہے اور جوکہ ہمارے ائمۂ سنت کے ہاں بالاتفاق مردود ہے ، نہ کہ صرف محمد بن عبد الوہابؒ کے ہاں۔ یہ ضرور ہے کہ اِن آخری صدیوں میں ”تاویل“ کے خلاف عالم اسلام میں جو جنگ لڑی گئی اور ”نصوصِ شریعت“ کی ہیبت قائم کروانے کا جو ایک معرکہ عالم اسلام کے اِس دور انحطاط میں لڑا گیا اُس کا علَم بالعموم ’وہابی‘ تحریک کے ہاتھ میں رہا، یہاں تک کہ اسلام کے عقائد اور احکام میں ”تاویل اور تحریف“ کے اندرونی وبیرونی رجحانات کے خلاف جنگ کرنے والے طبقوں کا لقب ہی ’وہابی‘ پڑ گیا۔ محمد بن عبد الوہابؒ کیلئے اِس سے بڑھ کر کیا شرف ہو سکتا ہے؟
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز