یادش بخیر
عثمانی خلافت یادآہی جاتی ہے!
خاندانِ عثمانیہ کے چشم وچراغ ارطغرل عثمان کی وفات
ڈاکٹر بشیر موسی نافع
اردواستفادہ: محمد زکریاخان
ترکی؛ سلطنت عثمانیہ کی وسعتوں سے سمٹ کر قومی ریاست’جمہوریہ ترکی‘تک محدود ہوگیاہے مگر وہاں کے عوام کی تقدیر جدت پسند بھی نہ بدل سکے۔ نہ امن ہی ملا اور نہ ترکی اور سلطنت عثمانیہ سے الگ ہونے والے علاقوں کے حالات ہی سنور سکے۔
پچھلے دنوں استنبول میں ارطغرل عثمان اوغلو 97 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔اُن کی نماز جنازہ جامع مسجد’سلطان احمد‘کے احاطے میں ادا کی گئی۔اِس تاریخی مسجد میں جسے یورپ کے لوگ’نیلی مسجد‘کہتے ہیں نماز جنازہ بہت کم ادا کی جاتی ہے۔مدتوں سے اس مسجد میں نماز جنازہ کی ادائیگی پر حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔
مرحوم کی نماز جنازہ میں اہم شخصیات کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔برسراقتدار پارٹی’ترقی و انصاف‘کے ایک مندوب نے وزیر اعظم طیب رجب کی نمائندگی کرتے ہوئے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ وزیراعظم اُن دنوں امریکہ کے سرکاری دورے پر تھے۔
ارطغرل اوغلو اگرچہ عثمانی خانوادہ کے آخری چشم و چراغ نہیں ہیں مگر مرحوم اِس خانوادے کی وہ آخری شخصیت ضرور ہیں جنہوں نے اپنے خاندان کی ملک بدری سے پہلے ’قصرِ یلدز‘میں سلطان عبد الحمید ثانی کے مسند اقتدار پرہوتے ہوئے جنم لیا تھااور سلطنت کے بجھتے چراغ کو اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا۔سقوط خلافت کے بعد انقلابیوں نے اس خانوادے کے تمام افراد کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا۔کمال اتا ترک کے فرمان جاری کرنے کے فوراً بعد ایک ’ اسپیشل ریل گاڑی‘ سلطنت عثمانیہ کے خانوادے کو اپنے اندر دبوچے فراٹے بھرتے ہوئے یورپ کی سمت روانہ ہو گئی تھی۔تب سے اس خاندان کا کوئی فرد جدید ترکی میں نہیں رہ سکتا تھا۔
عثمانی خاندان کئی ملکوں بلکہ ایک سے زائد براعظموں میں بکھر کر رہ گیا تھا۔کوئی مصر گیا تو کوئی لبنان؛ کچھ یورپ میں جا بسے تو کوئی ارطغرل کی طرح نیو یارک کی کسی کالونی’بروکلین‘میں ایک سادہ سے فلیٹ میں زندگی کے ایام کاٹ گیا۔آسٹریا کے شہر ویانا میں جلا وطنی کے چند سال گزارنے کے بعد سلطان عبدالحمید ثانی کا پوتا بروکلین کے عام سے فلیٹ میں افغان نژاد اونچے خاندان کی بیوی کے ساتھ برسوں رہتا رہا!
ارطغرل عثمان کو کچھ ہی سال پہلے 1992ءمیں ترکی واپس آنے کی اجازت ملی تھی۔سن 2004 ءمیں انہیں ترکی کی ’شہریت‘ ملی۔در اصل 1974ءمیں حکومت نے خاندان عثمانیہ کے لیے نہ جانے کس جرم سے ’عام معافی‘ کا اعلان کیاتھا۔ عثمانی خاندان میں ترکی واپسی کا رجحان اِس ’عام معافی‘ کے بعد پیدا ہوا تھا۔مرحوم سے سرکاری اہل کار بشمول وزیر اعظم طیب رجب ملاقاتیں کرتے رہے ۔شہریت دینے سے پہلے ان سے حلف لیا گیا کہ وہ ترکی کے اسیکولر نظام کی مکمل حمایت کریں گے۔
دھیمے لب و لہجہ میں بات کرنے والے اور شریعت اسلامیہ کو یکتا مصدر ماننے والے ارطغرل عثمان نے حکومت سے کبھی خاندانی مملکات کی وراثت کا مطالبہ نہیں کیا تھانہ ہی اس خاندان میں کوئی ایک فرد ایسا پایا جاتا ہے جس کے ذہن میں خلافت عثمانیہ کی واگزاری کا ادنیٰ سا تصور بھی پایا جاتا ہو؛اس کے باوجود بہت سی زبانوں پر عبور رکھنے والے ارطغرل سے سیکولر نظام سے وفاداری کا حلف لینا حکومت نے ضروری سمجھا تھا۔
عثمانی خلافت تاریخ اسلامی میں وسعت کے لحاظ سے وسیع ترین خلافت تھی۔اس اسلامی سلطنت نے یورپ کی ناک کے نیچے جنم لیا تھااور دیکھتے ہی دیکھتے یورپ کے بہت سے خطوں کوبشمول بازنطینی ریاست کے پایہ تخت کے اپنے اندر سمو لیا تھا۔کم و بیش چھ صدیوں تک عثمانی سلطنت کی وجہ سے بین الاقوامی توازن برقرار رہا تھا؛سیاسی لحاظ سے اقتصادی لحاظ سے اورکلچر وثقافت کے لحاظ سے۔
پہلی جنگ عظیم میں عثمانی خلافت کا شیرازہ بکھر گیااور بہت سے علاقے سلطنت کے ہاتھ سے نکل گئے۔بکھر جانے والے علاقوں کا مستقبل یورپ کے ہاتھ میں تھا۔کچھ ہی عرصے کے بعد عثمانی خلافت تاریخ کا حصہ بن گئی اور قصہ پارینہ!
’ترکی جمہوریہ ‘ کے قیام کے بعد توقع تھی کہ ترکی کے حالات سنور جائیں گے۔پون صدی گزر گئی ترکی مسائل سے نہیں نکل سکا۔اقتصادی مسائل؛قومی مسائل؛کردوں کا مسئلہ ؛سرحدوں کا مسئلہ۔۔۔ سیکولر ترکی کے لیے اتنا بھی نہ ہو سکاجتنا زوال کے قریب تک عثمانی خلافت کرتی رہی تھی۔سلطان عبد الحمیدثانی پر یورپی ممالک کا بے پناہ دباؤ تھا؛سلطنت کے اندورنی حالات دگرگوں تھے مگر پورا زور لگا کر بھی یورپ سلطان سے قیام اسرائیل کے لیے سلطنت کی قلمرو میں ایک انچ زمین حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔
عثمانی خلافت کبھی بھی باہمی جنگ و جدال سے خالی نہیں ہوئی تھی لیکن یہ اندرونی جنگیں صرف اقتدار حاصل کرنے کی حد تک محدود تھیں ۔یہ مسلمانوں کا آپس کا معاملہ تھا؛کسی دشمن کو یہ جرات نہیں تھی کہ وہ کسی مسلمان کو میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔لوگ اپنی نجی زندگی نہایت امن اور سکون سے گزارتے تھے۔حکومت لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی تھی۔اپنے ہم وطنوں کی جاسوسی کا نظام سلطنت نے کبھی متعارف نہیں کرایا تھا اور نہ ہی جاسوسی کا ایسا کوئی نظام ان کے زیر غور رہا تھا۔عوام مسلمانوں پر کوئی اجنبی کلچر یا نظریہ مسلط نہیں تھا۔تعلیم کا سارا بند و بست عوام کے اپنے ہا تھوں میں تھا اور حکومت اس میں ذرہ بھر مداخلت نہ کرتی تھی۔محکمہ قضائ(عدالتی نظام)پوری طرح آزاد تھا۔مرکز کی طرف سے (بالعموم) کوئی قانون سازی نہیں کی جاتی تھی نہ ہی قضاء مرکزی حکومت کی ہدایات کے پابند تھے۔قضاة مختلف مسلک اور مذاہب کے پیروکار ہوا کرتے تھے اوروہ اپنی آزادی سے کبھی کسی فقہ سے رجوع کرتے تھے تو کبھی مقامی عرف کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔
سچ یہ ہے کہ عثمانی خلافت بہت وسیع الظرف تھی صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں ظلم کے مارے یہودی یا عیسائی اگرکہیں نقل مکانی کر کے سکون پا سکتے تھے تو وہ سلطنت عثمانیہ کی سر زمین تھی۔سلطنت کی پوری تاریخ میں کوئی ایک حاکم بھی ایسا نہیں گزرا جس نے قبیلے یا خاندانی مفاد کو شریعت پر ترجیح دی ہو۔تمام سلاطین نسلی اور قومی تعصب سے دور اپنے آپ کو دین اور شریعت کا محافظ سمجھتے تھے۔
بیسوی صدی میں ترکی میں قوم پرستانہ نظریات یورپ کی مداخلت سے پیدا ہوئے تھے یا ان نوجوانوں کی اپج کا نتیجہ تھے جنہوں نے قریبی پڑوسی یورپ میں نئے جنم لینے والے قوم پرستانہ نظریات میں ترکی کے بگڑتے حالات کا حل ڈھونڈنا چاہا تھا۔اس میں شک نہیں کہ بیسوی صدی میں سلطنت عثمانیہ بے شمار اقتصادی؛سیاسی اور عسکری مشکلات میں گھِرگئی تھی لیکن خاندان عثمانیہ کو سیاست گری کا وسیع تجربہ تھا۔سلطنت کی قلمرو میں کئی قومیں ؛مذاہب؛نسلی امتیازات اور رجحانات پائے جاتے تھے جو کہ اتنی بڑی سلطنت میں ایک طبعی بات ہے۔عثمانی خلافت کیونکہ نسلی اور قومی تعصبات سے پاک تھی اس لیے تمام ملتوں کی نمائندہ حکومت تھی۔مختلف قوموں اور خطوں کومتحد رکھنے میں سلطنت نے کمال ہوشیاری سے کام لیا تھا۔خلافت کے ہوتے ہوئے ترکی میں قوم پرستانہ رجحانات دبے رہے یہاں تک کہ سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور ترکی کے قوم پرستوں نے بذریعہ انقلاب قومی حکومت تشکیل دے ڈالی۔قوم پرستانہ رجحانات جس کے ڈانڈے یورپ سے جا ملتے تھے کے سامنے سب سی بڑی چٹان سلطنت عثمانیہ رہی تھی۔اس چٹان کو پاش پاش کرنے کے لیے مغربی ممالک کو سازشوں کے علاوہ متعد بار لشکر کشی بھی کرنا پڑی تھی۔یورپ کا مطالبہ تھا کہ قومی بنیادوں پر سلطنت عثمانیہ کی تقسیم ہونا چاہیے۔
قوم پرستوں نے بالآخر اقتدار حاصل کرلیا۔سلطنت عثمانیہ قومی بنیادوں پر تقسیم ہو گئی۔لیکن کیا سلطنت سے’آزادی‘پاکرمسلم قومی ریاستیں اپنے مسائل سے نبردآزماہونے میں کامیاب ہو گئی ہیں !؟بلقان کی ریاستوں میں عیسائیوں نے مسلم آبادی پر جو ظلم ڈھایا وہ سب کے سامنے ہے۔عراق کی تقسیم کا جو مسئلہ پہلے صرف کرد ریاست تک محدود تھا اب پھیل کر عراق کی مزید تقسیم’شیعی عراق‘اور ’سنی عربی عراق‘تک ہو گیا ہے۔خلیج کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں نہایت بے اثر ہیں۔ مغربی افریقی اسلامی ممالک جو پہلے عثمانی خلافت کا حصہ تھے وہاں ’بربر‘قوم پرست تحریک نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔لبنان طوائف الملوکی کا شکار ہے۔فلسطین کی اپاہج قومی ریاست مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
بکھری ریاستوں کے ان گنت مسائل کا بوجھ قومی حکومتوں کی بجائے عوام نے اٹھا رکھا ہے!!!
سلطنت عثمانیہ کے زوال میں شریک ہو کر قومی ریاستوں نے کیاپالیا ہے؛ ارطغرل عثمان کی قضاءاس المیے کو نمایاں تر کر گئی ہے!