عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Sunday, November 24,2024 | 1446, جُمادى الأولى 21
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ریپ کی سزا کے لئے چار گواہ! حقیقت کیا ہے؟
:عنوان

تو پھرشکایت ہے کیا؟ شاید غصہ اس بات کا ہے کہ چار ثقہ گواہوں کے سامنے انہیں زنا کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ یا شاید شکایت یہ ہے کہ زنا بالرضا پر سزا کیوں ہے؟ حالانکہ ان کے مطابق سزا دینے کی شرائط پوری ہی نہیں ہ

:کیٹیگری
ابو زید :مصنف

ریپ کی سزا کے لئے چار گواہ! حقیقت کیا ہے؟

ابوزید

 abuzaid@eeqaz.org

 

آج کل بہت شور ہے کہ اسلامی قانون کے مطابق زنا بالجبر کی صورت میں مجرم مرد کو کوئی سزا دی نہیں جاسکتی۔ زنا کی سزا کے لئے چار گواہ ہونا ضروری ہے اور ظاہر بات کہ زنا یاریپ کرنے والا خواہ مخواہ چار گواہوں اور وہ بھی ثقہ گواہوں کے سامنے عورت کی آبرو ریزی نہیں کرے گا۔ویسے تو یہ بات بہت پہلے سے مختلف فورموں میں کہی جارہی تھی ۔ حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے طرف سے جب یہ فیصلہ سنایا گیا کے ڈی این اے کا ثبوت زنا کی سزا کے لئے صرف ثانوی شہادت کے طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔ یہ فیصلہ کیا سنایا گیا کہ ملاؤوں کےخوب لتے لئے گئے۔ اسلام کو سائنس مخالف قرار دیا گیا اور سائنس کی واجبی معلومات رکھنے والے بھی تھوڑی دیر کےلیے سائنس گردی پر آمادہ ہوگئے۔

ریپ کی سزا کے مسئلے کو جن بنیادوں پر اُچھالا جاتا ہےاس میں کچھ بنیادی غلطیاں ہیں۔

اسلام اور موجودہ مغربی نظام کے بنیادی تصورات میں اتنا فرق ہے کہ بعض دفعہ اسلام کے پیش کردہ ان بہترین اصولوں کو جسے ہر ذی شعور تسلیم کرے گا مغرب کے نکتۂ نظر سے پیش کیا جاتا ہے تو اس میں بہت بڑی زیادتی نظر آتی ہے۔

بنیادی طور اسلام میں انصاف و سزا کے نظریے میں ہی فرق ہے۔ اسلام اس دنیا کو ایک جائے آزمائش کے طور پر پیش کرتا ہے جس میں انسانوں سے بطور فرد یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنی استعداد بھر خیر کے کاموں میں لگے رہیں اور شر سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں۔ اجتماعی طور پر جو احکامات دیے جاتے ہیں ان کا ایک بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ عام انسانوں کے لئے ایک ایسے موحول کی ترویج ہو جس میں ان کےلئے خیر اور بھلائی کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ آسانی ہو اور شر کی طرف مائل کرنے کے اجتماعی عوامل اور مظاہر کو دبا دیا جائے۔انسان کی اخلاقی اور روحانی شخصیت کی ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کی جائے ۔ انسانی مشاہدات اور تجربات سے یہ بات طئے شدہ ہے اور ہر ذی شعور شخص اس بات کو تسلیم کرے گا کہ اس دنیا میں مکمل عدل قائم نہیں ہوسکتا چاہے حکومت کتنی ہی مخلص ہو۔ دنیا میں سزا دینے کے لئے ثبوت اور گواہ درکار ہوتے ہیں جو کہ ہر صورت میں میسر نہیں ہوتے۔ویسے بھی اسلام حکومتوں سے اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ایک ایک فرد کی زندگی میں گھس کر ان کے جرائم اور گناہوں کا پتہ کرنے کی کوشش کرے۔ بلکہ صرف ان جرائم پر پکڑ کی ہدایت کرتا ہے جو معاشرے میں محسوس کئے جاتے ہیں۔انسانی ضمیر جس مکمل عدل کا تقاضا کرتا ہے اس کی جگہ آخرت ہے جبکہ رب العالمین کے سامنے ہر ہر فرد اپنی نیتوں، اپنے اعمال اور اپنی سوچوں کے ساتھ عریاں ہرکرسامنے آجائے گا۔مختصراً یہ ہے کہ اسلامی نکتۂ نظر سے دنیا میں سزا و قانون کا بنیادی مقصد اچھے اعمال کی ترویج کے لئے مثبت اور صحت مند ماحول فراہم کرنا ہے۔ فی نفسہ سزا دینا ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔

سیکولر نکتۂ نظر انسانی اجتماعی مسائل میں خدا اور آخرت کے کسی کردار کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لئے سیکولر نظام میں سزا دینے کا مقصد فی نفسہ انصاف کو قائم کرنا بھی ہوتا ہے۔ اس نظام کے تحت انسان اپنے لئے ایک ایسا مقصد مقرر کرتا ہے جو کہ کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر انسان یہ جان کر بھی کہ وہ عالم الغیب نہیں ہے اپنے آپ کو یا حکومت کو خدا کی پوزیشن میں رکھ دیتا ہے۔

چونکہ انسانی ضمیر عدل و انصاف کا تقاضا بھی کرتا ہے اور اس دنیاوی نظام میں اس تقاضے پر عمل کرنا ممکن بھی نہیں تو عملاً سیکولر نظام انصاف اپنے آپ میں خود ایک تناقض پیدا کرتا ہے اوراس تناقض کو مختلف قسم کے اصول و قوانین کی پیوند کاری سے برابر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نتیجتاً قوانین میں ایسے جھول پیدا ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صحیح معنوں میں عدل قائم ہو پاتا ہے اور نہ ہی جرائم کی ترویج پر قدغن لگ پاتی ہے۔ بے بہا دنیاوی وسائل، سائنسی ترقی اور سیاسی استحکام کی وجہ سے سیکولر مغربی ریاستوں میں اس تناقض کے منفی اثرات کو دبا دیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے مغرب کے سیاسی استحکام میں کمی آتی جائے گی معاشرے میں اس کے اثرات بھی نظر آنے شروع ہوجائیں گے۔

مغربی اصول کے مطابق زنا اگر باہمی رضامندی سے ہو تو ایک جائز عمل ہےجبکہ ریب انتہائی گھناؤنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہاں واضح ہو کہ ریپ کے واقع ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ زنا ہو بلکہ صرف "بالجبر" ہونا کافی ہوتا ہے (۱)۔ یعنی اگر میاں بیوی کے درمیان تعلقات میں بھی اگر جبر ہو تو وہ بھی اسی سطح کا گھناؤنا جرم سمجھا جائے گا جسے ریپ کہتے ہیں۔ اور ویسے مغرب کے آزادی پسند معاشرے میں مساوات اور آزادی کے نام پر خودسری سکھائی جاتی ہےاس لئے بیوی کے لئے بھی "رضامند" نہ ہونے کے تحریک خود سے مغربی تعلیمات موجود ہوتی ہیں۔ مغرب کے ہاں زنا بالرضا کو غلط جبھی سمجھا جاتا ہے جب رضامندی سے زنا کرنے والوں میں سے کوئی ایک یا دونوں شادی شدہ ہوں۔ اس کو غلط سمجھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں خطاکار کو اپنے شوہر یا بیوی کو دھوکہ دینے والا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ خطا بس اتنی ہی بڑی سمجھی جاتی ہے کہ اس صورت میں زیادہ سے زیادہ جو چیز ہوسکتی ہے وہ طلاق ہے۔زنا کو معاشرتی برائی سمجھنے کا کوئی تصور موجودہ مغربی معاشرے میں مفقود ہے۔

مغرب کی تصور آزادی میں عورت کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ مرد کو جتنا چاہئے جنسی اُکساوے فراہم کرے لیکن ایک خاص حدود پار کرنے کے بعد مرد ریپ کا قصور وار ٹہرا دیا جاتا ہے۔بلکہ مغربی معاشرے میں ایسی صورت حال بکثرت فراہم کی جاتی ہے کہ عورت جب چاہےکسی کو جنسی اکساوے فراہم کرے اور پھر اس پر آسانی کے ساتھ "ریپ" کا الزام دھر دے۔ اس ریپ کا ثابت ہونا اور نہ ہونابعد کی چیز ہوتی ہے۔ لیکن جب تک عدالتی فیصلہ نہ آجائے ریپ کے الزام کی وجہ سے اسے جو بھی بھگتنا ہے وہ بھگت سکتا ہے۔ عورت کواس کی کھلی آزادی ہے کہ وہ جب چاہے الزام لگادے۔ (۲)

اسکے بالمقابل اسلام زنا کو ہی بہت بڑا گناہ قرار دیتا ہے، اتنا بڑا کہ چار گواہوں کے میسر آنے کی صورت میں ایسی سخت سزا تجویز کرتا ہے کہ جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اسلامی معاشرتی نظام میں نکاح میں آسانی اور زنا پر قدغن بہت ہی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس اعتبار سے موجودہ مغرب اور اسلام کے بنیادی معاشرتی اصولوں میں جوہری قسم کا فرق ہے۔یہ بحث کہ کسی معاشرے میں زنا کی اجازت اور ترویج دینے کے فوری اور دور رس اثرات کیا ہو سکتے ہیں اور آیا مجموعی طور پر یہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے مناسب ہے یا نہیں ایک خالص عمرانیاتی موضوع ہے اور اس مختصر مضمون میں اس پر تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔

اگر کسی کو اسلام کے قانون و سزا کے بنیادی تصور پر ہی اعتراض ہے یا کسی کو زنا کی حرمت پر ہی اعتراض ہے تو پھر اسے صرف اس بنیادی تصور پر بحث کرنی چاہئے بجائے یہ کہ ریپ کی سزا کو زیر بحث لاکراسلام کو ایک ظالمانہ مذہب ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ یہاں پرمسئلہ یہ بھی ہےکہ پورے پس منظر کو سمجھے بغیر عمرانیات کے انتہائی پیچیدہ مسئلے کو علم ریاضی کے کسی فارمولے کی طرح سے حل کرنے والے الیکٹرانک میڈیا میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور ٹی وی پروگراموں میں آسانی سے میسر بھی آتے ہیں۔

اسلام میں ریپ پر جو اتنے سوالات اُٹھائے جاتے ہیں اسکے پیچھے مغرب کی جو فکر کار فرما ہے وہ یہ ہے:

۱۔ قانون و سزا کا بنیادی مقصد اس دنیا میں انصاف قائم کیا جانا ہے جب کہ اسلام کا تصور یہ ہے کہ سزاؤوں کے ذریعے انسانوں کو عبرت دلا کر ایک صحت مند ماحول فراہم کرنا ہے ۔(۳)

۲۔ باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات جائز ہیں قطع نظر اس سے کہ دو افراد کے درمیان نکاح ہوا ہے یا نہیں، بلکہ اس کے لئےدونوں کا صنف مخالف ہونا بھی شرط نہیں ہے۔ اس میں غلط چیزجبر کا ہونا ہےبھلے دونوں افراد میاں بیوی ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ اسلام کا تصور یہ ہے کہ زنا چاہے وہ باہمی رضامندی سے ہی ہوا ہو معاشرتی استحکام پر بہت بڑی جرأت ہے اور اس قسم کے عمل کا ظاہر ہونا اور ترویج پانا اسلامی معاشرے پر بہت بڑا حملہ ہے۔ اس میں "جبر" کا اضافہ یقیناً اس کو مزید سنگین کردیتا ہے۔ لیکن صرف "جبر" والے عنصر پر فوکس کرنا زنا جیسے جرم کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش ہے۔

۳ ۔مساوات اور فرد کی آزادی مغرب کے معاشرتی تصورات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے(۴)  اس لئے ریپ اور اس جیسے جرائم کو روکنے کے لئے مغرب کسی ایسی احتیاط کا قائل نہیں جس میں فرد کی آزادی پر قدغن لگے یا مرد اور عورت کے معاملے میں کہیں پر کوئی تفریق کی جائے۔ان وجوہات کی بناپر جرائم کو ہونے سے پہلے روکنے کی کوشش کرنا اور جرائم کے اکساؤوں پرپابندی لگانا تقریباً ناممکن ہے۔اسلامی تعلیمات کا پورا زور ایک صحت مند معاشرہ فراہم کر کے جرائم کے انسداد پر ہے اور اس کی خاطر آزادی اور مساوات جیسے مبہم اور مہمل تصورات اسلام کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتے۔

۴۔ مغرب کے معاشرے چاہے وہ اشتراکیت کے زیر اثر ہوں یا سرمایہ داری کے، ان کا محور معاشیات ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کے ہاں سیاسی اور معاشرتی نظریات بھی پائے جاتے ہیں لیکن معاشرے کو متحرک رکھنے کا بنیادی عنصر معیشت ہی ہے ۔ سرمایہ داروں کے لئے آزادی اور مساوات جیسے مبہم تصورات کو اپنے معاشی فائدے کے لئے استعمال کرنے کی پوری آزادی ہوتی ہے۔ نتیجتاً افراد کے اندر پائے جانے والے جنسی زور اور تحریک کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے جس کے کئی دور رس اور غیر محسوس اثرات پیدا ہوتے ہیں۔مغربی فکر اس طرح کے استحصال کو روکنے کے لئے کوئی بنیاد فراہم نہیں کرسکتی۔ اس کے بالمقابل اسلام کا اجتماعی نظام خدا سے تعلق اور خاندانی نظام کے گرد گھومتا ہے۔ اسلام میں ایسی کسی معاشی سرگرمی پر پابندی لگانا آسان ہے جو اسلام کے معاشرے کی بنیادوں پر حملہ آور ہوجائے۔

یہ تو رہے وہ بنیادی مباحث جس کی وضاحت ضروری تھی۔ لیکن ہمارا معاشرہ کوئی مکمل اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر جو نظام نافذ ہے اس میں کہیں نہ کہیں اسلام کا نام بھی آجاتا ہے۔ سیکولر نظام کے باوجود عوامی سطح پر پائے جانے والے تھوڑی بہت اسلامی شعور کے نتیجے میں معاشرے میں جو کشمکش پیدا ہوتی ہے اس کا پورا ملبہ اسلام پرگرایا جاتا ہے۔سیکولر اثرات کی وجہ سے حکومتی سطح پر انسداد جرائم تو مشکل ہے لیکن عوامی سطح پر اسلام کے ساتھ پایا جانے والا لگاؤ اور تحریکی سطح پر پیدا کردہ شعور ہی اسلام کی باقیات کے طور پر معاشرے میں پائےجاتے ہیں ۔ یعنی اسلام تو ہے لیکن یہ قوت نافذہ کے بغیرصرف رضاکارانہ حیثیت سے ہے۔ ایسے میں اسلام کے پورے فلسفۂ قانون و سزا کا بیان کرنا اصل مسئلے کا جواب نہیں ہے۔

آجا کر سوال پھر بھی اپنی جگہ پر رہتا ہے کہ کیا پاکستانی یا اسی قسم کے سیکولرزم اور اسلام کے ملغوبہ معاشرے میں اگر کہیں ریپ جیسا جرم ہوجائے تو اس جرم کی شکار عورت کو چار گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں سزا دی جائے گی؟ ویسے عملاً کبھی ایسا ہوا تو نہیں، لیکن زنا کی حد کے قانون کی نشاندہی کر کے بار بار یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ریپ کی صورت میں لٹی پٹی مظلوم عورت ہی قانون قذف کے تحت سزا کی مستحق مانی جاتی ہے اور اصل مجرم کو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔

یہ ایک جھوٹ ہے جو بہت اور باربار پھیلایا گیا ہے۔دراصل وہ لوگ جو زنا کے جرم میں سنگسار اور کوڑوں کی سزا کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں وہ کسی طرح زنا اور ریپ کو ملا کر اسلام کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بقول مولانا تقی عثمانی: سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے سترہ سالہ دور ملازمت میں آج تک کسی عورت کو ریپ کا الزام لگانے کی وجہ سے سزا نہیں دی گئی۔ بلکہ حدود آرڈیننس قانون کے تحت ایسی کوئی شق موجود ہی نہیں ہے۔ حدود آرڈیننس سیکشن ۱۰ کے تحت اگرکوئی عورت ریپ کا الزام لگائےاور چار گواہ نہیں لاسکے، لیکن اس جرم کو ثابت کرنے کے لئے سائنسی، میڈیکل اور واقعاتی شہادتیں موجود ہوں تو مجرم کو تعزیری سزا دی جاسکتی ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک ہوسکتی ہے۔اس کی وضاحت کے لئے مولانا تقی عثمانی کی ویڈیو ملاحظہ کریں۔

http://www.youtube.com/watch?v=-TLn06fZ4lQ

مزید وضاحت کے لئے مشہور عرب عالم محمد بن صالح المنجد کا یہ فتوی پڑھیں۔

http://www.islamqa.com/en/ref/72338/

اس فتوی میں درج ہے کہ بقول امام ابن عبد البرؒ۔۔:

علماء کے درمیان اجماع پایا جاتا ہے کہ اگر حد کی شرائط پوری ہوجائیں یا مجرم خود اعتراف کر لے تو زبردستی زنا کرنے والے پر حد نافذ ہوگی۔ اور اگر حد کے شرائط پورے نہیں ہوتےتو اس کو دوسری سزا دی جائے گی ( یعنی قاضی کو حق حاصل ہے کہ اس کو دوسری ایسے سزا دے جس سے سبق حاصل کر کے وہ خود اور دوسرےلوگ اس قسم کے جرم کی جرأت نہ کر سکے)۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کے ساتھ زبردستی کی گئی تھی جو کہ اس کے چیخنے یاشور مچانے سے معلوم ہوسکتا ہے تو عورت پر کوئی سزا نہیں ہوگی۔ الاستدراک ۷/۱۴۶

اسی فتوی میں آگے لکھا ہے کہ اگر زنا بالجبر کے معاملے میں ہتھیاروں تک کا استعمال کیا گیا ہو تو مجرم کو محارب مانا جائے گا اور اسکے ساتھ سورہ مائدہ کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق معاملہ کیا جائیگا۔

جو لوگ خدا اور اسکے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا انکے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں یہ تو دنیا میں انکی رسوائی ہے اور آخرت میں انکے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے

تو قاضی صورت حال کے پیش نظر مندرجہ بالا آیت میں مذکور چار سزاؤوں میں جو بھی موقع کے حساب سے مناسب سمجھے دے سکتا ہے۔

اس کلام کا خلاصہ یہ ہے:

اگر زنا بالجبر کی سی صورت حال پیدا ہواگئی، تو مندرجہ ذیل میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے:

۱۔ زنا کی حد قائم کرنے کی شرائط پوری ہوجائے تو اس پر حد نافذ ہوگی۔

۲۔ زنا کی حد قائم کرنے کی شرائط پوری نہ ہوں۔ لیکن یہ ثابت ہوجائے کہ مجرم نے جبراًایسی کوئی صورت حال پیدا کردی تھی جس میں مجرم عورت کے ساتھ زیادتی کرنے کی پوزیشن میں تھا جیسے جبراً گھر میں گھس جانا یا عورت کو اغوا کرنا۔ ایسے میں مجرم کو تعزیری سزا دی جاسکتی ہے۔ اور موجودہ پاکستان کے قانون کے مطابق یہ سزا زیادہ سے زیادہ پچیس سال قید تک ہوسکتی ہے۔اس سزا کے لئے چار گواہوں کی کوئی شرط نہیں ہے۔اس معاملے میں واقعاتی شہادتیں بھی کافی ہیں۔

۳۔ اگر مجرم نے جرم کا ارتکاب کرنے کی خاطر یا دھمکانے کے لیے ہتھیاروں کا استعمال کیا ہو تو ا سے محارب مان کر سخت سے سخت سزا دی جاسکتی ہے۔ محاربہ کی صورت میں سنگسار تک کی سزا دی جاسکتی ہے چاہے مجرم شادی شدہ نہ ہو۔ اس سزا کے لئے بھی چار گواہوں کی شرط نہیں ہے۔

ظاہر بات ہے کہ ریپ کا جرم واقع ہونے کے لئے مجرم کا ایک عورت کے ساتھ ایسی پوزیشن میں پہونچنا ضروری ہے جہاں پر اسے عورت پر دست درازی کا اختیار حاصل ہوجائے۔ اسلام کے پورے معاشرتی اور اخلاقی احکامات اسی کے گرد گھومتے ہیں کہ ایسی کوئی صورت حال پیدا ہی نہ ہو۔ اور پھر بھی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے توشریعت کے دائرے میں سخت سے سخت سزا کی بھی تجویز موجود ہے۔

زنا کی سزا کا سخت ہونا اورکڑے شرائط کا ہونا اور اگر شرائط ثابت نہ ہونے کی صورت میں الزام لگانے پر حد قذف کے نافذ ہونے کی حکمت یہ ہے کہ اول تو زنا جیسا گھناؤنا جرم واقع ہی نہ ہو اور اگر واقع ہو کر ثابت ہونے کا امکان نہ ہو تو اس کی تشہیر نہ ہونے پائے۔ معاشرے میں فواحش کے ہونے سے زیادہ اس کی تشہیر اپنے ساتھ بہت سارے مضر اثرات لئے ہوئے ہوتی ہے۔فحش کا م اگر خفیہ ہو تو اس کا نقصان صرف اس کے کرنے والے یا ان سے قریبی متعلقہ لوگوں تک محدود رہتا ہے ۔ اور اگر کھلم کھلا ہوتو اس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ الغرض زنا کی سزا صحیح طور پر نافذ ہونے کی صورت میں اگر زنا کا عمل ظاہر ہوگا تو اپنے ساتھ انتہائی عبرت لے کر ظاہر ہوگا ورنہ پھر ظاہر ہی نہیں ہوگا۔مسلمان معاشرے کے اندر فحاشی کی اشاعت کو روکنے کا یہ ایک شرعی نظم ہے۔ اسلامی سزاؤں کی حکمت اور اس کے معاشرےپر اثرات ایک الگ ہی موضوع ہے جس پر روشنی ڈالنے کی مزید گنجائش ہے۔ یہاں پر ریپ کی سزا کے ضمن میں اسلامی سزاؤوں کی حکمت کا مختصر جائزہ لینا ضروری تھا۔

تو صاحبو، شرعی سزاؤوں سے نالاں سیکولرزم کے علمبردار اور مغربی نظریات کے داعیوں کو آخر شکایت کیا ہے؟

ریپ کی سزا سخت ہونی چاہئے تو وہ موجود ہے۔

چار گواہوں کی شرط نہیں ہونی چاہئے تو یہ بھی طئے ہے کہ ایسی کسی شرط کے پورے نہ ہونے کی صورت میں بھی سزا موجود ہے۔

ہتھیاروں کا استعمال کرکے عوام کو اور خصوصاً عورتوں کو ہراساں کرنے کی سزا اور بھی سخت ہونی چاہئے، تولیجئے وہ بھی موجود ہے۔

حد ود کی سزائیں بہت ہی سخت ہیں اس لئےیہ سزائیں عمل میں لانی ہی نہیں چاہئے۔ تو جناب ان کے اپنے قول کے مطابق حدود کی سزا دینے کے لیے شرائط ایسے کڑے ہیں کہ وہ کبھی پورے نہیں ہوسکتے تو ان کی دانست میں حدود کی سزائیں عملاً کالعدم ہی ہیں۔

تو پھرشکایت ہے کیا؟

شاید شکایت یہ ہے کہ زنا بالرضا پر سزا کیوں ہے؟ حالانکہ ان کے مطابق سزا دینے کی شرائط پوری ہی نہیں ہوسکتی۔ تو شکایت یہ ہے کہ یہ سزا لکھی ہوئی بھی کیوں ہے؟

یا پھر غصہ اس بات کا ہے کہ چار ثقہ گواہوں کے سامنے انہیں زنا کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟

یا پھر یہ کہ اس سزا کے لکھے ہونے کی صورت میں ریاست زنا کو غلط تسلیم کرتی ہے اور انہیں یہ گوارا نہیں ہے؟

یا پھر ریاست کے معاملےمیں نام کو ہی سہی "اسلام"کے حوالے سے کچھ تو لکھا ہوا ہے اور انہیں یہ تسلیم نہیں ہےچاہے وہ لکھا ہونا ان کی اپنی شرائط کو بھی کافی حد تک پورا کرتا ہو۔

الغرض عورت کی مظلومیت کا نام لے کر جو کوشش ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں فواحش کی نشر و اشاعت پر کوئی روک نہ لگے یا پھر اسلام کے حوالے سے کوئی چیز پائی جانا انہیں قبول نہیں ہے۔

 _____________

(۱)  اسی لئے اس مضمون میں زنا بالجبر یا آبرو ریزی کے بجائے ریپ کے لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔

(۲) مئی ۲۰۱۱ میں ائی ایم ایف کے چیف ڈومنک سٹراس کان پر نیویارک کے ہوٹل کی ایک ملازمہ نےجنسی زیادتی کا الزام لگایا جس کے تنیجے میں اسے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ قطع نظر اس سے کہ یہ الزام صحیح تھا یا غلط اس واقعے کو پڑھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے الزام لگانے کی جو بھی صورت پیدا ہوئی ویسی صورت کا پیدا ہونا مغربی معاشرے کا لازمی حصہ ہے۔ چاہے اس خاتون کا ایک مرد کے ساتھ تنہائی میسر آنا ہو یا اس خاتون کا بغیر ثبوت کے الزام لگانا ہو۔ یا اس بات کی بھی پورا امکان ہے کہ اس خاتون نے خود تحریک دے کر اسے پھنسا دیا ہو۔

(۳)  وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ . وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (المائدۃ: 38) ’’ اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے اور خدا زبردست (اور) صاحب حکمت ہے‘‘

(۴) یہاں پر مغرب کو اس طرح سےبیان کیا گیا ہے جیسا کہ دعوی کیا جاتا ہے۔ ورنہ فرد کی آزادی اور مساوات جیسے الفاظ صرف ابہام پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ خالص معروضی انداز میں ان الفاظ کے کوئی معنی نہیں بنتے۔ تفصل کے لئے ہمارا ایک پرانا مضمون ملاحظہ کریں۔مغرب کے ساتھ نظریاتی کشمکش اور اسلام کا مقدمہ

http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=1073&ArticleName=2010_04_islam_ka_muqadma


Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز