ایک
نہایت خوب تحریر
’’رائٹ ونگ کے نوجوان لکھاریوں کو گیارہ مشورے‘‘
فرقے
ایک نہایت خوب تحریر۔ جزاک اللہ عامر ہاشم خاکوانی۔
اس پر
ہمارا ایک مختصر سا اضافہ:
معاصر ’’سیکولر نیریٹو‘‘ کو زیربحث لانے کےلیے سوشل میڈیا یا دیگر
فورمز پر دو اپروچ ہیں، اور دونوں اپنی اپنی جگہ ضروری:
ایک: اسلامی سیکٹر کی داخلی کھپت کےلیے لکھی جانے والی
تحریریں۔ یہاں سیکولرزم کا حکم کھل کر بیان کرنا ہی ضروری ہے۔ اگر یہ دینِ محمدﷺ پر کھلا حملہ ہے، اور مسلمانوں کے ہاتھ سے ان
کے دین کو چھڑوانے کی ایک برہنہ کوشش، تو پھر جو ردِ عمل ایک مسلمان کا
اپنے دین پر حملہ آور انسان کے مقابلے پر ہونا چاہئے وہ اس ردِ عمل سے کم نہ ہو گا
جو ایک عزت دار انسان کا اپنی آبرو پر حملہ آور انسان کے مقابلے پر ہو سکتا ہے۔
معاملہ کو دیکھنے کی یہ بھی ایک جہت ہے اور
اپنی جگہ برحق۔ اس کو ذرا دیر کےلیے ہم نام دے لیتے ہیں: اہلِ دین کے ہاں
’داخلی کھپت‘ کےلیے تیار کیا جانے والا تحریری یا تقریری مواد۔ ظاہر ہے اس کی
اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
دوسرا: فریقِ مخالف کے ساتھ مکالمہ یا
اس موضوع پر یہاں کے غیرجانبدار undecided طبقہ کو اپنا کیس
پیش کرنے کےلیے لکھا جانے والا مواد۔ یعنی ایک
طرح سے ’بیرونی کھپت‘ کےلیے لکھا یا بولا جانے والا مواد۔ یہ بھی اب ایک بے
انتہا اہم جہت ہے، اور بعض پہلوؤں سے اول الذکر سے بھی زیادہ اہم۔ برادرم عامر ہاشم خاکوانی کے گیارہ مشوروں کا تمام تر تعلق میرے
نزدیک اس دوسری ضرورت سے ہے۔ اور اِس دائرہ میں ان کی تحریر کا ایک ایک حرف
میری نظر میں لائق توجہ ہے۔
البتہ ان دونوں دائروں کا فرق نظرانداز کردینا بھی نقصان دہ
ہو گا۔ بلکہ شدید نقصان دہ۔ یہ ایسے ہی ہو گا جیسے
§
ایک صحتمند آدمی کو بھی ہر وقت آپ پرہیزی غذا کا ہی پابند
رکھیں!
§
یا ایک مکمل صحت نہ رکھنے والے شخص
کےلیے بھی مرغن اشیاء روا کر دیں!
اول الذکر دائرہ کے کچھ اپنے لہجے ہوں گے۔ جبکہ ثانی الذکر
دائرہ کےلیے عامر خاکوانی صاحب کے تجویز کردہ لہجے ہی ناگزیر رہیں گے۔
یہ ایسے
ہی ہے جیسے بھارت کی معلوم و ناقابل انکار زیادتیوں کی بابت ایک لہجہ وہ ہے جو
’’پاکستانی میڈیا‘‘ یا پاکستانی نصابوں‘‘ کے اندر پاکستانی قوم کو خطاب کرتے ہوئے
اختیار کیا جائے گا۔ یہاں لوگوں کو ’فلسفی‘ بنانا قوم کو کھو دینے کے مترادف ہو گا
(اور صرف فارغ ذہنوں کے وارے کا ہو گا)۔ یہاں (داخلی سطح پر) رائے کی دلجمعی اور
یکسوئی ہی درکار رہے گی۔ (یہاں اگر کوئی غلطی یا زیادتی ہے تو وہ قوم کے سیانوں کے
سامنے رکھی جائے گی۔ البتہ قومی سطح پر ایک یکسوئی پیدا کرا رکھنا ہر ترجیح سے بڑی
ترجیح رہے گی، داخلی سطح پر)
البتہ بھارت کی زیادتیوں کو ثابت کرنے پر ایک لہجہ وہ ہو گا
جو آپ کو ’عالمی برادری‘ کے سامنے اختیار کرنا ہوتا ہے۔ یہاں؛ ظاہر ہے
وہ لہجے جو قوم کو یک آواز کرنے کےلیے داخلی طور پر اختیار کیے گئے تھے یکسر
غیرمتعلقہ و غیرمفید ہو جائیں گے؛ بلکہ الٹا
اثر رکھنے والے counter-productive۔
فَلِکُلِّ مقامٍ مقالٌ،
وَلِکُلِّ حادثٍ حدیثٌ۔
پوری تحریر
اس لنک سے پڑھئے: (رائیٹ ونگ کے نوجوان لکھاریوں کو گیارہ مشورے http://goo.gl/8YUGr6 )۔ ذیل میں اس کے چیدہ اقتباس
دیے جاتے ہیں:
اسلامسٹ بمقابلہ سیکولرازم کا معرکہ ٹی ٹوئنٹی
میچ ہرگز نہیں، اسے ون ڈے بھی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ یہ کرکٹ کی اصطلاح میں ٹیسٹ میچ
ہے۔ طویل دورانیے کا کھیل ۔ جس میں دو تین باتیں اہم ہیں۔
اے: اس میچ نے جلدی ختم نہیں ہوجانا۔ لمبا معرکہ
ہوگا۔ یہ قسطوں میں لڑی جانے والی جنگ ہے،
باربار غنیم کے لشکر امنڈ امنڈ کر آئیں گے۔ ہر بار تلوار سونت کر لڑنا پڑے گا۔ انداز بدلتے رہیں گے ، سپاہیوں کے چہرے تبدیل ہوں
گے، مگر اہداف وہی ہیں ۔ جانے پہچانے، دیکھے بھالے۔ اس محاذ کا رخ کرنے
والے سوچ سمجھ کر میدان میں اتریں۔ نظریاتی جدوجہد
بعض اوقات مختلف فیز میں لڑی جاتی ہے۔ ہم سے پہلوں نے اپنے انداز میں یہ معرکہ
لڑا۔ اب ہمارے زمانے میں اور ہم سے بعد میں یہی مسائل، مکالمے اور مجادلے چلتے
رہیں گے۔
بی: ٹیسٹ میچ میں جلدبازی اور عجلت کے بجائے کھلاڑی
کی محنت، تکنیک اور مہارت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ فکری مکالمے میں بھی یہ چیزیں
اتنی ہی اہم ہیں۔ اچھی طرح تیاری کر کے، سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا چاہیے۔
سی: بہتر ہو گا کہ لکھنے والے اپنے اپنے کام کا تعین
کر لیں۔ جیسے کرکٹ ٹیم میں کسی کا کام باؤلنگ، کوئی بلے باز اور ایک وکٹ کیپر ہوتا
ہے ۔ ہر ایک کی سپیشلیٹی ہوتی ہے۔ بیانیہ کی جنگ میں مل جل کر بھی کام ہوسکتا ہے ۔
جسے تحقیق میں دلچسپی ہے، وہ حوالہ جات پر محنت کرے اور اس اعتبار سے مواد سامنے
لے آئے ، کسی کو سوالات اٹھانے میں مہارت ہے، وہ اس طرف کا رخ کرے، کسی کا ہنر
مرصع نثرلکھنا ہے تو وہ اس پر ہی فوکس کرے، مغربی لٹریچر سے رسائی رکھنے والوں کو
اس اینگل کو کور کرنا چاہیے۔
*****
سیکولرفکر کے بیشتر علمبرداروں کو آپ دلیل سے
قائل نہیں کر سکتے۔ یاد رہے کہ قائل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اگلا قائل ہونے پر
آمادہ ہو۔ جس نے طے کر رکھا ہو کہ مابعدالطبعیات کچھ نہیں اور صرف مادہ ہی سب کچھ
ہے، اسے آپ مذہب کی اہمیت پر کیسے قائل کر سکتے ہیں؟ جو روز آخرت پر ہی یقین نہ
رکھتا ہو، سرے سے خدا یا اس کے پیغمبر کے وجود ہی پر اسے شک ہو، اسے کس طرح الہامی
دانش کا پیروکار بنایا جا سکتا ہے؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ سیکولر سوچ رکھنے والے
تمام ایسے ہوتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ
ایشو نہیں۔ وہ کسی بھی دوسرے مذہبی شخص کی طرح کی سوچ رکھتے ہیں، ان میں سے بعض
ردعمل میں سیکولر ہوئے، کچھ کو مذہبی جماعتوں یا بعض تنگ نظر مولوی صاحبان کی شدت
اور بے تدبیری اس جانب لے آئی، ایسے بھی بہت ہیں جو داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی
جیسی تنظیموں کی متشددانہ پالیسیوں، لوگوں کو زبح کرنے اور سروں سے فٹ بال کھیلنے
جیسی ویڈیوز دیکھ کر مذہب کا نام لینے والے ہر ایک گروہ سے متنفر ہوگئے۔ سیکولر
سوچ رکھنے والوں میں یہ تمام شیڈز موجود ہیں، مگر سیکولرازم کی خالص علمی بنیادیں
الحاد اور مذہب بیزاری پر استوار ہیں، اس لئے ان سے زیادہ دیر بچا نہیں جا سکتا۔
سیکولروں کی ہارڈ کور کو
متاثر یا قائل نہ کرسکنے کے امکان کے باوجود یہ مکالمہ جاری رکھنا ہوگا، اسلامی
بیانیہ پوری صراحت اور گہرائی کے ساتھ تشکیل دینا ہوگا۔ ہدف وہ لوگ ہیں جو ابھی
درمیاں میں ہیں، سوئنگ ووٹرکی طرح سوئنگ پیروکار بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ ابھی کسی
جانب نہیں گئے، وہ لوگ جوکسی وجہ سے سیکولر ہوگئے ، مگر وہ مذہب کی حقانیت کو
تسلیم کرتے ہیں، انہیں چند کامن پوائنٹس پر قریب کیا جا سکتا ہے ۔ وہ لوگ بھی جو
مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، رائٹسٹ ہیں، مگرانہیں دوسروں سے بات کرنے کے لئے
دلائل کی ضرورت ہے۔ ان کی یہ کمی، ضرورت رائٹسٹ لکھاریوں کو پوری کرنا ہے۔
*****
اسی طرح جاوید غامدی صاحب کا یہ تصور کہ ریاست
سیکولر ہو، حکومت البتہ مسلمان ہوگی، یہ بھی آخری تجزیے میں سیکولرسٹوں کو سپورٹ
کرتا ہے۔ جناب غامدی اور ان کے ذہین تلامذہ کی فکر ایک خاص سٹیج پر جا کر سیکولر
فکر کے ساتھ ہی جا کر کھڑی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ غامدی صاحب کے
بیانیہ پر کبھی سیکولر تنقید نہیں کریں گے، انہیں سوٹ جو کرتا ہے ۔ غامدی صاحب پر
ہمیشہ اسلامسٹوں کی طرف سے تنقید،اور جوابِ بیانیہ دیا جاتا ہے۔
*****
(نہایت
قابلِ توجہ، ایک پوری گائڈلائن):
’’دانستہ طور پر رائیٹسٹوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
۔ انہیں معلوم ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے مابین ماضی میں مسائل رہے ، تو
ان نکات کو بار بار اٹھایا جائے گا۔ جماعت اسلامی والوں کو الجھانے کے لئے تقسیم
کے وقت مولانا مودودی کی آرا کا مسئلہ چھیڑا جائے گا، کبھی جماعت کی مسلم لیگی
مخالفت پر سوال ہوگا، کبھی کسی اورایشو کو چھیڑ دیا جائے گا۔ اس کا صاف جواب دینا
چاہیے کہ یہ سب ماضی کے ایشوز ہیں۔ بنیادی نقطہ یہی ہے کہ کیا پاکستان اسلامی ریاست ہو یا سیکولر؟ اسلامی نظام آنا چاہیے یا سیکولر
نظام؟ ہماری اخلاقی نظام کی بنیاد مذہب پر ہونی چاہیے یا پھر اس اخلاقیات کی تشکیل
ہر ایک خود کرتا پھرے۔ ان بنیادی سوالات پر بحث مرکوز رکھنی چاہیے، نان ایشوز میں
الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اپنی توانائیاں ادھر صرف نہ کی جائیں۔ ہر حلقہ فکر کی
طرح رائیٹ ونگ میں فالٹ لائنز موجود ہیں، انہیں ایکسپوز کرنے سے گریز کریں۔ آپس
میں لڑنے کے بجائے اصل مدعے کی طرف توجہ رکھیں۔ اس کی زیادہ اہمیت ہے۔ اجر بھی اسی
کا ملنا ہے۔ یہ اپنی مسلکی، جماعتی شناخت سے اٹھ کر دین اسلام کے لئے فکری جدوجہد
کرنے کا وقت ہے‘‘۔
*****
نہایت احترام کے ساتھ ابوالکلام آزاد کو بھارتی
سیکولرسٹوں کے لئے چھوڑ دیجئے۔
*****
پاکستانی تناظر میں علامہ شبیر احمد عثمانی کا
ماڈل ہی قابل قبول ہوگا۔ حضرت علامہ حسین احمد مدنی کے تمام تر احترام کے باوجود
ان کا ماڈل بھارتی ماڈل ہے، ایک ایسے معاشرے کا جہاں کثیر المذاہب لوگ رہتے ہوں،
جہاں مسلمان اکثریت میں نہ ہوں۔ سیکولرازم کا مطالبہ وہیں ہوسکتا ہے۔
*****
مایوس ہونے یا ہمت ہار
دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامسٹوں کی جدوجہد اور نوعیت کی ہے۔ پاکستان میں اللہ کے فضل سے
اسلامسٹوں نے بہت اہم آئینی جنگیں جیتی ہوئی ہیں۔
دستور پاکستان سے قرار داد مقاصد یا ملک سے اسلامی لفظ ہٹانا، یا پھر توہین رسالت
قانون میں ترمیم وغیرہ ، یہ سب سیکولرسٹوں کا
ایجنڈا ہے، مایوسی اور فرسٹریشن ہر بار انہی کے حصے میں آتی ہے۔ ریاست کو سیکولر
بنانے کا خواب وہی دیکھ رہے ہیں،اس کی فکر بھی انہیں ہی ہونی چاہیے۔ رائیٹ ونگ نے تو جو کچھ حاصل کرنا تھا بڑی حد تک کر لیا،
اب فوکس آئین پر عملدرآمد کرنے اور اسلامی معاشرے کے قیام پر کرنا چاہیے ۔ دعوت، تعلیم ، تربیت کا جوکام انفرادی،
گروہی یا جماعتوں کی حد تک ہوسکتا ہے،
وہ کیا جائے، حکومت میں آ کر ریاستی وسائل کی مدد سے کچھ کرنے کے مواقع جب
ملیں تو ایسا کیا جائے ، نہ مل سکیں تو کم از کم پریشر گروپس کا کردار ادا کرتے
رہنا ہوگا۔