بہ سلسلۂ اداریہ: کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم
د: مسئلہ ’حکمرانوں‘ سے کہیں بڑا ہے!
حامد کمال الدین
جیسا کہ ہم عرض کر چکے، فکرِ ارجاءکے کچھ نہ کچھ اثرات سے تو شاید ہی یہاں کا کوئی طبقہ متاثر ہوئے بغیر رہا ہو۔ کسی میں فکرِ ارجاءکے محض کچھ اثرات پائے جاتے ہیں تو اِس وجہ سے ہم بہر حال کسی کو ’مرجئہ‘ نہیں کہتے۔ کوئی ایسا کرتا آپ کو نظر آتا ہے، اور یقینا کہیں کہیں ایسا ہے، تو وہ کم علمی کی دلیل ہے اور اغلباً اُس مصیبت کی نشاندہی کرتا ہے جس کی جانب ہمارے مذکورہ اداریہ کے صفحہ 23 تا 15 پر آنے والے مقطع میں اشارہ ہوا ہے۔
وہ علمی و فکری و تحریکی طبقے جو اپنے عمومی اصول میں اہل سنت ہیں، اُن میں سے کوئی شخصیت یا کوئی حلقہ اگر کسی ایک آدھ مسئلہ میں وقت کے کسی مبنی بر بدعت رجحان سے متاثر ہو بھی جائے اور اُس بدعت پر مشتمل کچھ عبارتیں اُس سے صادر ہو بھی جائیں، تو ہمارے علماءاور ائمہ نہ تو ایسی سنی شخصیت یا سنی حلقے کو اہل سنت سے خارج کرتے ہیں، نہ اُس پر اُس بدعت کا لیبل چسپاں کرتے ہیں کہ مثلاً اُس کو ’مرجئہ‘ یا ’خارجی‘ یا ’معتزلی‘ یا ’جہمی‘ یا ’رافضی‘ یا ’ناصبی‘ کہنے لگیں۔ ہاں اُس پر اُس بدعت کے حوالے سے ’بدعتی‘ ہونے کا الزام اُس وقت لگائیں گے اور اُس پر وہ عنوان تب چسپاں کریں گے جب وہ اُس بدعتی مذہب کو باقاعدہ اپنا چکا ہو اور اُسی کے قواعد اور اصول کو پورے علم اور وثوق کے ساتھ اپنے اصول ماننے لگا ہو، خصوصاً اگر وہ اس گمراہی کا داعی بھی ہو گیا ہو۔
مثلاً، تیسری صدی ہجری کے بعد ایسا ہوا کہ تاویلِ صفات کی گمراہی معتزلہ کے ہاتھوں پھیل جانے کے باعث فضا پر اچھی خاصی چھا گئی تھی اور ماحول میں اِس کے اچھے خاصے اثرات دیکھے گئے۔ حتیٰ کہ اشاعرہ جو کہ معتزلہ کے بالمقابل اصولِ اہلسنت کا دفاع کرنے اٹھے تھے، بھی کئی ایک مقامات پر تاویلِ صفات ہی کو قبول کر بیٹھے تھے، تا آنکہ بعد ازاں بقیہ اہل سنت اشاعرہ کی تاویلِ صفات کا بھی رد کرنے لگے۔ غرض ’تاویلِ صفات‘ وقت کا کچھ ایسا فیشن بن گیا تھا کہ اہل سنت علماء وفقہاء و محدثین کی ایک تعداد ایسی ہوئی جن کے بیان میں کہیں کہیں نادانستہ وہ عبارتیں آ جاتیں جو در اصل تاویلِ صفات پر مبنی ہوتیں۔ کئی ایک علمی نام بھی اِس حوالہ سے لئے جا سکتے ہیں مگر یہاں ان کا ذکر غیر ضروری ہے۔ اِن اہلسنت علماءو فقہاءو محدثین کی کئی ایک عبارتیں آج بھی مل سکتی ہیں جو تاویلِ صفات کی غماز ہیں۔ مگر چونکہ یہ علماء و فقہاء و محدثین اپنے عمومی اصول میں اہل سنت تھے بلکہ اِن میں سے کئی ایک اہل سنت کے ائمہ اور جہابذہ شمار ہوتے ہیں، لہٰذا اُن کو کبھی اُس بدعت کے حوالہ سے طعنہ نہیں دیا گیا۔ اُن کی امامت تک اِس سے متاثر نہیں ٹھہرائی گئی۔ اُن کی وہ عبارتیں جو کہیں خال خال ان کے ذخیرۂ علم میں مل جاتی ہیں، اور جنہیں آج بھی کچھ کم نظر اچھالنے لگتے ہیں، اُن ائمۂ سنت کو مجروح کرنے کیلئے ہرگز معتبر نہیں ٹھہرتیں۔ اُن کی اِن غلطیوں کی بابت ہمارے ائمۂ علم ہمیشہ یہی کہتے سنے جاتے ہیں کہ ”یہ نیکیوں اور خوبیوں کے اتھاہ سمندر میں خطا کے ایک قطرے سے زیادہ نہیں“۔ بلکہ امام ابن قیمؒ تو حاطب بن ابی بلتعہؓ کی مثال دے کر کہ کیونکر اصحابِ بدر میں سے ہونا ایک اتنی سنگین غلطی کو اپنی عظمت کے آگے بے اثر کر ڈالتا ہے، نہایت ادبی انداز میں اِس پر کتاب الطہارۃ کی حدیث چسپاں کرتے ہیں: اِذَا کَانَ المَاء قُلَّتَینِ لم یحملِ الخَبَثَ!!!(1)
کوئی جانے تو یہ ہے کسی فکری غلطی میں پڑ جانے والے علماءو فقہائے سنت کے ساتھ تعامل کے حوالے سے منہج اہل سنت!
پس یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی عالم کو جو ہمارے کسی نظریہ سے متفق نہیں ہم ’مرجئہ‘ قرار دے ڈالیں! معاذ اللہ! یہ تک سوال پیدا نہیں ہوتا کہ واقعتا کسی کے ہاں ارجاءکا اگر کوئی اثر پایا گیا تو بھی ہم اُس کو ’مرجئہ‘ قرار دینے لگیں۔ جھٹ سے حکم لگا دینے اور ’لیبل‘ بانٹتے پھرنے کا یہ جو منہج ہے ہم تو اِسکا رد کرنے بیٹھے ہیں نہ کہ اِسکو ترویج دینے۔
تو پھر ’مرجئہ‘ کا لفظ ہمارے مضمون میں کس کیلئے استعمال ہوا؟ کسی شخص یا مجموعۂ اشخاص کو معین nominate تو بہرحال نہیں کیا گیا تھا، پھر بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ ’مرجئہ‘ رجحانات ہمارے نزدیک کون کونسے تھے جن کی طرف ہمارے مضمون میں اشارہ ہوا۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ ’کیا مرجئہ طے کریں گے۔۔‘ ایک پر مذمت اسلوب ہے اور ہمارے منہج کے بارے میں یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے کہ وقت کے بدعتی دھاروں کی بابت ایک شدت آمیز انداز اپنانا ہم منہج اہل سنت ہی کا ایک باقاعدہ حصہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔ تو پھر ہمارے اس مضمون میں یہ اسلوب کن طبقوں کی بابت اختیار کیا گیا؟
اِس طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں، مگر ہمارے مضمون کا فائدہ برقرار رہنا اِسی پر منحصر ہے کہ اُس کا درست سیاق ہی ذہنوں کے اندر واضح رہے۔۔۔۔
نہایت واضح ہو۔۔۔۔ ہم یہاں کوئی معرکہ اپنے اہل سنت طبقوں کے ساتھ چھیڑ دینے کے ہرگز ہرگز روادار نہیں، بلکہ اِس طرزِ عمل کی جتنی مخالفت ہمارے بس میں ہوگی ہم کریں گے۔ ہم یہاں جس معرکہ کو کھڑا کر دینے کے خواہشمند ہیں، اور مقدور بھر کوشاں بھی، وہ ہے یہاں کے باطل کے خلاف جو: یا تو ایک منظم طاغوتی نظام کی صورت ہم پر چھایا ہے اور درحقیقت استعمار ہی کا ایک باقاعدہ تسلسل ہے، اور یا پھر ’مذہبی‘ چولے میں پائے جانے والے یہاں کے منحرف و گمراہ کن افکار جو شرک تک پہنچتے ہیں یا سبِّ صحابہؓ تک یا جن کی تان یہاں ٹوٹتی ہے کہ وہ صحابہؓ و سلف کی راہ کو بے علمی یا گمراہی باور کرائیں، یا پھر ان صریح بدعات کو معاشرے میں زندہ کریں جن کو ضلالت قرار دینے میں ائمۂ اہل سنت کے ہاں ہرگز دو رائے نہیں۔
گو ہمارے اپنے مضمون میں بھی اِس حقیقت کی جانب کچھ اشارے ہوئے، مگر ساتھ میں کچھ ماخوذ مضامین کے اندر بھی (خصوصاً ملاحظہ ہو مذکورہ شمارہ میں شیخ حامد العلی کا مضمون) یہ بات نہایت کھول کر واضح کی گئی تھی کہ ’عالمی انتظام کاروں‘ کے ہاں اِس وقت ’مذہب‘ کا ایک ’گلوبل ایڈیشن‘ تیار ہو رہا ہے اور گو اب بھی اِس پر یہاں کے تعلیمی نصابوں اور میڈیا کے ذریعے بے تحاشا کام ہو رہا ہے مگر آنے والے سالوں میں یہ امکان بہت بڑھ جائے گا کہ ہر طرف ’مذہب‘ کے اِسی دجالی ایڈیشن کا ہی شور سنا جائے، جبکہ ہم جانتے ہیں جہالت ہمارے یہاں پہلے ہی کچھ کم نہیں، اب اگر تعلیمی نصابوں اور میڈیا کے سپیکروں سے دھڑا دھڑ یہ نیا ’مذہب‘ نشر ہونے لگتا ہے تو ہمارے اِن معاشروں کا کیا بنے گا جو اپنے وجود سے آج ’امتِ مسلمہ‘ کی تشکیل کرتے ہیں؟ اسلام اللہ کا دین ہے اور اِس کو اللہ کے فضل سے ہرگز ہرگز کوئی خطرہ نہیں پھر بھی عالمی ساہوکار اپنے اِن منصوبوں کیلئے سرگرم ضرور ہیں اور ہمیں بھی سرگرم ہو جانے کیلئے ایک ’دعوتِ مبارزت‘ بہر حال دے رہے ہیں۔ اِس گھناؤنے خطرے کی نشان دہی کے سلسلہ میں ہماری کتاب ’یہ گرد نہیں بیٹھے گی‘ سے ایک اقتباس دے دیا جانا یہاں مفید ہوگا:
”بیشتر اَدیان اِس وقت ’ری فارمیشن‘ کی عالمی نظریاتی تحریک کے آگے پوری طرح سپر ڈال چکے ہیں، سوائے ”اسلام“ کے جوکہ نہ صرف ’ری فارمیشن‘ کے قابو نہیں آرہا بلکہ اِس کے آگے __ پورے عالم اسلام میں __ الٹا ’ری فارمیشن‘ ایسے زورآور ایجنڈا کی حامل تحریک کو ہی سپر ڈالنا پڑ رہی ہے!!!
”یعنی جو ایک ڈرامہ بڑی حد تک رچایا ہی اس لئے جا رہا تھا کہ اسلام کو ’ری فارم‘ کر دیا جائے، تاکہ اُن کی مرضی کے ایک ’جہانِ نو‘ کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو، جس کے نتیجے میں پورے روئے زمین کے ثقافتی عمل کو ایک خاص ایجنڈے کے حق میں ’مونو پو لائز‘ کر لیا جائے (جس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا جا رہا ہے کہ ’اخلاق‘ کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے عملاً پوری دنیا کا ایک ہی مذہب ہوگا جس کے ذریعے لوگوں کا ’مابعد الطبیعبیا تی‘ شوق پورا کرادیا جایا کرے گا، جبکہ اَدیان میں پائے جانے والے ’فرق‘ کو ایک نہایت رمزی، واجبی اور ثانوی سی چیز بنا کر رکھا جائے گا جس کی حیثیت ’سالن‘ میںجوکہ ’ایک‘ ہی ہوگا ’حسبِ ذائقہ نمک مسالے‘ کی ہوگی اور اسی سے ایک ’تنوع‘ کا کام بھی لیا جاتا رہے گا!).... چنانچہ ایک ڈرامہ جو بڑی حد تک رچایا ہی ”اسلام“ کو قابو کرنے کیلئے جا رہا تھا وہ ہر جگہ کام دے رہا ہے البتہ اِسی ”اسلام“ ہی کے محاذ پر ناکام جا رہا ہے!
(”یہ گرد نہیں بیٹھے گی“ ص 163)
اِس محاذ پر سرگرم مستشرقین، اپنے مطلب کی تلاش میں قدیم و جدید مسلم فرقوں کے افکار کھنگالتے ہیں تو ’مرجئہ‘ پر ہاتھ پڑتے ہی ان کے چہرے پر بشاشت ٹپکنے لگتی ہے، کہ ’ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی‘!
یہاں پر شیخ حامد العلی کے مذکورہ مضمون کے کچھ اقتباسات دے دیے جانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے:
”حقیقتِ توحید پر تاریخ کے اِس بدترین حملے کا عَلم جس تحریک نے آج اٹھا رکھا ہے اس کا نام ہے: فکری وثقافتی گلوبلائزیشن۔
”البتہ سب سے عجیب اور پراَسرار بات اِس مرحلے پر جو سامنے آتی ہے۔۔ یہ ہے وہ حیران کن اتفاق جو اِس قلعے پر باہر سے ثقافتی گلوبلائزیشن کا حملہ ہونے اور اندر سے فکرِ ارجاء کی جانب سے ہلہ بول دیا جانے کے مابین پایا جاتا ہے!
.... ....
”چنانچہ آپ دیکھتے ہیں اِسی ’گلوبلائزیشن‘ کے جلو میں ایک اور تحریک بھی چپکے قدموں سے عالمی سرزمین پر پیش قدمی کرتی آرہی ہے، اور یہ ہے ’وحدتِ ادیان‘ جو اپنے یہاں باقاعدہ اب دستک دینے لگی ہے ۔ اس نئے مہمان __ وحدتِ اَدیان __ کی سب سے پہلی فرمائش یہ ہے کہ مسلمانوں کی لغت سے ’کافر‘ ایسا خوفناک لفظ نکال دیا جائے۔ وہ سب اَفکار، وہ سب اَدیان اور وہ سب عقائد جو دینِ اسلام سے متصادم ہیں اب باقی زمانے کیلئے ’کفر‘ کہلانے سے مستثنیٰ کر دیے جائیں!
”پس آج اِس ’گلوبلائزیشن‘ کے علمبرداروں کی سب سے زیادہ جان جس چیز سے جاتی ہے وہ ’تکفیر‘ کا لفظ ہے، قطع نظر اِس سے کہ مصادرِ شریعت کی رو سے اِس کا اطلاق کہیں پر کس قدر برحق ہے اور کس قدر ناحق۔ یہ اِس کا دردِ سر ہی نہیں کہ آیا کسی کی ’تکفیر‘ حق ہو رہی ہے یا نا حق۔ یہ تو اِس لفظ کو ہی جدید دنیا کی لغت سے باہر کر دینا چاہتی ہے۔ ’کافر‘ کا لفظ آج دنیا کی کسی بھی قوم اور کسی بھی گروہ کیلئے ’معیوب‘ ہے، خواہ وہ بت پرست کیوں نہ ہو، شیطان پرست (devil worshiper) کیوں نہ ہو، آگ کا پجاری کیوں نہ ہو، حتیٰ کہ شرمگاہوں کے مجسمے بنا کر ان کو پوجنے کا مذہب کیوں نہ رکھتا ہو.. کسی کو ’کافر‘ نہ کہا جائے، ہر ایک کا اپنا اپنا ’نکتۂ نظر‘ ہے اور ’گلوبلائزیشن‘ کی نظر میں یکساں طور پر ’لائقِ احترام‘!
”سو یہ وجہ ہے جو دشمنانِ اسلام نے ’تکفیر‘ کے اِس اسلامی تصور کے خلاف جنگ کے طبل بجا دیے ہیں، جبکہ یہ تصور بلاشبہ اللہ اور اُس کے رسول کے دیے ہوئے احکامات سے ثابت ہے۔ اللہ اور اس کا رسول جس کی تکفیر کریں، اُس کی تکفیر نہ کرنا ہی تو اسلام کی وہ فصیل گرا دینا ہے جو عقائدِ اسلامی کیلئے ایک چاردیواری کا کام دیتی ہے۔ چاہتے ہیں یہ اِس فصیل کو ہی پہلے ملیامیٹ کر دیں جو اِن کے کفر اور ہمارے ایمان کے مابین حائل ہے۔ چاہتے ہیںسب سے پہلے یہ اِس گھر کی وہ دیوار ہی گرا دیں جس کے بعد اِس کا سب آرپار ایک ہو جائے۔ خود یہ اپنی تلواروں کو صلیب بنائے ہوئے ہیں اور اپنی صلیبوں کو تلوار، مگر ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم اپنی ڈھالیں تک توڑ دیں۔۔ اپنی فصیلیں آپ اپنے ہاتھوں مسمار کر دیں !
”یہ ایک عجیب بات ہے کہ جو تصویر یہ ’عالمی ثقافتی مہم‘ اِس عالمِ نو کی بنانا چاہ رہی ہیے، ہمارے یہاں پایا جانے والا ارجائی فکر کمال انداز سے اس ’تصویر‘ کو مکمل کرتا ہے! اصولِ ارجاءاسی لئے تو ہیں کہ ایمان اور کفر کے مابین جو ایک حدِ فاصل ہے اُس کو زیادہ سے زیادہ غیر مرئی بنا دیا جائے!
’گلوبلائزیشن‘ کو ہمارے یہاں اِس کے سوا اور کیا چاہیے؟! یہ اُس کے لئے نعمت، وہ اِس کے لئے غنیمت!
”اِن دونوں میں کیا خوب نبھ رہی ہے!
”فکرِ ارجائی کا کہنا ہے کہ عمل کو ایمان کی تعریف سے باہر کردو؛ عملاً، ایمان کیلئے زبان سے دعویٰ کافی ہے (کہ دل کی تصدیق صرف خدا کے علم میں ہے!) تبھی آپ آج کے مرجئہ کو کہتے سنیں گے کہ جب تک کوئی شخص زبان سے انکار نہ کردے اور منہ سے بول کر نہ کہہ دے کہ میں دین ِ اسلام کو نہیں مانتا، چاہے وہ کفر میں کتنا ہی آگے کیوں نہ چلا گیا ہو اُس کو خارجِ اسلام تصور نہیں کیا جاسکتا! پس اِس مذہبِ مرجئہ کی رو سے، کوئی شخص پوری شریعت کو چاہے معطل کیوں نہ کر دے، حتیٰ کہ کسی دن ’ہم جنسی‘ کے حق میں قانون کیوں نہ پاس کر دے، اور بقیہ زمانے کے لئے یہ دستور کیوں نہ ٹھہرادے کہ مرد مرد کا شوہر بن سکتا ہے اور عورت عورت کے ساتھ بیاہ رچا سکتی ہے اور یہ کہ ’ہم جنسی‘ کے اِس رشتے کو اُس کے جیتے جی مکمل قانونی حقوق حاصل ہوں گے۔۔ تو بھی ایسے شخص کو، جب تک کہ وہ دعویٰ اسلام کا کرتا ہے، کافر نہیں کہا جا سکتا، جب تک کہ وہ منہ سے ہی بول کر نہ کہہ دے کہ میں رسول کی لائی ہوئی شریعت کو جھٹلاتا ہوں! میرے خدایا! اِس سے بڑھ کر شریعت کو جھٹلانا کیا ہے؟! اِس دین کے دشمنوں کو اِس سے بڑھ کر ہمارے یہاں سے آخر کیا چاہیے؟ اُن کو کیا پڑی کہ ہمارے اِس حکمران نے ’زبان سے صراحت‘ کی ہے یا نہیں، اُن کو تو ’عمل‘ چاہیے!
”مرجئہ کا مذہب ہے کہ کوئی شخص ساری عمر رسول کی لائی ہوئی کسی ایک بات پر بھی عمل کر کے نہ دے بلکہ عمل سے رسول کے لائے ہوئے دین کو تار تار کیوں نہ کرے حتیٰ کہ اُس کے ساتھ برسرِ جنگ کیوں نہ ہو، تب بھی وہ مسلمان ہے! کوئی سوچے، ’مسلمان‘ کی یہ جو قسم ہے، ’گلوبلائزیشن‘ کو اپنے یہاں اِس سے بڑھ کر بھی بھلا کچھ چاہیے؟! اِس ’مرجئہ کے مذہب‘ سے بڑھ کر اِس دور میں بھلا کیا نعمت ہوسکتی ہے؟!
”مرجئہ کا یہ مذہب جو کبھی متکلمین کی کتب میں ہی پایا جاتا تھا اور زیادہ تر فلسفی بحثوں میں ہی سامنے آیا کرتاتھا.. لگتا ہے اصل میں تو اِس ’گلوبلائزیشن‘ ہی کیلئے بنا تھا! آج ہی تو ’ارجائ‘ کے کھل کھیلنے کا وقت آیا ہے!
(شیخ حامد العلی کے مضمون سے اقتباسات: ایقاظ جنوری تا مارچ 2009ء، ص: 73 تا 69)
اب ہم چاہیں گے کہ قاری ہمارے اُس محولہ اداریہ پر دوبارہ نظر ڈالے کہ ’مرجئہ‘ کے حوالے سے اگر کوئی کاٹ دار بات ہمارے مضمون میں ہوئی ہے، اور یقینا ہوئی ہے، تو وہ کس سیاق میں ہوئی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، یہ بھی دیکھئے کہ جونہی گفتگو کا سیاق ہمارے اُن سُنی دینی طبقوں کی طرف آتا ہے، جو ہماری دانست میں کچھ فکری مغالطوں کا شکار ہو گئے، تو فوراً کس طرح ہمارا خطاب ’ہمارے بھائیوں‘ ایسے الفاظ اور تعبیرات کا لہجہ اختیار کر لیتا ہے:
1- .... .... اور یہ اِن نظاموں کی دشمنی کو ہی ’تکفیری ہونا‘ سمجھتے ہیں اور اِن نظاموں کو کفر اور باطل کے نظام قرار دینا ہی گمراہی خیال کرتے ہیں!!!
حالانکہ کون ہے، علمائے سنت میں سے، جو غیر اللہ کی شریعت چلانے والے نظام کو باطل نظام نہیں سمجھتا؟؟؟
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 29)
اقتباس پر غور فرمائیے، آج کے اِن نظاموں کو کفر اور باطل کے نظام قرار دینے کی بات ہو رہی ہے۔ اِن نظاموں کے کارپردازوں کی بات یہاں نہیں ہوئی، خود اِن نظاموں ہی کو باطل اور کفر کے نظام کہنے والوں کو جو شخص تکفیری اور خارجی سمجھے، بتائیے اُس کی بابت کیا سمجھا جائے؟ یہ نظام باطل ہی نہیں تو پھر یہاں کا سارا تحریکی عمل جو عالم اسلام میں پچھلی پون صدی سے اِس باطل کے خلاف امت کو کھڑا کر رہا ہے، خود یہ تحریکی عمل ہی باطل اور لغو ہو کر رہ جاتا ہے بلکہ صاف صاف ’خارجیت‘ قرار پاتا ہے، اور یہی تو وہ بات ہے جو یہاں کے جدت پسند گھاگ طبقے درحقیقت ذہنوں کے اندر بٹھانا چاہ رہے ہیں۔اِن خطرناک افکار کو ’مرجئہ‘ کے حوالے سے بے نقاب کرنا کیا کوئی قابل اعتراض بات ہے، جبکہ مرجئہ کے حوالے سے ہماری بات شروع ہی یہاں سے ہوئی ہے؟ کیا واقعتا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مضمون کے عنوان سے الزاماً یہ بات نکلتی ہے کہ جو شخص صاحبِ مضمون کے نظریۂ تکفیر سے متفق نہیں وہ صاحبِ مضمون کے نزدیک ’مرجئہ‘ ہے؟!
2- ہمارے اُسی مضمون میں آگے چلئے تو اب ایک اور صنف کا ذکر ہوتا ہے:
- یہاں وہ لوگ ہیں جو ’تکفیریوں‘ کے منہج سے خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’تکفیر‘ کسی کی ہو، اور خواہ کسی وجہ سے ہو، بس گمراہی ہے! اور یہ کہ جو بھی کسی کی تکفیر کرتا ہے، خواہ اس کی کوئی بھی دلیل ہو، بس وہ ’تکفیری‘ ہے!
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 29)
یعنی وہ طبقے جو سرے سے ’تکفیر‘ کے تصور ہی کو اسلام میں معدوم ثابت کرنا چاہتے ہیں، اور جن کی طرف شیخ حامد العلی کے اقتباسات میں بھی اشارہ ہوا ہے۔ ’مرجئہ‘ کے حوالے سے اِن طبقوں سے امت کو خبردار کرنا کیا ضروری نہیں؟ ہاں اگر یہ طبقے اصولاً اِس بات کو قبول کریں کہ دین میں تکفیر ہے، مگر اِس پر اختلاف کریں کہ کونسی بات پر تکفیر حق ہے اور اصولِ سنت و سلف سے ثابت ہے اور کونسی بات پر تکفیر ناحق ہے اور اصولِ سنت و سلف سے ثابت نہیں تو بلا شبہ یہ ایک درست بات ہوگی، اور اگر یہ ایسا کہیں تو ظاہر ہے یہ اُس صنف میں بھی نہیں آئیں گے جو ہمارے مضمون کے اِس بند میں بیان ہوئی۔
3- اب اِس سے اگلا بند دیکھئے:
- یہاں وہ نکتہ ور ہیں جو اِس نظریہ کی باقاعدہ تشہیر کرتے ہیں کہ کسی شخص کو ’کافر‘ کہنا نبی کی زندگی زندگی جائز تھا، یا پھر اِس سے تھوڑا عرصہ بعد تک۔ ان کے بقول، اب مگر اِس بات کی میعاد ختم ہوچکی ہے۔ نہ اب کسی کے پاس معجزے ہیں اور نہ اِن کا کشید کردہ ’قانون اتمام حجت‘ اب کہیں پورا ہوتا ہے اور، اس وجہ سے، نہ اب کسی کو ’کافر‘ کہہ ڈالنے کا سوال ہی دنیا کے اندر کہیں باقی رہ گیا ہے۔ ’مشرک‘ کا لفظ بھی قطعیت کے ساتھ بول دینا اِن کے نزدیک بنی اسماعیل پر ہی جائز تھا، جن کی طرف نبی آخر الزمانﷺ کو ابتداءً مبعوث کیا گیا تھا۔ اِن کا کہنا ہے، اب نہ مشرک کا لفظ ہی سیدھا سیدھا کسی کیلئے بول دینا جائز ہے اور نہ کافر کا۔ لازم تھا کہ اِن کی اگلی نسل ایک قدم اور آگے بڑھتی اور اِن کے اِس فلسفے کو ’کتابوں‘ سے نکال کر ’وقائع‘ پر چسپاں کرنے لگتی۔ چنانچہ اِن انڈوں سے نکلے ہوئے چوزوں نے رفتہ رفتہ پر پھیلائے تو فتوے دینا شروع کئے کہ آج کسی ہندو تک کے لئے نہ تو ’کافر‘ کا لفظ بولنا جائز ہے اور نہ ’مشرک‘ کا لفظ۔ جی ہاں، کوئی اور نہیں۔۔ ہندو کے لئے! ’کلمہ گو‘ کی بحث سمجھئے کب کی ختم ہو چکی، یہودیوں اور عیسائیوں کی جان بھی کب کی چھوٹ چکی،۔۔۔۔ یہاں تو ’ہندو‘ کو مشرک کہنا جائز نہیں!!! آپ قرآن کی کچھ گرائمر’ضمیروں‘ کے، جن کے اشارے آج تک صرف اِن کی سمجھ میں آئے ہیں، منکر ہوسکتے ہیں اگر آپ نے ہندو کے لئے مشرک کا لفظ بول دیا! اِن کی ’قرآن فہمی‘ کی بدولت دنیا پر اب یہ عقدہ کھلنے جا رہا ہے کہ ’کافر‘ اور ’مشرک‘ ایسی ’مذہبی‘ species صدیاں پہلے دنیا میں ناپید ہوچکی ہیں لہٰذا اِن کے عجائب گھر سے باہر ان کو ’ڈھونڈنا‘ اب فضول ہے اور ان لفظوں کا اطلاق آج کے دور میں کسی پر کر دینا تو ہے ہی قرآنی اصطلاحات سے سراسر ناواقفیت کی دلیل! پھر اِن کے کچھ بہکے ہوئے اور آگے بڑھے۔ ایک مسلمان خاتون کی جانب سے اِن مفتیوںسے دریافت کیا گیاکہ کیا وہ ایک ہندو مرد سے شادی کرسکتی ہے؟ اِن کے ویب سائٹوں پر۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ سائلہ کو جواب میں بتایا گیا تھا کہ بلاشبہ سورہ بقرہ (آیت 221) میں مشرک مرد سے مومن عورت کا بیاہ حرام کیا گیا ہے، مگر چونکہ آج ہندوؤں کو مشرک کہنے کی کوئی دلیل نہیں(!!!)، لہٰذا شرعاً تو ہندو مرد کے ساتھ بیاہ کو حرام نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ سماجی طور پر معیوب ہوسکتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔ مگر شریعت میں اسکو حرام کہہ دینے کی کوئی دلیل البتہ نہیں پائی جاتی!
گائے کو پوجنے والے ہندو کے گھر میں، اللہ واحد قہار کی عبادت کا دم بھرنے والی مسلمان عورت کا، بیوی بن کر رہنا‘.... جی ہاں، اِس کے حرام ہونے پر شریعت میں کوئی دلیل نہیں! یہ رشتہ پندرھویں صدی کے اِن مفتیوں کے قول کی رو سے ایک شرعی رشتہ ہو گا!!!
اِذا لم تستحیِ، فاصنع ما شئت!!!....
اسلامی مسلمات کے بخئے ادھیڑتے چلے جانے کی اِس سے بدتر مثال کیا کوئی ہوسکتی ہے؟؟؟
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 32 تا 30)
اِس پر مزید کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے گرامی قدر معترضین صرف یہ دیکھیں کہ اِن مذکورہ بالا طبقوں کو اگر ’تکفیریوں‘ کا تعین کرنے کے منصب پر بٹھایا جائے اور اُن کا اِس منصب پر بیٹھنا قبول کر لیا جائے، تو ’تکفیریوں‘ کے دائرہ میں بھلا کون کون آئے گا، یا یہ کہیے کون کون نہیں آئے گا؟ ایک طرف میڈیا کا ’تکفیریوں‘ کی بابت ایک ہوّا کھڑا کرنا، دوسری جانب یہاں ’اسلامی تحقیق‘ کے حوالے سے کچھ نئے انداز کی میزیں سجائی جانا، کیا ایک تصویر کو مکمل نہیں کر رہا؟ اِن طبقوں کو سورج کی روشنی تلے لا کر یہ سوال کرنے میں آخر کیا حرج ہے کہ ’کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں؟‘ حق یہ ہے کہ اِس طبقہ کا معاملہ تو ’مرجئہ‘ سے بھی کہیں آگے ہے۔
4- اب اگلا بند آتا ہے تو دیکھئے ہمارا لہجہ کس طرح تبدیل ہوتا ہے:
- ہمارے کچھ بھائی ہیں، جو شاید لاعلمی کے باعث یہ بات کر رہے ہیں کہ اسلام میں ’تکفیرِ معین‘ جائز نہیں اور یہ کہ جو لوگ ’تکفیرِ معین‘ کرتے ہیں انہی لوگوں کو درحقیقت ’تکفیری‘ کہا جاتا ہے!
ہمارے یہ بھائی شاید ایک بات کو دوسری میں خلط کر بیٹھے۔ یہ اگر یہ کہتے تو درست تھا کہ: اصولِ اہلسنت کی رو سے تکفیرِ مطلق اور تکفیرِ معین میں فرق کیا جاتا ہے اور یہ کہ تکفیرِ مطلق، تکفیرِ معین کو ہر حال میں لازم نہیں، ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ہمارے یہ بھائی اگر یہ کہتے تو یقینا یہ ایک درست بات ہوتی۔
غرض ’تکفیرِ معین‘ کی نفی کر دینے کی بجائے ہمارے یہ بھائی اگر’موانعِ تکفیر اور ’شروطِ تکفیر‘ کی بات اٹھاتے تو یہ ایک کہیں علمی بات ہوتی۔۔۔۔ ۔۔۔۔
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 34 - 33)
اِس بند کو آگے تک پڑھ جائیے اور اِس میں ’ہمارے بھائی‘ اور ’ہمارے بھائی‘ ایسے الفاظ کی تکرار دیکھ کر فیصلہ فرمائیے کہ یہ تاثر لینا کہاں تک انصاف پسندی ہے کہ جو شخص صاحبِ مضمون کے نظریۂ تکفیر سے متفق نہیں وہ اُس کے نزدیک ’مرجئہ‘ ہے؟!
5- اب اِس سے اگلا بند دیکھئے:
- یہاں وہ لوگ ہیں جو ”حاکمیت“ پر بات کرنے کو ’خوارج‘ کا مذہب قرار دیتے ہیں....!
اِن کے پراپیگنڈا کی رو سے: ’تکفیری‘ وہ ہوتے ہیں جو آج کے اِن باطل نظاموں کی مخالفت کریں! یہ آج کے اِن موحدین کو جو اللہ مالک الملک کی اتاری ہوئی شریعت کی جگہ انگریز کے دیے ہوئے قانون کو عباد اور بلاد پر مسلط کر رکھنے والے حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، زمانۂ اول کے اُن ’خوارج‘ سے جا ملاتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ ایسے خلفائے حق کے خلاف خروج کیا تھا!
اِنکے نزدیک ’خوارج‘ اور ’تکفیری‘ ہونا یہ ہے کہ شریعت اور قانون اللہ کی بجائے غیر اللہ سے لیا جانے کو ایک مشرکانہ وکافرانہ عمل بتایا جائے! گویا یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ شریعت غیر اللہ سے لی جائے تو بھی آدمی موحد رہتا ہے!.... فکر ارجاءتو بہرحال یہی کہلوانا چاہتا ہے!
وہ بات جو ایک ادنیٰ دینی حمیت رکھنے والا شخص بھی شریعتِ خداوندی کی تعظیم میں بڑے آرام سے کہہ دے گا اور اس کے کہہ دینے میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں پائے گا، وہ اِن لوگوں کو ’گمراہی‘ نظر آنے لگ گئی ہے۔ جب سے انگریز سے مستعار لئے گئے نظام اور قانون اپنے یہاں چلنے لگے ہیں کسی غیرت مند مسلمان نے اِس نظام کو باطل کہنے میں کبھی تردد نہیں کیا۔ البتہ آج کچھ ایسے مرجئہ آنے لگے ہیں جو اِس نظام اور اِس کو چلانے والوں کیلئے طاغوت کا لفظ استعمال کرنے کو ’خوارج‘ کا مذہب بتا رہے ہیں!
اِن مرجئہ کو ہی یہ ’نکتہ‘ پیش کرنے کی سعادت ملی کہ: غیر اللہ کی شریعت چلانے والا شخص اگر ’زبان‘ سے اپنے اِس عمل کو ’حق‘ کہنے کی حماقت نہیں کرتا تو عمل سے وہ جتنا مرضی حدود اللہ کو پامال کرے اور ہزاروں مربع میل پر غیر اللہ کا قانون چلائے، کروڑوں انسانوں کو اور انکی زندگی کو دیوانی و فوجداری ہر ہر لحاظ سے اللہ کی شریعت کی بجائے غیر اللہ کی شریعت کا پابند کر کے رکھے، حتیٰ کہ لوگوں کو غیر اللہ کی شریعت کے بموجب جیلیں اور پھانسیاں کیوں نہ دے، بس وہ مسلمان ہے اور جنت کا امیدوار!!!
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 38)
یعنی حاکمیتِ خداوندی کی مطلق بات کرنا ہی ’خارجیت‘ ٹھہرایا جائے (جس کی جانب حالیہ بند کے پہلے پیرے میں اشارہ ہوا)۔ مسئلۂ حاکمیت کی تفصیلات میں جانا ابھی بعد کی بات ہے، صرف ”حاکمیت“ پر بات کرنے کو ’خوارج‘ کا مذہب بتانا کیونکہ ’خوارج‘ نے بھی ’حکم‘ کی بات اٹھائی بہرحال تھی!
یہ محض فرضی باتیں نہیں، جیسا کہ پیچھے ہم نے عرض کیا، خود برصغیر میں مودودی صاحبؒ پر ’خارجیت‘ کے الزام محض اِس بات پر لگ چکے ہیں کہ مودودیؒ بھی ” اِن الحکم اِلا للہ“ کی قرآنی آیت پڑھتے ہیں، جوکہ ان حضرات کے خیال میں خوارج کا خاصہ ہے! قطع نظر اِس بات کے کہ خوارج یہ آیت وقت کے ایک خلیفۂ راشد کو باطل ٹھہرانے کیلئے پڑھتے تھے، جبکہ مودودیؒ یہ آیت انگریز کا قانون چلانے والے ایک نظام کو باطل ٹھہرانے کیلئے پڑھتے تھے!!!!!
ہمارے معترضین یہ فرمائیں کہ اِن طبقوں کیلئے اگر ’خوارج‘ اور ’تکفیریوں‘ کا تعین کرنے کا حق تسلیم کر لیا جائے تو یہاں کیا کیا گل نہیں کھلیں گے؟ اِن طبقوں کو، جوکہ یہاں کی ایک حقیقتِ واقعہ ہے اور جن کو ہمارے معترضین شاید نظر انداز فرمانا چاہ رہے ہیں، سامنے رکھئے اور پھر فرمائیے ہمارے اس عنوان میں کیا خرابی ہے؟
اِس کے بعد کا پیرا اِسی کا تسلسل ہے:
اِن کے پراپیگنڈا کی رو سے: ’تکفیری‘ وہ ہوتے ہیں جو آج کے اِن باطل نظاموں کی مخالفت کریں! یہ آج کے اِن موحدین کو جو اللہ مالک الملک کی اتاری ہوئی شریعت کی جگہ انگریز کے دیے ہوئے قانون کو عباد اور بلاد پر مسلط کر رکھنے والے حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، زمانۂ اول کے اُن ’خوارج‘ سے جا ملاتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ ایسے خلفائے حق کے خلاف خروج کیا تھا!
اِس سے بعد کے پیرے میں بھی دراصل بات اِس نظام کو باطل کہنے پر ہی ہو رہی ہے۔ البتہ نظام کے ساتھ ساتھ نظام کو چلانے والوں پر بھی چلی ضرور گئی ہے۔ مگر عبارت سے بے حد واضح ہے کہ عبارت میں اُن لوگوں کو مرجئہ نہیں ٹھہرایا جا رہا جو اِس نظام کو اور اس کے چلانے والوں کو طاغوت نہیں کہتے۔ عبارت میں مرجئہ اُن لوگوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو اِس نظام اور اِس کو چلانے والوں کیلئے طاغوت کا لفظ استعمال کرنے کو ’خوارج‘ کا مذہب بتا رہے ہیں: ہمارے جملے دوبارہ ملاحظہ فرمائیے:
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جب سے انگریز سے مستعار لئے گئے نظام اور قانون اپنے یہاں چلنے لگے ہیں کسی غیرت مند مسلمان نے اِس نظام کو باطل کہنے میں کبھی تردد نہیں کیا۔ البتہ آج کچھ ایسے مرجئہ آنے لگے ہیں جو اِس نظام اور اِس کو چلانے والوں کیلئے طاغوت کا لفظ استعمال کرنے کو ’خوارج‘ کا مذہب بتا رہے ہیں!
حضرات! کیا اِن دو باتوں میں زمین آسمان کا فرق نہیں؟ ایک ہے محض نظام کو باطل نہ کہنا، جس پر چلئے بات ہو سکتی ہے.. البتہ ایک ہے نظام کو باطل کہنے والوں کو ’خوارج‘ جاننا اور ان کا یہی لقب نشر کرنا۔ کیا اِن دو باتوں میں کوئی فرق نہیں؟
غیر اللہ کی شریعت چلانے کا پورا جو ایک نظام یعنی 'system' ہے کوئی شخص اُس نظام کو اور اُس کے سرغنوں کو طاغوت نہیں کہتا، ہم تو اُس شخص کی بابت بھی ابھی کچھ نہیں کہہ رہے۔ البتہ یہ شخص الٹا اُس شخص کو ہی ’خوارج‘ (وہ گمراہ فرقہ جن سے امت قتال کرتی رہی ہے، بلکہ کچھ نصوص میں تو امت کو اُن سے قتال کرنے کا حکم ہے) قرار دینے چل پڑا ہے جو اِس کیلئے باطل اور طاغوت کا لفظ بولے!!! اِس نظام اور اِس کے کارپردازوں کو طاغوت کہنے والوں کے ساتھ اِس کو محض اختلافِ رائے نہیں، یہ اُن کو صاف صاف ’خوارج‘ قرار دیتا ہے!!! اِس کو بھی ارجاءنہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
اِس سے اگلا پیرا ’مرجئہ‘ کی تعریف definition نہیں، بلکہ ’مرجئہ‘ کی ایک کارگزاری کا ذکر ہے، جبکہ ’مرجئہ‘ کا ذکر اِس سے اوپر کے پیروں میں ہو چکا:
اِن مرجئہ کو ہی یہ ’نکتہ‘ پیش کرنے کی سعادت ملی کہ: غیر اللہ کی شریعت چلانے والا شخص اگر ’زبان‘ سے اپنے اِس عمل کو ’حق‘ کہنے کی حماقت نہیں کرتا تو عمل سے وہ جتنا مرضی حدود اللہ کو پامال کرے اور ہزاروں مربع میل پر غیر اللہ کا قانون چلائے، کروڑوں انسانوں کو اور انکی زندگی کو دیوانی و فوجداری ہر ہر لحاظ سے اللہ کی شریعت کی بجائے غیر اللہ کی شریعت کا پابند کر کے رکھے، حتیٰ کہ لوگوں کو غیر اللہ کی شریعت کے بموجب جیلیں اور پھانسیاں کیوں نہ دے، بس وہ مسلمان ہے اور جنت کا امیدوار!!!
یہ آخری بند ہمارے اُس مذکورہ مضمون میں ظاہر ہے خاصا طویل ہو گیا ہے۔ اِس میں آگے چل کر ہم نے حکم بغیر ما ٔنزل اللہ پر بحث ضرور کی ہے اور اِس پر مشاہیر ائمۂ اہل سنت کے اقوال بھی نقل کئے ہیں، مگر نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اِس بحث میں ہم داخل کیونکر ہوئے۔ یہ عین وہی بات ہے جو ہم یہاں بار بار دہرا رہے ہیں اور وہ ہے اُس طبقے کی شناعت بیان کرنا جو حکم بغیر ما ٔنزل اللہ کو کفر سمجھنا تو دور کی بات ہے، حتیٰ کہ ایسا سمجھنے کو ’رائے اور نکتۂ نظر‘ کا اختلاف جاننا بھی دور کی بات ہے، وہ ایسی بات کرنے والے کو ہی نرا گمراہ اور خارجی سمجھتا ہے۔ حکم بغیر ما ٔنزل اللہ پر آپ ہماری وہ بحث ضرور دیکھئے، اور اُس سے اختلاف بھی کھل کر کیجئے، مگر ہماری اُس بحث کا مدخل، یعنی ہماری بحث اِس موضوع میں داخل کیونکر ہوئی، سب سے پہلے آپ کی توجہ کا مستحق ہے۔ یہ مدخل ہماری اُس گفتگو میں چار لائنوں کے اندر یوں بیان ہوا ہے:
اِن کا یہ کہنا کہ حکم بغیر ما انزل اللہ کو اِس معنیٰ میں ’شرک‘ اور ’کفر اکبر‘ جاننا ’تکفیری‘ ذہن کا شاخسانہ ہے، نہ کہ ”توحید“ کا ایک خالص اصیل مبحث۔۔ اِن کا یہ کہنا کس قدر بڑی لاعلمی اور یا پھر کس قدر بڑی غلط بیانی ہے، اِس کا اندازہ کرنے کے لئے مشاہیرِ علم کے چند اقوال ملاحظہ کر لئے جانا ہی کفایت کر سکتا ہے:
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 45 - 44)
ہاں اب اِس کے بعد ائمۂ سنت کے اقوال پر مشتمل کثیر صفحات دیے جاتے ہیں، جن سے قاری پر واضح ہو کہ حکم بغیر ما ٔنزل اللہ کو __ ایک متعین معنیٰ میں، جس کی وضاحت یہ بحث شروع ہونے سے پہلے ہی ایک حاشیہ(2) میں کر دی جاتی ہے __ کفر شمار کرنا ائمۂ سنت کا ایک معروف قول ہے نہ کہ ’تکفیری‘ ذہن کا شاخسانہ۔ اپنے اِس دعویٰ کے اثبات پر __ ص 45 تا 59 یعنی پورے 15 صفحات پر __ مفسر قرآن امام ابن کثیرؒ، معروف عالم اور فقیہ امام ابن القیمؒ، مجدد الدعوۃ امام محمد بن عبد الوہابؒ، سابق مفتی اعظم سعودی عرب محمد بن ابراہیمؒ، دورِ حاضر کے ایک عظیم مفسر علامہ محمد الامین الشنقیطیؒ، محدث دیارِ مصر علامہ احمد شاکرؒ، محدث دیارِ مصر حامد الفقیؒ اور سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن بازؒکے یہ اقوال نقل کر دینے کے بعد، ہماری بات پھر اُسی نکتہ کی طرف لوٹ آتی ہے جو اِس بحث کو وجود دینے کی اساس بنا۔ چنانچہ ائمۂ علم کے یہ اقوال نقل کر دینے کے معاً بعد آنے والے ہمارے یہ جملے ملاحظہ فرمائیے:
یہ صرف چند اقوال ہیں جو مشاہیر اہل علم سے ہم نے نقل کئے ہیں۔ ’تکفیری‘ ہونا اگر یہی ہے کہ آج کے باطل نظاموں کو کھلا کھلا کفر قرار دیا جائے، جیساکہ ’اسٹیٹس کو‘ کی حامی قوتیں یہ منوا دینے پر اِس وقت اپنا پورا زور صرف کئے بیٹھی ہیں، تو پھر ایسے ’تکفیری‘ اقوال کی جتنی طویل فہرست آپ چاہیں امت کے معتبر ترین اہل علم کے اقوال سے آپ کو مہیا کی جاسکتی ہے!
’تکفیری‘ جو بلاشبہ آج کا ایک گمراہ فرقہ ہے، اِس وجہ سے تکفیری نہیں کہلاتا کہ وہ غیر اللہ کی شریعت چلانے کو کفر گردانتا ہے۔ غیر اللہ کی شریعت چلانے کو کو کفر گرداننا تو اہلسنت کا ایک اصیل عقیدہ ہے، جیساکہ درج بالا اقوالِ اہل علم سے واضح ہو چکا۔ ’تکفیری‘ فرقہ جو ’تکفیری‘ کہلاتا ہے اور گمراہ شمار ہوتا ہے وہ ہے اِس کا آج کے مسلم معاشروں کی تکفیر کرنا، عامۃ المسلمین کے ساتھ اِس کا بغض رکھنا، عامۃ المسلمین کو کفار کا سا حکم دینا، حتیٰ کہ ان کو سلام کہنے اور ان کے ذبیحہ کی حلت تک کو کالعدم جاننا اور عامۃ المسلمین سے الگ تھلگ رہنے اور اِن سے مفارقت کئے رہنے کی ذہنیت کو پروان چڑھانا اور نماز و جمعہ ودیگر اجتماعی عبادات میں عام مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کئے رہنا۔ مسلم معاشروں کے اندر اپنے آپ کو ایک علیحدہ ملت جاننا۔ تکفیری فرقہ جس وجہ سے ’تکفیری‘ کہلاتا ہے وہ ہے اِس فرقہ کا علمائے وقت کے خلاف فتوے دینا، کھلے کھلے باطل کی بجائے دینی جماعتوں اور تحریکوں ہی کے خلاف ہی سرگرم رہنا، مسلم داعیوں کے پیچھے پڑے رہنا، کفار کے خلاف ہونے والے جہاد کے اندر آڑے آنا، غرض دین کی اقامت اور دین کے نشر وتعلیم میں سرگرم دینی طبقوں کو ہی دشمنِ دین کے رنگ میں پیش کرنا اور ان کو کافر اور مرتد اور گمراہ ثابت کرنے پر زور لگانا۔
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 60- 59)
۔۔اور یہاں پر ہماری عبارت کا یہ (ص 60 تا 59 کا) پورا مقطع ختم ہو جاتا ہے!
مقصد یہ کہ حکمرانوں کو باقاعدہ ایک موضوع بنا کر تو ہماری بات سرے سے نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ ضمناً بھی جو بات زیر بحث آئی وہ یہ نہ تھی کہ اِن حکمرانوں کا کیا حکم بیان کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔
جو بات ضمناً زیر بحث آئی وہ یہ کہ:
اُن حکمرانوں پر جو اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر غیر اللہ کی شریعت کو عباد اور بلاد پر باقاعدہ قانون اور دستور ٹھہرا دیں.. اُن حکمرانوں پر فردِ کفر عائد کرنا ائمۂ سنت کے ہاں ایک معروف چیز ہے، نہ کہ ’خوارج‘ کی ایجاد کردہ کوئی بدعت یا ’تکفیریوں‘ کی کوئی اختراع۔
اور جس اصل بات کیلئے یہ ضمنی بحث آئی، وہ اصل بات یہ کہ:
وہ موحدین جو غیر اللہ کی شریعت پر قائم نظاموں اور ان کے کارپردازوں کو طاغوت کہیں، اُن کو گمراہ اور ’خارجی‘ کہنا اور میڈیا کی تالیوں کے شور میں ان کے پیچھے ’مذہب‘ کی لٹھ لے کر پڑنا اور اُنکو لوگوں کے دین اور ایمان کیلئے خطرہ قرار دلوانا ’مرجئہ‘ کا وہ کردار ہے جسکو آج ایک نئے سرے سے اور پورے زور و شور کے ساتھ زندہ کیا جارہا ہے۔
ہمارے مضمون کے اِسی مقطع (ص 29 تا 60) کو پڑھیں تو یہ بھی واضح ہے کہ ’مرجئہ‘ کے کردار کو عالم اسلام میں از سر نو زندہ کرنے کے حوالے سے، البتہ غم ’حکمرانوں‘ کے سوا اور بھی ہیں، بلکہ ایک سیاہ اندھیری رات ہے جو چھایا چاہتی ہے۔ یہ بات آپ مضمون کے اِسی ایک مقطع کو دیکھ لیں تو، پورا مضمون دیکھ لیں تو، اور ساتھ کے ماخوذ مضامین ملاحظہ فر ما لیں تو، آخری حد تک ظاہر و باہر ہے۔
ہم یہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہماری اصل ترجیح یہاں کے باطل کے خلاف ہی امت کو صف آرا کرانا ہے۔ پس ہمارا مقابلہ یا ہمارا معرکہ اُن لہجوں کے خلاف رہے گا جنہیں باطل یہاں پروان چڑھا رہا ہے۔ ہماری نظر اُس ٹون پر ہے جسے جاہلیت یہاں اونچا کرنے جا رہی ہے۔ اِس لہجے کے اندر چھپی ہوئی خباثت ہی کو اپنے لوگوں کے سامنے لانا ہمارے خیال میں یہاں مطلوب ایک نہایت اہم کام ہے۔ اگر آپ جاہلی میڈیا کی ٹون کو سمجھتے ہیں تو کیا شک ہے کہ ’بنیاد پرستوں‘ اور ’انتہا پسندوں‘ کے چند ٹولوں کو سامنے لا کر وہ یہاں کے ایک بڑے طبقے کو گردن زدنی بنا دینا چاہتا ہے تاکہ مارتے مارتے سب کی باری آئے تو وہ ایک ہی دلیل جو عوام کو بہت اچھی طرح ’سمجھ‘ آ گئی تھی آخر تک کام دیتی جائے! انہی کے ساتھ اب وہ کچھ نئے نئے لیبل بھی شامل کرنے جا رہا ہے، جن میں سے ایک ’تکفیری‘ بھی ہے۔ جاہلی میڈیا اپنی سنسنی خیزی کیلئے ’مرجئہ‘ کو تو کبھی موضوع نہیں بناتا بلکہ شاید ’ہوسٹ‘ ہی کرتا ہوگا۔ کیا آپ نے غور فرمایا وہ ’تکفیریوں‘ کو ہی یہاں موضوع کیوں بناتا ہے؟ تو پھر کیا یہ سوال اٹھائے بغیر ہی چھوڑ دیا جائے کہ ’تکفیریوں‘ کا تعین یہاں کس سے کروایا جا رہا ہے؟
اداریہ میں اس سے بعد کے اجزاء
حکم بغیر ما اَنزل اللہ اگر ’کفر‘ ہی نہیں تو یہ نظام بھی پھر ’طاغوتی‘ کیسے؟؟
ھ
ہر کوئی اصولِ سنت و سلف ہی کی بات کرتا ہے!
و
اداریہ کی ابتدا میں مذکور مراسلہ کے حوالہ سے۔۔۔۔
ز
اداریہ میں اس سے پہلے کے اجزاء
کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم
استعمار۔۔ ’لباسِ مجاز‘ میں!
الف
بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!
ب
اصولِ سنت کے متخصصین اِس دور میں بہت زیادہ نہیں
ج
(1) ”پانی کی مقدار دو قُلہ تک پہنچ گئی ہو تو اُس میں کسی پلید چیز کا گر جانا اُس کے حکم کو نہیں بدلتا“
(2) جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ ضرور ایک معنیٰ میں حکم بغیر ما ٔنزل اللہ کو ’کفرِ اصغر‘ بھی ائمۂ سنت کے ہاں کہا گیا ہے اور وہ اُس وقت جب قانون کا مرجع کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے سوا کچھ نہ ہو اور قاضی یا حاکم کا وہاں خلافِ شریعت فیصلہ کرنا ڈنڈی میں آتا ہو نہ کہ اللہ کے ما سوا کسی ہستی کے قانون کی تحکیم۔ البتہ جہاں سند اور مرجع ہی اپنی حتمی ترین صورت میں غیر اللہ کی شریعت ہو وہ ائمۂ سنت کی تقریرات کی رو سے کفر اکبر ہی ہے۔ یہ حاشیہ ہمارے اُس مذکورہ مضمون کے صفحہ 44 پر دے دیا گیا تھا تاکہ ائمۂ سنت کی تصریحات اپنے درست سیاق میں سمجھی جا سکیں۔