لطائف
نفس کو فہمائش
ابن جوزی
ایک دفعہ آزمائش نے میرے یہاں آ بسیرا کیا۔ بہت دعائیں کیں کہ کسی طرح دن پھریں، مگر قبولیت میں تاخیر ہوتی چلی گئی۔ تب کیا دیکھتا ہوں نفس جھنجھلانے لگا ہے؛ گویا چین سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اور مالک کے فیصلوں پر اطمینان کی نعمت سے محروم ہوا چاہتا ہے۔ اپنی یہ حالت دیکھی تو آخر میں نے نفس کو مخاطب کیا:
کم بخت!اپنی اوقات دیکھ، بتا تو سہی تو غلام ہے یا مالک؟؟؟ تیری تدبیر کسی اور کے ہاتھ میں ہے یا تو خود مدبر ہے؟کیا تجھے معلوم نہیں کہ دنیا امتحان گاہ ہے؟ پر تو ہے کہ اپنی اغراض طلب کرنے سے رکنے کا نام نہیں لیتا لیکن اپنی منشا پوری نہ ہونے پر صبر کا روادار نہیں! بتلا تو سہی کہ پھر ’ابتلا‘ کیا ہے اور وہ کونسی خو ہے جس کا نام ’بندگی‘ ہے؟ ’ابتلا‘ تو نام ہی اس بات کا ہے کہ کبھی کبھی ایسا ہو کہ تیری سنی نہ جائے اور جو تو چاہے وہ نہ ہو رہا ہو! اپنے ”مکلف“ ہونے کا معنیٰ تو ذرا سمجھ! تو اس جہان میں بندگی کر کے دکھانے آیا ہے نہ کہ اپنی فرمائشیں پوری کرانے۔ مالک کے فیصلے پر واویلا! حالانکہ کتنے ہی مشکل امور ہیں جو اَب بھی تجھ پر آسان ہی کر رکھے گئے ہیں اور کتنی ہی ایسی چیزیں جو بڑوں بڑوں کو میسر نہیں تیرے در پر پہنچائی جاتی ہیں۔
یہ باتیں سنیں تو تب جا کر نفس ذرا دھیما پڑا!
میں نے نفس کو پھر مخاطب کیا، اور کہا: ابھی میرے پاس ایک اور جواب ہے: اللہ تعالیٰ سے تو اپنے اغراض پورے کرانے کو کس قدر بے چین ہے۔ لیکن خود اُس کے فرائض و واجبات پورے کرنے کیلئے ایسی بے چینی تیرے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی! یہ نادانی نہیں تو کیا ہے؟ حق تو یہ تھا کہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا، اس لئے کہ تو تو ہے ہی غلام اور مملوک۔ ایک فرض شناس غلام کی ساری بھاگ دوڑ مالک کے حقوق ادا کرنے کیلئے ہوتی ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ مالک کیلئے میری خواہشات پوری کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس سے نفس پر کچھ مزید اثر ہوا۔
تب میں نے کہا: ابھی میرے پاس ایک تیسرا جواب بھی ہے: کیا بعید اس قبولیت کی راہ میں تو خود ہی حائل ہوا رہا ہو۔ کیا بعید تو نے ہی قبولیت کے راستوں کو گناہوں سے مسدود کر رکھا ہو۔ گناہ ہٹیں اور وہ راستے کھلیں تو شاید قبولیت بھی آ پہنچے۔ تو ایسا انجان بھی نہیں کہ: نجات اور آسودگی کا اصل راز تقویٰ ہے؟ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا:
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ”اور جو اللہ سے ڈرا، اللہ تعالیٰ اس کیلئے تنگی سے نکلنے کی صورت نکال دے گا اور اس کو رزق دے گا ایسی جگہ سے جہاں سے اس کا گمان تک نہ ہو۔ اور جو اللہ پر اپنا معاملہ چھوڑے اللہ اس کو بہت کافی ہے۔ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے۔ اللہ پہلے ہی ہر چیز کی قدر متعین ٹھہرا چکا ہے“۔
اور یہ بھی کہ: وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا ”اور جو اللہ سے ڈرا، اللہ اس کے معاملہ میں آسودگی پیدا کر دے گا“۔
کیا تو جانتا نہیں، بندے کے یہاں سے خوئے فرماں برداری ہی چلی جائے تو پھر کہاں کی مرادیں؟!
آہ غفلت کا بند! کہ جس نے مالک کی عنایات کے راستے مسدود کر دیے ہیں! ایسا قوی بند! اِس کے ہوتے ہوئے مرادوں کے نخل سوکھیں گے نہیں تو اور کیا ہوگا! ’سیرابی‘ درکار ہے تو ذرا غفلت کا یہ بند تو توڑ کر آ!!!
نفس اور بھی نیچا ہوا، کہنے لگا: بات سچ ہے!
میں نے پھر اس کو مخاطب کیا: میرے پاس چوتھا جواب بھی ہے: کیا بعید تو مالک سے کسی ایسی چیز کیلئے ضد کر رہا ہو جس کے انجامِ بد سے تو بالکل ہی بے خبر ہو۔ تجھے کیا معلوم مالک سے تو جو مانگ رہا ہے وہ ضرور تیرے لئے خیر ہی ہے اور اس کا تجھے ابھی اسی لمحے مل جانا ہی تیرے حق میں ہے؟ کیا تو نے بچے کو ماں سے کسی چیز کیلئے ضد کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جسے ماں اگر مان لے تو بچہ برباد ہو کر رہ جائے؟ کیا تو نے بخار میں مریض کو کسی ایسی چیز کیلئے ضد کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو اس کیلئے عین اس حال میں زہر کا درجہ رکھتی ہو؟ کیا تیرے مالک کا ہی یہ فرمان نہیں: وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (البقرۃ: 216) ”اور کیا بعید کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لئے خیر ہو، اور کیا بعید تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے شر ہو ، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“۔
اس سے نفس پر جیسے کوئی عقدہ کھل گیا ہو، اور میں نے دیکھا اس کی شوریدگی کچھ پسپا ہونے لگی ہے۔
تب میں نے ایک بار اور اس کو مخاطب کیا: ابھی تیرے لئے میرے پاس پانچواں جواب بھی ہے: جانتے ہو، تمہارا یہ اسلوبِ احتجاج تمہار اجر کم کر دے گا؟ تمہارے مرتبہ کو جو مالک تمہیں دینا چاہتا ہے گھٹا دے گا؟ سچ پوچھو تو اللہ تعالیٰ کا تجھے نہ دینا درحقیقت دینے ہی کی ایک صورت ہے۔
ان باتوں کو چھوڑ، اگر تو اللہ تعالیٰ سے آخرت سنورنے کی استدعا کرتا تو تیرے لئے کہیں بہتر ہوتا۔ یہ کچھ باتیں تیرے فائدے کی بیان ہوئیں، مگر فائدہ اسی صورت ہونے والا ہے کہ تو انہیں دل میں بٹھا لے۔
نفس اب اچھی خاصی تسکین پا چکا تھا۔
(ابن جوزی، صید الخاطر)