بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ
اما بَعدُ۔۔
کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم
اداریہ
حامد کمال الدین
حصہ اول
ایقاظ کے جنوری تا مارچ والے اداریہ پر قارئین کے تبصرے اور اعتراضات ہمیں برابر موصول ہورہے ہیں، جس پر ہم تہہِ دل سے مراسلہ نگاروں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اِس موضوع کو آگے بڑھانے میں دلچسپی ظاہر فرمائی۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اِس موضوع کے چند اور جوانب جو ہمارے اُس اداریہ میں نہ آ پائے، یہاں پر بیان ہوں۔ نیز یہ کہ ہمارے اُس مضمون میں بیان شدہ کچھ نکات کا ہی اِس مضمون میں جلی تر کر دیا جانا موضوع کو ذہن نشین کرانے میں اضافی طور پر مدد گار ہو سکتا ہے۔
فصول بہ سلسلہ اداریہ
استعمار۔۔ ’لباسِ مجاز‘ میں!
الف
بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!
ب
اصولِ سنت کے متخصصین اِس دور میں بہت زیادہ نہیں
ج
مسئلہ ’حکمرانوں‘ سے کہیں بڑا ہے!
د
حکم بغیر ما اَنزل اللہ اگر ’کفر‘ ہی نہیں تو یہ نظام بھی پھر ’طاغوتی‘ کیسے؟؟
ھ
ہر کوئی اصولِ سنت و سلف ہی کی بات کرتا ہے!
و
اداریہ کی ابتدا میں مذکور مراسلہ کے حوالہ سے۔۔۔۔
ز
اداریہ کے اندر کسی وقت استفسارات، تبصروں یا اعتراضات کو نقل کر دینے سے ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری کے ذہن میں وہ سوالات کچھ زیادہ واضح کر کے کھڑے کر دیے جائیں جن کے اٹھنے پر ہماری آئندہ گفتگو کچھ زیادہ واضح ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں، اِس سے ہماری معروضات قاری کے ذہن نشین ہونے میں بھی زیادہ مدد پاتی ہیں ۔ البتہ ہماری وہ گفتگو خود اپنے ایک سیاق میں ہوتی ہے اور مضمون کے اندر جو باتیں واضح کرنا ہمارے اپنے پیش نظر ہوتا ہے ہماری اصل توجہ اور ترجیح اُسی پر رہتی ہے۔ ’جواب‘ دینا اداریہ کے اندر ہمارا اصل مقصود نہیں ہوتا۔
گفتگو شروع کرنے سے پیشتر، پس یہاں ہم اپنے ایک معزز قاری کے اعتراضات جو ہمارے پچھلے اداریہ پر ہوئے، دیگر قارئین کے ساتھ شیئر کر تے چلیں گے اور مضمون کے آخر میں اِس پر کچھ بات بھی کریں گے۔ مراسلہ کا متن خطِ نسخ اور براؤن رنگ میں دیا گیا ہے۔ اداریہ کے درمیان بھی جہاں کہیں ان اعتراضات کو نقل کیا گیا ہے تو وہ بھی براؤن رنگ میں ہے اور اس تحریر کی ابتدا میں لفظ اعتراض لکھا ہوا ملے گا۔ ہمارے اُس (جنوری تا مارچ) اداریہ کی کوئی عبارت ہمارے اِس حالیہ مضمون میں دہرائی جانا ضروری ہو تو اس کیلئے چھوٹا فونٹ استعمال ہوگا۔
ایقاظ کو موصول ہونے والا مراسلہ:
سہ ماہی ’ایقاظ‘ جنوری تا مارچ 2009ء میں حامد کمال الدین کا مضمون ’کیا مرجئہ طے کریں گے کہ ’تکفیری کون ہیں‘؟! پڑھا۔ الحمد للہ! صاحبِ مضمون کا فکری ذوق اچھا ہے اور گاہے بگاہے ان کی عمدہ تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں جن میں ممکن حد تک توازن و اعتدال کو قائم رکھتے ہوئے ایک فکر پیش کیا جاتا ہے ۔ بہرحال توازن و اعتدال توایک ایسی شے ہے کہ جس کی تلاش میں انسان ساری زندگی لگا رہتا ہے اور باہمی اختلافات کے باوجود ہر صاحب علم اپنے مطالعے اور فکری نتائج کو متوازن و معتدل سمجھتا ہے۔ اس مضمون کے بارے میں راقم کا تاثر یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اس میں بہت اہم اور سلگتے امور پر عالمانہ انداز میں گفتگو کی گئی ہے تاہم بعض حوالوں سے یہ توازن و اعتدال سے کچھ ہٹا ہوا ہے۔ ذیل میں اس مضمون کے حوالے سے چند ایک باتیں وضاحت اور ایک نئے زاویے سے دوبارہ غوروفکر کے لئے سامنے رکھ رہا ہوں:
1۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس مضمون کا عنوان درست نہیں ہے ۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ عنوان الزامی ہے جس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ جو صاحبِ مضمون کے نظریہ تکفیر سے متفق نہ ہو وہ ”مرجئہ“ ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مرجئہ سے مراد کیا ہے ؟کیا جو علماء صاحبِ مضمون کے نظریہ تکفیر سے متفق نہ ہوں ، وہ مرجئہ کہلائیں گے ۔ بہت سے جہادی عناصر سے راقم کی گفتگو براہ راست اور بذریعہ نیٹ جاری رہتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جہادی عناصر یہی عنوان اُن دیوبندی اور اہل حدیث علماء کے لئے استعمال کرتے ہیں جو ان کے نظریہ جہاد وتکفیر سے متفق نہیں ہیں۔ بعض جہادی علماء ایسے بھی ہیں جو شیخ بن باز، صالح العثیمین، صالح الفوزان اور دوسرے عرب علماء کو مرجئہ میں شمار کرتے ہیں ۔ شیخ ابو بصیر طرطوسی نے تو علامہ البانی تک کو جہمیہ میں شمار کیا ہے؟ اپنی اس تحقیق کا اظہار انہوں نے اپنے مقالے ’مذاہب الناس فی الشیخ محمد ناصر الدین الاَلبانی‘ میں کیا ہے ۔ ابو البصیر الطرطوسی نے شیخ الازہر علامہ سید طنطاوی اور شیخ یوسف القرضاوی کی تکفیر کی ہے ۔ مسلمان علماء کی تکفیر کے سلسلے میں ان کی کتاب ’قوافل زنادقۃ العصر‘ اور ’لماذا کفرتُ یوسف القرضاوی؟‘کا مطالعہ مفید ہے ۔ ان کے علمی کارناموں میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے مقالے ’ھیئۃ کبار العلماء و السیاسۃ‘ میں کبار سعودی علماء اور ’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ‘ پر بھی انتہائی درجہ کا طعن کیا ہے ۔ ان کی اتباع میں آج کا پاکستانی جہادی نوجوان شیخ بن باز ،شیخ صالح العثیمین اور شیخ صالح الفوزان جیسے کبار آئمہ اہل سنت کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ ’کیا مرجئہ طے کریں گے کہ ’تکفیری کون ہیں ؟‘!۔ میں یہ نہیں کہتا کہ صاحب مضمون بھی سعودی علماء کے بارے میں یہی موقف رکھتے ہیں جو ان جوشیلے نوجوانوں یا جہادی علماء کا ہے ۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہاں تو ہر’ صاحب رائے ‘ ایک دوسرے پر مرجئہ اور خوارج کا عنوان چسپاں کر رہا ہے ۔ اب کیا معلوم کہ کون مرجئہ ہے اور کون خوارج؟ صاحب مضمون کہیں گے کہ سلف کے اقوال سے یہ طے ہوگا لیکن ہر کوئی سلف ہی کے اقوال سے ایک دوسرے کو مرجئہ یا خوارج ثابت کر رہا ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم
2۔ مفتی اعظم سعودی عرب مفتی محمد بن ابراہیم کے حوالے سے صاحب مضمون نے اعتقادی کفر کی جو چھ قسمیں بیان کی ہیں ۔ ان میں پہلی چار تو اعتقادی کفر کی قسمیں بنتی ہیں جبکہ آخری دو اعتقادی سے زیادہ عملی کفر کی قسمیں ہیں ۔ اعتقادی کا لفظ عقیدہ سے بنا ہے اور عقیدہ فکر کا نام ہے اور کسی کی فکر کا علم اس کے زبانی اظہار ہی سے ہو سکتا ہے نہ کہ عمل سے ، خصوصاً جبکہ مخاطب اسلام کا دعویدار بھی ہو ۔ اعتقادی کفر کی پانچویں اور چھٹی صورت میں حکمران طبقے کی تکفیر کے حوالے سے ان کی جن عملی باتوں پر استدلال قائم کیا گیا ہے وہ تمام باتیں عامۃ الناس میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ انفرادی زندگی میں ہر شخص اپنے نفس، خاندان، ادارے، کنبے یا قبیلے کا حاکم ہے جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے : کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ۔ اب اگر یہ شخص اپنی ذات، خاندان یا ادارے میں اللہ کی حاکمیت کے مطابق فیصلے نہیں کررہا ہے تو اس میں اور کے حکمرانوں میں رویے کے اعتبار سے کیا فرق ہے؟ حکمرانوں کا مصدر قانون اگر کتاب وسنت کی بجائے انگریزی قوانین ہیں تو کیا ایک عام شخص کا مصدر قانون کتاب و سنت کی بجائے خواہش نفس ، اتباع شیطان اور انگریزی قانون نہیں ہے ؟ ارشاد باری تعالی ہے: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ۔اس کے باوجود پہلے کی تکفیر دینی فریضہ قرار پائے اور دوسرے کی مصلحت کے خلاف۔
علاوہ ازیں اگر ہمارے قانون کے مصادر انگریزی قوانین ہیں تو ان قوانین کو بنانے والوں کی تکفیر تو جائز ٹھہرے ، یعنی پارلیمنٹ کی ۔ پھر اس پارلیمنٹ کو منتخب کرنے والے عوام کی تکفیر میں کیا مانع ہے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے بالمقابل باطل آئین اور انگریزی قوانین کے مطابق قانون سازی کرتی ہے ۔ اسی طرح اگر اس باطل دستور اور انگریزی قانون کو مصدر سمجھنے والی اور اس کے مطابق فیصلے کرنے والی عدالتوں اور ججوں کی تکفیر کی جانی چاہیے تو اس قانون کے مطابق فیصلے کروانے والے عوام الناس کی تکفیر ’تحاکم الی الطاغوت ‘ کے تحت جائزکیوں نہیں ہے ؟گویا صاحب مضمون نے تکفیر کے مسئلے میں عوام الناس اورحکمران طبقے میں جو تفریق کی ہے اس کی کوئی شرعی دلیل فراہم نہیں کی ۔ بادی النظر میں شرعی دلیل تو کجا ، منطقی دلیل بھی بنتی نظر نہیں آتی کہ عوام الناس کی تکفیر توحید الوہیت اور توحید اسماءو صفات کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد بھی مصلحت کے خلاف ٹھہرے اور حکمرانوں کی تکفیر توحید کی ایک ایسی قسم کی بنیاد پر دینی فریضہ بن جائے کہ جس کے اصل ذمہ دار بھی عوام الناس ہی قرار پاتے ہیں ، یعنی توحید فی الحاکمیۃ۔
3۔ صاحب مضمون نے خروج کی بحث کے ذیل میں سلف کے طرز عمل کا حوالہ نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دور سلف کے حکمران ، موجودہ حکمرانوں جیسے نہیں ہیں ۔ لہذا اس مسئلے میں سلف کا طرزعمل کوئی دلیل نہیں بنتا ۔ یہ بات تو بالکل درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دور سلف اور آج کے دور میں کیا صرف حکمرانوں ہی میں فرق آیا ہے یا عامۃ الناس بھی تبدیل ہو گئے ہیں ۔ کیا سلف کے دور میں جو عامۃ الناس تھے ، آج ویسے مسلمان عوام کہیں موجود ہیں ؟ کیا عوام الناس کی عقائد ، نظریات ، اخلاقیات اور اعمال کے حوالے سے قلب ماہیت کا موجودہ حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے فتوی جاری کرنے میں کوئی لحاظ رکھا جائے گا یا نہیں؟ کیا معاملہ ایسا ہے کہ عوام الناس تو فیصلے اور قانون ساز ی اللہ کی شریعت اور قانون کے مطابق چاہتے ہوں جبکہ حکمران طبقہ ، مقننہ ، عدلیہ اور سول اور فوجی انتظامیہ ہی طاغوت کی حکمرانی پر مصرہو ؟ یقینا اس تناظر میں اُن دینی قوتوں کی پوزیشن سب سے پہلے واضح کرنی ہوگی جو پورے دینی خلوص و اخلاص کے ساتھ جمہوری عمل میں شریک رہتے ہوئے متذکرہ بالا طاغوتی اداروں میں بیٹھے نظر آتے ہیں ۔
4۔ احکام شرعیہ میں مقاصد شرعیہ کی بحث نہایت اہم ہے ۔ ہر دور میں علمائے حق نے مقاصد الشریعۃ کی نوعیت اور اہمیت پر تفصیلی بحثیں کی ہیں ۔ اس حوالے سے یہ بات محل نظر ہے کہ موجودہ دور میں صرف حکمرانوں کی تکفیر سے کون سا شرعی مقصد حاصل ہو گا ؟ ظاہر ہے کہ عمومی طور پر اصول تکفیر کا بیان اور اس کی تشہیر کی اہمیت سے انکار نہیں ۔ ہماری یہاں مراد صرف حکمران طبقہ کی تکفیر سے ہے ، جس میں ہمارے خیال میں صاحبِ مضمون نے عدم اعتدال سے کام لیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اندریں حالات اس سے سوائے فکری اضطراب اور بے چینی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ نیز اگر صاحبِ مضمون کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق حکمرانوں کی تکفیر درست بھی قرار دی جائے اور عملاً کر بھی لی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کیا کیا جائے ؟ یعنی ایک نوجوان جسے اس فکر سے سیر حاصل جذبہ اور قوت عمل حاصل ہو جائے اس کے پاس کرنے کا کا م کیا ہو گا ؟ وہ ان کافر حکمرانوں سے جان چھڑانے کے لئے کیا کرے ؟ ظاہری بات ہے صرف فکری غذا تو اس کے جذبے کے لئے کافی نہیں ہے ؟ اسے تو کوئی عمل چاہیے اور عمل (activity) بھی ایسا جو ، ان کفار سے اسے جلد از جلد نجات دلوا دے ۔ ویسے تو اس کو یہ عمل (activity) دینے کے لئے خود کش حملہ آوروں کی جماعتیں بھی تیار بیٹھی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ صاحبِ مضمون کے پاس کیا لائحہ عمل ہے ؟ کیا انحطاط پذیر موجودہ معاشر ے میں یہ صرف یہ فکر پھیلا کر ، کہ موجودہ حکمران بوجوہ کافر ہیں ، مطمئن ہوا جاسکتا ہے کہ میں نے اپنا دینی فریضہ ادا کردیا ہے ؟
5۔ صاحبِ مضمون نے عوام الناس اور حکمرانوں کی تکفیر میں جو امتیاز رکھا ہے وہ اس بنا پر بھی اعتدال و توازن سے ہٹا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز تو اصول ہیں جن کے مطابق حکمرانوں کی تکفیر کی گئی ہے۔ انہی اصولوں کے مطابق عامۃ الناس کی بھی تکفیر ہوتی ہے ۔ اور عوام الناس کو تکفیر سے بچانا کوئی شرعی فریضہ نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں اہل سنت ہی میں سے جس طبقہ فکر کو صاحبِ مضمون ”سلف“ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں ، ان کے مطابق تو بے نمازی بھی اعتقادی کافر ہے ۔ لہذا عامۃ الناس پر ان اصولوں کا اطلاق کیوں نہیں کیا جاتا ؟ گویا عامۃ الناس اور حکمران طبقے کی تکفیر میں اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے یا تو صاحبِ مضمون نے حکمران طبقے کے ساتھ زیادتی کی ہے یا عوام الناس کے بارے میں بے جا مصلحت کوشی سے کام لیا ہے ۔ ورنہ تو دونوں کا حکم ایک ہی بنتا ہے ۔ چاہے تو تکفیر کرلیں اور چاہے تو ۔۔۔۔۔ موجودہ دورِ زوال کے خصوصی حالات کے تناظر میں موانع اور شروط وغیرہ کے حوالے سے تکفیر کے موضوع کو اصولی انداز میں بحث کرتے ہوئے عامۃ الناس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے، مقننہ ، عدلیہ اور سول اور فوجی انتظامیہ کے افراد کی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور ایک منظم جدوجہد کے ذریعے نظام ِ باطل کو بیخ و بن سے اُکھیڑنے پر زور دیں ۔ اس لئے کہ موجودہ سیٹ اپ میں افراد تو آنے جانے والے ہیں ، اصل فساد کی جڑ وہ باطل طاغوتی نظام ہے جس کی جڑیں عامۃ الناس میں بھی اُتنی ہی گہری ہیں جتنی کہ حکمران طبقے میں ۔
(۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔، لاہور)
مضمون کے آخر میں ہم اِن اعتراضات پر بھی کچھ بات کریں گے جو ہمارے معزز مراسلہ نگار نے ہم پر اٹھائے ہیں، البتہ گفتگو کا آغاز ہم اُن چند نکات کے بیان سے کریں گے جن کا اِس موضوع اور اِس پر قلمبند کیا جانے والے ہمارے مذکورہ مضمون کے حوالے سے واضح ہو جانا ہماری نگاہ میں سب سے ضروری ہے۔