بہ سلسلۂ اداریہ: کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون
ہیں۔ حصہ دوم
ھ: حکم بغیر ما اَنزل اللہ اگر ’کفر‘ ہی نہیں
تو یہ نظام بھی پھر ’طاغوتی‘ کیسے؟؟
حامد کمال الدین
حکم بغیر ما اَنزل اللہ پر بھی چلئے کچھ بات کر ہی
لیتے ہیں، گو ہمارے اِس مضمون کا اصل موضوع یہ بہرحال نہیں۔۔۔۔
یہاں کے کچھ نیک طبقوں کے یہاں ایک نہایت سرسری
اور سطحی قسم کااندازِ استدلال دیکھ کر بے حد حیرانی ہوتی ہے۔ اپنی سلامتیِ فطرت
اور اپنی غیرتِ توحیدی کی بدولت یہ غیر اللہ کی شریعت پر قائم اِس نظام کو ”باطل“
اور ”طاغوت“ یا ”طاغوتی“ کہنے میں تو ہرگز کوئی تردد نہیں رکھتے اور جوکہ ایک قابل
ستائش امر ہے، لیکن یہاں پائے جانے والے ارجائی رجحانات سے دب کر وہ یہ کہنا البتہ
’انتہا پسندی‘ گردانتے ہیں کہ حکم بغیر ما اَنزل اللہ ایک کافرانہ فعل ہے....!!!
یہاں تک کہ ان میں سے کئی ایک طبقے نادانستہ عین
اُسی مرجئہ والی دلیل ہی کو دہرانے لگتے ہیں جوکہ دراصل اِن کے اپنے پہلے مقدمے کو
بھی باطل کر دیتی ہے؛ یعنی اِن کا یہ سوال اٹھانا کہ یہاں کا ایک عام فرد جو اپنی
خواہش نفس سے مجبور ہو کر خدا کی معصیت کر بیٹھتا ہے اُس میں اور غیر اللہ کا
قانون چلانے میں آخر کیا فرق ہے؟ فرماتے ہیں: دونوں کا حکم ایک رکھیں، کفر کہیں تو
دونوں کے فعل کو کہیں، اور کفر کی فردِ جرم سے معاف رکھیں تو دونوں کو معاف رکھیں!
اب ظاہر ہے ایک عام شخص کے، خواہش نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر خدا کی معصیت کرنے
کو، کفر تو ہم نہیں کہیں گے؛ کیونکہ یہ خوارج کا مذہب ہے نہ کہ اہل سنت کا۔
لیکن۔۔۔۔ محض ’گناہ‘ کر لینے کو جب ہم ’کفر‘ نہیں کہیں گے تو کیا اُس کو ’طاغوتی‘
کہیں گے؟ ظاہر ہے نہ ’کفر‘ کہیں گے اور نہ ’طاغوتی‘۔ شرعی اصطلاح میں مذہب اہل سنت
کی رو سے یہ محض ایک ’خطا‘ یا ایک ’معصیت‘ ہے جوکہ اہل ایمان سے بھی سرزد ہو جاتی
ہے۔ تو پھر اگر عین یہی حکم یہاں پر قائم نظام کا بھی ہے، جیسا کہ ہمارے اِن اصحاب
کا کہنا ہے، تو پھر اِس نظام کا حکم بھی محض ایک ’خطا‘ یا ایک ’معصیت‘ کا ہے جوکہ
اہل ایمان سے بھی سرزد ہو جاتی ہے، اِس نظام کیلئے بھی پھر آپ ’طاغوت‘ یا ’طاغوتی‘
کا لفظ ہی سرے سے کیسے بول سکتے ہیں؟؟؟ اور یہی تو وہ بات ہے جس پر یہاں کے کچھ
گھاگ قسم کے افکار ہمارے اِن نیک طبقوں کو لے کر آنا چاہ رہے ہیں؛ کہ یہ غیر اللہ
کی شریعت کو قانون ٹھہرانے اور ایک عام قسم کی معصیت کا ارتکاب کر لینے،۔۔۔ ہر دو
کو شرعی حکم کے لحاظ سے ایک کر دیں! پھر نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری! یہ نظام
ہی جب عام خطاؤں جیسی محض ایک خطا ہے، جس پر ’شرک‘ یا ’کفر‘ یا ’طاغوت‘ ایسے الفاظ
ہی نہیں بولے جا سکتے تو پھر ’وہ جدوجہد جو انبیاءکی طرز پر ایک طاغوت کے خلاف لڑی
جاتی ہے‘ آپ سے آپ بے معنیٰ ٹھہرے گی! اِن گھاگ افکار سے ہمارے یہ قابل قدر اصحاب
بے خیالی میں اگر یہ پڑیا لے لیتے ہیں پھر تو پون صدی سے لڑا جانے والا وہ پورا
مقدمہ ہی دھڑام سے گر جاتا ہے جس کیلئے اسلامی تحریکوں نے عالم اسلام کے اندر ایک
طویل جدوجہد کی ہے۔ جس کے بعد کسی کو منہ سے بول کر کہنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی کہ
وقت کی اِن اسلامی تحریکوں نے جو آج کے اِس ’طاغوتی نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ
دینے‘ کیلئے سرگرم رہی ہیں اپنا اور قوم کا وقت برباد کیا ہے، یہ بات تو تب
’محتاجِ بیان‘ ہی نہ رہے گی!
وہ قوتیں جو عالم اسلام کے اندر اِن باطل نظاموں
کی خیریت کیلئے سدا پریشان رہتی ہیں، وہ یہ تو اصرار نہیں کرتیں کہ ہم وقت کے اِن
نظاموں کو ’خلافتِ راشدہ‘ کا اسٹیٹس دیں! اُن کی جان بھی تو اِس بات سے ہی جاتی ہے
کہ عالم اسلام میں اِس کو ’طاغوت‘ کے نام سے پکارا اور بلایا جائے جس کی بابت اہل
اسلام کے ہاں سننے میں آتا ہے کہ انبیاءدنیا میں اسی کو ختم کرانے آتے ہیں! یقینا
ہمارے یہ قابل احترام موحد حضرات اِس نظام کو ’طاغوت‘ ہی کہتے ہیں۔ لیکن اگر اُن
پر یہ بات واضح نہیں کہ ’طاغوت‘ یا ’طاغوتی‘ ہونا محض ایک معصیت کا مرتکب ہونے سے
بے حد مختلف چیز ہے۔۔ خود اِنہی صالح طبقوں کے یہاں اگر یہ سوال اٹھنے لگ جاتا ہے
کہ ایک عام فرد کے شریعت کی خلاف ورزی کر بیٹھنے اور ایک حکمران کے غیر اللہ کی
شریعت کو دستور ٹھہرا دینے میں آخر فرق ہی کیا ہے، تو خود اِن کا وہ مقدمہ ہی جس
کی رُو سے یہ اِس نظام کو ’طاغوت‘ کہتے ہیں آپ سے آپ مشکوک ٹھہرتا ہے۔ پھر جو حکم
ایک عام گناہ کا وہی حکم اِس نظام کا؛ یعنی عین وہ چیز جو یہاں کے کچھ خرانٹ طبقے
ہمارے بعض تحریکی حلقوں کے ہاتھ سے بصورتِ تحفہ لینا چاہ رہے ہیں!
پس ہم چاہیں گے کہ ہمارے وہ گرامی قدر اصحاب جو
پورے یقین اور وثوق کے ساتھ اِس نظام کو ’طاغوت‘ کہتے ہیں مگر حکم بغیر ما اَنزل
اللہ کو ’کفر‘ کہنے میں بے اندازہ تامل اختیار کرتے ہیں، اِس پر غور فرمائیں کہ
ایسا کر کے کیا وہ اپنی اس تحریکی اساس ہی کو تو فوت نہیں کر لیتے جس پر وہ قوم کو
یک آواز کرنے جا رہے ہیں؟! اِس نظام کو طاغوت ٹھہرائے جانے کی بنیاد اِس کا حکم
بغیر ما اَنزل اللہ کرنا ہی تو ہے! اِس نظام کا اور کونسا جرم ہے جس کی بنیاد پر
اِس کو ’طاغوت‘ قرار دے دیا جائے؟ یہی اگر کفر نہیں تو پھر اِس کیلئے ’طاغوت‘ کا
لفظ بولنے کا بھی آپ کے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے؟
اللہ مالک الملک کی شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی طے
کردہ شریعت ہی کو قانون اور انسانوں کے جملہ نزاعات میں فیصلہ کیلئے حتمی اور آخری
مرجع ٹھہرا رکھنے کا یہ جو مسلسل جاری فعل یا جو انتظام ہے، اور جس کو آپ اپنے
لفظوں میں ’سسٹم‘ یا ’نظام‘ بھی کہتے ہیں، اور جوکہ محض کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب
کر لینے سے مختلف ایک چیز ہے۔۔ اِس کے ساتھ آپ ’طاغوت‘ یا ’طاغوتی‘ کا لفظ اِس لئے
ہی تو جوڑتے ہیں کہ اِس میں کوئی مخلوق اللہ رب العالمین کی ہمسری کرتی ہے۔ ظاہر
ہے یہ ایک ایسی فردِ جرم ہے جو اسلامی عقیدہ کے اندر ’شرک‘ اور ’کفر‘ ایسے خطرناک
ابواب کے تحت ہی زیر بحث آئے گی نہ کہ ’عام معاصی‘ کے تحت۔ لفظِ ’طاغوت‘ میں، جس
کے استعمال پر آپ کو تردد نہیں، اللہ کی ہمسری کا مفہوم آپ سے آپ آتا ہے جوکہ
اصطلاحاتِ عقیدہ میں ’شرک‘ ہی کا ایک مبحث ہے۔ ’اللہ کی ہمسری‘ ظاہر ہے ’عام
معصیت‘ سے مختلف ایک چیز ہے۔ اب ایک طرف آپ بے دھڑک اُس کو ’طاغوتی‘ بھی کہیں اور دوسری
طرف آپ اُس کا درجہ ’عام معاصی‘ کا ہی رکھیں۔۔۔۔ تب تو آپ اپنے مخالف کو اپنے
ہاتھوں کیا یہ بنیاد فراہم نہیں کر رہے کہ وہ آپ پر ’خوارج‘ کے مذہب پہ ہونے کا
الزام دھرے؟ کیا ’عام معاصی‘ کی بنیاد پر کسی کو ’طاغوت‘ یا ’طاغوتی‘ قرار دیا
جاسکتا ہے؟ اگر ’عام معاصی‘ کی بنیاد پر کسی کو ’کفر‘ سے منسوب کر دینا صاف صاف
’مذہبِ خوارج‘ ہے، اور یقینا ہے، تو کیا ’عام معاصی‘ کی بنیاد پر کسی کے ساتھ لفظِ
’طاغوت‘ یا ’طاغوتی‘ کی نسبت کی جا سکتی ہے؟؟؟!
پس یا تو آپ اِس انتظام کو جو ”اللہ مالک الملک کی
شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی طے کردہ شریعت ہی کو قانون اور انسانوں کے جملہ نزاعات
میں فیصلہ کیلئے حتمی اور آخری مرجع ٹھہرا رکھنے“ سے عبارت ہے ’طاغوتی‘ ہی قرار نہ
دیں۔۔ اور یا اِس عمل کو جو ”اللہ مالک الملک کی شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی طے کردہ
شریعت ہی کو قانون اور انسانوں کے جملہ نزاعات میں فیصلہ کیلئے حتمی اور آخری مرجع
ٹھہرا رکھنے“ سے عبارت ہے ’عام گناہوں‘ سے مختلف ایک گناہ قرار دیں اور اِس کو وہ
’ظلمِ عظیم‘ مانیں جس کو قرآنی اصطلاح میں ’شرک‘ اور ’کفر‘ کہا جاتا ہے۔
مؤخر الذکر بات کیلئے ہی، یعنی اِس فعل کو عام
کبائر سے مختلف کبیرہ قرار دینے کیلئے ہی، اور اِس کو اعمال کی اُس صنف میں شمار
کروانے کیلئے ہی جس کو اسلامی عقیدہ کی اصطلاح میں ’ظلمِ عظیم‘ کہا گیا ہے، قرآن
کے اندر کچھ ایسے مباحث آئے ہیں:
وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا (1)
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ
الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ (2)
إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ
تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ
النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ (3)
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ
أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ
أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ
وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا (4)
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ
أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ(5)
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ
فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ۔(6)
ہاں یہ ایک نہایت درست اندازِ فکر ہے کہ آپ اشخاص
پر حکم لگانے سے احتیاط برتنا چاہتے ہیں۔ مگر اس کا طریقہ یہ نہیں کہ آپ حکم بغیر
ما اَنزل اللہ کو کفر قرار دینا موقوف ٹھہرائیں جبکہ اللہ رب العزت نے اس فعل کو
کفر ہی قرار دیا ہے۔ اشخاص پر حکم لگانے سے حتی الوسع احتیاط برتنا اہل سنت کا ایک
نہایت اصیل وصف ہے اور منہج اہل سنت کے خصائص میں سے ایک اہم ترین خاصیت۔ اِس کے
لئے اہل سنت کے ہاں جو چیز پائی جاتی ہے اُس کو کہتے ہیں حکمِ مطلق اور حکمِ معین
میں تفریق کرنا۔ (”حکمِ مطلق“ سے مراد ہے: ’جو شخص فلاں فعل کرے اُس کا شریعت میں
یہ اور یہ حکم ہے‘۔ جبکہ ”حکمِ معین“ سے مراد ہے: ’فلاں کام کر لینے کے باعث فلاں
شخص کا آج کے بعد شریعت میں یہ اور یہ حکم ہے‘)۔ اصولِ اہل سنت کی رو سے: اول
الذکر سے ثانی الذکر کا لازم آنا ضروری نہیں۔ یعنی کثیر حالات میں ایسا ممکن اور
جائز ہے کہ __ شرک یا کفر یا فسق کے کسی واقعہ کے حوالے سے __ آدمی حکمِ مطلق تو
کھل کھلا کر بیان کرے البتہ حکمِ معین لاگو کرنے سے دامن کش رہے۔ اِس مسئلہ کی
تفصیل میں ہم یہاں نہیں جا سکیں گے، البتہ یہ اِس بات کیلئے ایک علمی بنیاد ضرور
ہے کہ آپ اشخاص کو معین nominate کر کے ان پر حکم لگانے سے حتی
الامکان احتراز کریں اور اپنی دعوت کا اصل زور حکمِ مطلق پر ہی مرکوز رکھیں۔
پس ضروری ہے کہ _ خدا کی شریعت کو چھوڑ کر غیر
اللہ کی شریعت کو عباد اور بلاد کیلئے دستور ٹھہرا دینے کے حوالے سے _ حکمِ مطلق
کو تو ہرگز اُس کی جگہ سے نہ ہٹایا جائے؛ یعنی جہاں تک ہو سکے کھل کر بیان کیا
جائے کہ جو شخص ایسا کرے وہ شریعت کی رو سے کافر ہو جاتا ہے بلکہ اس کو طاغوت کہا
جاتا ہے۔ اِسی کو نشر کیا جائے اور اس فعل کی ایسی ہی شناعت عوام الناس کے دلوں
میں بٹھائی جائے۔ تاہم جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ زید یا بکر نام کا شخص اللہ
کی شریعت کو ہٹا کر غیر اللہ کی شریعت کو عباد اور بلاد کیلئے دستور ٹھہرا دینے کے
باعث کفر کر چکا ہے، تو ایسا کہنے کی مصلحت اگر اسکی مفسدت پہ بھاری ہے تو کہا
جائے گا اور اگر اسکی مفسدت اسکی مصلحت پہ بھاری ہے تو نہیں کہا جائے گا؛ یعنی
حکمِ معین کا معاملہ مصالح اور مفاسد کے موازنہ سے متعلق ہے۔ اِس پر تفصیل سے ہم
کسی اور مقام پر ہی بات کر پائیں گے البتہ _ اصولِ سنت کی رو سے _ حکمِ معین سے
حتی المقدور اجتناب کر رکھنے کی شریعت میں پوری پوری گنجائش ہے اور اِس میں ہرگز
کوئی قباحت نہیں۔
البتہ جہاں تک حکمِ مطلق کا تعلق ہے تو جس بات کو
اللہ اور اُسکے رسول نے محض گناہ کہا ہے اُسکو ہم محض گناہ کہیں گے۔ ہاں جس بات کو
اللہ اور اُسکے رسول نے محض گناہ نہیں بلکہ کفر کہا ہو، جبکہ امت کے اہل علم نے
اُسکو کفر اکبر پر ہی محمول کیا ہو، ہم بھی اُسکو ’محض گناہ‘ نہیں بلکہ ’کفر‘ کہیں
گے.. جبکہ حکم بغیر ما اَنزل اللہ کو قرآن میں کفر ہی کہا گیا ہے۔
اداریہ میں اس سے بعد کے اجزاء
ہر کوئی اصولِ سنت و سلف ہی کی بات کرتا ہے!
و
اداریہ کی ابتدا میں مذکور مراسلہ کے حوالہ سے۔۔۔۔
ز
اداریہ میں اس سے پہلے کے اجزاء
کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم
استعمار۔۔ ’لباسِ مجاز‘ میں!
الف
بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!
ب
اصولِ سنت کے متخصصین اِس دور میں بہت زیادہ نہیں
ج
مسئلہ ’حکمرانوں‘ سے کہیں بڑا ہے!
د
(1) (الکہف:26): ”اور وہ اپنے حکم
میں کسی کو شریک نہیں کرتا“
(2) (الشوریٰ: 21) ”تو کیا اُن کے
کوئی شریک (خدائی) ہیں جو ان کیلئے طرزِ زندگی مقرر ٹھہراتے ہیں جس کی اللہ نے
اجازت نہیں دی؟“
(3) (یوسف: 40) ”(اور) حکم (دینے
کا اختیار صرف) خدا ہی کا ہے (اور) اُس نے حکم دیا ہے کہ بجز اُس کے اور کسی کی
عبادت مت کرو یہی (توحید کا) سیدھا طریقہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“۔ (ترجمہ:
اشرف علی تھانوی)
(4) (النساء: 60) ”کیا تو نے نہیں
دیکھا ان لوگوں کو جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں اُس پر جو تجھ پر نازل
کیا گیا اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا، (مگر) چاہتے ہیں کہ فیصلے کروائیں طاغوت
سے جبکہ وہ مامور ہی اِس بات کے تھے کہ اس (طاغوت) کے ساتھ وہ کفر کریں۔ (دراصل)
شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بھٹکا کر دور کی گمراہی میں لے جائے“
(5) (المائدۃ: 50) ”تو کیا یہ
جاہلیت کا فیصلہ (و دستور) چاہتے ہیں؟ فیصلہ (و دستور) دینے میں اللہ سے بہتر کون
ہے، یقین رکھنے والے لوگوں کیلئے؟“
(6) (المائدۃ: 44) ”اور جو لوگ
اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلے نہ کریں سو ایسے لوگ بالکل کافر ہیں“