ہجری سالِ نو پر تہنیت کی حیثیت
جمع و ترتیب: محمد زکریا خان
ایقاظ بنیادی طور پر اُس طبقہ کو سامنے رکھ کر لکھا جاتا ہے جو یہاں پر مطلوب فکری و تحریکی وثفافتی موضوعات کو ایک ’طالب علمانہ‘ سطح پر لینے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ وہ سطح ہے جو ”علماء“ سے نیچے ہے تو ”عوام“ سے کچھ اوپر۔
”طالب علم“ ظاہر ہے وہ طبقہ نہیں جسکو __ فقہی معاملات میں __ بس ایک ہی رائے بتا دی جائے اور ’فتویٰ‘ سے آگاہ کر دیا جائے۔ یہ بات خاص طور پر اِس لئے بھی اہم ہو جاتی ہے کہ ایقاظ کا مخاطب کوئی ایک فقہی گروہ نہیں، بلکہ ”سنت“ سے متمسک وہ پورا دائرہ ہے جس میں متعدد فقہی مسالک فٹ ہوتے ہیں۔ ایک ”طالب علم“ کی ضرورت صرف یہی نہیں کہ ایک فقہی مسئلہ میں اُس نے کونسی یا کس کی رائے کو اختیار کیا ہے۔ اُس کیلئے یہ جاننا بھی اہم ہے کہ اُس کی اختیار کردہ رائے کے علاوہ بھی معتبر اہل علم کے ہاں کوئی دوسری رائے پائی جاتی ہے۔
سائل: اسلامی تقویم کے لحاظ سے جب نئے سال کا آغاز ہوتا ہے (یعنی محرم کے مہینے سے) تو سالِ نو پر مبارک باد دینا کیسا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ علماءکرام میں سے بعض نے سال نو پر مبارک باد دینے کو جائز قرار دیا ہے۔
جواب از: شیخ علوی بن عبد القادر سقّاف:
شیخ علوی حمدوثناءکے بعد فرماتے ہیں کہ مبارک دینے کی متعدد صورتیں ہوتی ہیں ۔ ایسے مباح امور جن سے ایک مسلمان خوشی اور مسرت پاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اُسے کوئی نعمت میسر آئی ہوتی ہے یا وہ کسی مصیبت یا آزمائش سے گزر کر کامیاب ہو جاتا ہے ۔ اس قسم کے امور جو کسی خاص دن یا وقت کے ساتھ مربوط نہیں ہوتے بلکہ عام مسلمانوں سے متعلق ہیں جیسے کسی کا نکاح سر انجام پاجاتا ہے یا کسی مسلمان کے ہاں ولادت ہوتی ہے یا وہ اپنی ملازمت یا تعلیم میں کامیاب ہوتا ہے تو اس قسم کے مواقع پر اپنے مسلمان بھائی کی خوشی میں شریک ہوتے ہوئے مبارک باد کہنے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے ۔ ان امور کا تعلق عبادات سے نہیں ہے بلکہ رسم و رواج سے ہے ۔ بنا بریں مباح امور کے حصول پر یا مصائب سے چھٹکارا پالینے پر کسی مسلمان کو مبارک باد دینا ’مباح ‘ کاموں میں سے ہے ۔
ایسی تہنیت جو مسلمان کی خوشی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے اُس پر تہنیت دینے والے کو ثواب بھی ملنے کی امید ہے ۔ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ مبارک باد دی تو باعث ثواب ہے اگر بد نیتی کے ساتھ دی تو اس کے لئے شر کا باعث ہے۔
چنانچہ کسی خاص دن کا تعین کیے بغیر مبارک باد کا تبادلہ یا تو مباح ہو گا یا پھر مستحب ۔
جہاں تک مخصوص دنوں کا تعلق ہے جیسے عید کے ایام ، سنہ ہجری کے آغاز پر یا کسی اسلامی مہینے کی آمد پر مبارک باد دینے کا تعلق ہے تو اس میں اہل علم کے ہاں تفصیلات پائی جاتی ہیں جن کا تذکرہ ہم اگلی سطور میں کریں گے ۔
(الف)عیدین، عید الاضحی اور عید الفطر پر مبارک باد دینا صحابہؓ کی کثیر تعداد سے ثابت ہے اس لئے عیدین پر مبارک باد دینے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔
سالِ نو پر مبارک باد دینا ، اس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔ اس مبارک باد کا تعلق سا ل میں پہلے روز مبارک باد دینے سے ہے ۔ مہینوں میں رمضان المبارک میں مبارک دینے کا مسلمانوں کے مابین عام معمول ہے ۔ رمضان المبارک کی آمد پر مبارک باد کہنے کی اصل تو کتب حدیث میں موجود ہے لیکن فتویٰ اس کے خلاف مشہور ہے ۔ جہاں تک کسی متعین تاریخ کے د ن تہنیت کو مذموم کہنے کا تعلق ہے تو یہ میلاد النبی اور شب ’معراج‘ سے متعلق ہے۔ ان جیسی تاریخوں میں مبارک باد دینا بدعت ہے اور اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے۔
شیخ سقّاف لکھتے ہیں کہ عیدین کے علاوہ مذکورہ بالا دیگر تمام مواقع پر مبارک باد دینا نبی علیہ السلام سے بھی ثابت نہیں ہے اور صحابہ کرامؓ سے بھی ثابت نہیں ہے۔ نبی علیہ السلام کی زندگی میں مذکورہ بالا تمام مواقع آئے تھے۔ آپ کی پیدائش اور معراج کا دن ، اسی طرح سال کا آغاز اور رمضان کی آمد وغیرہ۔ ظاہر ہے آپ کے سامنے ان مواقع پر مبارک باد دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور صحابہ کرامؓ بھی ایسے سست نہ ہو سکتے تھے کہ آپ کسی کام کو خود کرتے یا آپ کے سامنے ہوتا اور وہ اُسے امت تک روایت نہ کرتے۔ بنا بریں ان مواقع کا مکرر آپ کی زندگی میں آنا اور اس پر آپ کا مبارک باد نہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان مواقع پر تہنیت غیر مشروع ہے اور صرف عیدین پر ہی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
جہاں تک اسلامی سال کے آغاز پر تہنیت دےنے کا حکم ہے تو اہل علم کے ہاں اس مسئلے میں دو آراءپائی جاتی ہیں:
(الف) سال نو پر تہنیت کا تعلق رسم ورواج سے ہے اور اس سے عبادت مقصود نہیں ہے اس لئے یہ مباح ہے۔ شیخ محمد بن عثیمین فرماتے ہیں:
سال نو پر اگر کوئی شخص از خود مبارک باد دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کا سنت سے اس معنی میں کوئی تعلق نہیں ہے کہ لوگوں کو سال نو پر مبارک باد دینے کی ترغیب دی جائے۔ اگر کوئی تمہیں مبارک باد دے ہی دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب تمہیں کوئی شخص خود سے اس موقع پر مبارک باد کہے تو اسے بھی جواب کے طور پر کلمہ تہنیت کہنا چاہیے۔ جواب میں ایسے کلمات کہے جیسے آپ کے لیے خیر و برکت کی دعا ہے۔ شیخ عثیمین مزید فرماتے ہیں: سال نو کی آمد پر تمہیں بہر حال مبارک باد کی ابتدا ءنہیں کرنا چاہیے البتہ جواب میں مبارک باد دینا مباح ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ واقعہ یہ ہے کہ سلف صالحین کے ابتدائی دور میں تو یہ بھی طے نہیں پایا تھا کہ سال نو کا آغاز کس ماہ سے کیا جائے۔ خلفائے راشدین میں سے حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں اسلامی تقویم کے آغاز کو محرم سے ماننے کی تجویز دی تھی جسے سب نے تسلیم کر لیاتھااور اس وقت سے مسلمان سال کے آغاز کو محرم سے شمار کرتے آرہے ہیں۔ بنا بریں سلف صالحین سے محرم یا غیر محرم میں سال نو پر از خود مبارک باد دینے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
وہ فرماتے ہیں سال نو پر مبارک باد دینے کا تعلق رسم و رواج سے ہے اور عبادات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک اور وعظ میں شیخ عثیمین فرماتے ہیں کہ یہ درست نہیں ہے کہ ہم سال نو کو عید کی طرح ایک جشن کے طور پر منانے کی بدعت کریں ۔ یا سال کے آغاز پر تہنیت کا ایسا رواج پڑ جائے کہ مبارک باد دیے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہے۔
سال نو پر تہنیت کی اباحت پر بعض حضرات نے شافعیہ میں سے امام سیوطیؒ اور امام قمولیؒ کی تالیفات سے غیر منضبط کلام نقل کیا ہے اور اسی طرح فقہ حنبلی کے ائمہ میں سے ابو الحسن مقدسی کے کلام سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے۔ مذکورہ ائمہ کرام سے یہ مسئلہ ثابت ہی نہیں ہوتا اور دوسرا طوالت کی وجہ سے ہم ان سطور میں اس پر بحث نہیں کریں گے۔
(ب) سال نو پر تہنیت کے مسئلہ میں علمائے کرام کا ایک اور گروہ مطلق ممانعت کا قائل ہے۔شیخ سقّاف فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک بھی یہ دوسرا قول راجح ہے۔ معاصر علماءکرام میں سے شیخ صالح الفوزان ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ہمیں تہنیت کے مسئلے میں کوئی دلیل نہیں ملی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آغاز سنہ سے یہ مراد لینا کہ اسے خوشی کے تہوار کے طور پر منایا جائے درست نہیں ہے۔ گردش ایام تو محض اس لیے ہے کہ اس سے دنوں کا حساب لگایا جائے ۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب خلافت اسلامیہ کے حدود اربعہ میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھااور ان کے پاس جو دور دراز سے مراسلت آتی تھی اس پر تاریخ مندرج نہیں ہوتی تھی (کیونکہ ابھی یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پایا تھاکہ سال کا آغاز کس ماہ سے کیا جائے) اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے شوریٰ میں فیصلہ ہوا کہ اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم سے کیا جائے۔ شوریٰ کے اجلاس میں عیسوی تقویم سے عمداً صرفِ نظر کیا گیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ صحابہ کرامؓ عیسوی تقویم سے آگاہ نہیں تھے۔
شیخ علوی بن عبدالقادر کے جس مضمون سے مذکورہ بالا ترجمہ کیا گیا ہے اس میں ایک دوسرا سوال اس طرح ہے:
سائل: اگر ایام سال نو میں مجھے کوئی ایسا شخص ملتا ہے جو یہ کہے کہ کُلَّ عامٍ وَاَنتُم بِخَیر(آپ کے لیے سال بھر خیر کا متمنی ہوں) تو کیا ان الفاظ کے ساتھ تہنیت کو مشروع سمجھنا چاہیے یا نہیں ؟
شیخ علوی السقاف: نہیں، (تہنیت کے کلمات کہنا ) غیر مشروع ہے۔پھر فرماتے ہیں کہ اس فتویٰ کے لیے ملا حظہ فرمائیں: الاجابات المھمۃ فی المشاکل الملمۃ ص 229
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ تہنیت کی ممانعت کے راجح ہونے کی درج ذیل وجوہات ہیں ۔
(الف) سال نو پر مبارک باد کا تعلق خاص دن سے ہے اور عیدین کی طرح وہ ہر سال مکرر آتا ہے۔ اگر اس روز خوشی منانے کو درست قرار دیا جائے تو اس سے مسلمانوں کے خوشی کے تہوار میں اضافہ ہو جاتا ہے جو کہ نبی علیہ السلام کی ان تعلیمات کے خلاف ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی سنوی تہوار عید الاضحی اور عید الفطر کے علاوہ کوئی اور بھی ہوں۔
(ب) سال نو پر تہنیت کو مشروع قرار دینے سے یہود ونصاریٰ سے مشابہت ہوتی ہے جبکہ ہمیں یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہودیوں کی اپنی عبری تقویم ہے جس کا آغاز ماہ ’تشری‘ سے ہوتا ہے اور وہ اس روز خوشی مناتے ہیں اور یوم سبت کی طرح اس دن بھی تعطیل کرتے ہوئے یہودی کام کاج کو ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ عیسائی بھی سال نو پر خوشی مناتے ہیں جو عیسوی تقویم کے لحاظ سے اول ماہ کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے۔
(ج) سال نو پر تہنیت میں مشرکین عرب اور آتش پرستوں (مجوس) سے بھی مشابہت ہے۔ مجوس ’نیروز‘ (سال نو) پر خوشی مناتے ہیں جبکہ (ایام جاہلیت میں ) عرب کے مشرکین ماہ محرم میں اپنے اپنے سرداروں کو تہنیت دیا کرتے تھے۔ مصنف فرماتے ہیں کہ مزید مطالعے کے لیے ملاحظہ فرمائیں: قزوینی کی ’عجائب المخلوقات‘ اور ڈاکٹر سلیمان السحیمی کی کتاب الاعیاد و اثرھا علی المسلمین۔
(د) اگر سال نو پر تہنیت کو درست قرار دیا جائے تو ہم امت پر بہت سارے ایسے دروازے کھول دیں گے جس سے اجتماعی تہواروں کا سیلاب اُمڈ آئے گا۔ آغاز تعلیم پر تہنیت،امتحانات میں کامیابی پر تہنیت،یوم آزادی پر تہنیت ہمارے خیال میں ان دروازوںکو وہ اہل علم بھی کھولنے کی اجازت نہیں دیں گے جو سال نو پر تہنیت کی کسی نہ کسی صورت کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
اس قسم کی مشروعیت سے تجارت کے راستے بھی کھلتے ہیں ۔ کارڈ چھپنا،ایس ایم ایس سے تبادلہ تہنیت ہونا، اخبارات اور رسائل میں بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے تہنیت پر مبنی اشتہارات کی بھر مار ہونا، الیکٹرانک میڈیاکو ایسی خوشی کے تہوار کی کثرت پر شہوانی پروگرام چلانے کاموقع ملنا اور اس پر اشتہارات حاصل کرنا۔ سرکاری طور پر خوشی کے متعدد تہواروں پر تعطیلات سے مسائل میں گھرے ہوئے مسلمانو ں کو مشکلات میں اضافہ ہونا
جہاں تک مشروع قرار دےنے والے اہل فضل کی اس دلیل کا تعلق ہے کہ تہنیت کا مسئلہ رسم و رواج سے ہے، اس کے لیے یہ کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ بلکہ یہی بنیاد تہنیت کی ممانعت پر دلیل ہے کیونکہ اس طرح مسلمان عیدین کی طرح اسے ہر سال منانا اپنے اوپر لازمی کرلیں گے۔ ہمارے دین میں بعض معاملات ’سدذرائع‘کو ملحوظ رکھتے ہوئے ممنوع قرار دیے جاتے ہیں چاہے وہ عمل بذات خود مشروع ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا صحابہ کرامؓ کے زمانے میں سال نو بھی آتا تھا اور سال کا اختتا می دن بھی مگر ان سے کوئی تہنیت ثابت نہیں ہے اس لیے آغاز سنہ پر تہنیت کا غیر مشروع ہونا تو صحابہؓ سے ثابت ہوتا ہے لیکن اگر ایک مرتبہ آپ سال نو پر تہنیت کی اجازت دے دیتے ہیں جو کہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں دسیوں بار آیا تھا تو پھر قومی تہوار اور دوسرے وطن کی خدمات پر خراج تحسین دینے کے لیے خوشی منانا اور سرکاری تعطیل کا ہوناکیونکر درست نہیں ہوگا جبکہ ایسے جاہلی تہوار تو صحابہؓ کے زمانے میں آئے ہی نہیں تھے تو قومی تہواروں کا منانا بالاولیٰ مشروع ہو جائے گا ۔
(ھ) سال نو پر مبارک باد کی یوں بھی کوئی معنویت نہیں ہے۔ مبارک باد کسی نعمت کے حصول پر ہوتی ہے یا کسی مصیبت سے نجات پانے پر۔ وہ کون سی ایسی نعمت ہے جو محض گزشتہ سال کے گزر جانے پر اور نئے سال کے چاند کے طلوع ہونے کے ساتھ حاصل ہوجاتی ہے یا کوئی مصیبت تھی جو محض اس وجہ سے دور ہو گئی ۔ البتہ یہ ہوتا ہے کہ سا ل نو پر ہر ذی نفس اپنی عمر کے ایک حصے سے محروم ضرور ہوچکا ہوتا ہے!
بنا بریں سال نو پر تہنیت کا غیر مشروع ہونا زیادہ قرین قیاس اور درست طرز عمل ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
سائل: اسلامی سال کے آغاز پر تہنیت دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب از: شیخ سلمان بن فہد العودہ:
سال نو پر تہنیت کہنا مباح امور سے ہے۔ اس کی (شریعت کے لحاظ سے )بہتر صورت اس طرح ہے کہ اگر تمہیں کوئی سال نو پر مبارک باد کہے تو یا تو تم ویسے ہی کلمات جو اس نے کہے ہیں اُس پر لوٹا دویا اُس جیسے دوسرے اچھے کلمات اُس کے جواب میں کہو تاہم خود سے تہنیت کا آغاز نہیں کرنا چاہیے۔
شیخ سلمان العودہ لکھتے ہیں ! امام احمد بن حنبلؒ کا یہ طریقہ تھا کہ وہ عیدین پر مبارک باد کہنے والے کا جواب دیتے تھے اور خود کسی کو ابتداءکرتے ہوئے مبارک باد نہیں دیا کرتے تھے۔ میرے نزدیک امام احمدؒ کا طرز عمل سال نو کی تہنیت پر روا رکھنا درست ہے۔ عیدین پر مخصوص الفاظ سے تہنیتی کلمات کا شریعت سے ثبوت نہیں ملتا تاہم ہمارے حنابلہ کے ائمہ کرام اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ تقبل اللہ مِنّا ومِنک کے علاوہ دیگر الفاظ سے مبارک باد دینا بھی مباح ہے۔
شیخ سلمان العودہ فرماتے ہیں کہ سجدۂ شکر اور مرگ پر تعزیت کرنے کی طرح اس فعل کے عموم کو قیاس کیا جاسکتا ہے اور اس کا تعلق عام میل جول میں ایک دوسرے کا حال احوال سننے سنانے کے باب سے ہے۔ نبی علیہ السلام کی جناب میں صحابہؓ نے مبارک باد دی تو آپ نے اس سے منع نہیں فرمایا،اسی طرح رمضان المبارک کی آمد پر آپ سے خوشی پر مبنی مبارک کے کلمات ثابت ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں (صحیح بخاری حدیث4418)، (صحیح مسلم حدیث2769) اور رمضان کی آمد پر تہنیت کے لیے ملاحظہ فرمائیں (صحیح نسائی حدیث 2106)
اس کے بعد شیخ سلمان العودہ فرماتے ہیں کہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں سے بعض سے اس طرح کا عمل ثابت ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اس کی اجازت دی ہے۔ لکھتے ہیں کہ امام احمدؒ فرماتے تھے کہ میں خود سے آغاز نہیں کرتا مگر جب کوئی پہل کرے تو میں جواب (میں مبارک باد یعنی دعاء) دیتا ہوں۔
شیخ العودہ لکھتے ہیں کہ امام احمدؒ اس لیے جواب دیتے تھے کیونکہ ملاقات میں استقبالی دعاؤں کا جواب دینا سورت نساءآیت 86کے فرمان کی رو سے واجب ہے۔
شیخ سلمان العودہ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے تہنیتی کلمات کا بدعت سے تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ خوش اخلاقی پر محمول کیے جانے والے طرزِ عمل پر مبنی ہے۔ مزید برآں یہ مسئلہ عبادات کی اُس قسم میں شمار نہیں ہوتا جسے اہل علم’ محض عبادت‘ (خالص عبادات جیسے نمازاور حج وغیرہ)کہتے ہیں۔ (کہ ہم اسے ان امور کے زمرے میں دیکھیں جہاں عبادت کے کرنے یا از خود کسی عبادت کو رواج دینے یا کسی عبادت میں کمی یا بیشی کی بنیاد پر اُسے بدعت کہا جاتا ہے۔)
میرے نزدیک اس کا جواز ہی درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
سائل : افتوا تؤجروا، سال نوپرکلَّ عام و انتم بخیر یا وانتم طیبون جیسے تہنیتی کلمات کہنے کا کیا حکم ہے؟
جواب از: ڈاکٹر رشید بن حسن :
بعد حمد و ثناءکے فرماتے ہیں : دعاءکی نیت سے ان الفاظ سے تہنیت کہنے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ لفظ کلَّ میں لام پر زبر دے کر ’نصب‘ بولا جائے اس طرح یہ انشائی کلام ہو جائے گا اور اس سے صاف مقصود دعائیہ کلمات ہوں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ الفاظ پر زبر زیر لگانے سے معانی بدل جاتے ہیں اور اس سلسلے میں کتاب معجم المناھی اللفظیۃ مصنفہ ڈاکٹر بکر بن عبداللہ ابو زید کی تصنیف بیحد مفید ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ یہی قول شیخ عثیمین سے بھی ثابت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
سائل: ہجری سال کے آغاز پر تہنیت کا کیا حکم ہے؟
جواب از: عمر بن عبداللہ المقبل:
مبارک باد کہنے کا تعلق خوش اخلاقی اور رسم و رواج سے ہے اور ان جیسے امور میں اصل یہ ہے کہ مبارک باد کہنا مباح ہوتا ہے تاہم سال نوپر افضل یہ ہے کہ مبارک باد کہنے کی پہل نہ کی جائے کیونکہ یہ آپ کی سیرت سے ثابت نہیں ہے۔ دوسرا کسی کو لمبی عمر کی دعاءدینا ویسے ہی خوش بختی کی بات نہیں ہے ۔ خوش بختی تو یہ ہے کہ وہ کتنی ساعتیں ہیں جو کسی بندے نے اپنے رب کی اطاعت میں گزاری ہیں۔ ہاں اطاعت شعاری میں لمبی عمر کی دعاءخوش بختی ہے اور لمبی عمر معصیت میں گزرے تو بد بختی ہے۔ بلاشبہ وہ شخص بد بخت ہے جس نے لمبی عمر پائی اور اس کا عمل بد عملی سے عبارت تھا۔
ہاں اگر کسی کو کوئی مبارک باد کہے تو اس کی سرزنش نہ کرے بلکہ دعاءپر مبنی اچھے الفاظ سے اس کا جواب دینا چاہیے۔ جیسے جواب میں یہ کہنا کہ خدایا !سال رواں امت کے حق میں سرفرازی اور آبرومندی کاسال بنانا۔
واللہ اعلم بالصواب
الاسلام الیومwww.islamtoday.netکی ویب سائٹ پر شیخ عبدالکریم الخضیرسے یہ کلام نقل کیا گیا ہے ۔
از: شیخ عبدالکریم الخضیر :
مطلق دعائیہ الفاظ کے اظہار سے کسی مسلمان کا مقصود ملفوظ الفاظ کے ذریعے عبادت کرنا نہیں ہوتا جیسے عید کے تہوار پر دعاؤں پر مبنی الفاظ کی ادائیگی ہے۔ ایسے دعائیہ کلمات میں کچھ مضائقہ نہیں ہے جبکہ ان الفاظ سے نیت مخاطب کے نفس میں مسرت اور مودت پیدا کرنا ہو۔ امام احمدؒ اس مسئلے کی بابت فرماتے ہیں کہ میں خود سے پہل نہیں کرتا تاہم اگر کوئی مجھ سے تہنیتی کلمات کہتا ہے تو میں اس کا جواب دینے میں تردد نہیں کرتا اس لیے کہ تہنیتی کلمات کاجواب دینا واجب ہے ۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں : تہنیت کی ابتداءکرنا نہ مسنون ہے اور نہ ممنوع۔
واللہ اعلم بالصواب