قارئین کے مراسلے
یہ جمہوریت مغربی ہے تو اسکا موازنہ مغرب سے کیجئے، اسلامی ہے تو اسلام سے کیجئے!
میمونہ عبد الرحیم- ملتان
اہل پاکستان (جو امت مسلمہ ہی کا ایک حصہ ہیں) ساٹھ سال سے اوپر گزرنے کے باوجود جمہوریت کے اس کھیل میں پس رہے ہیں۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی یہ وہ جمہوریت ہے جسے نہ تو اسلامی نظامِ عدل کی ہی ہوا لگی ہے اور نہ ہی یہ وہ جمہوریت جس سے فرانس و برطانیہ وغیرہ میں وہاں کے عوام و خواص مستفید ہو رہے ہیں۔ اس کے مثبت پہلو تو جن کے بارے میں بہت سنا ہے ہماری اس جمہوریت میں کہیں نظر ہی نہیں آتے! ہر چار پانچ سال بعد ایک نیا طالع آزما کہیں سے نمودار ہوتا ہے اور چند ہی سال میں پورے نظام کی اینٹ سے اینٹ بجاتا، اکیس توپوں کی سلامی لیتا اپنے گھر کی راہ لیتا ہے۔
اس نوحے پہ رونے والا کون ہے کہ ایک سولہ کروڑ کی قوم جس کے پاس جوانوں کی کمی نہیں، ایک بہترین فوج کی مالک (جو ہر بار اپنی ہی قوم کو فتح کرتی نظر آتی ہے)، بائیس خاندانوں کی اجارہ داری میں ہے، خواہ اس کو جمہوریت کہہ لیں یا کچھ اور!اور یہ حکمران کلاس (بشمول جرنیل) جس کا رہن سہن، اخلاقی اقدار، سوچ، فکر، تربیت۔۔۔۔ کچھ بھی اس قوم کی اکثریت کے مزاج سے لگا نہیں کھاتا لیکن کچھ اس طریقے سے اس بے فیض نظام کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے کہ اسے اپنے زیاں کا احساس بھی نہیں ہو رہا۔
بے حسی مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے اور نہ ہی اللہ نے ہمیں دنیا میں ذلیل و خوار ہونے کیلئے بھیجا ہے۔ اسلام سے تو نسبت ہی اس فانی دنیا کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ آئیے اس متاع کی قدر کریں اور اس قوم کو جگانے کیلئے ہر دانشور، ادیب اپنے اپنے مقام پر اپنا کردار ادا کرے اور تعلیم، شعور اور بصیرت عام کرے اور اس طرح ایک شعوری ایمان و اسلام کے ذریعے اس قوم کو دنیا و آخرت میں کامیاب کرانے کی پوری کوشش کرے۔ اور یہ کوئی ناممکن بات نہیں کہ جس بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اسی بنیاد پر اس کی از سرنو تعمیر نہ ہوسکے۔
جمہوریت اگر مغرب سے لی گئی ہے تو اس پاکستان میں پائی جانے والی ’اپنی‘ جمہوریت کا موازنہ بھی مغرب کے نظام سے ہی کیا جائے اور اگر اسلام سے لی گئی ہے تو براہ کرم اسلام سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ کوئی تو موازنہ ہو! اس جمہوریت نے تو ہم سے کچھ لیا ہی ہے دینے کی بات کا تو امکان ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امت کے اجتماعی پہلو سے بات کی جائے اور بتایا جائے کہ اسلام جو آسمانوں سے اتری ہدایت ہے اس نے ہم پر کیا کیا نوازشات کی ہیں اور اس نام نہاد جمہویت کی اصل شکل اس انداز میں قوم کے جوانوں کو دکھائی جائے کہ ہم ایک بصیرت کی آنکھ سے اپنے نفع و نقصان کا موازنہ کر سکیں اور ہماری کاوشیں اور قربانیاں درست سمت میں کام آ سکیں اور زبردستی کے ان حکمرانوں سے ہم اور ہماری قوم جان چھڑا سکیں۔
میمونہ عبد الرحیم- ملتان