عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Sunday, November 24,2024 | 1446, جُمادى الأولى 21
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2009-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
و هل اَفسد الدين......؟
:عنوان

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف

و هل اَفسد الدين......؟

محمد بن مالک

   
اب کے جو ”فریضۂ حجاب“ کی پیٹھ میں خنجر گھونپا گیا اُس پر ’منبر و محراب‘ کی باقاعدہ مہر تھی۔۔۔۔!
لہو لہان تو یہ مظلوم ایک عرصہ سے تھا اور فرانس اور جرمنی اور سویڈن اور نہ جانے کہاں کہاں سے کٹتا پھٹتا ’تن داغ داغ‘ ہوتا آیا تھا اور پھر سیکولر ’اولی الامر‘ کی ’بحق سرکار‘ چیر پھاڑ بھی بڑے صبر کے ساتھ سہتا آیا تھا۔ مگر یہ دیکھ کر کہ یہ دبنے کا نام ہی نہیں لیتا، لگتا ہے اب ’مذہب‘ سے اِس پر ’تکبیر‘ پڑھوا دینے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔
کیا خیال ہے عیسائی پوپ نے کسی بھری تقریب کے اندر ایک سولہ سالہ مسلم دوشیزہ کے چہرے سے اس کا نقاب اِس رعونت اور دھونس کے ساتھ اتروایا ہوتا تو اس سے اگلے دن مسلم سڑکوں پر احتجاجیوں کا سیلاب نہ آگیا ہوتا؟ تو کیا ہمیں منبر ومحراب کی ’طاقت‘ کا اندازہ ہوا؟ کاش کہ یہ طاقت آج امت کو صلیبیوں کے مقابلے میں یک آواز کر رہی ہوتی مگر آپ دیکھتے ہیں یہ انہی کا ہراول بن کر آ رہی ہے۔
حضرات! عالم اسلام میں عنقریب ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے اور یہ ’اکا دکا‘ واقعات جو ہم اپنے آس پاس دیکھنے لگے ہیں درحقیقت کسی ’طوفان‘ کا پتہ دیتے ہیں۔ وہ ’خالی جگہیں‘ جو وہ جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں آہستہ آہستہ پر کیا جاتا رہے گا اور بالآخر یہ ایک ’کہانی‘ بنے گی، زیر ِنظرمضمون میں ان میں سے کئی ایک کی جانب نہایت خوب اشارہ کیا گیا ہے۔
 
ایک زمانہ تھا کہ امت مسلمہ کے سرکردہ علماءاور ائمۂ کرام سرکاری مناصب اور عہدوں سے کوسوں دور رہا کرتے تھے۔ اور سلاطین وامراءکی جانب سے ملنے والے سرکاری مناصب کی پیش کشوں کو مع ان کے جملہ لوازمات و نوازشات ایک شانِ بے نیازی اور کمال استغناءکے ساتھ واپس فرما دیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ امامِ اہل السنة امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں آتا ہے کہ حکمرانوں کے بھیجے گئے وظائف، تحائف اور ہدایا تک قبول کرنا گوارا نہ کرتے تھے۔ اللہ نے اِن ائمۂ ہدیٰ کو بیک وقت حکمرانوں اور عام لوگوں سے عین دین کے تقاضوں کے مطابق معاملہ کرنے کا خاص ملکہ اور ہنر عطا فرمایا تھا۔ انہیں بخوبی ادراک تھا کہ حکمرانوں کے اپنے مفادات اور مقاصد ان کے زیر مراعات پلنے والے علماءکے طرزِ فکر اور اقدامات پر کس طرح اور کس حد تک اثر انداز ہو جاتے ہیں۔ بلکہ اپنی نوازشات اور مہربانیوں کے صلے میں یہ حکمران کس کس طرح اپنے مفیدِ مطلب کام نکلوانا جانتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ اگر افتاءیا قضاءکے کسی عہدے پر فائز کئے گئے ہوں تو ان کے فتاویٰ اور قضایا چار و ناچار حکومتی ترجیحات کے نگہبان اور انہی کے مقاصد کے ترجمان بن جاتے ہیں۔
تب علماءکا ایک وقار اور دبدبہ تھا اور لوگوں میں ان کی ایک قدر و منزلت۔ صحیح معنوں میں یہی علماءمرجعِ خلائق تھے۔ حکومتوں کو بھی ان کی اس ”عوامی قوت“ کے باعث ان کا بہت کچھ لحاظ رکھنا پڑتا تھا اور اپنے بہت سے معاملات کو محض ان علماءکے رسوخ کے رعب سے درست رخ پہ رکھنا پڑتا تھا۔
مگر یہ سب سلف اور ان کے کچھ قریبی ادوار کی بات ہے۔ اب تو یہ سب قصہ ہائے پارینہ ایک ’تاریخی یادگار‘ کے طور پر طالب علموں کو ’فارغ اوقات‘ میں دلچسپی کا اچھا سامان فراہم کرنے کے کام آتے ہیں۔ اب سلف کے اِس قسم کے تمام مواقف زیادہ سے زیادہ ’استحباب‘ پر محمول کیے جاتے ہیں، جن کی اِس دورِ پر فتن و پر آشوب میں گنجائش بھلا کہاں نکل سکتی ہے؟!! ”تقویٰ“ اور ”فتویٰ“ بہر حال دو الگ الگ چیزیں ہیں!!!
جب سے امت کے اندر مغرب سے درآمد شدہ، دین کا بطور ایک مضمون استشراقی طرزِ مطالعہ کا رجحان پروان چڑھنا شروع ہوا ہے، تب سے ہی امت کے اندر بھانت بھانت کے ”علمائے دین“ کی کثرت ہونے لگی ہے۔ اب عالم دین ہونے کا مطلب حکومتوں کے مقرر کردہ یا منظور کردہ نصاب کا امتحان پاس کر لینا ہے! ایسے کسی بھی شخص کو موجودہ دور کی ”اسلامی“ حکومتیں کسی بھی وقت پکڑ کر افتاءیا قضاءیادینی امور سے متعلق کسی بھی اہم عہدے پر بٹھا سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ (مصر جیسے ملک میں) مفتیِ اعظم بلکہ شیخ الازہر کے مناصب تک پر فائز کر سکتی ہیں!!
عمومی طور پر یہ سب سرکاری مذہبی عہدے داران اپنے فرائض کی انجام دہی میں نہایت دوراندیش، مستعد اور چابک دست ہوتے ہیں۔ ان کے فرائض میں سب سے اہم اور ”اول الفرائض“ فریضہ اسلام کی تعبیرات کو سرکاری مفادات کے حق میں اور ان کے ساتھ ” ہم آہنگ“ کر کے پیش کرنا ہوتا ہے (نہ کہ اس کے برعکس)، اور اپنی ”جلالتِ علمی“ کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومتی اقدامات کی ”مذہبی حیثیت“ کی بابت رائے عامہ کو ہموار کرنا بھی۔ یہ اس قدر دور اندیش و نکتہ رس واقع ہوتے ہیں کہ حکومتوں کی کوئی ضرورت ان کی ”نگاہِ رمز شناس“ سے چھپی نہیں رہتی۔ اور مستعد و سریع الرفتار اس درجہ کہ سرکار کے تقاضے سے پہلے ہی اقدام اور مقاصد کی تکمیل ہو چکی ہوتی ہے۔ غرض دنیا میں ”غالب کی آبرو“ ہو نہ ہو(جس کے لئے یہ چنداں فکرمند نہیں ہوتے) البتہ یہ شاہوں کے مصاحب اور ان سے بڑھ کر انہی کے وفادار ہونے کے ناتے ”مشق ناز“ کیے جاتے ہیں، اور ”خونِ دو عالم“ بھی ان پر واجب نہیں ہوتا!
اور خود ”اسلامی“ حکومتیں؟؟ ان کی تو نکیل ہی عالمی طاقتوں کے پاس ہے اور وہ ا ن کو جدھر کو موڑتی ہیں یہ ادھر کو گھوم جاتی ہیں۔ اور وفاداری و تابعداری کی ایسی مثال قائم کر رکھی ہے کہ کیا باج گزار اور خراج ادا کرنے والی مفتوحہ مملکتیں کبھی کرتی ہوں گی۔
جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے تو انہیں ہر دور میں اسلام کے تناظر میں ثقافتی، سماجی، تہذیبی اور دیگر ہر قسم کی راہنمائی علماءسے ہی لینی ہوتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت ان معاملات میں پھر انہی علماءکی فکر سے زیادہ اثرات قبول کرتی ہے جن کو میڈیا میں زیادہ سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے اور ان میں زیادہ تر سرکار کے ”نمک خوار“ ہی ہوتے ہیں۔ باقی رہے علمائے حق، تو ایسے آشوب ناک وقتوں میں ان کا قلیل اور گمنام ہونا، یا پھر اظہارِ حق کی پاداش میں ابتلا اور صعوبتوں سے گزارا جانا ایک سنت کے طور پر چلا آتا رہا ہے!
غرض یہ ایک عجیب سلسلۂ فاسدہ ہے۔ یعنی۔۔۔۔ عوام الناس سرکاری مولویوں کے تابعدار۔۔۔ علمائے وقت حکومتی ایجنڈے کے علمبردار اور انہی کے وفادار۔۔۔۔۔ اور ”اسلامی حکومتیں“ عالمی طاغوتی طاقتوں کی باج گزار اوراُن کی آ لۂ کار۔۔۔۔!!
اس سارے سلسلے میں سرکاری علماءکا کردار سب سے اہم اور لائقِ توجہ ہے۔ عالمی طاقتیں دنیا میں اپنی سرداری قائم رکھنے کیلئے جو ا صول واقدار، جو تہذیب اور جس قسم کے اخلاقی معیارات رائج ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں، ان کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ اسلامی اقدار، اسلامی تہذیب اور اسلامی اخلاقیات ہی ہیں۔ ”اسلامی“ حکومتیں ان عالمی طاقتوں کے ایما پر محض قوت کے بل بوتے پر تو مسلمانوں میں یہ تبدیلی پیدا نہیں کر سکتیں۔ لہٰذا آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ لوہے سے لوہا کاٹا جائے۔ یعنی علماءہی اب لوگوں کو یہ بتائیں کہ اصل میں اسلامی تہذیب اور اس کی اقدار ہیں کیا۔ اور اپنے ”علمی رویے“ سے یہ ثابت کر دیں کہ آئین نو (یعنی ورلڈ آرڈر) سے ڈر کر طرزِ کہن (جو کہ اصل اسلام ہے!) پہ اڑنا قوموں کے حق میں کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے ”علمی و تحقیقاتی“ اداروں کو فروغ دیا جائے جو ”فہم اسلام کے جدید خطوط“ پر ہی اپنا سارا زور صرف کر دیں۔ جبکہ اس فہم کے خال و خط حقوق، آزادی اور مساوات ایسی پرکشش و پرفریب تہذیبی کج رویوں سے جا ملتے ہوں۔
اس معاملے میں جب خود ”اسلامی“ حکومتیں اور ان کے منظورِ نظر ”علماء“ اس قدر مستعد اور چست و چالاک ثابت ہوئے ہیں تو ”خالصتاً“ غیر اسلامی حکومتیں بھلا کیوں پیچھے رہیں گی؟ خصوصاً وہ ممالک جہاں مسلمان صدیوں سے رہتے آئے ہیں، بلکہ صدیوں حکومت بھی کرتے آئے ہیں۔ اور اب بھی ایک قابل لحاظ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام اس دور میں کس ملک کیلئے تشویش اور پریشانی کا باعث نہیں ہے؟!!!
چنانچہ یہ غیر مسلم حکومتیں - خصوصاً ہندوستان - اپنی مسلم رعایا کے اسلامی و دینی جذبات کو قابو میں رکھنے کیلئے انہی میں سے اسی قسم کے ”نابغوں“ کی متلاشی رہتی ہیں۔ جن کی سرپرستی بھی پھر ایک باقاعدہ سرکاری کام شمار کیا جاتا ہے۔ جس جگہ مسلمان غلبہ اور قوت میں نہ ہوں، وہاں ان کے ساتھ ظلم و ستم، ناانصافی اور انہونے واقعات کا پیش آنا ایک معمول کی بات سمجھی جانی چاہیے!۔(ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ میں مسلمانوں پر ہونے والے یہ مظالم ان کے آٹھ سو سالہ دورِ اقتدار کا رد عمل بتائے جاتے ہیں!) ان نا روا واقعات کو منطقی اور ”اخلاقی“ بنیادوں پر کسی مسلمان ”علمی“ شخصیت سے justify کروایا جاتا رہے تو ”فساد“ کو دبانے کا کامیاب نسخہ ہے!
اس حوالے سے مثالی نکتۂ نظر سے دیکھا جائے تو شیخ الازہر سید محمد طنطاوی اگر مصر کی ”اسلامی“ حکومت کیلئے ایک نمونہ اور آئیڈیل ہیں، تو مولانا وحید الدین خان صاحب ہندوستان کے غیر اسلامی ”سیکولر“ مملکت کیلئے اسلام کی ترجمانی و تشریح پیش کرنے کیلئے ایک سمبل اور آئیکون!
رہا پاکستان کا غامدی مکتبۂ فکر تو اگرچہ اس کی فکری اڑان کی سمت بھی عین وہی ہے، لیکن پاکستان کے اپنے مخصوص حالات کے سبب ابھی ان کو بہت کچھ کھل کھیلنے کا موقعہ نہیں مل سکا ہے، جس کا یہ شاید ارادہ باندھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ تاہم شیخ طنطاوی اور مولانا وحید الدین خان کے کئی ایک ”دلیرانہ“ اقدامات اور ”جرأتمندانہ“ مواقف ان کیلئے یقینا مشعل راہ ہوں گے۔!
٭٭٭٭٭
اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ جس جگہ اس کے ماننے والوں کو اس کے شعائر پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی مل جائے، وہاں عملی نمونے کی شکل اختیار کر کے یہ لوگوں کو دعوتِ جستجو دیتا اور اس کے ذریعے ان کے دلوں میں گھر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ان شعائر میں مراسم عبودیت کے علاوہ جو چیزیں سب سے زیادہ واضح ہیں، وہ ہیں مردوں کی داڑھی اور عورتوں کا حجاب۔ جہاں یہ ہوتے ہیں وہاں ہر وقت یہ چیزیں ایک علامت کے طور پر ان کے ساتھ وابستہ نظر آتی ہیں۔ جس پر لوگ تعجب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصاً حجاب پر تو لوگوں کا استعجاب اور اشتیاق قابل دید ہوتے ہیں۔ لوگ حیران ہو ہو کر پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سب لوازماتِ حجاب بلا جبر و اکراہ ہی اختیار کیے گئے ہیں! اور مسلمان عورتوں کا رد عمل کچھ یوں ہوتا ہے جیسے ان کے نزدیک حجاب، بجا طور پر، حقوقِ نسواں کا کوئی بہت بنیادی مسئلہ ہو۔ اس پر لوگوں کی حیرانی اور دلچسپی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
اسی وجہ سے جدید دنیا میں داڑھی اور پردہ دونوں بنیاد پرستی کی علامت بنا دیے گئے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں ہی غیر مسلموں اور مسلم سیکولروں کے اشتیاق کو بڑھاوا دے کر اصل اسلام سمجھنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ جبکہ مسلم بنیاد پرستی کو دہشت گردی کی ایک ذیلی اصطلاح کے طور پر جدید دنیا میں پہلے ہی متعارف کرایا جا چکا ہے۔ چنانچہ دنیا کو ”دہشت گردوں“ کے ممکنہ خطرات سے تحفظ دینے کیلئے غیر مسلم دنیا خصوصاً مغرب میں حجاب پر قانونی پابندی کا ڈول تو پورے زور و شور کے ساتھ پہلے ہی ڈالا جا چکا ہے۔ اب مسلم ممالک (جوکہ ”دہشت گردوں“ کی پناہ گاہیں ہیں!) اور مسلمانوں کی کثیر آبادی والے ممالک میں بھی اس دینی شعار کو ختم کرانے کے پروگرام زیر غور ہیں۔ جس کیلئے سرکار سے ”فیض یافتہ“ علماءہی اصل ”خدمات“ سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔
شیخ محمد طنطاوی بحیثیت شیخ الازہر 2003ءکے اواخر میں فرانس اور دیگر غیر اسلامی ممالک کو پابندیِ حجاب کے قانون کا حق پہلے ہی ببانگِ دہل عطا کر چکے ہیں، جس پر تفصیلی تبصرہ ایقاظ کے جولائی 2004ءکے شمارہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ عین یہی کام سالِ رواں کے ماہِ اگست میں مولانا وحید الدین خان آف انڈیا وہاں کے صوبہ کرناٹک کے ایک گرلز کالج کے حق میں انجام دے چکے ہیں، جہاں انتظامیہ کی طرف سے گریجویشن کی ایک مسلمان طالبہ کو کلاس روم میں ہیڈ سکارف پہننے سے روک دیا گیا تھا۔
انیس سالہ عائشہ کے والد محمد کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں کالج میں ایڈمشن سے پہلے آگاہ کر دیا جاتا کہ کلاس روم میں سکارف اوڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو ہم کسی اور جگہ قسمت آزمائی کرتے۔ ایک مسلمان عالم تو کیا ایک عامی کیلئے بھی یہ دلیل خاصی مناسب تھی اور اپنی اپنی غیرتِ ایمانی اور شعائرِ اسلام سے تعلق کے بقدر اس پر کافی کچھ آواز اٹھائی جا سکتی تھی۔ آخر ہندوستان میں مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری کسے نبھانی ہے؟ وہاں کی بظاہر سیکولر اور درحقیقت متعصب حکومت کو یا خود مسلمان راہنماؤں اور علماءکو؟؟ مسلمانوں کے مذہبی حقوق تو رہے ایک طرف، مولانا وحید الدین خان صاحب نے اس وقوعہ پر جو تبصرہ ارشاد فرمایا، اس سے صاف اندازہ ہو گیا کہ وہ دراصل کسی اور ہی کے مفادات کی نگہبانی فرما رہے ہیں۔ خان صاحب کے ارشادِ عالیہ کے بموجب: ”برقعہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ تو اس کلچر کا حصہ ہے جس پر برصغیر کے لوگ ایک عرصے سے عمل پیرا رہتے چلے آئے ہیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسلام کے نام پر لباس کی کوئی خاص وضع قطع متعین کر کے لاگو کرے۔ یہ بنیادی طور پر ایک غیر اسلامی طرزِ عمل ہے“۔
سنا آپ نے؟ یعنی اسلام کے نام لیوا صرف اسلام کے تناظر میں اپنے ہی لباس کے بارے میں کسی خاص ضابطے کی پاسداری کرنے کے حقدار نہیں ہیں۔ البتہ دنیا بھر کے اسلام دشمن اور خود خان صاحب اور شیخ الازہر وغیرہ اگر چاہیں تو کسی بھی وقت سکارف اور نقاب کو مسلمان عورت کے لباس سے خارج کرنے کی بابت ضابطہ متعین کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں!!!
اسی تبصرہ کے دوران جلتی پہ مزید تیل یہ کہہ کر چھڑکا کہ اگر کالج میں برقعہ یا ہیڈ سکارف نہ پہننے کا کوئی قانون موجود ہے تو اس پر لازماً عمل درآمد کرنا چاہیے اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اگر آپ کو اس قانون سے اتفاق نہیں ہے تو آپ کالج چھوڑ دیں!!
پھر تتمہ اور تکمیل حجت کے طور پر فرمایا: ”اسلام میں لباس وہ نہیں جو آپ زیب تن کرتے ہیں بلکہ آپ کا اندرونی کردار ہے۔ ہر کوئی، خواہ مرد ہو کہ عورت، بطورِ لباس جو مناسب سمجھے پہن سکتا ہے۔ اصل چیز آپ کی سچائی اور کردار میں اخلاص ہے“۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ کئی کتابوں کے مصنف، مذہبی سکالر اور ”داعیِ اسلام“ مولانا وحید الدین خان صاحب کو ان تمام آثار اور روایات کا علم نہیں ہو گا جو ستر وحجاب سے متعلق ہیں؟ جن کے مطابق مسلمان عورت کا تمام جسم ماسوائے چہرے اور ہاتھوں کے ستر میں داخل ہے، صرف چہرے کے پردے میں اختلاف ہے جس کے علی الرغم چہرے کا پردہ نہ ہونے کے قائلین چہرہ ڈھانپنے کو کم از کم بھی مستحب تسلیم کرتے ہیں، اور نہ ڈھانپنے کو جائز۔
درحقیقت خان صاحب کا معاملہ جاننے نہ جاننے سے قطعاً جدا اور مختلف ہے۔ ایسے کسی مسئلہ میں بطورِ جواب اور تبصرہ ان تمام روایات کو پیش کر دینا ان ابحاث میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے تو فائدہ مند ہو سکتا ہے، خان صاحب ایسے سکالروں اور دانشوروں کو بھلا ان چیزوں کی کیا حاجت؟ وہ تو ان ابتدائی منازل سے بہت پہلے ہی گزر کر بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اور ابھی ان کے سامنے آسماں اور بھی ہیں!
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ وحید الدین خان نے تو حجاب کے خلاف محض بیان دینے پر اکتفا کیا۔ اور وہ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ شیخ الازہر نے تو محض دو ماہ بعد ہی اسی مسئلہ پر ”اصولی اقدام“ کی عملی مثال قائم کر کے دکھا دی اور بھرے مجمع میں بزور حجاب اتروا دینے کا بالفعل مظاہرہ پیش کیا۔ شیخ الازہر کے ہوتے ہوئے کسی اور کو اس امت میں پہلی بار ایسی کسی ”سنت“ کے جاری کرنے کا حق بھی تو نہیں تھا! آخر کب تک محض بیانات دیتے رہنے سے کام چلتا رہتا؟ چنانچہ طالبات کے ایک ہائی سکول کی کسی تقریب میں انہیں ایک طالبہ باپردہ (یعنی زیر نقاب) جو نظر آئی، انہوں نے خود کو ”غیرتِ قومی“ سے زمیں میں گڑتا ہوا محسوس کیا۔ ایک سولہ سترہ برس کی معصوم بچی پر یہ ظلم و جبر شیخ الازہر جیسی انسان دوست ہستی کو بھلا کس طرح گوارا ہو سکتا تھا؟! اس احساس ستم سے دل شکستہ اور دل نا صبور کے ہاتھوں مجبور (شاید اس ”بے کس“ طالبہ کے پاس بنفس نفیس تشریف لے جا کر) حضرت الشیخ نے ”بہ ہزار شفقت و مہربانی“ اس معصومہ سے نقاب اتار دینے کی ”استدعا“ کی۔ اس عفیفہ نے یہ کہہ کر دوٹوک انداز میں انکار کر دیا کہ یہ اس کا معمول ہے اور وہ اجنبیوں کے سامنے چہرہ کھولنا پسند نہیں کرتی۔ ”حقوقِ نسواں“ کی یہ خلاف ورزی خود اسی صنف سے ہوتی دیکھ کر غالباً شیخ کا دل بھر آیا۔ صدمے کی کیفیت سے سنبھل کر حجاب سے متعلق ”صدیوں سے چھائی گرد“ کو یہ کہہ کر صاف کرنے کی کوشش کی کہ نقاب صرف ایک کلچر ہے، اس کا اسلام سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ اب کے جو انکار ہوا تو شیخ کی آتشِ غیظ و غضب بھڑک اٹھی۔ غیظ و غضب ”حقوقِ نسواں کی پامالی“ پر، ”پرانے اسلام“ پر ہی ڈٹے رہنے کی ذہنیت پر، اور خود کو اپنے ہی ہاتھوں پابندیوں کے حصار میں بند کر لینے پر!! اب کے بھی ان کی بات نہ مانی جاتی تو دنیا کیا کہتی!؟ چنانچہ بصد جلالِ جبہ و دستار فرمان صادر ہوا: ”میں نے تمہیں کہا ہے کہ نقاب کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک رواج ہے۔ اور میں دین کو تم سے اور تمہارے ماں باپ سے بہتر جانتا ہوں۔۔“!!!
اس دھونس، تحکم اور سینہ زوری سے گھبرا کر معصوم طالبہ نے نقاب ہٹا دیا۔ ایک سولہ سالہ دوشیزہ سے بزور تعمیلِ ارشاد کروانا کیا کوئی معمولی کارنامہ ہے؟!! شیخ نے ایک فاتحانہ نگاہ طالبہ پر ڈالی، اور فرمایا، ”تم اگر تھوڑی بہت حسین بھی ہوتیں تو کیا تیر مار لیتیں؟“۔۔!!!!! سبحان اللہ ! کیا خوش مذاقی ہے! کیا طرزِ ادا ہے!کیا عالمانہ انداز ہے! کسی کو کیا خبر کہ اِس ”مقام“ تک پہنچنے کے لیے شیخ نے جانے کیا کچھ پاپڑ بیلے ہوں گے؟!! ایک اندازے کے مطابق، عالم اسلام کا سب سے موقر دینی عہدہ!!!
شاید بعض اربابِ حل و عقد کی اسی بازاری طرزِ فکر اور اندازِ گفتگو سے سوختہ دل ہو کر کسی عالم نے اپنی کسی کتاب میں کہا تھا کہ یہ لوگ شاید سڑکوں اور بازاروں سے اٹھا کر لائے گئے ہوتے ہیں۔
نامی گرامی علماءاور راہنماؤں کا یہ حال ہو تو ان کے پیچھے چلنے والوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
حجاب کے بارے میں یہ معاندانہ رویہ خواہ اسلام دشمنوں کا ہو، یا اسلام کے نادان دوستوں کا، بنیادی طور پر خود سیکولرزم (جو اب ایک عالمگیر دین بن چکا ہے!) کے اصولوں کے خلاف ہے۔ جن کے مطابق موجودہ سیکولر ریاستوں کا کوئی بھی فرد دوسروں کی آزادی میں خلل اندازی کا مرتکب ہوئے بغیر جو طرزِ زندگی، بود و باش اور وضع قطع اختیار کرنا چاہے، اس میں آزاد ہے۔ حجاب جبکہ کسی دوسرے کی آزادی میں خلل نہیں ڈالتا، تو اس پر پابندی چہ معنی دارد؟ بنیاد پرستی مغرب کے حواسوں پر بری طرح حاوی ہو چکی ہے۔ اور وہ ہر حال میں اس کے تمام ممکنہ راستے مسدود کر دینے کی تگ و دو میں ہے اور اس کیلئے عالم اسلام سے حواریوں کی ایک فوجِ ظفر موج اسے حاصل ہے۔
آخر یہ کہاں کا سیکولرزم ہے کہ اپنی مرضی سے حجاب اختیار کرنا تو بالکل غلط ہے، لیکن دوسروں کو زبردستی حجاب سے روکنا اور ان کے نقاب اتروا دینا بالکل درست؟!
خدا بھلا کرے، کہ مولانا وحید الدین خان، شیخ طنطاوی اور ان کی قبیل کے افراد اس امت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ موجود ہیں تو ہم کو حجاب یا کسی بھی دیگر مسئلہ میں بھلا مغرب سے مجادلہ کرنے کی کیا ضرورت؟ انہی کے دم قدم سے یہ امت اب اپنے دشمنوں کے معاملے میں بھی ”خود کفیل“ ہو چکی ہے۔
کہ با من ہر چہ کرد آں آشنا کرد
من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم

(میں غیروں کا رونا تھوڑی روتا ہوں، کہ میرے ساتھ جو کچھ کیا ہے میرے اپنوں نے ہی کیا ہے)
 
 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز